ڈاکٹر نغمہ پروین


موجودہ زمانے میں عورت کے حقوق اور مر دوں کے ساتھ اس کی ’کامل مساوات‘ کے متعلق جوبحث چل رہی ہے،اس بحث میں حقوق نسواں کے سر گرم حا میوں میں سے وہ مرد اور عورتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں جو اسلام کے نام پر بعض انتہائی احمقانہ با تیں کہہ اور لکھ رہے ہیں ۔ان میں سے بعض تو محض بطورِ شرارت یہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام نے ہر لحاظ سے مر دوں اور عورتوں میں کا مل مساوات ملحوظ رکھی ہے‘‘ ، اور بعض اپنی جہالت یا کم فہمی کے باعث یہ دعویٰ کر تے ہیںکہ ’’اسلام عورت کا دشمن ہے ، کیونکہ اسلامی قانون میں حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانے کی گنجایش ہونے کے باوجود عورت کی اس بے مہار آزادی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں جس کا اظہار آج مغرب کے معاشروں میں ہورہا ہے‘‘۔

درحقیقت اسلام، عورت کو ایک اوسط درجے کے طرزِ عمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کر تا ہے اور اس سے نہ فرشتہ بن جانے کا تقاضا کر تا ہے اور نہ شیطان کی راہ اختیار کرنے کوقبول کرتا ہے ۔چنا نچہ دوسری تہذیبوں یا نظاموں میں عورت کے مقام اور حیثیت کا موازنہ کرتے وقت تمام حقائق کو، جو اس موضوع سے متعلق ہیں انھیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔ لہٰذا، اسلام اخلاقیات کے بعض پہلوئوں کے حوالوں سے دیگر دوسرے نظاموں کے مقا بلے میں بے لچک ہے۔

اسلام کی بنیادی خصو صیت یہ ہے کہ وہ عورت کو بھی انسا نیت کا ویسا ہی اہم جزو قرار دیتا ہے، جیسا کہ ایک مرد کو،اور اس میں بالکل ویسی ہی روح کا وجود مانتا ہے، جیسی کہ مرد میں پائی جاتی ہے :

 يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ (النساء۴: ۱) اے لوگو! اپنے اس ربّ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔

چنا نچہ یہ آیت اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو اپنے نقطۂ آغازسے ایک دوسرے کے ہم پلّہ بنایا ہے ،اور وہ یکساں اور مساوی حقوق کے حق دار ہیں ۔اسلام نے عورت کو مردوں کی طرح جان ،آبرو اور مال وجائیداد کے حقوق دیئے ہیں۔ اس نے اس کی ذات کو محترم قرار دیا ہے اور کسی کے لیے یہ بات جائز نہیں رکھی کہ وہ اس میں عیب نکالے یا اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرے ،اور نہ کسی کو یہ حق ہی دیا کہ وہ اس کی ٹوہ میں رہے اور اس کو اپنے نسوانی فرائض کی بجاآوری کی وجہ سے حقیر جانے ۔لہٰذا،یہ سب حقوق عورت کو اسی طرح حاصل ہیں، جس طرح مرد کو حاصل ہیں ۔ان میں مرد و عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ،بلکہ اس سلسلے میں موجود قوانین کا اطلاق دونوں پر مساوی ہوتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ۝۰ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۝۰ۭ  …… وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۱، ۱۲)  اے ایمان والونہ مرد وں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان سے (خدا کے نزدیک)بہتر ہوں۔اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چا ہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے لقب سےپکارو … اور تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔

اسی طرح آخرت میں بھی اجر کے لحاظ سے اسلام نے مرد و عورت دونوں کو مساوی قرار دیا ہے۔

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ (ا ٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۵) جواب میں اُن کے ربّ نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنےوالا نہیں ہوں، خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو‘‘۔

بہرحال، جہاں تک مال وجائیداد کے حق کا تعلق ہے ،اس معاملے میں بھی اسلام نے عورتوں اور مردوں میں مساوات کو ملحوظ رکھا ہے ۔چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی جائیداد کی خرید و فروخت اور اس کا انتظام کرنے میں بالکل آزاد ہوتی ہے ۔وہ چاہے اسے رہن رکھے ،یا کسی کو ورثے میں دے،پٹہ پر دے ،یا فروخت کرے یا اس کو مزید زمین خریدنے کا ذریعہ بنائے یا اس کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں استعمال کرے،غرض یہ کہ ان تمام معاملات میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔جس کے با رے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ (النساء۴: ۷) مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔

چنا نچہ جہاں تک عورت کے مال میں حق اور اس کوآزادانہ استعمال کا تعلق ہے، اس کے لیے دو باتیں ہمارے پیش نظر رہنی چا ہییں:ایک تو یہ ہے کہ یورپ کے قا نونی نظام میں زمانہ حال تک عورت کو ان میں سے کوئی ایک حق بھی حاصل نہیں تھا ۔قانونی طورپر وہ اپنے ان حقوق کو براہِ راست استعمال کرنے کی بھی مجاز نہیں تھی ،بلکہ ان کا استعمال بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی مرد، اپنے خاوند، باپ،یا سر پرست کی وساطت سے کرتی تھی ۔

دوسرے الفاظ میں حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی طرف سے عورت کو یہ حقوق مل چکنے کے بعدبھی گیارہ صدیوں سے زائد عرصے تک یورپ کی عورت اپنے ان حقوق سے محروم رہی ،جن کے حصول کی خاطر اس کوشدید کش مکش سے دوچار ہونا پڑاتھا۔اس پورے عرصے کے دوران میں نہ اس کی نسائیت اور عفت محفوظ رہی اور نہ اس کی شخصی عزّت ووقار سلامت رہا۔اس کو نہ صرف ان سب چیزوں کی قربانی دینا پڑی بلکہ شدائد و مصائب،قتل، محرومیوں اور بدبختی کے ایک اندوہناک عمل میں سے بھی گزرنا پڑا۔ اس کے باوجود اس کو ان حقوق کا ایک حقیر سا حصہ ہی ملا ،جو اس سے بہت پہلے اسلام عورتوں کو دے چکا تھا۔مگر اسلام کا یہ دینا معاشی حالات کے دبائو یا کسی مظاہرے اور مہم کا نتیجہ نہ تھا اور نہ اس کی پشت پر کوئی طبقاتی کش مکش کارفرماتھی ،بلکہ اس کی اصل وجہ اسلام کی یہ خواہش تھی کہ دنیا میں انسانی زندگی کی دو بنیادی حقیقتیں، صدق اور عدل،عملی صورت میں جلوہ گر ہوں اور یہ محض خوابوں کی دنیا تک محدود نہ رہیں ۔ (اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، پروفیسر محمدقطب ، ترجمہ محمد سلیم کیانی ، ص۱۷۸-۱۷۹)

  مغرب کا خاص طور پر یہ نقطۂ نظر ہے کہ انسانی زندگی دراصل انسان کی معاشی حالت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ان کے نظریے کی رو سے جب تک عورت کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنی جائیداد اور ملکیت میں آزادانہ تصرف کی مجاز نہیں تھی ،تو وہ قطعاً آزاد حیثیت کی مالک نہیں تھی ۔اس کوآزاد انسانی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ معاشی لحاظ سے آزاد ہوئی اور اس قابل ہوئی کہ اپنی ملکیت میں کسی مرد کی مداخلت کے بغیر براہِ راست پوری آزادی سے تصرف کرسکے۔

 اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم تر حیثیت حاصل تھی، یہاں تک کہ اگر مرد قصور وار ہوتا اور عورت اس کے ظلم کا نشانہ بنتی، تو قصاص واجب نہیں ہو تا تھا، مگر اسلام نے یہ امتیاز ختم کر دیا،اور جان و مال اور عزت کے حوالے سے جرائم پر کا رروائی مرد اور عورت کے لیے یکساں کر دی بلکہ بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔

  چنانچہ مال اور جائیداد کے معاملات میں عورت کی مکمل خود مختار حیثیت اور انفرادی تشخص بالکل واضح ہے۔اسلامی قانون کی رو سے عورت کواپنے مال و جائیداد پر مکمل تصرف حاصل ہے۔ اگر وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے تو اسے اپنی جائیداد اپنی مر ضی سے خرید و فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، جس میں کسی مرد کی مداخلت ضروری نہیں ہے،چاہے وہ اس کا باپ ہو ،شوہر ،بیٹا ،بھائی یا کوئی اور ہو۔

اس معاملے کے پیش نظر اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔کسی عورت کے شوہر یا باپ کے قر ضے کے عوض اس کی جائیداد کو چھوا بھی نہیں جا سکتا ۔اسی طرح مقروض عورت کے قرضوں کی ادائیگی اس کے مذکورہ رشتہ داروں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ مرد کی طرح عورت کو بھی جائیداد رکھنے کی مکمل آزادی ہے، چاہے اسے ورثے میں ملے یا کہیں سے تحفہ ملے اور چاہے اس نے اپنی محنت سے مال کمایا ہو۔ وہ مکمل طور پر اس کی اپنی ملکیت ہے۔ وہ اس کو بیچنے یا کسی کو تحفہ میں دے دینے یا قانونی طور پر اسے خرچ کرنے میں خود مختار ہوتی ہے۔ یہ تمام حقوق عورت کو ہمیشہ کے لیے دے دئیے گئے ہیں۔

بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب میں عورتوں کو وراثت کا حق حاصل نہیں تھا ، نہ باپ کے ورثے سے کچھ اسے ملتا تھا اور نہ شوہر ہی سے۔ روایات کے مطابق ہجرت کے تین سال بعد مدینہ کے ایک رئیس ’اوس بن ثابت‘ انتقال کر گئے اور پسماندگان میں ایک بیوہ اور چار نوعمر صاحبزادیوں کو چھوڑا۔مدنی رواج کے مطابق ورثاء میں سے صرف بالغ مرد جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل تھے، وراثت کے حق دار تھے۔یہاں تک کہ کمسن بیٹے کو متوفی باپ کی وراثت سے کچھ نہیں ملتا تھا۔چنا نچہ اوس کے چچا زاد بھائیوں نے پوری جائیداد قبضے میں لے لی، جب کہ اوس کی بیوی اور بیٹیاں راتوں رات امیر سے فقیر ہو گئیں۔اس مو قعے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنی آیات نازل ہو ئیں اور وراثت کے اسلامی احکام آگئے اور یہی اسلامی قانون وراثت ہے جس پر آج تک عمل کیا جاتا ہے۔ (اسلام کیا ہے؟ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؍ مترجم ،سید خالد جاوید مشہدی ، ص۲۲۳)

اسلا می قانون کے مطا بق مردوں کی وراثت سے بیوی ،بیٹی ،ماں ،بہن اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو حق دیا گیا ۔اسلام نے وراثت میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا، بلکہ حکم دیا ہے کہ وراثتی جائیداد کی ہر چیز قانونی وارثوں میں تقسیم کردی جائے۔ایسی وصیت کو بھی اسلام نے ناجا ئز قرار دیا ہے، جس میں مالک نے اپنی جائیداد اجنبیوں کو دے کر جائز وارثوں کو محروم کر دیا ہو ۔بلکہ قانونی ورثا کے لیے وصیت کی ضرورت ہی نہیں ،انھیں خود بخود وراثت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی وصیت کے ذریعے ورثا کے مقرر حصے میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا ۔

وصیت صرف ان رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے، جنھیں قانونی طریقے سے وراثت سے حصہ نہ مل سکتا ہو، اور پھر اس کی بھی اسلام نے حد مقرر کردی ہے کہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی اور یہ حد سا ری جائیداد کا ایک تہا ئی ہے ،باقی دو تہائی جائیداد بہر صورت وراثت ہے جو اس کے جا ئز حق دار وں میں تقسیم ہوگی۔ایک تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت صرف اس صورت میں قابلِ عمل ہے، جب ورثہ متفقہ طور پر بلاجبرو اِکراہ اس پررضا مندی ظاہر کردیں ۔

چنانچہ وراثت کے معاملے میں حالات کے مطابق مختلف ورثا کے حصوں میں کمی زیادتی ہوجا تی ہے ۔مثلاً: اکلوتی بیٹی یا ایک بیٹے کی موجودگی میں، صرف والدہ یا والد کی موجودگی میں، بچوں کے ساتھ یا بچوں کے بغیر ،اکلوتی بہن یا بھائی کی موجودگی میں، متوفی کا والد یا بچے ،ان تمام صورتوں میں ورثا کے حصے کی نوعیت الگ ہو جا تی ہے۔ لہٰذا، یہاں پر اس مضمون میں اس کی تفصیلات کی گنجایش نہیں،لیکن خواتین کے حصے کا تذکرہ بیان کر نا ضروری ہے جو کہ مو ضوعِ بحث ہے۔

متوفی کا اگر بچہ بھی ہوتو بیوی کو شوہر کی جائیداد سے آٹھواں حصہ ملتا ہے ،بچہ نہ ہونے کی صورت میں وہ چو تھے حصے کی حق دار ہوتی ہے ۔اکلوتی بیٹی کو متوفی باپ کی نصف جائیداد ملتی ہے اور اگر بیٹیاں زیادہ ہوں تو دو تہائی جائیداد ان میں برابر کے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ،یعنی اگر ان کا بھائی نہ ہوتو۔ لیکن اگر متوفی کا بیٹا بھی موجود ہو تو پھر بیٹی کو بیٹے کی نسبت نصف وراثت ملتی ہے۔ اگر متوفی کی والدہ زندہ ہو تو اسے بیٹے کے ورثے کا ایک تہائی ملتا ہے، جب کہ باپ ،بچے یا بھائی اور بیٹوں کی موجودگی کی صورت میں ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوتی ہے۔متوفی کا وارث بیٹا موجود ہو تو بہن کو حصہ نہیں ملتا ،البتہ بیٹا نہ ہو تو بہن نصف ترکے کی وارث ہو تی ہے، اور دو یا زیادہ بہنوں کی صورت میں دوتہائی تر کہ ان میں برابر تقسیم ہوتا ہے ۔اکلوتی بیٹی کے ساتھ بہن کو چھٹا حصہ اور اگر ایک بھائی بھی ہو تو اسے بھائی سے نصف تر کہ ملے گا ۔اسی طرح حقیقی بہنوں ،ایک باپ اور والدہ مختلف ہونے کی صورت میں بہنوں کے حصے مختلف ہوں گے۔(النساء ۴: ۱۷۶)

جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ عورت اپنی جائیداد اور ملکیت کی خود مختا ر ہوتی ہے۔اس میں باپ، شوہر یا کسی اور رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ عورت نان و نفقہ کی الگ سے حق دار ہوتی ہے، یعنی شادی سے پہلے عورت کا خرچ اس کے باپ اور شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے، اور عدالت باپ ،شوہر یا بیٹے کوعورت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکم دیتی ہے۔ اس کے بعد عورت شادی کے موقعے پر شوہر سے مہر کی صورت میں بھی رقم کی حق دار ہوتی ہے، جوکہ اسلام سے پہلے عورت کے والد کو ملتا تھا ،مگر اسلام نے اسے عورت کے لیے لازمی قرار دیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’مہر‘ اور ’جہیز‘ میں فرق ہے۔’مہر‘ شادی کے لیے ضروری ہے، لیکن ’جہیز‘ ضروری نہیں۔

 عورت کی مالی ذمہ داریاں مرد کی نسبت کم ہیں کیونکہ اس کے اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔ اس لحاظ سے مرد کی مالی ذمہ داریاں عورت کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ترکے میں سے زیادہ حصے کا حق دار ہوتا ہے ،جب کہ عورت کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اس کے کفیل کے اوپر ہے، اس کے با وجود بھی اسلام نے اسے مزید نوازنے کے لیے وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے۔