سلمان عابد


پاکستان میں لوگوں کے مجموعی مزاج اور ان کی نفسیاتی کیفیت کا جائزہ لیں تو لوگ   موجود سیاسی نظام، اورسیاسی قائدین سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ سیاست دانوں اور عوام میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اس کیفیت نے بہتر سیاسی تبدیلی کے ایجنڈے کے مقابلے میں   ان قوتوں اور عناصر کو زیادہ مستحکم کیا ہے جو ملک میں جمہوریت کی بجاے ایک ایسے نظام کو مسلط کرنا چاہتے ہیں یا اسے تقویت دینا چاہتے ہیںجو غیر جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خواہشات کے بھی بالکل برعکس ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ملک میں ہمہ گیر سیاسی مایوسی کی اس بحث میں لوگ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر تو ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیںلیکن کہیں بھی اپنی اجتماعی خامیوں اور غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔

موجودہ سیاسی نظام میں آمرانہ طرزِعمل، فردِ واحد کی حکمرانی، کرپشن اور بدعنوانی، کمزور سیاسی جماعتیں اور ان کا غیر جمہوری طرزِ عمل، روپے پیسے کی سیاست اور اخلاقیات سے عاری سیاست سمیت موروثی سیاست کا مضبوط تصور موجودہے۔ اس کا ذمہ دار کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ ان خرابیوں میںجہاں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا عمل دخل ہے وہیں سیاسی کارکنان بھی اس صورت حال سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جو آمرانہ رویے جنم لیتے ہیں وہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی اشرافیہ کی کمزور مزاحمت اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم سیاسی عمل میں شخصیت پرستی کے قائل نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجاے کسی ایک فرد کی حکمرانی میں    پیش پیش ہوتے ہیں اور اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کو مضبوط بناتے ہیں۔

دراصل جب سیاسی محاذ پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے اور سیاسی قیادتیں اپنے کارکنوں کو یہ باور کرواتی ہیں کہ وہی جمہوریت کے لیے لازم ملزوم ہیں اور ان کے بغیر جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ سکتا تو خرابی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کو بنیاد بنانے کی بجاے ایک فرد کو بنیاد بناکر سیاسی جدوجہد کرتے ہیں جو عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کو کمزور کرکے فرد واحد کو مضبوط بناتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آمریت یا آمرانہ طرز عمل کا تعلق محض فوجی حکمرانی سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی جھلک ہم سول قیادتوں اور نام نہاد جمہوری نظام کے اندر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آج کی ہماری صورت حال واضح طور پر ہمیں باور کروارہی ہے کہ ہم جمہوری عمل کے اندر کہاں کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور کارکن بڑے زوردار انداز میں جمہوریت اور سماجی و قانونی انصاف کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں اور اس میں کسی حد تک بعض جماعتوں کے حوالے سے صداقت بھی ہے، لیکن اپنی اپنی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت اور قیادتوں کے آمرانہ طرز عمل پر یا توہمارا سیاسی شعور بہت کمزور ہوتا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ہمارا کس انداز میں سیاسی استحصال کرتی ہیںیا ہماری خاموشی اور کمزور مزاحمت کے پیچھے بہت سی مصلحتوں کی سیاست کارفرما ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری طرزِعمل پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن موروثی سیاست کا جو بحران اب سامنے آیا ہے وہ ایک خطرناک سیاسی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں    بے نظیر بھٹو کی موت کے سانحے کے بعد قیادت کے لیے بلاول بھٹو کی حمایت میں وصیت کا سامنے آنا، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق)میں نواز شریف اورچودھری خاندان کی اجارہ داری اور  اب اپنے بچوں کو سینیر لوگوں کی موجودگی میں قیادت کے طور پر پیش کرنا، اے این پی میں خان عبدالغفار خان سے لے کر سرحد کے وزیر اعلیٰ تک، قوم پرستوں کی جماعتوں سمیت سب میں خاندان کی اجارہ داری کا تصور مضبوط عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موروثی سیاست کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ دولت کا سیاست میں عمل دخل بھی ہے اور اس عمل کے ساتھ ان لوگوں کا سیاسی کارکنوں کے معاملے میں تعلق، ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس عمل نے لوگوں میں اس مایوسی کو جنم دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ایسی تبدیلی میں سنجیدہ نہیں جس سے ان کی طاقت کے مقابلے میں سیاسی کارکنوں کی طاقت میں اضافہ ہو۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر ان کے مقابلے میں سیاسی جماعت مضبوط ہوگی تو وہ عملی طور پر کمزور ہوں گے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو بالادست رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی کمزوری کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر تبدیلی اور معاشرے میں اس کا نتیجہ نظر نہ آنے کی وجہ ایک جاگیردارانہ سوچ، قبائلی طرزِ سیاست، برادری کی سیاست کو مضبوط بنا کر پیش کرنے کے عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے اس صورت حال کو تبدیل کیے بغیر یہ سمجھ لینا کہ ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت پر گامزن ہوسکیں گی ایک مشکل عمل   نظر آتا ہے۔ لوگ آمریت کے خلاف تو بات کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اس قبائلی سرداری سیاست، برادری، دولت اور شخصیت پرستی کی سیاست کو چیلنج نہیں کرتے۔ یہ طرزِ عمل، عملی طور پر ہمیں اور ہماری سیاست کو کمزور کرکے ایک آمرانہ مزاج اور فردِ واحد کی سیاست کو تقویت دیتے ہوئے عام آدمی کو سیاست سے دُور کردیتا ہے اور اس کے ذمہ دار ایک سطح پر ہم بھی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر وہ لوگ جوسیاست میں بہتر تبدیلی کے خواہش مند ہیں، وہ اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کریں؟ اسی طرح سیاسی کارکنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود قیادت کی اس آمریت کا مقابلہ کرکے جمہوری سوچ اور قدروں کو بحال کرسکیں گے؟

یقینا صورت حال سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سمیت سیاسی سطح پر کافی مخدوش ہے لیکن ایسی مایوسی کی بات بھی نہیں۔ یہ سوچ کہ ان برے حالات میں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا، ایک مایوسی کی کیفیت ہے اور ہمیں اس سے باہر نکل کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ مایوسی کی یہ کیفیت ایک طرف لوگوں کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے عملی مزاحمت سے روکتی ہے تو دوسری طرف ان بالادست طبقوں کو جنھوں نے سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے ان کو مضبوط بناتی ہے۔ لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا ان بالادست طبقوں کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور ہمیں اس حکمت عملی کے مقابلے میںاپنے مفادات پرمبنی سیاسی حکمت عملی کو وضع کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے اندر موجود ان مختلف سیاسی، سماجی و شخصی تضادات کو ختم کرنا ہوگا جو ہماری بربادی اور تباہی کے اصل محرکات ہیں۔ ہمیں ضرور اپنی موجودہ سیاسی قیادتوں سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں بھی کھول کر رکھنی ہوں گی کہ وہ ان کے مقابلے میں کس کی سیاست کررہے ہیں۔ یہ سیاسی کارکنوں کا ہی فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اندرونی جمہوریت کے مسائل کے حل کے لیے اصولی موقف کو اپنانے پر زور دیں۔ سیاسی جماعت کے دستور، منشور، پروگرام اور جمہوری روایات کے فروغ کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا اور مؤثر دبائو کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں بھی جمہوری طرز عمل اختیار کریں۔ سیاسی قیادتوں کی یہ سوچ کہ ہمارے بغیر جمہوریت نہیں چل سکے گی، ایک آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سوچ کو بدلنے اور اصولی سیاست کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔

ہندستان میں بی جے پی کی سطح پر پچھلی دو دہائیوں میں قیادت پر کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن ان کی جماعت کا جمہوری عمل ایک تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی سطح پر جمہوری انتخابی عمل موجود ہے اور قیادت یہاں موروثی کے مقابلے میں ایک جمہوری طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے ۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں کی سطح پر ان کی سیاسی تعلیم جو سیاسی جماعتوں کے اندر عملاًً نہ ہونے برابر ہے، اسے سامنے لانا ہوگا تاکہ انھیں معلوم ہو کہ سیاست اور اس کے مسائل کے ساتھ بطور سیاسی کارکن ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن عملاً ایک پریشر گروپ کا بھی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ کردار محض ان کی جماعتوں کی سیاست کے باہر تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع ہو نا چاہیے اور اندرونی سطح پر ہونے والے غلط فیصلوں پر انھیں مزاحمتی عمل کو مضبوط بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کے مقابلے میں نامزدگی اور بلامقابلہ انتخاب کا رجحان ایک خطرناک عمل ہے اور اس کو روکنا چاہیے وگرنہ قیادتیں اپنی مرضی کے مطابق مخصوص خاندانی لوگوں اور دوستوں کو اہم عہدے نوازتی رہیں گی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں کی طرح اہم عہدوں پر قیادت کی نامزدگی کے عمل کو عوامی انتخاب سے قبل اپنی سیاسی جماعتوں کے اندرانتخابی عمل سے گزاریں، اور یہ فیصلہ کہ سیاسی جماعت کے اندر کون ان کی قیادت کا اہل ہوگا وہ کسی فرد واحد کی بجاے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے فیصلے سے مشروط ہو۔

یہ سمجھنا کہ یہ سب کام بغیر کسی سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کے ممکن ہوجائے گاتو ایسا نہیں ہوگا ۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود سیاسی اشرافیہ اور سول سوسائٹی کونہ صرف موجودہ سیاسی قیادتوں کے آمرانہ طرزِ عمل کے خلاف مضبوط آواز اٹھانی ہوگی بلکہ اپنی طاقت سیاسی قیادتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجاے سیاسی کارکنوں کے ساتھ اپنے آپ کو کھڑا کرنا ہوگا۔ یہ عمل سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکن کی بھی طاقت کو مضبوط  بناتے ہوئے ملک کی سیاست میں ایک نئے کلچر کو متعارف کروائے گا۔ اس عمل سے سیاسی کارکن مستقبل کی سیاست میںایک نئی طاقت بن کر سیاسی عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کی جماعت میں سیاسی کارکن کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں تو وہ اس پر خاموش رہنے کی بجاے آواز اٹھائیں ورنہ جو کچھ آج    ان کے سامنے ہورہا ہے وہ کل کسی اور کے سامنے ان کے ساتھ بھی ہورہا ہوگا۔

جب ہم سیاسی جماعتوں کی قیادتوں، کارکنوں اور ان کی اندرونی جمہوریت کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا براہ راست تعلق ملک کی جمہوریت اور اس کے سیاسی نظام کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس ہونے کی بجاے اپنی طاقت کو نئے سرے سے منظم کرکے معاشرے کے اندر موجود اس سیاسی کلچر کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی جو عملاً ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرتا ہے۔ اگر سیاسی قیادتیں اور دیگر بالادست گروپ اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کو نہ صرف تقویت دیتے ہیں بلکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سیاسی استحصال کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ سیاسی کارکن اپنی طاقت کو منظم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت ملک میں سیاسی نظام کی مضبوطی کے لیے پہلی سیڑھی ہے اور اس کو بنیاد بناکر ہم ملک کو ایک جمہوری، فلاحی اور اسلامی معاشرے میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہمیں اس ایجنڈے کو بنیاد بناکر اپنی سیاسی جدوجہد کو بہتر سمت دیتے ہوئے تیز کرنا ہوگا تاکہ لوگوں میں تبدیلی کے تناظر میں موجود مایوسی کی کیفیت کو ختم کیا جاسکے۔

ریاست، حکومت اور بالائی طبقات جن کے ہاتھوں میں تمام فیصلے، وسائل اور طاقت ہے اور جو ہر وقت عوام کی خدمت کے نام کی سیاست کرتے ہیں، عملاً عوامی اعتماد سے بے وفائی کا شکار ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کی سیاست کے مقابلے میں ان کے اور بالخصوص کمزور طبقات کی سیاست کرتے ہیں۔ قومی بحران کی  یہ ایک بڑی جڑ ہے۔

سوال یہ ہے کہ لوگوں کے روزمرہ اہم مسائل کیا ہیں؟ انسانی ضروریات کی ایک طویل فہرست ہے او رجس انداز میں انسان آگے بڑھتا ہے، اس کی ضروریات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔عوامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں ان بنیادی ضروریات کا خیال کرنا ہوتا ہے جو لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے درکار ہوتی ہیں او راس کی براہ راست ذمہ داری ریاست ریاستی اداروں اور حکومت کی ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کی ریاست و حکومت سے کیا توقعات ہوتی ہیں؟ اس کا جواب بڑا سادہ اور واضح ہے، یعنی اس میں سستی تعلیم، صحت، روزگار، انصاف کی فراہمی، اداروں کی مضبوطی اور ان پر اعتماد کی بحالی، امن و امان، زندگی کا تحفظ، ڈر اور خوف کے بغیر ماحول، خوراک کی فراہمی، نقل و حمل کی سہولیات، آمدنی اور مہنگائی کے درمیان توازن جیسے موضوعات شامل ہیں۔عام آدمی ان تمام مسائل میں کوئی بہت زیادہ سہولتوں پر مبنی عیاشی نہیں چاہتا، بلکہ وہ ریاستی اداروں اور حکومت سے اس قدر توقع ضرور رکھتا ہے جو اسے باعزت اور پُروقار طریقے سے زندہ رہنے کا موقع فراہم کرسکے۔

ایک عام آدمی کو آج حکومت اور ریاست کے ساتھ جو چیلنج درپیش ہیں، وہ یہ ہیں:

اول: ہماری سیاست اور طرز حکمرانی عام لوگوں کے ساتھ بہت کم منسلک ہے۔

دوم: ریاست اور حکومت لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو فراہم کرنے کے حق سے دست بردار ہوتے ہوئے سماجی اور معاشی شعبوں میں وسیع پیمانے پر نج کاری کی پالیسی پر گامزن ہے۔

سوم: اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی اور بالادستی کو غلبہ حاصل ہورہا ہے جس سے لوگوں کی اداروں سے وابستہ امیدیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔

چہارم: معاشرے میں مجموعی طور پر اجتماعی سوچ اور امداد باہمی کے رویے کے مقابلے میں انفرادیت کی سوچ بڑھتی جارہی ہے۔

پنجم: سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی تحریک کے نتیجے میں ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ  نمود ونمایش اور غیرضروری آسایشوں اور خواہشات کو بڑی ضرورتیں بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے پورے معاشرے کے مجموعی مزاج میں کمرشلائزیشن کو فوقیت حاصل ہو رہی ہے۔

دراصل جب ریاست اور حکومت عوام کے بنیادی حقوق کے معاملات سے لاتعلق ہوکر انھیں تاجرانہ مزاج کے اداروں کے سہارے چھوڑ دیتی ہے تو اس سے معاشرے کے کمزور طبقات کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ تعلیم، صحت، روزگار، غربت، خوش حالی، انصاف، تحفظ،ماحولیات، نقل وحمل، پانی، سمیت بہت سے شعبوں میں عورتوں، مردوں اور بچوں کے صرف حکومتی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں جو مجموعی منظرنامہ اس ملک کا اور بالخصوص پس ماندہ علاقوںکا ملے گا، اس میں ایک بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق ملے گی۔  یہ تفریق عملاً آگے جاکر معاشرے کے اندر ایک بڑے سماجی انتشار کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہمیں اس وقت معاشرے کے اندر نظر آرہا ہے، اسے ایک سطح پر ریاست، حکومت اور سیاست کی ناکامی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور دیکھا جانا بھی چاہیے۔لیکن کیا سب کچھ ریاست اور حکومت کا کیا دھرا ہے، یا اس میں ہمارے سماجی ادارے اور عام آدمی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے؟کیونکہ  اب یہ ہمارے ہاں عملاً ایک فیشن بن گیا ہے کہ ہر ناکامی کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کے اداروں پر ڈالی جاتی ہے اور لوگ اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سے مسائل کے پیدا کرنے، یا اسے طول دینے میں خود لوگ بھی براہ راست شامل ہیں تو اکثر اہل دانش ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ لوگ اس سارے بحران کی ذمہ داری سے مبرا ہیں مگر یہ ایک کمزور دعویٰ ہے۔ آج ہم پر جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر جو قیادتیں مسلط ہیں اور جن کا کسی بھی سطح پر احتساب کا کوئی امکان نہیں، اس میں ایک ذمہ داری لوگوں کی بھی ہے جو قیادت کے احتساب کے عمل میں جانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بیش تر کارکنوں میںاب وہ دم خم نہیں کہ وہ اپنی قیادت کو جھنجھوڑ سکیں یا پھر وہ خود بھی ایسے کاموں میں شامل ہوگئے ہیں جو سیاسی کارکنوں کا خاصہ نہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل سکا، مگر بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ زندگی کے مجموعی تناظر کو دیکھیں تو بہت سے فیصلوں میں ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہوتے ہیں اور اس میں کسی حد تک ہماری رضامندی شامل ہوتی ہے۔اسی طرح ہم نے عالمی منڈی کی تحریک کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن کر ایک ایسے سماجی , سیاسی اور معاشی کلچر کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرلیا ہے، جو دراصل ہماری بنیادی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔ کفایت شعاری، سلیقہ مندی، سادگی، قناعت پسندی، اپنی ضرورت کے تحت آگے بڑھنا، اپنی حیثیت کے مطابق چلنے جیسے عوامل اب ہماری نجی اور خاندانی زندگیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ اپنے ملکی حالات کے مطابق ماڈل کو چھوڑ کر بیرونی ماڈل کو اپنی ضرورت بنالے تو مسائل ضرور سامنے آئیں گے۔ معاشرے میں عزت دار اور شریف و خوددار لوگوں کے مقابلے میں سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کو بالادستی حاصل ہوگی اور طاقت ہی کو اصل کامیابی سمجھا جائے گا۔

لوگوں میں موجود مایوسی کی ایک بڑی وجہ ان کے سامنے ریاست، حکومت اور اداروں کی جانب سے مختلف مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کسی مددگار نظم کا نہ ہونا یا ایک کمزور نظم کا ہونا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں میں ایک خاصیت تھی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کے کسی نہ کسی عملی کام میں پیش پیش ہوتے تھے۔لیکن اب یہ عمل محض حادثاتی بنیادوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس سے عام فرد کی زندگی کو مختلف مصائب کا سامنا ہے۔

یقینا کسی ایک طبقے کے بس میں نہیں کہ وہ موجودہ بحران حل کرسکے، کیونکہ اب یہ کام آسان نہیں رہا اور اس کے لیے مختلف طبقوں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری اور بہتر حکمت عملی ہی ہمیں ایک نئے سفر کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں مربوط حکمت عملی کے تحت عوامی سطح پر ایک نئی سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اس احساس کو اجاگر کیا جائے کہ ہم ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقوں کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں اور ہم اپنی قسمت اور اپنے مسائل کو خود بھی حل کرسکتے ہیں۔یہ نعرہ محض خواب نہیں کیونکہ ہمارا منظم نہ ہونا اور اپنے سیاسی و سماجی شعور کا بہتر ادراک نہ ہونا ہی ہماری بڑی کمزوری ہے۔ ہمیں اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو معاشرے کے بالادست طبقوں یا جن کے پاس فیصلوں کی طاقت ہے، ان پر منظم ہوکر دباو ڈالنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی، اور اپنی عوامی طاقت اور اجتماعیت کے پہلو کو مضبوط بناتے ہوئے ایک نئے سیاسی و سماجی سفر کا آغاز کرنا ہوگا، جو مشکل اور کٹھن ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ عوام الناس کی بہتری اور بھلائی چاہنے والے افراد، جماعتیں اور سماجی ادارے اگر لوگوں کی فکری وذہنی تربیت اور ان کے سیاسی و سماجی شعور کی بیداری میں آگے بڑھیں اور اپنے کام کو ایک نئی جہت دیں تو وہ ایک نئے کام کا آغاز کرسکتے ہیں۔

لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں بے بسی اور لاچارگی کو قسمت کا فیصلہ اور خدا کا حکم سمجھنا غلط سوچ کی عکاسی ہے۔ انھیں یہ باور کروانا ہوگا کہ معاشرے میں موجود خرابیاں انسان کی پیدا کردہ ہیں اور اسے انسان ہی خدا کی مدد کے ساتھ ساتھ اپنی بہترحکمت عملی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ختم کرسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے مسجدوں کو بنیاد بناکر ایک نئی سماجی تحریک کا آغاز کرسکتے ہیں۔ سرگرم لوگ اس تحریک کے نتیجے میں معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نمود نمایش اور بے جا اسراف، بے حیائی اور عریانیت پر مبنی کلچرکے خاتمے، معیار زندگی او ر رہن سہن، لین دین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں سادگی اور دیانت داری کے کلچر کو مضبوط بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔ لوگوں میں دولت کے حصول میں جو شدت آئی ہے اور ہر شخص اس کے حصول میں جائز و ناجائز سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے اور اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ دولت کہاں سے اور کس طریقے سے آرہی ہے۔ اس کھیل نے سب کو اس بیماری میں مبتلا کردیا ہے اور لوگ اپنی ضرورت سے بڑھ کر آگے جانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ایک بہتر سیاست بھی اسی صورت میں سامنے آئے گی جب ہم سماجی اور اخلاقی سطح پر ایک بہتر نظام رکھتے ہوں گے۔ بہتر سماجی و اخلاقی نظام ہی بہتر سیاسی نظام ہی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ محض دنیا پرستی کی دوڑ اور اس سے محبت ہماری زندگی کا حاصل نہیں، بلکہ ہمیں اس اصل سفر پر بھی توجہ دینی ہے جہاں بہرحال ہم سب کو جانا ہے۔ یہ راستہ ہم سے دنیا اور آخرت کے تناظر میں جو توقعات رکھتا ہے، انھیں پیش نظر رکھنا ہے۔ اس سارے عمل کے لیے ضروری ہے کہ قول و فعل میں تضاد سے مبرا رول ماڈل گلی محلے کی سطح پر قیادت کریں۔ وہ جو کچھ زبان سے بول رہے ہوں، اس پر نہ صرف وہ خود عمل کرتے ہوں بلکہ ان کا بہتر عمل لوگوں کو نظر بھی آنا چاہیے۔ ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو بتائے گاکہ یہ لوگ محض باتیں ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔

اصلاحِ احوال کی اس جدوجہد کا آغاز ہر فرد اپنی ذات، اپنے دائرہ کار اور حلقہ اثر سے کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے فرائض کی ادایگی اور معاشرے کی بہتری اور خرابی کو دُور کرنے کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے، لہٰذا تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیجیے۔ انفرادی اصلاح اور منظم جدوجہد کے ذریعے بتدریج اصلاح کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے بھی ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشرے کی بہتری اور سماجی بگاڑ کو روکنے  کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے انتظار میں بیٹھ رہنا چاہیے۔ اگر سماجی و سیاسی انتشار کو نہ روکا گیا تو معاشرتی بگاڑ کے نتیجے میں بالآخر قومی انحطاط اور زوال کا سامنا کرنا ہوگا۔ مسئلے کی نزاکت کا احساس کرنے اور اس جدوجہد کی ہمیں آج ضرورت ہے جو ہماری آج کی اس پریشان حال زندگی کو خوش حالی میں تبدیل کرسکے۔