مولانا محمد رضی الاسلام ندوی


دنیا بھر کے ملکوں اور معاشروں پر اس وقت ’کورونا وائرس‘ کے شدید منفی اور جان لیوا اثرات مسلط ہیں: کاروبارِ زندگی مفلوج ہوچکا ہے، سواے فون اور انٹرنیٹ کے، تمام ذرائع مواصلات کم و بیش معطل ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج معالجہ شدید بحران سے دوچار ہے اور صنعت و حرفت کا پہیہ رُک سا گیا ہے۔ ا س صورتِ حال میں مسلم معاشرت اور نظامِ عبادات بھی ہمہ پہلو چیلنج سے دوچار ہیں۔ ان اُمور پر، ہرجگہ علماے کرام قدم قدم پر اُمت کی رہنمائی فرما رہے ہیں، اور بحث ومباحثہ جاری ہے۔

اسی پس منظر میں عالمی سطح پر علماے کرام کی ایک مجلس (تاسیس: ۱۹۹۷ء) یورپین کونسل فار فتویٰ اینڈ ریسرچ (ECFR) نے ۲۳واں اجلاس ۲۵-۲۸ مارچ ۲۰۲۰ء کو منعقد کیا۔ اس اجلاس میں جو علما براہِ راست شریک نہ ہوسکے، وہ انٹرنیٹ کانفرنس کے ذریعے مشورے میں شامل رہے۔ مغربی ممالک برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، آئرلینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین اور بوسنیا کے علما نے وسیع تر مباحث میں مسلم دنیا سے سوڈان، قطر، تیونس، مصر، کویت، لبنان، موریطانیہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علما سے معاونت لی۔ اس طرح ۲۰ممالک سے ۳۴جیدعلما نے، چار چوٹی کے ڈاکٹروں کی مشاورت کے بعد، اجتہادی بصیرت سے ۲۱ فیصلوں پر مشتمل یہ دستاویز جاری کی۔یہ مجلس علامہ یوسف القرضاوی کی رہنمائی میں کام کر رہی ہے۔

اس دستاویز کو محترم مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اُردو میں ترجمہ و تلخیص کرکے ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن کو اشاعت کا موقع عطا کیا ہے، جس پر ہم ان کے نہایت شکرگزار ہیں۔ ان فیصلوں کی اشاعت کا مقصد، دنیا میں دینی و فقہی اُمور پر غوروفکر کے عمل اور نتائج سے واقف ہونا ہے۔  ترجمان   میں اشاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دستاویز ادارہ کی پالیسی ہے۔ تاہم، ان فیصلوں یا فتاویٰ سے رہنمائی کے بہت سے قیمتی اُفق ضرور روشن ہوئے ہیں۔ (ادارہ )

تمہید: وبا کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

اسلامی نقطۂ نظر ان الٰہی سنتوں پر مبنی ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ طبیعی اور عالمِ بشری میں ودیعت کیے ہیں۔ اس کا ارشاد ہے: فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا۝۴۳  (فاطر۳۵: ۴۳) ’’تم اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔اس کے بر خلاف دیگر فلسفے صرف مادی اسباب و نتائج کو جانتے ہیں، جن کا اندازہ ریاضیاتی طور پراور لیبارٹری کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بعض اسباب مادّی اور بلا واسطہ ہوتے ہیں اور بعض معنوی، جن کا تعلق غیب سے ہوتا ہے۔ مظاہر کی منطقی تشریح کا تعلق ان متعین مقاصد سے ہوتا ہے، جن کے لیے پورا نظامِ کائنات سرگرم عمل ہے۔ یہ عالمِ بالا کے ان قوانین کے تابع ہوتا ہے، جن کی تشکیل اس کے لیے کی گئی ہے تاکہ نظامِ کائنات چلتا رہے۔ یہ مقاصد اور بالائی قوانین ہی الٰہی سنتیں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے نظامِ کائنات تسلسل اور نظم کے ساتھ چلانے کے لیے وضع کیا ہے۔

ان الٰہی سنتوں میں سے کچھ آزمایش اور تکلیف سے متعلق ہیں، تاکہ ان کے ذریعے انسانوں کی سرکشی اور زمین میں فساد کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم۳۰ : ۴۱)خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے ،لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔

 کچھ الٰہی سنتوں کا تعلق خوش حالی اور آسمان و زمین کی برکتوں کے حصول سے ہے۔ اس لیے زمین کی اصلاح کے بارے میں ہدایت ِ ربّانی پر عمل کیا جاتا ہے، تقویٰ کی روش اختیار کی جاتی ہے اور غلطیوں اور لغزشوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ (الاعراف ۷: ۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

کورونا (COVID-19) کی وبا کا تعلق آزمایش کی سنت ِالٰہی سے ہے۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ ماحول اور طبیعیاتی سرچشموں کے ساتھ تعامل میں فساد پیدا ہوگیا ہے، مختلف سطحوں پر ظلم جاری و ساری ہے، ایمان، اخلاق اور اقدار کا استخفاف کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کائنات کا عام توازن بگڑ گیا ہے، جیسا کہ ہم گذشتہ چند عشروں اور برسوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنتیں کسی کی جانب داری نہیں کرتیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نجات دیتا ہے، جو دوسروں کو برائی سے روکنے کی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕيْــسٍؚ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵ (الاعراف۷: ۱۶۵) آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انھیں یاد کرائی گئی تھیں، تو ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو، جوظالم تھے، ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔

سننِ الٰہی کے مطابق حالات کا صحیح شعور حاصل کرنے کے بعد ہماری ذمے داری ہے کہ ہم حالات کو تمام اعتبارات سے بدلنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جہاں تک وائرس کا تعلق ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ان شاء اللہ اس کا خاتمہ ہوجائے گا، جیسا کہ تاریخ میں متعدد مرتبہ طاعون کی بیماری کا خاتمہ ہواہے ۔اور عبرتیں اور نصیحتیں رہ جائیں گی، ان لوگوں کے لیے جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیںگے۔

۱-کیا وائرس اور وبا عقوبتِ الٰہی ہے؟

سوال: کیا وائرس اور وبا لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے سزا ہے؟

جواب: آزمایشیں اور آفات، جن سے لوگ دوچار ہوتے ہیں، زندگی کی سنتوں میں سے ہیں۔ ان سے لوگ بچ نہیں سکتے۔ فرق ِ مراتب کے باوجود وہ انفرادی طور پر بھی ان کا شکار ہوں گے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۝۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۝۳۵  (الانبیاء ۲۱: ۳۵)ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ تقدیر کاہے کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کے اذن سے ہوتا ہے، خواہ ہمیں اس کی حکمت معلوم ہو یا نہ معلوم ہو۔ لیکن تقدیر پر یہ راسخ ایمان مسلمان کو غور و فکر کرنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔ قدرتی آفات کا شکار نیک و بد سب لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے تمام انسانوں کو یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ وہ مادّی اور سائنسی میدانوں میں چاہے جتنی ترقی کرلیں، لیکن روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کو انھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے خالق سے رابطہ مضبوط کرنا چاہیے اور بنیادی قدروں، مثلاً عدلِ اجتماعی، پُر امن بقاے باہم، انسانی جان و مال کی حُرمت اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں باہمی تعاون کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے۔

اس معنٰی میں آزمایش، انتقامِ الٰہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ آزمایش کے متعدد مقاصد ہوتے ہیں:

    m    لوگ جب اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں، تب انھیں ان کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ صحت کی قدر صحیح معنیٰ میں وہی شخص کر ے گا جو کسی مرض میں مبتلا ہوگیا ہو۔ امن کی نعمت کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو کچھ عرصہ خوف میں زندگی گزارے۔ انسان اکثر ان بہت سی ظاہری و باطنی نعمتوں سے غافل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہے۔ اسے جب اللہ کی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے تو اس کی شکر گزاری بڑھ جاتی ہے اور جو کچھ اسے حاصل ہے اس پر قانع ہوجاتا ہے۔

    m  اس کے ذریعے بندے کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ کی پناہ میں جائے اور اسی سے تحفظ اور مدد طلب کرے۔ انسان جب مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہوتا ہے، تو اسے تلاش کرتا ہے جو اس کی مدد کرے اور نجات دے۔ جب اسے احساس ہوگا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں صرف اللہ ہی اس کامددگار اور کارساز ہے، تو اسے اطمینان و سکون حاصل ہوگا۔

    m  مصیبتیں اور آزمایشیں اس لیے بھی آتی ہیں کہ بندوں کو معاصی اور گناہوں میں پڑنے سے بچائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ انھیں متنبّہ،خبردار اور ہوشیار کرتا ہے، تاکہ وہ غلط کاموں سے بچیں، جن کا ضرر خود ان کی ذات کو اور معاشرے کو پہنچتا ہے۔ یہ تنبیہ مومن اور غیر مومن، نیکوکار اور گنہگار سب کے لیے ہوتی ہے۔

 یہاں اس جانب بھی توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو آزمایش لوگوں کو معاصی سے بچانے کے لیے آتی ہے، وہ ہر اس عمل کے ذریعے ہوتی ہے کہ جس میں انسان صحیح راہ سے ہٹ جاتا ہے، خواہ اس کا اپنے ربّ سے تعلق کا معاملہ ہو، یا دوسرے انسانوں سے ، یا کائنات سے۔ یہ بات کسی پر مخفی نہ ہوگی کہ ان تمام میدانوں میں انسان غلط راہوں پر جا پڑے ہیں۔ ’کورونا وائرس‘ کی وبا عام ہونے کے بعد دنیا کے دانش وروں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ: ’’انسانوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں جو غلط طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اس پر نظر ثانی کریں‘‘۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’انسانیت کی معاصر تاریخ میں کورونا کے بعد کی زندگی، کورونا سے قبل کی زندگی سے مختلف ہوگی‘‘۔ اقدار اور اخلاق میں پیدا ہونے والا انحراف، انسانوں کے درمیان عدل اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی خلاف ورزی، ماحول سے عدم ِ مطابقت، فضائی آلودگی، جنگوں کی آگ بھڑکانا، یہ سب وہ گناہ ہیں، جن سے انسانیت کو توبہ کرنی چاہیے۔ ان سے ہوشیار کرنے کے لیے آزمایش ہوتی ہے، تاکہ ظلم اور سرکشی جاری رکھنے کے انجام سے باخبر کر دیا جائے۔

