حافظ نذراحمد


۱۹۴۱ء میں تقریباً تیرہ ماہ میری زندگی کے یادگار دور کے طور پر دارالاسلام ، پٹھان کوٹ میں گزرے۔ چودھری نیاز علی خان بڑے زمین دار اور محکمہ انہار کے ایک نیک دل ریٹائرڈ آفیسر تھے۔ ہوشیار پور میں اُن کی جدّی اراضی تھی اور گورداسپور میں اُن کی ذاتی زرعی اراضی تھی۔ قومی خدمت کا جذبہ اُن کے دل میں موجزن تھا۔ اُنھوں نے علامہ محمداقبال کے مشورے سے ایک علمی اور تعلیمی ادارے کا ایک عظیم منصوبہ بنایا اور اپنی ذاتی ملکیت سے ایک وسیع رقبہ اور کچھ مزید زرعی اراضی خرید کر۶۴؍ایکڑ اراضی اس مقصد کے لیے وقف کردی۔ یہ ادارہ آگے چل کر ’دارالاسلام‘ کے نام سے معروف ہوا۔’دارالاسلام‘ صحیح معنوں میں ایک مکمل کالونی تھی، جس میں طلبہ کے لیے ایک درجن کے قریب کمروں پر مشتمل وسیع ہوسٹل مع لوازمات، اساتذہ کے لیے دو دو کمروں پر مشتمل چھ مکانات، پرنسپل اور انتظامی عملے کے لیے دو کوٹھیاں، کارخانے کے لیے وسیع ہال بنایا گیا تھا۔ ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد بھی تھی جس سے ملحق مدرسہ و دفتر کی عمارت تھی۔ اس میں دو کمروں کے علاوہ لائبریری اور دارالمطالعہ تھا۔ 

’دارالاسلام‘ کی یہ آبادی پٹھان کوٹ سے چھ کلومیٹر پہلے راوی سے نکلنے والی نہر کے ایک طرف پُرفضا مقام پر واقع تھی۔ اُس کے شمال میں ریلوے لائن تھی۔’ دارالاسلام‘، سرنااسٹیشن کے بیرونی سگنل کے سامنے دو ڈھائی فرلانگ [۴۴۰ میٹر فاصلے]پر واقع تھا۔  

یہ تاریخی حقیقت سب کے علم میں ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی و امیر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ’دارالاسلام ‘چودھری نیاز علی خان کی دعوت پر ہی حیدرآباد دکن سے ترکِ سکونت کرکے پنجاب آئے تھے۔ ابتداء میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ’دارالاسلام‘ میں قیام پذیر ہوئے، مگر تھوڑے عرصے کے بعد چودھری صاحب اور ان کے درمیان کچھ [اُمور پر]اختلاف پیدا ہوگیا تو سیّدصاحب نے ’دارالاسلام‘ سے لاہور نقل مکانی کرلی۔ چند ماہ ایسے ہی گزر گئے۔ پھر چودھری صاحب نے مرزا عبدالحمید صاحب کو دعوت دی کہ وہ یہاں کے انتظامات سنبھال لیں۔ مرزا صاحب وہاں تشریف لے گئے، مگر شہری دُنیا سے دُور ایک ایسے الگ تھلگ مقام میں وقت گزارنااور شب وروز کی شہری مصروفیات ترک کر کے خلوت کی زندگی بسر کرنا کہاں آسان ہوتاہے۔ اُنھوں نے چودھری صاحب کو آمادہ کیاکہ مجھے [نذراحمد] بطورِ قائم مقام ناظم یہاں بلا لیں، چنانچہ میں نے ’دارالاسلام‘ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا۔ یہاں میری مصروفیات اور ذمہ داریوں کا مختصر نقشہ یہ رہا: 

میرے شب و روز 

اُس وقت ’دارالاسلام‘ میں چند بیرونی طلبہ مقیم تھے۔ میں اُن کا معلّم ، ہوسٹل انچارج، مسجد کا خطیب، دفتر میں چودھری نیاز علی خان صاحب کا نائب، اکائونٹنٹ، ماہنامہ دارالاسلام کا نائب مدیر، پروف ریڈر، مزید برآں طلبہ کو ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے قائم شدہ جفت سازی کے کارخانے اور کپڑے کی کھڈیوں کا نگران تھا۔ اس مختصر بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے۔ 

چودھری نیاز علی خان کی رہائش نہر کے اُس پار ایک قلعہ نما وسیع و عریض مکان میں تھی، اُسے ’قلعہ جمال پور‘کہتے تھے۔ ابتدائی ایام میں میرے کھانے پینے کا انتظام وہیں تھا۔ عصر کے بعد باہر لان میں چودھری صاحب، اُن کے صاحبزادے اور آنے جانے والے مہمان بیٹھ جاتے تھے اور ایک مجلس سی جم جاتی تھی، جس میں علمی، اصلاحی، سیاسی، غرض ہرموضوع پر گفتگو ہوتی تھی۔ مغرب کے بعد سب ایک میز پر کھانا کھاتے تھے۔ رات کو مَیں ’دارالاسلام‘ آجاتا تھا۔ میں نے ’دارالاسلام‘ میں انتہائی مصروف اور بھرپور زندگی گزاری۔ صبح اُٹھ کر نمازِ فجر اوردرسِ قرآن اور اُس کے بعد ایک طویل واک (walk)۔ اس میں طلبہ کے ساتھ ڈیڑھ دوکلومیٹر تیز دوڑ بھی ہوتی تھی۔ 

’دارالاسلام‘ میں ملک بھر سے مہمانوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ اُن میں سے چند ایک کا ذکر: 

  • پروفیسر یوسف سلیم چشتی: اُن سے یہیں پہلی ملاقات ہوئی۔ چشتی صاحب کا قیام چودھری صاحب کی رہائش گاہ میں تھا، لیکن وہ دن کا بیشتر حصہ ’دارالاسلام‘ میں گزارتے اور گھنٹوں لائبریری میں مطالعے میں مصروف رہتے، باقی وقت علمی گفتگو میں صرف ہوتا تھا۔ ’دارالاسلام‘ کی مختصر لائبریری میں بعض بڑی نایاب اور نہایت قیمتی کتب موجود تھیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد اور مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال  و البلاغ  کی جلدیں یہیں دیکھیں جو چند ایک پرچوں کے علاوہ مکمل تھیں۔چشتی صاحب کا مطالعہ ہمہ جہت تھا۔ وہ کتاب وسنت، تاریخ، فلسفہ، ادب اور تقابلِ ادیان کے متبحرعالم تھے۔ 
  • عبدالمجید قرشی: عبدالمجید قرشی صاحب ’سیرت کمیٹی‘ پٹی (ضلع لاہور) کے سیکرٹری سے بھی یہیں پہلی بار تعارف ہوا۔ وہ نہایت سادہ مزاج ، سادہ پوش اور سادہ خوراک تھے۔ سردی ہو یا گرمی، کھلی آستینوں کا سفید کُرتا اور سفید تہبند اُن کا لباس تھا۔ زیادہ سردی محسوس ہوتی تو اُوپر ہاف کوٹ پہن لیتے تھے۔ عام طور پر ناشتے کے لیے ایک روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے۔ فجر کے بعد کافی دیر ٹہلتے، ایک لقمہ توڑ کر منہ میں رکھ لیتے اور دیر تک چباتے۔ اگر مطالعے یا تحریر میں مصروف ہوتے تو بھی یہی صورت ہوتی۔ ایک روٹی آدھ پون گھنٹے میں ختم کرتے تھے۔ 

موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ’سیرت کمیٹی‘ کے بانی اور مستقل سیکرٹری تھے۔ اُنھوں نے سیرت النبیؐ پر بے شمارمضامین لکھے۔ متعدد چھوٹی بڑی کتابیں تحریر کیں اور شائع کیں۔ وہ سیرت النبیؐ کے جلوس اور جلسوں کے بانی حضرات میں سے تھے۔ اُس دور میں جلوس ایک ہجوم اور ہڑبونگ کی صورت میں نہ ہوتے تھے، بلکہ علما جلوس کی قیادت کرتے، ہرچوراہے پر رُک کر مختصر تقریر ہوتی۔ درود وسلام شرکا کی زبانوں پر ہوتا، غرضیکہ یہ جلوس تبلیغ دین اور سیرت النبیؐ کے تذکار کا دریا ہوتا تھا۔ سیرت کی کتب اور رسائل کے علاوہ قرشی صاحب نے ہفت روزہ ایمان جاری کیا۔ وہ رسالے کے مدیر ، پروف ریڈر اور ناشر تھے۔ وہی چندے کے منی آرڈر وصول کرتے اور ان کا ریکارڈ رکھتے تھے، خود ہی خریداروں کے نام پتے لکھ کر رسالہ ڈاک کے حوالے کرتے تھے۔ 

قرشی صاحب نے درس قرآن شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انھوں نے کئی منصوبے شروع کیے، جن میں نہایت اہم منصوبہ اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کا تھا۔ 

’دارالاسلام‘ سے مَیں لاہور واپس آیا تو عبدالمجید قرشی صاحب نے بڑے اصرار سے مجھے دعوت دی کہ میں ’سیرت کمیٹی‘ میں اُن کا شریکِ کار ہوجائوں۔ میں نے پس و پیش کی تو انھوں نے اپنی چیک بُک میرے سامنے رکھ دی کہ جس قدر چاہوں، سال بھر کی پیشگی تنخواہ وصول کرلوں۔ لیکن میں ادارہ اصلاح و تبلیغ کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ یکّہ و تنہا کام کر رہے تھے۔ ایک نوجوان حمیدانور اُن کے ساتھ تھا۔ 

پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پٹی کا قصبہ ہندستان میں رہ گیا۔ قرشی صاحب نے لاہور ہجرت کرلی، اور میکلوڈ روڈ پر روزنامہ زمین دار  کے دفتر کے قریب ایک متروکہ بلڈنگ میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہ پُرآشوب دور تھا جہاں ایک روز کسی نے اُنھیں شہید کر دیا۔ گمان ہے کہ ملازم کا کام ہوگا۔ اُس نے پیسے کے لالچ میں ملک و ملّت کو ایک انتہائی مخلص ہستی سے محروم کر دیا۔ 

  • چودھری افضل حق: قائد احرار چودھری افضل حق صاحب سے بھی میری ملاقات چودھری نیاز علی خان صاحب کے مکان قلعہ جمال پور میں ہوئی۔ وہ اُن کے قریبی عزیز تھے، جو ڈلہوزی جاتے ہوئے چند دن کے لیے اُن کے ہاں ٹھیرے تھے۔ گلا بیٹھا ہوا تھا، لیکن گفتگو پُرجوش انداز میں فرماتے تھے۔ اُن کے اہل خانہ ساتھ تھے۔ اُن کے بیٹے کی عمر اُس وقت دس بارہ سال ہوگی۔ آزادی کی لگن اور انگریز کے خلاف نفرت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 
  • محمد صدیق مستری:محمد صدیق مستری صاحب، محترم چودھری صاحب کے مہمان تھے، لیکن اُن کا مستقل مسکن قیامِ پاکستان تک ’دارالاسلام‘ کے دو کمروں والے مکان میں رہا۔مستری صاحب اپنے وطن کپور تھلہ میں آٹے کی چکّیوں کے ڈیزل انجنوں کو نصب کرنے اور مرمت کرنے کا کام کرتے تھے۔ آپ جماعت اسلامی کے اوّلین ارکان میں سے تھے۔ 

