مولانا امین احسن اصلاحی


انبیائے کرام ؑکی بعثت ہوتی ہی اس زمانے میں ہے، جب کہ حق و باطل میں امتیاز، وحی الٰہی کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہوجاتا ہے اور عملاً تمام نظامِ زندگی، حق کی جگہ باطل کے قبضہ میں آچکتا ہے۔ ایسے زمانے میں حق صرف نبی کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس کے دائرے سے باہر حق کے کچھ اجزا تو پائے جاسکتے ہیں، لیکن پورے حق کا پایا جانا ناممکن ہے۔ اس وجہ سے اگر انبیائے کرام ؑ ابتدا ہی میں لوگوں کو اس طرح مخاطب کریں کہ ’’اے کافرو! ایمان لائو، اے مشرکو! توحید اختیار کرو‘‘، تو صورتِ واقعہ کے اعتبار سے ان کا یوں دعوت دینا بے جا نہیں ہوسکتا، کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ ان کے دائرے سے باہر جو کچھ ہے وہ صرف کفروشرک ہی ہے۔

جن لوگوں نے حضرات انبیائے کرامؑ کی تاریخ پڑھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ لوگوں کو ’’اے انسانو! اے لوگو! اے میری قوم! اے اہل کتاب! اے وہ لوگو! جو یہودی ہوئے، اے وہ لوگو! جو نصرانی ہوئے، اے وہ لوگو! جو ایمان لائے‘‘ وغیرہ خطابات سے مخاطب کرتے ہیں اور ان کا یہی طرزِ خطاب اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک قوم ان کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور حق دشمنی سے اس قدر مایوس نہ کردے کہ ان کے لیے قوم سے علیحدگی اور ہجرت کا وقت آجائے۔

جب قوم اپنی حق دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ اہل حق کا وجود اپنے اندر کسی طرح گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور تائید ِحق کی بڑی سے بڑی دلیل بھی اس کی ضد کے آگے بیکار ہوکے رہ جاتی ہے۔ اس وقت انبیائے کرامؑ اپنی قوم کو چھوڑتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے کہ وہ صاف صاف الفاظ میں ان لوگوں کے لیے کافرومشرک وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو اپنے کفروشرک پر اَڑے رہتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا اُسوہ

یوں تو یہ حقیقت ہرنبیؑ کی دعوت میں واضح ہے،لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مدارج پر جس شخص کی نظر ہوگی، وہ اس حقیقت کا کسی طرح انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کو، اپنی قوم کو اور اپنے عہد کے بادشاہ کو، جن الفاظ سے خطاب کیا ہے، ان میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ مخاطب کو ایک کافرو مشرک کی حیثیت سے مخاطب کر رہے ہیں۔ لیکن جب دعوت و تبلیغ پر ایک مدت گزر گئی اور دلائل و معجزات کی ساری قوت قوم کی ضد کے مقابل میں نہ صرف بے اثر رہی بلکہ یہ ضد اس قدر بڑھ گئی کہ پوری قوم ان کی جان کے دَرپے ہوگئی۔ اس وقت انھوں نے قوم سے علیحدگی کا اعلان کیا اور ایسے الفاظ میں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کے کفروشرک کے ساتھ رواداری کی جو آخری حد تک ہوسکتی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے، اور اب نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کفروشرک کا اعلان کرنا چاہتے ہیں بلکہ قوم کے ساتھ اس وقت تک کے لیے اپنی نفرت و عداوت کا بھی اعلان کرنا چاہتے ہیں، جب تک وہ توحید پر ایمان نہ لائے:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ  اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّـا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِـمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ ۶۰:۴) تمھارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ہے، جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے، جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بالکل بَری ہیں۔ ہم نے تمھارا انکار کیا اور ہمارے اور تمھارے مابین ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارا ہوگئی تاآنکہ تم اللہ وحدہٗ (لاشریک لہٗ) پر ایمان لائو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کا اُسوہ

ٹھیک یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ہے۔ قربِ ہجرت سے پہلے کی کسی سورۃ میں بھی یہ بات نہیں مل سکتی کہ آپؐ نے اپنی قوم کو یا اہلِ کتاب کو صریح طور پر کافرومشرک یا منافق وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہو۔ بالکل ابتدائی سورتوں میں زیادہ تر خطاب یا تو يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ کے الفاظ سے  يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ یا ، یَقْومِ  کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح اہل کتاب کے لیے  يٰٓااَھْلَ الْکِتَابِ کے یا اس کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہاں تک کہ منافقین کے لیے بھی فتح مکہ کے بعد تک وہی عام لفظ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  کا استعمال ہوتا رہا اور صراحت کے ساتھ ان کو ’اے منافقو‘ کے الفاظ سے کہیں خطاب نہیں کیا گیا۔

 لیکن جب ایک مدت کی دعوت و تبلیغ کے بعد قوم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی اور نہ ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ مانا نہیں بلکہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ اس وقت آپؐ نے ہجرت فرمائی اور کفّارِ قریش کو صاف صاف’اے کافرو‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا گیااور ان سے اور ان کے دین سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ اسی ہجرت کے موقعے پر یہ سورۃ نازل ہوئی جو قریش سے اعلانِ برأت بلکہ اعلانِ جنگ کی سورۃ ہے:

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ   دِيْنِ۝۶ۧ (الکافرون۱۰۹: ۱-۶) کہہ دو: اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا۔ اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں۔ تمھیں تمھارا دین اور مجھے میرا دین۔

کافراور مرتکبِ کفر میں فرق

انبیائے کرام علیہم السلام یہ ساری احتیاط صرف اس حد تک برتتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں کو کافر و مشرک قرار دینے کا معاملہ ہے، ان کے کافرانہ اور مشرکانہ اعمال کو کفروشرک قرار دینے میں انبیائے کرامؑ کبھی کوئی رعایت نہیں فرماتے۔ اس چیز میں اگر کسی وجہ سے وہ کوئی رعایت کرنا بھی چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور سخت سے سخت مخالف حالات کے اندر بھی ان کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بات کو کفروشرک قرار دینے میں نہ وہ کسی خطرے کی پروا کریں اور نہ کسی مصلحت کا لحاظ کریں۔ اس کا سبب العیاذباللہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ لوگوں کو کافرو مشرک قرار دینا چاہتے ہیں۔ لیکن محض فتنے کے اندیشے یا اس خیال سے کہ لوگ دعوت سے بدک جائیں گے، ایسا کرنے سے احتراز کریں۔

اس طرح کی مصلحت پرستی ان کے ہاں جائز ہوتی تو کفّار جس طرح کے سمجھوتے کی تجویز پیش کیا کرتے تھے وہ بڑی آسانی سے ان کو منظور کرکے سارا جھگڑا ختم کرسکتے تھے۔ لیکن معلوم ہے کہ کسی پیغمبر علیہ السلام نے بھی دین کے بارے میں کبھی اس طرح کی مصلحت کا لحاظ نہیں کیا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو کتنے ہی بڑے بڑے خطرات کا مقابلہ کیوں نہ کرنا پڑا ہو ۔ اس وجہ سے یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے معاملے میں جو لوگ اتنے بے پروا اور اتنے بے خوف تھے، انھوں نے کفروشرک کے مرتکبین کو کافرومشرک قرار دینے میں اتنی احتیاط کی اور ان سے برأت اور علیحدگی کے اعلان میں اتنی دیر لگائی؟

اس فرق کی دو وجہیں

ہمارے نزدیک انبیائے کرام علیہم السلام، کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے باوجود ان کے مرتکبین کو کفروشرک قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت میں جو دیر لگاتے ہیں، اس کی دو نہایت اہم وجہیں ہیں:

  • پہلی وجہ:پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں کو جو کچھ سرزنش و ملامت ہے، وہ اتمامِ حجت اور تبلیغِ کامل کے بعد ہے۔اگر اتمامِ حجت اور تبلیغ کے بغیر لوگوں پر گرفت یا ان سے اظہارِ بیزاری جائز ہوتا توا للہ تعالیٰ انبیائے علیہم السلام کو مبعوث ہی نہ فرماتا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ انبیائے کرامؑ لوگوں کو کافر قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت کرنے سے پہلے ان کو اتنا موقعہ دیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ اور ان کے انکار کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی اور وجہ باقی نہ رہ جائے۔ یہ کام ایک مدت کی تبلیغ و تعلیم کا محتاج ہے۔ انبیاؑ کے وقفہ کے زمانے میں جو تاریکی چھا جایا کرتی ہے، وہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواص کو بھی راہِ حق سُجھائی نہیں دیتی، چہ جائیکہ عوام کالانعام۔ اس وجہ سے ہرگروہ تعلیم و تبلیغ کا محتاج ہوجاتا ہے۔ چونکہ تمام گمراہیاں باپ دادا کی روایات بن کر دلوں میں رچ بس جاتی ہیں، اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کے اغراض بھی وابستہ ہوجاتے ہیں اس وجہ سے اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے مٹانے کے لیے ایک مدت تک جہاد کیا جائے۔ حضرات انبیائے کرامؑ پورے صبرواستقلال کے ساتھ ایک لمبی مدت تک اس جہاد میں سرگرم رہتے یہاں تک کہ حق اس قدر واضح ہوجاتا کہ ان لوگوں کے سوا جن کے باطل کے ساتھ اغراض وابستہ ہوتے تھے، کوئی ا س سے انکار نہیں کرسکتا۔ جب تبلیغ کا حق اس حد تک پورا ہوچکتا، تب انبیاؑکے لیے یہ بات جائز ہوتی کہ وہ منکرین کے کفروشرک کا اعلان کرکے ان سے علیحدہ ہوجائیں۔
  • دوسری وجہ:دوسری وجہ یہ ہے کہ جب پوری سوسائٹی کا نظام حق کی جگہ باطل کی بنیاد ہی پر قائم ہوکر چلنے لگ جاتا ہے تو اُن لوگوں کے لیے بھی حق کی پیروی ناممکن ہوجاتی ہے، جو حق کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت زندگی کے ہر گوشے میں فساد اس طرح گھس جاتا ہے کہ کسی محتاط سے محتاط آدمی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ وہ فساد کے کچھ جراثیم نگلے بغیر سانس لے سکے۔ ایسی صورت میں اگر اس مجبوری کا لحاظ کیے بغیر انبیائے کرامؑ لوگوں پر کفروشرک کے فتوے جڑ کر ان سے براءت کا اعلان کردیتے تو یہ بہتوں پر نہایت شدید ظلم ہوتا۔ اس وجہ سے وہ تکفیر اور اعلانِ براءت سے اپنا کام شروع کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ایسا ماحول پیداہو کہ اس کے اندر اہل حق اپنے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

یہ ماحول جب پیدا ہونے لگتا اور زندگی کی وہ راہ کھل جاتی، جس پر حق پرست چل سکتے ہوں، اگرچہ یہ [راہ] ابھی تنگ اور دشوار گزار ہی ہو۔ تب وقت آتا ہے کہ جو لوگ اس کو چھوڑ کر محض اپنی تن پروری اور جھوٹی نمایشوں کی خاطر باطل کی راہ پر بھاگے چلے جارہے ہیں، ان کے کفرکا بھی اعلان کردیا جائے اور ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جائے۔

موجودہ حالات میں طریقۂ کار

حضرات انبیائے کرامؑ کے اس اسوئہ حسنہ سے اگر ہم موجودہ حالات میں رہنمائی حاصل کریں تو یہ امر بالکل واضح ہے کہ اس پوری دُنیا میں جو حالات ہیں وہ بہت سے اعتبارات سے انبیاؑ کے وقفہ کے زمانے سے اشبہ [اِشْبَاہ/مانند]ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب آج بے کم و کاست ہمارے اندر موجود ہے۔ اس وجہ سے اس وقت دُنیا کسی نبی کی ہدایت کی محتاج نہیں ہے اور نہ اب قیامت تک کسی نبی کی محتاج ہوگی، لیکن خلق کی رہنمائی اورمسلمانوں کو حق پر استوار رکھنے کے لیے ہمارا شرعی نظام، خلافت کا نظام تھا، جو ایک مدت سے درہم برہم ہوچکا ہے۔

اس وجہ سے اس وقت دُنیا جن خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوچکی ہے اس کے لیے وہ ایک بڑی حد تک معذور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کے لیے اب دُنیا پر اتمامِ حجت کا فرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ڈالا ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی بتائی ہوئی صورت یہ ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام قائم کریں، جو ایک طرف دُنیا کو نیکی اور بھلائی کے راستہ کی دعوت دے اور دوسری طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے۔ خلافت کا نظام قائم نہ رہنے کی وجہ سے ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی پوری نہیں ہورہی ہے بلکہ عملاً ساری دُنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آچکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لیے موجودہ نظامِ زندگی میں کوئی جگہ سرے سے باقی ہی نہیں رہ گئی ہے۔

نظامِ تعلیم، نظامِ تمدن، نظامِ معاشرت، نظامِ سیاست ہرچیز حق سے منحرف اور باطل کی مددگار ہے، یہاں تک کہ اس کے زیرسایہ اگر کوئی چھوٹا بڑا کام دین کے نام سے انجام دیا بھی جارہا ہے تو وہ بھی اس وقت کی فضا کی ناسازگاری کی وجہ سے باطل ہی کو تقویت پہنچارہا ہے۔ نیک سے نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستہ ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر  مزاحمت کے حق کے راستے پر نہیں چل سکتا۔ اگر دُور والے اسے تھوڑی دیر کے لیے بخش دیتے ہیں تو قریب والے ہی اس سے اُلجھتے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دوقدم بھی آگے بڑھ سکے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایاکہ ’’بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں‘‘۔ یہ چیز آج آنکھوں سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لیے فراخ سڑکیں ہیں، دو رویہ درختوں کا سایہ ہے، تیزرو سواریاں ہیں۔ حفاظت کے لیے بدرقہ ہے، ہرمنزل پر عیش و آرام ہے۔ آپ جس وقت چاہیں آرام سے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پر رُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے اس مزاحمت کو دُور کرلیں تو آگے کی راہ میں ہرقدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔

ایسے نازک اور پُرآشوب ِ زمانہ میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی بات ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ گمراہی کے اتنے سروسامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالمگیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد رہ گیا ہے۔  یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں نہ کہ ملامت کے اور سینہ سے لگالیے جانے کے لائق ہیں، نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمع ایمان زندہ رکھی ہے، اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیرشعوری گمراہیوں یا اضطراری ضلالتوں کی بناپر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار ہو۔

ریاست کا اسلامی تصور اُس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے، جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ’ریاست‘ یا’سلطنت‘ یا ’حکومت‘ کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں بلکہ ’خلافت‘ یا ’امامت‘ یا ’امارت‘ کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کا اسلامی تصوّر واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے اِن اصطلاحات پر غور کرنا اور اِن کے مضمرات کو سمجھنا ضروری ہے۔

’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کی اصطلاحیں ہماری فقہ کی کتابوں میں عموماً بالکل مترادف المعنی اصطلاحات کی حیثیت سے استعمال ہوگئی ہیں، جس کے سبب سے بعض اوقات کچھ خلطِ مبحث سا ہوجاتا ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ان اصطلاحات کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ ’خلافت‘ کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر ایک قائم شدہ ریاست کے لیے استعمال ہوئی ہے، اور ’امامت‘ یا ’امارت‘ سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے، جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھیے کہ جو فرق State اور Government کے درمیان ہے، اسی قسم کا فرق ’خلافت‘ اور ’امامت و امارت‘ کے درمیان ہے۔

اس تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ’’ریاست کا اسلامی تصوّر سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت ملحوظ رکھنی ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریاست نہیں ہے بلکہ وہ خلافت ہے‘‘۔ پھر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ کسی چیز کا صحیح تصوّر اس کی معیاری شکل ہی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں ’خلافت‘ کی بھی صرف وہی شکل زیربحث ہے جو معیاری ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی شکلیں، جن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، اس بحث میں ہمارے لیے کارآمد نہیں ہوسکتیں۔

  • خلافت کی اساس: اس مسئلے پر غور کرتے وقت ہمیں سب سے پہلے اس خلافت کا سراغ انسانی فطرت اور انسانی معاشرے کے اندر لگانا چاہیے۔ خوش قسمتی سے اس بارے میں اسلام نے ہمیں اندھیرے میں نہیں چھوڑا ہے کہ سیاسی فلسفیوں کی طرح انسان کے ابتدائی سیاسی تصوّرات سے متعلق ہمیں اٹکل کے تیر تکّے چلانے پڑیں، بلکہ وحیِ الٰہی نے ہمارے سامنے ایک واضح علم الانسان بھی رکھ دیا ہے، جس سے ہم اس خلافت کی اصل اور ابتدا بھی معلوم کرسکتے ہیں اور اس کی روشنی میں اس کے بنیادی تصوّرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔ میں یہاں اس علم الانسان کو قرآن سے اخذ کرکے اپنے الفاظ میں مختصرطور پر پیش کرتا ہوں:

قرآن میں اس خلافت کی ابتدا اس طرح بیان کی گئی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کرنا چاہا تو سب سے پہلے فرشتوں کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہار فرمایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں کے علم میں چوں کہ اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم نہیں تھی، اس وجہ سے ان کے حلقے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر اس نئی مخلو ق کے پیدا کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کا محض    یہ ہوتا کہ یہ اس کی تسبیح و تقدیس کرے تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،کیوں کہ اس کام  کے لیے تو ہم پہلے سے موجود ہی ہیں۔ لازماً یہ مخلوق خدا کے نائب کی حیثیت سے اس زمین کا انتظام و انصرام سنبھالے گی، اور اس کے خلیفہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کو اللہ کی طرف سے کچھ اختیارات بھی تفویض ہوں گے۔ پھر یہاں سے ان کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ اگر اس مخلوق کو اختیار بھی ملا تو یہ زمین میں عدل و انصاف کے بجاے خون ریزی اور فساد برپا کرنے والی مخلوق بن جائے گی۔ اپنا یہ اندیشہ فرشتوں نے ایک سوال کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جواب دیا کہ: یہ شبہہ تمھیں صرف اس وجہ سے لاحق ہوا ہے کہ تمھاری نظر میری پوری اسکیم پر نہیں ہے۔ چنانچہ ان کو آدم کی ذُریت کا مشاہدہ کرایا گیا اور پھر   ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آدم ؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں تمھارا یہ گمان صحیح ہے تو بتائو، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب کے سب زمین میں فساد ہی برپا کرنے والے ہیں یا ان میں نیکی اور انصاف پھیلانے والے بھی ہیں؟ فرشتوں نے نہایت ادب کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو (جو پہلے سے اپنی ذُریت کے ناموں سے واقف ہوچکے تھے) حکم دیا کہ وہ اپنی ذُریت کے نام ان فرشتوں کو بتائیں۔ حضرت آدم ؑ نے فرشتوں کو اپنی ذُریت کے ناموں سے آگاہ کیا اور ان کی نسل میں جو انبیاو رُسل اور جو مجددین و مصلحین پیدا ہونے والے تھے، ان کا تعارف کرایا۔ اس سے فرشتوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آدم ؑ اور  اولادِ آدم ؑ کو جو خلافت عطا ہورہی ہے، اگرچہ وہ اختیار و ارادے کی آزادی کے ساتھ عطا ہورہی ہے، جس سے خرابی کے بھی اندیشے ہیں لیکن ساتھ ہی اس اختیار و ارادے کی حدبندی اور انسان کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب و شریعت بھی نازل فرمائے گا اور اپنے نبی اور رسول بھی بھیجے گا۔ اس انکشاف سے فرشتوں پر اللہ تعالیٰ کی اسکیم واضح ہوگئی اور وہ مطمئن ہوگئے۔

  •  چند اجتماعی و سیاسی حقائق : قرآن نے تاریخِ انسانی کے اس بالکل ابتدائی ماجرے کو محض ایک کہانی کے طور پر نہیں سنایا ہے، بلکہ اس کے سنانے سے اصل مقصود چند اجتماعی و سیاسی حقیقتوں کی ابتدا کا سراغ دینا ہے۔ اس سے ’خلافت‘ کے تصوّر سے متعلق جو حقیقتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
  • ایک یہ کہ ’خلافت‘ کا وجود خود انسانی فطرت کا بُرُوْز [مظہر] ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انسان کو خارج سے لاحق ہوگئی ہو بلکہ اللہ نے اس کو اس منصب کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا شعور اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ وہ جب سے بھی اس دنیا پر ہے اس شعور کے ساتھ ہے اور اسی شعور نے اس کو سیاسی زندگی پر اُکسایا ہے۔ اس نے سیاسی زندگی مصنوعی طور پر نہیں اختیار  کی ہے اور نہ بے ضرورت اختیار کی ہے، بلکہ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے، جس کے پورا کیے بغیر اس کی شخصیت کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی۔
  • دوسری یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب خودمختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ’خلیفہ‘ اور ’نائب‘ کا ہے۔ اس کو ایک خاص دائرے کے اندر تصرف کا اختیار تو حاصل ہے لیکن یہ اختیار اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تفویض کردہ ہے۔ اس وجہ سے اس کا وہی تصرف جائز اور معقول ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو، ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ اس نیابت کے تصوّر کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کو اپنے ہر اس تصرف کے لیے جواب دہی کرنی پڑے گی، جو اصل مُستخلِف، یعنی اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہو۔
  • تیسری یہ کہ اس میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، نہ کہ انسانوں کی۔ اس میں قانون سازی اور تصرف کے جو اختیارات انسانوں کو حاصل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے تحت ہیں، یا پھر ان دائروں کے اندر ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے۔
  • چوتھی یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے تو اس منصب کے اہل سارے ہی انسان ہیں۔ اس کی ذمہ داریاں اُٹھانے کے لیے جو صلاحیتیں درکار ہیں، وہ بھی ہر ایک کے اندر ودیعت ہیں۔ لیکن، انسان اس منصب پر مجبور نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس کو اختیار کرے اور نہ چاہے تو نہ اختیار کرے۔ وہ اللہ کے حدود کا پابند رہ کر اس کا خلیفہ بھی بن سکتا ہے اور ان حدود سے آزاد ہوکر اس کا باغی بھی بن سکتا ہے۔ جس طرح ہرانسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو کیا ہے اپنی بندگی ہی کے لیے، لیکن کسی کو اس بندگی پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک کو آزاد چھوڑا ہے: وہ بندگی کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح اس خلافت پر بھی اس نے کسی کو مجبور نہیں کیا ہے۔
  • پانچویں یہ کہ اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادایگی میں انسان اگر اس اسکیم کی پابندی نہ کرے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پسند فرمائی ہے، تو انسان کا فساد اور خوں ریزی میں مبتلا ہوجانا بہت اقرب ہے۔
  • چھٹی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مبہم نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی زمین کے انتظام کے سلسلے میں کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس چیز کو پسند نہیں کرتا۔ یہ عین منصب ِ خلافت کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ، انسان کو اپنی پسند و ناپسند اور اپنے احکام و ہدایات سے باخبر رکھنے کا انتظام کرے۔ چنانچہ فرشتوں کو جو شبہہ تھا کہ انسان، خلافت پاکر فساد و خوں ریزی میں مبتلا ہوجائے گا، وہ اسی بات سے دُور ہوا کہ اولادِ آدم میں نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی جاری ہوگا اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتابیں اور اپنی شریعت بھی نازل فرمائے گا۔
  • ساتویں یہ کہ ’خلافت‘ کی اساس قوم یا وطن یا نسل اور نسب کے تصوّرات پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنے مزاج اور اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک اصولی اور جہانی ریاست ہے۔
  • آٹھویں یہ کہ ، یہ نظام کامل مساوات کے اصول پر قائم ہے۔ اس میں ’خلافت‘ کا منصب کسی خاص شخص، گروہ یا طبقے کو حاصل نہیں ہے بلکہ اصلاً ہرشخص کو حاصل ہے۔ اس میں اگر کسی کو کسی پر ترجیح حاصل ہوتی ہے تو وہ محض اہلیت و صلاحیت کی بنا پر اور یہ بھی سب کے مشورے اور مرضی سے۔
  • منصبِ خلافت کے تقاضے: اُوپر ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ خلافت اختیار پر مبنی ہے نہ کہ جبر پر۔ اس اختیار کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کو زمین میں اقتدار بخشے اور یہ اقتدار بخش کر ان کا امتحان کرے کہ وہ اپنی من مانی چلاتی ہیں یا اس اقتدار کو اللہ کے مقرر کردہ حدود کا پابند رکھتی ہیں؟ جو قومیں اس اقتدار کو پاکر اللہ سے بغاوت کی روش اختیار کرتی ہیں وہ مجرم قرار پاتی ہیں اور امتحان کی مقررہ مدت گزار چکنے کے بعد وہ فنا کردی جاتی ہیں۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:

اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا، جب کہ انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس  ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ہم مجرموں کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو خلیفہ بنایا، تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔(یونس ۱۰: ۱۳-۱۴)

یہ ’خلافت بالقوہ‘ اگرچہ سارے ہی انسانوں کو حاصل ہے، لیکن بالاستحقاق یہ صرف ان کو حاصل ہے جو اس کا حق ادا کریں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنا خلیفہ قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کی حکومت اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق تھی:

اے دائود ؑ! ہم نے تم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا تو تم لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔(صٓ  ۳۸: ۲۶)

اس خلافت کے حقیقی اہل درحقیقت انبیا علیہم السلام ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو انبیا علیہم السلام کے طریقے پر اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جو لوگ اللہ کی بندگی اور اطاعت کے لیے منظم ہوجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کو اس خلافت کا خلعت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا ہے:

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے، اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں اسی طرح خلافت دے گا، جس طرح اس نے ان کے اگلوں کو دی اور ان کے لیے ان کے اس دین کا بول بالا کرے گا، جس کو ان کے لیے پسند فرمایا۔ اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی بندگی کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھیرائیں گے۔(النور۲۴: ۵۵)

 یہی خلافت کی معیاری شکل ہے۔ جب تک یہ اپنی ان خصوصیات پر باقی رہے، یہ زمین کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ خصوصیات اگر کم ہونی شروع ہوجائیں تو یہ اس کے بگاڑ کی صورتیں ہوں گی اور اس بگاڑ کے مختلف درجے ہیں۔ ایک خاص درجے تک یہ بگاڑ اس کو خلافت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا لیکن اگر یہ بگاڑ اس کی بنیادی خصوصیات کو ختم کر دے، تو پھر یہ خلافت نہیں باقی رہ جاتی بلکہ بغاوت اور فساد فی الارض بن جاتی ہے۔

اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ (بالفاظِ دیگر ’خلافت‘) میں کس اعتبار سے اشتراک اور کن پہلوئوں سے اختلاف ہے۔ ارسطو نے انسان کی یہ جو تعریف کی ہے کہ وہ حیوانِ ناطق ہے۔ یہ تعریف جس طرح ایک کافر پر صادق آتی ہے، اسی طرح ایک مومن پر بھی صادق آتی ہے۔ کیوں کہ اپنے مادی اور جبلی دائروں میں دونوں ایک ہی طرح کی ضروریات اور ایک ہی قسم کے داعیات رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہرشخص جانتا ہے کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک کافر کے اصولِ زندگی اور ہیں اور ایک مسلم کے اصولِ زندگی اور ہیں۔ اسی طرح ایک ’عام ریاست‘ اور ایک ’اسلامی ریاست‘ میں بھی جہاں تک ان کے ظاہری ڈھانچے اور ان کے مادی اجزاے ترکیبی کا تعلق ہے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک ’عام ریاست‘ جس طرح اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے اس امر کی محتاج ہے کہ اس کو ایک انسانی معاشرہ حاصل ہو، اس کے قبضے میں ایک مخصوص علاقہ ہو، وہ داخلی طور پر بااقتدار اور بیرونی حیثیت سے خودمختار ہو۔ اس کے پاس ایک سیاسی ادارہ (گورنمنٹ)ہو، جو اس کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کرسکے۔ اسی طرح ’اسلامی ریاست‘ یا ’خلافت‘ بھی اپنے وجود پذیر ہونے کے لیے ان ساری چیزوں کی محتاج ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا، لیکن جہاں تک دونوں کے اصول اور مقاصد کا تعلق ہے ، ان دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے برادرم سلیم منصور خالد کا یہ انٹرویو دیکھ کر مجھے افسوس ہوا کہ اتنی اہم چیز اب تک کیوں نہیں شائع ہوسکی۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ سے خود میرا تعلق ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انٹرویو کے بارے میں تو میں یہ بات بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اس کا لفظ لفظ ان کی شخصیت کا ترجمان ہے۔ میں خود بھی اس موضوع پر ان کے ساتھ براہِ راست ملاقات کرچکا ہوں۔ مولانا محترم اور جماعت اسلامی کے بارے میں اس انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بعینہٖ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں جن کا اظہار مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے میرے ساتھ اپنی ملاقات میں کیا تھا۔ پھر ایسے ہی جذبات کا اظہار ایک ایسی ملاقات میں بھی مولانا اصلاحیؒ نے کیا تھا جس میں محترم چودھری غلام محمد مرحوم اور مَیں شریک تھے۔

مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں بزرگ ہمارے محسنین ہیں، اور ان دونوں ہی سے ہم نے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ ویسے بھی اہلِ حق میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں، ایسا اختلاف شخصی تعلق کو مجروح نہیں کرتا۔ یہ تو صرف راے کا اختلاف اور ترجیحات کا معاملہ ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کے جو احساسات اور جذبات اس انٹرویو میں سامنے آئے ہیں، وہ ان کی شخصیت کے اسی دل نواز پہلو کا آئینہ ہیں ___ پروفیسر خورشید احمد


یہ ہفتہ ۱۱دسمبر ۱۹۷۶ء کی شام تھی، جب میں اپنے عزیز دوست سمیع اللہ بٹ کے ہمراہ مفسرِقرآن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے ملنے ان کے گائوں رحمان آباد (خانقاہ ڈوگراں) پہنچا۔ اس ملاقات کا ایک سبب ، مولانا مودودی اور مولانا امین احسن صاحب کے ایک مشترکہ  کرم فرما کی کچھ ’ہم نصابی سرگرمیاں‘ تھیں۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ گھر سے کچھ فاصلے پر مولانا اصلاحی صاحب اپنے کمرئہ تحقیق میں ہمیں رات بسر کرنے کے لیے لائے۔ مولانا کی میز پر: قرآن، تفسیر، حدیث اور لُغت کی چند جلدیں تھیں، اور مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کی مدھم روشنی۔

مولانا اصلاحی صاحب نے ہمیں بڑی چاہت سے بتایا: ’جب آپ آتے ہیں تو میری اہلیہ بہت خوش ہوتی ہیں، اور اپنی طاقت سے بڑھ کر آپ کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ اُن کی خوشی سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے‘ (یاد رہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد بھی مولانا اصلاحی صاحب کی اہلیہ تادمِ آخر جماعت اسلامی کی رکن رہیں)۔ اگرچہ مولانا عشا کے بعد جلد سو جاتے تھے،   اور پھر نصف شب بیدار ہوکر قرآن کے مفاہیم پر تفکر و تدبر کی وادیوں میں اُتر جاتے تھے لیکن   اُس رات وہ ہمارے پاس کچھ دیر تک بیٹھے رہے ۔

سبب ِ ملاقات کا اُوپر ذکر ہوا، اسی لیے ہماری گفتگو مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور مولانا اصلاحی [م: ۱۵ دسمبر ۱۹۹۷ء] کے تعلقات کے اُتار چڑھائو کے گرد رہی۔ سمیع اللہ صاحب، مولانا اصلاحی کے دروس اور علمی نشستوں کے ۱۹۶۸ء ہی سے لاہور میں خوشہ چین اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے، یوں اُن کا تعلق پُرانا تھا۔ البتہ میری مولانا سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ البتہ تقریباً چار ماہ قبل مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے مجلے محور تعلیم نمبر کی مناسبت اور تحریک سے ان کے تعلق کی نوعیت اور اپنی حسرت کے بارے میں انھیں ایک خط لکھا تھا۔ اس ملاقات میں اس خط کی تحسین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم دنیا میں لوگوں کے خط اکٹھے کرنے نہیں آئے، ویسے بھی مجھے یہ بات مبتذل سی لگتی ہے کہ دوسروں کے خط سنبھالتے پھرو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کا خط اتنے عمدہ جذبات پر مشتمل تھا کہ میں نے اسے سنبھال کر رکھا ہے‘‘___ اس رات اور پھر اگلے روز [۱۲دسمبر] ناشتے کے دوران مولانا اصلاحی صاحب نے جو گفتگو فرمائی، میں نے اس کے تفصیلی  نوٹس محفوظ کرلیے تھے جن میں سے اپنے چند سوالات اور مولانا امین احسن اصلاحی کے جوابات کو  ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے ___ سلیم منصور خالد

مولانا، اگر آپ میری گزارش کو گستاخی پر محمول نہ فرمائیں، تو عرض یہ ہے کہ بعض اوقات افراد پر آپ بڑے سخت الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں، یوں گاہے چوٹ پر لطف آتا ہے اوربسا اوقات جھٹکا سا لگتا ہے؟

  •   دیکھیے، میں بنیادی طورادب کا طالب علم ہوں اور ادب کے ذریعے سے قرآن تک پہنچا ہوں۔ ادب میں تجربے اور مشاہدے کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کے لیے بعض اوقات الفاظ کے روایتی سانچے ساتھ نہیں دیتے، اس لیے غیر معمولی انداز یا روایت سے ہٹ کر کوئی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ بڑے سے بڑا مضمون مختصر الفاظ میں جملے کاروپ اختیار کر لے۔ اس کے لیے کبھی تو مسجع و مقفّٰی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایک یا دو سخت الفاظ بھی مضمون کا احاطہ کر لیتے ہیں۔

آپ کے بعض جملے بڑے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہیں، جیسے ’پڑھے کم، لکھے زیادہ‘ یا ’دیکھنا، پکنے سے پہلے سٹر نہ جانا‘ وغیرہ، اس حکمت و دانش کا ماخذ کیا ہے؟ مطالعہ یامشاہدہ؟

  •   (آہ بھر کر) بھلا ہمارے نصیب میں کہاں یہ حکمت سے لبریز جملے! یہ اور اس طرح کے متعدد جملے مولانا محمدعلی جوہر کی دانش کا مظہر ہیں۔ میں تو بس انھیں دہراتا ہوں۔

جب آپ جماعت اسلامی میں تھے، تو آپ نے مولانا مودودی کے دفاع میں جس مضبوطی، گہرائی اور شدت کے ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے جواب میں مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ لکھا، عبدالرشید محمود گنگوہی صاحب کے جواب میں ’جماعت اسلامی پر الزامات اور ان کا جواب‘ لکھا، ویسا پُرزور اور جارحانہ نثر پارہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب آپ کا شمارمولانا کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ آج جب اتنے برس گزر چکے ہیں، کیا آپ اپنی ان تحریروں، بالخصوص مضمون ’نئی فرد قرار داد جرم‘ کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے؟ اور یہ کہ کیا آج بھی آپ اس تحریر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟

  •   آپ کے سوال میں دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بے باکی سے یہ سوال پوچھ لیا ہے۔

اس میں آپ نے ایک بات تو یہ کہی ہے کہ میں مولانا مودودی کامخالف ہوں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے نوٹ کر لیجیے کہ میں مولانا مودودی کا مخالف نہیں ہوں، بلکہ ان کے بعض اقدامات اور بعض خیالات سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ چونکہ علمی دنیا میں یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں ہے، اس لیے آپ اس اختلافِ فکر و نظر کو مخالفت کا نام نہ دیجیے۔

واقعہ یہ ہے کہ میں نے سماجی زندگی میں شخصی طور پر مودودی صاحب جیسا وسیع القلب اور نفیس انسان بہت کم دیکھاہے۔ بہرحال وہ ایک انسان ہیں اور اس بشری تقاضے کے تحت ایک دوبار ان کا پیمانۂ صبر چھلک بھی پڑا۔

آپ کوشاید معلوم نہیں ہے کہ جب میں ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے مرکز سے وابستہ ہوا، توسولہ سترہ برس پر پھیلے اُس پورے عرصے میں مودودی صاحب نے میری عزتِ نفس کا حد درجہ خیال رکھا اور اس امر کا بالخصوص اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر ایک اسی بات کو لیجیے ،کہ انھوں نے میرے ماہانہ اعزازیے یا ضرورت کے وظیفے کو کسی رجسٹر میں درج نہیں کیا، اور نہ اُس کی وصولی کے لیے مجھ سے کبھی دستخط لیے، حالانکہ باقی سب ہمہ وقتی کارکنوں کا اعزازیہ لکھا جاتا تھا، براہ راست ناظم مالیات کے ذریعے دیا جاتا تھا اور رسید وصولی پر دستخط بھی لیے جاتے تھے۔ مگر، اس پورے عرصے میں مولانا مودودی نے مجھے براہ راست کبھی رقم نہیں دی، اور یہ خیال رکھا کہ کہیں اس طرح مجھے ان کے زیر احسان ہونے کا احساس نہ ہو، بلکہ وہ ضرورت کے وقت یا متعین اوقات میں یہ رقم اپنی اہلیہ کے ذریعے میری اہلیہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ بات سن کر شایدآج تعجب ہو کہ میں نے بھی پورا عرصہ اپنی اہلیہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کتنا اعزازیہ یا کتنی رقم بھجوائی گئی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ایسی نازبرداری انھوں نے فقط میری ہی کی۔ حالات و واقعات کے تمام اتار چڑھائو کے باوجود، آج تک اس چیز کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کسی کی ایسی ناز برداری تو اس کی بیوی اور اس کے بچے بھی نہیں کر سکتے۔

پھر یہ بھی ہے کہ میری سخت سے سخت تنقید اور کڑے سے کڑے تبصرے کا، انھوں نے مجلس شوریٰ، اجتماع یا انفرادی ملاقات تک میں مجھے کبھی دوبدو جواب نہیں دیا، بلکہ کم سے کم الفاظ اور نرم سے نرم لہجے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ گائوں کی اس خاموش فضا میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگرمیں کسی کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کرتا، اور وہ جواب میں میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تو میرے لیے اس کے ساتھ سلسلۂ کلام تک برقرار رکھنا مشکل اور سماجی تعلق کو نبھانا ناممکن ہو جاتا، لیکن مودودی صاحب نے طویل عرصے تک بڑی ثابت قدمی سے رفاقت اور دوستی کے اس تعلق کو نبھایا۔ لیکن جب میرے سامنے یہ دوراہا آیا کہ: ایسے ناز بردار اور شفیق دوست کا ساتھ دوں یا جس چیز کو درست سمجھتا ہوں اسے منتخب کروں؟ تو لامحالہ میں نے پہلی چیز کی قربانی دی، اور دوسری چیز کا انتخاب کیا۔

اور جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ میں نے مولانا مودودی کے دفاع میں جو تحریر لکھی، اس پر آج میرا کیا موقف ہے؟ تو اس سلسلے میں دو چیزیں ذہن میں رکھیے:

پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جب پے در پے مضامین شائع ہوئے، تو ان خلافِ واقعہ باتوں کا جواب دینے کے لیے کسی کے کہنے یا توجہ دلانے پر نہیں، بلکہ سراسر اپنے ذاتی ارادے سے میں نے وہ دو تین مضامین لکھے، جن کی جانب آپ نے اشارہ کیاہے۔ ایک مضمون تو میں نے اپنے دوست مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے مضمون پر لکھ کر ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے دیا، تو مودودی صاحب اسے بعینہٖ شائع کرنے میں متردّد تھے۔ انھوںنے کہا: ’اِس کی شدتِ بیان کو نرم کرنا پڑے گا‘۔ میں نے کہا: ـ’آپ مدیر ہیں، مناسب حد تک اپنا اختیار استعمال کر لیں‘۔ مودودی صاحب نے میری اس تحریر کو اتنا نرم بنا دیا کہ اس پر میں نے اُنھیں کہا: ’’اب آپ اسے اپنے ہی نام سے شائع کیجیے‘‘۔ لیکن بنیادی مضمون تو بہرحال میرا تھا، اس لیے ادارتی تدوین کے بعد وہ میرے ہی نام سے شائع ہوا۔

اس موقعے پر، یہ حقیقت مجھ پر واضح ہوئی کہ مودودی صاحب اپنے دفاع کے بارے میں نہ تو متفکر ہیں اور نہ اس کے حریص ہیں بلکہ بے نیاز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو اس تحریر پر کئی بار ممنونیت کا اعتراف کرتا، لیکن مولانا مودودی نے مضمون شائع کرنے کے بعد ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ:’آپ نے بہت خوب لکھا‘۔ بس ایک مضمون انھیں ملا اوروہ انھوں نے  شائع کردیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دفاع میں نے مولانا مودودی کا نہیں کیا تھا بلکہ اپنا دفاع کیا تھا۔ وہ تنقید میرے امیر جماعت پر ہوئی تھی۔ دوسروں کے بارے میں تو میں کہہ نہیں سکتا، لیکن جب تک میں جماعت میں رہا ہوں، جماعت کی امارت کے لیے میں نے ہر بار اپنی راے اُنھی کے حق میں دی تھی۔ اس لیے میری غیرت یہ گوارا نہیںکر سکتی تھی کہ میرے امیر پر کوئی بے بنیاد الزام تراشی کرے اور میرا قلم گواہی دینے کے بجاے خاموشی اختیار کیے رہے،اس لیے دراصل یہ میں نے ان کا نہیں بلکہ اپنا دفاع کیا تھا اور آج بھی اپنے اس جواب پر قائم ہوں۔

علاوہ ازیں جب یہ گفتگو اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی تو مولانا امین احسن صاحب نے بڑی وارفتگی سے یہ بلیغ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اب ہر کَہ و مہ مودودی صاحب کے علم کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے اور انھیں ہدفِ تنقید بنا رہا ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں میرے سوا کسی کو ان پر تنقید کا حق نہیں پہنچتا‘‘۔

 

ایک اسلامی دستور کی ضروری خصوصیت یہ ہے کہ، اس کے اندر ایگزیکٹو (executive)  [انتظامیہ] کی ساری مطلق العنانیوں کا پوری طرح سدباب کردیا جائے۔ عام رعایا جس قانون کی تابع ہو، ایگزیکٹو کے ارکان بھی اُسی قانون کے تابع ہوں۔ جس طرح عام رعایا کو اُن کی بدکرداریوں پر عدالتوں میں مقدمہ چلاکر سزا دلائی جاسکتی ہے، اُسی طرح ایگزیکٹو کے بڑے سے بڑے ارکان کو بھی اُن کی بدکرداریوں پر عام عدالتوں میں، عام قانون کے ماتحت مقدمہ چلا کر سزا دلائی جاسکتی ہو۔ اسلامی شریعت میں ایگزیکٹو کا منصب صرف خدا کی شریعت کی تنفیذ اور اس کا اجرا ہے۔ اُن کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا کی شریعت میں کوئی تغیر کرسکیں، یا اس کے کسی جزو کو منسوخ کرسکیں، یا اُس کے کسی حصے کو من مانے قوانین سے بدل سکیں۔

اسلامی شریعت کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُسی طرح اللہ کے قوانین کے تابع ہیں، جس طرح ایک عام مسلمان اِن قوانین کے تابع ہے۔ اِس وجہ سے اسلامی نظام کے اندر ایگزیکٹو کا کوئی اُونچا سے اُونچا فرد بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے لیے قانون سے بالاتر کوئی مقام مخصوص کرانے کی کوشش کرے، یا قانون کو معطل یا ملتوی کرنے کی جرأت کرے۔ اسلامی قانون خدا اور اس کے رسولؐ کا بنایا ہوا ہے۔ اور خدا اور خدا کے رسولؐ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اُس کے اندر ترمیم یا تغیر کرسکیں۔ کسی دوسرے کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اس کے اندر سرِمُو تغیر کرسکے۔

اگر آپ نے اپنے دستور کے اندر کوئی ایسا خلا چھوڑا، جو آپ کے ایگزیکٹو کے ارکان کو اس بات کا موقع دیتا ہو، کہ وہ کسی پہلو سے اپنے آپ کو عام قانون سے بالاتر بنا سکیں، تو آپ  اس ملک میں قیصروکسریٰ کا نظام ہی لائیں گے، وہ نظام نہیں لائیں گے جو حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے قائم کیا تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے جو نظام قائم کیا تھا، اُس کی سب سے بڑی خصوصیت کا اظہار خود حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس طرح فرما دیا تھا کہ: ’’میں تمھارے اندر خدا کی شریعت کو جاری کرنے والا ہوں، اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں۔ اور اگر مَیں اس شریعت سے سرِمُو انحراف کروں تو تم مجھے ٹھیک کردینا‘‘۔

اسی طرح عدلیہ سے متعلق بھی دستور میں چند باتوں کی تصریح نہایت ضروری ہے، جو عدلیہ کے مزاج کو اسلامی بنانے کے لیے ضروری ہیں:

  • آزاد ہو: پہلی چیز یہ ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کی ہرقسم کی مداخلت کے امکانات سے بالکل محفوظ کیا جائے، تاکہ بے لاگ انصاف، جو ہر عدلیہ کے قیام کا اصلی مقصد ہے، ہرشخص کو حاصل ہوسکے۔
  •  مفت انصاف مھیا ہو: دوسری چیز یہ ہے کہ ہر باشندۂ ملک کے لیے مفت عدل و انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری لی جائے، تاکہ ہرمظلوم بغیر کوئی قیمت ادا کیے انصاف حاصل کرسکے۔ اسلامی نظام میں ہرمظلوم کا حکومت پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ اُس کی داد رسی ہو، اُس کو اُس کا چِھنا ہوا حق ملے، اور اُس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یہ بات نہایت ہی شرمناک ہے کہ ایک شخص کو اپنا واجبی حق حاصل کرنے کے لیے قیمت ادا کرنی پڑے۔ جس نظام میں لوگوں کو اپنے واجبی حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہو، وہ نظام ہرگز اسلامی نظام نہیں ہوسکتا۔ خلافت ِ راشدہ میں کسی شخص کو بھی اپنی مظلومیت کی داد حاصل کرنے کے لیے کوئی قیمت نہیں اداکرنی پڑتی تھی۔ جو شخص مظلوم ہوتا حکومت پر اُس کا یہ ناقابلِ انکار حق قائم ہوجاتا کہ وہ اُس کے لیے انصاف مہیا کرے۔
  •  یکساں قانون و نظامِ عدالت:تیسری چیز یہ ہے کہ ہمارے دستور میں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ راعی اور رعایا، حاکم اور محکوم، امیر اور مامور، ہر ایک کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہوگا۔

اسلامی شریعت میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ قانون اور نظامِ عدالت میں کسی قسم کی تفریق کی جاسکے۔ جاہلی نظاموں میں قانونی مساوات کا دعویٰ تو بڑی بلند آہنگی سے کیا جاتا ہے اور ہرملک کے دستور میں قولاً اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوں گے، لیکن عملاً نہ صرف ایگزیکٹو کے ارکان، نہ صرف جمہوریتوں کے صدر، نہ صرف ملک کے بادشاہ، بلکہ بعض حالات میں پارلیمنٹوں کے ارکان اور ملک کے دوسرے شرفا و اعیان کو بھی عام قانون اور عدالتوں کی داروگیر سے بالکل بالاتر کردیا جاتا ہے۔

یہ صورت حال ایک خالص جاہلی صورتِ حال ہے، جس کواسلام سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اسلام میں غریب اور امیر، امیر اور مامور، سب کے لیے ہرحالت میں ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ اور اسلام نے اِس بات کو کسی حال میں رَوا نہیں رکھا ہے کہ قانون اور عدالت کے نظام میں سرِمُو کوئی تفریق کی جائے۔

یہ مسئلہ کوئی استنباطی اور اجتہادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے بارے میں قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تصریحات بھی موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین  کے عہد کی متعدد عملی اور واقعاتی شہادتیں بھی موجود ہیں۔ حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں بعض   ترفع پسند سرکاری حکام نے حضرت عمرؓ کے سامنے حکومت کی ساکھ قائم رکھنے کے لیے یہ خیال پیش کیا تھا کہ ایگزیکٹو کے ارکان کو عام قانون اور عام عدالتوں کی داروگیر سے ایک حد تک بالاتر کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اُن کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور صاف صاف یہ فرمایا کہ: اسلامی شریعت میں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قانون سے بالاتر کوئی جگہ حاصل نہیں تھی تو میں کسی دوسرے کو قانون اور عدالت کی داروگیر سے، کسی درجے میں بھی سہی، کس طرح بالاتر قرار دے سکتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے اس اعلان نے اس حقیقت کو بالکل غیرمشتبہ طور پر واضح کردیا کہ اسلام نے ہرشخص کے لیے قانونی مساوات کا جو حق تسلیم کیا ہے، وہ حق ایسا نہیں ہے جو ایک طرف قانونی مساوات کے بلندبانگ دعوے کے ساتھ لوگوں کو دیا جائے اور دوسری طرف انتظامی قوانین (Administrative Laws) کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اِس حق کو بالکل سلب کرلیا جائے اور معاشرے کے اکابر مجرمین کو قانون اور عدالت سب کی گرفت سے بالکل آزاد کردیا جائے، تاکہ  وہ خدا کی زمین کو ظلم اور فساد سے بے روک ٹوک بھرتے رہیں۔

اسلام نے جس قانونی مساوات سے دنیا کو آشنا کیا ہے اُس کی میزان میں فاطمہؓ بنت محمدؐ اور ایک معمولی بدوی عورت بالکل مساوی درجے پر ہیں۔ حضرت عمرؓ ایک معمولی بدوی کی پشت پر جس طرح کوڑے لگوا دیتے تھے اُسی طرح ایک بڑے سے بڑے گورنر اور بڑے سے بڑے فاتح کو بھی، اگر کسی جرم کا مرتکب پاتے تو بے تکلف عام قانون کے تحت اُس کو سزا دلوا دیتے۔ وہ جس قانون کو دوسروں پر جاری کرتے تھے اپنے آپ کو بھی اسی قانون کے ماتحت سمجھتے تھے، اور برابر یہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح میں دوسروں کو انصاف کے آگے جھکائوں گا اسی طرح خود اپنے آپ کو بھی انصاف کے آگے جھکائوں گا۔

  • کتاب و سنت - ماخذِ قانون سازی: مقننہ سے متعلق ہمارے دستور کو اس بات کی تصریح کرنی چاہیے کہ وہ قانون سازی کے معاملے میں اوّل تو کتاب و سنت کو اصل ماخذتسلیم کرے گی۔ ثانیاً، وہ کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہؓ کے حدود کے خلاف کبھی کوئی قدم نہ اُٹھائے گی۔ عام تدابیر اور مصالح کے لیے اُس کو قانون سازی کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی قانونِ خدا اور رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ جو قانون خدا، اس کے رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہو، وہ اسلام میں باطل ہے۔

اسی طرح ہمارے ائمہ اور فقہا نے جو اجتہادات فرمائے ہیں، وہ بڑی قدروقیمت رکھتے ہیں۔ ہمارے ائمہ اجتہاد کی تمام شرائط کے حامل تھے اس لیے، اگرچہ ان کے اجتہادات اور استنباطات کو غلطی سے مبرا نہ قرار دیا جاسکے، تاہم یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی حق و صواب سے جس قدر اقرب ان کا اجتہاد ہے دوسروں کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کوئی ایسا اجتہاد جو تمام ائمہ کے اجتہاد سے مختلف ہو، نہ عامۃ المسلمین کو مطمئن کرسکے گا، نہ اہلِ علم کو۔ پس، حق سے قریب تر راہ اس معاملے میں یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے جو تمام اہلِ سنت کے اجتہاد کے خلاف ہو۔(روداد جماعت اسلامی ، ششم، ص ۳۳۲-۳۳۷)

]ترجمہ[ اے ایمان والو‘ اپنے اسلحہ سنبھالو اور جہاد کے لیے نکلو‘ ٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں۔ اور تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈھیلے پڑ جاتے ہیں‘ پس اگر تم کو کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ مجھ پر اللہ نے فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوا ۔ ]النساء ۴:۷۱-۷۲[

’حذر‘ کے اصل معنی کسی خطرہ اور آفت سے بچنے کے ہیں۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ ان چیزوں کے لیے استعمال ہوا جو جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً زرہ بکتر‘ سپر‘ خود وغیرہ۔اس کا خاص استعمال تو دفاعی آلات ہی کے لیے ہے‘ لیکن اپنے عام استعمال میں یہ ان اسلحہ پر بھی بولا جاتا ہے جو حملے کے کام آتے ہیں مثلاً تیر‘ تفنگ‘ تلوار وغیرہ۔ یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم ہی میں معلوم ہوتا ہے۔ ... ’ثبات، ثُبَۃٌ‘ کی جمع ہے۔ ثُبَۃٌ،کے معنی سواروں کی جماعت‘ٹکڑی اور دستے کے ہیں۔

عرب میں جنگ کے دو طریقے معروف تھے۔ ایک منظم فوج کی شکل میں لشکر آرائی‘ دوسرا وہ طریقہ جو گوریلا جنگ [guerilla warfare]میں اختیار کیا جاتا ہے یعنی ٹکڑیوںاور دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا۔ یہاں ’ثبات‘ کے لفظ سے اسی طریقے کی طرف اشارہ ہے۔ مسلمانوں نے یہ دونوں طریقے استعمال کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظم فوج کشی بھی فرمائی اور وقتاً فوقتاً سریّے بھی بھیجے۔

’بَطّا یُبَطّیُ‘ کے معنی ڈھیلے پڑنے‘ سست پڑنے اور پیچھے رہ جانے کے بھی ہیں اور دوسروں کو سست کرنے کے بھی۔ ...  ایک حدیث میں ہے کہ مَنْ اَبَطَأ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ لَسَبُہٗ ]مسند احمد‘ ج۲‘ ص ۲۵۲[ جس کا عمل اس کو پیچھے کر دے گا اس کا نسب اس کو آگے نہ بڑھا سکے گا۔

]ترجمہ[پس چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے وہ لوگ اٹھیں جو دُنیا کی زندگی آخرت کے لیے تج چکے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا تو خواہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے۔ ]النساء ۴:۷۴[

یہ مسلمانوں کو من حیث الجماعت خطاب کر کے مسلح ہونے اور جنگ کے لیے اُٹھنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ اگر دستوں اور ٹولیوں کی صورت میں دشمن پر چھاپے مارنے کی نوبت آئے تو اس کے لیے بھی نکلو‘ اور اگر منظم ہو کر جماعتی شکل میں فوج کشی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔

پھر فرمایا کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنگ سے خود بھی جی چراتے ہیں اور دوسروں کو بھی پست ہمت کرتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمھیں کسی مہم میںکوئی گزند پہنچ جائے تو خوش ہوتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں خوب بچایا کہ ہم اس مہم میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے اور اگر تمھیں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو حاسدانہ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اس میں شامل ہوتے تاکہ خوب مالِ غنیمت حاصل کرسکتے۔ اس دوسری بات کے ساتھ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ کے الفاظ اس بات کے کہنے والوں کے باطن پر عکس ڈال رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی شامت ِاعمال سے کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے تو ایمانی و اسلامی اخوت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوں کہ اللہ نے ان کے دینی بھائیوں کو سرخرو کیا۔لیکن انھیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوتی‘ بلکہ جس طرح حریف کی کسی کامیابی پر آدمی کا دل جلتا ہے کہ وہ اس میں حصہ دار نہ ہو سکا‘ اسی طرح یہ لوگ اس کو اپنی کامیابی نہیں بلکہ حریف کی کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی محرومی پر سر پیٹتے ہیں۔ گویا اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔...

آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین تو صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیر بھی نہ پھوٹے اورمالِ غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔ خدا کے دین کو ایسے نام نہاد غازیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے وہ اٹھیں جو آخرت کے لیے اپنی دنیا تج چکے ہوں۔ جو لوگ دنیا کو تج کر صرف آخرت کی کامیابی کے لیے جہاد کریں گے وہ مارے جائیں یا فتح مند ہوں‘ دونوں ہی صورتوں میں ان کے لیے اجر ِعظیم ہے۔ رہے یہ لوگ جو صرف اس وقت تک کے لیے مجنوں بنے ہیں‘ جب تک لیلیٰ کی طرف سے ان کو دودھ کا پیالہ ملتا رہے‘ خونِ جگرکا مطالبہ نہ ہو‘ تو ایسے مجنوں یہاں درکار نہیں ہیں۔

دعوت جہاد

]ترجمہ[ اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ‘ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔ ]النساء ۴:۷۵[

تمھیں کیا ہو گیا ہے کا اسلوب کسی کام پر اُبھارنے اور شوق دلانے کے لیے ہے--- مُسْتَضْعَفسے مرادمظلوم‘ مجبور اور بے بس کے ہیں۔ مُسْتَضْعِفین کا عطف ’فی سبیل اللہ‘پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ دین کی وجہ سے ستائے جا رہے ہوں ان کی آزادی کے لیے جنگ ’قتال فی سبیل اللہ‘ میں سب سے اول درجہ رکھتی ہے۔ ... اسلامی جہاد کا اصلی مقصد دنیا سے فتنہ (persecution)کو مٹانا ہے۔ ’قریہ‘ کو یہاں صرف مکّہ کے لیے خاص کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان آیات کے نزول کے زمانے میں مکّہ کے علاوہ اور بھی بستیاں تھیں جن میں بہت سے مرد‘ عورتیں اور بچے مسلمان ہو چکے تھے اور وہ اپنے کافر سرپرستوں یا اپنے قبیلے کے کافر زبردستوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ’مِنْ لَّدُنْکَ‘ کا موقع استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ظاہر حالات تو بالکل خلاف ہیں‘ کسی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنی عنایت سے کوئی راہ کھول دے تو کچھ بعید نہیں۔

تم ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کیوں نہیں اُٹھتے جو کفار کے اندر بے بسی کی حالت میں گھرے ہوئے اور ان سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملنے کی کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں؟ جن کا حال یہ ہے کہ رات دن نہایت بے قراری کے ساتھ یہ دُعا کر رہے ہیں کہ: اے پروردگار ہمیں ان ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور غیب سے ہمارے ہمدرد پیدا کر اور غیب سے ہمارے مددگار کھڑے کر۔

بندہ مومن کی ذمّہ داری

اس آیت ]النساء:۷۵[ سے کئی باتیں ظاہر ہو رہی ہیں:

  •  ایک یہ کہ ظالم کفار نے کمزور مسلمانوں پر خود ان کے وطن کی زمین اس طرح تنگ کر دی تھی کہ وہ وطن ان کو کاٹے کھا رہا تھا‘ اور باوجودیکہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے لیکن وہ اس سے اس قدر بیزار تھے کہ اس کو ظالم باشندوں کی بستی کہتے ہیں۔ اس کی طرف کسی قسم کا انتساب اپنے لیے گوارا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
  •  دوسری یہ کہ کوئی وطن اسی وقت تک اہل ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو۔ اگر دین و ایمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں بلکہ وہ خوں خوار درندوں کا بھٹ‘ سانپوں اور اژدہوں کا مسکن اور شیطانوں کا مرکز ہے۔
  •  تیسری یہ کہ اس زمانے میں حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ سارا بھروسا بس اللہ کی مدد پر تھا کہ وہی غیب سے ان کے لیے کوئی راہ کھولے تو کھولے۔ اس کے باوجودیہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اللہ اکبر! کیا شان تھی ان کی استقامت کی! پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
  •  چوتھی یہ کہ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو یہ صریح نفاق ہے۔

]ترجمہ[جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنھوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو‘ شیطان کی چال تو بالکل بودی ہوتی ہے۔ ]النساء۴:۷۶[

یہ آیت اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی جنگ خدا کی راہ میں ہوتی ہے اور خدا ان کے سر پر ہوتا ہے۔ برعکس اس کے اہل کفر کی جنگ شیطان کی راہ میں ہوتی ہے اور شیطان ان کے سر پر ہوتا ہے۔ گویا مقابلہ اصلاً رحمن اور شیطان کے درمیان ہوتا ہے۔ چونکہ خدا نے شیطان کو بھی ایک محدود دائرے کے اندر مہلت دی ہے‘ اس وجہ سے وہ اپنے حامیوں کو کچھ چالیں بتاتا اور سکھاتا ہے لیکن آخر خدا کے کیدمتین کا مقابلہ وہ اور اس کے اولیا کیا کر سکتے ہیں؟ اس وجہ سے اہل ایمان کو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگر انھوں نے خدا کی وفاداری میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی تو بہرحال کامیابی انھی کی ہے۔

...کسی کام کی کوئی مضبوط بنیاد اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیاد حق پر نہ ہو۔ شیطان کے ہر کام کی بنیاد چونکہ باطل پر ہوتی ہے‘ اس وجہ سے اس کے مستحکم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

منافقین کی شر انگیزیاں

آگے انھی منافقین کی مزید کمزوریاں اور شرارتیں واضح کی جا رہی ہیں‘ تاکہ مسلمان ان کے فتنوں سے آگاہ ہو جائیں اور ان کی وسوسہ اندازیوں سے مسلمانوں کے اندر جو غلط اور منافی ء توحید و اسلام رجحانات اُبھر سکتے ہیں ان کا اچھی طرح ازالہ ہو جائے:

پہلے ان منافقین کے اس رویے پر توجہ دلائی کہ اب تک تو یہ اپنے ایمان و اخلاص کی دھونس جمانے کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر جہاد کے لیے مطالبہ کر رہے تھے‘ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک ایک شخص جہاد کے عشق سے سرشار ہے لیکن پیغمبرؐ کی طرف سے ان کو صبر و انتظار کی ہدایت کی جاتی تھی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے‘ ابھی نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کے ذریعے سے اپنے آپ کو مضبوط اور منظم کرو‘ تاکہ وقت آنے پر پوری مومنانہ شانِ استقامت کے ساتھ خدا کی راہ میں لڑ سکو۔ لیکن جب جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور خدا سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں اور شاکی ہیں کہ اتنی جلدی جہاد کا حکم کیوں دے دیا گیا ہے۔

اس کے بعد ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ فرائض سے فرار موت سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔موت اپنے وقت ہی پر آئے گی اور جب اس کا وقت آجائے گا تو وہ ہر شخص کو ڈھونڈ نکالے گی خواہ وہ کتنے ہی مضبوط قلعوں کے اندر چھپا بیٹھا ہو۔

