ڈاکٹر سوم ڈیپ سین


بھارت میں نسل پرست ہندو ایک لمبے عرصے سے نفرت آمیز نظریات کو عالمی سطح تک پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں راشٹریہ سوامی سویم سنگھ (آر ایس ایس)کی تابع بھارتی جنتا پارٹی کی بیرونِ ہند شاخیں اور دیگر ہم خیال تنظیمیں جیسے وشوا ہندو پریشد اور عالمی ہندو کونسل کافی مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ چنانچہ گذشتہ دنوں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں پیش آنے والے واقعات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ انھیں اب اپنے سیاسی نظریے ’ہندوتوا‘ کے فروغ کا خواب پُرتشدد طریقوں سے پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس خواب کی سرزمین اب ہندستان کی گلیاں نہیں، بلکہ دُور دراز ممالک کے شہر بھی ہیں۔

۱۷ ستمبر کو ہندو نوجوانوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے لیسٹر کی گلیوں میں جلوس نکالا اور مسلمانوں پر حملے کیے۔ ’جے شری رام‘ کا نعرہ اب نسل پرست ہندوؤں کے لیے ایک رجز بن چکا ہے، جو اقلیتوں پر حملے کے وقت بلند کیا جاتا ہے۔ یہ مذہبی تفاخر اور شاونزم کا وہ طاقت ور اظہار ہے، جو نہ جانے کب سے ہندو قوم پرستوں کا خواب رہا ہے۔

اس کشیدگی کے واقعات اتنے غیر متوقع بھی نہیں تھے۔ مئی میں اسی شہر لیسٹر کے ایک مسلمان بچے کو ہسپتال داخل ہونا پڑا کیونکہ ہندو نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس پر بلا اشتعال حملہ کر دیا تھا۔اگست میں ہونے والے ایک کرکٹ میچ میں پاکستان کی ہندستان سے شکست کے بعد ہندو نوجوان ’پاکستان مُردہ باد‘کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور ایک سکھ پر حملہ کردیا۔ دوسرے میچ میں ہندستان کو شکست ہوئی تو بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کے جواب میں مسلم نوجوانوں نے بھی احتجاج کیا۔ مثلاً ایسے ایک واقعے میں کسی آدمی نے ہندوؤں کے مذہبی مرکز کے باہر نصب جھنڈے کو اُکھاڑ پھینکا تھا۔

تاریخی طور پر برطانیہ میں ہندو نسل پرستوں اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان سیاسی و سماجی اشتراک چلا آرہا ہے۔ ۲۰۱۶ میں لندن کے میئر کے انتخاب کے لیے بھی کنزرویٹو پارٹی کے اُمیدوار زیک گولڈسمتھ (Zac Goldsmith) نے اپنے مخالف لیبر پارٹی کے مسلم امیدوارصادق خان کو ہرانے کے لیے شہر کے ہندوؤں اور سکھوں کو مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر بھیجا تھا۔ پھر ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں یہ خبریں بھی عام تھیں کہ ہندو نسل پرست تنظیمیں، کنزرویٹو پارٹی اُمیدواروں کے حق میں مہم چلا رہی ہیں کیونکہ لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوبرین (Jeremy Cobryn) نے ۲۰۱۹ء میں کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن پرانڈین مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان میں سے بہت سی تنظیموں کا بی جے پی کےساتھ براہ راست رابطہ ہے۔ چنانچہ ان کے اقدامات بیرون ملک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے مترادف سمجھے جا سکتے ہیں۔ تاہم، یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ امرواقعہ ہے کہ ہندو انتہاپسندی کا ناسور پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

  • وائٹ ہاؤس میں ایک سچا دوست: برطانیہ کی طرح امریکا میں بھی ہندو قوم پرستوں کی جانب سے، وہاں گورے نسل پرستوں اور دائیں بازو کے اسلام مخالف امیدواروں کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے۔مثلاً ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں یہ منظر سب نے دیکھا کہ ہندو تنظیمیں ریپبلکن امیدواروں کو جتوانے کے لیے ہندو رائے دہندگان پر اپنا پورا زور لگارہی تھیں۔

اس سے ایک سال پہلے ۲۰۱۵ء میں ایک ہندستانی امریکن لابی تنظیم ’ری پبلکن ہندو اتحاد‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تنظیم کے روح رواں شکاگو سے تعلق رکھنے والےایک تاجر شلبھ کمار ہیں، جو مسٹرمودی کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس تنظیم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھرپور مدد کی اور تنظیمی ارکان نے اس مہم کے لیے دل کھول کر فنڈ دیئے۔ انتخابات سے قبل اس تنظیم کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’میری صورت میں، وائٹ ہاؤس میں ہندوؤں اور ہندستان کو ایک حقیقی دوست میسر ہوگا‘‘۔ صدارتی اُمیدوار ٹرمپ  نے مودی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں ایک ’عظیم انسان‘ قرار دیا اور ہندو رائے دہندگان کو لبھانے اور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ایک خصوصی ویڈیو پیغام بھی جاری کیا۔

۲۰۲۰ء کے انتخابات میں تو مودی نے باقاعدہ طور پر ٹرمپ کے ایک مہم کار کا فریضہ سرانجام دیا، اور جائیدادوں کی خریدوفروخت کے کاروبار سے سیاست میں قدم رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دو مشترکہ انتخابی ریلیاں بھی نکالیں۔ ایک ریلی احمد آباد ، بھارت میں اور دوسری ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں نکالی گئی۔ دوسری ریلی میں مودی نے ملفوف لفظوں میں ٹرمپ کی حمایت تو کی، لیکن پھر فرطِ جذبات میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ نعرہ بھی لگا دیا کہ ’’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘‘۔

