عبدالرقیب‎‎


قرآن مجید میں چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی آیت، سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲ہے، جسے ’آیتِ دَین‘ بھی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کے معاشی، اقتصادی اور مالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’باہم لین دین کا معاملہ ایک متعین وقت کے لیے ہو تو لکھ لیا کرو‘‘۔ آج سے چودہ سو سال پہلے، جب کہ معاشرے میں گنتی کے چند ہی افراد لکھنے پڑھنے پر قادر ہوتے تھے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ’’لکھنے سے انکار نہ کریں‘‘۔ علم اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اس نعمت کا استعمال دوسروں کے لیے کرنا چاہیے۔

دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دستاویز کا املا کون کرے؟ آج کے دور کی طرح قرض دینے والا نہیں بلکہ مقروض جو فریقین میں کم زور ہوتا ہے اور جس پر قرض دینے کا حق ہے۔ وہ اللہ سے ڈر کر معاملہ کے عین مطابق املا کروائے۔اگر مقروض بیمار ہے، ناسمجھ اور معذور و مجبور ہے تو دوسرے کاتب کی خدمات حاصل کرکے اسے املا کرایا جائے، جو عدل و انصاف سے لکھے۔ کاتب کو لکھنے سے پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اس دستاویز پر دو لوگ گواہی کے لیے بلائے جائیں۔ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لی جائے۔

یاد رہے کہ چھوٹے بڑے جزئیات بھی دستاویز کی دفعات میں شامل ہوں۔ تحریر صاف اور شک سے بالا تر ہو (اَ لَّا تَرْتَا بُوا)۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ کاتب کو اور شہادت دینے والوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ عرب کے اس معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، انھیں قرض کے لین دین کے معاملات کے ایک اہم مرحلے میں گواہی دینے کا موقع دے کر ان کے مقام و مرتبے کو اونچا اٹھایا گیا ہے۔

گویا قرض لینے والے معاشرے کے کم زور فرد کو املا کروانے کا حق دے کر اور خواتین کو قرض کی دستاویز میں گواہ کی حیثیت سے شامل ہونے کا حق دے کر، قرآن نے معاشرے کے کچلے اور دبے ہوئے حصے کو باعزّت مقام عطا کیا ہے۔

’آیتِ دین‘ کے علاوہ قرض کے بارے میں چند ارشادات رسولؐ بھی ملاحظہ فرمائیں:

  • جوشخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اس طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے، جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے۔ (بخاری)
  • قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)
  • اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، مگر قرض معاف نہیں کرتا۔(مسلم)

مال کے بارے میں صحیح اور متوازن تصور

قرآن مجید نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے (النساء۴:۵)۔ مال کو خیر (العادیات) اور اللہ کا فضل (الجمعہ۶۲:۱۰) قرار دیا ہے۔ مال و دولت انسانی معاشرے کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے معاشرے کی ترقی کے لیے مال و دولت کے متعلق ایک صحیح اور متوازن فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔(الجمعۃ۶۲:۱۰)

(حج کے دوران) تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (البقرۃ۲:۱۹۸)

پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں، تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ (فاطر۳۵: ۱۳)

تجارت، زراعت، صناعت (ہنرمندی) اور ہر جائز وسیلے سے مال کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے، بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے ہاتھ پاؤں مار کر محنت و مشقت کرکے روزی روٹی حاصل کرنے اور مال کمانے کی ترغیب دی ہے:

اچھا مال، اچھے انسان کے لیے اچھا ہے۔(صحیح البخاری، الادب المفرد)

