جان سکیلز ایوری


افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کس طرح سے حملہ کیا؟ اس کے بارے میں ٍمعروف ابلاغی مراکز بشمول بی بی سی ہمیں سچی کہانی نہیں سناتے۔ میڈابنجمن اور نکولس جے ڈویز نے افغانستان پر حملے سے متعلق ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے تھوڑی ہی دیر بعد پینٹاگون کے ایک محفوظ حصے میں، ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ایک نشست میں کہا: ’’اس بات کا جائزہ لیں کہ عراقی صدر صدام حسین پر اسی وقت حملے کے لیے کافی معلومات موجود ہیں نہ کہ اسامہ بن لادن پر حملے کے لیے۔ یہ معلومات تیزی سے جمع کی جائیں خواہ وہ متعلقہ ہوں یا غیرمتعلقہ‘‘۔ چنانچہ نائن الیون کے چند ہی گھنٹوں بعد ملٹری لیڈر عالمی سطح پر جنگ کے جواز کے لیے متحرک ہوگئے۔

  • طالبان کی پیش کش: افغانستان پر امریکی قیادت میں حملہ نہ صرف مجرمانہ فعل تھا بلکہ مکمل طور پر غیرضروری تھا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی کہ اگر نائن الیون حملوں میں اس کی شمولیت کے ثبوت فراہم کر دیئے جائیں۔ مگر اس پیش کش کو نظرانداز کردیا گیا اور افغانی عوام پر بمباری شروع کر دی گئی اور اس مقصد کے لیے جھوٹ کا بھرپور سہارا لیا گیا۔

نیویارک میں نائن الیون حملوں کے بارے میں سچ کیا ہے؟ سی آئی اے کے ایک اندرونی کارکن سوسن لنڈیئر کے فراہم کردہ ثبوت کے مطابق، سی آئی اے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں کی منصوبہ بندی سے اپریل ۲۰۰۱ء سے بھی قبل آگاہ تھا۔ لنڈیئر کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ عمارت سے جہازوں کے ٹکرانے سے یہ منہدم نہ ہوگی، اس لیے حادثے کو جانتے بوجھتے تباہ کن بنایا گیا اور امریکی خفیہ کارندوں نے دھماکے سے اُڑ جانے والے دھماکا خیز مادے کو نصب کیا۔

دیگر شہادتیں بھی لنڈیئر کے دعوے کی تائید کرتی ہیں۔ نیویارک میں بہت سے لوگوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارت کے ٹکڑوں کو بطورِ نمونہ محفوظ کرلیا تھا۔ ان کے کیمیائی تجزیے سے ایک عنصر Nanothermite کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، جو بڑی شدت سے حرارت پیدا کرتا ہے، اور مضبوط اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کے سٹیل کے ڈھانچے کو پگھلانے میں استعمال کیا گیا۔ عمارت کے انہدام کی وڈیوز سے یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے دونوں عمارتیں کسی ’کنٹرول سسٹم‘ کے تحت گرر ہی ہوں۔ وڈیوز میں عمارتوں سے پگھلا ہوا سٹیل باہر نکلتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ مزید برآں کھنڈرات میں تازہ تازہ پگھلے ہوئے سٹیل کے تالاب بنے ہوئے پائے گئےمگر فی الفور عوام کو دیکھنے پر  پابندی عائد کر دی گئی۔عمومی آگ سے درجۂ حرارت اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ لوہا پگھل جائے۔ نیویارک فائرڈیپارٹمنٹ کے کارکنوں نے بتایا کہ ’’انھوں نے عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے انہدام سے قبل بہت سے دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں‘‘۔

اس طرح امرواقعہ ہے کہ نائن الیون کے بارے میں سرکاری موقف جھوٹ پر مبنی ہے اور امریکی حکومت نے خود آگے بڑھ کر تباہی کو بدترین بنایا، تاکہ ایک نہ ختم ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے لیے جواز پیدا کیا جاسکے اور امریکا میں شہری آزادیوں پر قدغن لگائی جاسکے۔ حیرت کی بات ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملے کے سرکاری موقف کو بہت کم لوگ چیلنج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور جو اسے چیلنج کرتے ہیں وہ ’لیفٹسٹ‘ہیں یا ’دہشت گردوں کے ہمدرد‘۔ جیساکہ امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا: ’’آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں‘‘۔

  • عالمی تجارتی مرکز کی تباہی - چند حقائق: ۲۰۱۵ء میں، نائن الیون کے بارے میں ماہر تعمیرات اور انجنیروں کی تنظیم ’نائن الیون کا سچ‘ نے Beyond Misinformation (غلط معلومات سے ماورا) کے عنوان سے ۵۲صفحات کی ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ سے کچھ اقتباسات پیش ہیں:

’’سٹیل فریم کی بنی ہوئی بلندوبالا عمارتوں کے مکمل انہدام کو ’کنٹرول سسٹم‘ کے ذریعے ہی ممکن بنایا گیا ہے۔ آگ سے کبھی بلندوبالا عمارتوں کا مکمل انہدام نہیں ہوتا، اگرچہ بلند عمارتوں میں بکثرت آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں۔

’’اگر عالمی تجارتی مرکز کی عمارت نمبر ایک، دو اور ساتویں کی تباہی کا سبب آگ لگنا ہے تو یہ اس نوعیت کی بلندوبالا سٹیل فریم عمارتوں کے مکمل طور پر انہدام کا تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے (بشمول پہلی اور دوسری عمارت کو جہاز کے ذریعے پہنچنے والا نقصان)، جب کہ آگ لگنے سے انہدام کی کوئی علامت نہیں نظر آتی ہے۔

’’ایڈورڈ منیاک، آگ سے محفوظ رکھنے والا انجنیرکہتا ہے:انہدام کا واقعہ ہونا ہی غیرمعمولی ہے، لیکن تین واقعات کا ایک ہی دن میں رُونما ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔

’’ ایک دوسرے ادارے کی رپورٹ میں عالمی تجارتی مرکز کی عمارتوں کے تیزی سے انہدام (free fall) کی وضاحت صرف نصف صفحے پر مبنی تھی، جب کہ مکمل رپورٹ ۱۰ہزارصفحات پر مشتمل ہے جس کا عنوان: ’انہدام کی ابتدا سے متعلق واقعات‘ہے‘‘۔اس رپورٹ میں انہدام کی رفتار پر صرف یہ کہا گیا ہے: ’’نیچے کے فرش اسے نہ روک سکے۔ اس لیے ہم نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی اعداد و شمار جمع نہیں کیے… عالمی تجارتی مرکز کی دوسری عمارت سے پگھلا ہوا لوہا نہ صرف نظر آرہا تھا بلکہ درجنوں عینی شاہدوں نے تینوں عمارتوں کے ملبے میں انھیں دیکھا‘‘۔

شکوک و شبہات کو پرکھنا چاہیے:سیاسی قائدین عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بکثرت جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم ہٹلر کے جھوٹ اور false flag  واقعات کو جو دوسری جنگ ِ عظیم کے آغاز پر پولینڈ پر حملہ آور ہونے کے لیے پیش آئے یاد کرسکتے ہیں۔ پنٹاگون کی دستاویزات کو ڈینیل ایلزبرگ نے بڑی جرأت سے شائع کیا ہے، جن سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ویت نام کی جنگ کی بنیاد بھی جھوٹ پر مبنی تھی۔ عراق پر مارچ ۲۰۰۳ء میں حملے سے قبل بھی جھوٹ بولے گئے۔ غالباً یہ درست ہے کہ عوام کو ہرجنگ سے قبل، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد میں جھوٹ بول کر ورغلایاجاتا ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی قائدین اور ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ شکوک و شبہات سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ (کاؤنٹر پنچ، ۲ستمبر ۲۰۲۱ء)