اس کے بعد منافقین کی ایک شرارت کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے متعلق امن یا خطرے کی کوئی بات سنتے ہیں تو اس کو لے اُڑتے ہیں اور لوگوں کے اندر سنسنی پیدا کرنے کے لیے اس کو پھیلادیتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ملت کے بدخواہ اور اس کے اندر انتشار کے خواہاں ہیں۔ اگر یہ خیرخواہ ہوتے تو اس طرح کی کوئی بات اگر ان کے علم میں آتی تو پہلے اس کو رسولؐ اور امت کے ارباب حل و عقد کے سامنے لاتے تاکہ وہ اس کے تمام پہلوئوں پر غور کر کے فیصلہ کر سکتے کہ اس صورت میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔

فرمایا کہ جنگ کا جو حکم تمھیں دیا جا رہا ہے اس میں تم پر اصل ذمہ داری تمھارے اپنے ہی نفس کی ہے‘ تم خود اٹھو اور مومنین مخلصین کو اٹھنے کی ترغیب دو۔ اللہ چاہے گا تو تمھارے ہی ذریعے سے وہ ان کفار کا زور توڑ دے گا۔ اللہ بڑی زبردست طاقت والا ہے۔ رہے یہ منافقین تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ جو کسی کارِخیر میں تعاون کرتا اور اس کے حق میں لوگوں کو اُبھارتا ہے‘ وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو کسی کارِخیر سے خود رکتا ہے اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عمل سے حصہ پائے گا۔

]ترجمہ[  تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو‘ تو جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے‘ یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں‘ اے ہمارے ربّ‘ تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی‘ کچھ اور مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دو‘ اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے‘ اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ ]النساء ۴: ۷۷[

اس دور میں کفار کے علاقوں میں مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی... ]کے[ ان حالات سے مدینہ کے مسلمانوں کے اندر جنگ کا احساس پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ مسلمان اپنے اس احساس کا ذکر نبیؐ سے کرتے تو منافقین بھی پورے جوش و خروش سے جذبۂ جنگ کا اظہار کرتے ‘بلکہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ زیادہ ہی جوش و خروش کا اظہار کرتے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کا عمل کمزور ہو وہ ایک قسم کے احساسِ کہتری میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ جس کے سبب سے اسے لاف زنی کا سہارا لینا پڑتا ہے‘ تاکہ اس کی بزدلی کا راز دوسروں پر کھلنے نہ پائے۔ چنانچہ منافقین بھی زبان سے بڑے ولولے کا اظہار کرتے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں روکتے کہ ابھی انتظار کرو اور نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ذریعے سے اپنے تعلق باللہ‘ اپنی تنظیم اور اپنے جذبۂ انفاق کو ترقی دو۔ لیکن جب اس کا وقت آگیا اور جنگ کا حکم دیا گیا تو زبان کے ان غازیوں کا سارا جوش سرد پڑ گیا‘ اب یہ چھپنے کی کوشش کرتے اور دل میں جو رُعب اور خشیت خدا کے لیے ہونی چاہیے اس سے زیادہ دہشت ان کے دلوں پر انسانوںکے لیے طاری تھی۔ ...فرمایا ‘ ان سے کہہ دو کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام تو چند روزہ ہے۔ اس کے لیے اتنی بے قراری کیوں ہے۔ عیشِ دوام تو آخرت میں ہے‘ جو لوگوں سے ڈرنے والوں کے بجائے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔ اس کے لیے کمر باندھیں اور اطمینان رکھیں کہ جو کریں گے اس میں سے رتی رتی کا صلہ پائیں گے۔ ذرا بھی ان کے ساتھ کمی نہیں کی جائے گی۔

جہاد اور نماز

اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی جنگ کی روح اور نماز و زکوٰۃ میں نہایت گہری مناسبت ہے۔ جو لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہوں‘ ان کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ سے زیادہ ضروری اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہے۔ جہاد میں جو للہیت‘ اخلاص اور نظم و طاعت کی جو پابندی مطلوب ہے ‘اس کی بہترین تربیت نماز سے ہوتی ہے ۔ اس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ درکار ہے‘ وہ ایتائے زکوٰۃ کی پختہ عادت سے نشوونما پاتا ہے۔ ان صفات کے بغیر اگر کوئی گروہ جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس جنگ سے کوئی اصلاح وجود میں نہیں آ سکتی‘ اس سے صرف فساد فی الارض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اسلامی جنگ کے سخت سے سخت حالات میں بھی نماز کے اہتمام و التزام کی تاکید ہوئی۔

منافقین کی بزدلی

]ترجمہ [ اورموت تم کو پالے گی تم جہاں کہیں بھی ہو گے‘ اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں‘ یہ خدا کی طرف سے ہے‘ اور اگر کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں‘ یہ تمھارے سبب سے ہے۔ کہہ دو‘ ان میں سے ہر ایک اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ]النساء ۴:۷۸[

منافقین کے خوفِ موت کی علّت بھی واضح فرمائی ہے اور اس عقیدے کو بھی بیان فرمایا ہے‘ جو اس خوف کا واحد علاج ہے۔ فرمایا کہ موت سے کسی کے لیے مفر نہیں ہے‘ جس کی موت جس گھڑی‘ جس مقام اور جس شکل میں لکھی ہے وہ آکے رہے گی‘ آدمی مضبوط سے مضبوط قلعوں کے اندر چھپ کے بیٹھے وہاں بھی موت اس کو ڈھونڈ لے گی‘ اس وجہ سے اس سے ڈرنا اور بھاگنا بے سود ہے۔ آدمی پر جو فرض جس وقت عائد ہوتا ہے‘ اس کو عزم و ہمت سے ادا کرے اور موت کے مسئلے کو خدا پر چھوڑے۔ آدمی کے لیے یہ بات تو جائز نہیں ہے کہ وہ تدابیر اور احتیاطوں سے گریز اختیار کرے‘ اس لیے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خداکو آزمائے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ وہ یہ گمان رکھے کہ وہ اپنی تدابیر سے اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے۔

پھر منافقین کی ایک اور حماقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا جس کو ان کی اس بزدلی کی پرورش میں بڑادخل تھا وہ یہ کہ حق و باطل کی اس کش مکش کے دوران میں جو نرم و گرم حالات پیش آرہے تھے وہ ان سب کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تھے‘ بلکہ کامیابیوں کو تو خدا کی طرف سے سمجھتے‘ لیکن کوئی مشکل یا کوئی آزمایش پیش آجائے تو اسے پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ۔

افواہ سازی

]ترجمہ[ جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں... پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے اُبھارو۔توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دبائو کو روک دے ...  اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے ]النساء ۴:۸۴-۸۵[

منافقین چونکہ ملّت کے خیرخواہ نہیں تھے‘ اس وجہ سے افواہیں پھیلانے کے معاملے میں بڑے چابک دست تھے۔ امن یا خطرے کی جو بات بھی ان کو پہنچتی آن کی آن میں جنگل کی آگ کی طرح ان کے ذریعے سے لوگوں میں پھیل جاتی۔ جماعتی زندگی میں افواہیںعام حالات میں بھی بڑے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں اور جب حالات جنگ کے ہوں‘ تب تو ان کی خطرناکی دوچند ہو جاتی ہے۔ منافقین ان افواہوں سے یوں تو مختلف فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے لیکن خاص طور پر مسلمانوں‘ بالخصوص کمزور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے یہ ان کا خاص حربہ تھا۔ بعض مرتبہ وہ اس طرح کی افواہوں سے مسلمانوں کے اندر غلط قسم کا اطمینان بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور ظاہر ہے کہ بے جا تشویش کی طرح غلط اطمینان بھی ایک خطرناک چیز ہے۔

منافقین‘ قرآن کی دعوتِ جہاد کے لیے لوگوں کو اُبھارنے کے بجائے لوگوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان کی اس کوشش کو شفاعت سیئہ سے تعبیر کیا۔

اس مجموعۂ آیات کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ پہلے تو منافقین بہت بڑھ بڑھ کر جنگ و جہاد کی باتیں بناتے تھے‘ لیکن اب جب کہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور دوسروں کا حوصلہ بھی پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔... یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ؐ پر ذمّہ داری صرف اپنے نفس کی ہے‘ آپؐ خود جنگ کے لیے اُٹھیے اور مسلمانوں کو اٹھنے کے لیے اُبھاریے‘ جس کو توفیق ہوگی‘ وہ اُٹھے گا‘ جو نہیں اُٹھے گا اس کی ذمہ داری آپ ؐپر نہیں ہے۔ ... وہ آپؐ کے اور آپؐ کے مخلص ساتھیوں ہی کے اندر اتنی قوت پیدا کر دے گا کہ اسی سے کفار کا زور ٹوٹ جائے گا۔

اس کے بعد فرمایا کہ منافقین جو ریشہ دوانیاں اور افواہ بازیاں مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے اور جہاد سے روکنے کے لیے کر رہے ہیں‘ اس کی پروا نہ کیجیے۔ جو آج حق کی تائید و حمایت میں اپنی زبان کھولیں گے  وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کے خلاف کہیں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۳۳-۳۴۹۔ ترتیب: سلیم منصور خالد)