ایس احمد پیرزادہ


رمضان المبارک کے مقدس ایام گزر جانے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے سیاسی ایوانوں میں اتھل پتھل اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ۱۹ جون کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور اُمورکشمیر کے انچارج رام مادھو نے دہلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ اُن کی جماعت، یعنی بی جے پی جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کے اس مشرق و مغرب کے غیرفطری اتحاد کا عبرت ناک خاتمہ ہوا۔ نسل پرستی ایک زہر ہے، اور نسل پرستی کے علَم برداروں کی حیثیت اُس زہریلے سانپ جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے ۲۰۱۴ء میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا، لیکن جب حکومت تشکیل دینے کی باری آئی، تو عوامی توقعات کے برعکس ایک ایسی جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جن کے ہاتھوں بھارت میں سیکڑوں فسادات کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا ہے۔ جنھوں نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔

حکومت سے الگ ہونے سے چند روز قبل بی جے پی نے نام نہاد سیز فائر ختم کرکے کشمیری عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا از سر نو آغاز کیا۔ عید الفطر سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی، جس میں کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی فوج کی زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد  معروف کشمیری صحافی ودانش وَرڈاکٹر شجاعت بخاری کا نامعلوم افراد کے ذریعے سے قتل کروایا گیا، جس سے یو این رپورٹ بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر۱۵؍جون کو اپنے ہی نام نہاد سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پلوامہ میں ایک کمسن اور نہتے ۱۳ سال کے طالب علم وقاص احمد کو گولی مار کرشہید کردیاگیا۔ عید کے دن برکہ پورہ، اسلام آباد میں نماز عید ادا کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ کرکے ایک نوجوان شیراز احمد کو شہید کردیا گیا، جب کہ ۳۰ دیگر نوجوانوں کو بُری طرح زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں ۹؍ایسے نوجوان بھی شامل تھے، جن کو پیلٹ گن کے چھرّوں کا نشانہ بناکر بینائی سے ہی محروم کردیا گیا۔۱۸جون کو پھر سے ضلع کولگام کے نواؤ پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دوبچوں کے باپ ۲۸سال کی عمر کے اعجاز احمد بٹ کو جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔جس نام نہاد سیز فائز کا بڑے پیمانے پر ڈھول پیٹا گیا، اُس دوران کیرن سیکٹر سے لے کر کولگام تک ۱۵لوگوں کی جان لے لی گئی۔

تقدس مآب رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو سری نگر کی مرکزی وتاریخی جامع مسجد نوہٹہ میں پولیس اور فورسز اہل کاروں نے مسجد کے اندر نہ صرف آنسوآورگیس کی شیلنگ کی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں کئی نمازی زخمی ہوگئے اور مسجد کے اندر افراتفری مچ گئی۔ مسجد کے اندر جہاں ربّ کے حضور سر جھکائے جاتے ہیں، وہاں سربسجود بندوںکا خون بکھیر دیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں، وہاں پر بھی شیلنگ کی گئی۔پھر کئی دن تک مسجد کو نمازاور نمازیوں کے لیے بند کرنا پڑا، تاکہ اندر انسانی خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے۔جو نوجوان رضاکارانہ طور پر مسجد کی صفائی میں  پیش پیش تھے، اُن میں ایک۲۲سالہ قیصر احمد بھی تھے، جنھیں ایک ہفتے بعد، یعنی اگلے ہی جمعہ، یکم جون کو سی آر پی ایف کی ایک تیز رفتار جیپ نے ایک اور نوجوان کے ساتھ کچل ڈالا۔اُنھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چند ہی گھنٹوں بعد وہ حیا تِ جاودانی کا جام پی گئے۔

یہ دلدوزسانحہ اْس وقت پیش آیا جب نماز جمعہ کے بعد نوجوان نوہٹہ میں جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے تھے۔ سری نگر کے محلہ فتح کدل کے قیصر احمد کا المیہ یہ تھا کہ اُن کے والدین پہلے ہی اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے تھے۔ وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ نانیہال ڈلگیٹ میں رہتے تھے۔ ان دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی اور واحد سہارے کو بڑی بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا۔ یوں ا ن کوتاہ نصیبوں کو دیگر ہزاروں کشمیری بچوں اور بیٹیوں کی طرح حالات کے رحم وکرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، اُنھیں دیکھنے سے ہی چنگیزیت اور درندگی کا گھنائونا اور ’جدید رُوپ‘ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔  المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انجام دینے والی ان حیوانی حرکات کے لیے بھی طرح طرح کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ انھیں سنگ بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے یا پھر سڑک حادثہ کہہ کر ان المناک اور  غم انگیز وارداتوں کو تاریخ کی بھولی بسری یادیں بنادیا جاتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ صفاکدل میں مئی کے مہینے میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے عادل احمد نامی جس نوجوان کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا تھا، اُس کے بارے میں ریاستی حکام نے پہلے کہا کہ وہ  سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، لیکن جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے فورسز اہل کاروںکی اس سفاکیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی تو انتظامیہ نے ملوث فورسز اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے اس سانحے کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کو ہی گرفتار کرکے جیل میں  بند کردیا۔اسی طرح جامع مسجد میں قیصر احمد کو کچل دینے والے سی آر پی ایف ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے مقتول قیصر اور اُن کے ساتھ دیگر دو نوجوانوں کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

سری نگر کی یہ تاریخی جامع مسجد، کشمیری قوم کی روحانی توانائی اور سیاسی بیداری کے لیے  بڑی ہی اہمیت کا حامل مرکز ہے۔ یہ مسجد اپنی مرکزیت کے پہلو بہ پہلو عام کشمیریو ں کی اس کے ساتھ دلی وابستگی ہر دور میں ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں اس کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے برتے گئے، لیکن کشمیری عوام کا تاریخی جامع مسجد سے والہانہ لگاؤ اور وابستگی قائم و دائم رہی ہے۔ ۲۰۰۸ءہی سے وقت کے حکمرانوں نے بالکل مسجد اقصیٰ کے طرز پر اس مرکزی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جن میں جمعہ کے موقعے پر مسجد کے اردگرد فورسز کے سخت حصار اور مسلح اہل کاروں کی تعیناتی کے علاوہ نماز کے بعد نوجوانوں کو اشتعال دلا کر اُنھیں سنگ بازی کے لیے مجبور کرنا، اور پھر اس کی آڑ میں نمازِجمعہ کے مواقع پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کرنا قابل ذکر ہے۔ ۲۰۰۸ءسے درجنوں مرتبہ اس تاریخی اہمیت کی حامل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، ان کی اسلام دشمنی اُنھیں ہر آن فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ رکھتی ہے، لیکن عالم اسلام کے اس بدترین دشمن نے کبھی مسجداقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد نہیں کی۔ جن کے زیر تسلط مسجد اقصیٰ ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے بجاے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو تالا بند کرنے والے لوگوں کی پہلی صف میں وہ ہند نواز ریاستی سابق حکمران شامل رہےہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرنے والے مقامی پولیس اہل کار بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔احتجاج کے دوران جان بوجھ کر وردی پوشوں کا جامع مسجد کے چپے چپے پر موجود رہنا اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے سے قبل ہی شیلنگ اور طاقت کا بے تحاشا استعمال بہرحال احتجاجی نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرکے اُنھیں سنگ بازی پر مجبور کرتا ہے ، اور بے گناہ و معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے۔کشمیر میں یہ بھارت کی مستقل پالیسی بنتی جارہی ہے کہ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طاقت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر اُسی کی آڑ میں بندوقوں کے دہانے کھول کر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے۔

 تصویر کا یہ رُخ بھی قابلِ غور ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بڑے ہی طمطراق سے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، آل پارٹیز میٹنگ طلب کرکے یہ اعلان کرتی ہیں کہ ایک وفد وزیراعظم نریندر مودی کی خدمت میں جائے گا اور اُنھیں رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر خیرسگالی کے طور پر سیز فائر کرنے کی استدعا کرے گا۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ اس تجویز کی مخالفت کرتی ہے،کہ بعد میں یہ اُن کی سیاسی حلیف مجبوبہ مفتی کا سیاسی کارنامہ ثابت ہوجائے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ وزیراعلیٰ نے لڑکر کشمیری عوام کے لیے حکومت ہند کو سیز فائر کے لیے قائل کیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ نے رمضان اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ ریاستی سرکار میں شامل لوگوں نے اس پر ایسے خوشی کااظہار کیا کہ جیسے اُنھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔حالانکہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اِسے ’سیز فائر‘ کے بجاے’ حملہ بندی‘ قرار دیتے ہیں، کیوں کہ بھارتی فورسز اہل کار اور حکمران ہمیشہ اس قوم کے خلاف حالت جنگ میں تھے۔ یہ افواج سیز فائر کے دوران بھی حالت ِ جنگ میں رہیں اور آج بھی ہیں۔

ایسا نام نہاد سیز فائرکشمیریوں پر کسی احسان کے بجاے ریاست کی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ دہلی کی خوشنودی کے لیے اس ماہ شروع ہونے والی ’امرناتھ یاترا‘ کو پُرامن طریقے سے انجام تک پہنچائیں۔ یہ یاترا گذشتہ کئی برس سے ’مذہبی رسم‘کے بجاے ’سیاسی مہم‘ میں تبدیل ہوچکی ہے،جب کہ کشمیری عوام ’یاتر ا‘ اور یاتریوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی اور مہمان نوازی کے جذبے سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’یاترا‘ کی سیاسی مہم کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر جنگی پیمانے پرکام کیا جاتا ہے۔ریاستی بجٹ کی ایک کثیر رقم ’یاترا‘ کے انتظامات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی ہے۔ نام نہادجنگ بندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ جنوبی کشمیر کے پُرامن رہنے سے ہی یاتریوں کا آنا جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے بستیوں پر فوجی آپریشنوں کے ذریعے کی جانے والی یلغار کو فی الحال محدود پیمانے پرروک دیا گیا، تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ہر آن کھڑا ہوجانے والے جنوبی کشمیر کے عوام کو کچھ وقت تک کے لیے خاموش رکھا جاسکے، لیکن اب نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے ’سیز فائر‘ ختم کردیا اور ’امرناتھ یاترا‘ کی حفاظت کے لیے این ایس جی کے اسپیشل کمانڈوز کو طلب کیا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اہلِ کشمیر یاتریوں کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اُنھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے ہیں۔ دراصل ’امرناتھ یاترا‘ کی آڑ میں کوئی بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے، تاکہ بھارت میں ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔

بھارتی فورسز کی ’حملہ بندی‘ سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ عارضی طور پر رُک سا گیا، لیکن ظلم و زیادتیوں اور دیگر جنگی حربوںکوزمینی سطح پر بدستور استعمال میں لایا جاتارہا ہے۔یہ کہاں کی جنگ بندی ہوئی کہ جس میںرات کے دوران چھاپے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، دُور دراز کے علاقوں میں فوجی ناکوں پر عوام کی جامہ تلاشی اور ہراسگی جاری ہیں؟اور کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے کچل دیا جائے؟

حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہوتی تو پھر شوپیان کے دیہات میں فوج کی افطار پارٹی سے انکار کرنے پر عوام پر گولیاں نہ برسائی جاتیں اور چار معصوم بچیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب نہ کیا جاتا۔ جنگ بندی ہوتی تو عسکریت پسندوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی، اُن کے گھروں کی توڑ پھوڑ نہ کی جاتی، جیسا کہ شوپیان کے ایک گھر اور اْس کے پڑوس میں موجود دیگر درجنوں گھروں میں کیا گیا ہے۔ گھر کے ساز و سامان کو تہس نہس کرنا، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرنا، پیسے اور لیپ ٹاپ لوٹ کر لے جانا اور کھانے پینے کی اشیا کو ضائع کر نے یا ناقابلِ استعمال بنانے کی حرکتیں استعماریت اور رذالت کی بدترین شکلیں ہیں۔ پھر ٹھیک اُس وقت جب کشمیری لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، جنوبی کشمیر میں تین بے گناہ نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں شہادت کا جام نہ پلایا جاتا۔

یہ کہاں کی جنگ بندی تھی کہ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا جائے، میوہ باغات میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی جائیں کہ جس کی مثال موجودہ دور کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔فوجی او رنیم فوجی دستوں کے سامنے ریاستی حکومت کی بے بسی کس حد تک ہے اس کا اندازہ ڈپٹی کمشنر شوپیان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو انھوں نے گھروں کی توڑ پھوڑ اور میوہ باغات میں درختوں کو کاٹنے کے واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’فوج خصوصی اختیارات کی وجہ سے حدود پھلانگ رہی ہے۔ ہم نے اُنھیں بار بار کہا ہے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے کیمپوں سے باہر نہ آئیں، لیکن وہ سول انتظامیہ کے حکم ناموں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ہم اُن کی حرکتوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘… گویا بھارتی فوج کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے اس حد تک بدمست بنادیا کہ وہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کے بھی کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک جا کر من مانیاں کررہے ہیں۔

کشمیر میں بھارتی جنگ بندی ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ والی بات تھی۔ دنیا کو چکمہ دیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ افہام وتفہیم چاہتے ہیں اور اسی لیے نام نہاد  جنگ بندی کی خوب تشہیر کی گئی اور دہلی سرکار کے مقامی تنخواہ خوار دن رات ان کے گن گاتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر عوام کے خلاف وہ تمام کارروائیاں ہورہی ہیں، جنھوں نے عام کشمیری کا جینا حرام کررکھا ہے۔ریاست عملاً ایک پولیس وفوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اگر بندوقوں کے دہانے دنیا کو دکھانے کے لیے عارضی طورپر تھوڑے وقت کے لیے بند کیے، تو دوسری جانب گاڑیوں کے نیچے معصوم کشمیری بچوں کو کچل کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔

اب،جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے نئی دہلی نے حالات پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرلیا ہے، تمام اختیارات فوج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، بھارت بھر سے بدنامِ زمانہ پولیس افسران کو گورنر کے مشیروں کے طور پر تعینات کیا جارہا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں کسی بڑے خونیں کھیل کو کھیلنے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کا   جموں وکشمیر میں حکومت سے علاحدگی اختیار کرنے سے جواہم مقصد حاصل کرنا مقصودہے وہ یہ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے اور یہاں نسل کشی کرنے کے لیے وہ گورنر کے ذریعے سے براہِ راست معاملات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ سے وابستہ لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں، جن میں حق خود ارادیت کے حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔بھارتی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے امکان کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اُن کے مطابق دونوں جماعتیں  بی جے پی اور پی ڈی پی کشمیر کو آگ میں جھونک کر راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔اس سلسلے میں گجرات کے سابق آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کے اس ٹویٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ۲۰۱۸ء کی ’امرناتھ یاترا‘ ۲۰۰۲ء کی طرح کہیں دوسرا گودھرا نہ بن جائے‘‘… 

یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے یہاں کوئی ایسا ڈراما رچایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے بھارت بھر میں فسادات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۲۱؍ جون کو بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول نے دومرتبہ بی جے پی چیف اُمت شاہ سے دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دونوں کی ملاقات کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں فوجی اور عسکری طاقت کے استعمال کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جانے کا خاصا امکان پایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تحریک حُریت کے قائدین کو پہلے ہی سے عوام کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنے نمایندوں کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ کشمیری عوام کے خلاف پردے کے پیچھے تیار ہونے والی سازشوں کا نہ صرف توڑ کیا جاسکے بلکہ اُنھیں ناکام بناکر انسانی جانوں کو بھی بچایا جاسکے۔

کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے لیے لازم ہے کہ ناانصافیوں اور زیادتیوں پر خاموش نہ رہے  بلکہ ظلم و جبر کے اس آوارہ ہاتھی کی پیش قدمی روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ اہلِ کشمیر کا ظلم سہہ لینا اور ظلم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں پر صبر کرلینا ، ظالم کے لیے طاقت ور ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ وہ کشمیری قوم کے صبر کو اُن کی کمزوری سے تعبیر کرکے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یوں کشمیری نوجوان نسل کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مہذب دنیا حالات بد سے بدتر ہوجانے سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئے۔

بالخصوص پاکستان کو اپنے درون خانہ سیاسی اتھل پتھل سے باہر نکل کر بحیثیت قوم کشمیر کاز کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسئلے کا فریقِ اوّل ہے اور فریق ہونے کی حیثیت پاکستان، کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور تشدد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ پاکستانی عوام کشمیریوں سے آنکھیں موند سکتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بے شک پاکستانی دفاتر پر لہراتا ہوگا، لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کشمیری قوم اپنا گرم لہوپیش کررہی ہے ۔

 کشمیری عوام کی اجتماعی تعذیب کے بد ترین مظاہروں کے باوجود قانونِ قدرت کے عین مطابق وہ وقت دُور نہیں ہے، جب یہ قوم ان تمام مصائب سے نجات حاصل کرلے گی کیوں کہ    اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، مگر اس کے لیے بنیادی اور ناقابل التوا شرط یہی ہے کہ اللہ سے رجوع کیا جائے اور حق کے لیے چٹان بن کر کھڑا ہوا جائے۔

۲مئی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں چند دن پہلے ہونے والی انڈین فورسز کی زیادتیوں کے خلاف ایک بے قابوہجوم نے مبینہ طور راہ چلتی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس کی زد میں ایک اسکول کی بس بھی آگئی، اور بس میں سوار چند معصوم طالب علم زخمی ہوئے۔ اس سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ جو قوم مسلسل غیروں کے نشانے پرہو، جس پر سرکاری فورسز کی زیادتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ تین عشروں سے جاری ہو، اُسی قوم کے نونہال یا عام شہری اگر اپنوں کی غلطیوں کا بھی  شکار ہوجائیں تواس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟اس افسوس ناک واقعے کی خبر ابھی سوشل میڈیا پر آہی رہی تھی کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ نے حسب عادت مذمتی ٹوئیٹ میں کہا: ’’انھیں یہ جان کر بہت دْکھ اور تکلیف پہنچی اور غصہ آیا کہ شوپیاں میں ایک اسکول بس پر حملہ کیا گیا۔ اس پاگل پن اور بزدلانہ کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔

سوشل میڈیا بالخصوص Twitter پرسرگرم رہنے والے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھلا کیسے چپ رہتے۔ انھوں نے بھی پے در پے اس واردات پر بہت سے مذمتی ٹوئیٹ کرکے خوب خبریں گھڑیں۔ ایک ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھا :’’ اسکول کے بچوں اور سیاحوں کی بسوں پر پتھراؤ   کرنے والوں کے ایجنڈے کو آگے لے جانے میں کیسے مدد ملے گی؟ یہ حملے سخت قابل مذمت ہیں‘‘۔ ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے سنگ بازی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے حق میں پولیس کیس واپس لینے کی وکالت کرنے والوں تک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ریاست جموں و کشمیر کی دوبڑی ہندنواز جماعتوں کے سربراہوں، یعنی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے مذمتی بیانات سامنے آنے کی دیر تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سوشل میڈیا ٹیم ، ان جماعتوں کے ترجمان اوربا تنخواہ یوتھ لیڈران میڈیا کی سرزمین پر حرکت میں آگئے اور تحریک ِحریت کشمیر کے لیڈران سے لے کر پاکستان تک، ہر آزادی پسند اور اصولوں کی بات کرنے والوں کو بیک جنبش قلم مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کشمیریوں کو ’اُکسائی ہوئی قوم‘ قراردیا گیا، سنگ بازوں اور احتجاجیوں کو ’گمراہ ‘کہا گیا، حریت لیڈروں کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار گردانا گیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک ہی پَل میں سوشل میڈیا پر دہلی کے پروردہ اور حمایت یافتہ اس ٹولے نے ’فردِ جرم‘ بھی گھڑی، عدالتیں بھی سجائیں اور فیصلے بھی سنائے۔ جن میں حقِ خودارادیت اوراس جائز اور مبنی بر حق جدوجہد کی بات کرنے والوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔حالاںکہ اسکول بس میں زخمی بچے اُسی مظلوم قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں، جو سرکاری ظلم و جبر کی شکار ہے۔ اُن کے لیے ماں کی طرح تڑپنے والے اصل میں وہ عام لوگ ہی ہیں، جو جانتے ہیں کہ اپنوں اور معصوموں کا لہو گرجانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ حریت کے قائدین بھی بار بار ایسے واقعات پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود  ’مذمت بریگیڈ‘ ایسے موقعوں پر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے تیر و تفنگ کا رُخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی جانب پھیر دیتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ اینڈ کمپنی اور محبوبہ مفتی اور اُن کے تنظیمی درباریوں اور چیلوں کو ایسے سانحات پر اظہارِ مذمت کا حق نہیں۔اُنھیں ایسا کرنے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔  ہرکسی کو جہاں بھی انسانیت کا خون بہایا جارہا ہو، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن عام کشمیریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انھیں پسند کے ظالم اور پسند کے مظلوم کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیںحالات وواقعات کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔ مگرمچھ کے سے آنسو بہانے اور سرکاری مراعات کے حصول کے لیے منافقانہ رویہ چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

اصولی طورجن لوگوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، جن کے دوراقتدار میں روز بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہو، یا بہایا جارہا ہو، جو نونہالانِ کشمیرکو بم، بارود اور گولی سے اُڑا دینے کی منصوبہ بندی میں برابر کے شریک ہوں، جن کے کہنے پر یا پشت پناہی  سے وردی پوش یہاں روز انسانی حقوق کی دھجیاںاُڑا رہے ہوں ،اُنھیںمظلوم عوام پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ اُنھیں پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے جموں و کشمیر کے بے بس اور مظلوم شہری کس عذاب اور عتاب کا شکار ہیں۔

شوپیاں میں اسکول بس ودیگرگاڑیوں پر مبینہ طور سنگ باری ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب اسی ضلع کے ترکہ وانگام علاقے میں بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے تین درجن کے قریب معصوم نوجوانوں کے جسم گولیوں سے لہو لہان کردیے۔جب انکاؤنٹر والی جگہ سے ایک کلو میٹردُور اسکولی وردی میں ہی ملبوس نویںجماعت کے طالب علم محمد عمر کمہار(۱۴سال) ساکن پنجورہ کو سرکاری فورسز نے نزدیک سے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیاتھا،جب سری نگر کے نور باغ علاقے میں پولیس نے عادل احمد نامی ایک نوجوان کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ کچل ڈالا تھا۔ جب پولیس اور فوج نے شوپیاں کے علاوہ جنوبی کشمیر کی مختلف جگہوں پر پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ پانچ عام نوجوانوں کو بھی گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا تھا اور دیگر سیکڑوں کو زخمی کردیا تھا،اُس وقت عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صاحبہ کی سربراہی میں کام کرنے والا یہ مذمتی ٹولہ سوشل میڈیا سے کیوں غائب ہوگیا تھا؟

 پھر نہ مجبوبہ مفتی کی نظریں ان کم سن نوجوانوں کی معصومیت پر گئیں اور نہ عمر عبداللہ وغیرہ کو ان کی ماؤں کے چھلنی جگر نظر آئے۔ انھیں کمسن عمر کمہار کی والدہ کے ہاتھ میں نوحہ کناں وہ اسکولی یونیفارم بھی نظرنہیں آیا جو وہ لہرا لہرا کر دکھا رہی تھی کہ کس طرح اُس کے طالب علم بیٹے کو جرم    بے گناہی میں جان بحق کیا گیا۔ کیامذمتی ٹولے کو اس معصوم بچے کا اسکولی وردی میں اُٹھنے والا وہ جنازہ بھی نظر نہیں آیا، جو سنگ دل سے سنگ دل افراد تک کے دلوں کو بھی پاش پاش کررہاتھا؟  سری نگر سے شوپیاں تک دو دن میں ۱۴لوگوں کی جانیں لینے کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ: ’’کیا اسلام اس عمر میں جان دینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘ حالاںکہ جان لینے والے اس کی سربراہی میں کام کرنے والے فورسز اہل کار ہیں۔

 حا لات کوایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ان اقتدار پرست لوگوں کو اسکول بس پر برسنے والے چند پتھر تو نظر آگئے، لیکن انھیںجنوبی کشمیر کے تین اضلاع میں صرف ایک ماہ کے دوران ۶۰ سے زائداُٹھنے والے جنازے نظر نہیں آئے۔ اُنھیں اُن ۶۰ نوجوانوں کے لواحقین ، عزیز و اقارب کی وہ ذہنی کیفیت نظر نہیں آ ئی، جس نے اس پورے خطے کے لوگوں کو بے قابو بنادیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے والد بزرگوار ۸۰ سال کی بھر پور زندگی جینے کے بعد رحلت کرگئے تھے تو موصوفہ کئی ماہ تک اُس صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ آج بھی بار بار سرکاری تقریبات کے دوران وہ اپنے والد کو یاد کرکے جذباتی اور آب دیدہ ہوجاتی ہیں۔ جب وہ اپنے بزرگ والد کی جدائی کو برداشت نہیں کرپاتیں تو اُن والدین کی کیا حالت ہوگی جن کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیںاُنھیں روز موصول ہوتی رہتی ہیں،جو اپنے سامنے اپنے بچوں کو بھارتی فورسز کی گولیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ اُنھیں اُن بستیوں کا درد و کرب نظر کیوں نہیں آرہا ہے، جہاں روز صرف جنازے ہی اٹھتے ہیں؟ انھیں اُن والدین کی اذیت اور تکلیف محسوس کیوں نہیں ہوتی، جن کے بچے زخمی ہیں اور وہ  درد و کرب سے چیختے چلّاتے رہتے ہیں؟ اُنھیں اُن بوڑھے والدین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا ہے جو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والے بچوں ہی کا سہارا بننے پر مجبور ہیں، کیوںکہ اُن کی آنکھوں کی بینائی فورسز اہل کاروں نے پیلٹ گنوں سے چھین لی ہے؟… خاتون ہونے کی حیثیت سے اُنھیں اُن ماؤں کے دُکھی دل نظر کیوں نہیں آتے، جو اپنے جواں سال بیٹیوں کی لاشوں کو دولہے کی طرح سجاتی سنوارتی اور اپنی دیوانگی بھری مامتاکا مظاہرہ کرتی ہیں؟

نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو پتھراؤ کے نتیجے میں زخمی بچوں کی چیخ پکار صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کیوںکہ اس کے ذریعے سے وہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے عوام کو ’گمراہ ‘ ثابت کرسکیں، حالاں کہ کشمیری مظلوموں کو معلوم ہے کہ ۲۰۱۰ءمیں ۱۲۸نہتے لوگوں کا خون    اُن فورسز ایجنسیوں نے بہایا ہے جن کی یونیفائڈ کمانڈ کی سربراہی عمر عبداللہ صاحب کررہے تھے۔ اِن کے دور اقتدار میں ہی بٹہ مالو سری نگر کے چھے سالہ سمیر احمد راہ کو جس بے دردی کے ساتھ   جاں بحق کردیا گیا،اُس کی مثال چنگیزی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ انڈین سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہل کاروں نے ٹافی لانے کے لیے بازار گئے سمیر کو پیروں تلے روندکر بڑی اذیت ناک طریقے سے قتل کردیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں لاشوں تک کو بخشا نہ گیا۔ کشمیریوں کو یہ بھی یاد ہے کہ شوپیاں کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری اور قتل کوعمر عبداللہ نے کس بے تکلفی کے ساتھ  بے تکی بات کہا تھا۔ اَن گنت معصوم انسانوں کاقتل عمد عمر عبداللہ اور اُن کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اَدوار ِحکومت میں ہوا تھا اور دونوں باپ بیٹوں نے کشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی اُف تک نہیں کیا۔

یہی حال پی ڈی پی کا بھی ہے۔ محبوبہ مفتی کے عہد ِاقتدار میں کشمیر کی سر زمین خون سے لالہ زار ہوگئی۔ ۲۰۱۶ءسے تاحال ہر ہفتے کسی نہ کسی عام شہری کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ صاحبہ ان المیوں کے ’جواز‘ بھی تراشتی ہیں اور آگے بڑھ کر سرکاری فورسز کو ’اچھی کارکردگی ‘ پر شاباشی بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی یک طرفہ مذمت کوئی معانی نہیں رکھتی ہے۔

جنوبی کشمیر ۸؍جولائی۲۰۱۶ءسے جن گھمبیر حالات کا شکار ہے، اُن میں عام لوگوں کی ذہنی حالت اور کیفیت کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ اقتدار کا مزہ لینے والوں اور اُن کے چیلوں کو بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس خطے میں آئے روز بھری جوانیاں لُٹ رہی ہیں، والدین اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سیکڑوں جسمانی طور پر ناکارہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سنگ باری کررہے ہیں اور یہ انکاؤنٹر والی جگہوں پر جاکر فوجی آپریشن میں بے خوف ہوکر رخنہ ڈالتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے کتنے ساتھی اور بھائی قبرستانوں میں پہنچا دیے گئے ہیں کہ جن معصوم نوجوانوں کے ساتھ یہ کھیلا کرتے تھے، اُنھیں جب وردی پوش ابدی نیند سلا نے کے بعد اپنی’ کامیابیوں‘ کا ڈھنڈورا پیٹیں تو متاثرین میں غم وغصہ دوآتشہ ہونا ایک طے شدہ امر ہے۔ آئے روز یہاں جنازوں میں شریک ہونے والوںاورانسانی لاشوں کو کندھا دینے والے سوگواروں کے جذبات کس طرح کھلے عام مجروح کیے جاتے ہیں اس کا اندازہ مذمتی ٹولے کو نہ بھی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احساس بیگانگی اور انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکانے پر منتج ہوتا ہے۔ اگر اربابِ اقتدار امن پسنداور نبض شناس ہوتے تو یہ سنگ بازی کرنے والوں اور انکاونٹر والی جگہوں پر سینہ ٹھونک کے جانے والے مردوزن کے خلاف زبان درازی نہ کرتے بلکہ اُن کی نفسیاتی اُلجھنوں اور ذہنی اضطراب و پریشانی کو سمجھتے اور اُن کے دُکھ درد کا مداوا کریں۔

دوغلی سیاست کے بل پر جو لوگ کشمیریوں کے سروں پر سوار کیے گئے ہیں ،اُن کا ضمیر مرچکا ہے، وہ اپنے دہلوی آقائوں کو خوش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے عوامی جذبات کا ساتھ دیں ۔

۴ مارچ ۲۰۱۸ء کو جنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیاں میں ایک اور خونی کھیل میں دوعسکریت پسندوںکے علاوہ چار بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کوبھارتی فوجی اہل کاروںنے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا۔مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کے مطابق اس روز جب لوگ مغرب کی نماز ادا کرکے مسجد سے باہر آرہے تھے، توکچھ ہی دیر بعد شوپیاں سے ۶ کلو میٹر دُور ترکہ وانگام روڑ پرپہنوپنجورہ نامی گاؤںکے نزدیک مسافر گاڑیوں کی تلاشی لینے والے مقامی بھارتی فوجی کیمپ سے وابستہ ۴۴راشٹریہ رائفلز کے اہل کاروں نے ایک سوفٹ گاڑی زیر نمبر JK04D 7353پر اندھا دھند فائرنگ کی اور تین بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔عوامی ذرائع کے مطابق گاڑی پر فائرنگ سے قبل جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں ایک عسکریت پسند جان بحق ہوگیا۔