برطانیہ کی طرح امریکا میں بھی اب ہندو قوم پرست انتخابات سے آگے بڑھ کر سڑکوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ رواں سال کے اگست میں ہندستانی یوم آزادی کے حوالے سے امریکی شہر ایڈیسن، نیو جرسی میں ہونے والی پریڈ میں کچھ بلڈوزر بھی شامل تھے، جن پر وزیراعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی تصاویر چسپاں تھیں۔ یاد رہے کہ ہندستان کے مختلف شہروں میں مقامی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کے مکانات گرائے جارہے ہیں اور یہ بلڈوزر اس اندوہناک عمل پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے پریڈ میں مظاہرے کی خاطر بلائے گئے تھے۔ تاہم،عوام الناس کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننے کے بعد اس پریڈ کی منتظم ’بھارتی بزنس ایسوسی ایشن‘ نے اس عمل پر معذرت کر لی۔

  • کھلی دھمکیاں:کینیڈا میں بھی ہندو نسل پرست اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا رہے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں ایک سکھ اسکول کے باہر سکھ مخالف نعرے لکھ کر، ساتھ ہی ہندو مذہب کا نشان سواستیکا بنا دیا گیا تھا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ہندو نسل پرستوں کی جانب سے کینیڈین اساتذہ کو ہراساں کیا جاتا ہے اور مودی حکومت پر تنقید کرنے والے اساتذہ کو ہندو شہریوں کی جانب سے قتل اور ریپ کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔

جون میں ایک کینیڈین ہندو انتہا پسند رون بینر جی کی جانب سے کھلے عام مسلمانوں اور سکھوں کے قتل عام کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بینرجی کا کہنا تھا: ’’مودی جی بڑا زبردست کام کر رہے ہیں۔میں جمہوریہ ہندستان میں مسلمانوں اور سکھوں کے قتل عام کی بھرپور حمایت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ اسی قابل ہیں کہ انھیں مارا جائے‘‘۔

اسی طرح آسٹریلیا میں بھی ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کئی سکھوں پر پے در پے حملہ کرنے والا ایک ایسا ہی مجرم ویشال سود آخرکار گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اسے سزا سنا کر ڈی پورٹ کردیا گیا کیونکہ اس کے ویزا کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ جب یہ آدمی واپس بھارت پہنچا تو ایک قومی ہیرو کی طرح اس کا استقبال کیا گیا۔

آسٹریلیامیں موجود بھارتی حکام کی جانب سے بھی نریندر مودی اور اس کی انتہا پسندانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یونی ورسٹی آف میلبورن کے ’آسٹریلیا-انڈیا انسٹی ٹیوٹ‘ سے تیرہ اساتذہ استعفیٰ دے چکے ہیں، کیونکہ بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے ان کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق بھارت کا منفی رخ دنیا کے سامنے لانے والی ان کی تحقیقات اور تصانیف کو سینسر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

  • وجہ کیا ہـے؟: اس میں کلام نہیں کہ عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندی کا عروج ہر حوالے سے بھارت میں مودی کے عروج کے ساتھ منسلک ہے۔ ۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کی نگرانی میں اب تک ایک انتہائی متنازع شہریت کا قانون پاس ہو چکا ہے، جو صریحاً مسلمان پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کو آئینی طور پر ملنے والی خودمختاری ختم ہو چکی ہے اور ۱۹۹۲ء میں ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے شہید کی جانے والی ایک مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں۔

مودی نے ہندوتوا کی بنیاد پر ہندستانیوں سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا کر دکھایا ہے اور یہی چیز بیرون ملک موجود ہندوؤں کے حوصلے بلند کرنے اور ان کے اندر ایک احساس تفاخر کو بیدار کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

دوسری جانب اس سلسلے میں دیگر عالمی رہنما بھی برابر قابل تعزیر ہیں، جنھوں نے مودی کو نہ صرف قبول کیا ہے، بلکہ بیرونی ممالک میں موجود ہندو انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ  ان کے متعصب نظریات کے لیے عالمی سطح پر گنجایش موجود ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر سابقہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تک، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور برازیلی صدر جئیر بولسونیرو  سمیت کئی سیاست دانوں نے مودی کو اپنا ’دوست‘ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ بظاہر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ نہ رکھنے والے سیاست دان بھی بھارت کے ساتھ تجارتی اور اسٹرے ٹیجک تعلقات قائم کرنے کے لیے مودی سرکار کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

  • ہندوتوا کا مستقبل؟ :اسلاموفوبیا کا معاملہ اب ہندستان کی سیاسی اور خارجہ پالیسیوں کا محور بن چکا ہے۔ تاہم، اب یہ ضروری ہے کہ ان واقعات کو خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے۔ ہندو قوم پرستی کو محض ایک بھارتی مسئلہ سمجھتے ہوئے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک اب عالمی سطح پر پھیل رہی ہے اور دیگر ممالک میں بھی بہ تدریج پُرتشدد رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ تحریک اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ یہ پوری دنیا میں جمہوری اصولوں،مساوات اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ دہلی میں مودی حکومت کے ہوتے ہوئے ہندستان سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے، دنیا کو اب خود ہی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