۲- کورونا وائرس کے پھیلاو ٔ  کو کیسے روکا جائے؟

 ]: ’کورونا وائرس‘ کے پھیلاؤ کو کیسے روکیں؟اسلام اس سلسلے میںکیا ہدایات دیتا ہے؟

r : ’کورونا وائرس‘ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام ممالک جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مادّی اور معنوی صلاحیتیں وقف کر دینی ہوں گی۔ ’کورونا وائرس‘ جیسی آفات کے خطرے کا مقابلہ کرنے اور اس سے حفاظت کے لیے اسلام درج ذیل ہدایات دیتا ہے:

    m اسلام انسان کو ایمانی طاقت فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ پوری شجاعت اور پامردی کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرتا ہے۔ امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی جسمانی اور نفسیاتی بنیاد قوی ہو۔ یہی اطباء اور ماہرین یہ بات بھی کہتے ہیں کہ مریض جس قدر سکون و اطمینان کی حالت میں ہوگا، اتنا ہی وہ مرض کا مقابلہ کرنے پر قادر ہوگا۔ ساتھ ہی احتیاط اور علاج کے اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اسبابِ مناعت میں سے یہ بھی ہے کہ زندگی میں نظامِ صحت: غذا، حرکت اور احتیاط وغیرہ پر توجہ دی جائے۔ اسلام نے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی دعوت دی ہے اور اس پر ابھارا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزیں کھانے اور ناپاک چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف۷: ۱۵۷)

    m  اسلام نے صفائی ستھرائی کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ اسلامی فقہ کا پہلا باب طہارت پر ہوتا ہے، جو عبادت کے لیے شرط ہے۔ اس کے لیے غسل کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ نماز کے لیے وضو لازم کیا گیا ہے کہ جسم کے ظاہری اعضا دھوئے جائیں۔ کھانا کھانے سے قبل اور اس کے بعد دونوں ہاتھ دھونے پر ابھارا گیا ہے۔مسواک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ احادیث میں خصال ِ فطرت کو اختیار کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کھانے کو خراب اور آلودہ ہونے سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے۔ حفظانِ صحت سے متعلق ان ہدایات کا مقصد یہ ہے کہ نظافت انسان کی زندگی میں اس کے معمولات میں شامل ہو جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

أَوْکُوْا الْأَسْقِیَۃَ ، وَ خَـمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ (بخاری: ۵۶۲۴، مسلم: ۲۰۱۱) مشکیزوں کو باندھ کر رکھو اور کھانے اور پانی کو ڈھکے رہو۔

اس میں شک نہیں کہ حفظانِ صحت سے متعلق یہ ہدایات امراض سے تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت مؤثر ہیں۔ طبی ادارے بھی انھی چیزوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ایک مومن جب ان ہدایات پر عمل کرے گا، تو وہ بہ یک وقت حفظان ِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے والا ہوگا اور خالص عبادتی عمل بھی انجام دے رہا ہوگا۔

lکوئی وبا پھیلی ہوئی ہو تو اسلام نے ان صحتی تدابیر کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو تعدیہ (Infection)کو پھیلنے سے روکنے والی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِذَا سَمِعْتُمُ بِالطَّاعُوْنِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوْھَا، وَاِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْھَا (بخاری: ۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۱۹)جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس وقت وہاں موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلو۔

وبا کی صورت میں یہ ہدایت ِ نبویؐ مومن کو یہ ذمہ داری سکھاتی ہے کہ وہ خود بھی ضرر سے بچنے کی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ضرر نہ پہنچائے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد نبویؐ کو احکامِ شریعت میں ایک قاعدہ ٔکلیہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے: لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ (موطا امام مالک) ’’نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ‘‘۔

lکورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اہلِ ایمان حفظانِ صحت کی ان ہدایات کی پابندی کریں، جو سرکاری محکموں کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں، تاکہ وہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کی بھی حفاظت ہو۔ اجتماعی ذمے داری کا یہ مفہوم اس حدیث ِ نبویؐ سے مستنبط ہوتا ہے، جس میں ایک دو منزلہ کشتی کی مثال دی گئی ہے، جس کی نچلی منزل میں رہنے والوں نے ارادہ کیا کہ وہ نیچے سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیا کریں۔ اگر انھیں سوراخ کرنے دیا گیا تو سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کا ہاتھ پکڑ لیا گیا تو سب محفوظ رہیں گے۔ (بخاری: ۲۴۹۳)

اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ کر سکتا ہے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کو چاہیے کہ مریضوں کا علاج کریں۔ محققین کو چاہیے کہ اس کی دوائیں اور ویکسین تیار کریں۔ اصحابِ ثروت کو چاہیے کہ سائنسی تحقیقات، علاج معالجے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنا مال پیش کریں۔ معذوروں اور بوڑھوں کی مدد کرنے کے لیے ہر شخص آگے آئے۔ ہر انسان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہنی چاہیے کہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوڑ بھاگ کرنا، تقرّبِ الٰہی کے عظیم کاموں میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: لوگوں میں کون سا شخص اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو‘‘۔ (ابن ابی الدنیا، طبرانی)

۳- کورونا وائرس کے سبب مسجدوں میں نماز موقوف کر دینے کی مشروعیت

 ]: کیا شریعت میں کوئی ایسی نص ہے جو عبادات کی ادایگی پر جسمانی صحت کو مقدم قرار دیتی ہو؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِنبوی میں کوئی ایسی دلیل ہے جو ان حالات میں مسجدوں میں نماز کو موقوف کردینے کو جائز ٹھیراتی ہو؟

r : اسلامی تعلیمات انسانی زندگی کی حفاظت کرنے اور اسے ہر طرح کی اذیت سے بچانے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس کا شمار ان اعلیٰ اقدار میں ہوتا ہے، جنھیں اسلام نے استحکام بخشا ہے۔ انسانی زندگی کی حفاظت کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ جبر و کراہ کی صورت میں مسلمان کو کلمۂ کفر زبان پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ  (النحل۱۶: ۱۰۶)سوائے اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔

 اسلام نے مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ وہ شدید مشقت اور ضرر سے بچا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۴) اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔

ان چیزوں کی اجازت اس کے باوجود دی گئی ہے کہ ان میں عزیمت اور افضل عمل کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس بنا پر بہ درجۂ اولیٰ یہ بات کہی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے ’تعدیہ‘ سے لوگوں کو بچانے کے مقصد سے مساجد میں نمازیں موقوف کردی جائیں اور گھروں میں ادا کی جائیں۔

شریعت کے کچھ متفق علیہ قواعد ہیں: مثلاً لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (ضرر کو دور کیا جائے گا)۔ الضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحَ الْمَحْظُوْرَاتِ (ناگزیر صورتِ حال میں ناجائز چیزیں جائز ہوجاتی ہیں)۔ الْمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ (مشقت کی صورت میں آسانی کا حکم دیا جاتا ہے)۔ موجودہ حالات میں مساجد میں شعائر کی انجام دہی کو موقوف کردینے کے جواز پر مذکورہ بالا قواعد کے ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:

۱- حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا یُورِدَنَّ مُمرِضٌ عَلٰی مُصِحٍّ (بخاری: ۵۷۷۱، مسلم: ۲۲۲۰)’’مریض صحت مند کے پاس ہر گز نہ جائے‘‘۔

ڈاکٹروں نے یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی ہے کہ کورونا وائرس کے حامل شخص پر مرض کی علامات بسا اوقات طویل مدت تک ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ ہراس شخص تک، جس سے ملاقات کرے گا، وائرس منتقل کر سکتا ہے۔ مساجد میں لوگوں کے آنے جانے، صفوں میں مل کر کھڑے ہونے اور ایک ہی جگہ مختلف لوگوں کے سجدہ کرنے سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے ۔

۲- حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم سنو کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو۔(بخاری: ۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۹۱)

اگر یہ چیز ممالک، علاقوں اور شہروں میں آنے جانے کے سلسلے میں ملحوظ رکھنے کی ہے تو کم بھیڑ بھاڑ کے مقامات، مثلاً مسجدوں میں بہ درجۂ اولیٰ اس کا لحاظ کیا جائے گا۔ تمام لوگوں کو بچانے کے مقصد سے عارضی طور پر مسجدوں کو بالکلیہ بھی بند کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب جمعہ اور جماعت کے سلسلے میں دیگر شرعی منصوص بدل موجود ہوں۔

۳- مسجدوں میں حاضری سے رخصت کو اس رخصت پر قیاس کیا جاسکتا ہے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی صورت میں دی تھی۔ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش کے دن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے مؤذّن سے فرمایا:جب تم أَشْھَدُ أَنَّ محمّداً رَّسولُ اللّٰہِ کہہ چکو تو حیّ عَلَی الصلوٰۃ نہ کہنا، بلکہ اس کے بجاے یہ کہنا: صَلُّوْا فِيْ بُیُوْتِکُمْ (اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔مؤذّن نے ایسا ہی کیا۔ یہ سن کر لوگوں کو عجیب لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’تمھیں اس پر تعجب ہوتا ہے۔ اسے اُس شخص نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر ہے (یعنی اللہ کے رسولؐ)۔ (بخاری: ۹۰۱، مسلم: ۶۹۹)

