ڈیویکا ایس


’’ضلع شوپیان،جموں و کشمیر میں ہر تیسرے بچے میں دماغی بیماری تشخیص کی جا سکتی ہے‘‘۔ ۲۰۱۹ء کے اوائل میں اس امر کا اظہار اس جائزے میں کیا گیا، جو Community Mental Health Journal میں شائع ہوا۔ تنظیم ’سرحدوں سے ماورا ڈاکٹروں‘ کے مطابق وادیِ کشمیر میں تقریباً  ۱۸ لاکھ افراد میں،جو کُل آبادی کا ۴۵ فی صد ہیں،۲۰۱۵ء میں ذہنی بیماری کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ یوں ۵؍اگست کے واقعے سے قبل بھی، وادی میں غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کے گہرے اثرات اور نشانات کشمیر کے بچوں پر نمایاں تھے۔
آج بھی نہ صرف دہشت کا یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، جیسا کہ دُنیابھر کے ذرائع ابلاغ گواہی دے رہے ہیں۔ میڈیا نے بے شماربچوں کی غیرقانونی گرفتاریوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دارحکام کی جانب سے، ان میں سے بہت سے بچّے آدھی رات کو اٹھا لیے گئے، مگر ان کی گرفتاریوں کی کوئی تفصیل بھی مرتب نہیں کی گئی۔ جس کے باعث ان کی مختلف جیلوں یا حراستی مراکز میں موجودگی یا تلاش کی راہ میںمشکل پیش آ رہی ہے۔ ماہرمعاشیات جین ڈریزنے اپنی ایک رپورٹ میں اگست ۲۰۱۹ء میں لڑکوں کی غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کی تفصیل مہیا کی ہے۔’انڈین فیڈریشن آف انڈین ویمن‘ (IFIW) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں ان مائوں کے تازہ ترین احوال بیان کیے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کی تلاش میں امید بھرے انداز سے سارا سارا دن اپنے گھر کے دروازوں پر کھڑی رہتی ہیں کہ ’’میرا گم شدہ بچہ واپس آ جائے گا‘‘، جب کہ ان مائوں کو یہ قطعاً علم نہیں کہ ان کے بچے کہاںہیں؟ یہ گم شدگیاں،ڈی کے باسو مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں، جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا: ’’تلاشی کے دوران گرفتار شدگان کی گرفتاریوںکی وجوہ سے ان کے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا جائے‘‘۔ 

  •  سیاسی کھیل کے مہرے:کشمیری بچے، اس منظرنامے میں مہرے بنائے جا چکے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ’’ ان بچوں کو سزا دی جائے جو حکومت کے اختیار کو للکارتے ہیں‘‘۔ پبلک کمیشن آف ہیومن رائٹس (PCHR) کی ۲۰۰۶ءکی رپورٹ کے مطابق:’’۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان، ۴۶سکولوں پر [بھارتی]مسلح افواج نے قبضہ کر لیا، پھر ۴۰۰ سے زائد سکول۱۹۹۰ء اور۲۰۰۵ء کے درمیان مکمل طور پرتباہ کر دیے گئے‘‘۔ غیرقانونی گرفتاریوں کے علاوہ تعلیمی تنصیبات کی اس قسم کی تباہی بچوں پرزندگی بھر کے لیے گہرے نفسیاتی اور ذہنی اثرات مرتب کرتی ہے، جب کہ بچے خوف اور تلخی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔

۲۰۱۹ء کے آغاز میں ’’اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن براے انسانی حقوق‘‘ کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا:’’ کشمیر میں بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)،جس کے تحت بغیر کسی الزام کے، کئی دنوں تک،پولیس حوالات میں رکھا گیا ہے‘‘۔ یاد رہے اس قانون کے مطابق ’’بلامقدمہ کسی کو دو برس تک قید رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جواب دہی میں اہم رکاوٹ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (AFSPA) رہا ہے‘‘۔
۲۰۱۸ء میں’جموں کشمیر کوالیشن سول سوسائٹی‘ (JKCCS) نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت معلوم کیا کہ: ۱۹۹۰ء اور۲۰۱۳ء کے درمیان سیکڑوں بچوں کو’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ (PSA) کے تحت حراست میں لیاگیا۔ان میں سے بہت سے بچوں کے مقدمات کے بارے میں پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس کوئی ایسا طریقہ دستیاب نہیں ہے کہ گرفتارشدگان کی عمر کی تصدیق کی جائے۔ پھر ان بچوں کوبالغ جرائم پیشہ افرادکے ساتھ حراست میں رکھا گیا اور بعدازاں محض عدالتی مداخلت کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا۔ان میں سے تقریباً ۸۰ فی صد گرفتاریوں کو عدالتوں کی طرف سے غیرقانونی قرار دیا گیا‘‘۔
بچوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک واضح طور پر ،متعددقوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی ہے۔ یہ  International Convention on Civil & Political Rights کی شق۱۴(۴)کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق:’’بچوں کے خلاف تمام کارروائیوں کے دوران ان کی عمر کے پیش نظر ان کی بحالی کو فروغ دینے کو مدنظر رکھا جائے گا‘‘۔ The UN Convention on the Rights of the Child،جس پر بھارت نے بھی دستخط کیے ہیں،کے مطابق: ’’کسی بچے کی گرفتاری، قانون کے مطابق ہونی چاہیے اور گرفتاری کو آخری چارۂ کار کے طور پر اور مختصر ترین مدت کے لیے مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے‘‘۔ National Commission for Protection of Child کے رہنما نکات بتاتے ہیں کہ ’’خانہ جنگی کے دوران سلامتی کے خطرات کی حیثیت سے نوعمر لڑکوں کی درجہ بندی سے احتراز کرنا چاہیے اور حکام کو چاہیے کہ وہ تفتیش کریں اور جبری گرفتاریوں،بدسلوکی یا بچوں کی اذیت رسانی میں ملوث عملے کے خلاف کارروائی کریں‘‘۔

  •   بدترین سلوک / کڑی سزا : ۲۰۰۳ءمیں پربھاکرن بنام ریاست تامل ناڈو مقدمے میں مدراس ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ ’’ Juvenile Justice Actایک جامع قانون ہے، جو حفاظتی حراست کے قوانین کی نفی کرتا ہے‘‘۔ اس سے پہلے۱۹۸۲ء میں سپریم کورٹ نے جایامالا مقدمے میں ایک طالب علم کی حفاظتی حراست کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’نوجوانوں، اگر ان کا کوئی فعل گمراہ کن بھی ہے،تو بھی ان کے ساتھ بدترین سلوک نہیں کرنا چاہیے اور انھیں کڑی سزا نہیں دینی چاہیے‘‘۔

تاہم،ان میںسے کسی بھی ہدایت کو [بھارتی حکومت] پرکاہ کی اہمیت نہیں دے رہی اور حکومت من مانے قانون بناکر انھیں مسلط کررہی ہے۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بارے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں انھیں سیکورٹی حکام اٹھا کر نہ لے جائیں اور گولیوں کے تبادلے میں کہیں وہ مارے  نہ جائیں۔جب ایک شورش زدہ علاقے میںاس قسم کی گم شدگیاں ہوتی ہیں،تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق کس سے شکایت کرے؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالتیں ہی صرف وہ ادارے رہ جاتے ہیں، جن سے کچھ انصاف مل سکتا ہے۔ تاہم، ۵؍اگست،جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی، کے بعد سے [بھارتی]ریاستی اقدامات نے کشمیری شہریوںسے ان کے اس دستیاب محدود متبادل حق کو بھی چھین لیا ہے۔سیفٹی ایکٹ کے تحت جموںوکشمیر ہائی کورٹ اینڈ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے صدر اور سینیئر وکلاء کی گرفتاری کے بعدجن میں سے اکثر کاتعلق کشمیر سے ہے، کے خلاف ۱۰۵۰وکلا نے ہڑتال کر دی ہے۔اب تک حبس بے جا کی ۲۰۰سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر ڈاک خانے بند ہیں، اس لیے وکلا، مدعاعلیہان کو نوٹس نہیں بھجوا سکے۔
 ۵؍اگست کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی سرینگربنچ کی آرڈرلسٹ میں تمام۳۱  مقدمات کا اندراج تھا جبکہ ہائی کورٹ نے یہ مقدمات’نقل وحمل پر پابندیوں کے باعث‘ ملتوی کر دیے کیونکہ وکلاء پیش نہیں ہوسکتے تھے۔ہفتوں بعد ۲۴ ستمبر کو۷۸ مندرج مقدمات میں سے، دونوں فریقین کی طرف سے محض۱۱ وکلاء حاضر تھے،جب کہ ۹ مقدمات میں کوئی بھی نہیںپیش ہوا۔ صرف ۹مقدمات میں درخواست گزاروں کے وکلاء، اور ۴۷ مقدمات میں سرکاری وکلاء حاضر تھے۔
اس قسم کے ہنگامی حالات کے پیش نظر دستور، شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے انھیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’’ان مقدمات میں براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کریں،   جن میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو‘‘۔آئینی اور عدالتی رسائی بذات خود ایک بنیادی حق ہے۔کشمیریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کے اپنے فرض سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ نے خود پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ’’بچوں کے خلاف ریاستی تشدد کے الزامات کی تفتیش کرے‘‘۔
’انٹر امیریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ (IACHR) نے ۲۰۰۵ء کے ایک مقدمے میں جس کا تعلق ’کولمبیا میپریپن قتل عام‘ سے تھا،یہ قرار دیا:’’ایک شخص دہشت کا دہشت سے مقابلہ  نہیں کر سکتا بلکہ اسے قانون کی حدود میں رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہیے۔وہ لوگ جو متشدد قوت کا استعمال کرتے ہیں،خود پر ہی ظلم کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر تشدد کے سلسلے کو فروغ دیتے ہیں  جس کے باعث معصوم،بچے شکار ہو جاتے ہیں‘‘۔
یہ ا مرمحسوس کرتے ہوئے کہ زندہ شہریوں میں دہشت اور موت کا بیج بونے کے باعث ان کی جبری گم شدگیاں واقع ہوئیں۔ مذکورہ امریکی عدالت نے کہا: ’’ریاست اور عوام کی طرف سے عدم توجہ، رواداری اور تعاون کی وجہ سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ‘‘۔