اس کے برخلاف دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے عزلت نشین بننے کے بجائے دنیا میں رہ کر اور دنیا کے لوگوں سے مل کر ان کے ساتھ لین دین کرکے مال کمانے، پھر حاصل شدہ مال کو  اللہ کی راہ میں اور محتاج اور ضرورت مند انسانوں میں خرچ کرکے دنیا میں عزت و شرف اور آخرت میں بھی مقام بلند حاصل کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے:’’ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ہمارے پاس ایک پھر تیلا نوجوان گزرا، جو غنیمت میں حصے کے طور پر ملے مویشی کو لیے جارہا تھا، تو ہم بول پڑے کہ ’اگر اس کی جوانی و سرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا‘۔ ہماری یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐنے فرمایا: ’تم کیا کہہ رہے تھے؟‘ ہم نے بتایا کہ ’یہ اور یہ‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’اگر وہ والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لیے بھاگ دوڑ کرے، تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہوگا، اور اگر وہ اہلِ دنیا کے کے لیے تگ و دو کر رہا ہو، تاکہ ان کی کفالت کر سکے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا، اور اگر اپنی ذات کے لیے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوگا‘‘۔(بیہقی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں وارد ہے: وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَأَغْنٰی ۝  (الضحٰی ۹۳:۸) ’’اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کردیا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے ابو بکر کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم خاص حضرت انسؓ کے لیے یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ ان کو مال فراواں دے‘‘۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مال کمانے میں جائز وناجائزکی تمیز نہیں کی جا رہی ہے۔ جھوٹ، دھوکا، رشوت، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی کا عام چلن ہے اور کسبِ معاش میں حرام و حلال کے حدود و قیود کا پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے رسول کے گھر والو! عمدہ اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو‘‘۔ (المؤمنون۲۳: ۵۱)

علما نے تشریح کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل صالح سے پہلے رزق حلال اور طیب چیزوں کے کھانے کا ذکر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اعمالِ صالحہ کی قبولیت کا دار و مدار رزقِ حلال پر ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ حلال رزق کے حصول کو دین کی اوّلین ذمہ داری سمجھے۔

مال کے حصول اور استعمال کے بارے میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’یہ مال ہرا بھرا اور دل آویز ہے۔ جو شخص اسے جائز طریقے سے حاصل کرے گا اس میں برکت ہوگی اور جو شخص اسے ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی، اور وہ اس شخص کے مانند ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور سیر نہیں ہوتا‘‘۔

انسدادِ سود اور معاشی استحصال  کا خاتمہ

اللہ فرماتا ہے: اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سودی مطالبات باقی رہ گئے ہیں ان کو اگر تم درحقیقت مومن ہو چھوڑدو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اگر تم توبہ کرو اور سودی معاملات سے باز آجائو تو تمھارے راس المال تمھارے ہیں وہ تم کو ملیں گے۔ نہ تم زیادتی کرو نہ تمھارے ساتھ زیادتی کی جائے۔ (البقرۃ ۲:۲۷۸-۲۷۹)

سود کی مذمت اور اس سے اجتناب کی تلقین میں اسلام اس حد تک سخت ہے کہ اس معاملے میں جو کوئی کسی طرح شریک ہو، چاہے اس کی دستاویز لکھنے والا ہو یا اس پر گواہی دینے والا، ان سب پر وہ لعنت بھیجتا ہے۔ حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے، اس پر گواہی دینے والوں، سب پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔

اسلام محنت کی عظمت اور تقدس کو اہمیت دیتا ہے اور اسے ملکیت اور نفع کی اساس قرار دیتا ہے۔ وہ اس بات کو روا نہیں رکھتاکہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والا فرد مال کا حق دار ٹھیرے یا دولت سے دولت پیدا کرے۔ دولت صرف محنت سے پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہ مال حرام قرار پاتا ہے۔

حرمت سود میں ایک اور حکمت مضمر ہے جو آج ہم پر دور جدید میں منکشف ہو رہی ہے اور غالباً اس سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی، وہ یہ کہ سود ایک ایسا عامل ہے جو سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ کرتا جاتا ہے۔ یہ اضافہ نہ کسی سعی وجہد کا نتیجہ ہوتا ہے اور نہ کسی طرح کی محنت کا ثمرہ۔سود کی یہ صفت ایسی ہے جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ افزائش دولت کے سلسلہ میں تمام تر اسی ایک ذریعے پر انحصار کر بیٹھیں۔ یہ سب کچھ ان محنت کشوں کے بل پر جو دولت کے محتاج ہوتے ہیں اور تنگی کے عالم میں مجبور ہو کر سودی قرض لیتے ہیں۔ اس طرح دوخطرناک اجتماعی امراض سر اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ اور انسانیت کی بلند وپست دو طبقات کے مابین روز افزوں تفریق جو کسی بھی حد پر جا کر رکنے کا نام نہیں لیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کھانا اسلامی تصور زندگی کے اس بنیادی اصول سے ٹکراتا ہے کہ مال اللہ کا ہے جس میں اس نے انسانوں کو نائب بنایا ہے۔ ان شرطوں کے تحت کہ نائب بنانے والے اللہ کا منشا پورا کرے نہ کہ انسان جو چاہے کرے؟

بین الاقوامی مالی ادارے مثلًا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک آسان شرطوں پر امداد کے نام پر سودی قرضے فراہم کر کے ترقی پزیر اور کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور ان کے عالمی تعلقات کو اپنے مفاد میں کنٹرول کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی بیشتر آبادی قرضوں کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لاطینی امریکا میں پیدا ہونے والا ہر متنفس۱۶۰۰ ڈالر کے قرضے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ افریقہ جنوبی صحارا کے ممالک میں پیدا ہونے والے ہربچے پر ۳۳۶ ڈالر کا قرضہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ سود کی شکل میں ان کے آبا واجداد ۵کھرب اور ۶۷ ارب ڈالر ادا کر چکے ہوتے ہیں۔اس طرح سود معاشی استحصال کا بڑا ذریعہ ہے۔ معاشی استحصال سے بچنے کے لیے انسدادِ سود ناگزیر ہے۔

نظم زکوٰۃ اور تقاضے

سورۂ توبہ کی آیت ۱۰۳ میں فرمایا گیا ہے:’’اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو‘‘۔ پھر آیت ۶۰ میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ زکوٰۃ کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت فرمائی کہ حاصل شدہ زکوٰۃ کے خرچ کرنے کی مدات کیا ہیں؟:’’صدقات (یعنی زکوٰۃ) اللہ کی طرف سے فرض ہے فقراء کے لیے، مساکین کے لیے، گردن چھڑانے کے لیے، قرض داروں کے لیے، راہِ خدا اور مسافروں کے لیے۔ اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (التوبہ ۹:۶۰)

در اصل زکوٰۃ صرف انفرادی طور پر صدقات اور خیرات کو تقسیم کرنے کا نام نہیں ہے اور نہ اس کی تقسیم کو امیروں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور فلاحی ادارہ ہے، جس کی نگرانی حکومتِ وقت کرے گی اور اس کا انتظام و انصرام عوامی ادارہ حکومت یا کسی اجتماعی نظم کے تحت ہوگا۔

مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ حاصل کرو اور انھیں پاک کرو اور ان کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو بڑھاؤ‘‘۔ اس میں خذ (حاصل کرو) کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے بہ حیثیت سربراہ مملکت اور اس پر عمل خلیفہ نے بہ حیثیت خلیفۂ رسول کیا ہے۔ علما و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ’خذ‘ کا اطلاق اوّلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا اور آپؐ کے بعد ہر شخص جو ملت کا ذمہ دار ہے یا وہ معتبر ادارہ جس پر ملت کا بھر پور اعتماد ہو۔

زکوٰۃ، اسلام کا تیسرا اہم ستون ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے مالوں، حکومت اور معاشرے کی ذمہ داریوں میں فقراء و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی۔ آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو الحمد للہ، کلمۂ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لیے محنت ہو رہی ہے، نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے، نہ صرف فرائض بلکہ نوافل میں چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح اور تہجد پر زور دیا جا رہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے، حتیٰ کہ شوال کے چھ روزے اور عاشورہ کا روزہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہے اور عمرہ کا بھی خوب اہتمام ہو رہا ہے، لیکن ایتائے زکوٰۃ جو پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے دراصل اُمت کے فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کی طرف توجہ کی کمی ہے۔ حال یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور ان آٹھ مدات میں جہاں اس رقم کو خرچ ہونا ہے، اس سے امت کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔

ہمیں اس کی بھی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اجتماعی نظمِ زکوٰۃ کس طرح کامیابی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے؟ ملایشیا میں غریبوں کو زکوٰۃ سے فائدہ اُٹھانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنھیں ’پیدا واری غریب‘ (Productive Poor) اور ’غیر پیداواری غریب‘ ( Non Productive Poor) کا نام دیا گیا ہے۔ ’غیر پیداواری غریب‘ سے مراد عمر رسیدہ، بوڑھے، اپاہج، دائم المریض وغیرہ ہوتے ہیں، جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے۔ ان کی مستقل اور مسلسل مدد کی جاتی ہے۔ ان پر زکوٰۃ کا ۲۰،۲۵ فی صد صرف ہوتا ہے، البتہ باقی۷۵، ۸۰ فی صد ’پیداواری غریبوں‘ پر خرچ کیا جاتا ہے۔

اس دوسرے گروپ میں ایسے مرد و خواتین ہوتے ہیں، جو سرمایے کی کمی کی وجہ سے اپنا کاروبار نہیں کرسکتے۔ بعض ایسے ہیں جن کو اگر ہنر سکھایا جائے اور اس کے لیے مدد کی جائے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کچھ ایسے طبقے بھی ہوتے ہیں جنھیں مشین یا آلہ و اوزار فراہم کیے جائیں تو وہ خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ ان کی مدد مسلسل اور مستقل نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کی درخواستوں اور ضرورتوں کے پیش نظر بڑی رقم یکمشت یا قسط وار زکوٰۃ کی رقم سے دی جاتی ہے ۔ اس طرح سرمایہ کاری کے فروغ کے ذریعے انھیں بہت جلد خودکفیل بنا کر ’مستحق‘ (زکوٰۃ لینے والے) کو ’مزکی‘ (زکوٰۃ دینے والا) بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔

جنوبی افریقا کے اجتماعی نظم زکوٰۃ کی تنظیم SANZAF کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با صلاحیت خواتین فیروزہ محمد اور یاسمین فرانیک چلاتی ہیں اور اس ادارے میں ۵۲ فی صد کارکنان خواتین ہیں اور اس کی خدمات اور نظامِ کار کو دنیا کے مشہور کیمبرج انسٹی ٹیوٹ نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے، جو ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔

زکوٰۃ کے علاوہ زراعت کے ذریعے سے جو آمدنی ہو سکتی ہے، اس کے بارے میں عشر اور اس کو جمع کرکے اسے بھی صحیح طریقے سے مختلف مدات پر خرچ کرنے کی طرف مسلم عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سورۂ قریش اور تجارت

عرب قوم ایک تجارت پیشہ قوم کی حیثیت سے مشہور تھی، سورئہ قریش میں اس کی تفصیلات آتی ہیں۔ قریش مکہ سال میں دو تجارتی سفر کرتے تھے، یعنی موسم سرما میں یمن کا سفر اور گرما میں شام کا تجارتی سفر۔ قرآن نے سورۂ قریش میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انھی اسفار کی وجہ سے بنوہاشم اور خاندان قریش کو معاشی خوش حالی نصیب ہوئی اور ان کی دینی سیادت کو بھی تقویت ملی۔

’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام‘‘۔(البقرۃ۲:۲۷۵)