بھارتی فوج نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ میں ایک جنگجوعامر احمد ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیاں جان بحق ہوگیا۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد آرمی نے ایک اورمتضاد بیان میں کہا کہ اس واقعے میں جنگجو ؤںکے ساتھ موجود تین مقامی نوجوان بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جن کی شناخت سہیل احمد وگے ولد خالد احمد وگے (عمر۲۲ سال) ساکن پنجورہ،شاہد احمد خان ولد بشیر احمد خان (عمر ۲۳ سال) ساکن ملک گنڈ، اور شاہ نواز احمد وگے ولدعلی محمد وگے (عمر۲۳ سال) ساکن مولو کے طور پر ہوئی۔بھارتی فوج کے بیان کے مطابق یہ تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے ساتھ گاڑی میں سوار تھے اور اُنھوں نے بھارتی فوج پر مبینہ طور پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں یہ چاروں جاں بحق ہوگئے۔فوج کے بقول تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے لیے کام کررہے تھے۔

مقامی لوگوں نے آرمی کی اس پوری کہانی کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے تینوں نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں مار دیا ہے اور اُنھیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ۔ مقامی لوگوں کی دلیل کو اس بات سے بھی تقویت حاصل ہورہی ہے کہ اگلے دن، یعنی۵مارچ کی صبح کو اس سانحے کی جگہ سے کچھ ہی دُوری پرموجودویگن سے ایک اورنوجوان گوہر احمد لون ولد عبدالرشید لون (عمر۲۴سال) ساکن مولو کی لاش برآمد ہوئی۔بالفرض مان بھی لیا جائے کہ پہلے تین نوجوان جنگجوئوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے تو پھر دوسری گاڑی میں سوارگوہر احمد لون کو کیوں نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا؟حالاںکہ بھارتی فوج کی کہانی میں پہلے سے ہی تضاداور جھول پایا جاتا ہے۔جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اُس کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر فوج کے ذرائع سے مختلف نیوز ایجنسیوں نے جو خبر شائع کی، اُس میں ایک عسکریت پسند کے شہیدہونے کی اطلاع دی گئی اور ساتھ میں اُس کی تصویربھی عام کردی گئی جس میںاُس کی لاش وردی پوشوں کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ دکھائی دے رہی تھی۔ اگر وہ اُسی گاڑی میں سوار ہوتا جس میں یہ تین معصوم نوجوان تھے تو پھر اُن کی خبر پہلے مرحلے میں نشر کیوں نہیں کی گئی؟

دراصل حقیقت یہ ہے کہ حسب روایت بھارتی فوج،کشمیری جنگجوئوں کے ساتھ جھڑپ ہونے اور اُن کے شہید ہوجانے کے بعدآپے سے باہر ہوگئی اور اُنھوں نے شاہراہ پر چلنے والی گاڑیوں کو بے تحاشا انداز میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کی زد میں دونوں گاڑیاں آگئیں جن میں یہ تین نوجوان اور دوسری گاڑی میں ایک اور نوجوان گوہر احمد لون تھا اور یہ چاروں اَدھ کھلے پھول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرجھا گئے۔ اس سانحے کے حوالے سے فوج نے بیس گھنٹوں کے اندر تین بار متضاد بیانات جاری کیے۔ اگلے دن جب گوہر احمد کی لاش برآمد ہوئی تو فوجی ترجمان نے گذشتہ دوبیانات کے بالکل ہی متضاد تیسرا بیان جاری کردیا، جس میں بتایا گیا کہ فوجی ناکے کی جانب دوتیز رفتار گاڑیاں آرہی تھیں، جنھیں رُکنے کے لیے کہا گیا۔ گاڑیاں رُکنے کے بجاے اُن میںسوار جنگجوؤں نے فوج پر فائرنگ کی۔ جوابی کارروائی میں ایک جنگجو اور اُس کے چار اعانت کار جان بحق ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کا یہ بیان صحیح ہے تو گذشتہ دو بیان کیوں دیے گئے ؟ عام لوگ اور عینی شاہدین کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں جو جھڑپ جنگجوؤں کے درمیان ہوئی ہے اُس میں صرف ایک جنگجو جان بحق ہوا تھا۔ اس لیے پہلے مرحلے پر وہی کہا گیا جو ہوا تھا، لیکن بعد میں فوج نے  جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر جوگھناؤنا کھیل کھیلا اُس پر پردہ پوشی کے لیے متضاد بیانات جاری کیے گئے۔حالاںکہ بھارتی فوج کو کشمیر میں عام لوگوں کو مارنے کے لیے نہ صرف نئ دہلی سےاشیرواد حاصل ہے بلکہ اُن کی جانب سے کشمیریوں کے تئیں جارحانہ اور قاتلانہ رویے پر اُنھیں تمغے اور ایوارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ بھارت میں موجود بی جے پی حکومت عام کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کو کھلے عام نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کیا جاتا ہے۔

جن گھرانوں کے چشم و چراغ اس سانحے میں بھارتی فوج نے گل کر دیے ہیں، اُنھوں مظلوموں نے بھارتی فوج کے تمام تر دعوؤں کو جھٹلا کر اُن کی کہانی کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ شہیدسہیل احمد وگے کے بھائی محمد عباس وگے نے بھارتی فوجی دعوے کی نفی کرتے ہوئے ایک مقامی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’میں نے سہیل کو شام ۲۴:۷ بجے فون کیا تو   اُس نے مجھ سے کہا کہ وہ ماں کو بہن کے گھر چھوڑ نے نزدیکی گاؤں پہلی پورہ پہنچ چکا ہے۔اُس کے صرف آدھے گھنٹے بعد ہم نے یہ المناک خبر سنی کہ فوج نے سہیل کو وہاں سے واپس آتے ہوئے راستے میں مار دیا ۔‘‘اسی طرح شاہداحمد خان کے والد بشیر احمد نے کہا کہ:’’میرا بیٹا بارھویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ نماز پڑھنے نکلا تھا۔ اُسے جرم بے گناہی میں مار دیا گیا‘‘۔جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا وہاں کے عام لوگوں نے بھی فوج پر الزام عائد کیا کہ اُنھوں نے جھڑپ کے دس منٹ بعد جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر چار بے گناہ نوجوانوں کو جان سے مار دیا۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ، پلوامہ اور کولگام ضلع میں عوامی غم و غصہ بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ یہاں وردی پوش اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے حد سے تجاوز کررہے ہیں۔ نہتے اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی جیسے اُنھیں کھلی چھٹی حاصل ہے۔جنوبی کشمیر میں رواں سال میں اب تک ۳۰ سے زائد عام اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوج نے گولیوں کا شکاربناکرشہید کردیا ہے، اور بھارتی فوج کی نہتے عوام کے خلاف نہ رُکنے والی کارروائی میںسیکڑوں افراد سال کے پہلے دو مہینوں میں جسمانی طور پر مضروب ہوچکے ہیں۔

ماہِ جنوری میں ایسے ہی ایک سانحے میں بھارتی فوج آر آرکے اہل کاروں نے اِسی ضلع میں  تین نوجوانوں کوجرمِ بے گناہی میں گولی مار کر جاں بحق کردیا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بعد میںمقامی پولیس نے جب اس سانحے میں ملوث بھارتی فوج کے میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایف آئی آر پرمزید کارروائی کرنے پر روک لگا دی اور جموں و کشمیر گورنمنٹ سے اس سلسلے میںجواب طلبی کی۔ اس سے پہلے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی حکومت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس سانحے کی تحقیقات کرکے ملوث اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ لیکن جب ۵مارچ کو ریاستی کٹھ پتلی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا تو اُنھوں نے عوامی مفادات اور جان و مال کے تحفظ کی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتادیا کہ میجر آدتیہ کا نام ایف آئی آر میں شروع سے درج ہی نہیں تھا۔گویا عوام کو گمراہ کیا جارہا تھا، وقتی طور پر اُن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی داؤ کھیلا گیا کہ میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔یہاں ہر قتل عام میں ملوث اہل کاروں کو بچانے کے لیے پہلے ہی سے ریاستی کٹھ پتلی حکومت تیار ہوتی ہے۔

یہ المناک صورتِ حال گذشتہ سال میجر گوگوئی کے کیس میں بھی دیکھنے کو ملی، جس نے بیروہ بڈگام میں فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے انسانی حقوق کی سر عام بے حرمتی کی۔  اُن کے خلاف ریاست میں قائم ہند نوازسرکار نے کافی بیان بازی کی تھی، لیکن جب قانون کی بات آئی تو اُنھیں سزا دینے کے بجاے فوج نے اُنھیں ترقی سے نوازا۔ ہندستان میں اُن کے نام کی T-Shirts تیار کی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ بِگ گئیں۔ اُنھیں ہندستانی میڈیا اور سیاست دانوں نے ہیروکے طور پیش کیا۔ کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو جب تمغوں سے نوازا جارہا ہو، جب اُن کی حمایت میں میڈیا یک طرفہ اور جانب داری پر مبنی رپورٹیں شائع کرتا ہو، جب پٹواری اور مقامی پولیس تھانے کے اہل کاروں سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ مقامی سرکاری عہدے داراور سیاست دان تک اُنھیں بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی رپورٹ تیار کرنے میں پیش پیش ہوں، تو بھلاکیوں کر وردی پوش عام شہری ہلاکتوں سے باز رہیں گے!جب فوج کو دشمن کی طرح عوام کے رُو برو کھڑا کیا جائے، جب کسی بھی شخص کی جان لینے کے لیے سنگ باز، تخریب کار، او جی ڈبلیو، احتجاجی، پاکستانی حمایت یافتہ جیسی اصطلاحوں کو جواز بنایا جانے لگے تو بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے ، جس کے ذریعے سے یہاں پر کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے راہیں آسان کی جارہی ہیں۔بھارتی فوج اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے فرقہ پرست ذہنیت کو بری طرح سے حاوی کیا جارہا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا یہاں یہ سلسلہ بھلا کیسے رُک سکتا ہے، بلکہ کشمیری عوام کے لیے آنے والا زمانہ مزید پریشان کن اور پُرتشدد ثابت ہوسکتا ہے۔۲۰۱۶ء سے برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد سے عام کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ آئے روز وادی کے اطراف و اکناف میں کسی نہ کسی ماں کی کوکھ اُجاڑ ی جاتی ہے، کوئی نہ کوئی نونہال اور معصوم نوجوان زندگی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔

کشمیریوں کی نسل کشی کی ان کھلے عام وارداتوں کی پشت پناہی نہ صرف سرینگر ودلی میں قائم حکومتیں کررہی ہیں بلکہ ایسا کرنے کے لیے یہاں پر موجود دس لاکھ فوج اور نیم فوجی دستوں کو آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ(’افسپا‘-AFSPA)کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ سابق بھارتی فوجی سربراہ نے’افسپا‘ کو مقدس کتاب سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کو ریاست جموں وکشمیر میں لازمی قرار دیا ہے۔ اس قانون کی رو سے فوج کے خلاف ہوم منسٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ وقتی حالات سے نبٹنے کے لیے یہاں کی حکومتیں تحقیقات وغیرہ کا خوب ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں، لیکن عملی طور پر یہ سب فضول کاوشیں ہی ثابت ہوتی ہیں۔اس لیے یہ بات عیاں ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی اور سنگین قسم کے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تب تک کوئی روک نہیں لگ سکے گی، جب تک عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں۔

عالمی طاقتوں کی جانب داری اور مفاد پرستی کا تو کوئی گلہ نہیں، البتہ مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ عالمِ اسلام اگر چاہے تو احسن طریقے سے ہندستانی حکومت پر دباؤ بڑھا کر ہندستانی حکمرانوں کو مسئلۂ کشمیر کے مستقل حل پر راضی کرسکتا ہے، لیکن ملت کے یہ حکمران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں بھارتی حکمرانوں کی خوب آو بھگت کررہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور اُن کی خوشنودی کے لیے سرزمینِ عرب میں ۱۵۰۰سال بعد مندر اور بُت کدے بنانے کے لیے زمین تک فراہم کرتے ہیں۔ گویا ہرجانب سے دلی سرکار کو اطمینان حاصل ہوچکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ وہ کررہے ہیں، اس کے لیے اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ اسی طرح ہند نواز سیاست دان کشمیریوں کی بھلائی کی خوب باتیں کرتے ہیں، وہ شہری ہلاکتوں پر بیان بازیاں بھی کرتے ہیں لیکن اُن کی اوّلین ترجیح اقتدار حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اقتدار میں آکر وہ انسانی لاشوں پر چل کر دلی کے مفادات کی آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کا ضمیر اُنھیں ذرا بھی احساس نہیں دلاتا کہ جن لوگوں کے ووٹ سے وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اُنھی لوگوں کے قتل عام پر وہ نہ صرف مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں بلکہ اُن کے قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے مقامی وکیل کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔

۱۶مارچ کو بھارت کو ’ہندوتوا‘ ریاست بنانے والی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کشمیر میں آزادی پسندعوام سے نبٹنے کے لیے ’طاقت‘ کی ضرورت ہے۔ فوج کو طاقت کا کھلا استعمال کرنے کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔ اسی طرح کا ایک بیان بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی دیا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت آئے روز اِس طرح کی اشتعال انگیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔مختصر یہ کہ کشمیر ی عوام بھارتی فوجیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ دنیا کشمیریوں کے قتل عام اور نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ پاکستان جسے کشمیری قوم نے ہمیشہ اپنے محسن کی حیثیت سے دیکھا ہے،اپنا فریضہ کماحقہ انجام نہیں دے رہا۔

بار بار اور نہ رکنے والی عام اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مار دینے کی کارروائیوں کا تذکرہ سن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔اپنے نونہالوں کی لاشیں دیکھ دیکھ کر ذہنی طور پر مفلوج بنتے جارہے ہیں۔ یہاں شادی کی باراتوں سے زیادہ جنازے اُٹھتے ہیں، یہاںاجتماعی خوشیوں کی تقریب کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ ماتمی مجالس اور تعزیتی تقریبات آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسانیت بے حس ہوچکی ہو اور اہلِ کشمیر کے قتل عام سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ ایسے میں آخری سہارا اللہ رب کائنات کا ہی ہے۔اس لیے اب ہماری تمام تر اُمیدیںاپنے رب ہی سے وابستہ ہیں ۔ اُس کی مدد کا اس قوم کو پورا یقین ہے اور ہمارا یہی یقین ہماری کمزور قوم کو پہاڑ جیسے دشمن کے سامنے پورے عزم کے ساتھ کھڑا رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

حال ہی میں مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱نومبر کو دہلی کی تہاڑ جیل نمبر۱ کے وارڈ ’سی‘ اور ’ایف‘ میں جیل کے سیکورٹی پر مامور اہل کاروں نے ۱۸قیدیوں پر بے پناہ تشدد کرکے اُنھیں شدید زخمی کر دیا۔ یہ وحشیانہ عمل کرنے والوں میں جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کے اسپیشل دستے اور کوئیک رسپانس فورس سے وابستہ اہل کار شامل تھے۔

جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین کے فرزندسیّد شاہد یوسف کا نام  قابلِ ذکر ہے۔ ۲۳نومبر ۲۰۱۷ء کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور پر شاہد یوسف کی خون آلود بنیان بھی پیش کی۔ ۲۸نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعے کو زیربحث لاکر جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویش ناک قرار دیا۔ قائم مقام چیف جسٹس گپتامتل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا: ’’ہمیں دیکھنا ہوگا، یہ واقعہ قطعی طور پر بلاجواز ہے، اگر یہ صورتِ حال دہلی میں ہے تو دیگر جگہوں میں    کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’معاملہ انتہائی سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی، جسے واقعے کی تحقیقات کرکے کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔

خود بھارت کے کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیری قیدیوں کو زبردستی پیشاب پینے پر مجبور کیا۔ اس واقعے کی تصویروں میں قیدیوں کے لہولہان بدن اور جسم کی چوٹیں ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حملہ کس قدر درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ قیدیوں کے تمام جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وردی پوشوں کے حملے کا ہرگز کوئی جواز نہیں تھا، یعنی قیدیوں کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔ اس خبر کے منظرعام پر آنے سے ریاست جموں و کشمیر میں بالعموم اور بیرون وادی نظربندوں کے لواحقین میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے تہاڑ جیل کے اس واقعے کو وحشیانہ اور مہذب دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں پہلے ہی سے اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ کشمیری قیدی، بھارت کی جیلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اُن پر ہروقت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسی طرح کا واقعہ کٹھوعہ جیل میں بھی پیش آیا، جہاں کشمیر ی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر مارپیٹ کی گئی۔ بیرونی ریاست کشمیری قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک روز کا معمول بن چکا ہے اور  ان جیلوں میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کی رُوداد سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار نہ صرف تہاڑ جیل کے بارے میں بلکہ بھارت کی دیگر جیلوں کے حوالے سے بھی یہ خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ وہاں نظربند کشمیری قیدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جموں کے کوٹ بلوال جیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جیل حکام بالکل ننگا کر کے اس کی مارپیٹ کر رہے تھے، حتیٰ کہ جموں کے ایک اخبار میں چنداعلیٰ پولیس افسروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جیل کی سیکورٹی پر مامور کئی اہل کار اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کے لیے قیدیوں کو بالکل ننگا کرتے ہیں، اُنھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا ظلم روا رکھتے ہیں۔

۲۰۱۶ء میں جب وادی میں عوامی احتجاج کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاکر اُنھیں جموں کے کورٹ بلوال، امپھالہ، ہیرانگر، ادھم پور، کٹھوعہ اور ریاسی کی جیلوں میں منتقل کیا، تو وہاں سے کچھ ہی عرصے میں یہ خبریں موصول ہونے لگیں کہ  ان جیلوں میں نظربند کشمیری قیدی نسلی تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ کورٹ بلوال میں     جیل حکام نے غیرقانونی طور پر یہ قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے کہ کشمیری قیدیوں کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا، جو اُنھیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیتے تھے۔ کھانے پینے کے اوقات ایسے مقرر کیے گئے تھے کہ لوگوں کو اِن جیلوں کے مقابلے میں ابوغریب اور گوانتاناموبے بہت چھوٹے نام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن کا کھانا صبح آٹھ بجے دیا جاتا تھا اور شام کا کھانا دن کے چار بجے فراہم کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اخبارات میں مسلسل خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔

تہاڑ جیل کے بارے میں یہ بات اب عیاں ہے کہ یہاں کشمیری قیدی انتہا درجے کے تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں جیل میں قید جرائم پیشہ افراد کو زیادہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری قیدیوں کو یہاں غیرملکی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیری مزاحمتی تحریک کی علامت خاتون رہنما زمرد حبیب نے اس جیل میں پانچ سال گزارے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے جیل کے شب وروز کو ایک کتابی صورت ’قیدی نمبر۱۰۰‘ میں شائع کیا ہے۔ اُس میں درجنوں دل خراش واقعات درج ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کا سلوک کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب دلی میں مقیم معروف کشمیر ی صحافی افتخار گیلانی نے بھی تحریر کی ہے۔ اُنھیں بھی کشمیری ہونے کے جرم میں تہاڑ جیل میں مہینوں گزارنے پڑے ۔ تہاڑجیل سے رہائی پانے والے کسی بھی کشمیری نوجوان سے جب ملاقات کرتے ہیں تو اُن کی رودادِ قفس میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ جیل حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے عام قیدی بھی ہمارے ساتھ وہاں غیرانسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

یہی حالات بھارت کی دوسری جیلوں کے بھی ہیں۔ راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان محمد اسلم خان گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مقید ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے باعزت بَری کیے جانے کے بعد اُنھیں ممبئی منتقل کیا گیا، وہاں اُنھیں کسی اور کیس میں ملوث کرکے عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت وہ امراواتی کی جیل میں بند ہیں ۔ دو ماہ پہلے اُن کے والدین کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہاں ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کئی سال کے بعد اُن کے والدین کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا موقع مل رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے ۲۰فٹ کی دُوری پر مائیکروفون کے ذریعے ان کی چندمنٹ کی ہی ملاقات کروائی گئی۔ وکیل کے ذریعے اسلم کے والدین کو معلوم ہوا کہ اُنھیں وہاں ۴/۴سائز کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس قید تنہائی میں اُنھیں صبح کے وقت دوبالٹی پانی دیتے ہیں، جو اگلی صبح تک کے لیے ہوتا ہے۔ ان ہی دو بالٹی پانی سے اُنھیں اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔ وضو کے لیے وہی پانی ہے اور استنجا کے لیے بھی۔ کپڑے دھونے ہوں یا پھر غسل کرنا ہو، پیاس بجھانی ہو یا پھر کھانے کے برتن صاف کرنے ہوں، یہ ضروریات اُنھیں محض اس ۵۰لیٹر کے پانی سے ہی پوری کرنی ہیں ۔ تصور کیا جائے کہ ۴/۴ کے سیل میں ایک انسان کو برسوں قید میں رکھا جائے، اُسے جھلسادینے والی گرمی میں بھی محض چندلیٹر پانی فراہم کر کے، اسی پانی سے ۲۴گھنٹے تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے تو اُس اللہ کے بندے کی جسمانی و ذہنی حالت کیا ہوتی ہوگی؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے اسیران کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں ہے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ ملاقات کو لے کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے میڈیا نے کئی ہفتوں تک خوب پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے اس ملاقات میں کلبھوشن کی والدہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ بغل گیر ہونے کی اجازت نہیں دی، اُن کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑا کردی۔ لیکن اُن کی اپنی جیلوں میں کشمیری اور مسلم قیدیوں کے ساتھ جب اُن کے عزیز واقارب ہزاروں میل کا سفر طے کرکےملاقات کرنے کے لیے آجاتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُنھیں نامراد ہی واپس لوٹ آنا پڑتا ہے۔ اگر ملاقات ہوبھی جاتی تو ملاقاتیوں اور قیدی کے درمیان پندرہ بیس فٹ کا فیصلہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ساتھ دیوار کے سامنے بیسیوں قیدی ملاقات کے لیے لائے جاتے ہیں۔ پندرہ فٹ کی دوری پر دیوار کی اگلی سمت میں درجنوں عزیز واقارب  چِلّا چِلّا کر اپنے پیاروں سے بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن شور و غل میں نہ قیدی ہی اپنے ملاقاتیوں کی بات سنتا ہے اور نہ ملاقاتی ہی، قیدی کی بات کو سمجھ پاتا ہے۔ اس طرح ۱۰،۱۵منٹ میں یہ لوگ مایوسی کے عالم میں واپس مڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی سختی کی وجہ سے  اب کشمیر میں بیش تر والدین نے بیرون ریاست مقید قیدیوں سے ملاقات کا سلسلہ ہی ترک کردیا ہے۔

بھارت کی جیلوں میں بند اِن ستم رسیدہ کشمیری قیدیوں کے مقدمات بھی طویل عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں، جن کے خلاف مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی چارج شیٹ مختلف ایجنسیوں نے تیار کی ہوتی ہے۔ اُن کے خلاف کارروائی کے لیے ایسی پیچیدگی سے  مقدمات درج کیے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ کو بھی چھوٹ جانے میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰۱۷ء ہی میں ریاست کے اسیران طارق احمد ڈار، رفیق احمد شاہ اور اُن کے ایک ساتھی کو تہاڑجیل سے ۱۲سال بعد کورٹ نے باعزت رہا کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی کے قیمتی ۱۲سال کس کھاتے میں جائیں گے؟بے گناہ افراد کو بے گناہ ثابت ہونے میں  کیوں ۱۲سال لگے؟ یہ کچھوے کی چال چلنے والی عدالتی کارروائی بھی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ کشمیری قیدیوں کے لیے نہ ریاستی حکومت فکرمند ہے اور نہ دلّی میں کوئی ایسا صاحب ِ دل فرد ہے، جو انصاف اور اصولوں کی بات کرتے ہوئے ظلم و جبر کے اس سلسلے پر لب کشائی کرکے اربابِ اقتدار کو اقدامات کرنے کے لیے کہے۔

جیل مینول میں قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، مقید افراد کے حقوق ہوتے ہیں، لیکن   بڑا ہی ہولناک المیہ ہے کہ اس ملک میں اس طرح کے تمام اصول، قواعد و ضوابط اور قانون کو بالاے طاق رکھا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ کشمیری قیدیوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تہاڑ اور دیگر ریاستوں کی جیلوں سے اُنھیں اپنی ریاست کی جیلوں میں منتقل کرکے اُن کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے سبب جس طرح سے کشمیریوں کے بارے میں ایک انتہاپسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بیرون  ریاستوں کی جیلوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر عوامی جگہوں پر بھی کشمیریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دو برسوں سے کئی بھارت کے شہروں میں کشمیری طلبہ، تاجر اور دیگر لوگوں پر   جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے قبل دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں سوار دیگر سواریوں کی شکایت پر تین کشمیری نوجوانوں کو جہاز سے اُتار کر ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔   وجہ یہ تھی کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں نے اُنھیں مشکوک تصور کیا او ر  اُن کی موجودگی میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔ ریل میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرنے کا جرمانہ ۵۰سے ۱۰۰روپے ہے۔ ماہِ جنوری کے پہلے ہفتے میں بھارت کی ریاست اترپردیش میں ایک کشمیری طالب علم جلدی میں ٹکٹ لینا بھول گیا۔ اُنھیں ریلوے پولیس پکڑ کر جرمانہ کرنے کے بجاے دلی پولیس کی خصوصی سیل کے حوالے کردیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کشمیری ہونے کی وجہ سے دلی پولیس  یہ دیکھ لے کہ کہیں اُن کا تعلق کسی ’ دہشت گرد‘ گروہ سے تو نہیں ہے۔ دلی پولیس نے بعد میں     اُن کے دیگر دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے اُن کی کئی روز تک پوچھ گچھ کی۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی بات کرنے والوں کا شہریوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ ہی بتا رہا ہے کہ کشمیری بھارتی شہری نہیں ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منظم طریقے سے کشمیریوں کے خلاف راے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے،  جس کا براہِ راست اثر یہ ہو رہا ہے کہ ریاست سے باہر ہرجگہ کشمیری مسلمان کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

کشمیریوں کی جدوجہد کی کمر توڑنے اور تحریکی قیادت کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اب کشمیری لیڈروں کو حوالہ کیسز میں ملوث کیا جارہا ہے۔ حریت لیڈران بالخصوص سید علی گیلانی کے قریبی ساتھیوں کو این آئی اے کے ذریعے گرفتار کرکے دلی منتقل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ۲۰۱۶ء کے عوامی انتفادہ میں اُن کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں اُن کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ حزب کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد جب عوامی تحریک برپا ہوئی تو اُس کے فوراً بعد یہ تمام لیڈران گرفتار کرلیے گئے۔اُنھیں سزا دینے کے لیے این آئی اے کا اسپیشل کورٹ تشکیل دیا جاچکا ہے۔ یہ طے ہے کہ اُنھیں فرضی الزامات کے تحت طویل عرصے کے لیے جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید رکھا جائے گا۔ بھارتی حکمران کشمیر کے ہر مسئلے کا حل طاقت کے بل پر نکالنا چاہتے ہیں۔ دھونس، دبائو، زور زبردستی کے ذریعے سے عام کشمیریوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ اُن کی جدوجہد ایک لاحاصل عمل ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن روات نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ کشمیر میں برسر پیکار عسکریت پسندوں اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرنے کا وقت آچکا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ جس طرح عسکریت پسند کو  بغیر ہچکچاہٹ کے شہید کردیا جاتا ہے اُسی طرح اب سیاسی طور پر پُر امن جدوجہد کرنے والوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ کار بدِ پہلے سے جاری ہے۔ عام اور نہتے کشمیری آئے روز شہید کردیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ بھارتی فوجی سربراہ نے علانیہ کہہ دیا کہ وہ ایسا کرنے والے ہیں۔

بدقسمتی سے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ دُنیا بھر میں بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہرجگہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘ والا معاملہ بن چکا ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور قوموں کے خلاف کتنے ہی گھنائونے ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال میں لائیں، اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اُن پر کہیں سے کوئی انگلی نہیں اُٹھتی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں بیان بازیوں سے   آگے بڑھ کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ حکومتوں پر دبائو بڑھانے کے لیے عالمی سطح کی مہم نہیں چلاتیں۔ حالاںکہ گذشتہ تین عشروں کی تاریخ میں کس طرح کشمیر کی سرزمین پر انسانیت کی مٹی پلید کی گئی، کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی گئی، اس کی دنیابھر میں کہیں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوا ہوتا، دہلی سرکار کی جگہ پر کوئی مسلمان ملک ہوتا، تو شاید ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوجاتا۔ لیکن جب کشمیریوں کی بات آتی ہے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔

ایک طرف اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈاؤن کو کشمیریوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دے کر ایسی پابندیوں کو عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاہے، دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کا ذہنی ٹارچر اور جسمانی تعذیب کے نت نئے حربے بروے کار لائے جارہے ہیں۔ اور ایسا کر تے ہوئے تمام اخلاقی اور انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔   یہاں کے اخبارات کے مطابق ایک اندوہ ناک خبر یہ ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کاپی جی آئی، چندی گڑھ میں ڈاکٹر نے صرف اس بناپر علاج کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔

نسرین ملک نامی اس مریضہ کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی، چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواڑی نامی ڈاکٹر نے ابتدا میں ہم سے اچھا سلوک کیا۔ لیکن جب انھوں نے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نسخہ جات اور کاغذات دیکھے، جن سے انھیں پتا چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولا ہوگئے‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے ہم سے کہا: ’’ تم لوگ وہاں کشمیر میں ہمارے( فوجی ) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج کرانے آتے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دیے اور مریضہ کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اگر چہ ڈاکٹر نے ہمیں براہ ِراست ہسپتال سے چلے جانے کے لیے تو نہیں کہا، البتہ اُنھوں نے ہم سے کہا: ’’ علاج پر ۱۵ لاکھ روپے خرچ آئے گا‘‘۔ حالاں کہ جس بیماری میں میری والدہ مبتلا ہیں، اُس کا وہاں پر زیادہ سے زیادہ ۸۰؍ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ اس طرح ہمیںوہاں نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی ایک فرد نے بھی از راہ ِ انسانیت ہماری رہنمائی نہیں کی، بالآخر ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتاؤ کی وجہ سے ہمیں بغیر علاج کے واپس لوٹنا پڑا۔‘‘ ازاں بعد جب اس افسوس ناک واقعے کو تشہیر ملی تو پی جی آئی، چنڈی گڑھ کی  انتظامیہ نے تحقیقات کرکے قصور وار ڈاکٹر کے خلاف ضابطے کی ’کارروائی‘ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور ان’تحقیقات‘ کا حشر بھی کشمیر میں کسی نوجوان کے قتل پر انکوائری بٹھانے کے عمل جیسا ہو نا طے ہے۔

اس واقعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست سے باہر کشمیریوں کے تئیں کیسی مردہ ضمیری اور مریضانہ ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چشم فلک نے اور چیزوں کے علاوہ وہ دن بھی دیکھا، جب ۴ا۲۰ ء کے تباہ حال سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی ا مداد کے لیے بھارت کے ایک تعلیمی ادارے کے پنڈت سربراہ نے امدادی اشیا جمع کرنے کے لیے کیمپ لگایا ۔ دیش بھگتوں نے نہ صرف اسے اُکھاڑپھینکا، بلکہ پرنسپل موصوف پر یہ کہہ کر تشدد کیا کہ وہ کشمیر کے’ ملک دشمنوں‘کے لیے چندا کیوں جمع کر رہے تھے؟ آج کل اس نوع کی مریضانہ ذہنیت چونکہ سیاسی سرپرستی اور سماجی پذیرائی حاصل کر چکی ہے ،اس لیے کشمیر یوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے ان واقعات پر ناک بھوں چڑھانا اور حیرت یا رسمی تشویش ظاہر کر نا حماقت کے مترادف ہے ۔