  • مقید اور ہراساں بچّے: کشمیری بچے،قیدوبند میں اور بندوقوں کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں۔چونکہ ان میں سے بہت سوں کے والدین غائب کر دیے جاتے ہیں،اس لیے انھیں مجبوری کے عالم اور قابلِ رحم حالت میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کی ذمہ داری بھی نبھانا پڑتی ہے۔خاندانی احوال کی تباہی،محفوظ مقامات کی عدم دستیابی، تعلیم کی بربادی اور صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث سماجی ڈھانچے پر دبائو اور تنائو، ان بچوں کو اس قدر شدید ذہنی صدموں اور دھچکوں کا شکار کر دیتا ہے کہ ان میںسے اکثر ’’بچے بچپن ہی میں اپنا بچپنا کھو دیتے ہیں‘‘۔ گوہر گیلانی کتابKashmir Rage and Reason میں لکھتے ہیں: ’’کشمیرمیں بچے’حراستی ہلاکتیں‘، ’گرفتارکرو اورمارڈالو‘؛’اذیت رسانی‘،’تفتیش‘،’حراست‘ اور’گم شدگی‘، ’پیلٹ سے اندھا کردو‘ جیسی اصطلاحات سیکھ رہے ہیں اورایک ایسے ذخیرۂ الفاظ کو اپنا رہے ہیں، حالانکہ ایک معمول پر رواں زندگی میں انھیں ایسی اصطلاحوں کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔

کس قسم کا لفظ یہ بچے اپنی زندگی میں تلاش کریں گے کہ اگر انھیں مسلسل ایسے خوف میں رہنا پڑے کہ انھیں ایک نامعلوم جرم کی پاداش میں اٹھا لیا جائے گا اور انھیں ایک نامعلوم مقام تک لے جایا جائے گا؟ یقینی طور پر زمین پر یہ وہ جنت نہیں جس کا بہت سے کشمیری تصور کرتے ہیں؟
’ترقی کے نام‘ پرجمہوری حقوق پرپابندیاں،بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا بہانہ نہیں بن سکتیں۔ہمیںضرورت ہے کہ ہم کشمیر کے بچوں کے متعلق آواز بلند کریں یا پھر ریاستی مشینری کی طرح اس گھنائونے جرم کے شریک بن جائیں۔حفاظتی حراستوں کی روک تھام ہونی چاہیے، خدا نہ کرے کہ کشمیر کے یہ معصوم بچے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں۔(روزنامہ ،The Hindu، ۲۷ستمبر۲۰۱۹ء)