اپور ونند


بھارت میں نئے سال کا آغاز مسلمانوں پر اخلاق سوز حملے سے ہوا۔ یکم جنوری کو ’بُلی بائی‘ ایپ پر سو سے زیادہ بھارتی مسلمان خواتین کی تصاویر دی گئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’یہ برائے فروخت ہیں‘‘۔ ان ناموں میں معروف صحافی، استاد، سماجی کارکن اور فنونِ لطیفہ سے متعلق خواتین شامل تھیں جنھیں ہدف بنایا گیا تھا۔

بظاہر اس کوشش سے جہاں مسلم خواتین کی جنسی اعتبار سے توہین کی گئی ہے وہاں سماجی طور پرمعروف اور سیاسی طور پر سرگرم مسلم خواتین کو ردعمل پر مجبور اور ۲۰کروڑ مسلمانوں پر مشتمل بھارت کی مضبوط اقلیت کو مشتعل کیا گیا ہے۔درحقیقت یہ بھارت میں اسلاموفوبیا واقعات کے تسلسل کے حوالے سے ایک تازہ واقعہ ہے۔

گذشتہ برس ۲۰۲۱ء کے آخری روز ایک معروف بھارتی روزنامہ نے اسلاموفوبیا پر مبنی نمایاں طور پر ایک اشتہار شائع کیا،جس کے لیے اترپردیش حکومت نے مالی معاونت کی۔چند ہفتے قبل شمالی بھارتی شہر ہردوار میں تین روزہ مذہبی تقریب کے آخری دن بہت سے انتہاپسند ہندو لیڈروں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا حلف اُٹھایا۔ دسمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی دو تقریروں میں ہندستان کی تاریخ کی مختلف مسلم شخصیات اور موجودہ ’دہشت گردی‘ کے درمیان ربط اور تعلق قائم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے آبائواجداد کے مبینہ جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا اور اس کی سزا دی جائے گی‘‘۔

اس دوران اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے، جن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہے، اعلان کیا ہے کہ ’’ریاست کے آیندہ اسمبلی انتخابات کو ۸۰ فی صد بمقابلہ ۲۰فی صد قرار دیا جاسکتا ہے، اور یہ کہ وہ ریاستی انتخابات کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ سمجھتے ہیں‘‘۔ یاد رہے یوپی میں ۸۰فی صد ہندو اور ۲۰ فی صد مسلمان ہیں۔

۲۰۲۱ء میں مسلم مخالف پروپیگنڈا، جس کا ارتکاب ہندستان کے منتخب لیڈروں نے کیا، اسے ڈھٹائی پر مبنی ملکی اسلامو فوبیا میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں منظورکردہ یا تجویز کردہ مسلم مخالف قوانین اور پالیسیوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

۲۰۱۴ء میں ہندو قوم پرست بی جے پی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے ہندستان میں مسلمان اپنےآپ کو خطرے میں محسوس کرتےہیں۔ لیکن گذشتہ برس مسلم قومیت سے دشمنی اور بھی کھل کر سامنے آگئی۔ آج انتہاپسند ہندو قوم پرست، حکومت، مقامی حکام کی مدد اور بسااوقات حوصلہ افزائی سے مسلمانوں پر یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ ’’یہ زیادہ دُور کی بات نہیں ہے کہ جب وہ اپنےہی ملک میں برابرکےشہری کی حیثیت سےدیکھے نہیں جائیں گے‘‘۔ ان کی کھانے پینے کی ضروریات پر پابندیاں اور مذہبی عبادات کے دوران ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کی محض اس وجہ سے تذلیل کی جاتی ہے اور انھیں خوف زدہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کا روزگار خطرات کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اعلانات کیے جاتے ہیں۔

صرف مسلمان ہی نہیں ہیں کہ جنھیں ملک میں انتہاپسندوں کے بڑھتےہوئے دن دہاڑے کھلے عام حملوں کا سامنا ہو۔ ملک بھر میں عیسائیوں کو بھی اسی طرح کی نفرت اور تشدد کا سامناہے۔ ایک کے بعد ایک ریاست میں تبدیلیِ مذہب کے قانون پر پابندی لگائی جارہی ہے اور عیسائیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے کہ وہ غریب ہندوئوں اور قبائل کو تبدیلیِ مذہب پر مجبورکر رہےہیں۔   اس پراپیگنڈے سے رائے عامہ عیسائی اقلیت کے خلاف ہورہی ہے۔ عیسائیوں کی اتوار کے روز عبادت کو مسلسل انتشار کا سامنا ہے، گرجوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور ان کے مذہبی پیشوائوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

معروف صحافی جان دیال نے حال ہی میں بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ میں کم از کم ۱۶ شہروں اورقصبوں میں متشدد ہندو ہجوموں نے گرجوں پر حملے کیے، مذہبی عبادت اور کرسمس مناتے ہوئے مختلف گروپوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات ہریانہ، اترپردیش او ر دہلی سے لے کر جنوب میں کرناٹکہ تک دیکھنے میں آئے۔ یونائٹیڈ کرسچن فورم کے مطابق: ’’۲۰۲۱ء کے دوران بھارت میں عیسائیوں پر کم از کم ۴۶۰حملے کیے گئے ہیں‘‘۔

بی جے پی کی قیادت میں بھارت دنیابھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک بن گیا ہے۔ انھیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے تکالیف اور اذیتوں کا سامنا ہے۔ ان کی مذہبی رسومات، کھانے پینے کی اشیاء، حتیٰ کہ کاروبار تک کو جرم ثابت کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ امتیازی قوانین کے ساتھ ساتھ انھیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ برقی میڈیا، پرنٹ میڈیا اور فلمی صنعت ان کےخلاف تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکمران مسلسل ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔

۲۰۲۱ء کا سال بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے خوف، تشدد اور ہراسانی کاسال تھا، اور ۲۰۲۲ء کے آغاز پر ’بُلی بائی‘ کے شرمناک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو  انتہاپسندانہ حملے مذہبی اقلیتوں پر اگلےسال بھی پوری قوت سے جاری رہیں گے۔

بھارت کے مسلمان اپنے خلاف حملوں کو ہلکا نہیں لے رہے ہیں۔جب انھیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ وہ ’برائے فروخت‘ ہیں، جیساکہ نام نہاد ’نیلامی ایپ‘ میں دکھایا گیا ہے تو بہت سی مسلمان خواتین نے خوف زدہ ہونے اور دھمکیوں میں آنے سے انکارکردیا ہے۔ انھوں نے حکام پر دبائو بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج کروائی ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ دار افراد کو پکڑا جائے اور انھیں سزا دی جائے۔

اسی دوران مسلمان صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی ایک نئی ٹیم ملک بھر میں اسلاموفوبیا حملوں اورواقعات کے اعداد و شمار اکٹھے کررہی ہے اور سرکاری اداروں سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حال ہی میں ہردوار سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جو کال دی گئی ہے اس کے ذمہ دار سزا سے بچ نہ سکیں۔

بھارت میں بی جے پی کے اکثریتی تشدد کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور اسے مزید بڑھنا ہے۔  مذہبی اقلیتیں اس کے خلاف آواز اُٹھارہی ہیں اس لیے کہ ان کے لیے اب خاموش رہنے کا کوئی موقع نہیں۔

بھارتی مذہبی اقلیتوں اور ان کے اتحادیوں کی اسلام مخالف اور عیسائی مخالف حملوں کے خلاف توجہ دلانے کی کوششیں اکثریتی تشدد کی لہر کو کم کرنے میں مددگارہوں گی۔ لیکن بھارت اس بحران سے نہیں نکل سکتا۔بین الاقوامی برادری کو ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہراساں کرنے اور نسل کشی کی دھمکیوں کے خلاف ایک موقف اپنانا چاہیے۔

اگر ہم ماضی کے ظلم و سفاکیت کے واقعات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بین الاقوامی برادری کی مظلوم اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد پر خاموشی نے نسل کشی کے لیے راہ ہموار کی۔ آج بہت سی وہ طاقتور اور ’جمہوریت پسند‘ قومیں جو دُنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے نمایندگی کرتی ہیں وہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کی مذمت کرنے سے پرہیز کررہی ہیں کیونکہ وہ بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اسٹرے ٹیجک اتحادی سمجھتی ہیں، یا ایک اہم تجارتی منڈی کہ جس پر وہ اظہارِ ناراضی نہیں کرسکتے۔

لیکن اگر دنیا کی جمہوریت پسند قومیں خاموش رہیں گی اور بھارت کو اس راستے پر چلنے کی اجازت دیں گی، تو بھارت جلدخانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، اور خانہ جنگی سے دوچار بھارت دوسرے ممالک کی مصنوعات نہ خرید سکے گا۔ اس سے  خطے کے تمام ممالک اور دُنیابھر کے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس طرح اقلیتوں کے مابین تشدد دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ یہ ہولناک منظرنامہ ناگزیر ہے۔

ماضی میں بھارت میں مختلف مذہبی قومیتیں پُرامن طریقے سے رہتی رہی ہیں اور ایسا دوبارہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مگر مسلمان اورعیسائی اکثریتی تشدد کا سامنا کررہے ہیں، جس کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس چیز کا مقابلہ اتحاد، شعور اور مسلسل جدوجہد سے ممکن ہے۔ اسی طرح جمہوریت پسند عناصر اپنے ملک میں اس جذبے کے تحفظ کے لیے یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔(الجزیرہ، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء)