ڈاکٹر ادھم شرقاوی


یہ اعتقاد رکھنا ایمان کے نہایت سادہ وسطحی معانی میں سے ہے کہ جب مومن احکامِ الٰہی کی پابندی کرے اور گناہوں سے اجتناب کرے تو اس دُنیا میں اس کی زندگی کا سفر پھولوں کی سیج پر گزرے گا۔ اس کی دُعائیں رَد نہیں ہوں گی، اسے بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، اس کا رزق تنگ نہیں کیا جائے گا، اور وہ ظالموں کے ظلم کا شکار نہیں ہوگا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ دُنیا دارالامتحان ہے، دارالجزا نہیں۔ یہ بیج بونے کی زمین ہے، فصل کاٹنے کا کھیت نہیں، جہد و سعی کا راستہ ہے، منزلِ مقصود نہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ مومن کی خوش بختی اور سعادت اُس کے اس تسلیم و رضا کے رویے سے پھوٹتی ہے کہ اللہ کا ہر فیصلہ خیر ہوتا ہے، خواہ اس کی حکمتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہی ہوں۔ اللہ کی تقدیر جاری اور نافذ ہوکر رہتی ہے۔ کوئی ناراضی و رضامندی اُسے روک نہیں سکتی، بلکہ ناراض ہونے اور شکایت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور رضامندی کا اظہار کرنے والا اجر اور سعادت کا حق دار قرار پاتا ہے۔ 

کائنات میں جاری قوانینِ قدرت کا فہم رکھنے والا صاحب ِ عقل اس بات سے ناواقف نہیں ہوتا کہ اللہ کی فرماں برداری کا معاملات کی آسانی میں ایک اثر ضرور ہوتا ہے، اور معاملات کو اُلجھانے اور بگاڑنے میں گناہوں کا اثر۔مگر دُنیا کی ہر آزمائش و امتحان کو اس اصول سے مربوط کردینا اور اسے ایک مستقل قانون مان لینا ایمان کا سطحی مفہوم ہے بلکہ سیکڑوں دلائل و شواہد اس بات کو یقینی ٹھیراتے ہیں کہ اہل ایمان کو پہنچنے والی بیشتر تکلیفوں کا سبب اُن کا حق پر ثابت قدم رہنا ہوتا ہے نہ کہ باطل پر ہونا۔ یعنی یہ تکلیفیں اُن پر اس لیے آئیں کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کے راستے پر تھے، معصیت و گمراہی کے راستے پر نہیں۔ 

فرعون نے اپنی بیٹی کی خادمہ کے بچوں کو یکے بعد دیگرے، کھولتے ہوئے تیل میں محض اس لیے پھینکا کہ وہ اطاعتِ الٰہی کی راہ پر تھیں، اس لیے نہیں کہ وہ معصیت کے راستے پر تھیں۔ اور پھر خود اُس خاتون کو بھی جب تیل میں پھینکا گیا تو صرف اس وجہ سے کہ اُس نے اپنی اولاد کے عوض اپنے ایمان و عقیدے کا سودا کرنے سے انکار کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس ظالم فرعون کو اُس خاتون کے گناہوں کے سبب اُس پر نہیں مسلط کیا تھا، بلکہ یہ تو حق و باطل کی کش مکش تھی۔ 

اسی طرح جب ظالم بادشاہ نے خندقیں کھدوا کر اُن میں اہل ایمان کو پھینک کر آخری فرد تک کو ہلاک کر دیا تو یہ اُن اہل ایمان کے گناہوں کے باعث نہیں ہوا تھا بلکہ اُن کے ایمان کی وجہ سے ہوا تھا۔ایک بچّے کے ساتھ ملاقات سے چند ہی گھڑیاں پہلے یہ لوگ محفوظ و مطمئن تھے کیونکہ اس وقت شرک پر تھے لیکن خندقوں کی آگ نے انھیں اس لیے بھسم کیا کہ وہ ایمان کے راستے پر آچکے تھے۔ 