مستری صاحب کا مطالعہ نہایت گہرا اور وسیع تھا۔ دین اور دین کے تقاضوں پر اُن کی نظر گہری تھی۔ اُن کی زندگی اسلامی تعلیمات کا مظہر تھی۔ وہ انگریز کی حکومت کو طاغوتی نظام سمجھتے اور کسی طور بھی اُس سے تعاون کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ اُن کی اہلیہ مالیخولیا کی مریضہ اور اس وہم میں گرفتار تھیں کہ ساری دُنیا اُن کے شوہر کی دشمن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اُنھیں نماز کے علاوہ گھر سے باہر ہی نکلنے نہ دیتیں، اور وہ بھی گھڑی دیکھ کر چند منٹ کے لیے۔ اگر مقررہ منٹوں سے کچھ دیر زیادہ ہوجاتی تو لاٹھی ٹیکتی ہوئی مسجد پہنچ جاتیں اور للکارتیں: ’’دشمنوں میں بیٹھے کیا کررہے ہو؟‘‘ 

 خوش قسمتی سے موصوفہ کو مجھ پر کچھ اعتماد تھا۔ میں مستری صاحب کے پاس جابیٹھتا یا وہ میرے پاس تشریف لے آتے۔ اُنھوں نے مجھے الصلوٰۃ معراج المؤمن  (نماز مومن کی معراج ہے) کی لذت سے آشنا کیا۔ نمازِ عشاء کے بعد جب سب لوگ مسجد سے رخصت ہوجاتے تو ہم دونوں دو نفل باجماعت ادا کرتے۔ اس میں وقت ضرور لگتا، لیکن یہ حدیث مبارکہ وارد ہوتی محسوس ہوتی۔ یہ بات قلبی واردات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا ذریعہ دو اُمور ہوتے ہیں: ایک یہ کہ نماز کے جملہ الفاظ اور اوراد زبان سے یوںادا کیے جائیں کہ اپنے کانوں تک آواز پہنچے اور شروع سے آخر تک نماز کے الفاظ کے مطالب پیش نظر رہیں۔ مزیدبرآں نماز کی ہرحرکت کا مقصود پیش نظر ہو، یعنی ہم نے کانوں کی لو تک ہاتھ سب سے قطع تعلق کرنے کے لیے بلند کیے ہیں۔ ہم کیوں اور کس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں؟ رکوع میں ہمارا سر کس کے آگے خم ہے، سجدے میں ہم اپنی پیشانی اور ناک کس کے سامنے رگڑ رہے ہیں؟ اور زبان سے ربّی الاعلٰی  کا اقرار کر رہے ہیں۔ 

محمد صدیق مستری گو عرفِ عام میں عالم نہ تھے، لیکن سچ یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطالعے کا ذوق اور معنی کی حقیقت تک پہنچنے کا انداز انھوں نے خوب خوب دل نشین کرایا۔ انھوں نے لفظ ’طاغوت‘ پر مجھے ایک مضمون لکھنے کی تحریک دی۔ اس کام میں کئی دن لگے، مگر ’طاغوت‘ کے متعین معنی اور اس کی حقیقت واضح ہوگئی۔ لفظ ’طاغوت‘ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ میں نے مستری صاحب کی تحریک پر یہ تمام آیات ایک کاغذ پر تحریر کرلیں۔ اس کے ساتھ ہی لفظ ’طاغوت‘ کے تمام مشتقات مثلاً طغٰی، طُغیان وغیرہ کی آیات تحریر کیں۔ ان سب آیات کا ترجمہ کیا تو ’طاغوت‘ کا ایک ہی مفہوم اور ایک ہی ترجمہ متعین ہوگیا، یعنی وہ بااختیار، صاحب ِ قوت ، جو اپنے اقتدار کے نشے میں حد سے بڑھ جائے اور سرکش ہوجائے، حکمِ خداوندی کے آگے سر نہ جھکائے۔ اگر ایک لفظ میں مفہوم کو ادا کرنا ہوتو’حد سے بڑھ جانے والا‘ ہوگا۔ یہ مضمون اس وقت کے متعدد علمی جرائد کو بھیجا، بعض نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا ۔ 

