ریاست کی اولین ذمہ داریوں میںسے ایک اہم ذمہ داری افراد کا تحفظ ا ور ا ن کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، جس کے لیے افراد کے بنیادی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یہ قوانین معاشرے میں افرادکے اعمال کو منضبط کرتے ہیں۔
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔اس کے کسی بھی فرد کے حقوق و فرائض میں کمی بیشی معاشرے کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ کسی ایک کے بے جا مضبوط ہونے سے دوسرے دو ستون کمزور ہو جاتے ہیں، یا یوں کہیں کہ کسی ایک کے حقوق کی زیادتی دوسری دو اکائیوں کے حقوق کی پامالی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔اگر مرد کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے یا اسے بے حد مضبوط بنا دیا جائے تو وہ عورت کے حقوق اور اولاد کے حقوق کی پامالی کا موجب بنتا ہے ۔ اسی طرح اگر عورت کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔ جیساکہ مغرب میں اس قسم کی قانون سازی کے نتیجے میں خاندان ہی انتشار سے دوچار ہوگیا ہے، اور عائلی زندگی عذاب بن گئی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں گھر ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،جس میں افراد کے درمیان تعلقات کا خوش گوار ہونا معاشرے کے عمومی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے دین میں گھر کے اندر اس کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے حقوق و فرائض کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ نکاح کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کے اس بنیادی یونٹ کو مستحکم بنانے کے لیے ان کی ذمہ داریوں کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ طے کر دیا گیا ہے۔ اگراس میں کوئی ایک فریق اپنے دائرہ کار سے بڑھ کر دوسرے فریق کے دائرے میں مداخلت کرتا ہے یا دوسرے فریق کو فرائض کی ادایگی کے لیے جبراً دبائو ڈالتا ہے، تو اس صورت میں تشدد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستانی نمایندگان پارلیمنٹ نے اس بات کو محسوس کیا کہ وہ خواتین جو گھروں کے اندر تشددکا شکار ہیں،ان کے تحفظ کے لیے بھی قوانین مرتب کیے جائیں۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں مسلسل گھریلو تشددکے خاتمے کے لیے بل پیش کیے گئے ہیں،جن کو مارچ ۲۰۱۲میں قومی اسمبلی نے بالآخر پاس کیا ،جس کی بہت سی شقیں توجہ طلب ہیں۔
ان میں پیش آنے والے اختلافات اور زیادتیوں کو نہایت باریکی کے ساتھ قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔یہ ایک طویل اور مفصل قانون ہے جس کی ابتدا ہی میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس کو اردو اور دیگر مقامی زبانو ں میں وسیع پیمانے پر مشتہر کیا جائے گا ۔اس قانون کو جو چیز دوسرے عام قوانین سے برتر بنا رہی ہے، وہ اس کا دائرہ کار اور وسعت ہے ۔ہمارے ملک میں بنے ہوئے بہت سے اہم قوانین کو بھی یہ اہمیت نہیں دی گئی کہ انھیں عوامی سطح پر آگاہی دینے کے لائق سمجھا گیا ہو۔
اس قانون کی بہت اہم بات یہ ہے کہ اس کو National Commission On Status Of Women (NCSW) کے تحت کر دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً قوانین پر نظرثانی، ترامیم، جائزہ اور تحقیق کرتا رہے گا ۔اس وجہ سے اس قانون میں وقتاً فوقتاً وسعت پذیری کی گنجایش ہمیشہ موجود رہے گی۔نیزNCSW تشدد کے واقعات کی شکایات وصول کر سکتا ہے اور خصوصی اختیار (suo-moto)کی بنا پر اقدام اُٹھا سکتا ہے۔ اس بل کی شق نمبر ۴ گھریلو تشدد کی وضاحت کرتی ہے۔ جس میں مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۰۷ (PPC) کی بہت سی شقوں کا اطلاق گھریلو تعلقات پر کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ بل قانون نہیں بھی بنتا، تب بھی گھر میں ہونے والے تشدد یا جرائم کو تعزیراتِ پاکستان کے زمرے میں لا کر شکایت درج کرائی جا سکتی ہے،جب کہ اس کے ذریعے گھریلو نا چاقیاں جرائم کے زمرے میں آئیں گی۔
شق ۴ میں ق k (۱) اور (۱۱) ہر اس عمل کو باعثِ تکلیف قرار دے رہا ہے جو کسی شخص کی خواہشات کے حصول میں رکاوٹ ہو ۔کوئی ایسا فرد جو اس کی نگرانی اس کی مرضی کے بغیر کر رہا ہے اس کو بھی تکلیف دہ امر کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح معاشرہ بالکل مغربی طرز پر استوار ہو جائے گا جہاں باپ ، بھائی ، بیٹا ،شوہر یا کوئی اور خاندان کا ذمہ دار نگرانی یا نگہبانی کے فرائض انجام دے تو اس کے اس عمل کو بے جا مداخلت اور باعثِ تکلیف امر قرار دیا جائے گا ۔ مثلاً: اگر کسی کی بہن بے راہ روی کا شکار ہے اور کسی غلط راہ پر چل رہی ہے اور گھر سے باہر کسی نا محرم سے مل رہی ہے اور باپ یا بھائی اس کو روکنا چاہ رہے ہیں، تو یہ بھی جرم بن جا ئے گا ۔
کوئی خاتون غیر اخلاقی، غیر مذہبی ،غیر شرعی فعل کی مرتکب ہو رہی ہو، یا ایسے افراد کے ساتھ میل جول یا روابط قائم کر رہی ہے جو اس کے لیے گمراہ کن ہو، ایسی صورت میں بھی گھر کے سرپرست افراد کی طرف سے کیے گئے افعال کو قانونی گرفت میں لایا جا سکے گا۔
شق ۴ مزید یہ وضاحت کرتی ہے کہ ہر وہ عمل تشدد کے زمرے میں آئے گا جو ارادی طور پر کیا جائے ۔اس میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ گھریلو تشدد کا شکار وہ خواتین ہیں، جن کے گھر کے مرد یا سرپرست کسی بھی طرح کے نشے کے عادی ہیں ۔لیکن یہ بل ایسے تمام افراد کو جو نشے کا شکار ہیں اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ اس شق کی وجہ سے گھریلو ملازمین جن میں خواتین کی اکثریت پائی جاتی ہے، یا جن کے شوہر نشے کے عادی ہیں، یا وہ ملازم جو زمین داروں، وڈیروں، جاگیر داروں کے زیر دست ہیں ان پر کیے گئے تشدد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جس سے ایک بڑا طبقہ انصاف کی فراہمی سے محروم رہ جائے گا ۔ زیادتی کا شکار فرد کہیں سے معاشی فائدہ حاصل کر سکتا ہو ، تو اس کی راہ میں رکاوٹ بننا معاشی استحصال کے زمرے میں آئے گا۔ اگر کوئی خاتون ایسی جگہ پر نوکری یا کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنا چاہ رہی ہو جو ہماری مذہبی یا معاشرتی اقدار کے منافی ہو، تو اس کے گھر کے افراد اس کو اس عمل سے روکنے کے مجاز نہیں رہیںگے کیونکہ یہ قانون ان کے آڑے آئے گا۔ تضحیک ،جسمانی تکلیف کی دھمکی کو بھی قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔ اصلاح کے لیے تین اقدامات عموماً اپنائے جاتے ہیں: نصیحت ، سرزنش اور سزا ،لیکن یہاں ان تمام اقدامات کو انجام دینے سے روکا گیا ہے ۔
شق ۵ کہتی ہے کہ ’’گھریلو تشدد کی شکایات سیدھی کورٹ میں جمع کرائی جائیںگی، جو متاثرہ شخص خودیا تحریراً کسی کو یہ اختیار دے کر عدالت میں جمع کرا سکتا ہے‘‘ ۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانگی تشدد کا شکار ایک کثیر طبقہ جو کہ دیہی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور نا خواندہ ہے، کیا وہ کسی کو تحریراً یہ اختیار دے سکتا ہے؟ خود کورٹ تک رسائی اس کے لیے ایک طویل اور وقت طلب عمل نہیں؟ اس صورت حال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سے استفادہ محض بڑے شہروں میں رہنے والی ملازمت پیشہ خواتین ہی کر سکتی ہیں ۔ ناخواندہ عورت اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ دوسرا یہ کہ گھریلو تشدد کی شکایت سیدھی کورٹ میں درج ہو تو آیا یہ عمل معاملے کو سلجھانے کا باعث بنے گا یا اس کے نتیجے میں رشتوں کا خاتمہ ہوگا؟
اس کے ذریعے سے گھریلو تنازعات کو بالکل فوجداری مقدمات کی طرز پر پولیس اور تھانے دار کو شامل کرکے نبٹایا جائے گا ۔جج اس درخواست کی تصدیق کے لیے تھانے دار کو طلب کرے گا اور تھانے دار اپنے ضابطۂ پولیس کے طریقۂ کار کے مطابق رپورٹ تیار کرے گا۔ہم سب پولیس کے طریقۂ کار سے بخوبی واقف ہیں، اور ہم اپنے معاشرتی رویوں سے بھی آگاہ ہیں کہ کسی گھر میں پولیس کا آنا کس قدر باعثِ ندامت ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ یہ تصدیق یا رپورٹ ایک چالان پیش کرنے کے ہم معنی ہے، اور چالان اکثر طے شدہ وقت میں پیش نہیں کیا جاتا، جس سے وقت کا ضیاع ہو گااور عملاً معاملہ ۳۰ دن میں نہیں نمٹایا جاسکتا ۔
اس قانون میں زیادہ تر داد رسی شوہر کی مخالفت میں بیوی کو دی جا رہی ہے، جب کہ گھریلو ملازمین کی دادرسی بہت محدود ہے ۔ سول عدالتوں کے متوازی فوجداری عدالتوں کے ذریعے گھریلو تنازعات کو طے کیا جا رہا ہے۔ سول عدالتوں میں تنازعے کو لے جانے کے بعد صلح کے امکانات رہتے ہیں، جب کہ فوجداری عدالتوں میں دشمنی اور عناد کے پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
شق ۹ میںجرم کے مداوے کے لیے اگر عدالت جرمانے کا حکم دے اور مدعی علیہ اس کو اداکرنے سے قاصر رہے تو عدالت اس کو یہ جرمانہ عدالت میں جمع کروا نے کا حکم دے سکتی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سول عدالتوں کے تحت فیملی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں جب مرد معاشی داد رسی سے فرار اختیار کرتے ہیں تو اس کے لیے ایک اور درخواست دینا پڑتی ہے۔ یہ چیز سالہاسال سے اصلاح طلب ہے۔ اس پر قانون سازی کے لیے توجہ نہیں دی جاتی لیکن اس قانون میں پہلے ہی مرحلے پر بغیر درخواست دیے مدعی کی داد رسی ہوتی نظر آرہی ہے۔
شق ۱۱ میں صرف حلف نامے کی بنیاد پر کوئی بھی شکایت کنندہ درمیانی مدت کا حکم نامہ، عدالت سے جاری کروا سکتا ہے۔
شق ۱۲ کے ضمنی جزو ’الف‘ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ شخص جب تک چاہے گا تب تک کورٹ کے آرڈر کا اطلاق رہے گا، یعنی جب تک کہ متاثرہ شخص اپنی درخواست واپس نہ لے لے یا مطمئن نہ ہوجائے کورٹ کیس کو ختم نہیںکر سکتی۔ ایسا دوسرے کسی قانون میں نہیں ہے ۔اس سے دشمنیاں تواتر سے جاری رہنے کا خدشہ ہے ۔گویا اب عدالت متاثرہ شخص کی صوابدید پر چلے گی۔
شق ۱۲ کے ضمنی جز ’۴‘ کے مطابق اس ضمن میں Res-judicata (یعنی کوئی ایسا مقدمہ جس میں فیصلہ دیا جا چکا ہو،وجہ مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ ایک جیسے ہوں اور فیصلہ بھی ہو چکا ہو، اس پر دوبارہ اسی وجہ مقدمہ پر مدعی یا مدعا علیہ مقد مہ دائر نہیں کر سکتے ) کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک شکایت کے لیے بار بار عدالت میں دعو یٰ دائر کیا جا سکے گا۔
شق ۱۶ میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۱ کے تحت کمیٹی ممبران کو وسیع ترین اختیارات تفویض کیے گئے جو کسی طور خانگی زندگی میں مداخلت کے لیے مناسب نہیں ۔
اس قانون کے تحت سب سے پہلے معاشرے کی نچلی سطح پر ’خدمات بہم پہنچانے والوں‘ (service provider)بالفاظ دیگر این جی اوز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے اوپر حفاظتی کمیٹی، اور جس سے بالا عدالتیں اپنے امور انجام دیں گی۔’خدمات بہم پہنچانے‘ والے تمام تر شکایات کو مذکورہ ’حفاظتی کمیٹیوں‘ کو رپورٹ کریں گے ، اور یہ ’حفاظتی کمیٹیاں‘ متاثرین میں جانے کا ذریعہ بنیں گی۔
شق ۲۳ میں ’خدمات بہم پہنچانے والے‘ اور ’حفاظت فراہم کرنے والے افسر‘ (Protection Officer) اور ’حفاظتی کمیٹی‘ (پروٹیکشن کمیٹی) سب کو عدالتی نظر ثانی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کے تحت ان کے فیصلوں کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔
۱- اس میں بیش تر مذکور جرائم جوکہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں، اس بل کے ذریعے ان کا اطلاق خانگی تعلقات پر کر دیا گیا ہے ،جن میں نرمی اور خاندانی تعلقا ت کا لحاظ لازماً رکھنا چاہیے تھا۔
۲- شق ۴ میں مذکور گھریلو تشدد کا تعین کر تے ہوئے تشدد کا شکا ر خاتون کی اخلاقی صورت حال کو ضرور دیکھا جائے، اور اگر خاتون کا فعل معاشرتی ،اخلاقی اور مذہبی اقدار کے منافی ہو، تو اس میں مداخلت اور روک تھام کو تشدد کی صورت حال سے خارج کر نا چاہیے ۔
۳-گھریلو تنازعات میں پولیس کے کردار کو شامل کر نے سے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہوتانظرآرہاہے ۔
۴- ہمارے معاشرے کے وہ خاندان جن کے سربراہ منشیات یا شراب نوشی کے عادی ہیں، وہ بھی اس زمرے میں شامل کیے جائیں۔ یہ حضرات چونکہ سب سے زیادہ تشدد برتتے ہیں، لہٰذا ان کو اس بل کی گرفت میں لایا جائے جو کہ نہیں کیا گیا ۔
۵- ایجنسیوں کی اصلاح اور قوانین کی عمل دار ی کو یقینی بنایا جائے۔
۶- مصالحتی کمیٹی کا کردار عدالت میں آنے کے بعد ہے۔ اس کو اگر ’حفاظتی کمیٹی‘ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو گھریلو تنازعات عدالت میں جانے سے پہلے حل کیے جاسکیں گے۔
۷- ’حفاظتی کمیٹی‘ میں ’حفاظتی افسر‘ کی تعلیمی استعداد اور صلاحیت اس میں مذکور نہیں ہے، جب کہ اس کے اختیارات بے حد وسیع ہیں، اور اس کو سرکاری افسر کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
۸- ’حفاظتی کمیٹی‘ بنانے سے پہلے ملکی سطح پر بے شمار ’تھانے دار خواتین‘ کی تعیناتی کرنی پڑے گی۔ ہر تحصیل میں خواتین تھانے کا قیام لازمی ہوگا ،جس سے پہلے پولیس کے نظام کی اصلاح از حد ضروری ہے ۔
۹- ’حفاظتی کمیٹی‘ میںوہ علاقہ کہ جہاں ایسا کوئی افسوس ناک وقوعہ ہو ا ہوگا، اس کے معزز افراد اور خاندان کے بزرگو ں کی شمولیت ضروری ہونی چاہیے۔
۱۰- ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ کے اختیارات بے حد وسیع ہیں،ان کو محدود ہونا چاہیے۔
۱۱-اس قانون کے تحت مدعی (عورت) کے کردار کو یا اس کی شکایت کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقۂ کار واضح نہیں بلکہ اس کو یکسر نظرانداز کیاگیا ہے ۔
۱۲- شق ۲۳ ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ اور ’حفاظتی کمیٹیوں‘ اور ’حفاظتی افسر‘ کو ان کے فیصلوں پر نظرثانی کا دیا گیا تحفظ غیر ضروری ہے۔ یہ تحفظ وزارتوں اور انتظامی اداروں کے لیے مخصوص ہے۔
۱۳- جھوٹی درخواست ثابت ہونے پر جرمانہ آدھا ہے، جب کہ اسے دوگنا ہونا چاہیے۔
یہ قانون چونکہ ہماری معاشرتی اور مذہبی روایات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا، اس لیے یہ ہمارے جذبات کی عکاسی کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خانگی زندگی میں انتشار، خاندانی نظام میں کمزوری اور عدم برداشت میں اضافہ ہوگا۔ اسلام نے خواتین کے تحفظ اور پُرسکون عائلی زندگی کے لیے حقوق و فرائض کا تعین کرکے متوازن طرزِ زندگی کی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ بل ہمارے معاشرے کو بتدریج مغربی طرز پر استوار کرنے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب سے متاثر ہوکر قانون سازی گھریلو تشدد کے خاتمے کے بجاے خاندانی انتشار کا باعث ہوگی!