مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۰۲

پاکستان کی تاریخ میں دو ہی بار پارلیمنٹ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اسے رمضان المبارک کے رحمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینے میں حلف لینے کی سعادت میسر آئی ہو۔ پہلی بار یہ مبارک گھڑی ۱۰ اگست ۱۹۴۷ء (۲۳ رمضان) کو میسر آئی تھی جب پہلی دستور ساز اسمبلی نے تحریک پاکستان کی سات سالہ جاں گسل جدوجہد اور بیش بہا قربانیوں کے بعد آزادی کی صبح صادق اور ایک نئے عہد کے آغاز کے موقع پر حلف لیا۔دوسری بار ۵۵ سال کے بعد حالیہ پارلیمنٹ نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء (۱۰ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ) کو حلف لے کر فوجی حکومت کے چوتھے صبرآزما دور سے نکلنے اور جمہوری اور دستوری نظام کی بحالی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم بڑھایا۔

ان دونوں مواقع پر صرف رمضان کی آغوش ہی قدر مشترک نہیں۔ تاریخ کا ہر طالب علم صاف محسوس کرے گا کہ جس طرح اگست ۱۹۴۷ء کی کامیابی ایک بڑی آزمایش اور امتحان تھی جسے قائداعظم نے ایک عظیم achievement and challenge (کارنامے اور چیلنج) کے الفاظ میں بیان کیا تھا‘ اسی طرح نومبر ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ کی بحالی بھی جہاں ایک کامیابی اور واضح پیش رفت ہے‘ وہیں اگر ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف ایک زریں موقع  (golden opportunity) ۔ ایک تاریخی چیلنج اور امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم اس موقع پر  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ضروری سمجھتے ہیں کہ پوری قوم کو امتحان اور آزمایش کے پہلو پر غوروفکر کی دعوت دیں اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف‘ پارلیمنٹ کے ارکان اور پوری سیاسی قیادت کو اس طرف متوجہ کریں کہ ہم سب تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ماضی کے ۵۵ سال گواہ ہیں کہ پہلی دستورساز اسمبلی اور قائداعظم اور قائدملت کے بعد زمامِ کار سنبھالنے والی قیادت نے ملک و ملت کو مایوس کیا‘ مسلمانان پاک و ہند کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی کی اور اپنے ذاتی‘ گروہی‘ علاقائی اور حزبی مفادات کی خاطر دورحاضر کے پہلے آزاد مسلمان ملک کو اس کے تاریخی کردار سے محروم کر کے اس مقام پر پہنچا دیا کہ دشمن اسے خاکم بدہن ایک ’’ناکام ملک‘‘ کہنے لگے۔

آج قوم کو پھرایک نیا موقع ملا ہے۔ ہمارے سامنے سیاسی قیادتوں اور فوجی قیادتوں کے زمانی اعتبار سے تقریباً برابر برابر کے دو ناکام دور (۲۷ سالہ فوجی اقتدار اور ۲۸ سالہ سیاسی دور) ہیں اور ملک کے دولخت ہونے اور ایک بار پھر معاشی اور سیاسی اعتبار سے سامراجی قوتوں کی کھلی اور چھپی گرفت میں آجانے کے سانحات بھی۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں قوم نے ایک بار پھر ایک سیاسی قیادت کو اُبھارا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری نئی سیاسی قیادت اور اس کے تمام عناصر ترکیبی (صدر‘ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں) کی ہے کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالے اور اسلام‘ جمہوریت اور دستوری نظام حکومت کی شاہراہ کی طرف گامزن کرے تاکہ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد حاصل ہو سکیں اور عوام ایک حقیقی اسلامی‘ شورائی اور عادلانہ نظام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔

رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی مناسبت سے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے الفاظ میں مغفرت کا عشرہ ہے‘ ہم سب سے پہلے خود اپنے کو‘ ملک کی سیاسی قیادت کو‘ اور پوری قوم کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض منصبی استخلاف ہے (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط  البقرہ ۲:۳۰) اور اس استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے مالک نے  عبادات کے پورے نظام کا اہتمام کیا تاکہ اللہ کا ذکر اور اس کی قربت حاصل ہو‘ ضبط نفس اور تقویٰ میسر آئے۔ رب کی ہدایت کا امین بنا جا سکے‘ اس کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کے طریقے کو رائج کرنے کے لیے جہاد کیا جا سکے اور بالآخر اس کا دین غالب اور حکمران بن سکے تاکہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو جائے اور بندہ اپنے رب اور اس کی جنت کی طرف راہی سفر ہو سکے۔ رمضان کا خصوصی تعلق زندگی اور جدوجہد کے ان سب ہی پہلوئوں سے ہے اور قرآن نے بڑے بلیغ اشاروں میں ان کی نشان دہی کی ہے۔ یہ عبادت تم کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ - البقرہ ۲:۱۸۳)۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں (الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ …… وَالْفُرْقَانِ - البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o  البقرہ ۲:۱۸۵)۔ تقویٰ‘ ہدایت‘ فرقان‘ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار اور شکر یہی وہ پانچ چیزیں ہیں جو رمضان المبارک کا اصل پیغام اور ہدف ہیں۔ رمضان المبارک میں پارلیمنٹ کے حلف میں یہ رمزیت مضمر ہے کہ آج قوم کو اور اس کی قیادت کو انھی صفات اور اہداف کی ضرورت ہے اور انھی کے سہارے آگے کے مراحل کو طے کیا جا سکتا ہے۔

اصل چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی

اس بات کو سمجھنے اور اس کا شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک و ملت کے سامنے اصل چیلنج کیا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کس نوعیت کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے ۵۵ برسوں کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور اس وقت جس صورت حال میں ہم گرفتار ہیں اس کا صحیح صحیح تعین کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ سول حکمرانی کے دور میں جمہوریت جڑپکڑ سکی اور نہ فوجی حکمرانی کے ادوار میں‘ کہ وہ تو جمہوریت کی ضد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری نگاہ میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے نمایشی اقدام کے باوجود اقتدار عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا اور اقتدار کی باگ ڈور عملاً ایک مختصر ٹولے کے ہاتھوں میں رہی جس میں کلیدی کردار بیوروکریسی‘ فوجی قیادت اور چند سیاسی خاندانوں نے ادا کیا۔ تاش کے پتوں کی طرح رل مل کر یہی باون پتے ہماری قسمت سے کھیلتے رہے کبھی درپردہ اور کبھی بالکل کھل کر--- اب اس پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار کو عوام اور عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل کرانے کا کام حکمت اور صبر لیکن مکمل یک سوئی کے ساتھ بے خوف و خطر انجام دینے کی کوشش کرے۔

اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف بحالی جمہوریت کے دعووں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری اور خود اپنے تمام وعدوں کے پورا کرنے کی دہائی کے باوجود اصل قوت اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر مصر ہیں اور پارلیمنٹ کو ایک نمایشی ادارہ بنانے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ کبھی کبھی سچی بات ان کی زبان پر آجاتی ہے اس لیے ان کے سیاسی اقدامات پر جو ملمع چڑھانے کی کوشش ان کے مشیر کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے اصل چہرے کی کچھ جھلک نظر آجاتی ہے۔ستمبر۲۰۰۲ء میں واشنگٹن کے دورہ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں جنرل صاحب کے دل کی بات زبان پر آگئی تھی کہ: میں پورے نظام پر جمہوریت کا لیبل لگا دوں گا۔

I will put a label of democracy on the system.

اس طرح ان کا یہ ارشاد کہ:

اگر مستقبل کی پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو واپس لینا چاہا‘ خصوصاً وہ جو قومی سلامتی کونسل سے متعلق ہیں‘ تو یا ان کو جانا ہوگا‘ یا میں چلا جائوں گا۔

موصوف یہ بھی فرما گئے ہیں کہ:

میں نے ایل ایف او (LFO) کو دستور کا حصہ ان اختیارات کی رُو سے بنایا ہے جو مجھے سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور مجھے اسمبلی کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

جنرل صاحب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ عنوانوں (labels) کا نہیں جمہوریت کے اصل جوہر (substance)کا ہے۔ جمہوریت اور فردِواحد کی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سول صدارت اور فوج کی سربراہی کا تاج ایک سر پر نہیں رہ سکتا۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے سامنے یہی سب سے بنیادی سوال ہے کہ آیا دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہوتا ہے اور پارلیمنٹ اصل اقتدار کی امین بنتی ہے یا نہیں؟

بنیادی مسئلہ اقتدار کی منتقلی کا ہے‘ محض شراکت نہیں! اس لیے ایم ایم اے نے صاف لفظوں میں کہہ دیاہے کہ اقتدار کی منتقلی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک فوجی قیادت اس دہرے رول سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ ہماری دلی خواہش اور مسلسل کوشش ہے کہ یہ عمل بحسن و خوبی انجام پذیر ہو‘ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو‘ کوئی ڈیڈلاک رونما نہ ہو‘ کوئی بدمزگی نہ ہو‘ افہام و تفہیم سے سارے مراحل طے ہوں لیکن یہ ایشو وہ ہے جس پر سمجھوتا یا کوئی درمیان کا راستہ ممکن نہیں۔ جنرل صاحب اور فوج کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کے مینڈیٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد ان کا اصل مقام فوجی بیرک اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہیں‘ ایوان ہاے سیاست نہیں۔ جنرل صاحب کو سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا سہارا اب ترک کر دینا چاہیے اور اصل سیاسی اور دستوری حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں قوم کے ۷۵ فی صد نے ان کے پروگرام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور عوام کے اس مینڈیٹ سے فرار صرف جمہوریت کی نفی ہی نہیں بلکہ اپنے اندر خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ارباب کار کو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور قوم کو آزمایش اور کش مکش سے بچالے۔ یہی ملک کے لیے بہتر ہے اور سب سے زیادہ یہی فوج کے لیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ باقی رہ سکتا ہے۔ ہم بہت دکھی دل کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ماضی کے فوجی ادوار کی ناکامیوں پر عوام نے فوجی حکمرانوں کو ہدفِ ملامت بنایا مگر اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ ہدف بننے لگی ہے۔قوم سے اس کے رشتہ محبت و اعتماد کے لیے بھی بہتر ہے۔

ماضی کے تجربات سے سیاسی قیادت کو بڑے اہم سبق سیکھنے چاہییں اور اپنے پیش روئوں کی غلطیوں اور حماقتوں کے اعادے سے پرہیز کرنا چاہیے ‘اسی طرح فوجی قیادت کو بھی تجربات کی اس کھلی کتاب کے پیغام کو پڑھ لینا چاہیے۔ اس میں اس ملک کی اور ہم سب کی خیر ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح خود پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی ایک بڑی آزمایش کی کسوٹی پر پرکھی جا رہی ہے۔ دونوں کو بالغ نظری کے ساتھ‘ کسی تصادم اور تعطل کا شکار ہوئے بغیر‘ اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی گفت و شنید کے ساتھ کھیل کے قواعد کے احترام کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اب تک حکمران اپنی مرضی اور مفاد کے لیے کھیل کے قواعد کو تبدیل کرتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں گذشتہ آٹھ مہینے میں یعنی اپریل کے ریفرنڈم سے اس وقت تک  پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور وہ جو ان کی ایک شہرت تھی کہ صاف گو (straight forward) آدمی ہیں‘ اس سیاسی کھیل میں وہ ’’عزت سادات‘‘ بھی خاک میں مل گئی ہے۔ اب ان کی اخلاقی ساکھ پارا پارا ہو چکی ہے اور اگر وہ خود اور ان کے رفقا اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کریں گے تو یہ عاقبت نااندیشی کا ایک شاہکار ہوگا جس کا خمیازہ بالآخر ان کو اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔اس لیے ہم پورے خلوص سے ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں میں جو کچھ ہوا ‘اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نئے زمینی حقائق کو محسوس کریں اور اب قوم کو مزید آزمایشوں میں ڈالنے سے احتراز کریں۔

اب سب کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کریں۔ جنرل صاحب چیف آف اسٹاف کے عہدے سے استعفیٰ کے اس وعدے کو پورا کریں جو ہاورڈ یونی ورسٹی میں سیمی نار کے موقع پر عالمی راے عامہ سے انھوں نے کیا تھا اور جو عقل و انصاف اور دستور و اخلاق ہر ایک کا تقاضا ہے۔ وہ قوم اور فوج دونوں کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں کہ ایک طرف وہ بحیثیت صدر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوں اور دوسری طرف بری فوج کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے باقی دونوں افواج کے سربراہوں کی طرح وزیراعظم‘ اور وزیردفاع کے ماتحت ہوں۔ ایک طرف وہ حلف اٹھائیں کہ میں دستور کا پابند اور محافظ ہوں گا (دفعہ ۴۲) اور دوسری طرف ایک فوجی افسر کی حیثیت سے اس حلف کی بھی پاسداری فرمائیں کہ ’’میں اپنے آپ کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘‘ (دفعہ ۲۴۴)۔ دستوری صدر بھی ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سروس آف پاکستان کا نہ صرف یہ کہ رکن نہ ہو بلکہ اس کے ریٹائرمنٹ پر دو سال بھی گزر چکے ہوں اور دوسری طرف عملاً فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے مدعی بھی ہوں۔ یہ دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ قوم اور خود فوج کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑا ہی نقصان کا سودا ہے۔ ضرورت ہے کہ سب عقل کے ناخن لیں اور اپنی ذات نہیں بلکہ وہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘اس کا کچھ عملی پاس بھی کریں ورنہ سارا کھیل صرف ’’سب سے پہلے میں‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا ہر مدعی نے سہارا لیا ہے اور بدقسمتی سے خود اعلیٰ عدالتوں نے بھی ایسی آنکھ مچولی کھیلی ہے جس نے ان کے اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کیا بلکہ ملک کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد صاف الفاظ میں ہر ادارے کی حدود کو عملاً واضح ہی نہیں‘ متعین کر دیا جائے۔ عدالت کا کام دستور کی تعبیر ہے‘ دستور کی ترمیم‘ تنسیخ یا تسوید نہیں۔ جو اختیار عدالت کو خود حاصل نہیں وہ کسی اور کو کیسے دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور سے انحراف (deviation)کے تصور کا سہارا لیا گیا ہے اور قانون ضرورت (law of necessity) کی بنیاد پر دستور میں وقتی اور جزوی ترمیم کا اختیار فوجی حکمرانوں کو ماضی میں بھی دیا گیا اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا‘ لیکن متعدد شرائط کے ساتھ‘ جن کا جنرل پرویز مشرف نے کوئی خیال نہیں رکھا۔

عدالت کے موقف کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں لیکن اب اس بحث کا وقت نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنے اختیار کا اثبات کرے اور جس طرح جنرل ضیاء الحق مجبور ہوئے تھے کہ احیاے دستور کے حکم نامے کو پارلیمنٹ کے زیرغور لائیں اور ۳۸ دن کی کھلی بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس میں سے ۸۰ فی صد کو قربان کر کے باقی ماندہ کو بشمول دفعہ ۲۷۰ کے تحت indeminty دے کر پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت دستوری دفعہ ۲۳۹-۲۳۸ کے تحت دستور کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح نام نہاد ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں زیربحث لایاجائے اور اس کے قابل قبول حصوں کو مناسب دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا لیا جائے اور ناقابل قبول حصوں کو رد کر دیا جائے۔ مئی ۲۰۰۰ء اور ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ اور ۳اکتوبر ۲۰۰۲ء کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنی من مانی نہ کی جائے اور ان فیصلوں کو ایمان داری سے لیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں۔ صرف ریکارڈ کی خاطر یہ چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اس وقت بھی ملک کا سپریم قانون ہے‘ اس شرط کے ساتھ کہ اس کے بعض حصے ریاستی ضرورت کے تحت معطل کر دیے گئے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو سندجواز فراہم کرتے ہوئے عدالت نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ یہ ماورائے دستور (extra constitutional)اقدام ہے لیکن اس کے باوجود ان کو قانون سازی کا اختیار چند حدود کے اندر حاصل ہوگا یعنی:

یہ کہ ایسے تمام اقدامات کرنے کا اور قانون نافذکرنے کا جو نیچے بیان کیے گئے ہیں‘ یعنی:

(i)  (الف)  تمام اقدامات یا قانونی فیصلے کرنا جو ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہیں یا اس کے تحت کیے جا سکتے ہیں بشمول اس میں ترمیم کے اختیار کے۔

(ب)  وہ سب اقدامات جو عوام کی بھلائی کی پیش رفت کی طرف لے جاتے ہیں یا اسے بڑھاتے ہیں۔

(ج)  ایسے تمام اقدامات جو کاروبارِ مملکت کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

(د) ایسے تمام اقدامات جو چیف ایگزیکٹو کے اعلان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے‘ یا حاصل کرنے کی طرف لے جانے والے ہوں۔

(ii)   چیف ایگزیکٹو کی جانب سے دستور میں ترامیم صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہیں جب  دستور اُن کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مزید یہ کہ دستور میں ترمیم کا اختیار بمطابق دفعہ ۶‘ ذیلی دفعہ (۱) (الف) ایضاً اسی دفعہ کی ذیل دفعات ب‘ ج اور د سے مشروط ہے۔

(iii)  دستور کے بنیادی خصائص (salient features) یعنی عدلیہ کی آزادی‘ وفاقیت‘ پارلیمانی طرزِحکومت بشمول اسلامی دفعات میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

اس کے ساتھ عدالت نے یہ اصولی بات بھی صاف لفظوں میں کہہ دی تھی کہ سول نظام میں فوج کی مداخلت اور شمولیت ملک اور فوج کے لیے نقصان دہ ہے اور اسے کم سے کم مدت میں ختم ہو جانا چاہیے۔

بہرحال‘ سول معاملات میں فوج کی طویل شرکت کے نتیجے میں فوج کے سیاست زدہ ہونے کا سنگین خطرہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لیے اعلان شدہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد‘ جس نے فوج کے اختیار سنبھالنے کو ضروری بنایا ملک میں سول حکومت کم سے کم ممکنہ وقت میں بحال کر دی جائے۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ۳۰ ستمبر کو نواب زادہ بلوچ مری کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ:

عارضی دستور کا حکم نامہ (پی سی او) کے تحت انتظامی مقتدرہ نے جو قوانین نافذ کیے ہیں ان کی کوئی قانونی یا دستوری حیثیت نہیں ہے جب تک کہ آنے والی منتخب پارلیمنٹ ان کو جائز قرار نہ دے دے۔ (دی نیوز‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ء)

پھر اپنے ۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے ایک فیصلے میں جو ایل ایف او کے سلسلے میں تھا (مدعی ظفراللہ خان) یہ اہم نکتہ واضح کیا کہ ایل ایف او کی حیثیت دستوری تجاویز برائے ترمیم دستور کی ہے۔ اسپیشل بنچ جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیراے شیخ‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی‘ جسٹس افتخار احمدچودھری اور جسٹس قاضی محمد فاروق تھے‘ کو جب مدعی نے درخواست دی کہ عدالت صرف اتنا کہہ دے کہ LFO پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ہی قابلِ نفاذ ہے۔ جسٹس منیراے شیخ نے کہا:

دفعہ ۲۳۹ دستور میں موجود ہے اور ممبران اسمبلی اس کو روبہ کار لا سکتے ہیں۔

آپ جو کچھ طلب کرتے ہیں ہم اس سے آگے جا رہے ہیں۔ (ہفت روزہ انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱-۲۷نومبر ۲۰۰۲ء)

اس سب کے باوجود ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اب مسئلے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہونا چاہیے۔ عدالت کو مزید زحمت دینے کی نہ ضرورت ہے نہ اس کا وقت ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس مصیبت ِ جان ’’نظریہ ضرورت‘‘کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے اور بقول شہنشاہ عالمگیر اتنا گہرا دفن کرے کہ پھر کبھی مردہ قبر سے باہر نہ آ سکے!

آزادی اور حاکمیت کی بحالی

دوسرا بنیادی مسئلہ ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور معاشی اور سیاسی معاملات میں حاکمیت کا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے اقدامات کے نتیجے میں ہماری آزادی ایسے سمجھوتوں کی زد میں آگئی ہے‘ جو قومی سلامتی کے لیے اپنے اندر بڑے مضمرات رکھتی ہے اور قوم کی نئی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ محض تسلسل کے نام پر (under the cloak of continuity) اس جال میں پھنسی نہ رہے بلکہ ایک ایسی خارجہ اور معاشی پالیسی وضع کرے جو آزاد اور متوازن ہو اور جو پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی ضامن ہو‘ امریکہ کے عالمی استعماری مقاصد کی آلہ کار نہ ہو۔ یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے اور اس پر ملک کی آزادی اور سالمیت کا انحصار ہے۔ہمیں یقین ہے کہ پوری قوم کی طرح اس ملک کی فوج بھی ملک کی پاک سرزمین پر امریکی اڈوں کے وجود اور امریکی ایجنسیوں کے عمل دخل پر اتنی ہی دل گرفتہ اور پریشان ہو گی جتنی باقی قوم۔ ماضی میںجو بھی مجبوریاں ہوں مگر اب امریکہ کا عالمی کھیل بالکل عیاں ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں بشمول امریکہ‘ اور یورپ کے عوام‘ اس کے خلاف کھل کر بغاوت کر رہے ہیں۔ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود امریکہ کو آج تک عراق پر فوجی اقدام کرنے کے لیے یو این او اور خود مغربی اقوام تک کی تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے اور جارج بش یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ ’’یو این او تائید کرے یا نہ کرے امریکہ اپنی مرضی پوری کرے گا‘‘۔ یہ بش کا اعتراف شکست ہی نہیں‘ پوری دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔ ۲۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو صدربش کی موجودگی میں روسی صدر نے پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں کھلے الفاظ میں اضطراب کا  اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک کی ان رپورٹوں کے بعد جن میں پاکستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے ڈانڈے ملائے گئے ہیں خطرہ سر سے اونچا ہوتا نظر آتا ہے۔ اب بھی امریکی صدر کے ذاتی اعتماد کے ارشادات پر بھروسا قومی سلامتی اور اُمت کے مستقبل کے لیے خطرناک مضمرات کا حامل ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم‘ اُمت مسلمہ کے ایک اہم حصے کے طور پر‘اپنی آزادی اور حاکمیت کو بحال کرنے کی جدوجہد کرے اور تشدد کے خلاف جنگ کے نام پر جو تشدد دنیا کے مظلوم افراد اور اقوام پر کیا جا رہا ہے اس سے اپنی برأت کا اعلان کر دے۔ اس کے لیے سیاسی ہی نہیں معاشی پالیسیوں کے میدان میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اب یہ نئی پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ اس چیلنج کے مقابلے میں پوری حکمت اور دانش مندی سے اور قومی مفادات کو پوری طرح محفوظ کر کے انجام دے۔ نیزہماری سرحدوں ہی کو نہیں ہماری جوہری صلاحیت کو جو خطرات درپیش ہیں ان کے تحفظ کا بھرپور اہتمام کرے اور پوری قوم کو اس جہاد آزادی اور تحفظ قومی سلامتی میں معاون و مددگار بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے اور اسے دفاع کے تقاضوں کو مکمل یکسوئی کے ساتھ پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔


اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا ۲۰ نومبر کا قوم سے خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت دوگونا ہے‘ یعنی وہ باتیں جن کا انھوں نے اظہار کیا ہے اور وہ باتیں جن کے اظہار سے وہ کنی کترا گئے ہیں۔ یہ دوسری چیز بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی وہ باتیںجو انھوں نے اپنے ۳ سالہ ریکارڈ اور اپنے زعم میں مستقبل کی پالیسی کے باب میں کہی ہیں۔

جن باتوں کا انھوں نے ذکر نہیں کیا‘ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ کسی سربراہ مملکت کی ایسے نازک موقع پر‘ پہلی تقریر ہے جس میں پاکستان کے تصور اور وژن کے بارے میں اور اس کے نظریاتی اور اسلامی کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال (جن کا یہ سال ہے) اور قائداعظم تک کا کوئی ذکر اس میں نہ تھا۔ یہ محض علامتی (symbolic) شے نہیں۔ اس ارادی حذف (omission) کونظرانداز کرنا قومی مفاد سے متصادم ہوگا۔

پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد جن سیاسی تبدیلیوں کا تقاضا قوم کر رہی ہے اور جن کی بازگشت پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں سنی جا سکتی ہے ان سے بھی جنرل صاحب نے مکمل اغماض برتا۔ نہ  ایل ایف او کا ذکر تھا اور نہ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہونے کا۔ جن لوگوںکو یہ توقع تھی کہ اس تقریر میں وہ حقیقی انتقالِ اقتدار کی بات کریں گے‘ وہ سخت مایوس ہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل صاحب بدلے ہوئے حالات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے اور ابھی تک اپنی ہی دنیا میں گم ہیں جو مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ ان کا یہ خطاب سیاسی اسٹرے ٹیجی سے عاری تھا جو پارلیمنٹ اور نئی قیادت کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ مکمل  انتقالِ اقتدار وقت کی ضرورت ہے اور وہ جتنے خوش اسلوبی سے واقع ہوجائے اتنا ہی ملک و ملت اور فوج اور قیادت سب کے لیے بہتر ہے۔

معاشی ترقی کے دعووں کی حقیقت

جنرل صاحب نے سارا زور اپنی معاشی کامیابیوں پر دیا ہے اور یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی حکمت عملی ہی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور غالباً اس کے لیے اپنے ان پسندیدہ افراد کو نئے نظام میں لانے اور اصل مردانِ کار کے مقام پر فائز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ خدا کرے ہمارا خدشہ غلط ہو لیکن آثار ایسے ہی نظر آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ جناب ظفراللہ جمالی صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ’’تسلسل ہی کاروبار زندگی ہے‘‘ (continuity is the name of the game) --- اللہ خیر کرے۔

ہماری نگاہ میں اس دور کی معاشی پالیسیوں اور ان کے نتائج کا بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جنرل صاحب نے معاشیات پر بھی ایک لیکچر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل چیز کلی معاشیات (macro economics) ہے اور اسی سے سرمایہ حاصل ہوتا ہے جو ترقی کا ذریعہ ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ ان کے جن مشیروں نے ان کو یہ سبق پڑھایا انھوں نے جنرل صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ بلاشبہ کلی معاشیات کی ایک اہمیت ہے لیکن جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خرد معاشیات (micro-economics) اور micro-finance میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کلی معاشیات کی اصل بنیاد خرد معاشیات ہی ہے جو پیدا آوری عمل کا اصل محل (seat of economic activity) ہے۔ پیداوار ہی وہ بنیاد ہے جس پر پوری معیشت کا نظام استوار ہوتا ہے۔ فرد‘ فرم‘ مارکیٹ‘  عوامل پیداوار کی کارکردگی یہ خرد معاشیات کا دائرہ ہیں اور جب تک خرد معاشیات صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہو کلی معاشیات کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ حالات کو درست کر دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کلی معاشیات کا تو تصور ہی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں رونما ہوا جب سرمایہ داری کی ان خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنے کے لیے جو آزاد معیشت نے پیدا کی تھیں ریاستی کردار کی نئی دریافت ہوئی اور جان مینارڈکینس کے زیراثر کلی معاشیات کو علمِ معیشت اور معاشی پالیسی کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی میں کلی استحکام (macro stability) کو دوسرے عوامل کی قیمت پر اہمیت دی گئی ہے جو ایک غیر متوازن پالیسی ہے اور ہماری معیشت آج اسی کا شکار ہے اور پاکستان ہی نہیں جہاں بھی ورلڈ بنک کی اسٹرے ٹیجی پر عمل ہوا ہے نتیجہ یہی رہا ہے جس کے خلاف خود ورلڈ بنک کے سابق چیف اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جیفرے ساکس (Jeffrey Sachs) نے اپنی تازہ ترین کتاب Globalization and its Dincontentments میں بھانڈا پھوڑا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جن دو چیزوں کو اس دور کا اصل حاصل کہا جا رہا ہے یعنی خارجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور افراطِ زر کی شرح میں کمی ان کو ملک کی معیشت کی اساس یعنی پیداوار ‘شرح پیداوار اور عوام کی قوتِ خرید سے الگ کر کے دیکھنا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔

مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ یہ اضافہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد واقع ہواہے اس لیے کہ اس سے پہلے ذخائر۷.۱ بلین ڈالر تھے جو گذشتہ ۱۰ سال کے اوسط سے مختلف نہیں۔اصل اضافہ گذشتہ ۱۵ مہینے میں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اضافہ کس طرح اور کن ذرائع سے ہوا ہے۔ اگر یہ اضافہ ملک میں پیداوار کے بڑھنے اور بیرونی تجارت خصوصیت سے برآمدات کے اضافے سے ہوتا تو بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیداواری عمل مندی کا شکار ہے‘ ترقی کی شرح ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کے اوسط سے نصف سے بھی کم رہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق (جو خود محل نظر ہیں) لیبر فورس کے ۵ فی صد سے بڑھ کر بے روزگاری اب ۸فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ہر سال تقریباً ۵ لاکھ افراد کا بے روزگاری کی صف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اعتراف بھی عالمی مالیاتی ادارے بھی کر رہے ہیں جن کی پالیسیاں  جنرل صاحب کی ٹیم لے کر چل رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (جولائی ۲۰۰۲ء) اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ:

مالی سال ۱۹۹۳ء میں غربت کی شرح ۶.۲۶ فی صد سے بڑھ کر مالی سال ۱۹۹۹ء میں ۳.۳۲ فی صد ہو گئی‘ اور اس دورانیے میں غریبوں کی تعدادمیں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔مالی سائل ۱۹۹۹ء کے بعد معاشی نمو مزید سست ہوگئی ہے‘ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا تسلسل برقرار رہا ہے‘ اور ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح آج مالی سال ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے (Poverty in Pakistan‘ایشیا ترقیاتی بنک‘ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱)۔

ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ۳ سالوں میں مزید ۸۰ لاکھ افراد غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تین برسوں میں روپے کی بیرونی منڈیوں میں قدر میں ۱۸ فی صد کی کمی ہوئی ہے اور بجٹ کے خسارے میں سارے دعووں کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔یہ گذشتہ سال بھی قومی پیداوار (GDP) کا ۱.۷ فی صد رہا گو شماریاتی دھوکے (statistical deception) کے شاہکار کے طور پر ایک نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے کہ یہ اضافہ  one term expenditureکی وجہ سے ہے ورنہ خسارہ تو ۵ فی صد ہے۔ حالانکہ خود ورلڈ بنک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس one term expenditure کا اعادہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے اگست ۲۰۰۲ء کے  پاکستان اکانومک اپ ڈیٹ (جنوری ۲۰۰۲ء-جولائی ۲۰۰۲ء) کے مطابق زراعت میں ۲۰۰۱ء میں پیداوار منفی رہی اور کمی کی شرح ۶.۲ فی صد تھی جب کہ ۲۰۰۲ء میں صرف ۴.۱ فی صد اضافہ ہوا۔ صنعت میں ۲۰۰۰ء میں اضافے کی شرح ۳.۱ فی صد‘ ۲۰۰۱ء میں ۱.۳ فی صد اور ۲۰۰۲ء میں ۸.۲فی صد رہی (صفحہ۴)۔ جب کہ ماضی میں یہ اضافہ اس سے دو‘ تین اور چار گنا زیادہ رہا ہے۔ بجلی اور گیس میں ان تین برسوں میں برابر (value added) میں کمی واقع ہوئی (صفحہ ۶)۔ اور ملکی بچت میں کمی ہوئی یعنی ۲۰۰۱ء میں ۶.۱۶ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۲ء میں ۷.۱۴ فی صد رہ گئی جو ہماری تاریخ میں کم ترین شرح ہے اور جنوب ایشیا کے ممالک میں بھی سب سے کم شرح ہے۔ ان حالات میں اگر افراطِ زر کی شرح کم رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوئی جو افراطِ زر کو کم رکھنے کا بدترین طریقہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں کمی میں شماریاتی کرشموں کا دخل بھی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے پاکستان اکنامک  اپ ڈیٹ (ص ۸) کے مطابق گذشتہ سال کی ۵.۳ فی صد کے اوسط کے مقابلے میں افراطِ زر کی شرح مالی سال ۲۰۰۲ء میں ۴.۴ فی صد رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا سبسڈی کا نظام غربت دشمن (anti-poverty) رہا ہے۔ نیز بلاواسطہ ٹیکس  کے کم کیے جانے اور بالواسطہ ٹیکس خصوصیت سے سیلز ٹیکس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے۔ غریب طبقوں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۸.۳ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈاکٹر اے آر کمال کا خطبہ صدارت۔ پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کی ۱۷ویں سالانہ کانفرنس جنوری ۲۰۰۲ء۔ صفحہ ۹)

بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اس پورے دور میں بحیثیت مجبوعی ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس نے عام آدمی کی زندگی ہی کو اجیرن نہیں کیا خود پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث ملکی مصنوعات کی مسابقت کی پوزیشن بھی متاثر کی ہے۔ اسی معاشی ریکارڈ پر فخر کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

مبادلہ خارجہ میں اضافہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کی وجہ معیشت کی کارکردگی نہیں بلکہ بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل میں تین گنا اضافہ‘ قرضوں کی ادایگی میں سہولت اور اسٹیٹ بنک کی یہ پالیسی ہے کہ اس نے کھلی منڈی سے ہر سال ۲ بلین ڈالر تک خرید کر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر قائم رکھا ہے۔ اگر اس کا نام macro-management ہے جس پر جنرل صاحب فخر کر رہے ہیں‘ تو اس پر ورلڈ بنک کے ان داتا تو شاید داد دے دیں مگر غربت کے مارے اور بے روزگاری کے ستائے عوام کیسے چین کا سانس لے سکتے ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

جنرل صاحب نے کرپشن کے خاتمے کی بھی بات کی ہے اور اپنی پاک دامنی کا بھی بڑا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ ہم ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہنا چاہتے لیکن اتنا کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ کرپشن صرف مالی فائدے اٹھانے کا نام نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک ملک میں کرپشن کا تعلق ہے عام تاثر یہی ہے کہ بالکل اُوپر کی سطح پر کھلے انداز میں کرپشن ماقبل کے ادوار سے کم ہوئی ہے اور اس کا جتنا کریڈٹ جنرل صاحب لینا چاہیں لے لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی دور کی اصل حقیقت اس دور کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔ اس وقت بھی ۲۰۰۱ء-۲۰۰۰ء کے بارے میں جو آڈیٹر جنرل کے دفتر کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیںوہ کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہی ہیں۔ صرف ریلوے کے محکمے بارے میں ‘۲۰۰۲ء کی رپورٹ میں ‘جو ۲۰۰۱ء کے بارے میں ہے‘ ۴۱.۳۳ کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں اور ۱۱ارب ۹۰ کروڑ روپے کا خسارہ کی خبر دی گئی ہے۔ جب موجودہ دور کا کچا چٹھا سامنے آئے گا تو اصل تصویر نظرآئے گی۔ ایچ یو بیگ صاحب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے جب ۱۹۹۹ء کے بعد کے ادوار کا جائزہ لینا شروع کیا تو اسے جس طرح برطرف کر دیا گیا وہ بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح اوپر کی سطح کے بارے میں کچھ بہتر تاثر ہے اسی طرح درمیانے اور نیچے کے حالات کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ شکایت ہے کہ کرپشن نہ صرف حسب سابق ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس میں فوجی افسروں کے حصے کی بات بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے بہت زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا اس لیے کہ ان کی رپورٹ صرف بیرونی تاجروں کے تاثر پر مبنی ہے اور اس میں بھی جو بہتری ہے وہ صرف برائے نام ہے یعنی پہلے ۱۰ میں سے ہمارے نمبر ۲.۲ تھے جو اب ۶.۲ ہوگئے ہیں۔

نیب نے کام کا آغاز کیا تھا لیکن پھر جس طرح اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور مخصوص افراد کے احتساب کے اسی طریقہ کو رائج کر دیا گیا جو ماضی کے نظاموں کا وطیرہ تھا‘ وہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر بادشاہ کی پارٹی کے نمایندوں کو احتساب کی زد سے نکالا گیا‘ مقدمات کو اِدھر اُدھر کیا گیا‘ زیرسماعت مقدمات کو دفن کیا گیا‘ سزا یافتہ لوگوں کو معاف کیا گیا‘ لوگوں کی پارٹیوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۳۶ ارکان اسمبلی صرف اس عمل کے نتیجے میں وفاداروں کی صف میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ اگر کرپشن نہیں تو اسے کس نام سے پکاریں؟ نیز ایک اطلاع کے مطابق جو نئی ’’پاک دامن‘‘ کابینہ بنائی گئی ہے اس میں ماشاء اللہ تین افراد نیب کو مطلوب ہیں اور چھ وفاداریاں تبدیل کر کے خلعتِ وزارت سے شادکام ہوئے ہیں! (نوائے وقت‘ ۲۵ نومبر ۲۰۰۲ء)

وعدے پورے کر دیے ؟

جنرل صاحب نے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر بڑی دیدہ دلیری سے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن انھی آیات کے حوالے سے ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اور پورا کرو اپنے وعدوں کو‘ بے شک ان وعدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا‘‘۔

آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تین سال میں اقتدار منتقل کروں گا لیکن گذشتہ پورا ایک سال آپ نے صرف اس عمل کے لیے صرف کیا کہ کسی طرح اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں مرکوزکرلیں‘ اپنے کو بھی قوم پر مسلط رکھا‘ اور کلیدی اختیارات بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے۔ کیا اسی کا نام انتقالِ اقتدار ہے؟

آپ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا آپ نے پاس کیا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہونا چاہیے اور اس سے ۹۰ دن پہلے عمل شروع ہوجائے۔ آپ نے اس عمل میں اتنی تاخیر کی کہ ان سطور کے لکھتے وقت ۲۵ نومبر تک یہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور ابھی صوبائی اسمبلیوں کے آغاز اور سینیٹ کا انتخاب باقی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دستوری ترمیم صرف اسی وقت ممکن ہے جب کسی مسئلے کا حل دستور کے اندر موجود نہ ہو اور رفع حرج کے لیے یہ ناگزیر ہو اور پھر بھی دستوری ڈھانچے میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن آپ نے انتقالِ اقتدار سے صرف دو ماہ قبل اگست ۲۰۰۲ء میں مستقبل میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے دستور میں ۳۶ ترامیم کیں جس سے اس کا ڈھانچہ درہم برہم ہو گیا اور اب ان ترامیم کو پارلیمنٹ کے اختیار سے بھی باہر رکھنے پر مصر ہیں۔ کیا یہی عہد پورا کرنا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے آپ کی صلاحیت کار ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو جاتی ہے لیکن آپ نے اس کے بعد چار ہفتوں میں ۳۰ سے زیادہ قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے جو ملکی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہیں اور اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا کہ یہ نئی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ کیا وعدے اسی طرح پورے ہوتے ہیں؟

آپ نے اس زمانے میں الیکشن کے عمل میں بالواسطہ ہی نہیں بلاواسطہ مداخلت کی اور ایسے ایسے آرڈی ننس جاری کیے جن کا ہدف متعین افراد تھے ___ کون آسکتا ہے اور کون نہیں آسکتا۔ منتخب ہونے کے بعد آزاد ارکان کو پارٹیوں میں شامل کرنے کے لیے تین دن اور فاٹا کے ارکان پر پابندی کہ وہ شامل نہیں ہو سکتے‘ فارورڈ بلاکوں کی سیاست‘ الیکشن فارم داخل کرنے کے لیے متعلقہ شخص کی بذات خود موجودگی‘دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والے کے لیے وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھولنا‘ تین سال تک نوگو ایریا آپ کو اور آپ کے وزیرداخلہ کو نظر نہ آئے‘ چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو نہ صرف ختم کرنا بلکہ رینجرز کی سرپرستی میں ان علاقوں کو ایک خاص گروہ کے قبضے میں دینا --- کیا یہ سب ’’امانتیں اہل امانت کو سونپنے‘‘ اور ’’وعدہ پورا کرنے‘‘ کے ذیل میں آتا ہے؟

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ

نقشہ کار

حالات کا یہ بے لاگ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق سامنے رہیں اور جو چیلنج درپیش ہے‘ اس کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو جہاں اپنی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنا چاہیے وہاں انھیں یہ کام حکمت اور تدبر سے انجام دینا چاہیے۔ سرکاری پارٹی نے جس طرح اپنی اکثریت بنائی ہے وہ ایک معلوم حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اتحاد کانچ کا گھر ہے جو بڑا ہی کمزور اور بودا ہے۔ حزب اختلاف دو بڑے گروپوں میں منقسم ہے جن کے درمیان نظریاتی اختلاف ہی نہیں ہے سیاسی مصالح کے ادراک میں بھی بڑا فرق ہے۔ جوڑ توڑ کی جس سیاست کا اسپیکر‘ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب سے قبل دور دورہ تھا وہ کوئی نیک شگون نہیں۔ ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو بہت بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا اور ہر نفع عاجلہ سے دامن بچاتے ہوئے اس ملک کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کرنا ہوں گی اور اس جدوجہد میں حکمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا ہوگا۔

قوم نے ایم ایم اے پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ جہاں ہمیں اکثریت حاصل ہے وہاں اچھی حکومت بنائیں اور حکمرانی کا ایک نیا نمونہ پیش کریں جو اصول پرستی‘ عوام کی خدمت اور قانون کی حکمرانی سے عبارت ہو۔ اور مرکزی سطح پر ہماری ساری کوشش یہ ہو کہ: دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور افہام و تفہیم کے ذریعے قابلِ قبول ترامیم کو دستوری طریقہ سے حصہ دستور بنایا جائے اور کتاب قانون کو باقی حشوو زواید سے پاک کیا جائے۔ نیز یہ کہ حقیقی انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جائے ۔ جنرل صاحب کو بھی جو جائز رعایات دی جا سکتی ہیں دے دی جائیں تاکہ وہ ایک حقیقی سول صدر مملکت‘ دستور کے مطابق بن کر‘ دستور کے فریم ورک میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سے باہر کسی کردار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ دستور میں ایسی ترامیم بھی کی جائیں جن سے آگے کے لیے بگاڑ کے دروازے بند ہو سکیں۔ نیز ملک میں ایسی قانون سازی اور پالیسی سازی ہو جو عوام کی مشکلات کو دور کرنے‘ ان کے مسائل حل کرنے‘ ملک کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور بیرونی عناصر کی دراندازیوں سے محفوظ رکھ سکے اور یہاں اسلام کا جمہوری عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔ اس حوالے سے یہ امور اہمیت رکھتے ہیں:

۱-  عدلیہ کی حقیقی آزادی کا اہتمام کیا جائے اور ججوں کی تقرری کا وہ نظام رائج کیا جائے جس سے عدالت کو سیاست کے تابع کرنے کاکھیل ختم ہو سکے۔ عدالت میں تقرریوں کے سلسلے میں مشہور زمانہ ججوں کے فیصلے میں جو اصول طے کیے گئے تھے انھیں دستوری تحفظ دیا جائے اور ان پر عمل درآمد ہو۔

۲- دفعہ ۸۹ میں ترمیم کر کے انتظامیہ کے آرڈی ننس جاری کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت پر یہ سب سے بڑی تلوار ہے جسے ختم ہونا چاہیے تاکہ قانون سازی پارلیمنٹ کرے۔

۳- (SRO) Statutory Regulatory Orders کے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ اس طرح delegated legislation کے نام پر جو شب خون مسلسل پارلیمنٹ پر مارا جاتا رہا ہے اسے ختم کیا جاسکے۔

۴- کمیٹی سسٹم کو متحرک اور مستحکم کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ نظام حکمرانی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت مصروف کریں اور محض مراعات کے چکر میں نہ پڑیں۔

۵- اہم بین الاقوامی معاہدات کو سینیٹ میں توثیق کے لیے لایا جائے۔ محض کابینہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ جو معاہدات چاہے کرے اور جس طرح چاہے قوم کو باندھ دے۔

۶- اہم تقرریوں کے لیے دستور کے مطابق مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ کسی کو بھی صوابدیدی اختیار حاصل نہ ہو۔ ہر کام میرٹ پر اور ضابطوں کے مطابق ہو اور public scrutiny کا دروازہ کھولا جائے تاکہ معاملات میں شفافیت آسکے۔

۷- احتساب کا ایک آزاد‘ بالاتر نظام قائم ہو جو بالکل کھلے انداز میں تمام ارباب اختیار کا احتساب کر سکے خواہ ان کا تعلق پارلیمنٹ اور حکومت سے ہو‘ تجارت سے ہو‘ یا عدالت اور فوج سے ہو۔ یہ کام مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دارانہ اور بالکل شفاف ہو تاکہ قوم کے تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ سکیں اور محض سیاسی مقاصد کے لیے مخصوص لوگوں کے احتساب(selective accountability) کا نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

۸- پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی جائے اور قومی ضابطہ اخلاق باہم مشورے سے بنایا جائے جس کا سب احترام کریں۔

۹-  وزارت اطلاعات کا خاتمہ کیا جائے جو تاریخی اعتبار سے جنگی دور میں حکومت کی ضرورتوںکی پیداوار ہے اور جسے سیاست کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے کلچر کے فروغ اور قومی رہنمائی کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔

۱۰- آزادی اطلاعات (Freedom of Information) کا قانون جلد از جلد نافذ کیا جائے تاکہ کھلی حکومت کی روایت قائم ہو سکے۔

۱۱- صوبائی خود اختیاری کا جو نقشہ دستور میں طے کر دیا گیا ہے اسے ایک متعین مدت کے اندر (جو چند ماہ سے زیادہ نہ ہو) عملاً نافذ کیا جائے۔ یہ انتقال اختیار صرف وزارتوں اور قانون سازی ہی کے باب میں نہ ہو بلکہ مالی معاملات میں بھی ہو تاکہ اختیار حقیقی ہو اور اس میں جواب دہی کا نظام بھی موثر ہو سکے۔

۱۲- اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر پارلیمنٹ فی الفور غور شروع کرے اور ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی کا کام کیا جائے۔

۱۳- دستور میں مرقوم حکمت عملی کے اصولوں (دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنایا جائے اور ایک مرحلہ وار انداز میں ان کو عدالتی دائرے میں لایا جائے۔

۱۴- دستور کی دفعہ ۲۲۷ تا ۲۳۰ کے مطابق سات سال کے اندر اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین اور تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھالنے کا کام مکمل کرنے کا جو دستوری ہدف تھا اور جو آج تک پیدا نہیں ہو سکا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے فوری اقدام کیے جائیں۔

۱۵- معاشی پالیسی کی تشکیل نو ہو اور سود سے معیشت کو پاک کرنے کے لیے جو حکمت عملی اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں دی ہے اس کے مطابق عمل کا نقشہ بنایا جائے  اور تمام تاخیری حربوں سے نجات پائی جائے۔ پارلیمنٹ اس کام کی نگرانی کرے یا پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی مستقل طور پر اس کام کی نگرانی کے لیے قائم کی جائے۔ نیز ملک ایک   ترقی پذیر اور عادلانہ معاشی نظام کی طرف پیش قدمی کر سکے۔

۱۶- ریاست جموں و کشمیر کی آزادی‘ کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل اور اس کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کے ذمہ داروں سے اسے مربوط کیا جائے۔

۱۷-   ملک کی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر منظم کیا جائے اور اس کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئی معاشی حکمت عملی بنانے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کا کام انجام دے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو اس کمیٹی کی رہنمائی میں کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ نیز معاشی ترقی کو ناپنے کے لیے نئے معیارات (norms) متعین کیے جائیں جن میں پیداوار میں اضافہ‘ شرح پیداوار میں اضافہ کے ساتھ عام آدمی کے معیارِ زندگی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کیفیت کو شامل کیا جائے۔ نیز دوسروں پر انحصار میں کمی اور خودانحصاری میں اضافے کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ معاشی ترقی عوام کی خوش حالی اور قوم کی معاشی آزادی کا ذریعہ بن سکے۔

۱۸-  وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے جن چیزوں کو باہر رکھا گیا ہے وہ ختم کیا جائے ‘ عدالت کے ججوں کو عدالت عالیہ کے نظام کے مطابق تحفظ دیا جائے اور ان کی مستقل مدت اسی طرح ہو جس طرح باقی عدالت عالیہ کی ہے۔ تمام امتیازی دفعات کو ختم کیا جائے۔

۱۹- ان تمام دستوری اداروں کو قائم کیا جائے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک کیا جائے جو دستور نے وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے تجویز کیے ہیں یعنی مشترکہ مفادات کی کونسل‘ قومی اقتصادی کونسل‘ مالیاتی کمیشن اور بجلی اور گیس کے نظام کی منصفانہ کارکردگی کے لیے مناسب اختیارات۔

۲۰- اُردو کو قومی زبان کی حیثیت سے ملک کے تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے نافذ کیا جائے‘ دفتری زبان اُردو ہو اور ذریعہ تعلیم کے طور پر بھی اسے رائج کیا جائے۔

آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ حقیقی معنی میں پارلیمنٹ بنے‘ ایک ہمہ وقتی ادارے کے طور پر کام کرے‘ عوام کے حقوق کی محافظ ہو‘ حکومت پر نگرانی کا کام انجام دے تاکہ حاکمیت کے عوام تک منتقل ہونے کا دروازہ کھلے اور عوام اپنے معاملات کے کرتا دھرتا بن سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ اور حکمرانی کے اس تصور کو حقیقت بنانے کے لیے   تن من دھن کی بازی لگا دے۔

 

متحدہ مجلس عمل کے ایوانِ حکومت میںپہنچنے سے کارکنوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ منشورِ عمل ہر سطح پر بہترین کوششوں اور موثر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ (ادارہ)

تمام جماعتوں‘ حلقہ ہاے متفقین اور دوسرے کارکنانِ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسب ِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔

۱-  جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا: اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے‘ عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا‘ آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا‘ خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا‘ اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر‘ تقریر‘ تعلیم‘ زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔

۲- مساجد کی اصلاحِ حال: اس میں مسجدوں کی تعمیر‘ ان کی مرمت‘ ان کے لیے فرش‘ پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی‘ نیز اذان‘ نماز باجماعت‘ امام‘ درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔

۳- عوام میں علمِ دین پھیلانا: ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں‘ مذاکرات‘ تقاریر‘ خطبات‘درس‘ اجتماعی مطالعہ‘ تعلیمِ بالغاں‘ دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴-  نیکی کی قوتوں کو منظم کرنا: غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا‘ عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا‘ شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔

صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم‘ بے باک‘ جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار‘ پست ہمتی‘ بزدلی اور کمزوری کے  ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم‘ بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔

۵-  عوامی مسائل کی داد رسی: سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرنا۔

۶- بستی کے یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور      بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔

۷-  دیہات اور محلوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادے کا شوق پیدا کرنا۔

۸-  فواحش کی روک تھام : ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔  فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے‘ مثلاً قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ ]ٹیلی ویژن پر فحش گانے اور بے ہودہ پروگرام[‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔

۹-  سرکاری اداروں اور حکام و کارکناں کی بہتری کے لیے اقدام: رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی ‘فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔

اس غرض کے لیے ان حلقوں میں  اسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمہ داریاں ا ور اوصاف ]از مولانا امین احسن اصلاحی[کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں‘ تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ‘ احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔

۱۰-  مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد: اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔

۱۱-  بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش: اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو‘ اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ‘ ص ۲۰-۲۴)

 

دنیا کی ہر کتاب کا کوئی نہ کوئی موضوع ضرور ہوتا ہے۔ کوئی کتاب معاشیات کی کتاب کہلاتی ہے‘ کوئی سائنس کی‘ کوئی تاریخ یا جغرافیہ کی۔ اس عام بات سے قرآن مجید جیسی اہم ترین کتاب کیوں کر مستثنیٰ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا موضوع کیا ہے؟ یہ کس موضوع کی کتاب ہے؟ کیا یہ فلسفے کی کتاب ہے؟ کیا آپ قرآن کو فلسفے کی کتاب قرار دیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں فلسفے کے بہت سے مسائل زیربحث آئے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ فلسفے کی کتاب نہیں ہے۔ کیا پھر قرآن پاک معاشیات کی کتاب ہے؟ اس میں بہت سے بنیادی معاشی مسائل کا حل بتایا گیا ہے‘ دولت کی تقسیم کیوں کر ہو‘ دولت کمائی کیسے جائے‘ تقسیم دولت کے بارے میں ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان مباحث کے باوجود ماہرین معاشیات کی نظر میں قرآن پاک بہرحال معاشیات کی کتاب نہیں ہے۔ کم از کم اس انداز کی معاشیات کی کتاب نہیں ہے جس انداز کی معاشیات کی کتابیں عام طور پر ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ قانون کی کتاب بھی نہیں ہے‘ نہ قانون کا کوئی طالب علم فنی مفہوم میں اس کو قانون کی کتاب قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں نہ قانونی اصطلاحات ہیں اور نہ قانون و فقہ کی فنی زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں قانون کے بہت سے پیچیدہ مسائل حل کیے گئے ہیں۔

درحقیقت غور کیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قرآن پاک ان علوم و فنون میں سے فنی طور پر کسی علم کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو نہ ہم قانون کی کتاب کہہ سکتے ہیں‘ نہ معاشیات کی‘ نہ فلسفے کی‘ نہ تاریخ کی اور نہ نفسیات کی۔ اگرچہ ان تمام علوم کے بنیادی مسائل کا جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ ہاں‘ اس کو ہم کتاب ہدایت کہہ سکتے ہیں جو ان موضوعات پر پائی جانے والی ساری کتابوں کے لیے رہنما اور کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مندرجہ بالا اور دیگر بہت سے موضوعات پر لکھی جانے والی ہر وہ کتاب جو اس کتاب ہدایت کے مطابق ہے وہ سچی کتاب ہے‘ اور ہر وہ کتاب جو قرآن پاک سے متعارض ہے وہ جھوٹی کتاب ہے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی برقرار رہتا ہے کہ اس کتاب ہدایت کا اپنا موضوع کیا ہے؟

قرآن کا مخاطب: انسان

اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے جب ہم قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا اپنا موضوع ہے: اس دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزل مقصود۔ یہ چیز قرآن پاک کا بنیادی مضمون ہے‘ یعنی اس بات کی وضاحت و تشریح کہ اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری اور بالآخر اس کی وہ منزل مقصود جہاں اس کو جانا ہے وہ کیا ہے؟ اور وہاں کیسے پہنچا جائے؟ قرآن پاک شروع سے لے کر آخر تک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ایک موضوع سے بحث کرتا ہے کہ انسان کیا ہے؟ کہاں سے‘ کیوں اور کیسے آیا ہے؟ اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اسے کیا کرنا چاہیے؟

اس ایک سوال کا جو بہت سے سوالوں کا مجموعہ ہے‘ جواب دینے کے لیے قرآن پاک زندگی کے تمام مسائل سے بحث کرتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی عائلی زندگی‘ خاندانی زندگی‘ اس کی معاشرتی زندگی‘ اس کی معاشی زندگی‘ اس کے معاملات‘ اس کا کاروبار‘ اس کی سیاسی زندگی غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی جائے‘ اور یہ بتایا جائے کہ وہ خاندان‘ معیشت‘ معاشرہ اور حکومت کا کاروبار کس طرح چلائے؟ ان پہلوئوں میں پیش آنے والے تمام سوالات سے بحث کی جائے۔ جنگ کے حالات ہوں تو اس کا رویہ کیسا ہو‘ امن کے دوران کیا ہو‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غور کرنے اور اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت اس میں پیش آئے گی۔ اس لیے یہ سارے مسائل جن کی ضرورت اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے پڑتی ہے ان سب سے قرآن پاک میں بحث کی گئی ہے۔

لہٰذا قرآن مجید میں انسانی زندگی سے بحث کرنے والے تمام علوم و فنون کی بنیادیں موجود ہیں۔ اس کتاب کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان کسی طرح کامیاب طریقے سے منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اس لیے اس اصل ہدف کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اس کتاب میں سائنس کی معلومات بھی ملتی ہیں‘ معاشیات اور دوسرے بہت سے علوم کی تعلیم سے متعلق سوالات جن کی راہ میں ضرورت پیش آئے گی ان سب کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کتاب کے اسلوب میں اور دوسرے تمام علوم و فنون کے انداز میں ایک نمایاں فرق ہے‘ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے کہ انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور اس کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور قرآن پاک بھی ان سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن پاک کے جواب میں اور باقی تمام فلسفوں اور نظاموں کی طرف سے دیے جانے والے جوابوں میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ دوسرے نظاموں اور فلسفوں میں توجہ کا مرکز انسان کا ماضی‘ یعنی اس کا آغاز ہے۔ وہاں بیشتر بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ یا زیادہ سے زیادہ یہ بحث ملتی ہے کہ اب یہاں اس کو کیا کرنا ہے۔ آپ دیکھیںگے کہ انسان کے بارے میں سائنس کی ۹۰ فی صد بحثیں یہی ہیں کہ انسان آیا کہاں سے؟ کوئی بندر پر تحقیق کر رہا ہے‘ کوئی بن مانس پر تحقیق کر رہا ہے‘ غرض آغاز کے متعلق لوگ ہزاروں سال سے بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے سائنس کو بہت کم بحث ہوتی ہے کہ یہاں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس سے تو شاذونادر ہی کسی کو بحث ہوتی ہے کہ انسان کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کامیابی کیسے حاصل کی جائے؟ اس اصل سوال سے ان میں سے کسی کو بحث نہیں ہوتی۔ نہ سائنس کو‘ نہ سماجیات کو اور نہ بشریات کو۔ آپ غور کریں کہ آخر یہ چیز ہمارے لیے کیا عملی افادیت رکھتی ہے کہ انسان کہاں سے اور کیسے آیا؟ قرآن نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے لیکن اس کو بنیادی مسئلہ نہیں بنایا۔ ایک واضح اور سادہ جواب دینے پر اکتفا کیا ہے اور تفصیلات کو غیر ضروری قرار دے کر چھوڑ دیا ہے لیکن زیادہ توجہ اس پر دی ہے کہ اب انسان کو یہاں کیا کرنا چاہیے‘ اسے اب آگے کہاں جانا ہے اور سفر کو کیسے مکمل کرنا ہے۔

یہ ایک واضح بات ہے کہ ہم میں سے کسی کا آغاز بھی ہمارے اپنے قبضے میں نہیں ہے۔ جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو اپنی مرضی سے نہیں آتے‘ ہم میں سے کوئی بھی اپنے آزادانہ فیصلے یا مرضی اور اختیار سے اس دنیا میں نہیں آیا۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میاں! تمھیں اس دنیا میں بھیجوں یا نہ بھیجوں‘ نہ    اللہ تعالیٰ نے پوچھا‘ نہ میرے ماں باپ نے پوچھا۔ مجھے تو اس دنیا میں آنے کا شعور بھی پیدایش کے کئی سال بعد ہوا۔ آنے کے بعد بھی اب اگر کوئی انسان چاہے کہ وہ اس دنیا میں آنے یا نہ آنے کا خود فیصلہ کرلے تو یہ بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے ہم اس کے آغاز کے متعلق بہت سی تفصیلات جان کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اس لیے کہ آیندہ بھی لوگ اس دنیا میں آتے رہیں گے اور وہ بھی اسی بے اختیاری سے ہی آئیں گے۔ اس لیے انسان کے آغاز پر بہت زیادہ غوروفکر کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ توجہ وہاں دینی چاہیے جوہمارے اختیار میں ہو۔ آیندہ کامیابی کی منزل کا حصول میرے اختیار میں بھی ہے اور آپ کے اختیار میں بھی۔ اگر میں کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچنا چاہوں تو اللہ نے مجھے اس کے لیے وسائل دیے ہیں اور میں ایسا کرسکتا ہوں۔ مجھے اختیار بھی دیا ہے‘ اسباب بھی پیدا کیے ہیں اور حالات بھی فراہم کیے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے اس چیز پر زور دیا جو ہمارے اختیار میں ہے‘ ہم اس کو بنا بھی سکتے ہیں اور برباد بھی کر سکتے ہیں۔ سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ ہے فرق قرآن پاک اور باقی کتابوں میں۔ قرآن پاک بات کرتا ہے مستقبل کی‘ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا اسلوب Future Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ مستقبل۔ باقی علوم و فنون کا اسلوب Past Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ ماضی۔ صرف ماضی میں جھانکتے رہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر مستقبل سے نظر ہٹ جائے جو آپ کے بس میں ہے اور اس کا بنانا اور بگاڑنا دونوں آپ کے اختیار میں ہیں‘ تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس مضمون کو اقبالؒ نے بہت عمدہ اسلوب اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے  ؎

خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

گویا ابتدا کی ایک حد سے زیادہ فکر کرنا غیر ضروری ہے‘ فکر انجام کی کرنی چاہیے۔ قرآن پاک میں بھی آپ کو جابجا ملے گا: وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo (الاعراف۷:۱۲۸) ’’اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ جس کا ہدف یہی سبق دینا ہے کہ اصل مقصود مسلمان کی آخرت کی زندگی ہے‘ اسی کو منزل مقصود سمجھنا چاہیے۔

پانچ بنیادی موضوعات

چنانچہ قرآن نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کے لیے جو مباحث اختیار کیے ہیں ان کو ہم پانچ بنیادی موضوعات یا عنوانات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یہ عنوانات قرآن پاک میں ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور حسب ضرورت و موقع اجمال اور تفصیل دونوں کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کی ہر منزل میں‘ ہر سورہ میں حتیٰ کہ بیشتر آیات میں یہ پانچ موضوعات براہِ راست یا بالواسطہ نظر آئیں گے۔ یہ موضوعات اس ایک سوال کے پانچ مختلف پہلوئوں سے بحث کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹے چھوٹے مباحث بھی ہیں جو ان ہی پانچ مباحث کے نتیجے کے طور پر قرآن پاک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ پانچ بنیادی مباحث یہ ہیں:

عقائد

سب سے پہلا بنیادی مبحث جو قرآن پاک میں سورہ فاتحہ سے والناس تک ملتا ہے‘ وہ عقائد کا مضمون ہے۔ یہ مضمون قرآن پاک میں ہر جگہ موجود ہے‘ کہیں کھلا ہوا بیان ہوا ہے اور کہیں چھپا ہوا دوسرے مضامین کے سیاق میں ملتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ اس کائنات کو کس نے بنایا ہے؟ یہاں انسان کو کیا کرنا ہے‘ کیوں کرنا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب زندگی کے کسی بھی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ ان ہی سوالات کے جواب سے اسلام کے تصور کائنات کی بنیادیں سامنے آتی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جسے عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن پاک نے عقائد کے ضمن میں ان تمام بنیادی سوالات کا جواب دے دیا ہے جن کی ضرورت روز مرہ زندگی کے مسائل کے حل میں پڑتی ہے۔ عقیدے سے متعلق کوئی بنیادی سوال ایسا نہیںرہتا جس کا جواب قرآن پاک میں نہ دے دیا گیا ہو۔ بے شمار غلط فہمیاں جو عقائد کے بارے میں انسان کے دماغ میں آسکتی ہیں ان کا جواب بھی دیا ہے۔ مختلف اسلام دشمن عناصر‘ مشرکین و کفار‘ جو اعتراضات کرتے رہے ہیں‘ آج کرتے ہیں یا آیندہ کرتے رہیں گے ان کا جواب بھی ان مباحث میں موجود ہے۔

لیکن عقائد کے متعلق جو مواد قرآن پاک میں بیان ہوا ہے اول سے لے کر آخر تک اگر آپ اس کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سب تین بنیادی مسائل کے جوابات ہیں جو عقیدے کے باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

سب سے بڑا بنیادی مسئلہ توحید ہے کہ اللہ ایک ہے‘ وہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے‘ اور تمام صفات کمال سے متصف ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ہر سلیم الطبع انسان ذرا سا غور کرے تو وہ جلد ہی توحید پر ایمان لے آتا ہے۔ جب بھی کوئی صاحب ِ عقل اور صاحب ِ علم انسان تھوڑا سا غور کر کے یہ دیکھتا ہے کہ یہاں دنیا میں کیا نظام چل رہا ہے؟ کیسے یہ کائنات کام کر رہی ہے؟ تو وہ خود بخود اللہ رب العزت کی ذات تک پہنچ جاتا ہے اور اس کو یہ تسلیم کرلینے اور اس بات کا اعتراف کرلینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ اس کائنات کا ایک بنانے والا ہے۔ اس کو یہ مان لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ اس کائنات کا نظام کسی خودکار طریقے سے نہیں چل رہا بلکہ کسی چلانے والے کے حکم اور مشیت کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جب وہ یہ سب کچھ مان لیتا ہے تو پھر اس کو جلد ہی یہ احساس بھی ہو جاتا ہے کہ عقیدئہ توحید کے منطقی نتیجے کے طور پر اسے آخرت پر ایمان لانا چاہیے۔ اس لیے کہ جب ایک بار اللہ کے بارے میں یہ مان لیا کہ وہ قادر مطلق ہے تو یہ بھی ماننا چاہیے کہ وہ سمیع و بصیر ہے۔ پھر اس کو دانا بھی ہونا چاہیے‘ حکیم بھی ہونا چاہیے‘ پھر اس کے دیے ہوئے نظام میں توازن اور اعتدال بھی ہونا چاہیے۔ خود سائنس دان کائنات میں موجود اس عظیم الشان اور بے مثال توازن کو تسلیم کرچکے ہیں۔ انھوں نے اس توازن کی بڑی بڑی ایمان افروز مثالیں دریافت کی ہیں‘ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ چند فٹ بھی کم و بیش ہو جائے تو ساری کائنات درہم برہم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی قوت ضرور ہے جو توازن اور اعتدال سے اس نظام کو چلا رہی ہے‘ جس نے اس کائنات کو سنبھالا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر انسان اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو خود بخود اللہ کی ان تمام صفات تک پہنچ جائے گا جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔

جب وہ یہ سب مان لے تو پھر اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ جس خالق نے یہ کائنات پیدا کی ہے اس نے بغیر کسی مقصد کے اس کو پیدا نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کوئی مقصد کارفرما ہونا چاہیے۔ مجھے اپنے بچپن کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ قرآن کی یہ آیت اور اس کا ترجمہ پڑھا کہ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۶) یعنی ہم نے زمین وآسمان کو کھیل کے لیے پیدا نہیں کیا‘ تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کون کہتا ہے کہ آپ نے کھیل کود کے لیے پیدا کیا ہے۔ مدتوںمیرے ذہن میں یہ سوال آتا رہا کہ اتنی واضح بات کو کہنے کی کیا ضرورت تھی اور سوچتا رہا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا۔ بعد میں جب میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا تو میں نے ہندوازم میں پڑھا ‘ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات کھیل اور تفریح کی غرض سے پیدا کی ہے۔ یہ سارا سنسار رام کی لیلا ہے۔ لیلا کے معنی کھیل کے ہیں اور یہ پوری کائنات رام کا کھیل ہے۔ اس کے بنانے کی کیفیت وہی ہے جو بچوں کی طرف سے ریت کا گھروندہ بنانے کی ہوتی ہے۔ وہ محض تفنن طبع کے لیے ریت کے گھروندے بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو اسے توڑ کر چلے جاتے ہیں‘ پھر کسی اور کھیل میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ رام تفریح طبع کی خاطر طرح طرح کی دنیائیں بناتا ہے اور جب دل بھر جاتا ہے تو ان کو تباہ کرکے پھر نئی دنیا بنانے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اس نے موجودہ دنیا بھی کھیل اور تفریح کے لیے بنائی ہے جس دن اس سے اس کا دل بھر جائے گا وہ اس کو تباہ کر دے گا۔ پھر کچھ اور بنائے گا۔ جب میں نے ہندومت میں یہ بات پڑھی اس وقت مجھے پتا چلا کہ قرآن کی اس آیت میں یہ بات کیوں بیان کی گئی۔ اس سے قرآن پاک پر میرا ایمان و ایقان غیرمعمولی طور پر بڑھا‘ کیونکہ حضورؐ جہاں تشریف فرما تھے وہاں کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ ہندو نام کی کوئی قوم بھی دنیا میں پائی جاتی ہے یا ہندو قوم کے عقائد کیا ہیں اور وہ کہاں آباد ہے۔ گویا مسلمانوں کو ایک آیندہ آنے والے مسئلے کے متعلق پہلے سے بتا دیا گیا کہ یہ کائنات کسی کھیل یا تفریح کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی بلکہ الا بالحق‘ یعنی ایک واضح اور دو ٹوک مقصد کے ساتھ بنائی گئی ہے۔

اسی طرح قرآن میں بتایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان کو سات دنوں میں بنایا اور وہ ان کو بنا کر تھکا نہیں۔ ایک جگہ آتا ہے ہم پر کوئی تھکاوٹ یا نیند طاری نہیں ہوئی۔ مجھے پھر خیال آیا کہ کون یہ سوچتا ہوگا۔ اللہ تو قادر مطلق ہے اس پر تھکن کے آثار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جب میں نے بائبل پڑھی تو دیکھا اس کے شروع ہی میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ نے چھ دن میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن تھک کر آرام کیا۔ اس کو یہودی یوم السبت کہتے ہیں۔ اس دن چھٹی کرتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ قرآن میں یہ آیت کس غلطی کے ازالے کے لیے نازل کی گئی۔

دوسری اہم حقیقت جو قرآن پاک نے جابجا بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان جب صحیح رستے سے بھٹکتا ہے تو اس کے دو سبب ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کو صحیح عقیدہ معلوم نہیں ہوتا‘ دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ صحیح عقیدہ معلوم تو ہوتا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں یا تو احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے یا احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنے ہی حوالے سے دیکھتا ہے۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے لڑتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ برا ہے‘ اور اگر مجھ سے اچھا برتائو کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ اچھا ہے۔ جب انسان اپنے بارے میں احساس برتری کا شکار ہوتا ہے تو اپنے کو بڑھاتے بڑھاتے خدا مان لیتا ہے اور خود کو دوسرے انسانوں کا مالک و مختار سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے تو اس سے گمراہی کی دوسری بہت سی شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان اپنے کو بے حقیقت سمجھتا ہے تو پھر وہ گائے‘ بندر اور سانپوں تک کو دیوتا مان لیتا ہے۔ اگر انسان بڑے سے بڑا مقام چاہتا ہے تو وہ عبدیت کا ہی مقام ہے۔ اس مقام سے بڑا مقام اللہ نے کسی کے لیے نہیں رکھا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)‘ ہم نے بنی آدم کو دیگر تمام مخلوقات پر فضلیت دی ہے۔

دوسری طرف جب انسان خود کو حقیر اور ذلیل سمجھنا شروع کرتا ہے تو وہ اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ گویا انسان کی پوزیشن اور حیثیت میں توازن رکھا گیا۔ اللہ رب العزت کے بعد سب سے بڑا درجہ انسان اور تمام مخلوقات سے اونچی حیثیت انسان کی قرار دی گئی۔ لہٰذا یہ تعلیم دی گئی کہ نہ اتنے بڑے بنو کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھو‘ یا خدائی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دو‘ اور نہ اتنے چھوٹے بنو کہ اپنی کوئی حیثیت نہ سمجھو۔ بلکہ تم خدا کے جانشین اور خلیفہ کے اعزاز کے مستحق قرار دیے گئے ہو۔

خلیفہ کے لفظ کے متعلق ایک غلط فہمی بھی دُور کرنا ضروری ہے۔ خلافت اور جانشینی کے لفظ سے ایک الجھن پیدا ہوتی ہے۔ عام طور سے جب ایک صدر مر جاتا ہے تو دوسرا اس کے جانشین کے طور پر آجاتا ہے۔ کوئی پیر دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوسرا بزرگ بطور جانشین آجاتا ہے۔ لیکن اللہ تو حی و قیوم ہے‘ اس کا جانشین کیسے ہو سکتا ہے؟ اس غلط فہمی یا اشکال کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ جانشینی کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔

مفسرین نے لکھا کہ جانشینی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے اس کے غائب ہونے کی صورت میں جس نے جانشین بنایا ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے تشریفا للمستخلف کہ جس کو خلیفہ یا جانشین بنایا ہے اس کی عزت افزائی مقصود ہوتی ہے‘ اس کا احترام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مسجد میں ایک امام صاحب ایک مہمان بزرگ کی عزت افزائی کے لیے ان سے کہتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا دیں‘ یا مثلاً آپ کسی تقریب یا جلسے کی صدارت کر رہے تھے‘ آپ نے دیکھا کہ حاضرین میں کوئی صاحب بڑے معزز بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو کرسی صدارت پیش کر دی۔ اس طرح کی جانشینی دینا گویا عزت کے لیے ہوتا ہے‘ جس طرح کوئی صدر مملکت کسی شخص کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باقی لوگ بھی اس کی اسی طرح عزت کریں۔ لہٰذا یہ ایک عزت دینے کا طریقہ ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ نے انسان کو اور تمام بنی آدم کو عزت دی ہے اس لیے اس کو خلیفہ فی الارض کا خطاب دیا ہے۔