اس میں شک نہیں کہ وائرس کا خطرہ اور اس سے پہنچنے والی مشقت بارش میں نماز کے لیے مسجد جانے کی مشقت سے بڑھ کر ہے۔

۴- ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص اذان سنے اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے مسجد نہ جائے اس کی(گھر پر پڑھی جانے والی) نماز مقبول نہ ہوگی‘‘۔ لوگوں نے سوال کیا: عذر سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:’’خوف یا مرض‘‘۔ (ابوداؤد: ۵۵۱، ابن ماجہ: ۷۹۳)

اس حدیث سے فقہا نے استدلال کیا ہے کہ اپنے یا گھر والوں کے بارے میں کسی خوف کا شمار ایسے عذرات میں ہوتا ہے جن کی بنا پر جمعہ یاجماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ مسجد میں جانے سے وائرس کا خود شکار ہوجانے اور اپنے گھروالوں میں اسے منتقل کر دینے کا اندیشہ ہے، اس لیے جمعہ یا جماعت میں شریک نہ ہونے والا اس معاملے میں معذور ہے۔

۴- مائک کے ذریعہ مسجد کے امام کی اقتدا میں گھروں میں نمازِ جمعہ

]: کیا دُور سے نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟ اس کی صورت یہ ہو کہ امام ،مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے خطبہ دے، اس کے ساتھ ایک دو افراد ہوں۔ بقیہ لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے خطبہ سنیں، پھر اس کی اقتدا میں نماز جمعہ پڑھیں اور اس کے بعد نمازِ ظہر نہ ادا کریں۔

r : گھروں میں نماز ِجمعہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن یا لاؤڈ اسپیکر یا کسی دیگر مواصلاتی ذریعہ سے جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں ہوگی اور جو اس طریقہ سے ادا کرے گا، اس سے نمازِ ظہر ساقط نہیں ہوگی۔ موجودہ دور کے فتویٰ صادر کرنے والے اداروں اور انجمنوں کا یہی فیصلہ ہے۔ اس موقعے پر اور کئی عشرے قبل تمام معاصرفقہا نے یہی فتویٰ دیا ہے۔ اس لیے کہ نمازِ جمعہ توفیقی اور تعبّدی عبادت ہے۔ اس کی ادایگی ایک مخصوص شرعی طریقے سے ہوتی ہے، جس کے بغیر وہ درست نہ ہوگی۔ اس طریقے پر اور انھی شرائط و ارکان کے ساتھ اس کی فرضیت کے وقت سے وفات ِ نبویؐ تک اس کی ادایگی کی گئی ہے اور اسی طریقے پر بغیر کسی تبدیلی کے، عہد ِ نبویؐ سے لے کر اب تک تواتر کے ساتھ ادا کی جاتی رہی ہے۔ گھروں میں اس کی ادایگی نبوی طریقے کے بر عکس ہے اور اس کے لیے نئی صورت اختیار کرنا نبوی ہدایت کی خلاف ورزی ہے، جس کی بنا پر نماز باطل ہوجائے گی۔

کسی مواصلاتی ذریعے سے گھروں میں خطبۂ جمعہ سننا اور نماز ادا کرنا متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے:

۱-اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ (الجمعۃ ۶۲: ۹)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔

اس آیت میں جمعہ کے لیے ’دوڑ کر جانے‘ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر علما نے جمعہ کے لیے مسجد جانے کو واجب قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن خوب اچھی طرح غسل کرے، جمعہ کی نماز کے لیے جلد گھر سے نکلے، سواری سے جانے کے بجاے پیدل جائے، مسجد میں امام سے قریب بیٹھے، خوب غور سے خطبہ سنے اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو گھر سے مسجد تک ہر قدم پر اسے ایک سال کے قیام و صیام کا اجر ملے گا‘‘۔ (ترمذی: ۴۹۶، دارمی: ۱۵۸۸، مسند احمد: ۶۹۵۴)

گھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے قرآن و سنت کی ان ہدایات پر عمل ممکن نہ ہوسکے گا۔

۲- جمعہ کی فرضیت مخصوص طریقہ پر اور متعین مقاصد کے لیے ہے۔ اگر چہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ فرض ہے یا نمازِ ظہر، لیکن ان کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کون سی نماز اصل ہے اور کون سی اس کا بدل؟ راجح قول یہ ہے کہ ظہر اصل اور جمعہ بدل ہے، اس لیے کہ ظہر کی فرضیت اسراء کے موقع ہوگئی تھی اور جمعہ بعد میں فرض ہوا۔ اس لیے اگر کسی عذر کی بنا پر جمعہ قائم نہ کیا جا سکے، تو اصل یعنی ظہر کی جانب لوٹا جائے گا۔ بہت سے مسلم شہروں اور علاقوں میں مسلمان جمعہ کی مسجدوں اور پنج وقتہ نمازوں کی مسجدوں میں فرق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ جمعہ کی نماز صرف بڑی مسجدوں میں ادا کرتے ہیں، چھوٹی مسجدوں میں ادا نہیں کرتے۔ اگر ریڈیو، مائک یا کسی اور مواصلاتی ذریعے سے گھروں میں جمعہ کی نماز کو درست قرار دیا جائے تو یہ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

۳- مسجد کے مائک کی آواز پرگھروں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نمازِ جمعہ کے شعار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور انجامِ کار، بعد میں بھی جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس صورت میں جمعہ کی نماز درست ہے تو پھر پنچ وقتہ نمازیں بھی بدرجۂ اولیٰ درست قرار پائیں گی۔ اس طرح مسجدیں تعمیر کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ہر شہر میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی جائے گی، جس میں امام کے علاوہ دو تین لوگوں کی گنجایش ہو، بقیہ لوگ مسجد کے مائک پر اپنے گھروں اور کام کی جگہوں میں رہتے ہوئے نماز پڑھ لیں گے۔ اس سے زیادہ تعجب خیز صورت یہ ہوگی کہ اگر مسجد حرام اور ان کے یہاں نماز کا وقت ایک ہو تو وہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ٹیلی ویژن میں دیکھ کرامامِ حرم کے پیچھے نماز ادا کرنے لگیں گے۔

۴- نماز میں اقتدا کی صحت کے لیے فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ امام اور مقتدی ایک ہی جگہ ہوں اور مقتدی کو امام کی حرکات و سکنات کا اس طرح علم ہوتا ر ہے کہ شبہ کی کوئی گنجایش نہ ہو اور مقتدی امام کے حال سے ناواقف نہ رہے۔ اگر وہ ناواقف ہوگا تو اس کی نماز درست نہ ہوگی۔ اسی طرح فقہا نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو، مثلاً کوئی دیوار حائل نہ ہو، یا ایسی نہر نہ ہو جس میں کشتیاں چلتی ہوں ،یا کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو، جو مقتدی کو امام تک پہنچنے سے (اگر وہ اس تک جانا چاہے) روکنے والی ہو۔گھروں میں رہتے ہوئے مائک یا کسی مواصلاتی ذریعہ سے مسجد کے امام کی اقتدا کرنے سے یہ شرائط پوری نہ ہوں گی۔ اس لیے جمہور فقہا کے نزدیک ایسی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث نبویؐ سے ہے:

اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ (بخاری: ۳۷، مسلم: ۴۱۱)امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔

۵- گھروں میں الگ سے نماز جمعہ کی ادایگی

 ]: موجودہ حالات میں، جب کہ مساجد میں نماز نہیں ہورہی ہے، کیا گھروں یا کام کی جگہوں میں تین چار آدمی اکٹھا ہوکر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں، اس طور پر کہ ان میں سے ایک شخص خطبہ دے اور وہ لوگ اس کی ا قتدا میں دو رکعت جمعہ کی نماز پڑھ لیں؟

r : مذکورہ طریقے پر گھروں میں یا کام کی جگہوں پر جمعہ کی نماز شرعاً جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے جمعہ کا فرض ساقط نہ ہوگا، بلکہ ضروری ہے کہ ان حالات میں گھروں پر ہی رہا جائے اور ظہر کی نماز ادا کی جائے، خواہ ایسا کرتے ہوئے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے۔ عالم اسلام میں فتویٰ کے اداروںاور معاصر فقہا کی اکثریت کی یہی راے ہے۔

گھروں میں نمازِ جمعہ درست نہ ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:

۱- نمازِ جمعہ میں اصل اس کا تعبّدی اور توقیفی ہونا ہے، یعنی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیا، اسی طرح ادا کی جائے۔ آپؐ نے کبھی جمعہ کی نماز گھر میں ادا نہیں کی، نہ صحابہ کرامؓ اور نہ ان کے بعد کے لوگوں نے۔

۲- جمعہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے اور ایسی جگہ پر ادا کیا جائے، جہاں تمام مسلمان آسانی سے پہنچ سکیں۔ اسی لیے جن لوگوں کے نزدیک جمعہ کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی ادایگی ایسی جگہ ہونی چاہیے جو تمام مسلمانوں کے لیے عام ہو۔ گھروں میں نمازِ جمعہ قائم کرنے کی صورت میں یہ شرط پوری نہیں ہوگی۔

۳-جمعہ کے لیے احناف کے نزدیک اذن ِ عام کی شرط ہے، یعنی تمام لوگوں کو معلوم ہو کہ جمعہ کی نماز کہاں ہورہی ہے؟ اور ان کے اس میں شریک ہونے کے لیے دروازے کھلے ہوئے ہوں۔ گھروں میں نمازِ جمعہ کی صورت میں یہ شرط پوری نہیں ہوگی۔

۴- اسلامی تاریخ میں کبھی نمازِ جمعہ گھروں میں نہیں پڑھی گئی۔ متعدد مرتبہ وبائیں پھوٹیں، حتّٰی کہ مسجدوں میں جمعہ اور پنج وقتہ نمازیں موقوف ہو گئیں، لیکن گھروں میں نمازِجمعہ ادانھیں کی گئی۔

۵- قدیم فقہا نے تو ایک شہر کی کئی مساجد میں نمازِ جمعہ سے منع کیا ہے اوراسے ایک بڑی مسجد میں ادا کرنے کو کہا ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کی اجتماعیت کا اظہار تھا۔ پھر ان کے قول کے مطابق گھروں میں تین چار افراد کامل کر جمعہ پڑھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟

۶- جس شہر میں کورونا کا مریض نہ ہو وہاں مسجد میں نماز ادا کرنے کا  حکم

]: میرے شہر میں اب تک کورونا کے ایک بھی مریض کا پتا نہیں چلا ہے اور مسجد کو بندکیے جانے کا کوئی سرکاری حکم نہیں آیا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایسے اشخاص ہوسکتے ہیں جو کورونا کے حامل (Carrier) ہوں، لیکن ہمیں معلوم نہ ہو، اس لیے کہ ان پر ابھی اس مرض کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ تو کیا اس حالت میں مسجد میں نماز نہ پڑھی جائے؟

r : اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ شہر کی انتظامیہ کے احکام اور محکمہ ہاے صحت کی ہدایات کی پابندی کی جائے۔ اگر شہر میں معمول کی زندگی جاری و ساری ہو ،کورونا کا کوئی کیس سامنے نہ آیا ہو اور سماجی فاصلہ (Social Distance)کی ہدایت جاری نہ ہوئی ہو، تو مسجد میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شہر کے محکمہ ہاے صحت کی ہدایات پر نظر رکھی جائے۔ جب کہیں جمع ہونے سے روک دیا جائے تو گھروں میں رہا جائے اور وہیں گھر والوں کے ساتھ پنچ وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں اور جمعہ کی نماز کے بجاے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ لوگوں کی جانوں کی حفاظت کے مقصد سے مسجدوں میں نمازیں موقوف کر دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖۛ (البقرۃ۲: ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

۷-  نمازیوں کے درمیان ایک میٹر کے فاصلے سے نمازِ باجماعت

]:جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے، بعض مساجد میں نمازِ باجماعت کی یہ صورت اختیار کی جارہی ہے کہ نمازی تعدیہ سے بچنے کے لیے صف میں ایک دوسرے سے ایک میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ نماز کے اس طریقے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

r : ان حالات میں بہتر یہ ہے کہ مساجد میں نمازیں موقوف کر دی جائیں اور گھروں میں انھیں ادا کیا جائے۔ نمازِ باجماعت سنّت ِ مؤکّدہ ہے اور انسانوں کی جانوں کی حفاظت واجب ہے۔ اس طور پر سنت کو واجب پر مقدّم کرنا درست نہیں ہے۔ مذکورہ طریقے پر نماز کی ادایگی میں تکلّف ہے، اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے آسان بنایا ہے اسے پیچیدہ کرکے ادا کرنا ہے۔ یہ چیز نمازِباجماعت کی روح کے بھی منافی ہے۔ اس لیے کہ نصوص میں نمازیوں کو صف میں قریب قریب کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے بھی مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے لوگ تعدیہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ مسجدوں میں آنے جانے سے ان کا اختلاط ہوگا، مختلف افرادایک ہی جگہ الگ الگ اوقات میں سجدہ کریں گے، مسجد کا دروازہ کھولیں گے تو ان پران کے ہاتھ لگیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مسجدوں میں اس طریقے سے نماز نہ ادا کی جائے۔

۸- دفعِ بلا کے لیے متعیّن اوقات میں اجتماعی نماز

]: سوشل میڈیا پر ایسے اعلانات سامنے آئے ہیں، جن میں دفع ِ بلا کے لیے عبادت کے اوقات متعین کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مخصوص دن تمام لوگ روزہ رکھیں، ایک مخصوص رات تمام لوگ اجتماعی نماز ادا کریں، یا متعین اوقات میں اجتماعی طور پر استغفار کریں۔ کیا یہ جائز ہے؟ یا اسے بدعت قرار دے کر اس سے روکا جائے گا؟

r : مسلمان جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے، یا کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے، تو وہ نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کی طرف بھاگتا ہے۔ عہد نبویؐ میں سورج گرہن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کی نشانی قرار دیا اور اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا:

فَاِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَادْعُوا اللّٰہَ وَکَبِّرُوْا وَصَلُّوْا وَتَصَدِّقُوْا(بخاری: ۱۰۴۴، مسلم: ۹۰۱)جب تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔

جس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، جو اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں، اسی طرح وبا اور تمام امراض اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ جس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقعے پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح وبا وغیرہ کے موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان مصیبتوں کے مواقع پر مسلمانوں کو نماز اور دعا و استغفار کی طرف دعوت دینا مشروع ہے۔ قرآن میں اس کا حکم دیا گیا ہے:

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۝۴۵ۙ (البقرہ ۲: ۴۵) صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر فرماں برداروں کے لیے( مشکل نہیں ہے۔)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳ (البقرہ ۲: ۱۵۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

کوئی ایسی نص موجود نہیں ہے، جس میں دفعِ بلا کی نیت سے عبادت کا کوئی وقت متعین کرکے اس کا اعلان کرنے اور اس میں عبادت کی ترغیب دینے سے روکا گیا ہو۔

علماے اصول و فقہ نے بیان کیا ہے کہ مطلق عبادات، مثلاً قیامِ لیل، ذکر اور دعا وغیرہ کے لیے کوئی وقت متعین کرنا مشروع ہے، اگر یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ اس صورت میں عبادت کی کوئی خاص فضیلت ہے۔

حنفی فقیہ ملا علی قاریؒ [م: ۱۶۰۶ء]لکھتے ہیں: ’’ رات میں اچانک تیز روشنی ہوجائے، ستارے بکھر جائیں، دن میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھاجائے، تیز آندھی چلنے لگے، زلزلہ آجائے، بجلی کڑکے، مسلسل اولے گریں، موسلا دھار بارش ہو، وبائی امراض پھیل جائیں یا دشمن کا خوف ہو تو لوگ تنہا تنہا نماز پڑھیں گے‘‘۔ (فتح باب العنایۃ: ۱؍ ۳۴۸) مؤرخ شمس الدین دمشقی [م:۱۳۷۸ء] نے لکھا ہے: ’’۷۶۴ھ [۱۳۶۳ء]میں بڑے پیمانے پر طاعون پھیلا تو لوگ رات میں عبادت کرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے تھے، خوب صدقہ و خیرات کرتے تھے اور توبہ و استغفار میں مصروف رہتے تھے‘‘۔ (شفاء القلب المحزون)

۹- زکوٰۃ جلدی نکالنا

]: کیا کورونا کے نتیجے میں لوگوں کی شدید ضرورت کے پیش نظر زکوٰۃ جلدی نکالی جاسکتی ہے؟

r : کسی شخص کے پاس مال نصاب کو پہنچ جائے، لیکن اس پر ابھی سال نہ گزرا ہو، تب بھی لوگوں کی شدید ضرورت کے پیش نظر ایک سال یا اس سے زائد مدت کی زکوٰۃ پیشگی نکالی جاسکتی ہے۔ کسی معتبر مصلحت کے پیش نظر سال گزرنے سے قبل پیشگی زکوٰۃ نکالنا جمہو رفقہا اور بیش تر اہلِ علم کے نزدیک درست ہے۔انھوں نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے مروی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباسؓ نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا:’’کیا سال گزرنے سے قبل زکوٰۃ نکالی جا سکتی ہے؟‘‘ آپؐ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ (ترمذی: ۶۷۸)

زکوٰۃ مالی حق ہے۔ اس کی ادایگی کے لیے مدّت کا تعیین زکوٰۃ نکالنے والے کی آسانی کے لیے کیا گیا ہے۔ اسے وقت سے پہلا نکالا جا سکتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص کسی سے ایک متعین مدّت کے لیے قرض لے تو مدت پوری ہونے سے پہلے بھی وہ قرض واپس کر سکتا ہے۔

۱۰-   غیر مسلموں کو شفا کی دعا دینا

]: کیا غیر مسلموں کو شفا کی دعا دی جا سکتی ہے؟

r : بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ غلط تصور بیٹھا ہوا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا تعلق صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہے۔ یہ اسلام کے صحیح فہم کے خلاف ہے۔ اسلامی اخلاق کا مظاہرہ تمام انسانوں کے ساتھ کیا جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: خَالقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی: ۱۹۸۷) ’’لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ‘‘۔

غیرمسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، مثلاً ان کے لیے دعا کرنا، ان کے ساتھ ہم دردی سے پیش آنا اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنا مشروع ہے، بلکہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگا۔ کسی کو دعا دینا ایک اچھا کام ہے۔ کتاب و سنت میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر مسلموں کو بدنی صحت اور امراض سے شفا کی دعا دینا جائز ہے۔

 حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ( بخاری:۱۳، مسلم:۴۵)’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

’بھائی‘ کے لفظ میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں ۔ ایک مسلمان جس طرح اپنے لیے صحت اور شفا چاہتا ہے، اسی طرح اسے دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے بھی اس کی خواہش رکھنی چاہیے۔ اس حدیث کی تشریح میں علامہ محمد بن علان البکری الصدیقی [م: ۱۶۴۷ء] نے لکھا ہے:’’ بہتر یہ ہے کہ اس حدیث کے عموم میں غیر مسلم کو بھی شامل کیا جائے اور لفظ ’ بھائی‘ کا اطلاق اس پر بھی کیا جائے‘‘۔(دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین)

 ۱۱- کورونا میں مبتلا مریضوں سے نفرت کرنا

]: بعض لوگ کورونا میں مبتلا ہوجانے والے مریضوں اور ان کے گھر والوں سے تنگی اور انقباض محسوس کرتے ہیں، گویا کہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا یہ رویّہ درست ہے؟

r : جو شخص کورونا میں مبتلا ہوگیا ہو، یا کسی اور وبا کا شکار ہو گیا ہو، اس سے انقباض محسوس کرنا ،یا اس سے نفرت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی کو پریشان حال، مصیبت کا مارا یا کسی مرض کا شکار دیکھے، تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے مجھے محفوظ رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کوئی شخص کسی کو کسی پریشانی میں مبتلا دیکھے، تو یہ کہے: ’اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس پریشانی سے محفوظ رکھا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات سے بہتر بنایا‘۔ اللہ تعالیٰ اسے اس پریشانی سے محفوظ رکھے گا‘‘( ترمذی: ۳۴۳۱، ۳۴۳۲، ابن ماجہ:۳۸۹۲)۔

اس کا عین امکان ہے کہ جو شخص کسی پریشانی میں مبتلا ہو، اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس شخص سے زیادہ بلند ہو، جو اس پریشانی سے محفوظ ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو بلند مرتبے پر فائز کرنا چاہتا ہے ، جس تک وہ اپنے اعمال سے نہیں پہنچ سکتا تھا، تو اس کے جسم یا مال یا اولاد کے معاملے میں اسے کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس پر وہ بندہ صبر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ اس کا درجہ بلند کردیتا ہے‘‘۔( ابوداؤد:۳۰۹۰، مسند احمد:۲۲۳۳۸)

جو شخص کسی پریشان حال کی مدد کرسکے، کسی مریض کے مرض کی شدّت کو کم کرسکے، کسی بزرگ سے تعاون کر سکے، اسے اس کام سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’انسانوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے، جو دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے‘‘۔( طبرانی)

کسی وبا کی صورت میں لوگوں سے ملنے جلنے سے احتیاط کرنا اور وبا زدہ کسی شخص کے بارے میں رویّہ نفرت و حقارت کی شکل میں بدل لینا، دونوں میں فرق ہے۔ جو ڈاکٹر ایسے کسی مریض کا علاج کرتا ہے، وہ جانچ اور علاج کے لیے ایسے مریض سے قریب ہوتے وقت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے انقباض محسوس نہیں کرتا اور اس سے متنفّر نہیں ہوتا۔ یہی رویّہ دوسرے انسانوں کا بھی ایسے مریضوں کے سلسلے میں ہونا چاہیے۔ اگر وہ ان کی کچھ مدد نہیں کرسکتے، تو کم از کم ان کے لیے شفا کی دعا کریں، انھیں نرمی اور احترام سے مخاطب کریںاور ان سے ملاقات کے وقت خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔

۱۲- وبا کا روحانی علاج

]: وبائی امراض کے علاج کے لیے بعض لوگ اوراد و وظائف اور روحانی علاج بتاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

r : وبائی امراض کے علاج کے لیے اوراد و وظائف اور روحانی علاج کی جو صورتیں بعض لوگ اپنی جانب سے تجویز کرتے ہیں ان میں سے بیش تر شرعی اعتبار سے درست نہیں ہیں، بلکہ وہ مقاصدِ شریعت سے ٹکراتی ہیں۔ لوگوں کو ان سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور جھاڑ پھونک کرنے اور وظیفے پڑھنے والے ایسے لوگوں کے پاس جانے سے بچنا چاہیے، جنھوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور کم زور اعتقاد رکھنے والوں کا بری طرح استحصال کیا ہے۔

امراض کی صورت میں اور خاص طور پر وبا کے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ مسلمانوں اور دیگر تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ صحت کے ماہرین کی ہدایات اور حکومت کی ایڈوائزری کی سختی سے پابندی کریں۔ روحانی علاج کا جائز طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے صحت اور شفا کی دعا کرے۔ نیز پریشانی اور غم دُور کرنے کے لیے مسنون دُعاؤں اور اذکار کا اہتمام کرے۔

۱۳-  لاک ڈاون کے موقع پر گھر سے باہر نکلنا

]: لاک ڈاؤن کے موقعے پر بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟

r : یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ کورونا کی وبا لوگوں کے ملنے جلنے سے پھیلتی ہے۔ اسی بنا پر لوگوں کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہو گئی ہے اور ان میں سے بہت سے وفات پا گئے ہیں یا شدید طور پر بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں، اور بادی النظر میں بیماری پھیلانے کا ذریعہ بنے ہیں۔ اس لیے جو شخص جان بوجھ کر یہ حرکت کرے گا وہ خطا کار، بلکہ گناہ گار ہوگا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہیں، شدید ضروریات کے بغیر باہر نہ نکلیں اور دوسروں سے ملنے جلنے سے لازماً پرہیز کریں۔ جو شخص ان اقدامات اور پابندیوں کی خلاف ورزی کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس وبائی مرض کا شکار ہوجائے گا اور اس کے ذریعے یہ مرض دوسروں میں منتقل ہوگا، تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا یہ عمل’ قتل شبہ عمد‘ کے درجے میں ہوگا۔

۱۴- وبائی علاقوں کا یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات کا سفر کرنا

]:جن علاقوں میں وبا پھیلی ہوئی ہو، وہاں کا سفر کرنے، یا وہاں سے نکل کر دوسرے مقامات پر جانے کا کیا حکم ہے؟

r : کورونا وائرس ، ایسا مہلک وائرس ہے جو لوگوں کے باہم میل جول سے پھیلتا ہے۔ کسی شخص کو یہ مرض لاحق ہو اور دوسرا اس سے ہاتھ ملائے یا اس کی کوئی چیز چھو لے، تو اسے بھی یہ لاحق ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖۛ (البقرہ ۲: ۱۹۵)اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۝۲۹ ( النساء۴:۲۹) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔

حدیث نبویؐ میں حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو وہاں کوئی شخص نہ جائے اور وہاں موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلنے۔( بخاری:۵۷۲۸، مسلم: ۲۲۱۹)

ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر کوئی وبا پھیلی ہوئی ہو، وہاں جانا یا وہاں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اس کا سبب جان کی حفاظت ہے، جس کا شمار مقاصدِ شریعت میں ہوتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے شہر کے حکم رانوں اور صحتی محکموں کی ہدایات کی پابندی کرے اور بلاضرورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ اگر کسی شدید ضرورت سے نکلنا پڑے تو تمام احتیاطی ضوابط پر عمل کرے اور تحفّظ و سلامتی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھے۔ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وباؤں کے زمانے میں گھروں میں ٹِک کر رہنا واجب ہے۔

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا تھا، بھیجتا تھا۔ اسے اس نے اہل ِ ایمان کے حق میں رحمت بنا دیا ہے۔ جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبر کرکے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے اور اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ نے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، اس کی اگر اس مرض میں موت ہوگئی تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا ‘‘۔( مسند احمد:۲۶۱۳۹)

۱۵- وباؤں کے زمانے میں  مصافحہ اور معانقہ کرنا

]: وباؤں کے زمانے میں اگر مصافحہ اور معانقہ کرنے سے تعدیہ(Infection)کا اندیشہ ہو، تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

r :ایک مسلمان کا اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ کرنا مسنون ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا صَافَـحَ أَخَاہُ تَحَاتَتْ خَطَایَاھُمَا کَمَا یَتَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ (البزار) ایک مسلمان جب اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت سے پتّے۔

اگر مصافحہ اور معانقہ تعدیہ کا سبب بن رہا ہو ، جیسا کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نے صراحت کی ہے، تو اس صورت میں مصافحہ اور معانقہ کرنا حرام ہوگا۔ شرعی قاعدہ ہے: لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ ( نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ)۔ مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلَّا بِہٖ  فَھُوَ وَاجِبٌ ( جس کام کے بغیر کسی واجب پر عمل ممکن نہ ہو ، وہ بھی واجب ہو جاتا ہے)۔

حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس میں ایک شخص کو جذام تھا۔آپؐ نے اس سے بیعت نہیں کی اور فرمایا:’’ تم واپس جاؤ۔ یہ سمجھو کہ میں نے تم سے بیعت کرلی‘‘۔( نسائی:۴۱۸۲)

 اس میں شک نہیں کہ وائرس کا تعدیہ (انفیکشن)،جذام کے تعدیہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

۱۶-  تعدیہ (Infection) کے سبب کسی شخص کی موت کی ذمے داری

]: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ’مجھے کورونا کا مرض تھا اور میرے ذریعے وہ کسی دوسرے شخص کو منتقل ہوا ہے‘ تو کیا اس کا شمار قتل یا قتل ِخطا میں ہوگا ؟ شرعی طور سے مجھ پر کیا ذمے داری ہوگی؟

r : انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی تما م تدابیر اختیار کرے جن کا اختیار کرنا، اس کی اپنی جان اور دوسرے انسانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اسے کورونا کا مرض ہے، تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے دور رہے، ورنہ گناہ گار اور بارگاہِ الٰہی میں جواب دہ ہوگا۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’ جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس جگہ موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلو‘‘ (بخاری:۵۷۲۸، مسلم:۲۲۱۹)۔ یہ حکم ہے اور مطلق حکم وجوب کا فائدہ دیتا ہے۔ بعض فقہاے احناف نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون میں مبتلا ہو، اس کی اسے خود بھی خبر ہو، پھر بھی وہ سفر کرے، جس سے یہ مرض دوسرے شخص کو لاحق ہوجائے اور وہ مر جائے، تو اسے قتل بالسبب قرار دیا جائے گا اور اس پر ’دیت‘ (Blood Money) لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ تمام لازمی طبّی احتیاطی تدابیر اختیار کرے، اس کے باوجود اس کا تعدیہ دوسرے شخص کو ہوجائے اور اس میں اس کی موت ہوجائے تو وہ قصور وار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ۝۰ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ (الاحزاب۳۳:۵) نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔

۱۷- ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کا بڑھانا

]: وبا کے موقعے پر بعض حضرات غذائی اشیا کا ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح تاجر حضرات ایسے مواقع پر غذائی اشیا کو مہنگے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟

r : اصل یہ ہے کہ مسلمان صرف اپنی معمول کی ضروری چیزیں خریدے اور حتی الامکان میانہ روی اختیار کرے، خاص طور پر بحرانوں اور وباؤں کے موقع پر۔ ضرورت سے زیادہ غذائی اشیا کا ذخیرہ کرنے میں مبالغہ سے کام لینا دوسروں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ لوگ غذائی کمی کے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں اور اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کسی مسلمان تاجر کے لیے جائز نہیں کہ وہ قیمتیں بڑھا کر یا قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں ذخیرہ اندوزی کرکے لوگوں کا استحصال کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

لَایَحْتَکِرُ اِلَّا خَاطِیءٌ ( مسلم:۱۶۰۵) کوئی غلط کار ہی ذخیرہ اندوزی کرے گا۔

بحرانوں کے زمانے میں ضروری ہے کہ مسلمان خود غرضی کے بجاے ایثار اورانانیت کے بجاے رحم و کرم کا نمونہ بن جائے۔

۱۸- بہت سے مریض ہوں تو علاج میں کس کو مقدّم رکھا جائے؟

]: اگر بہت سے مریض موجود ہوں اور مصنوعی تنفس کی مشینیں (وینٹی لیٹر) کم پڑجائیں، تو مسلمان ڈاکٹر کیا کرے؟مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں: ایک کا علاج کرنے سے اسے شفا ملنے کی امید ہو اور دوسرے کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس کے شفا پانے کی اُمید بہت کم ہو تو اس موقعے پر ڈاکٹر کیا کرے ؟

r : یہ بہت نازک مسئلہ ہے، لیکن بہرحال ہسپتال میں ڈاکٹر کو پیش آسکتا ہے۔ مسلمان ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ جن اسپتالوں میں کام کر رہے ہوں، ان کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں ۔ اگر وہ بااختیارہوں تو طبی ، اخلاقی اور انسانی قدروں کی رعایت کریں۔ مثلاً کسی مریض کا علاج ہو رہا ہو تو اس سے طبی آلات اور مشینوں کو ہٹا کر بعد میں آنے والے کسی مریض کو لگا دینا جائز نہیں ہے ۔ اگر کسی ڈاکٹر کے سامنے دو مریض ہوں اور اس کے پاس کسی ایک ہی مریض کا علاج کرنے کا موقع ہو، تو وہ اس کا علاج کرے جو پہلے آیا ہو ، اِلّا یہ کہ اس کے شفا پانے سے مایوسی ہو۔ جس کا علاج کچھ تاخیر سے کیا جا سکتا ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جسے فوری فرسٹ ایڈ (طبی امداد)کی ضرورت ہو۔ جس مریض کے شفا پانے کی امید نہ ہو اس پر اس مریض کو ترجیح دے جس کے شفا پانے کی امید ہو۔ یہ فیصلہ غالب گمان اور طبی جانچوںکے بعد کیا جا سکتا ہے۔

۱۹-کورونا کے تناظر میں جنازہ کے احکام

]: کسی شخص کا کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال ہوجائے، تو اسے غسل دینے، کفن پہنانے ، نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کے سلسلے میں کیا احکام ہیں؟

r : زمان و مکان اور حالات بدلنے سے فتویٰ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد ایسے قواعد بیان کیے گئے ہیں، جن میں استثنائی صورتوں اور ناگزیر حالات کی رعایت کی گئی ہے۔ نعشوں کو دفن کرنے کے سلسلے میں ممالک کے قوانین اور متعلقہ محکموں کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔ ان کی روشنی میں کورونا کے مرض میں ہلاک ہونے والے شخص کے جنازے کے احکام درج ذیل نکات میں بیان کیے جائیں گے:

۱-  جہاں تک کورونا کے مرض میں وفات پانے والے شخص کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں طویل بحثوں اوروبائی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد کونسل براے فتویٰ و تحقیق اس راے تک پہنچی ہے کہ میّت کو اسی بیگ اور تابوت میں ، جس میں اسے اسپتال سے نکالا گیا ہے، بغیر غسل یا تیمم کے ( چاہے قانونی طور پر اس کی اجازت ہو) دفن کرنا بہتر ہے۔

l  مسلمان میّت کے غسل کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ جمہور اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے ایک قول کے مطابق یہ سنّت ہے۔ یہ اختلاف معتبر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غسل قول سے نہیں ، بلکہ عمل سے منقول ہے اور عمل کا کوئی ایسا صیغہ نہیں ہوتا جس سے وجوب کا پتا چلتا ہو۔ راجح یہ ہے کہ میّت کو غسل دینا واجب ہے ، لیکن یہ حکم عام حالات کے لیے ہے۔ استثنائی حالات میں ، مثلاً وباؤں کے موقع پر میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے کو ترک کرنا جائز ہے۔

l  صحتی حلقوں میں آج کل یہ معروف بات ہے کہ میّت کو غسل دینے یا تیمّم کرانے والے اگرتمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ، اس کے باوجود تعدیہ کا خطرہ باقی رہتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں غسل دینے والے کو احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں ٹریننگ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اب موقع نہیں ہے۔ جب طبی عملہ ٹریننگ اور انتہائی احتیاط کے باوجود تعدیہ کا شکار ہو رہا ہے تو غسل دینے والے ، جنھیں اس کی مہارت نہیں ہوتی ہے اور جو میّت کے براہِ راست رابطے میں رہتے ہیں ، وہ بھلا کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

l  فقہی قواعد اور شرعی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ صحت مند شخص کی زندگی کی حفاظت کو میّت کے حق میں سنّت یا واجب پر عمل کے مقابلے میں ترجیح دی جائے گی۔ احکام کے سلسلے میں غسل دینے والوں کے تعدیہ کا شکار ہوجانے اور ان سے دوسرے لوگوں کو تعدیہ ہوجانے کے  ظنّ غالب کا اعتبار کیا جائے گا۔

کونسل اس جانب بھی متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ اس وبا میں وفات پا جانے والے شخص کو اگر بغیر غسل دیے اور کفن پہنائے دفن کر دیا جائے گا، تو اس کے اجر میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور اس کے اہل خانہ اور مسلمان اس کے غسل و تکفین سے بری الذمہ ہوں گے۔ نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص بارگاہِ الٰہی میں شہید کے درجے میں ہوگا( بخاری:۵۷۳۴)۔

۲- جمہور کے نزدیک نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اسے انجام دے لیں تو تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کفایت کرے گا کہ قانون جتنے لوگوں کو اجازت دے اتنے لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں، خواہ ان کی تعداد صرف تین ہو۔ البتہ جو مسلمان چاہیں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، چاہے تنہا پڑھیں۔ بعض شوافع اور حنابلہ غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کے قائل ہیں۔

۳- جہاں تک دفن کا معاملہ ہے ، اس سلسلے میں اصل یہ ہے کہ مسلمان کو وہیں دفن کیا جائے گا جہاں اس کا انتقال ہو ۔ صحابۂ کرامؓ کو وہیں دفن کیا گیا جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اسی طرح اصل یہ ہے کہ مسلمان کی تدفین مسلمانوں کے لیے مخصوص قبرستان میں ہو۔اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو جہاں ممکن ہو، وہاں اس کی تدفین کردینی چاہیے، چاہے غیر مسلموں کے قبرستان میں اسے دفن کرنا پڑے۔ آخرت میں انسان کا عمل اس کے کام آئے گا، اس کی تدفین کہاں ہوئی ہے ؟اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا قول ہے: ’’کوئی زمین کسی کو مقدّس نہیں بناتی، بلکہ اس کا عمل اس کو مقدّس بناتا ہے‘‘(موطا امام مالک:۲۲۳۲)۔

۲۰-وبا میں مرنے والے کی نعش کو جلانا

]: جن لوگوں کا انتقال کورونا کے مرض میں ہوگیا ہو ، کیاان کی نعشوں کو جلایا جا سکتا ہے، اگر متعلقہ محکمے اس کا حکم دیں؟

r : مُردوں کو قبروں میں دفن کرنا انسان کی عظمت و حرمت کے مطابق ہے۔ کتاب اللہ میں اس کا تذکرہ ہے:

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا۝۲۵ۙ  اَحْيَاۗءً ‎وَّاَمْوَاتًا۝۲۶  ( المرسلٰت:۲۵-۲۶) کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کے تمام علاقوں اور ان کے معاشروں میں اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مُردوں کے حق میں اسی سنّتِ محمدی کو اختیار کرنے پر اصرار کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کی دینی تنظیموں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کے نزدیک مُردوں کو دفن کرنے کے عمل کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ اور ان کی نعشوں کو جلانے کی صورت میں ان میں کتنا اضطراب پیدا ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں اور متعلقہ محکموں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نعشوں کو جلائے جانے کا فیصلہ نہ کریں۔

۲۱- دفن کی وصیت پر عمل کرنے سے معذوری

]: میری والدہ کا کورونا کے مرض میں انتقال ہوگیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کے وطنِ اصلی میں دفن کیا جائے۔ آمد و رفت کے ذرائع پر پابندی کی وجہ سے ان کی نعش کو ان کے وطنِ اصلی لے جانا ممکن نہیں ہے۔ پھر کیا جہاں ان کا نتقال ہوا، وہیں انھیں دفن کرنے سے ہم گناہ گار ہوں گے؟

r : اصل یہ ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کیا جائے۔ سنّت یہ ہے کہ حتی الامکان تدفین میں جلدی کی جائے۔ یہ حکم عام حالات میں ہے۔ پھر استثنائی حالات میں، جب کہ نعش کو کہیں دوسری جگہ لے جانا اور وصیت کو پوری کرنا ممکن نہ ہو ، بہ درجۂ اولیٰ یہی حکم ہوگا۔ اس لیے وبائی حالات میں جس شخص کا جہاں انتقال ہو وہیں اسے دفن کردینا چاہیے۔ بعض صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص کا انتقال اپنے وطن سے دور کسی اور جگہ ہو، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا۔ایک شخص ، جو مدینہ کا رہنے والا تھا، وہیں اس کا انتقال ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر فرمایا:’’ کاش اس کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتا‘‘۔ لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیوں؟

آپؐ نے فرمایا:’’ کسی شخص کا انتقال وطن سے باہر کہیں اور ہوتو جنّت میں اسے اتنی جگہ دی جائے گی، جتنا فاصلہ اس کے وطن اور اس کے مقام ِ وفات کے درمیان ہوگا‘‘( نسائی:۱۸۳۲، ابن ماجہ:۱۶۱۴)۔

ایک حدیثِ قدسی میں ہے : اللہ تعالیٰ روزِ قیامت بندے سے فرمائے گا : میں بیمار تھا ، لیکن تو نے میری دیکھ بھال نہیں کی تھی ۔ بندہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں کیسے تیری دیکھ بھال کرتا ، تو تو سارے جہاں کا نگہبان ہے؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا _؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو نے اس کی دیکھ بھال کی ہوتی تو مجھے اس کے پاس پاتا ؟

(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگر تو نے مجھے نہیں کھلایا تھا۔ _ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھلاتا، تو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگر تو نے اسے نہیں کھلایا تھا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟

(پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا ، مگر تو نے مجھے نہیں پلایا تھا ۔ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پلاتا، تو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟

_ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا ، مگر تو نے اسے نہیں پلایا تھا۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ ( مسلم :۲۵۶۹)

 اس حدیث پاک سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں خدمتِ خلق کو کتنا عظیم مقام دیا گیا ہے۔ _ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی مدد کرتا ہے ۔وہ بھوکے ہوں تو ان کے لیے راشن یا کھانے کا نظم کرتا ہے۔ پیاسے ہوں تو ان کے لیے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ بیمار ہوں تو ان کے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے والے فرد نے انسانوں کی مدد نہیں کی ، بلکہ خود اللہ کی مدد کی ہے۔ اس نے انسانوں کا علاج نہیں کیا ، بلکہ خود اللہ کا علاج کیا ہے۔ اس نے انسانوں کو کھانا نہیں کھلایا، بلکہ خود اللہ کو کھلایا ہے۔ اس نے انسانوں کو پانی نہیں پلایا ، بلکہ خود اللہ کو پلایا _ ہے۔

 اس تصوّر کو قرآن و حدیث میں بہت نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے کہ یہ _ مال و دولت اور آسودگی، اللہ کا دیا ہوا انعام ہے۔ لیکن جب ایک بندۂ مومن اسے انسانوں کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے ذمے قرض کی حیثیت دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ روزِ قیامت اسے خوب بڑھا چڑھا کر خرچ کرنے والے کو واپس کرے گا۔ _ قرآن کریم میں ہے :

 کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے ، تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ (البقرہ۲ :۲۴۵)

اسی طرح ایک حدیث میں ہے : جب انسان اپنی پاکیزہ کمائی میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے خوب اہتمام سے پروان چڑھاتا ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے پالتو جانور کے بچے کی نگہ داشت اور پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس نے ایک کھجور کا صدقہ کیا ہو تو وہ اللہ کی نگرانی میں بڑھتے بڑھتے پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے (بخاری:۱۴۱۰، مسلم: ۱۰۱۴)۔

’ کورونا‘ نامی وبائی مرض کے پھیلاؤ کے موقعے پر جو لوگ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ انتہائی عظیم مشن کے خوش نصیب راہی ہیں:

    l    اس مرض کی خطرناکی سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود جو لوگ علاج معالجے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، ان کا کام بلامبالغہ '’جہاد‘ کے مثل ہے _۔

    l      جو لوگ اس کام میں اپنی زندگی ہار بیٹھیں، وہ بلاشبہہ ’شہادت‘ کے منصب پر فائز ہوں گے۔ _

    l    جو لوگ اس موقعے پر خوب بڑھ چڑھ کر خیرات و صدقات دے رہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ جسے خوب بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ پورا ہونا یقینی ہے۔ _

      جو لوگ اس موقعے پر غذائی اشیا ضرورت مندوں تک پہنچانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ حقیقت میں اللہ کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے کاموں کا بھر پور بدلہ پائیں گے _۔

بھوکوں کو کھانا کھلانا، ایک عظیم خدمت

ہمارے ملک میں آج کل لاک ڈاؤن سے جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے وہ خون کے آنسو رُلانے والی ہے۔ _ اپنے گھر سے باہر نکلیے یا فون پر کسی عزیز سے بات کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ  ہرطرف قدم قدم پر ایسے مرد، عورت ، بوڑھے ، جوان ، لڑکے ، لڑکیاں، بچیاں اور بچے نظر آتے ہیں جو فاقوں سے دوچار ہیں _۔ ان کے مُرجھائے ہوئے چہرے ان کی بے چارگی کی گواہی دیتے  ہیں۔ انھیں دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد یاد آجاتا ہے :

 سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ تم کسی بھوکے کو کھانا کھلادو ( بیہقی، فی شعب الایمان: ۳۳۶۷، الترغیب والترہیب: ۲/۹۲)۔

 امن کی حالت اور شکم سیری اللہ تعالیٰ کی دو بہت بڑی نعمتیں ہیں (قریش ۱۰۶ :۴)۔ ان کے مقابلے میں خوف اور بھوک اللہ کی نعمتوں پر ناشکری کی سزا بھی ہے، جس سے اللہ انسانوں کو دوچار کرتا ہے (النحل۱۶ :۱۱۲) اور اس کی طرف سے کی جانے والی آزمایشیں بھی ہیں ، جو انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں _ (البقرۃ۲:۱۵۵)۔

 انسان اپنی دیگر ضروریات کو ٹال سکتا ہے ، اس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو تو کچھ صبر کرسکتا ہے ، مکان نہ ہو تو کھلے آسمان کے نیچے گزارا کرسکتا ہے ، لیکن بھوک کو زیادہ وقت تک ٹالنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ بچوں کا معاملہ تو اور بھی دگرگوں ہوتا ہے کہ وہ بھوک برداشت نہیں کرپاتے۔ چنانچہ رونے پیٹنے اور واویلا کرنے لگتے ہیں اور انھیں دیکھ کر والدین کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے___ _ رفاہی کاموں کی بے شمار صورتیں ہیں ، لیکن آج کل بھوکوں کو کھانا کھلانا ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے، جس کی طرف اصحابِ خیر کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے _۔

یہ غور طلب بات ہے، جس میں اجمالی طور پر کہا جاسکتا تھا: ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو، غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرو ، ان کے کام آؤ‘‘۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب کیوں دی؟ اور اس کے آخری رسول (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) نے کھانا کھلانے کو عظیم صدقہ کیوں قرار دیا؟

 قرآن مجید میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی مختلف صورتوں کا بیان ہے۔ _جو شخص روزہ نہ رکھ سکے، اس کا فدیہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے _(البقرہ۲:۱۸۴ )۔ قسم کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المائدہ۵:۸۹)۔ حرم میں کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کفّارہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المائدہ ۵:۹۵)۔ ظِہار (بیوی کو ماں کہہ دینے) کا کفّارہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے _(المجادلۃ  ۵۸:۴)۔ پریشانی کے دن یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کو عظیم عمل کہا گیا ہے _(البلد۹۰: ۱۴-۱۶)۔ اہلِ جنت کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا کہ وہ دنیا میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے _(الدھر۷۶:۸)۔ اسی طرح جہنم کا ایندھن بننے والوں کا ایک جرم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہ خود مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور نہ دوسروں کو اس نیک کام پر ابھارتے تھے _(الفجر۸۹:۱۸، الماعون۱۰۷:۳) ۔

 اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاداتِ گرامی ہیں:

    l    بھوکے کو کھانا کھلاؤ _ ( بخاری :۳۰۴۶) ۔

    l    کھانا کھلانے والے جنت میں جائیں گے(مسند احمد :۸۲۹۵) ۔

    l    جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جنّت کے پھلوں میں سے کھلائے گا  (المجموع للنووی :۶/۲۳۵)-

    l    صدقے کی ایک صورت یہ ہے کہ تم بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ (سیر اعلام النبلاء،الذھبی۱۶/۴۵۹)۔

    l    وہ شخص مومن نہیں جو خود تو آسودہ ہو ، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا ہو (الترغيب و الترھیب ۳/۳۲۳)۔

 ان آیات اور احادیث میں خاص طور پر کھانا کھلانے کا تذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے وجوہِ خیر میں اس عمل کو بارگاہ الٰہی میں بہت زیادہ پسندیدگی سے دیکھا گیا ہے _۔

ان اطلاعات سے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ پورے ملک میں بہت سے اصحابِ خیر نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور بلا تفریق مذہب و ملّت وہ سب کو فیض یاب کررہے ہیں۔ بعض علاقوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے کھانے کے پیکٹس کی تقسیم کا نظم دیکھنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت کے علاوہ بھی بہت سے لوگ اس کارِ خیر کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنی گاڑیوں میں پکے ہوئے کھانے کے پیکٹس بھر کر لاتے ہیں اور مسافروں ، راستہ چلتے ہوئے لوگوں اور جھگیوں جھونپڑیوں کے مکینوں میں تقسیم کرتے ہیں _۔

 حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس وقت کی بہت بڑی ضرورت پوری کررہے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو خوش کررہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں اس کا بدلہ صرف جنّت ہے _۔

سفید پوشوں کی خبر لیجیے

 لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام جس بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، اس کے تدارک کے لیے اصحابِ خیر کا جذبۂ انفاق ماشاء اللہ جوش میں ہے۔ _ وہ بڑے پیمانے پر کھانا پکاکر بھی تقسیم کررہے ہیں اور راشن کے پیکٹ اور پیکج تیار کرکے بھی مستحقین تک پہنچا رہے ہیں۔ _ ان کی یہ جدّوجہد بڑی قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہے۔ _ اس موقعے پر ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ کہیں وہ نظر سے اوجھل نہ رہ جائے۔ _ وہ ہے ان لوگوں کی طرف دستِ تعاون بڑھانا، جو اپنی ضرورت مندی کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرسکتے۔ جن کی سفید پوشی ان کے منہ پر تالے ڈال دیتی ہے ، جو فاقوں پر فاقے تو کرسکتے ہیں ، لیکن اپنے فقر کی بھنک اپنے قریبی لوگوں کو بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔

 قرآن مجید میں دو مقامات پر اہل ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ _ ان میں سے ایک وصف یہ ہے :

وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ  لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵ (المعارج۷۰: ۲۴-۲۵) اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے ، سائل (مانگنے والے) کا بھی اور محروم کا بھی _۔

 _ یہی مضمون ایک لفظ (معلوم) کی کمی کے ساتھ سورئہ ذاريات(آیت۱۹) میں بھی آیا ہے۔ _

 ان آیات میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں : ایک ’حق‘ اور دوسرا ’محروم _ کا حق‘۔ مطلب یہ ہے کہ ’اہل ایمان جب اپنی کمائی میں سے کسی کو کچھ دیتے ہیں، تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ اس پر احسان کر رہے ہیں ، بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ ’’ان کے مال میں یہ ان کا حق ہے۔ _ اس طرح انھیں دے کر وہ ان کے حق سے سبک دوش ہو رہے ہیں ۔ ان آیات میں ’محروم‘ کا لفظ '’سائل‘(مانگنے والا) کے مقابلے میں آیا ہے۔ جس سے اس کے معنیٰ متعین ہوتے ہیں۔ _ اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود مانگنے کی ہمّت نہ کرسکے اور ہاتھ نہ پھیلائے _۔

 ہمارے ارد گرد معاشرے میں بہت سے سفید پوش ہوسکتے ہیں، جن میں: ہمارے رشتے دار، ہمارے دوست احباب ، ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین ، محلوں میں پھیری لگاکر روزمرّہ کا سامان بیچنے والے اور خوانچا فروش ، وغیرہ۔ _ ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ایسے متعدد سفید پوشوں کی تصویریں ہمارے سامنے آجائیں گی۔ _ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی غیرت اور خود داری کو مجروح نہ ہونے دیں، اور اس موقعے پر ان سے اس طرح تعاون کریں کہ انھیں شرمندگی کا ذرا بھی احساس نہ ہو ۔ ہم عام صدقات و خیرات کے علاوہ زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں ۔ دینے والی کی نیت ہونی چاہیے کہ وہ ’زکوٰۃ‘ ادا کررہا ہے۔ _ جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جارہی ہے اس کا جاننا ضروری نہیں کہ اس کو دی جانے والی رقم زکوٰۃ ہے _۔

 شریعت میں مستحق کو مدد دیتے وقت انفاق کے معاملے میں پوشیدگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ _ روزِ قیامت جو لوگ اس وقت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے ، جب اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا، جو اس طرح خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونےپائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے _ ( بخاری :۶۶۰، مسلم:۱۰۳۱)۔

 موجودہ بحران میں بہت سے لوگ دل کھول کر اپنا مال لُٹا رہے ہیں _۔ انھوں نے بڑے بڑے لنگر کھول رکھے ہیں ، جن کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت انسانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں۔ _ ایسے میں وہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے جو بہت خاموشی سے معاشرے کے ایسے سفید پوشوں کی مدد کررہے ہیں، جن کی خودداری انھیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی اور جن پر عموماً اصحابِ خیر کی نظر نہیں پڑتی _۔

صدقےکی ہزار صورتیں

ایک مرتبہ غریب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا : مال دار لوگ ہم سے بازی لے گئے: _ وہ نماز پڑھتے ہیں ، ہم بھی پڑھتے ہیں۔ _ وہ روزہ رکھتے ہیں ، ہم بھی رکھتے ہیں۔ _ وہ صدقہ کرتے ہیں ، لیکن ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ صدقہ کرسکیں _۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ نے تمھارے لیے صدقہ کی بہت سی صورتیں بتائی ہیں ۔

ایک اور حدیث میں ہے ،کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابن آدم کے ہر جوڑ، ہڈی، پور کے حساب سے روزانہ اس پر صدقہ کرنا لازم ہے۔ _ صحابہ نے عرض کیا : ہم اتنا صدقہ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  بہت سے اعمال کا تذکرہ کیا اور انھیں صدقہ قرار دیا _۔یہ احادیث بہت سی کتبِ حدیث میں مروی ہیں _ (چند حوالے ملاحظہ ہوں : بخاری  ۲۷۰۷،۲۸۹۱،۲۹۸۹،مسلم: ،۷۲۰،۱۰۰۹،۱۵۵۲، ابوداؤد :۱۲۸۵،۱۵۶۷،۵۲۴۳ ، ترمذی: ۱۹۵۶ ، نسائی : ۲۵۳۸ ،ابن ماجہ :۲۴۱۸، احمد :۲۱۴۷۵، ۲۱۴۸۲وغیرہ)۔

ان احادیث میں صدقے کی جو صورتیں بیان کی گئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں :

l  اللہ کی پاکی بیان کرنا (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے _ l  _ اللہ کی کبریائی بیان کرنا صدقہ ہے _l   _ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے _ l  اللہ کی حمد بیان کرنا (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے _ l  نماز پڑھنا صدقہ ہے _ l  دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنا صدقہ ہے _ l  روزہ رکھنا صدقہ ہے _ l حج کرنا صدقہ ہے _ lجنازہ کے پیچھے چلنا صدقہ ہے _ l  _ مریض کی عیادت کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو راستہ بتا دینا صدقہ ہے _ l  _راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے _ l  _راستے سے ہڈّی ، پتھر ، کانٹا ہٹا دینا صدقہ ہے _ l  _ ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے _ l  _ اچھی بات کی تلقین کرنا صدقہ ہے _ lکسی غلط کام سے روکنا صدقہ ہے _ l  _ میاںبیوی کا صنفی تعلق صدقہ ہے _ l  _ تنگ دست مقروض کو مہلت دینا صدقہ ہے _ lکسی کم زور کی مدد کرنا صدقہ ہے _ l  _کوئی آدمی اونچا سنتا ہو ، زور سے بول کر اسے کوئی بات سنا دینا صدقہ ہے _ lکسی شخص کی بینائی کم زور ہو ، اس کی کوئی ضرورت پوری کردینا صدقہ ہے _ l کوئی شخص کمزور، لاچار ہو ، اپنی طاقت سے اس کا کوئی کام کردینا صدقہ ہے _ l _کوئی شخص اپنی بات صحیح طریقے سے نہ رکھ سکتا ہو ، اپنی قوتِ بیانی سے اس کی بات صحیح طریقے سے پیش کردینا صدقہ ہے _ lکسی کا لباس بوسیدہ ہوگیا ہو ، اسے لباس فراہم کردینا صدقہ ہے _ lکسی ننگے کو کپڑا پہنا دینا صدقہ ہے _ lکسی نابینا کو صحیح راستے پر پہنچادینا صدقہ ہے _ l  _ _ اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا صدقہ ہے _ lاپنے برتن سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے _ l  _کوئی شخص بھٹک گیا ہو تو اسے صحیح راستہ بتادینا صدقہ ہے _ l  _ _ لڑائی جھگڑا کرنے والے دو افراد کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردینا صدقہ ہے _ lکسی شخص کو سواری پر بیٹھنے میں مدد دینا صدقہ ہے _ l  _ _ سواری پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کا سامان اٹھاکر اسے دے دینا صدقہ ہے _ l  _ _ اچھی بات صدقہ ہے _ l  _ _ نماز کے لیے مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے _ lکسی کو راستہ نہ معلوم ہو ، اسے راستہ بتا دینا صدقہ ہے _ lکسی کے درخت / کھیتی سے کوئی شخص کچھ کھا لے ، یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے _ _ lکسی کے درخت / کھیتی سے کوئی جانور یا پرندہ کچھ کھا لے ، یہ اس کا صدقہ ہے _  lکسی مسافر کی راہ نمائی کردینا صدقہ ہے _ lکسی کاری گر کو اس کے کاروبار میں مدد کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو پانی پلادینا صدقہ ہے _ lکسی کام میں اپنے بھائی کی مدد کردینا صدقہ ہے _ l_آدمی جو خود کھائے (حلال روزی) وہ صدقہ ہے _ l  _ آدمی جو اپنے بچوں کو کھلائے ، وہ صدقہ ہے _ _ l آدمی جو اپنے خادم کو کھلائے وہ صدقہ ہے _ l کوئی پریشان حال مدد کا طالب ہو ، اس کے ساتھ جاکر اس کی پریشانی دور کردینا صدقہ ہے _ l  _ اپنی جان اور عزّت و آبرو کی حفاظت کرنے کی جدّوجہد کرنا صدقہ ہے _ lکسی کو اپنی ذات سے نقصان نہ پہنچانا بھی صدقہ ہے _۔

صدقہ کی ان تمام صورتوں کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے۔ _ ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے صرف چند ہی حقوق اللہ سے متعلق ہیں ، زیادہ تر کا تعلق انسانوں کے حقوق سے ہے، _ جن میں اہل خانہ ، رشتے دار ، عام مسلمان ، غیر مسلم ، حتی کہ حیوانات بھی شامل ہیں۔

ان احادیث کی رو سے کورونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں جو افراتفری برپا ہے ، اس میں کسی بھی حیثیت سے کسی انسان کی مدد کردینا صدقہ ہے _۔