۱۱ جنوری ۲۰۱۲ء کو ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ ڈھاکہ نے پروفیسر غلام اعظم کی ضمانت کی درخواست خارج کردی اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھجوادیا ۔ ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے پہلے انھوںنے قوم کے نام اپناایک تحریری پیغام ،اپنے معاونِ خصوصی جناب نظم الحق کے سپردکرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرلیا جائے تو میرا یہ پیغام پریس کے ذریعے قوم تک پہنچا دیاجائے۔(ترجمہ: ایس اے جہاں/ ابن حیدر)
۲۰۰۹ء میں بنگلہ دیش میں جو حکومت برسراقتدار آئی ہے، وہ خوفِ خدا رکھنے والے اہلِ ایمان کے سخت خلاف ہے۔ اسی لیے وہ بنگلہ دیش میں اسلامی جماعتوںکو کالعدم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس گھنائونے مقصد کے حصول کے لیے، ۱۹۷۳ء میں طے پا نے والے معاملات کوپھر زندہ کیاجارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نام نہاد ’انٹرنیشنل ٹریبونل ‘کے ذریعے ،ایک خودساختہ’ جنگل کے قانون ‘کے تحت انھیں کڑی سزا ئیںدینے کی سازش کی جارہی ہے۔ اسی قانون کے تحت ایک تفتیشی ادارہ بنایا گیا، جس نے میرے خلاف بھی ۶۲الزامات تیار کیے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ جیل بھیجنے کے بعد میرے خلاف یک طرفہ جھوٹے پروپیگنڈا کا طومار باندھا جائے گاجب اپنی بات عوام تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں رہے گا۔ اس لیے میں نے پیغام لکھ دیا ہے تا کہ گرفتار ہونے سے پہلے میں اپنا موقف اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کردوں ۔ حال ہی میں یہاں کے کئی ٹیلی ویژن چینلوں نے میرا انٹرویو نشر کیا ہے، لیکن میں اس کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
نومبر۲۰۱۱ء میں ،میں ۸۹سال کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور اب میں ۹۰سال کے پیٹے میں ہوں۔ بڑھاپا سوبیماریوں کو ساتھ لاتاہے اور میرے دائیں پاؤں اوربائیں گھٹنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے مجھے دن میں دو مرتبہ exerciseکرنا پڑتی ہے جس کے لیے میں کسی دوسرے فرد کا سہارا لینے پر مجبور ہوتاہوں ۔ میں اکیلا چل پھر بھی نہیں سکتا لہٰذا میں دائیں ہاتھ میں بیساکھی کا سہارالے کر اور اپنا بایاں ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر نماز کے لیے مسجد جاتاہوں۔اس حالت میں غیر ضروری طور پر کہیں آ جابھی نہیں سکتا۔ پھربلڈ پریشر اور دیگر متعدد بیماریوں کے حوالے سے مجھے روزانہ کئی بار باقاعدگی سے دوائیاں لینی پڑتی ہیں۔ اس حال میں بھی حکومت مجھے جیل بھیج رہی ہے ۔ میں اس سے پہلے چار بار جیل جا چکاہوں۔ مجھے جیل یا موت سے کوئی خوف نہیں ۔ الحمد للہ میں اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے ڈرتا نہیں ۔ میںشہید ہونے کی تمنّا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔اب اگر اس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا ،جو یقینا میرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہوگا۔ اس عمر رسیدگی اور بیماریوں کی بھرمار کے ساتھ ،جیل میں میرا و قت کس طرح گزرے گا ، اس کو میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگاکہ ۱۱ برس پہلے یعنی۲۰۰۰ء میں رضا کارانہ طور پر جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سے از خود فراغت لینے کے بعد میں نے کبھی کوئی سیاسی بیان نہیں دیا ۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں سے میرے خلاف میڈیا میںجو جھوٹا ،بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا کیا جارہاہے، میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے مجھے کچھ کہنا چاہیے۔
میں پیدایشی لحاظ سے اس ملک کا باشندہ ہوں ۔۱۹۲۲ء میں ،لکشمی بازار ڈھاکہ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی ڈھاکہ ہی کے تعلیمی اداروں سے پاس کیا، اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے (سیاسیات) مکمل کیا اور طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔۱۹۴۷ اور ۱۹۴۹ء میں لگا تاردوبار میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ میں فضل الحق مسلم ہال کی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ نومبر۱۹۴۸ء میں بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دلانے کامیمورنڈم ،میں نے خود اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خاں کو پیش کیا تھا۔اسی تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے ۱۹۵۲ء اور۱۹۵۵ء میں دودفعہ گرفتارہوا اور جیل کاٹی۔میں نے ۱۹۵۴میں،جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکی اوریوںمیری سیاسی زندگی کاباقاعدہ آغازہوا۔
۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک ہندستان نے ہمارے ساتھ جو توسیع پسندانہ رویّہ روا رکھا، اس سے ہمیں یہ پورا یقین ہوگیاتھاکہ اگر مشرقی پاکستان، بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنتاہے تو اس کی حیثیت بھارت کی ایک طفیلی ریاست سے زیادہ نہ ہوگی ۔ اس خدشے کے تحت بائیں بازو کے کچھ لوگ ، دائیں بازو کی تمام جماعتیں اور شخصیات ، علیحدگی کی اس تحریک میں شامل نہیں ہوئیں۔ اگر یہاں بھارت کی مداخلت نہ ہوتی توشاید ہمیں اس تحریک میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں جو بھارت مخالف جماعتیں تھیں ان سب نے مل کر نور الامین کی رہایش گاہ پر، حالات کے جائزے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ۔ طویل تبادلۂ خیالات کے بعد طے پایا کہ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ملاقات کرکے فوجی کارروائیوں کو رکوایا جائے تاکہ بے سہارا اور مظلوم لوگوںکی داد رسی ہو سکے۔ اس مشاورت کی روشنی میں،ہم سات آٹھ افرادکا ایک وفد لے کر جنرل ٹکاخان سے ملے ۔ اس وفد میں، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کے نورالامین، جماعت اسلامی کی طرف سے راقم، نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد، مسلم لیگ کی طرف سے خواجہ خیر الدین اور کسان مزدور عوامی پارٹی (KSP)کی طرف سے ایس ایم سلیمان شامل تھے۔ آج اسی میٹنگ کی تصویر کو عوامی لیگ میرے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے جو اس وقت پریس کو جاری کی گئی تھی۔ اُن کاکہنا ہے کہ تصویر بھی بولتی ہے ؟اگر ایسا ہی ہے تو پھرخودشیخ مجیب کے ساتھ مولانا مودودیؒ اور میری جو میٹنگ ہوئی تھی اس کی تصویر بھی تو موجودہے۔ ہماری اس میٹنگ میں شیخ مجیب کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی ؟وہ شاید ان لوگوں کو معلوم بھی نہ ہو۔ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ہماری تصویر کو ہتھیار بنا کرہمارے خلاف جو ایک جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس میں دراصل کوئی جان نہیں ہے ۔ہم نے اس وقت عوامی جذبات کی بالکل صحیح نمایندگی کی تھی ۔
۱۹۷۱ء میں جن سیاسی لیڈروں نے اپنے اصولی موقف کی بنا پر ، بھارت میں پناہ نہیںلی، انھوںنے اس مشکل گھڑی میں مشرقی پاکستان ہی میں رہ کر اپنے آپ کو عوام کی خدمت میں کھپادیا۔ عوام کے منتخب نمایندے جب عوام کو بے یارو مدد گارچھوڑ کر بھارت چلے گئے تو ہم لوگ ہی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ میں نے۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے کارجن ہال میں منعقدہ ایک میٹنگ میں فوجی آپریشن پر سخت تنقید کی اور فوری طور پر اس کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح ’ڈھاکہ بیت المکرم ‘(نیشنل مسجد آف بنگلہ دیش ) کے سامنے بھی ایک جلسے میں، مَیں نے اس بات کو دہرایا تھا۔ لیکن میری یہ بات پریس میں چھپنے نہیں دی گئی، کیونکہ اس وقت اس طرح کی خبروں پر پابندی لگی ہوئی تھی ۔
اس وقت جن لوگوں کے خلاف کسی قسم کے جرم کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے تھے اور وہ گرفتار بھی نہیں کیے گئے تھے حکومت آج ۴۰برس گزرنے کے بعد ان بے گناہ لوگوں کو جنگی مجرم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