تجارت کے بارے میں سورۂ قریش میں اس دور کی تجارتی سفر کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ مدینہ آنے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے معاشی استحصال اور احتکار کا مقابلہ کرنے کے لیے ’سوق المدینۃ‘ قائم کیا، جو سیرتِ رسولؐ کا ایک تاب ناک باب ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: الجالب الٰی سوقنا کا لمجاھد فی سبیل اللہ (مصنف ابن ابی شیبۃ، بلاذری) ’’جو ہمارے اس بازار میں مال لے کر آئے گا وہ اسی طرح کے اجر کا مستحق ہو گا جس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ مدینہ مارکیٹ کا جائزہ لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے تھے۔ ایک بار آپؐ ایک تاجر کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپؐنے غلہ کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اندر کا حصہ گیلا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: ’یہ کیا ہے؟‘ اس نے کہا: حضور، بارش کی وجہ سے بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’پھر اسے اُوپر کیوں نہ رکھا؟ ‘اور ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا (مسلم)’’جو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

مدینہ مارکیٹ میں جہاں مردوں کا نام آتا ہے، وہاں خواتین کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً اسماء بن محربہؓ، خولہ بنت صویبؓ، ملیکہ ام سائب اور قبلہ النماریہ۔(ابن ماجہ، کتاب التجارۃ)

آج مدینہ ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے اور تجارت و صنعت و حرفت نئے طرز اور جدید صورتوں میں نمایاں طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان سرمایہ کار سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی طرف متوجہ ہوں۔ آج دنیا کی ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر ہی نہیں بلکہ انسان کی فکرکاروباری و فنی ندرت (Business and Technical skils)، ہنرمندی (Skill Devolopment) اور کاروباری ندرت (Entrepreneurship)  پر منحصر ہے۔ اس ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ مارکیٹ کے قیام سے معاشرے کی خوشحالی کے لیے تجارت کے لیے اہم اقدام اُس دور میں کیے گئے اور آج ہم کیا کر سکتے ہیں، اس کی طرف ملتِ اسلامیہ کو متوجہ کرایا جانا چاہیے۔

آپؐ کے فرمان: تِسْعَۃُ اَعْشَارِ الرِّزْقِ فِی التِّجَارَۃ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ الالبانی، ص۲۴۳۴) ’’رزق کے دس حصوں میں سے نوتجارت میں ہیں‘‘ اور مَنْ صَنَعَ مِنْکُمْ شَیْئًا فَلْیُحْسِنُہُ  (تم جو چیز بھی تیار کرو، وہ بہترین ہو اور دوسری اشیاء سے ممتاز ہو) سے امت مسلمہ نے دنیا بھر میں تجارت کو فروغ دیا۔ عشرۂ مبشرہ میں سے چار اصحاب: حضرت عثمانؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ جہاں ایک طرف میدانِ جنگ کے مجاہد تھے تو دوسری طرف کاروباری دنیا کے نامور ستارے تھے۔ وہ آج کے ارب پتیوں سے زیادہ صاحبِ ثروت تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ  صحابہ کرامؓ تجارت میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے، بلکہ انھوں نے تجارت کو نئے انداز میں اور بڑے پیمانے پر منظم کرکے بین الاقوامی سطح پر فروغ دیا۔ ان کی کارپوریٹ تجارت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمان تاجر دنیا بھر میں پھیل گئے۔ وہاں انھوں نے اسلام کی تبلیغ بھی کی اور رزق حلال کے طریقے دنیا کو سکھائے اور معاشی ترقی میں بھی بھر پور حصہ لیا۔

اسلامی بنکاری اور بلاسود سرمایہ کاری

آج کی دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ اسلامک بنکنگ اور بلا سودی سرمایہ کاری پر غور کیا جارہا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں امریکا میں حاشیہ پر زندگی گزارنے والے غریب عوام کے مکانوں کے لیے قرض اور پھر ان کی رہن سہن کی ادائیگی میں ناکامی کے پیچیدہ عمل نے بڑے بڑے مالی اداروں اور جدید بنکوں کو دیوالیہ کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ اس بحران نے ایک طرف جدید معاشی و مالیاتی نظام کے منفی اثرات اور مضر نتائج کو دنیا کے سامنے اُبھارکر پیش کیا اور دوسری طرف اس نے اسلام کے نظام معیشت  و مالیات کی طرف پوری دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا ہے۔

جدید سرمایہ کاری جو سود اور سٹہ بازی پر مشتمل آزادانہ معیشت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کے پیش نظر پیداوار کی ان اقسام کو بڑھانا ہوتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے۔  اس کے مقابلے میں اسلامی معیشت و بنکنگ کا بلا سودی نظام نفع کو بھی پیش نظر رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ حقیقی پیداوار (Real Economy Growth) کو اہمیت دیتا ہے اور انسانی اور اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں مالیاتی کساد بازاری (Financial Meltdown)  اور بحرانی کیفیت سے بڑی حد تک نہ صرف غیر متاثر رہا، بلکہ اس کی شرحِ نمو پندرہ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ترقی یافتہ، صنعتی اور سیکولر ممالک نے بھی اپنے سرمایہ اور بنکاری قوانین میں تبدیلی یا ترمیم کرکے اس کا عملی تجربہ شروع کر دیا ہے اور الحمد للہ بلاسودی اسلامی معیشت و مالیات پوری دنیا میں ایک متبادل کی حیثیت سے اُبھر رہا ہے۔لندن،پیرس، نیویارک، ہانگ کانگ اور سوئٹزر لینڈ اسلامی مالیات و بنکاری کے مراکز بن رہے ہیں۔

تقسیم دولت اور تصریف دولت

اسلامی نظام معیشت کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مادی (Equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (Equitable) تقسیم چاہتا ہے اور معاشرے کے محروم طبقہ کا خاص خیال رکھتا ہے۔ اہلِ ایمان کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والوں اور معاشی زندگی سے پیچھے رہ جانے والوں کا۔( الذاریات۵۱: ۱۹)

جن کے مال میں حصہ مقرر ہے سائل اور محروم کا۔( المعارج ۷۰: ۲۴-۲۵)

جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے۔(الفرقان۲۵:۶۷)

اس سلسلے میں مسلم سوسائٹی میں شادیوں میں جس طرح اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اسے سادہ اور سنت کے مطابق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں ہم نے اپنے آپ پر دوسرے معاشروں کی پیروی میں بندشیں باندھ لی ہیں اور بوجھ لاد لیا ہے، جو قابلِ مذمت بھی ہے اور اس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔

اس دنیا میں تمام ممالک کے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تحفظ و ترقی کے اجزا مشترک ہیں، جن کے ذریعے غربت کا مکمل خاتمہ، صحت مند انسانی زندگی، غربت و افلاس سے آزادی، صاف پانی کی فراہمی اور توانائی کی دستیابی ہو سکے گی۔

دنیا کے مسلم ممالک، انڈونیشیا، ملایشیا، ترکی اور سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم UNDP کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی ہے کہ وہ کس طرح زکوٰۃ اور اسلامی بنکاری کے ذریعے اس تاریخی SDG کے اہداف کی تکمیل کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔

لمحۂ فکریہ

معروف اسلامی اسکالر اور بین الاقوامی انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے جو دولت کی پیدایش (Creation of Wealth) کے بارے میں کہی ہے:’’تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا ہو کہ محنت کرو، دولت پیدا کرو، کماؤ اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافے کی کوشش کرو۔

ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملت کو معاشی قوت کی اہمیت جیسا کہ معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔ عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جد وجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسوی صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور اشتراکی نظام کو رَد کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کا عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیمِ دولت پر رہا ہے‘‘۔(معاش، اسلام اور مسلمان:ص ۳۶)

وقت آگیا ہے کہ منصفانہ تقسیم دولت کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے سرمایہ کاری اور پیدایش دولت کے لیے ایک طاقت ور ملک گیر تحریک چلائی جائے تاکہ امت مسلمہ معاشی طور پر مضبوط ہو اور دُنیا کو کچھ دینے والی بن سکے۔