 اہلِ کشمیر کے ساتھ بھارت بھر میں منا فرت ، شکوک وشبہات ،تعصب اور تنگ نظری کی ذہنیت روز بروز اپنی تمام زہر ناکیوں کے ساتھ جا بجا ظاہر ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ  بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ ناروا سلوک ترک کیے جانے کی ہدایت ریاستوں کے نا م جا ری کی گئی ہے۔ اُن کایہ سرکاری حکم نامہ او ر بھارتی عوام کے نام یہ تازہ پیغام کہ ان کے یہاں کشمیر ی طلبہ اور مزدوروں وغیرہ کا ’خیرمقدم‘کیا جائے، ا س حقیقت کی تصدیق ہے کہ بھارت کی ریاستوں میں کشمیریوں کے تئیں راے عامہ کس قدر خراب ہے ۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ نوے کے عشرے سے برابر کشمیریوں کو بھارت میں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزارہا تکالیف ، جیلیں ، ہلاکتیں، لوٹ مار، نفرتوں اور تعصبات کا سامنا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے دور ِ اقتدار میں ریاست جموں و کشمیر کے اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی مجبوراً بھارتی ریاستوں کے آٹھ وزراے اعلیٰ کو ان کی حدود میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ ، تاجروں، مزردوں اورملازمین کوتحفظ دینے کی فہمایش کر نا پڑی تھی ۔ بہرصورت پی جی آئی، چندی گڑھ کا شرم ناک اور قابل صد تشویش واقعہ اہل عالم کے لیے چشم کشامعاملہ ہے کہ اہل کشمیر اپنے گھر اور گھر سے باہر یکساں طور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمارے اجتماعی حافظے کی تختی پر کشمیریوں کی ہراسانی اور پریشانی  کے ایسے ایسے دل دہلادینے والے واقعات رقم ہیں کہ کتنے ہی کم نصیب کشمیری ہیں جن کو ریاست سے باہر نسلی تعصب اور مذہبی نفرت کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ ایسے درجنوں واقعات اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن چکے ہیں۔

کشمیریوں سے بیرون ریاست عام بھارتی شہریوں کی جانب سے تعصب کی ایک اور کہانی گذشتہ سال عوامی احتجاج کے دوران سامنے آئی ۔ اس وقت پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے  جن چار زخمیوں کو سرکاری سطح پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا ، دو ماہ گزر جانے کے بعد جب وہ وادی میں واپس آئے تو اُنھوں نے یہاں دل دہلادینے والی سرگذشت بیان کی۔ اُن کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے اِن زخمی مریضوں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا۔ اُن کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ چھرّوں سے متاثر ہ ان کی آنکھوں پر صرف میڈیکل تجربات کیے گئے۔ان مریضوں کی وادی واپسی پر یہاں کے ڈاکٹروں نے جب اُن کا معائنہ کیا تو وہ بھی دنگ رہ گئے۔ اُنھوں نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ان مریضوں کی آنکھوں کو ماہرانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اِن پر صرف پیلٹ اثرات کی جانچ کے لیے تجربات کر کے اُن کی حالت کومزید ابتر کیا گیا۔حالاںکہ سری نگر حکومت نے اُن کے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی مسیحائی اور غم گساری کا خوب پروپیگنڈا کیا اور اُنھیں تمام سہولیات دستیاب رکھنے کے وعدے بھی کیے تھے۔ دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ایک متاثرہ فرد نے ذاتی طور پر راقم سے کہا کہ وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈر آکر صرف ہمارے ساتھ اپنا فوٹو کھینچواتے تھے ،وہاں ہمارا کسی قسم کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہوا، اور ہمیں معمولی دوائی تک بازار سے خرید کر لانے کو کہا جاتا تھا۔

 یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بیرون ریاست کشمیری طلبہ ، تاجروں اور ضروری کام کاج کے لیے عام کشمیریوں کی جگہ جگہ تذلیل ایک معمول بنا ہوا ہے۔گاڑیوں میں ، مارکیٹ میں، ریل گاڑیوں کے ڈبوں میں کشمیری لوگ تعصب اور تنگ نظری کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُنھیں طعنے دیے جاتے ہیں اور خوف اور ڈر کے ماحول میں اُن کا جینا دو بھر کردیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس ریل کے سفر کے دوران ہر ڈبے میں جاکر کشمیری مسافروں کو تلاش کرتی رہتی ہے اور ڈرا دھمکاکر اُن سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عام کشمیری کے لیے ریاست سے باہر کے سفر میں ہروقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ بیرون ریاست کے تعلیمی اداروں میں جنونی فرقہ پرست اور تو اور  بھارتی ٹیم کے ہارنے پر سارا غصہ کشمیری طلبہ پر نکالتے ہیں ۔ عدم برداشت کا جذبہ جب مسیحا کہلانے والے ڈاکٹروں تک میں سرایت کرجائے تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کی کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ڈاکٹر کو آج بھی انسانیت کامسیحا سمجھا جاتا ہے جو اس محترم پیشے میں جاتے وقت عہد کرتا ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر اپنی خدمات انجام دیتا رہوں گا۔ وہ اگر میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے شدت پسند نظریات اور نفرت کے حامل بن گئے ہوں، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ اس معاشرے سے انسانیت ، ہمدردی اور خدمت کا جذبہ مرچکا ہے۔ بھارت کے عام لوگ نفرت اور تعصب کی عینک ہی سے کشمیرکو دیکھنے کے اس لیے عادی ہوچکے ہیں، کیوںکہ ان کے ’محب ِ وطن‘ سیاست دانوں نے انھیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے، جہاں اپنی قوم ، مذہب اور نسل کے بغیر اُنھیں کوئی بھی کشمیری انسان دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔

کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو نہیں ہوگاکیوںکہ وہ ’حب الوطنی‘ اور ’قومی مفاد‘ کی خود ساختہ عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ اُنھیں فرقہ پرستی کی افیون نے اس قدر مست کردیا ہے کہ کشمیر میں جاری زیادتیوں کے نتیجے میں یہاں کی سسکتی انسانیت کی چیخیں انھیں سنائی ہی نہیں دیتیں ۔ بھارتی فوج اور اقتدار کی کرسی پر فریفتہ سیاست دانوں نے یہاں مشترکہ طور پر عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ وہ یہاں لاشیں گرا کراپنی کرسیوں کو دوام بخشتے ہیں۔ وہ یہاں معصوم بچوں کی زندگیاں اُجاڑ رہے ہیں اور اس کے ردعمل میں جب قفس کا پنچھی بنا عام کشمیری اپنے دفاع میں معمولی احتجاج کرنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ ٹی وی چینل سے لے کر پنڈال تک ہر جگہ دنیا کا ’بدترین ‘انسان اور ’خونخوار دہشت گرد‘ کہلاتا ہے۔

تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھیے کہ ہم سیلاب میں خو د دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن غیرریاستی مزدروں ، کاریگروں ، یاتریوںاور سیاحوں بلکہ وردی پوشوںکو بھی بچاتے اور کھلاتے پلاتے رہے۔ اُنھیں اپنے گھروں میں جگہ فراہم کرتے رہے۔ وہ وردی پوش جو ہمارے نونہالوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ کیا ہمارے ہی نوجوانوں نے سیلاب کے دوران اُنھیں سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک نہیں پہنچایا؟ جن کشمیریوں پر بھارت کی فیکٹریوں میں بننے والا بارود فوجی بے دریغ برساتے ہیں، ۲۰۱۶ء میں وہی کشمیری بجبہاڑہ میں یاتری بس کو پیش آنے والے حادثے میں نہ صرف زخمی یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں بلکہ وہاں ان کی زندگی بچانے کے لیے اپنا خون بھی دیتے ہیں۔ کشمیریوں نے ہمیشہ بھارت کو انسانیت، اخوت ، ہمدردی اور دل جوئی کا سبق دیا ہے، مگر بدلے میں اُنھیں تعصب، تنگ نظری اور نفرت ہی ملی ہے۔ ہم نے اُنھیں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے، اُنھوں نے ہمیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔

بھارت میں جو نسل پرستانہ سیاست اپنے جوبن پر ہے، دنیا اسے بُری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسل پرستی کے جنون میں کسی مظلوم قوم کو اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر دُھتکارناانسانی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی مظلوم قوم کے مریضوںکا علاج اپنے ہسپتالوں میں نہ ہونے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ یہ کام تو اسرائیل محصور شدہ غزہ کی پٹی میں بھی نہیں کرتا۔ بایں ہمہ اگر پنجرے میں مقید اس قوم کو طبی سہولیات تک سے محروم رکھنا بھارت کی حب ِ وطن کا لازمہ ہے تو کھول دیجیے سری نگر راولپنڈی روڈ اور پھر دیکھیں کشمیر کے بیماروں کے علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات کن کن ممالک سے یہاں پہنچتی ہیں۔ویسے بھی دلی، چندی گڑھ یا کسی اور جگہ علاج کی سہولیات فراہم کرکے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔ نہ وہ مفت علاج کرانے اتنا دُور دراز سفر اختیارکرتے ہیں، بلکہ اس کے عوض بھارتی ڈاکٹر اور ہسپتال، کشمیریوں سے بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں۔ بھارت کے میڈیکل شعبے نے کاروباری حیثیت اختیار کرلی ہے۔   اس لیے بھارت کے تمام نامی گرامی ہسپتالوں نے وادیِ کشمیر میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں، جو مریضوں کی کونسلنگ کرکے اُن کا علاج اپنے ہسپتالوں میںکروانے کے لیے اُنھیں ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں ۔ بنابریں کشمیری اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے علاج کروانے پنجاب، دلی یا کسی اور جگہ جاتے رہتے ہیں،لیکن چنڈی گڑھ کے زیر بحث واقعے نے کشمیریوں کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔

اہلِ کشمیر کے خلاف اناپ شناپ پھیلا کر بھارتی میڈیا نفر ت اور شکوک کے زہریلے بیج بوتا ہے۔ پرائم ٹائم میں چلنے والے ٹاک شوز میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے، جو کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چلنے والے ان پروگراموں نے بھارتی عوامی ذہنوں کو اس قدر مسخ کررکھا ہے کہ اکثریتی آبادی میں خود بخود کشمیریوں کے تئیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ آر ایس ایس کے سیاست دان پوری کرتے جارہے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور فرقہ پرست اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں آج بھی انسانیت کا بول بالا ہے۔ اسی لیے غیرریاستی مزدوروں اور کاریگروں سمیت طلبہ اور تاجر لاکھوں کی تعداد میں یہاں بلاخوف وخطر اپنا کام کاج کر تے ہیں۔ جو رویہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے، اگر خدانخواستہ وہی رویہ کشمیری بھی غیر ریاستیوں کے ساتھ اختیار کر یں تو کیا انسانیت کا گلستان بھسم نہیں ہو گا؟

کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی جدوجہد کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں اور حصولِ تعلیم ، علاج یا تجارت کی غرض سے جو کشمیری دیگر ریاستوں کو جاتے ہیں،   یہ اُن کا حق ہے۔ دلّی یہاں کے وسائل کو دلِ بے رحم سے ہڑپ کر رہا ہے ۔ اس کے بدلے میں کشمیریوں کو سواے اس کے کیا ملتا رہا ہے کہ یہاں کے طالب علم، تاجراور مریض بیرون ریاست مجبوریوں کے تحت جب دیگر ریاستوں میںجاتے ہیں تو وہاں سے اگر صحیح سلامت لوٹیں بھی تو بھارت کے مریضانہ تعصب اور تنگ نظر جنونیوں کے تعصب کا سامنا کرکے ہی لوٹتے ہیں۔ اس بیمار ذہنیت کے لوگ اپنی گھٹیا ذاتی اغراض کے لیے یہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔

۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ڈگری کالج میں ریاستی پولیس،بھارتی فوج اور سی آر پی ایف داخل ہوئی۔ کالج میں ہزاروں طلبہ و طالبات نے پولیس اور آرمی کی اس کارروائی پر سخت احتجاج کیا، جس پر قابض فورسزاہل کار آگ بگولا ہوگئے اور انھوں نے پیلٹ کے چھرّوں اور آنسو گیس شیلوں کی بارش کرکے کالج کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۶۰نہتے اور معصوم طلبہ و طالبات زخمی ہوگئے، جن میں چند طالبات کو نازک حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس دوران بھارتی فوج کئی طالب علموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اُن کا سرِراہ بڑی ہی بے رحمی سے ٹارچر کیا گیا۔

بھارتی فوج، اپنے اہل کاروں کے ہاتھوں اس وحشیانہ طرزِ عمل کی وڈیو بھی بناتی ہے اور ان وڈیوز کو بعد میں سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان وڈیوز کے ذریعے سے   بھارتی فوج دراصل نفسیاتی طور پر کشمیری نوجوانوں پر دباؤ ڈالنا چاہتی تھی، تاکہ وہ خوف زدہ ہوکر جدوجہد آزادی کی موجود لہر سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ، لیکن ان وڈیوز کا اُلٹا اثر ہوا۔ پوری وادی میں پہلے سے ہی سراپا احتجاج طلبہ اس ظلم و جبر اور درندگی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ہائی اسکولوں سے لے کر یونی ورسٹیوں تک ، انجینیرنگ کالجوں ، میڈیکل کالج، حتیٰ کہ زنانہ کالج کی طالبات تک پُرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔ریاستی حکومت جس کی ساجھے دار بھارتی جنتا پارٹی ہے، اس نے احتجاجی طلبہ سے نبٹنے کے لیے اپنا روایتی طریقہ ہی اختیار کیا، یعنی طاقت کے ذریعے سے طلبہ و طالبات کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔اپنے سامنے تمام راستوں کو مسدود  دیکھ کر نہتے کشمیری طلبہ و طالبات سڑکوں پر حرب و ضرب سے لیس مسلح فوج اور پولیس کے ساتھ   دو دو ہاتھ کررہے ہیں۔معصوم طالبات تک کو سنگ بازی کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور چھے ہفتے گزر جانے پر بھی وادی بھر میں طلبہ و طالبات کی احتجاجی لہر جاری ہے۔صبح جب بچے اور بچیاں اسکول یونیفارم میں گھر سے روانہ ہوتے ہیں ،تو والدین دن بھر تذبذب میں رہتے ہیں کہ نہ جانے اُن کے نونہال صحیح سلامت شام کو لوٹ کر بھی آئیں گے یا نہیں۔ آئے روز ہسپتالوں میںزخمی طلبہ و طالبات کو داخل کرایا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ سال برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی احتجاج کے پیش نظر حکومت نے چار ماہ تک مسلسل کرفیو نافذ کیے رکھا۔ اس مدت میں طلبہ و طالبات کو اسکول جانے سے روکا گیا اور اُن کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ بعد میں حکومت اور بھارتی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ: ’حریت قیادت نے احتجاج اور ہڑتال کی کال دے کر طلبہ و طالبات کے مستقبل کو برباد کیا‘۔ حالاںکہ اُس مدت میں حکومت کی جانب سے مسلسل کرفیو کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند رہے ۔

پہلے کی طرح اس سال بھی حکومت از خود آئے روز تعلیمی اداروں کو بند رکھ رہی ہے۔ جس دن تعلیمی ادارے کھلے ہوتے ہیں، اُس دن پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیاں صبح ہی سے اسکولوں اور کالجوں کے گیٹ پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور مختلف بہانوں کی آڑ میں ہدف شدہ طلبہ کو گرفتار کرنے   لگ جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اُس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت کشمیر کی نسلِ نو کو تعلیم سے محروم رکھنے کا منصوبہ ہے۔اس طرزِ عمل سے بھارتی ایجنسیاں مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کشمیری نسلیں جہالت کے اندھیرے میںڈوب جائیں اور پھر وہ اپنی جائز اور مبنی برحق جدوجہد سے خود بخودد ست بردار ہوجائیں گے۔

۹؍اپریل کو وسطی کشمیر کے ضمنی انتخابات میں لوگوں کی عدم شرکت اور انتخاب کے دن  عوام کی جانب سے زبردست احتجاج نے ریاستی انتظامیہ اور دلی میں اُن کے آقاؤں کے اوسان خطا کردیے۔اس روز ایک ہی ضلع میں مختلف مقامات پر ۱۰نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، اور درجنوں دیگر افراد زخمی کر دیے گئے۔ نام نہاد انتخابات کے بعد ہر روز، نئی دہلی اور سری نگر میں سیکورٹی میٹنگیں منعقد کی جارہی ہیں۔ دہلی سے آئے روز فوجی ماہرین اور حکومتی کارندے کشمیر آتے رہتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف، بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو اور وزیردفاع ارون جیٹلی نے بھی سری نگر کا دورہ کرکے یہاں کے حالات کا جائزہ لیا اور کشمیریوں کی موجودہ سیاسی جدوجہد پر  قابو پانے کے لیے سر جوڑ کر صلاح مشورے کرتے رہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے ہر طرح کا نسخہ آزمایا جارہا ہے۔ دلی سے حکم نامے نازل ہوتے ہیں اور مجبوبہ مفتی کٹھ پتلی بن کر دلی کے ہر حکم کو من و عن نافذ کرتی ہیں۔ گرفتاریوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔

رات کے دوران چھاپوں میں پولیس اور فوج گھروں میں گھس کر نہ صرف نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے بلکہ سارا سامان تہس نہس کرنے کے علاوہ مکینوں کی شدید مارپیٹ کی جاتی ہے۔ یہاں ہر روز بستیوں اور دیہات میں قیامت صغریٰ برپا کی جاتی ہے۔عوامی جذبے کو دبانے کے لیے گذشتہ سال کی تاریخ ساز مزاحمتی مہم کے دوران بھارتی فوج نے’آپریشن توڑپھوڑ‘شروع کیا  جو ہنوز جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران فوج ، پولیس اور نیم فوجی دستے ہزاروں کی تعداد میں کسی بستی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ وحشیوں اور درندوں کی طرح اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، گاڑیوں کے شیشے توڑنا، مکانات کے کھڑکی دروازوں کو توڑنا اور گھروں میں قیمتی ساز و سامان کو برباد کرنا، اس آپریشن کا حصہ ہے۔ کشمیر میں موسمی حالات کے پیش نظر لوگ کھانے کی اشیا گھروں میں اسٹور کرکے رکھتے ہیں۔ بھارتی فورسز اُن کو بھی    تہس نہس کرکے جمع کی گئی غذائی اجناس کو ضائع کر دیتی ہیں۔ جس بستی میں یہ آپریشن کیا جاتا ہے، اُس کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس بستی کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے مہینوں لگ جاتے ہیں۔یہ ’آپریشن توڑ پھوڑ‘ تاحال جاری ہے۔عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے فوج کی جانب سے نفسیاتی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس جنگ میں اخلاقیات اور انسانی حقوق کی تمام تر قدروں کو وحشیانہ انداز سے پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔

۴مئی کو بھارتی فوج کے قریباً ۳۰ہزار اہل کاروںنے ضلع شوپیاں کے ایک درجن سے زائد دیہات کا محاصرہ کرکے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا۔ ۲۰برسوں کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا کریک ڈاون ہے، جس میں حرب و ضرب سے لیس فوج، پولیس اور سی آرپی ایف استعمال ہوئی ہے۔ اس آپریشن میں ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے آپریشن کے دن صبح ہی سے اس فوجی کارروائی کے حوالے سے رپورٹیں نشر کرنا شروع کردیں، اور سنسنی خیر انداز میں آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیاکہ جیسے بھارتی فوج کنٹرول لائن پر اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف میدانِ جنگ سجا چکی ہو۔شام ہوتے ہوتے آپریشن کے اختتام تک کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا۔ ان درجن بھر دیہات کی جو کہانیاں میڈیا اور لوگوں کے ذریعے سے سامنے آئیں، وہ دل دہلا دینے والی تھیں۔ فورسز اہل کاروں نے مکانات، فرنیچر اور درجنوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرکے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کرنے کے علاوہ نہتے اور عام شہریوں کی شدید مارپیٹ کی۔ شام کو دو درجن کے قریب لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل کرانا پڑا۔ اس ظلم و جبر کے خلاف جب عوام نے احتجاج کرنا چاہا تو اُن پر پیلٹ گن کے چھرے اور آنسوگیس کے گولے داغے گئے۔

پاکستان کے ساتھ جب بھارت کے معاملات بگڑ جاتے ہیں تو پاکستان کو سبق سکھانے اور بدلہ لینے کے لیے بھارت بھر میں آوازیں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان جب بھی سفارتی سطح پر کچھ مؤثر سرگرمی دکھائے تو کشمیرمیں سول آبادی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا جاتا ہے۔ عملاً کشمیریوں کو پاکستانیوں کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ جب بھی کشمیریوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، اُن کا قتل عام کیا جاتا ہے، اُنھیں زخمی کردیا جاتا ہے، ہماری خواتین کے ساتھ دست درازیاں کی جاتی ہیں تو بھارتی سماج کا ’اجتماعی ضمیر‘ مطمئن ہوجاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے خلاف کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی فوج نے پاکستان سے بدلہ لیا ہے۔ گرفتاریوں اور چھاپوں کے دوران بھارتی فورسزاہل کار اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو خطرناک ترین سزائیں اس لیے دیتے ہیں کیوںکہ وہ ہندستانی نہیں بلکہ پاکستانی ہیں۔ اُن کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے اور اُن کی وفاداریاں پاکستان کے لیے ہیں۔

بھارتی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ اُن کی فوج جنگجوؤں کی آڑ میں عوام کے ساتھ برسرِ پیکار ہے۔ فورسز اہل کار وں کے حوصلے بھی روز بروز پست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ریاست میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ بھارتی فوجی افسر جنرل ڈی ایس ہوڈا نے برملا کہا کہ: ’’کشمیر میں فوج کو جتنا کچھ کرنا تھا، اُس نے وہ کیا۔ وہاں طاقت سے حالات پر قابو پانا  مشکل ہے‘‘۔ اُنھوں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر میں فوجی طاقت کے بجاے سیاسی عمل شروع کریں اوربات چیت کا دروازہ کھولا جائے۔این ڈی ٹی وی کی معروف صحافی برکھادت نے ۱۹مئی کو ہندستان ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ: ’’وہ کشمیریوں سے فوری طور پر بات چیت کا راستہ اختیار کرے‘‘۔ اُنھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ: ’’کشمیر میں اس پیمانے پر کبھی حالات خراب نہیں تھے۔ پہلے ہماری فوج ’پاکستانی جنگجوؤں‘ کے ساتھ لڑ رہی تھی لیکن آج وہ ’اپنے‘ لوگوں کے ساتھ نبرد آزما ہے‘‘۔

المیہ یہ ہے کہ بھارت میں برسرِاقتدار ٹولہ کشمیر کے معاملے میں اپنی سخت گیر پالیسی پر قائم ہے اور کسی بھی مرحلے پر اُس میںلچک دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان یا کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے وہ آمادہ نہیں۔ دوسری جانب کشمیر میں اَبتر صورتِ حال سے اندرون ملک مودی حکومت کافی دباؤ کا شکار ہے۔ خود مودی سرکار بھی اپنے تمام تر سخت گیریوں کے باوجود پریشان نظر آرہی ہے ۔ وہ کسی بھی طرح سے کشمیریوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کشمیریوں کی موجودہ احتجاجی تحریک کمزور پڑ جائے۔ اس کے لیے مختلف سطحوں پر کام ہورہا ہے۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ کہا ہے کہ آنے والے ایک سال کے دوران وہ کشمیر میں بیانیہ ہی تبدیل کر دیں گے۔ اُنھوں نے ہندستانیوں کو انتظار کرنے کے لیے کہا اور  اُن کے اس بیان کی تائید کشمیر میں اُن کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کی ہے۔کشمیر اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایجنسیوں کے ذریعے سے آزادی پسند حلقوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے وہ آئے روزکوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

کشمیر میں سیاسی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے۔ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے یا مذہبی ، اس طرح کے مباحثے شروع کروائے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری جدوجہد رضاے الٰہی کے لیے ہوتی ہے۔ ہماری کوششیں اسلام کی سربلندی کے لیے ہوتی ہیں۔ ہم جب جان دیتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کی بارگاہ میں شہادت کا درجہ نصیب ہوجائے۔جاننے اور سمجھنے کے باوجودہم غیر ضروری مباحثے شروع کرنے کے درپے ہیں اور بھارتی میڈیا اس کو خوب ہوا دے رہا ہے۔اس کے لیے بھارتی ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں تمام حربے آ زمارہی ہیں۔

دہلی میں قائم بھارتی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کشمیر، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف ہمیشہ زہر اُگلتا رہتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا تشخص مسخ کرنے کے لیے پروپیگنڈے پر مبنی درجنوں پروگرام روز نشر کیے جاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اس مہم کے نتیجے میں کشمیر سے باہر بھارت کی مختلف ریاستوں میں کشمیریوں کی زندگیاں خطرہ میں پڑ چکی ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی ریاست میں کشمیری طلبہ پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ابھی گذشتہ ماہ میں بھارتی پنجاب کی ایک یونی ورسٹی میں کشمیری طلبہ کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی اور اُنھیں ہاسٹل سے نکال باہر کیا گیا۔کشمیر سے باہر کشمیری جان ہتھیلی پر لے کر جاتا ہے۔  حد تو یہ ہے کہ گذشتہ ماہ بھارت کے معروف ہسپتال پی جی آئی چندی گڑھ میںڈاکٹروں نے ایک کشمیری مریضہ کا علاج صرف اس بنیاد پر نہیں کیا کیونکہ وہ کشمیری تھیں اور بھارتی ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ: ’’کشمیری، پاکستانی ہیں‘‘۔ ایک جانب کشمیریوںکو بھارت سے باہر جانے کے لیے سفری دستاویزات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ اُن کا کسی دوسرے ملک میں جانا اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے کہ عام آدمی  سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ وہ بھارت سے باہر علاج یا کسی اور ضرورت کے لیے جاپائے گا۔ دوسری طرف بھارت کے اندر کشمیری لوگوں کو نسلی تعصب کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اُنھیں بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں ہر طریقے سے نسل کشی کررہا ہے۔یہی نہیں بلکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کا مقابلہ کشمیری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے سے کررہی تھی۔ کشمیر کے اصل حالات کو بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لیے عام کشمیری سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے۔جب کشمیریوں کے اس جوابی وار سے بیرونی دنیا میں بھارت کی رُسوائی ہونے لگی تو اس نے ۱۵؍اپریل سے کشمیر میں نہ صرف سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی، بلکہ اس کے لیے موبائل کمپنیوں کو ۲۲سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کردینے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔

کشمیریوں کی تمام تر اُمیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے ہر درد کی دوا پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا وار کا مقابلہ پاکستانی میڈیا بخوبی کرسکتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں بھارتی فلموں پر ایک ایک گھنٹے کا پروگرام تو ضرور نشر ہوتا ہے، جب کہ کشمیرکے حوالے سے رپورٹیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار اگر کوئی چینل کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتا بھی ہے تو وہ چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا ہے اور اُس میں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے بجاے سطحی چیزوں پر اکتفا کیا گیا ہوتا ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنی ترجیحات میں کشمیر کو ثانوی حیثیت دے کر اپنے مقدمے کو کمزور بنانے کا کام خود انجام دیتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر پاکستان زیادہ سے زیادہ کام کرے۔ پاکستانی میڈیا دنیا کو باخبر کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔ جس طرح سے کشمیر میں پاکستان کے تمام چینلوں کی نشریات روک دی گئی ہیں اُسی طرح پاکستان میں بھی بھارتی چینلوں کی نشریات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام مملکت پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں ہماری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کریں۔زبانی جمع خرچ سے نہ کشمیریوں کا کچھ بھلا ہوتا ہے اور نہ پاکستانی مفادات کی آبیاری ہی ہوپاتی ہے۔

۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔  مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔

دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کا دوسرا بیٹا گجرات میں گرفتار کرلیا گیا ہے، جسے  کئی برسوں سے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں تڑپا یا جا رہا ہے اور انجام کا کچھ پتا نہیں۔

محمد اسلم جو تہاڑ جیل میں نظر بند تھا اور دلی میں اُن کا مقدمہ چل رہا تھا، اسے دہلی کی عدالت نے دو برس قبل تمام الزامات سے نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ ’’جن پولیس افسروں نے اس نوجوان کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔ بھارتی عدالتی احکامات کی پاس داری کا حال یہ ہے کہ جس دن محمد اسلم کو عدالت نے باعزت بری کردیا اُسی رات اُنھیں رہا کرنے کے بجاے ممبئی پہنچایا گیا، جہاں کسی اور مقدمے میں اُن کا نام پہلے ہی سے درج کیا جاچکا تھا۔ محمد لطیف کا رابطہ یہاں سے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ کٹ گیا ، کیونکہ اُن کی رسائی صرف دلی تک تھی۔ دلی سے آگے جانے کے لیے نہ اُن کی مالی حالت اُنھیں اجازت دے رہی تھی اور نہ اُن کے پاس وہاں جانے کے لیے ضروری واقفیت تھی۔ اس لیے اُنھوں نے مجبوراً اپنے بیٹے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور گھر واپس لوٹ آئے۔

 ۸جولائی۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد وادی جموں و کشمیر میں محکوموں اور مجبوروں کے جذبات اُبل پڑے۔ ابتر حالات نے ریاست کی پوری آبادی کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ کہاں کیا ہوا؟کس کی زندگی کہاںداؤ پر لگ گئی؟ اِس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہورہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جمہوریت کے دعوے داروں نے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ تک بھی کشمیریوں کی رسائی کو قریب قریب ناممکن بنادیا تھا ۔اس کے علاوہ اُن دنوں یہاں ہونے والی قتل غارت گری نے بھی عام باشندوں کو کشمیر کی حدود سے باہر کی دنیا سے لاتعلق کر رکھا تھا۔یہاں کشمیر میں نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جارہے تھے، بچوں اورعورتوں کو چھرّوں کی بوچھاڑ سے اندھا کیا جارہا تھا اور وہاں محمد اسلم خان کو ممبئی کی عدالت میں جرم بے گناہی کی سزا سنائی جارہی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے اس گمنام نوجوان کو ممبئی کی ایک عدالت نے دیگر چار لوگوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کی شہادت کے صرف تین دن بعد فرضی الزامات کے تحت عمرقید کی سزا سنادی ہے۔اُن کی سزا کے بارے میں ریاست جموں و کشمیر میں، اس کے والدین کے علاوہ شاید ہی کسی کو پتا ہوگا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اُن کے والدین پر اُس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جب کسی انجان فرد نے اُنھیں فون کرکے اطلاع دی کہ : ’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوگئی ہے‘‘۔

چند ہفتے قبل جس وقت محمد لطیف خان سے میری ملاقات ہوئی تو اُنھیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو کس مقدمے میںعمر قید کی سزا سنائی گئی اور آج اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے؟ اُنھیں ممبئی سے کسی وکیل نے صرف یہ اطلاع دی تھی کہ :’’آپ کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور اگر آپ اس سزا کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، تو فوراً ممبئی پہنچ جائیں‘‘۔ میں نے محمد لطیف سے وکیل کا نمبر لیا اور اُن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ محمد اسلم اس وقت امرا وتی جیل میں مقید ہیں اور اُنھیں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ میں نے سوال کیا: ’’کن الزامات کے تحت سنائی گئی؟‘‘ یہ وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ کہا:’’آپ لوگوں کو ممبئی آکر ہی مقدمے کے بارے میں پوری تفصیل بتا دی جائے گی‘‘۔ شاید وکیل صاحب اپنے اخراجات ادا ہونے تک مقدمے کی تمام تر تفصیلات بتانا نہیں چاہتے تھے۔