  • علّامہ محمد اسد (سابق لیوپولڈوئیس):جن دنوں میرا قیام ’دارالاسلام‘ میں رہا، یہ دوسری عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا۔ حکومت ِ برطانیہ نے ہر اُس شخص کو قیدوبند میں ڈالا، یا نظربند کیا ہوا تھا جس پر اُسے ذرا بھی شک تھا۔ علّامہ محمداسد (سابق لیوپولڈوئیس) ایک یہودی خاندان سے کٹ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ گو، اب سارا عالمِ اسلام ان کا وطن تھا، خاص طور پر سعودی عرب کی شہریت اُنھیں حاصل تھی، محض اس ’تہمت‘ پر کہ وہ آسٹریا میں پیدا ہوئے، اُنھیں نظربند کردیا گیا‘۔ 

چودھری نیاز علی خان صاحب سے اُن کے گہرے مراسم تھے۔ علامہ صاحب کی اہلیہ اُن کی بیٹی بنی ہوئی تھیں۔ آخرکار جب وہ رہا ہوئے تو چودھری صاحب اور اُن کے رفقا کے ساتھ بندہ بھی امرتسر ریلوے اسٹیشن پر اُن کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھا۔ وہ اپنی بیگم اور بیٹے کے ساتھ چودھری صاحب کے ساتھ قلعہ جمال پور میں مقیم رہے۔ اب چودھری صاحب کی کوٹھی کے باہر بعدعصر جمنے والی مجلس میں علامہ اسد روحِ رواں ہوتے تھے۔انگریزی زبان میں اُن کی عالمانہ گفتگو نہایت توجہ سے سنی جاتی تھی۔ اُن کے حسین چہرے پر مختصر سی چھدری داڑھی نہایت بھلی لگتی تھی۔ ایک دن ایک صاحب نے [اُن کی]داڑھی پر بے ہنگم سوال کردیا۔ علامہ صاحب جوش میں آگئے۔  فرمایا: ’’مسٹر! اگر میری داڑھی کے دو بال بھی ہوتے تو میں جان سے زیادہ اُن کی حفاظت کرتا‘‘۔ 

علامہ اسد نے یہیں بخاری شریف کا انگریزی میں ترجمہ تشریح کے ساتھ شروع کیا۔ ’دارالاسلام‘ میں اس کے لیے ایک مختصر سا پریس بھی لگایا۔ قیامِ پاکستان تک چار پارے طبع ہوسکے تھے۔ محترم علامہ اسد نے ایک ایک لفظ کی تحقیق کا حق ادا کیا۔ مولانا عطاء الرحمٰن ایک جیّد عالم ’دارالاسلام‘ میں مستقل مقیم تھے۔ اگر کسی لفظ پر علامہ اسد کو اشتباہ ہوتا تو بلاتکلف اُن سے رجوع کرتے تھے۔ دوسری طرف علامہ اسد نے طباعت اور اشاعت کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ’دارالاسلام‘ کے قیام کے دوران میں محترم علامہ اسد سے میں نے بہت سی باتیں سیکھیں۔ 

  • چودھری نیاز علی خان:چودھری صاحب نہایت مخلص، ایثار پیشہ اور باکردار بزرگ تھے۔ بڑھاپے میں نوجوانوں سے زیادہ نوجوان تھے۔ صبح سے شام تک سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ کبھی اُن کے چہرے پر تکان کے آثار نظر نہ آئے۔ اُن کے معمولات کچھ اس نوعیت کے تھے: 

نمازِ تہجد کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کرتے اور ضروری مضامین اور خطوط کے جواب لکھتے۔ نمازِ فجر کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ قرآن کریم کے ترجمے پر کام کرتے تھے۔ وہ ترجمے کا کام اس طرح کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بڑے سائزکا ایک رجسٹر ہوتا تھا۔ اس کی پہلی سطر میں قرآن کریم کی آیت چسپاں کرتے، پھر نیچے متعدد مترجمین کے کیے ہوئے تراجم نقل کرتے، اس احتیاط کے ساتھ کہ ہرسطر کا ترجمہ اُسی سطر میں آجائے۔ اُن کی یہ خدمت قرآن کریم پر کام کرنے والوں کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مترجمین قرآن نے کلام اللہ کی تفہیم میں کتنی محنت کی ہے، اور مفہومِ قرآنی کے قریب تر جانے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد تاج کمپنی کی طرف سے دس مختلف تراجم پرمشتمل پانچ پاروں کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی۔ 

قرآن کریم کے ترجمے سے فارغ ہو کر چودھری صاحب ناشتہ کرتے۔ اُن کا معمول تھا کہ تمام مہمان ناشتے اور کھانے میں ایک میز پر اکٹھے ہوں۔ ناشتے میں توس، انڈا، پراٹھا، مکھن دہی، اور مربّہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ دودھ اور چائے اس کے علاوہ ناشتے کا جز ہوتی۔ ناشتے کے بعد چودھری صاحب بالعموم ’دارالاسلام‘ آجاتے۔ اُن کا حلقۂ احباب خاصا وسیع تھا اور خط کتابت اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کے علاوہ حسابات مرتب کرتے، ماہنامہ دارالاسلام کے لیے مضامین کا انتخاب کرتے۔ وہ رسالے میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر اپنے خاص انداز میں بالاقساط لکھ رہے تھے۔ ماہنامہ دارالاسلام میں طبع شدہ پہلا پارہ اور تیسواں پارہ جدا کتابی صورت میں بھی چھپ گیا ہے (ان کا دوسرا ایڈیشن جوہر آباد سے شائع ہوا ہے)۔ چودھری صاحب ادارے کی جزئیات پر نظر رکھتے تھے۔ دوپہر کو کھانے کے وقت اپنے دولت خانے پر واپس جاتے، کھانے اور نمازِ ظہر کے بعد قیلولہ اُن کا معمول تھا۔ عام طور پر دوپہر کے بعد بھی ’دارالاسلام‘ کا چکّر لگاتے تھے۔ 

چودھری صاحب کی مزروعہ اراضی وسیع و عریض تھی۔ جس میں امرود، لوکاٹ، آم اور مختلف پھلوں کے کئی باغ تھے۔ اُن کی نرسری نہایت اعلیٰ درجے کی تھی۔ ملک کے دُور دراز مقامات سے پودوں کے لیے فرمائشیں آتی تھیں۔چودھری صاحب کے بڑے بیٹے چودھری محمد اسلم خان ایگریکلچر میں بی ایس سی کے بعد اسی کام کے لیے وقف ہوکر رہ گئے تھے۔ اُن کے دوسرے بیٹے چودھری محمداعظم خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اقوام متحدہ میں بطورِ ماہر معاشیات ملازم ہوئے۔  

چودھری نیاز علی خان صاحب نے مضمون نگاری میں ایک اُپج پیدا کی تھی۔ وہ طویل مضامین کا اختصار اس طور کرتے کہ مضمون کے غیرضروری فقرے اورمترادف الفاظ قلم زد کر دیتے۔ اس طرح نہ مضمون کا تسلسل ٹوٹتا، نہ قاری کو کوئی تشنگی محسوس ہوتی۔ اگر مضمون نگار خود اپنے مضمون کی تلخیص کو پڑھتا تو اسے کسی تبدیلی کا گمان نہ ہوتا تھا۔ 

’دارالاسلام‘ میں میری زندگی کے تیرہ ماہ انتہائی مصروفیت کے تھے۔ رات کو صرف چند گھنٹوں کے لیے کمر سیدھی کرنے کا موقع ملتا تھا اور یہ سب کچھ میں نے اپنے اُوپر اَزخود مسلط کیا ہوا تھا۔ چودھری صاحب نے کبھی کوئی ایسی پابندی مجھ پر عائد نہ کی تھی۔ پٹھان کوٹ سے ہی پُرفضا پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ڈلہوزی کے مشہور پہاڑ کچھ زیادہ دُور نہیں، لیکن اس کے باوجود ایک دو دن کے لیے بھی وہاں جانے کا موقع نہ ملا۔ ’دارالاسلام‘ سے لاہور واپسی کے بعد میں حسب ِ سابق ادارہ اصلاح و تبلیغ کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔ 

لاہور واپسی 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ’دارالاسلام‘ سے لاہور آگئے تھے اور یہاں اُنھوں نے ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی کے نام سے ایک دینی و سیاسی تنظیم قائم کردی تھی۔ چودھری صاحب کا اُن سے اختلاف رائے کام کے طریقے سے تھا، کوئی ذاتی مخالفت نہ تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ سیّدابوالاعلیٰ مودودی بھی ’دارالاسلام‘ کے ماحول کو بھولے نہیں تھے۔ چودھری نیاز علی خان صاحب بھی انھیں واپسی کے لیے تحریک دیتے رہتے تھے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے بعد سیّدمودودی کو بھی بڑے شہر کی بھیڑ بھاڑ سے کچھ فاصلے پر رہ کر اپنے ساتھیوں کی تربیت کی ضرورت تھی۔ چودھری صاحب اور اُن کے درمیان سلسلہ جنبانی ہوا اور ۱۹۴۲ء کے وسط میں وہ دوبارہ ’دارالاسلام‘ چلے گئے۔ معاملات نبٹانے کے لیے مجھے ایک ماہ مزید ٹھہرنا پڑا۔ یوں مجھے ایک مہینہ مولانا مودودی صاحب کی رفاقت کا موقع ملا۔ 

وقت گزرتا رہا، حالات دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر اس نہج پر آگئے کہ نوآبادیاتی طاقت نے آسودگی اسی میں محسوس کی کہ برصغیر کو آزادی مل جائے۔ قیامِ پاکستان کے بعد چودھری صاحب پہلے لاہور اور پھر جوہرآباد میں قیام پذیر ہوگئے۔ 

چودھری صاحب سے میرے تعلقات 

’دارالاسلام‘ سے آنے کے بعد بھی چودھری صاحب سے میرے تعلقات حسب سابق رہے۔ وہ مجھے خط لکھتے تو ’اخویم حافظ نذراحمد‘ سے مخاطب کرتے۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی تو ہرہفتے دو ایک مرتبہ اُن سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ 

لاہور میں چودھری صاحب کا قیام اپنے داماد رانا جہاں داد خان کی کوٹھی پر تھا۔ وہ ان دنوں ایس ایس پی لاہور تھے۔ میں ایک دن حاضر ہوا تو فرمانے لگے: ’’مجھے رات بھر نیند نہیں آتی، ڈاکٹر محمد مسعود صاحب کے کلینک لے چلو‘‘۔ میں نے وہیں سے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی فون کیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ چودھری صاحب جیسے بزرگ چل کر میرے ہاں تشریف لائیں، میں خود اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں‘‘۔ چودھری صاحب کا جواب تھا کہ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا۔ آخر طے پایا کہ چودھری صاحب ہی ڈاکٹر صاحب کے مطب پر جائیں گے۔ 

ڈاکٹر محمد مسعود صاحب نے بڑے احترام سے استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد بیماری کی بات چھڑی کہ ’رات کو نیند نہیں آتی‘۔ ڈاکٹر صاحب نے استفسار کیا۔ ’کیا ایسی بات تو نہیں کہ آپ کچھ سوچیں اور آپ کے دل کی بات زبان سے نکلے بغیر پوری ہوجائے؟‘ چودھری صاحب نے جواب دیا: ’’یہ بات تو ہے، مثلاً مجھے علامہ اسد کی Islam at the Crossroads کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چند منٹ کے بعد اُس کا ناشر خود لے کر آگیا۔ آج ہی آپ سے ملاقات کے لیے حافظ صاحب کی ضرورت تھی تو بن بلائے یہ خود آگئے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’آپ کو نیند تو آجائے گی‘‘، لیکن یہ ’کرامت‘ ختم ہوجائے گی۔ چودھری صاحب نے بڑے اعتماد سے فرمایا: ’’میں ایسی کرامتوں کا قائل نہیں‘‘۔ 

اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرنا اور ’دارالاسلام‘ جیسے مرکز کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہ تھی، مگر چودھری صاحب کا جذبۂ دعوتِ دین اُسی طرح جوان تھا۔ ایک دن مجھ سے فرمایا: ’’لاہور کے مسلمانوں کو کیا ہوگیاہے؟ اُن کی حمیت و غیرت کہاں گئی؟ عورتوں نے برقع اُتار دیا ہے، بے حجابانہ سڑکوں پر پھر رہی ہیں۔ اگر مجھے کوئی ایسا نوجوان مل جائے جو سٹول اُٹھا کر میرے ساتھ چلے تو میں مال روڈ کے ہرچوک پر کھڑے ہوکر ان کی غیرت کو للکاروں‘‘۔ بالآخر وہ لاہور چھوڑ کر جوہرآباد منتقل ہوگئے۔ 

جوہـر آباد 

یہاں انھیں ہندستان میں اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد کے عوض زرعی اراضی اور وسیع قطعات شہری آبادی میں الاٹ ہوئے تھے۔ اپنی رہائش کے لیے انھوں نے بلاک-اے جوہرآباد میں کوٹھی تعمیر کی تھی۔ چودھری نیاز علی خان صاحب نے چند پلاٹ چھوڑ کر اُسی ہلاک کے آخر میں ’دارالاسلام‘ (پٹھان کوٹ) کے عین نمونے پر تعمیرات کیں۔ ظاہر ہے پٹھان کوٹ کے مقابل یہ چھوٹا سا قطعۂ اراضی ہے، لیکن انھوں نے یہاں چھوٹے پیمانے پر ’دارالاسلام‘ تعمیر کردیا۔ اس میں دارالاقامہ بھی ہے، مسجد بھی ہے، دینی تعلیم کے لیے کمرے بھی، مزید برآں ہائی اسکول کی عمارت ہے، لائبریری اور ریڈنگ روم کا وسیع ہال بھی ہے۔ 

بندہ ہرسال جوہرآباد جاتا رہا ہے۔ عام طور پر۱۴؍اگست کو پروفیسر افتخاراحمد چشتی، جوہرآباد کے لیے رفیقِ سفر ہوتے تھے۔مرحوم چودھری نیاز علی خان صاحب کو ہم دونوں سے اس قدر محبت اور قلبی تعلق تھا کہ جوہرآباد دارالاسلام مسجد کی تعمیر کا آغاز ہمارے سالانہ دورے تک مؤخر رکھا۔ ہمیںاس کا قطعاً علم نہ تھا۔ نمازِ فجر کے بعد ہمیں وہاں لے گئے، بنیاد کھدی ہوئی تھی، ایک چٹائی پر بیٹھ کر مجلّہ صدقِ جدید (لکھنؤ)کا ایک مضمون خود پڑھ کر سنایا جو دارالاقامہ اور مسجد کے موضوع پر تھا۔ مجھ حقیر سے فرمایا: ’’چلو مسجد کی بنیاد کے لیے اینٹ رکھ دو‘‘۔میں لرزگیا، اینٹ پکڑ تو لی، لیکن رکھنے کی ہمت نہ ہوئی، تاہم آخر اپنے اس بزرگِ محترم کے اصرار پر پہلی اینٹ رکھی۔ دوسری اینٹ پروفیسر افتخاراحمد چشتی صاحب سے رکھائی گئی، تیسری اینٹ خود رکھی ۔ اللہ اللہ! وہ کس قدر خُردنواز تھے۔