ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن


یہ ایک نہایت افسوس ناک اتفاق ہے کہ حالات و واقعات کی رفتار دیکھ کر میں نے بیسویں صدی کے آخری عشرے کے شروع میں روانڈا میں ۱۹۹۴ء میں ہونے والی ’نسل کشی‘ (Genocide)سے تقریباً پانچ سال قبل اس کی پیش گوئی کی تھی، اور اسی طرح صدی کے شروع میں یہ کہا تھا کہ میانمار میں حالات روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف جائیں گے۔ اور آج اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تشویش ناک حالات بھارت میں ہیں، جہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ سر پر کھڑا نظر آرہا ہے۔

’جینوسائیڈ واچ‘ ۲۰۰۲ء سے ہندستان میں نسل کشی کے بارے میں انتباہ (warning) دے رہی تھی کہ جب گجرات میں اس سال فروری،مارچ کے دوران قتل عام کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے، جنھوں نے اس انسانی المیے کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ درحقیقت، اس بات کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ مودی نے مسلمانوں کے اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس سے بڑھ کر مودی نے جو آج کل ہندستان کے وزیر اعظم ہیں، اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے ’مسلم مخالف، اسلاموفوبک بیان بازی‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔

 مودی نے اس المیے کو ریاستی اور اداراتی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے جو دو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں ایک تو اگست ۲۰۱۹ء میں ہندستانی زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا اور اسی سال شہریت (ترمیمی) ایکٹ پاس کرنا ہے، جس میں واضح طور پر مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مقصد وادیٔ کشمیر میں’ہندو تسلط کو بحال کرنا‘ ہے، جس میں مسلم اکثریت ہے، اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ کا نفاذ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے، جس میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کو مخصوص سازگار درجہ دیا، جو کہ بعض مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ایک گروہ جسے اس سے خارج کر دیا گیا وہ مسلمان ہیں۔یہ ایکٹ خصوصاً ، ان مسلمانوں کے لیے ہے جن کے والدین ۱۹۷۱ءمیں خانہ جنگی کے دوران مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر آسام میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ تقریباً ۳۰ لاکھ لوگ ہیں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، جو گذشتہ ۵۰ برس سے ہندستان کے باقاعدہ شہری کے طور پر’بس گئے‘ ہیں۔

متنازع شہریت (ترمیمی) ایکٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دستاویزی طور پر یہ ثابت کریں کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلےکے ہندستان کے شہری تھے۔اب بہت سارے لوگوں کے پاس اس قسم کی دستاویزات نہیں ہیں۔ جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ انھیں غیرملکی قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے۔

 ۲۰۱۷ء میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ جہاں میانمار کی حکومت نے پہلے ایک قانون سازی کے ذریعے عشروں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کو شہری قرار دیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے انھیں بے دخل کرکے کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔

اقوام متحدہ کا ’نسل کشی کنونشن‘ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو نسل کشی کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مقصد خاص طور پر کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہی سے بچانا ہے، مگر روہنگیا مسلمان یہ المیہ بھگت رہے ہیں۔ اب بھارت میں بالکل اسی خونیں المیے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کا مقصد شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے تحت پورے ہندستان میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان متاثر کرنا ہے۔ ’ہندوتوا تحریک‘ کے تحت ہندستان کا تصور بطور ہندو قوم، ہندستان کی تاریخ اور ہندستانی آئین کے خلاف ہے۔ ہندستانی آئین  سیکولرازم کے تحت اپنے بسنے والے تمام شہریوں سے وعدہ کیا تھا۔

اس وقت حقیقت میں مسٹر نریندرا مودی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسے انتہا پسند، ’ہندوتوا‘ کے علَم بردار گروپ کے کارکن کی حیثیت سے ہندستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اقتدار میں ہیںاور حکومت کی پوری مشینری پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔

بھارت کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر نسل کشی ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اور یہ کہ بھارتی آسام اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم نسل کشی کی ابتدائی علامات اور مظاہر موجود ہیں۔

اسی طرح اتراکھنڈ کے یاتری شہر ’ہردوار‘ میں ۱۷ سے ۱۹ دسمبر تک ’ہندوتوا‘ لیڈر کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس کو معمولی واقعہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی متعدد اپیلیں کی گئی ہیں، اور حلف لیے گئے ہیں، جس کا واضح مقصد اپنے ماننے والوں کو نسل کشی پر اُکسانا ہے۔

 مودی نے بحیثیت بھارتی وزیر اعظم، نفرت آمیز اقدامات اور نفرت انگیز تقاریر کیں، جو خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کے جذبات بھڑکاتی ہیں،جن کی مذمت کرنا دُنیابھر کے مہذب لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

’ہردوار کانفرنس‘ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان، محض وہاں موجود مشتعل لیڈروں اور سامعین تک محدود نہیں، بلکہ یہی زبان مسلمانوں کے خلاف ہندستانی حکومت بھی استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ جس کا مقصد اس ’پولرائزیشن‘ کو گہرا کرنا ہے، جس کی وجہ سے نسل کشی ہوتی ہے، لہٰذا ہم خبردار کر رہے ہیں کہ ہندستان میں نسل کشی بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ ہندستان کے یہ حالات ’روانڈا‘ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں، جہاں ۱۹۹۴ءمیں نسل کشی ہوئی تھی۔

روانڈا میں نسل کشی کی پیش گوئی میں نے اس وقت ملک کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں کی تھی اور روانڈا کے اس وقت کے صدر کو خبردار کیا تھا کہ’’اگر آپ نے اپنے ملک میں نسل کشی کی علامتوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو پانچ سال کے اندر یہاں عملاً نسل کشی ہوجائے گی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود نسل کشی کی راہ پر چلنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کی جاتی رہیں، اور پھر ہم جانتے ہیں، ۷؍اپریل سے ۱۵جولائی ۱۹۹۴ء پر پھیلے ایک سو دنوں میں روانڈا کے ۸لاکھ تتسی باشندوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا۔

دنیا بھر کے انصاف پسند اور انسانیت دوست انسانوں اور اداروں کو آج اس عزم کا اظہار کرنا اور عملی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم ہندستان میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