یہ ظالم ان لوگوں پر اُن کے گناہوں کے سبب مسلط نہیں ہوا تھا بلکہ یہ حق و باطل کا ٹکرائو تھا۔ جب جادوگروں کی جماعت فرعون کی عزّت کی خاطر حضرت موسٰی کو زیر کرنے آئی تھی تو وہ فرعون کے ہاں بڑی معزز و مکرم جماعت تھی۔ اُس نے انھیں انعامات و اکرامات سے نوازنے اور اپنا مقرب بنانے کے وعدے بھی کیے تھے اور یہ سب کچھ اُس وقت تک تھا جب تک وہ شرک پر تھے۔ مگر اس نے ان کے ہاتھ پائوں الٹی سمتوں سے کاٹ دیئے، اور انھیں کھجور کے بلند تنوں پر پھانسی چڑھا دیا، اس لیے کہ اُس وقت وہ شرک کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ایمان پر آچکے تھے۔یہ ظالم، اُن جادوگروں کے گناہوں کی بنا پر اُن کے اُوپر مسلط نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ حق اور باطل کا تصادم تھا۔ 

جب سیّدنا زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا تو اُن کے گناہوں کی بنا پر نہیں بلکہ اُن کی اطاعت ِ خداوندی کے باعث، لہٰذا بہت سادہ بات ہے کہ یہ حق و باطل کی کش مکش تھی۔ 

اسی طرح جب سیّدنا یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کیا گیا اور ایک فاحشہ عورت کو بطورِ مہر پیش کیا گیا تو سیّدنا یحییٰ ؑ پر یہ ظلم اُن کی گنہگاری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی فرماں برداری کا اعلان کرنے اور ظالم کی بے حیائیوں پر اُسے ٹوکنے کے باعث ڈھایا گیا!___ ظاہر ہے کہ یہ حق و باطل کے ٹکرائو کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ 

جب قریش مکہ نے سیّدہ سمیہؓ کو زمین میں گاڑا تو یہ اُن کے غیرمتزلزل ایمان کے باعث ہوا۔ جب ابوجہل نے انھیں اپنا نیزہ مارا، جب کہ وہ زمین میں گڑی ہوئی تھیں، تو اس ظلم کا سبب سیّدہ سمیہؓ کی گنہگاری نہیں بلکہ ایمان سے وفاداری تھی۔ جب اس ظالم نے اُن کے عقیدے کا سودا کرنا چاہا تو اُنھوں نے اس کے منہ پر تھوک دیا جو اس بات کا اعلان تھا کہ میرا ایمان قابلِ فروخت نہیں___کوئی شک نہیں کہ یہ حق و باطل کا ٹکرائو تھا۔ 

اسی طرح جب سیّدنا یاسرؓ کو سیّدنا عمارؓ کی نظروں کے سامنے سولی پر چڑھایا گیا تو یہ اُن کے گناہوں کی سزا نہیں تھی،بلکہ یہ کائنات میں جاری قوانین الٰہی میں سے ایک قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے ایمان کی بناپر کافر کے کفر کے ذریعے مبتلائے آزمائش کرتا ہے___ یقینی بات ہے کہ یہ کش مکشِ حق و باطل ہے۔ 

جب صحابہ کرامؓ کو مکہ مکرمہ سے اجنبی سرزمین حبشہ کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا تو قریش نے ان کی نافرمانیوں کی بنا پر ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ اس ہجرت کا سبب صحابہؓ کا پختہ عقیدئہ ایمان تھا، جس کو متزلزل کرنے میں قریش ناکام رہے تھے۔صحابہ کرامؓ ایمان کے اُس عظیم مقام پر تھے جس نے ان کے وطن و قبیلے اور اہل و عیال پر ایمان کو اُن کے لیے مقدم بنا دیا تھا۔ 

امام بخاری کی روایت کردہ حدیث خباب بن ارتؓ کے مطابق: ہم نے رسولؐ اللہ سے شکوہ کیا اور اُس وقت آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر کا تکیہ بنائے آرام فرما تھے۔ ہم نے عرض کیا: کیا آپؐ ہمارے لیے مدد و نصرت نہیں مانگیں گے؟ کیا ہمارے لیے دُعا نہیں فرمائیں گے؟ 

آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے جو تھے، اُن میں سے تو کسی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور اس میں اُسے گاڑ دیا جاتا۔ پھر آرا لایاجا تا، اس کے سر پر رکھا جاتا اور اس کو دوحصوں میں چیر دیا جاتا۔ لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت نوچ کر ہڈیوں سے الگ کر دیا جاتا۔ مگر یہ ظلم بھی اُس کو اُس کے دین سے باز نہ رکھ سکا۔ 

بخدا، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل کر کے رہے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے چلے گا اور حضرموت تک آجائے گا کہ اُس کو اللہ کے خوف کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہوگا۔ ہاں بھیڑبکریوں پر بھیڑیے کا خوف ہوسکتا ہے مگر تم جلدبازی سے کام لے رہے ہو! 

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ مفہوم کی گہرائی کا اندازہ کیجیے کہ یہ ظلم بھی انھیں اُن کے دین سے باز نہ رکھ سکا۔یہ صاحبانِ ایمان نہایت بُری طرح قتل کیے گئے اور صرف اس لیے کہ دین پر پختگی سے قائم تھے۔ اگر اُن میں سے کوئی دین کو چھوڑ دیتا تو قتل کا آلہ اُسی وقت اُس کے سرسے ہٹا لیا جاتا۔یہ ظالمانہ اور بہیمانہ قتل کوئی گناہوں کا خمیازہ نہیں تھا، بلکہ یہ حق و باطل کی کش مکش کا نتیجہ تھا۔ 

جب سیّدنا حمزہ ؓ کو نیزہ مارا گیا تو محض اس لیے کہ وہ ایمان لاچکے تھے۔ جب اُن کا سینہ چاک کیا گیا اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تو اس لیے کہ صرف اُن کے قتل سے دشمنوں کے سینے ٹھنڈے نہ ہوئے تھے۔ سیّدنا حمزہؓ انھیں غزوئہ بدر میں غیرمعمولی تباہی کا مزہ چکھا چکے تھے۔ 

ذرا سوچیے، اس کا سبب کیا تھا؟ کفروشرک نہیں بلکہ توحید کا عقیدہ و ایمان! 

سیّدنا مصعب بن عمیرؓ، قریش کے جوانِ رعنا کے قتل کا منظر بھی دیکھیے کہ غزوئہ اُحد میں ان کے دونوں بازو کاٹ دیئے گئے، سبب کیا تھا؟ گناہ نہیں ایمان! 

جب وہ شرک پر تھے تو قریش کے سب سے وجیہ اور نمایاں نوجوان تھے مگر جب ایمان قبول کرچکے تو قریش ہی نہیں، بلکہ حقیقی ماں بھی خلاف ہوگئی۔ یہ اصل میں حق و باطل کا معرکہ ہے۔ 

قرآن کریم کی جمع و تدوین کا سبب جنگِ یمامہ کے روز شہید کیے جانے والے حفاظ صحابہؓ کا قتل بنا۔ مسلمانوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھنے والے صحابہؓ کی شہادتوں سے کہیں قرآن مجید ہی ناپید نہ ہوجائے۔کیونکہ یہی صحابہؓ قرآن کے حافظ تھے، اور یہی سرحدوں کے مجاہد اور محافظ! 

ان عظیم انسانوں کو محض اس لیے قتل کیا گیا کہ یہ اسلام کے علَم بردار تھے۔ میدانِ جہاد میں موجود تھے، ان کو گناہوں کے سبب قتل نہیں کیا گیا، بلکہ یہ ایمان تھا جس پر استقامت ان کے قتل کا سبب بنی۔ 

چلیے فرض کر لیتے ہیں کہ گنہگار مسلمان پر ہی کافر اور فاجر مسلط ہوتا ہے ، لیکن یہ کون کہتا ہے کہ بے گناہ اور نیک و پرہیزگار انسان بیٹھے رہیں اور یہ موقع اور حالات فراہم کرتے رہیں کہ اُسے قتل کر دیا جائے؟