اکتوبر۲۰۰۱ء میں ملک کے آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے ۔۳۰۰کی پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو ۵۸ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو۱۹۷سیٹیں ملیں۔ بی این پی کی اس کامیابی کا راز جماعت اسلامی اور دوسری دوچھوٹی پارٹیوں کا اس سے اتحاد تھا ۔ اس اتحاد کی وجہ سے بی این پی کو ۲۰فی صد زیادہ ووٹ ملے۔اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر عوامی لیگ کو اندازہ ہوگیا تھاکہ اگر جماعت اسلامی کو ختم نہ کیا گیا تو مستقبل میں اُن کے لیے اقتدار تک پہنچنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات لگانا اور جھوٹاپروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد جن لوگوں پر محض پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام تھا ،اب وہی لوگ جنگی مجرم قرار دیے جانے لگے ۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے عوامی لیگ نے کبھی بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کو جنگی مجرم نہیں کہا لیکن ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آرمی افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروںکے خلاف ٹرائل کرنے کے لیے جو قانون بنایاگیا تھا، اب اسی کوجماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوامی لیگ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۶ء میں دو دفعہ برسراقتدار آئی، اس دوران بھی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کی قیادت کو نہ تو جنگی مجرم قرار دیا اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہی بنایا ۔ عوامی لیگ کے اس اقتدار کا دورانیہ ساڑھے آٹھ سال بنتاہے۔ اس طویل دورانیے کے اقتدار میںبھی جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کا الزام کیوں نہ لگایا گیا؟ کیا عوامی لیگ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
بغاوت کے اس مقدمے کو جس کالے قانون کے تحت آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، انٹرنیشنل لائیرزایسوسی ایشن کے مطابق اس میں ۱۷کمزوریاں پائی گئی ہیں۔’سونار گائوں ہوٹل ڈھاکہ‘ میں وکلا کی اس تنظیم کی جوکانفرنس ہوئی ہے، اس میں بزرگ قانون دان جسٹس ٹی ایچ خان نے کہا تھا:’’ یہ قانون سراسرجنگل کا قانون ہے ۔ جس طرح کسی جانور کو باندھ کر ذبح کیا جاتاہے، اس قانون کے تحت ملزمان کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام کے ساتھ ’انٹرنیشنل‘ کا لفظ ہی ایک کھلا مذاق ہے کیونکہ اس کا کسی انٹرنیشنل معیار کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘ ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی وزیراعظم شیخ حسینہ کو خط لکھ کر متوجہ کیا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کرکے اس کو حقیقی طور پر انٹرنیشنل معیار پر لایا جائے لیکن شیخ حسینہ حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ کیونکہ اگر اس ٹریبونل کے قوانین کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنایا جائے تو جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کو کوئی سز ا نہیں دی جاسکے گی، کوئی جرم ثابت ہی نہیں کیا جا سکے گا، اور جماعت کے ذمہ داران میں سے کوئی مجرم ہی قرار نہیں پائے گا۔
۱۳۔اکتوبر۲۰۱۰ء ’سونارگائوں ہوٹل ڈھاکہ ‘میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے بھی ایک سیمی نار کا اہتمام کیاتھا۔ اس سیمی نار سے خطاب کرتے ہو ئے، انگلینڈ کے مشہور قانون دان اسٹیفن نے، جو انٹرنیشنل کرائمز کورٹ یوگوسلاویہ اور روانڈا کے وکیل بھی رہے ہیں،کہاتھاکہ جس قانون کے تحت یہ مقدمہ چلایا جارہاہے وہ بنگلہ دیش کے دستور اور انٹرنیشنل قانون کے سراسر خلاف ہے ، لہٰذا انٹرنیشنل کمیونٹی اس کو غیر جانب دارانہ تسلیم نہیں کرے گی ۔ انھوںنے مزید کہاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق کرنے کے لیے شفاف دلائل درکار ہوں گے۔ انھوںنے یہ بھی کہاکہ اس مقدمے کے ججوں کے تقرر میں فریقین کی رضا مندی شامل ہونا لازمی ہے اوران ججوں کا عالمی معیار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انھوںنے کہاکہ انٹرنیشنل قانون میں اس بات کو بالکل واضح کیاگیاہے کہ کسی شخص کو ایسے جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی کہ جس کی نشان دہی قانون کے مطابق اس وقت نہ کی گئی ہو،جب کہ یہ جرم سرزد ہوا تھا۔
