ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی چیز سے منع کرتا ہے‘ یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی‘ اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ابتداً آدمی صرف کلمہ ٔ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو‘ بلکہ اس میں تنزل اور ارتقا دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اُس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے۔ اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو‘ اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سربلندی کے لیے لگن اور دُھن جتنی بڑھتی چلی جائے ‘ ایمان اُسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ یہاںتک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے‘ اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار و تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے‘ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پائو‘ یا یہ دگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ‘ اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابوحنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لایزید ولا ینقص ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۸۲-۸۳)۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o (الانفال ۸:۲) سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الٰہی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سراطاعت جھکا دے‘ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف‘ اس کی رائے اور تصورات و نظریات کے خلاف‘ اس کی مانوس عادتوں کے خلاف‘ اس کے مفاد اور اس کی لذت و آسایش کے خلاف‘ اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا اور رسولؐ کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر لے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے‘ اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا ‘ اور اگر ا س نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔اور اسی طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقا بھی ہو سکتا ہے اور تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے‘ خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۳۰-۱۳۱)۔
]صلح حدیبیہ کے موقع پر اس کیفیت کو یوں واضح کیا گیا:[
ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِھِمْ ط (الفتح ۴۸:۴) وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔
’’سَکِینَت‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثباتِ قلب کو کہتے ہیں‘ اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اُس کے نازل کیے جانے کو اُس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اُس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اُتاری گئی اور کیسے وہ اِس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لیے مکۂ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا‘ اگر مسلمان اُس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے‘ یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفارِ قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں‘ اُس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی سازوسامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے‘ اور اِس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی‘ تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رُونما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رونما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا‘ اور جب انھوں نے چھاپے اور شب خون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی‘ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی‘ اور جب ابوجندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے‘ ان میں سے ہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آکر اُس نظم و ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں‘ اُس وقت اگر وہ حضورؐ کی نافرمانی کرنے پر اُتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر‘ دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا۔ اسی کی بنا پر انھوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔ اسی کی بنا پر وہ خوف‘ گھبراہٹ‘ اشتعال‘ مایوسی‘ ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میںپورا نظم و ضبط برقرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انھوں نے شرائطِ صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سرتسلیم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اُتاری تھی‘ اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔
]ایمان بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ[ ایک ایمان تو وہ تھا جو اِس مہم سے پہلے اُن کو حاصل تھا‘ اور اُس پر مزید ایمان اُنھیں اِس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمایشیں پیش آتی چلی گئیں اُن میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص‘ تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ اُن آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے‘ بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمایشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان‘ مال ‘ جذبات‘ خواہشات ‘ اوقات‘ آسایشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمایش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے‘ اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب
وہ ابتدائی سرمایۂ ایمان بھی خطرے میںپڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۴۵-۴۶) ‘ ( ترتیب و تدوین: امجد عباسی)۔
کامیاب زندگی کا کوئی تصور قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زندگی کا کوئی تصور قائم کر لیا جائے‘ کیونکہ اسی پر کامیابی کا تصور مبنی ہو سکتا ہے۔ ایک تصورِ حیات کے لحاظ سے ایک زندگی انتہائی کامیاب قرار پاتی ہے‘ تو دوسرے تصور حیات کے لحاظ سے وہی زندگی انتہائی ناکام ٹھہرتی ہے۔ دنیا کو ایک چراگاہ یا خوانِ یغما سمجھیے تو وہ شخص بہت کامیاب ہے جو اس تھوڑی سی مہلتِ عمر میں خوب عیش کرلے‘ اور وہ بڑا ہی نامراد ہے جو نفس و جسم کے ابتدائی مطالبات بھی اچھی طرح پورے نہ کر سکے۔ دنیا کو ایک رزم گاہ سمجھیے تو کامیاب آدمی وہ ہے جو اس کش مکش کے میدان میں سب کو روندتا کچلتا آگے بڑھتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ اس مقام پر جا پہنچے جہاں اس کے جیتے جی کوئی حریف اس کی آرزوئوں کی تکمیل میں مزاحم ہونے والا نہ رہ جائے اور اس کے برعکس وہ آدمی بالکل ہی ناکام بلکہ نکمّا ہے جو اپنی اغراض کے لیے کسی ایک بندئہ خدا سے بھی چھین جھپٹ نہ کرے اور سفرحیات میںکبھی دو ہمراہیوں کو بھی کہنی مار کر آگے نہ نکلے۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ حیات ان تصورات سے مختلف ہو تو کامیابی و ناکامی کے متعلق بھی آپ کا تصور ان سے مختلف ہو جائے گا۔ اتنا مختلف کہ آپ ان لوگوں کو سخت ناکام و نامراد سمجھیں گے جو ان تصورات کے لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں‘ اور ایسے لوگوں کو انتہائی کامیاب قرار دیں گے جو ان کے لحاظ سے قطعی ناکام ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کا کوئی ایک متعین معیار نہیں ہے جو دنیا بھر میں مسلّم ہو‘ بلکہ مختلف لوگوں کی نگاہ میں اس کے مختلف معیار ہیں اور ان معیاروں کے متعین کرنے میں فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو‘ اور اس دنیا کو جس میں وہ رہتا ہے‘ اور اس مہلت عمل کو جو اسے یہاں حاصل ہے‘ کیا سمجھتا ہے؟
طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔
زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدروقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں‘وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے‘ اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی بند‘ رشتے دار‘ دوست‘ ہمسائے‘ قوم‘ وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے‘ ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے‘ یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں‘ جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں‘ جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے‘ ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے‘ جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے‘ اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے‘ جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہواہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔
اس امتحان گاہ میں اصلی اہمیت اس چیز کی نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر‘ کس حیثیت میں امتحان دے رہے ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یہاں مزدور کی حیثیت سے اٹھ کر ایک بڑا کارخانہ دار‘ یا رعیّت کے مقام سے بلند ہو کر ایک بڑا فرماں روا بن گیا ہے‘ اس نے درحقیقت کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے بلکہ امتحان کے بہت سے زاید پرچے اس نے لے لیے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت وہ بہت زیادہ سخت پرچے لے کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں نمبر زیادہ پانے کے جتنے امکانات ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ناکامی کے خطرات بھی ہیں۔
یہ امتحانی تصورِ حیات جس شخص کا بھی ہو‘ اس کا معیار کامیابی و ناکامی لازماً دوسرے تصورات حیات رکھنے والوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی خدا کے اس امتحان میں ایک بندئہ وفادار و شکرگزار ثابت ہونا ہے۔ ایک ایسا بندہ ثابت ہونا ہے جس نے خدا کے اور بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک سمجھے اور ادا کیے ہوں۔ جس نے دل اور نگاہ‘ کان اور زبان‘ پیٹ اور جنسی قوتوں کو بالکل پاک رکھا ہو۔ جس کے ہاتھوں نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو‘ جس کے قدم بدی کی راہ پر نہ چلے ہوں‘ جس نے کم کمایا ہو یا زیادہ‘ مگر جو کچھ بھی کمایا ہو‘ حق اور راستی کے ساتھ کمایا اور جائز راستوں میں خرچ کیا ہو۔ جو امانتوں کا محافظ‘ قول و قرار میں سچا اور عہد و پیمان میں راسخ رہا ہو۔ جو بھلائی کا دوست اور برائی کا دشمن ثابت ہوا ہو۔ جسے اس کے خدا نے جس حیثیت میں بھی رکھا ہو وہاں اس نے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ سمجھا اور ادا کیا ہو۔ جس کا یہ حال نہ رہا ہو کہ بقول ظفر:
ع جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
یہ کامیابی جس کو نصیب ہو گئی ‘ وہ بہرحال فائز المرام ہے‘ خواہ دنیا میں وہ نانِ جویں تک کو محتاج رہا ہو اور اس کا کوئی کارنامہ تاریخ کے صفحات پر ثبت نہ ہو۔ اس کے برعکس جو اس کامیابی سے محروم رہ گیا‘ وہ سخت نامراد ہے خواہ وہ دنیا کے سرمایہ داروں کی صفِ اوّل میں پیشوائی کا مقام حاصل کرگیا ہو‘ یا فاتحین عالم کا سرخیل ہی کیوں نہ ہو (۲ جولائی ۱۹۵۸ء)‘ (کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ:پروفیسر انوردل‘ مکتبہ جدید‘ لاہور‘ مارچ ۱۹۶۴ء‘ ص ۲۳-۲۷)۔