محمد لطیف خان کی درد بھری داستان کا ایک اور تڑپانے والا پہلو بھی ہے۔ اپنے دونوں بیٹوں کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے لیے اُنھوں نے لوگوں سے بہت قرضہ لیاہے، سختیاں جھیلیںہیں، مصائب سہے لیکن کبھی بھی تحریک حق خود ارادیت سے بددل نہیںہوئے۔ اُنھوں نے لوگوں سے قرضہ وصول کرنے کے عوض اپنی دس کنال پر مشتمل کل اراضی گروی رکھی، جس مکان میں رہایش پذیر ہیں وہ بھی قرض داروں کے یہاں گروی ہے۔ اب اُن کی مالی حالت اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ وہ ممبئی جاکر اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کا خواب بھی دیکھنا بھول چکے ہیں۔بقول اُن کے: ’’میں جب دلی اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے جاتا، تو کئی دن تک فاقہ کشی کا شکار رہتا تھا اور فٹ پاتھوں پر سرد و گرم راتیں بسر کرتا تھا‘‘۔ بیٹے کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے اور اس کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کرنے کی نہ اُن میں سکت ہے اور نہ مالی لحاظ سے اس قدر بہتر ی پوزیشن میںہیں کہ وکیل کی فیس اور ممبئی جانے کے اخراجات اُٹھاسکیں۔ ۱۰سال سے اُن کا اسکالر بیٹا جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ رہا ہے۔ اُن کی پوری زمین اور مکان قرض داروں کے پاس گروی ہے۔ دوسرے بیٹے پر سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے باوجود جب اُن سے بات کرتے ہیں تو صبر و استقامت سے لبریز ہمالیہ جیسی شخصیت اُن کے بوڑھے وجود میں نظر آتی ہے۔

یہ صرف محمد لطیف کی ہی داستانِ اَلم نہیں ہے بلکہ یہ بیرون ریاست درجنوں کشمیری قیدیوں کی داستانِ غم کا صرف ایک ورق ہے۔ ورنہ دل دہلانے والی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

  • کشمیر یونی ورسٹی کے نوجوان اسکالر محمد رفیق شاہ گذشتہ قریباً ۱۰برس سے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اُن کے مقدمے کی سماعت بھی کچھوے کی چال کی طرح ہو رہی ہے۔ اُن کی زندہ دل والدۂ محترمہ بڑی ہی دلیری کے ساتھ حالا ت کا مقابلہ کرکے اپنے اکلوتے بیٹے کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے کرتے تھک چکی ہیں، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • ٹنگ مرگ کے ایک اور قیدی محمد مظفر ڈار کے بھائی سے معلوم ہوا کہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی آف انڈیا‘ (NIA)نے اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی ہے اور این آئی اے دلی کے وکلا پر اُن کا مقدمہ نہ لڑنے کے لیے دباؤ بھی ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک معروف وکیل نے ڈھائی لاکھ روپے فیس وصول کرنے بعد اُن کا مقدمہ چھوڑ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد مظفر ڈار جنھیں ڈھائی برس قبل این آئی اے نے سرینگر سے تہاڑ منتقل کرکے اُنھیں وہاں کسی مقدمے میں ملوث کیا اور اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست تیار کی ، وہ گواہ کب تک اپنا بیان درج کرائیں گے اور پھر عدالت فیصلہ کب سنائی گئی؟ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا گواہ بھی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے، جو امریکا میں مقیم ہے اور شاید ہی وہ کبھی ہندستان آکر گواہی کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہو۔ ہندستان کے عدالتی نظام میں محمد مظفر ڈار کو اپنے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے کئی زندگیاں درکار ہوں گی ۔ اُن کے بھائی کے بقول جیل میں وہ کئی امراض کا شکار ہوچکے ہیں، کمر درد نے اُن کا بُراحال کردیا ہے۔
  • تحریک حریت سے وابستہ غلام محمد بٹ ساکن زکورہ، مشتاق احمد ساکن کنیل ون اسلام آباد، طالب لالی وغیرہ بھی کئی برسوں سے تہاڑ جیل میں قید و بند کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انصاف کے ناقص نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔اُن کا نہ یہاں کوئی پُرسان حال ہے اور نہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہی اُن کی رہائی اورضروری قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنا کوئی کردار نبھا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں پریس بیانات اور رپوٹیں مشتہر کرنے تک ہی محدود ہیں اور کشمیری قیدیوں کے حوالے سے انھوں نے ان دونوں چیزوں سے بھی جیسے توبہ ہی کررکھی ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ہزاروں کشمیری بیرون ریاست جیلوں میں نہ صرف جسمانی سختیاں جھیل رہے ہیں بلکہ نسلی تعصب کا شکار بھی بنائے جارہے ہیں۔ جیل حکام بھی اُن کے ساتھ دوسرے ملک کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہندستان کی جیلوں میں قاتلوں، چوروں اور لٹیروںکی عزت وتکریم کی جاتی ہے، اُنھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن کشمیر کے پڑھے لکھے سیاسی قیدیوں کی تذلیل ہی نہیں بلکہ اُنھیں ہر حیثیت سے ذہنی طور پر اپاہج اور مریض بنانے کے لیے کام ہورہا ہے۔اُن کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔بے بنیاد مقدمات میں پھنسانا اور پھر قانون کے نام پر اُن کے ساتھ مذاق کرنا کشمیر سے باہر قانونی اداروں کا وتیرا بن چکا ہے۔

ظلم و جبر کی چکیوں میں پسنے والے ان مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنے لواحقین سے کھل کر ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔گذشتہ تین ماہ سے مزید ۱۵ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔آج تک ہمارے ان اسیرانِ ملّت نے کبھی بھی اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ یہ لوگ تحریک حق خودارادیت کے لیے اپنی جوانیاں قربان کررہے ہیں، اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کررہے ہیں۔ صبر کے پیکر یہ نوجوان ہمارے ہیرو ہیں ۔ یہ ہماری تحریک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیں ہر سطح پر اور ہرحال میں یاد رکھنا ہوگا اور اِن قربانیوں کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔

بظاہر سمجھا جاتا ہے کہ خطۂ پیرپنجال اور وادیِ چناب شاید تحریک میں پیچھے ہے، لیکن جموں کے ان مسلم اکثریتی علاقوں میں محمد لطیف خان اور اُن کے بیٹے محمد اسلم جیسے قربانی کے مجسمے بھی رہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اُن کی یہ قربانیاں نہ لیڈروں کی نظر میں آتی ہیں اور نہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ محمد اسلم اور اُن کا پورا گھرانہ اور جیلوں میں مقید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی مثال اُن پتھروں کی ہے جو کسی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے زمین کے اندر اپنا وجود ختم کردیتے ہیں۔

 یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی سال بھارتی تعذیب خانوں میں کاٹ کر تحریک کو بنیاد فراہم کررہے ہیں۔ ان اسیران کے تئیں ملّت کی ذمہ داری ہے کہ اسیران کو قانونی امداد فراہم کرے، اُن کے لواحقین کا خاص خیال رکھے، محمد لطیف خان جیسے لوگوں کے درد کو سمجھے۔ یہ ان مقید افراد پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ اپنے اُس فرض کو ادا کرنا ہے جو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے وفی الرقاب کی صورت میں اُن کے لیے مختص کررکھا ہے۔

۱۹۹۷ء میں جون، جولائی کے گرم ترین دن تھے۔ جھلساتی دھوپ اور گرم ہواؤں کے تھپیڑے انسان کو حواس باختہ کررہے تھے۔ اس پر ستم یہ کہ صبح سات بجے ہی کالج کے لیے نکلنا پڑتا تھا۔دن کا کھانا تو دور کی بات ،چائے ناشتہ بھی ہمیں کم ہی نصیب ہوتا تھا۔گرم ہوا کے تھپیڑے تو پھر بھی قابل برداشت تھے، لیکن گرم حالات کے تذلیل آمیز تھپیڑے دن میں ہزار مرتبہ زندہ درگور کردیتے تھے۔ میں بی ایس سی فسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ ہمارے قریب ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کالج تھے، لیکن اُن میں سائنس نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اس لیے سائنس کے شوقین ضلع بھر کے تمام طلبہ و طالبات کو سوپور، بارہمولہ یا پھر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

اکثر طلبہ و طالبات سوپور جانا ہی پسند کرتے تھے، کیونکہ سرِشام واپس گھر پہنچ جاتے تھے اور کرایے کے کمروں کا خرچ بچ جانے کے علاوہ نامساعد حالات میں والدین بھی اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کو ہر روز اپنے سامنے ہی دیکھنے کے خواہاں ہوتے تھے۔حالات ایسے تھے کہ روزانہ ہی کالج کے راستے میں کہیں نہ کہیں فائرنگ ہوجاتی،گولیاں برستیں اور بے گناہوں کی لاشیں گرتی تھیں۔ کریک ڈائون تو روز کا معمول ہوتے تھے۔

ہم طالب علم اپنے فاتح ہونے کا جھنڈا اُس وقت گاڑ دیتے تھے، جب ہم کریک ڈائون کے دوران بھارتی فوج کے وردی پوشوں کے بڑے صاحب کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ’’ آج ہمارا پریکٹیکل کا امتحان ہے، اس لیے کالج جانا لازمی ہے‘‘ اور وہ ہماری ہتھیلیوں پر  سیاہ رنگ کے ’مار کر‘ سے دستخط کرکے ہمیں جانے کی اجازت دیتا تھا۔ سیاہی کی اُن ٹیڑھی میڑی لکیروں میں ہماری ’رہائی‘ کا پروانہ ہوتا تھا، کہ بڑے صاحب کے یہ دستخط راستے میں کھڑے وردی پوشوں کو دکھا کرہم نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ پھر دن بھر اپنی اس ہوشیاری کا چرچا رہتا تھا لیکن کبھی کبھی چال اُلٹی بھی پڑجاتی تھی۔ جس دن اُن کا موڈ آف ہوتا تھا توایسی کوئی چالاکی نہیں چلتی تھی اور نہ ہم ایسی کوئی چالاکی دکھانے کی جرأت کرتے تھے بلکہ جتنی بھی تسبیح اور کلمات یاد ہوتے، اُن کا ورد کرتے اور اللہ سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرتے ۔پھر بھی ہفتے میں دو ایک بار تھپڑوں، گھونسوں ، لاٹھیوں اور لاتوں سے ہماری خاطر داری ہوہی جاتی تھی۔

نوجوانی اور کالج جانے والے لڑکوں کا منچلا پن ہمارے اُس احساس اور سوچ کو سراُبھارنے ہی نہیں دیتاتھا، جو کبھی کبھی خودآگہی کے ذریعے سے ہمیں یاد دلاتا تھا کہ تمھاری اپنی ہی سرزمین پر دن میں ہزار بار دیارِ غیر سے آنے والے یہ وردی پوش تمھاری تذلیل کرتے ہیں، تمھارا مذاق اُڑاتے ہیں، تمھاری عزت ِ نفس کا جامہ تارتار کرتے ہیں اور تم ایسے ہو کہ اپنی بے بسی پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ہم اکثر اپنی اس بے بسی اور بے کسی کے ان تلخ واقعات سے دل بہلانے کے عادی بن چکے تھے۔حالانکہ حالات میں کچھ اور انداز کی تبدیلی آگئی ہے۔ ڈیڑھ عشرہ گزرجانے کے بعد آج کے نوجوان سینہ ٹھونک کر ظلم و زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، بندوق کا مقابلہ سنگ باری سے کرتے ہیں اور ہزارہا مسلح فوجیوں کے سامنے، اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کرتے ہیں کہ: ’’ہندستان کی طاقت کے سامنے یہ قوم کبھی جھکنے والی نہیں ہے‘‘۔

ہم گھر سے سوپور تک دو گاڑیاں تبدیل کرتے تھے۔ ہندواڑہ تک پہنچ جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہونا پڑتا تھا اور پھر ہندواڑہ سے سوپور تک دوسری بس میں سوار ہوجاتے تھے۔   صبح سات بجے گھر سے نکلتے تھے۔ پہلے والی گاڑی میں سوار ہوکر ہماراساڑھے دس بجے کی کلاس پکڑنے کا ہدف ہوتا تھا، لیکن مجھے سال بھرکا وہ دن یاد ہی نہیں کہ جب ہم نے انگریزی کی وہ   پہلی کلاس پڑھی ہو۔تلواری، ماگام، ودی پورہ، براری پورہ، وٹائین، زالورہ، سیلو کے مقامات پر گاڑیوں کی تلاشیاں اور ہمارے شناختی کارڈ کی چیکنگ ، سوال و جواب اور شناخت پریڈمیں گھنٹوں ضائع ہوجاتے تھے۔ کبھی کبھار تو ان مقامات کے علاوہ بھی راستے میں کوئی ناکہ یا کوئی چیک پوسٹ ہوتی یا پھر راستے میں ڈیوٹی پر مامور وردی پوش (سپاہی) محض وقت ضائع کرنے کے لیے بس کو روک کر اپنی طاقت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔صبح سات بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور شام کو چار بجے سے ساڑھے چار بجے کے درمیان چلنے والی بسوں میں اکثر طالب علم ہی سوار ہوتے تھے ۔ ہمارے مابین کالج اور کلاس کی جان پہچان کے بجاے اصل تعارف بس میں سوار ہونے کے گروپ سے ہوتا۔ کون کس اسٹاپ سے بس میں چڑھا،اور کس اسٹاپ پر اُترا ، یا آگے کے اسٹاپ سے کس کو چڑھنا ہے یا آنے والے اسٹاپ پر کس کو اُترنا ہے، یہ معاملہ قریب قریب ہرایک کو معلوم ہوتا تھا۔

ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں۔ اس طرح ہمارے ساتھ مختلف علاقوں کی درجنوں لڑکیاں سوار ہوتی تھیں۔ہندواڑہ سے نکلتے ہی پانچ منٹ کی مسافت طے کرنے پر روزانہ ایک لڑکی بس میں سوار ہوتی تھی۔درجنوں طالبات میں اُس کی شخصیت اُسے منفرد او رممتاز بناتی تھی۔ اُس میں حیا تھی ، شرم تھی۔ ہماری کلاس میں پڑھتی تھی اور جب بھی وہ اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوتی تھی سواریوں سے بھری بس میں لڑکے اُس کے لیے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ حالانکہ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی،اُسے شاید کسی لڑکے کا نام تک بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ بارھویں جماعت میں ۷۵ فی صد نمبر حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذہانت اور قابلیت کا رُعب جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔گم سم، خاموش ، الگ تھلگ اور اپنے ہی کام سے کام رکھنے والی اُس لڑکی کو بس میں نشست دینے والا ہر لڑکا اسے اپنی بہن کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔

جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اُس کا چہرہ کیا، ہاتھ تک دستانوں میں چھپے رہتے تھے۔ اُس کی آنکھیں بھی بس اُتنی ہی کھلی ہوتی تھیں، جس میں سے وہ اپنا راستہ دیکھ سکتی تھی۔ کالج کی وہ واحد لڑکی تھی جس کے بارے میںسب کو معلوم تھا کہ وہ دن کے اوقات میں انگریزی پڑھانے والی میڈم کے کمرے میں جاکر نماز ادا کرتی تھی۔اُس کی دین داری، پاک دامنی اور شرم و حیا کا پیکر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُس کی عزت کرتا تھا۔ اسلام اور دین کے سانچے میں ڈھلی اُس عزت مآب بہن کی مثال کالج کے پروفیسر صاحبان بھی دیا کرتے تھے۔اُسے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اُسے بچپن ہی سے تربیت دینے والے ماں باپ نے بتا دیا تھا کہ شرم و حیا لڑکیوں کا زیور ہوتا ہے۔ مخلوط تعلیمی کلچر میں ہوکر بھی وہ مخالف جنس کو احساس تک نہیں ہونے دیتی تھی کہ  اُس کے ساتھ یا اس کے سامنے کوئی لڑکی ہے۔ وہ پاک باز اور پاک جان معصوم کلی تھی۔ اُس کی معصومیت اور حیاداری کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ کالج کا کوئی لڑکا اس کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا کہ کالے برقعے میں لپٹی حوا کی یہ بیٹی ہمارے کالج میں پڑھتی ہے۔

ایک دن حسب معمول اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوئی۔ اُس کا وہی پاکیزہ انداز کہ ہرلڑکے کی آنکھیں خود بخود جھک گئیں۔ گاڑی میں سوار کئی لڑکوں نے اس کے لیے سیٹ خالی کردی۔ وہ راستہ بناتی ہوئی دوسری لڑکی کے برابر میں بیٹھ گئی۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ ایک پاکستانی گلوکار کا گانا ’تم تو ٹھیرے پردیسی ‘ بج رہا تھا۔گاڑی میں سوار کچھ لڑکے گانے کے بول کے ساتھ سُر ملارہے تھے تو کچھ گپ شپ میں محو تھے۔ عام سواریاں اپنے اپنے خیالات میں گم تھیں۔ گانا ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ یکایک ڈرائیور نے بریک لگائی اور تمام مرد سواریوں کو گاڑی سے اُترنے کے احکامات سنائے۔

ہم وٹائین پہنچ چکے تھے۔ یہاں تمام مردوں کو گاڑی سے اُتار کر تقریباً آدھا کلومیٹر پیدل چلنے کے لیے کہاجاتا تھا ۔ گاڑی میں صرف عورتوں کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اُس کے بعد گاڑی آگے چل کر مردوں کو اُٹھاتی ہے۔ اسی جگہ ہماری گاڑی سے ہماری یہ بہن بھی اُترتی تھی۔ وہی ہماری کلاس فیلو پردہ پوش بہن گاڑی میں بیٹھنے کے بجاے مردوں کے ساتھ اُترنے کو ترجیح دیتی تھی اور ہم سب مردوں کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتی، گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے کی جگہ تک پہنچتی۔ وردی پوش گاڑی میں سوار ہوکر تلاشی لیتے تھے۔ شاید اسے وردی پوشوں کی گھورتی نظریں برداشت نہیں ہوتی تھی۔ شاید اُس کی غیرت اُسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ وردی پوشوں کے سوال وجواب میں      اُلجھ جائے جیسا کہ گاڑی میں اکثر خواتین اور طالبات کے ساتھ یہ وردی پوش مختلف بہانوں کی آڑمیں باتیں کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایک معمول بن چکا تھااور ہم سب اس بے غیرتی اور بے عزتی کے عادی ہوچکے تھے۔روز کی ذلت و رسوائی اب ہمیں اپنامقدر لگتا تھا۔لیکن حوا کی یہ بیٹی اپنے حصے کا حق ادا کرتی تھی۔ روز گاڑی سے اُتر کرہندستانی فوجیوں کے فقروں کو سننے کے بجاے مردوں کے شانہ بشانہ پیدل اگلے اسٹاپ تک چل پڑتی تھی۔

اس روز بھی حسب معمول ہماری یہ بہن گاڑی سے اُتر گئی، لیکن آج وردی پوشوں کا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ ہم اُتر نے والوں میں سے وہ کسی کو شناختی کارڈ کے بہانے تھپڑ مارتے تھے تو کسی کو مرغا بننے کاکہتے تھے۔ ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب کسی جگہ فائرنگ ہوجاتی تھی، لیکن آج تو ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ رات کے دوران اس علاقے میں کہیں کوئی فائرنگ ہوئی ہو۔ پھر وردی پوشوں کی یہ غضب ناکی کس وجہ سے ہے؟ مجھے سوپور میں کسی پرائیویٹ اسکول میںزیر تعلیم وہ ننھا لڑکا یاد ہے جس کے نازک اور کمزورکندھے پر ڈنڈے سے اس قدرشدیدضرب ماری گئی کہ اُس کابازو ہی ٹوٹ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اُس بزرگ سرکاری ملازم کا چہرہ آج بھی گھومتا ہے، جس کی ٹوپی اُتار کر اِس قدر تذلیل کی گئی کہ وہ زار و قطار رونے لگا۔

مجھے اپنی ٹانگوں اور پیٹ پر ڈنڈوں کی وہ کاری ضربیں آج بھی یاد ہیں کہ جن کے نشان ایک ہفتے تک موجود رہے اور میں کئی روز تک ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ آخر آج ان ’بھارتی سورمائوں‘ کو کیا ہوگیاہے کہ یہ اپنی ’وحشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر تلے بلکہ بپھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ تمام مردوں کی ’خاطر مدارت‘ کرنے کے بعد سبھوں کو ایک جگہ جمع ہونے کے لیے کہا گیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور کالج کے طلبہ کو الگ کر لیا گیا۔ ہم طالب علموں کو فحش گالیاں دے کر کہا جارہا تھا:’’آپ سب لوگوں کا انکاونٹر کیا جائے گا‘‘۔ لیکن ہم میں سے کسی میں جرأت ہی نہیں ہوئی کہ وہ پوچھ لیتا کہ:’’ آخر کس جرم میں ہماری یہ دُرگت بنائی جارہی ہے ؟‘‘

جس دوران ہماری پٹائی ہورہی تھی، ہماری وہ باپردہ بہن سڑک کے درمیان کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی بے حس و حرکت۔ وہ معصوم لڑکی دہشت زدہ تھی۔ بے چاری کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے ہٹے۔ آگے بڑھتی تو وہاں ہر جانب دُور دُور تک وردی پوش ہی وردی پوش تھے ، گاڑی میں واپس چڑھ جاتی جہاں خواتین اور طالبات تو موجود تھیں، لیکن وہاںخونخوار آنکھوں والے بندوق بردار فوجی جوان گاڑی کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے۔   شرم و حیا کی پیکر، ملّت کی یہ بیٹی وہیں کھڑی رہی اور وردی پوش ہماری مارپیٹ کے دوران میں اس کی جانب دیکھ دیکھ کر اُسے اپنی طاقت کا احساس دلاتے رہے۔

قریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے ہماری خوب مرمت کرلی گئی، تب پہاڑی کے ساتھ بینکر (پختہ مورچے)سے میجر صاحب بڑے ہی کروفر کے ساتھ نکلے اور ہمارے سامنے نمودار ہو کر تقریر کرنے لگے:’’ تم لاتوں کے بھوت، باتوں سے کہاں ماننے والے ہو‘‘۔ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کیا ہم نے تمھیں کبھی بلاوجہ مارا پیٹا ہے؟‘‘ سامنے ایک بزرگ جن کی تھوڑی دیر پہلے مار پیٹ ہوئی تھی، انھوں نے جان کے خوف سے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا: ’’نہیں سر‘‘۔ میجر صاحب غرائے:’’ کیا ہم تمھاری’ ناریوں‘ [عورتوں]کی عزت نہیں کرتے ہیں؟ کیا ہم نے اُنھیں کبھی گاڑیوں سے نیچے اُتارا ہے؟‘‘ اِسی بزرگ نے پھر جواب دیا:’’بالکل نہیں سر‘‘۔

اب ایک دم سے میجر آگ بگولا ہوگیا اور غضب ناک ہوکر ملّت کی اس بیٹی کی جانب مخاطب ہوکر چلّایا… ’’تو پھر یہ لڑکی روز کیوں گاڑی سے اُتر جاتی ہے۔ یہ ہمارا ’اپمان‘ [توہین]کررہی ہے، یہ ہماری’شرافت‘ کا مذاق اُڑا رہی ہے‘‘… میجر کے ان جملوں سے ہم سب کی سمجھ میں آگیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ اس میجر نے گرج کر اُس بہن سے کہا: ’اِدھر آجاؤ‘۔ وہ بے چاری اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں پائی۔تب میجر نے اِسی بزرگ سے کہا:’’ اس لڑکی سے کہو کہ یہ چہرے سے نقاب ہٹائے۔ ہمیں شک ہے کہ اس نقاب کے پیچھے کہیں کوئی’آتنک وادی‘ [دہشت گرد] چھپا ہوا ہے‘‘۔ آس پاس کھڑے درجنوں بندوق بردار وردی پوش جھپٹنے والی پوزیشن میں اشارے کے منتظر تھے کہ کب حکم ملے اور وہ مسلمانوں کی عزت کے چہرے سے نقاب اُتار دیں؟  کب وہ محمد بن قاسم کی قوم کی بیٹی کی سر راہ تذلیل کریں؟ کب وہ طارق بن زیاد کی بہن کو احساس دلائیں کہ اُس کا بھائی مرچکا ہے؟ کب وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح کو پیغام دیں کہ اب تو تیری ملت میں جرأت اور ہمت کہاں کہ وہ تم جیسا کردار دکھا سکیں؟

وہ بزرگ ہانپتا کانپتا اُٹھا اور اس انداز سے ہماری اُس بہن سے مخاطب ہوا کہ جیسا سارے فساد کی جڑ اور ہمارے گناہوں کی قصوروار بھی وہی ہے۔بزرگ نے اسے نقاب ہٹانے کے لیے کہا۔ وہ باپ جیسا بزرگ اپنی جان کے خوف سے اپنی بیٹی کو عریاں ہونے کے لیے کہہ رہا تھا، حالاںکہ اُس کے ماتھے پر نمازوں سے سیاہ گٹّا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ وہ باریش بھی تھا، شکل و صورت سے باعمل مسلمان بھی لگ رہا تھا۔مگر وہ صرف مار پیٹ کے خوف سے، امّاں عائشہ صدیقہؓ کی اُس لاڈلی کو مجبور کررہا تھا۔اپنے اردگرد فوجیوں کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر،  میجر کا چیخنا چلّانا،بزرگ کی دُہائیاں اور جو لڑکے اُسے بہن کہتے تھے، اب اس کو موت کے چنگل میں   خاموش اور بے بسی میں گھرا ِدیکھ رہے تھے۔ اس خاموشی اور خوف ناک سناٹے میں، اس معصوم لڑکی نے ہمیں تشدد سے بچانے اور بزرگ کی بے رُخی پر مبنی التجا سے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دیے۔ پوری طاقت سے اپنے چہرے سے نقاب کھینچ دیا۔

وہ نورانی چہرہ جسے اُس بے چاری نے کبھی آئینے کے سامنے بھی پوری طرح سے نہ کھولا ہوگا ، کھلے آسمان تلے بے نقاب ہوگیا۔اُس کی بے بس اور باحیاآنکھوں سے موتیوں جیسے موٹے موٹے آنسوؤں کا دریا ہماری بزدلی کا مذاق اُڑا رہا تھا: وردی پوشوں کے چہرو ں پر وہ زہریلی مسکراہٹ ، ہمارا بھیگی بلی کی طرح سر نیچے کرنا اور سامنے ہماری بہن کی بے بسی نے اُس وقت ضرور ہمارے اسلاف کی روح کو تڑپایا ہوگا۔قوم اور ملّت کی بیٹی کا دوپٹہ اور نقاب اُتروانے کے بعد  وردی پوشوں نے ہماری گاڑی کو جانے کی اجازت دے دی۔

اگلے دن اُس اسٹاپ پر ہماری بس رُکی، جہاں سے وہ بہن سوا ر ہوا کرتی تھی۔ لڑکے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کو تیار تھے، مگر آج وہاں سے کوئی برقعہ پوش طالبہ سوار نہیں ہوئی اور پھر وہ کبھی سوار نہیں ہوئی۔ اُس نے اپنی تعلیم ہی کو خیر باد کہہ دیا۔اُس نے اپنی عزت، عصمت اور دین کی خاطر اپنی دنیا کو قربان کردیا۔ اُس نے اپنی تذلیل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا بلکہ ایمانی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرکے گھر کی چار دیواری کو ہی اپنے لیے محفوظ تصور کیا ۔

میں اُس بہن کا نام تک نہیں جانتا او رنہ مجھے معلوم ہے کہ اُس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا؟لیکن ۱۷سال گزرجانے، اور کوشش کے باوجود میں اُس کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پایا۔میں جب بھی اپنے آبائی گاؤں روانہ ہوتا ہوں ، وٹائین پہنچ کر میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔مجھے اپنی بے غیرتی پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے پوچھتا ہے کہ جس بہن کی دین داری پر تمھیں فخر ہوا کرتا تھا، اُس کی تذلیل دیکھ کر تمھاری غیرت کہاں تھی؟مجھے گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے والی عام سواریوں کی وہ کاٹ کھانے والی باتیں زخمی کر رہی تھیں، جن میں وہ الزام ہماری اُس بہن ہی پر عائد کررہے تھے کہ: ’’اتنی سواریوں کی مارپیٹ کروانے کی قصور وار یہی لڑکی ہے‘‘۔ سواریوں کی اُن کڑوی کسیلی باتوں کو سن کر آج بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس گاڑی میں کوئی ایمان کے تیسرے درجے والا بھی نہ تھا۔ ظلم و زیادتی کو ہاتھ سے روکنا تو ہمارے بس میں نہیں تھا ، مگر زبان تک سے بھی ہم نے احتجاج نہیںکیا اور دل میں وردی پوشوں کی اس گھناؤنی اور اسلام دشمن حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجاے ہم نے اپنی اُس بہن ہی کو موردِ الزام ٹھیرایا۔

میں آج بھی اُس بہن کے چہرے کو یاد کرکے اپنی نظریں جھکا لیتا ہوںاور میرے ضمیر کی آوازمیرے قلب و روح سے چین و سکون ہی چھین لیتی ہے۔میں الطاف راجا کے’تم تو ٹھیرے پردیسی…‘ کے اُس گانے کو یاد کرکے سوچنے لگتا ہوں کہ واقعی ہم اپنی اُس بہن کے لیے ’پردیسی ہی ٹھیرے‘ تھے۔ اُس کی دنیا: دین داری، شرافت اور غیرتِ مسلم تھی اور ہماری دنیا: بزدلی، جان کی امان اور دین سے دور مادہ پرستانہ زندگی تھی۔ دونوں کے درمیان موت اور حیات جیسا فیصلہ قائم تھا۔ ہم بھلے ہی اُسے بہن کہنے میں فخرمحسوس کرتے تھے، لیکن حقیقی معنوں میں وہ ہماری دنیا کی باسی نہیں تھی بلکہ ہمارے دیس میں بھی پردیسی اور اجنبی تھی۔وہ چند منٹ آج بھی مجھے کسی قیامت سے کم نہیں لگتے، جن میں اُس دین دار باحیا قوم کی بیٹی نے اپنے چہرے سے نقاب نوچ کر ہماری گونگی غیرت اور بزدل حمیت اور ایمان و مسلمان ہونے کے دعوے پر تازیانے برسائے تھے۔  میرا جی چاہتا ہے کہ میں دنیا کی ان گہما گہمیوں میں حوا کی اُس بیٹی کو تلاش کروں اور اُس کے سامنے اپنا دامن پھیلاکر معافی مانگوں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر اور زار وقطار رو کر اپنی بزدلی کے لیے معافی مانگوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اُس سانحے کی یادیں اپنی دل و دماغ سے کرید کر نکال باہر کروں مگر میرا ضمیر مجھ سے بار بار مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ: کیا تمھارے معافی مانگنے سے اور اُس بہن اور    اللہ کے معاف کرنے سے اُس بے چاری کے دل و دماغ سے دینی غیرت و حمیت کے چھن جانے کی تلخ یادیں ختم ہوجائیں گی؟کیا تمھاری یہ ندامت اُس کی اُس تذلیل اور ذلت کا نعم البدل ہوسکتی ہے؟

ضمیر کا یہ بوجھ جو لحد تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اب یہ اذیت ناک پچھتاوا میرے قلب و جگر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پچھتاوا ہی رہے گا!