بنگلہ دیش میں بہارتی کردار:بنگلہ دیش بنانے میں ،بھارت نے جو کردار اداکیا ، اس میں بھارت کے نقطۂ نظر سے بھارتی فوج کے کردار کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بھارت خود بھی اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کا حصول بھارت کا مرہونِ منت ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کا کہناہے کہ ۱۶۔دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے ، بنگالیوں کے سامنے نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود ’بنگلہ دیش فریڈم فائٹرز‘ کی اعلیٰ قیادت جنرل عثمانی کو بھی ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں آنے سے روک دیا گیا۔اسے وہاں پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔ تقریباً ایک لاکھ جنگی قیدیوں کو بنگلہ دیش میں رکھنے کے بجاے بھارت میں لے جا کر رکھاگیااور پاکستانی فوج کا اسلحہ اور دیگر جنگی سازو سامان انڈین آرمی لوٹ کر لے گئی ۔ حالانکہ یہ سب کچھ پاکستان اوربعد ازاںبنگلہ دیش کا اثاثہ تھا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بھارت نے پورے ملک میں لوٹ مار کی۔ بنگلہ دیش ریلوے کا سامان لوٹ کر اسے کھوکھلا کردیا۔ یہاں تک کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے ہالوں (Halls) کا سامان تک بھارت نے لوٹ لیا۔ اصل میں بھارت ۱۹۷۱ء کی جنگ میں ،بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے نہیں کودا تھا، بلکہ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے ،اپنے سب سے بڑے دشمن پاکستان کو کمزور اور بنگلہ دیش کو اپنا غلام بنانے کے لیے لپکاتھا۔ گذشتہ ۶۵ سال کا بھارتی رویّہ اس حقیقت کا ثبوت ہے۔
آپ ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ ہم بھارت کے اس سامراجی کردار کے بارے میں جن خدشات کا اظہار۱۹۷۱ء میں مسلسل کر رہے تھے--- کیا وہ آج حقیقت بن کر سب کی آنکھوں کے سامنے نہیں آگئے ہیں؟گذشتہ ۴۰ برس میں بھارت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارا دوست نہیں، دشمن ہے۔ اپنے دعوے کے مطابق بھارت اگر ہماری آزادی کاحامی ہوتا تو چٹا گانگ Hill Trackکے لوگوں کو بنگلہ دیش کے خلاف نہ اُکستا۔انھیں بھارت لے جا کر عسکری تربیت نہ دیتا اور پھر مسلح کرکے بنگلہ دیش کے خلاف استعمال نہ کرتا۔ اسی طرح بھارت اگر ہمارا دوست ہوتا تو پانی کے معاملے میں ہمارے ساتھ انصاف کرتا، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بھارت کی آبی پالیسی اتنی ظالمانہ اور خودغرضانہ ہے کہ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش ایک ریگستان بنتا جارہاہے۔ وہ اگر ہمارا ہمدرد ہوتا تو بارشوں کے موسم میں اپنے دریائوں کے پانی کو بنگلہ دیش کی طرف کھول کر ہماری فصلوں ،مویشیوں اور زمینوں کو غارت نہ کرتا، قیمتی انسانی جانوں کو ضائع نہ کرتا۔ یہ ہمارا کیسا دوست ہے ! ہر روز انڈین بارڈر سیکورٹی فورس ،بنگلہ دیش کے لوگوں کو جانوروں کی طرح گولیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ لیکن بھارت نواز شیخ حسینہ حکومت ،بھارت کے اس وحشیانہ عمل کے خلاف حرفِ شکایت تک زبان پر نہیں لاتی ۔ اس کے برعکس اسے بنگلہ دیشی بری ،بحری اور فضائی راستوں سے سازو سامان کی رسد کی سہولیات فراہم کررکھی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو چٹا گانگ اور منگلہ بندرگاہ کے استعمال کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اپنا سب کچھ بھارت کے سپرد کر دینے کے بعد بھی کیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خودمختاری محفوظ رہ سکتی ہے۔؟یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے محب وطن لوگ بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتے ۔ منصفانہ طور پر اگر عوامی راے معلوم کی جائے تو عوام کی بھاری اکثریت بھارت کے خلاف ہے۔بنگلہ دیش کے تقریباً چاروں جانب بھارت ہے۔ اگر بنگلہ دیش پر جارحانہ حملے کا امکان اور خطرہ صرف اور صرف بھارت ہی کی طرف سے ہے۔ افسوس کامقام ہے کہ بھارت تو ہمارا دوست نہیں ،لیکن شیخ حسینہ حکومت کا رویّہ بھارت کے حق میں عاشقانہ ہے۔ بھارت کے اس حریفانہ رویّے کی عملی مزاحمت تو کجا ،زبانی مذمت بھی نہیں کرتی ۔ بنگلہ دیش پر قبضہ جمانے کے لیے جو جو سہولیات درکارہیں ،شیخ حسینہ حکومت نے وہ ساری کی ساری بھارت کی جھولی میں ڈال دی ہیں ۔ اس کی نظیر دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملے ۔ ہماری حکومت کو اپنے ملک و قوم کے مفاد سے زیادہ بھارتی مفاد عزیز ہے۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں جب دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی تھی اس وقت برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا تھاکہ جنگ ختم ہوتے ہی ہندستان کو آزاد کر دیا جائے گا ۔ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہر و نے انڈین کانگریس کی طرف سے اعلان کیا کہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ڈیموکریسی کی بنیاد پر ہندستان ایک ریاست ہے۔ بھارت میں جتنے بھی مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں وہ سب ہندستانی ہیں اور ایک قوم ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہندستان کے مسلمان ایک الگ قوم اور ہندو دوسری قوم ہیں ۔ قائد اعظم کی اس بات پر جن لوگوں نے لبیک کہاتھا ان میں بنگال سے حسین شہید سہروردی اور مسلم لیگ کے سرگرم کارکن شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کا موقف یہ تھاکہ ہندستان کی۴۰کروڑ آبادی میں سے ۱۰کروڑ مسلمان اگرانگریزوں کی غلامی سے نکل کر باقی ۳۰کروڑ ہندوئوں کی غلامی میںچلے جائیں گے توآخر مسلمانوں کو ہندستان کی آزادی کا کیا فائدہ پہنچے گا۔
آخرکار مسلم نیشنلزم کی بنیاد پر مسلم اکثریتی علاقوں کو ساتھ ملا کر،علیحدہ ’پاکستان‘ کے نام سے ایک مسلم ریاست قائم کرلی گئی۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ۱۰کروڑ مسلمانوں کے ووٹ دینے کے باعث ۱۹۴۷ء میں پاکستان آزاد ہوا۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان قائم ہونے کے بعد ، پاکستان کو اس کی اسلامی نظریاتی بنیادوں سے ہٹادیا گیا۔ اس سے مختلف علاقوں میں نا انصافی کے سبب محرومی پروان چڑھی ۔ مشرقی پاکستان بھی اسی محرومی کا شکار ہوا۔ ایسی ہی ناانصافیوں اور محرومیوں کے باعث علیحدگی پسند تحریکیں وجو دمیں آتی ہیں ۔ یہی اسباب بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی وجہ بنے اور ایک خوں ریزلڑائی کے بعد ،مشرقی پاکستان ،مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی شکل میں آزاد ہوگیا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۶۵سال میں بھارت نے خود بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و جبر روا رکھا ہوا ہے اگر پاکستان نہ ہوتاتو بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا۔ پاکستان بننے ہی کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں بے مثال ترقی ہوئی ۔ ۱۹۴۷ء میں اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش میں جو ترقی ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ کبھی نہ ہوتی ۔
بنگلہ دیش اس وقت شدید بحران سے گزر رہاہے۔ قوم کے جو اہم مسائل ہیں اگر ان پر اتفاق واتحاد نہ ہو تو قوم کی ترقی نا ممکن ہوتی ہے۔ اس لیے میں تمام پارٹیوں اور تمام گروہوں کو یہ کہنا ضروری سمجھتاہوں کہ سب مل کر بنگلہ دیش کو ان بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں ۔ بحران کے اس دور میں انتشار نہیں، اتحاد چاہیے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں پیچھے مڑکر دیکھنے کے بجاے آگے کی طرف دیکھنا اور بڑھنا چاہیے۔ میری دعاہے کہ موجودہ حکومت اور مستقبل میں جو لوگ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ،ملکی ترقی کے لیے کام کریں اور بنگلہ دیش کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں۔ میں یہ بھی دعا کرتاہوں کہ حکمران طبقہ اپنے پارٹی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ،باہمی حسد و بغض سے چھٹکارا پا کر،ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام کرے۔’’قانون سب کے لیے ایک‘‘،کا ماٹو اپنا کر سماجی انصاف قائم کرنے کے لیے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی جدو جہد ہو سکتی ہے وہ ضرور کریں اسی طرح سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھیں ۔ بزرگوں ، غریبوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھا جائے۔ آپ لوگوں کو یہ ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوگی کہ اس ملک کے لوگ جدید ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور محب وطن کی حیثیت سے پروان چڑھیں ۔
میں یہ بات ایک دفعہ پھر واضح الفاظ میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ میں نے کبھی بھی انسانیت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ معاشرے کے ایک خاص گروہ کے لوگ جو اندھا بن کر اور خودغرضانہ سوچ کے تحت ، مجھے سیاسی اور سماجی طور پر نیچا دکھانے کے لیے، گذشتہ ۴۰سال سے گھنائونا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں، ان کا مقصد سادہ لوح عوام کے دل میں میرے خلاف نفرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ سمیٹنا ہے۔ انسانیت کے خلاف ،اگر میں سرگرم رہا ہوتا تو اس لمبے عرصے میں کسی نہ کسی عدالت میں میرے خلاف کوئی مقدمہ ضرور درج ہوتا۔ ۱۹۷۳ء میںشیخ مجیب حکومت نے غیرقانونی طور پر میری شہریت ضبط کی ۔ لیکن ۱۹۹۴ء میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے کے ذریعے میرا یہ حق مجھے واپس دلایا کیونکہ میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ ثابت ہوئے تھے ۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ اب نئے سرے سے انھی پرانے الزامات کو دہرایا جارہاہے ۔
میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ میں جیل ،ظلم ،اذیت اور موت سے نہیں ڈرتا ۔ موت اٹل ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں ۔ ہر ایک کو ، ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہی ہوتاہے۔ میرا اللہ پر ایمان ، آخرت پر یقین ہے اور میں تقدیر کو بھی مانتاہوں ۔ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ مشیّت الٰہی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ اپنے بندوں کے بارے میں جو بھی فیصلے کرتاہے وہ یقینا کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں، لہٰذا مجھے موت کی دھمکیوں کی بالکل پروا نہیں۔ مجھے اپنے آپ پر اعتماد ہے کہ میں نے ہمیشہ عوام کے مفاد کے لیے کام کیا ہے۔ کبھی بھی ان کے مفادات کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ۔ ایسا لگ رہاہے اور جس انداز سے یہ عدالتی کارروائی چلائی جارہی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انتہائی فیصلہ پہلے ہی سے کر لیا گیا ہے اور اب محض الزام تراشی کے ذریعے اس کے حق میں فضا تیار کی جا رہی ہے۔ اپنی ۵۰ سالہ سیاسی زندگی میں ، میں نے ملک میں بہت سارے سفر کیے ہیں ۔ میں عوام ہی میں رہاہوں ۔ میں نے اپنے اخلاق سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے معلوم ہے کہ یہ حکومت میرے خلاف جو بھی الزام لگا رہی ہے عوام اس کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر یہ لوگ مجھے پھانسی بھی دیتے ہیں ، جو ان کی خواہش ہے ، تو بھی ہمارے عوام ، مجھے اللہ کی راہ کا ایک سپاہی سمجھیں گے۔
آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس ملک کے باشندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے، میں نے اپنی پوری زندگی کھپا دی ۔ میں نے کسی خودستائی اور خودنمائی سے اپنے آپ کو ہمیشہ بالاتر رکھاہے۔میں اس ملک کی سیاسی تاریخ میں واحد سیاست دان ہوں جس نے مکمل سرگرم زندگی گزارنے کے باوجود ،جماعت اسلامی کی امارت سے از خود فراغت لینے کی مثال قائم کی ۔ میں نے خدمت ِخلق کا صلہ نہ دنیا میں کسی سے مانگاہے اور نہ کبھی مانگوں گا۔ میں ہمیشہ اس بات پر ڈٹا رہا ہوں کہ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ میں نے اس قوم کی بھلائی کے لیے جو کچھ سوچا تھا اور جس کے حصول کے لیے سرتوڑکوشش بھی کی ہے ،نہ معلوم میں اس کو دیکھ بھی پائوں گا، یا نہیں۔ میں یہ دعا کرتاہوں کہ اس ملک اور اس کے عوام کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرے اور بنگلہ دیش کی آزادی ، استحکام اور خود مختاری کو محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں کو اس دنیا میں شر سے بچائے اور آخرت میں سرخ روئی عطا فرمائے (آمین)۔ میں اپنے عزیز اہلِ وطن سے اس دعا کی اپیل کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے نیک اعمال قبول فرمائے اور میری خطائوں سے درگزر فرمائے اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرے۔ (اب میں جماعت اسلامی کا کسی سطح کا بھی ذمہ دار نہیں ہوں، لہٰذا میرا یہ بیان میرا ذاتی بیان ہے ۔ اس کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔)