اشفاق پرواز


چند روز قبل اخبار پڑھتے ہوئے دو اشتہارات پر نظر پڑی۔ ایک کا متن یہ تھا: ’’ہمیں ایک ریستوران کے لیے مستعد اور خوبرو ہوسٹس درکار ہے۔ چاک و چوبند ہونے کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتی ہو‘‘۔ دوسرا اشتہار کچھ اس طرح کا تھا:’’ ہمیں اپنے شوروم کے لیے سیلزگرل کی ضرورت ہے۔ کم از کم تعلیم انٹرمیڈیٹ تک۔ امیدوار اپنی درخواست کے ساتھ حالیہ پاسپورٹ سائز فوٹو بھی ارسال کریں‘‘۔

دو ایسے کام جن کے لیے مرد زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں، صرف خواتین سے درخواستیں طلب کرنا اور ’خوبروئی کا تقاضا‘ ظاہر کرتا ہے کہ مقصد ان کی نسوانیت کو اپنی تجارت چمکانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ غالباً جن مالی مفادات کی بھینٹ چڑھانا مقصود ہے، وہ معمولی شکل و صورت کی خواتین سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ضروری ہے کہ ان کے خدوخال گاہکوں کے لیے زیادہ دل کش ہوں، ان کی مسکراہٹیں ریستوران میں زیادہ سے زیادہ ہوس پرستوں کو جمع کرنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ عورت کا فطری تقدس پامال ہوتا ہے تو ان کی بلا سے۔ معاشرے میں ہوس پرستی کا جزام پھیلتا ہو تو پھیلا کرے۔ اس سے ان مغربی تہذیب کے کارندوں کو کوئی غرض نہیں۔ ان کے نزدیک عورت کا مصرف ہی یہی ہے کہ اس کے خدوخال سے عمومی لطف اندوزی کا سامان فراہم کیا جائے۔

یہ ہیں مغربی تہذیب کی وہ چنگاریاں، جو ہمیں چاروں طرف سے گھیر رہی ہیں۔ گھر کی  چار دیواری کی’قید‘ سے نکال کر’آزادی‘ کے بعد اس کے نزدیک عورت کا مصرف کیا ہے، وہ ان چند الفاظ سے عیاں ہے۔ عورت کا مقام و مرتبہ بڑھانے اور اسے ’آزادی‘ دلانے کا دعویٰ کرنے والی یہ تہذیب ہرگز نہیں پسند کرتی کہ کوئی عورت اپنے گھر میں شوہر یا والدین کی خدمت کا فریضہ انجام دے یا اپنے بچوں کی تربیت کرے۔ یہ اس ظالم تہذیب کی رُو سے’ ذلت، رجعت پسندی اور دقیانوسیت‘ ہے۔ لیکن وہی عورت اگر جہازوں میں یا ریستورانوں میں روزانہ سیکڑوں اجنبیوں کے لیے ناشتے یا کھانے کی ٹرے سجا کر لائے یا دکانوں پر کھڑی ہوکر مال بیچا کرے اور اپنی اداؤں سے گاہکوں کو دکان کی طرف متوجہ کرے تو یہ عین’ عزت اور روشن خیالی‘ ہے۔

یہ ملت اسلامیہ کے تمام مؤثر حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت ہو یا عوام، علما ہوں یا دانش وَر، دینی جماعتیں ہوں یا فلاحی انجمنیں، ان سب کو اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنےکی ضرورت ہے کہ خواتین کے کردار سے متعلق ہمارا معاشرہ کس رُخ پر جا رہا ہے؟ اور اگر اس سمت میں اسی رفتار سے چلتے رہے تو رفتہ رفتہ کہاں جا پہنچیں گے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی ابھرتے ہیں کہ اس نام نہاد آزادی کے ذریعے قوم کی خواتین کو بالآخر کس منزل پر پہنچانا مقصود ہے؟ کیا عورت کے لیے بے وقعتی، اخلاقی پستی اور گراوٹ کی وہی منزل طے کرلی گئی ہے، جو مغربی عورتوں کی ایک بھاری تعداد کا مقدر بن چکی ہے؟ ایسی منزل کہ جس پر پہنچنے کے بعد نہ صرف عورت نسوانیت کا جوہر کھو بیٹھتی ہے، بلکہ فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خاندانی نظام کی بھی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔

اب حالت یہ ہے کہ سڑکیں صاف کرنے سے لے کر ہوٹلوں میں گاہکوں کے بستر بچھانے تک دنیا کا کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹا کام نہیں رہ گیا، جو عورت کے سپرد نہ ہو۔ بچے ماں کی آغوشِ تربیت کو ترس رہے ہیں اور گھر اپنی منتظمہ کے وجود کی رونق سے محروم اور ویران پڑے ہیں، لیکن سڑکیں، دکانیں اور بازار عورت کے حسن و جمال سے سجے ہوئے ہیں۔

مغرب میں یہ سارا کھیل ’آزادی نسواں ‘ کے نام پر ہی کھیلا گیا ہے۔ اس کے لیے عورت کے چار دیواری میں ‘مقید‘ ہونے کا افسانہ گھڑا گیا اور اس افسانے کو گلی گلی عام کر کے وقت کا فیشن بنادیا گیا کہ اس کے خلاف لب کشائی فرسودگی اور دقیا نوسیت کی علامت بن گئی۔ اس طرح عورت کو گھر سے کھینچ کر سڑکوں، دکانوں، ریستورانوں میں خدمت گزاری اور افسران بالا کی نازبرداری کے فرائض سونپ دیے گئے۔ یہی نعرہ آج ہمارے یہاں بھی لگ رہا ہے اور اسی آزادیِ نسواں کے پُرفریب نعرے کے ذریعے ‘ خوبرو عورتوں ‘ سے ریستورانوں میں بیرے کا کام کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی جا رہی ہیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو مغربی معاشرے کی تمام تر لعنتوں کے ہم تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ قومی تعمیر و ترقی کے دور میں ہم اپنی نصف آبادی کو عضوِ معطل بنا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہ بات اس شان سے کہی جا رہی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک ’مکمل روزگار‘ کی منزل حاصل کرلی گئی ہے۔ قوم کے خاندانی نظام کی بنیادیں سنبھالنے والی، اپنی آغوش میں مستقبل کو تربیت دینے والی، اور تقدس،   پاک بازی اور عفت و عصمت کی اعلیٰ ترین قدروں کی آبیاری کرنے والی عورت کو ’عضوِ معطل ‘  قرار دینا مغرب کی اس الٹی منطق بلکہ جاہلانہ حرکت کا کرشمہ ہے۔ جس کی نظر میں کام کا آدمی   بس وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے، خواہ اس کے بعد وہ ملک بھر میں اخلاقی کوڑھ پھیلاتا پھرے۔ جو آدمی پیسے کما کر نہ لائے وہ ’عضو معطل‘ ہے خواہ معاشرے کی اخلاقی اور روحانی تعمیر میں وہ کتنا ہی بلند کردار کیوں نہ ادا کر رہا ہو۔

ہمارے معاشرے میں اسلام کا نام تو روزانہ بڑی شدّومد کے ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن عملاً ہم جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی نہیں، بلکہ نیو یارک اور ماسکو کی سمت ہے۔ اسلام نے اپنی اصلاحی مہم کا آغاز گھر سے کیا ہے، کیوںکہ گھر ہی وہ بنیادی پتھر ہے جس پر تمدن کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اس گھر کا بنیادی ستون عورت کو قرار دے کر اسے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت اولیٰ کی طرح بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ پھرو‘‘۔ (سورہ نور)

لہٰذا، جب تک عورت کے صحیح مقام کو سمجھ کر اسے یکسوئی کے ساتھ ان فرائض کی انجام دہی کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا، جو فطرت نے اسے سونپے ہیں اور جن پر معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کا سارا دارومدار ہے، اس وقت تک اسلامی معاشرے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ ایک طرف اپنا مقصد دعوتِ دین اور اسلامی معاشرے کا قیام قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اس معاشرے کے بنیادی ستون، عورت کو وہ مقام دیا جارہا ہے، جہاں اس پر صرف مادہ پرست مغربی معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے، روحانی اقدار پر مبنی معاشرہ ہرگز نہیں۔