یہ وہ سوالات ہیں جو قرآن پاک نے عقائد کے بارے میں جابجا بیان کیے ہیں۔

احکام

قرآن پاک کا دوسرا اہم مبحث احکام ہے۔ قرآن مجید جو نسخۂ کیمیا لے کر آیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کو دنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی کامیاب و کامران بنانا ہے۔ دنیاوی کامیابی کے لیے قرآن مجید میں عموماً صلاح کی اور اُخروی زندگی میں کامیابی کے لیے فلاح کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس صلاح اور فلاح کے لیے ضروری ہے کہ انسانی زندگی کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت منظم ہو۔ قرآن مجید نے جو تفصیلی ضابطہء زندگی عطا فرمایا ہے وہ زندگی کے تمام پہلوئوں کو منظم کرتا ہے۔ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو صحیح خطوط پر منظم اور استوار کرنے کے لیے قرآن پاک میں ضروری اور بنیادی احکام دیے گئے ہیں۔ انسان اپنی ذاتی‘ خاندانی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ اجتماعی‘ سیاسی اور بین الاقوامی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو مفید‘ نتیجہ خیز اور بہتر بنانے کے لیے قرآن پاک نے جابجا ہدایات دی ہیں۔ قرآن پاک کی ان آیات کا جن میں اس طرح کے احکام بیان کیے گئے ہیں‘ جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ کتاب الٰہی نے انسان کی پیدایش سے لے کر موت تک زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس کے بارے میں ہدایات نہ دی ہوں۔

قرآن پاک کے یہ احکام معاشرتی ہدایات اور اجتماعی رہنمائی پر بھی مشتمل ہیں اور قانونی اصول و ضوابط پر بھی۔ اول الذکر پر عمل درآمد کا ذمہ دار خود انسان کا ضمیر اور قوت محرکہ اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس ہے۔ مزیدبرآں معاشرتی دبائو بھی انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان ہدایات پر کاربند رہے۔ ثانی الذکر احکام کی نوعیت قانونی ضوابط کی ہے جن پر عمل درآمد جہاں فرد کی ذمہ داری ہے وہاں کچھ حدود کے اندر ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔

قرآن مجید کی یہ آیات جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے اکثر وبیشتر عمومی ہدایات پر مشتمل ہیں۔ قرآن مجید نے تفصیلات کا تعرض نہیں کیا‘ اس لیے کہ تفصیلات کا تعلق حالات اور زمانے کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ یہ اُمت کے اہل علم و دانش اور فقہاے اسلام کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد اور اجماع کے اصولوں سے کام لے کر قرآن مجید کی عمومی ہدایات‘ بنیادی احکام اور اصولوں کو سامنے رکھ کر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اور سنت رسولؐ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حالات و زمانے کے مطابق تفصیلات طے کریں۔

قرآن مجید کی آیات احکام کی تعداد نسبتاً قلیل ہے۔ قرآن مجید کی کل ۶ ہزار سے زائد آیات میں ۳۰۰ کے لگ بھگ آیات ایسی ہیں جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے۔ یہ ۳۰۰ آیات وہ ہیں جن میں       براہِ راست فقہی احکام اور قانونی اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور آیات سے بھی بعض اہل علم نے بالواسطہ احکام کا استنباط کیا ہے۔ یہ آیات جن سے بالواسطہ احکام کا استنباط ہوا ہے ۲۰۰ کے قریب ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری آیات احکام مجموعی طور پر ۵۰۰ سے زائد نہیں ہیں۔ یہ تعداد قرآن مجید کی کل آیات کے ۱۳ ویں حصے کے قریب قریب ہے۔

پھر آیات احکام میں بھی زیادہ زور جن دو پہلوئوں پر دیا گیا ہے وہ عبادات اور خاندانی زندگی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آیات احکام کی ایک تہائی تعداد عبادات کے بارے میں ہے اور ایک تہائی خاندانی زندگی کے بارے میں ہے۔ بقیہ ایک تہائی کا تعلق زندگی کے بقیہ پہلوئوں سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے خاندانی زندگی کے تحفظ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ قرآن میں ہر ایسی کوشش کو جس کا مقصد خاندان میں افتراق پیدا کرنا ہو‘ شیطان کی سحرکاری قرار دیا ہے اور اس کو ایک کافرانہ عمل ٹھیرایا ہے۔

قرآن مجید اگرچہ کلیات کی کتاب ہے اور اس میں عمومی احکام اور کلی ہدایات دی گئی ہیں لیکن اس کا اسلوب کسی قانون‘ اصول قانون یا آئین و دستور کی فنی کتاب کا سا نہیں ہے۔ اس کتاب میں عمومی قانونی ہدایات و کلیات کو جزوی مثالوں اور واقعات کے پردے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے قارئین کی علمی‘ فکری اور ذہنی سطحیں بے شمار ہیں۔ اس لیے اس کا اسلوب ایسا ہے کہ اس کو ہر شخص اپنی سطح اور فہم کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔ قرآن مجید کے کلیات اور عمومی اصولوں کو حقائق زندگی کے پسِ منظر میں برتنے کا ڈھنگ ‘ سیرت اور سنت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ سنت‘ قرآن مجید کی تشریح بھی کرتی ہے‘ تفصیل بھی بیان کرتی ہے اور مجملات قرآن کی تبیین بھی کرتی ہے۔ اگرچہ سنت رسولؐ براہِ راست مستقل بالذات احکام بھی دے سکتی ہے‘ تاہم بعض بالغ نظر اہل علم کا کہنا ہے کہ سنت کے دیے ہوئے ہر حکم کی کوئی نہ کوئی اساس قرآن پاک میں موجود ہوتی ہے اور غور کرنے سے سامنے آجاتی ہے۔

اخلاقیات

تیسرا اہم مبحث اخلاق ہے جس کا تعلق انسان کے قلبی احساسات اور تاثرات سے ہے۔ انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے‘ جب کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے اس کو شدید نفرت ہوتی ہے۔ یہ پسندیدگی‘ ناپسندیدگی اور نفرت انسان کے قلبی احساسات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ احساسات بعض اوقات اچھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات خراب۔ انسان کے احساسات اچھے ہوں تو ہر چیز اس کو اچھی نظر آتی ہے۔ احساسات خراب ہوں تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو روزاسی کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اگر آپ خوش ہیں اور قلبی اور ذہنی کیفیت کے اعتبار سے انبساط کی حالت میں ہیں تو آپ کو ہر چیز اچھی نظر آئے گی‘ اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص آپ کو کوئی بری خبر سنا دے تو آپ کو سارا ماحول پژمردہ نظر آنے لگتا ہے۔ گویا انسان کا دل اس کی جذباتی زندگی میں ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک اس کے قلبی احساسات ٹھیک رہتے ہیں تو اس کو ساری کائنات ٹھیک لگتی ہے اور اگر قلبی احساسات بگڑ جائیں تو ساری کائنات بگڑی ہوئی لگتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات اپنی جگہ رہتی ہے‘ وہ جیسی پہلے تھی ویسی ہی آج بھی ہے۔ نہ وہ خوش ہوتی ہے اور نہ ناخوش‘ نہ وہ مسرت سے مچلتی ہے اور نہ کسی وجہ سے غم ناک ہوتی ہے‘ یہ محض انسان کا دل ہے جو انسان کو کچھ کا کچھ دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: دیکھو! انسان کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے‘ جب تک وہ ٹھیک رہتا ہے سارا جسم ٹھیک رہتا ہے‘ جوں ہی وہ بگڑتا ہے سارا جسم بگڑ جاتا ہے‘ اور یاد رکھو وہ لوتھڑا انسان کا دل ہے۔

یہ بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض کسی طبی اور جسمانی مفہوم میں ارشاد نہیں فرمائی ‘ اگرچہ اس مفہوم میں بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ درحقیقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی اخلاقی اور روحانی مفہوم میں ہے۔ آپؐ کا اشارہ انسان کے جذبات و عواطف اور احساس و کردار کی طرف ہے۔ انسان جذباتی طور پر متوازن رہے تو اس کی پوری زندگی توازن کا نمونہ بنی رہتی ہے‘ اور اگر کسی وجہ سے انسان جذباتی عدم توازن کا شکار ہو جائے تو پوری زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلا کہ ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے انسان کے قلبی احساسات کی درستی اور جذباتی توازن انتہائی اہمیت کی حامل چیز ہے۔

قرآن مجید نے جابجا ایسی ہدایات دی ہیں جو انسان کے احساسات کو متوازن اور جذبات کو معتدل رکھتی ہیں۔ انسان جذباتی تنائو کا شکار جن اسباب سے ہوتا ہے ان میں سے ایک ایک کا قرآن پاک میں علاج کیا گیا ہے۔ بعض اوقات مال و دولت کی فراوانی‘ اقتدار و اختیار‘ حسن و جمال‘ طاقت و قوت اور ایسی ہی دوسری مادی نعمتیں انسان کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے جابجا یہ یاد دلایا کہ یہ چیزیں جہاں خالق کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہیں وہاں یہ ایک آزمایش کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اگر ایک صاحب ایمان ان میں سے ہر نعمت کے ملنے پر شکر کا رویہ اختیار کرے تو وہ بہکنے سے محفوظ رہتا ہے۔ شکر کا رویہ نہ ہو تو ان نعمتوں کا نشہ انسان کو بہکا دیتا ہے اور وہ توازن کی راہِ راست سے بھٹک کر عدم توازن کی سنگلاخ پگڈنڈیوں پر نکل جاتا ہے‘ اور پھر جتنا وہ اس راستے پر بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے عدم توازن میں اضافہ اور زندگی کی ناکامیوں میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔

اسی طرح اگر آزمایش کی گھڑیوں میں انسان ہمت ہار جائے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے تو بھی وہ بہت جلد عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج کی اس اہمیت کے پیشِ نظر قرآن مجید نے اپنی تعلیم کا ایک اہم حصہ اس پہلو کو بہتر اور منظم بنانے کے لیے خاص کیا ہے۔ قرآن پاک کی یہ تعلیم جس کے لیے تزکیہ اور احسان کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں انسان کے جذبات و احساسات کو متوازن اور منضبط رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

تقدیر پر ایمان محض ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ انسان کو ہر نازک اور بحرانی لمحے میں زیورِاعتدال و توازن سے آراستہ رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اہل ایمان کو یہی درس دیا گیا ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر قسم کی خوشی اور غمی‘ سختی اور نرمی‘ اچھائی اور برائی‘ بیماری اور صحت‘ کامیابی اور ناکامی‘ فتح اور شکست‘ غرض سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ حتی المقدور جائز اسباب اور وسائل اختیار کرے اور نتیجے کو اللہ کی ذات پر چھوڑ کر اس کے فیصلے پر راضی رہے۔

تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ہمہ وقت ایک احساسِ حضوری کے ساتھ زندگی گزارے اور ہر لمحے یہ شعور دل میں بیدار رکھے کہ وہ خالق کائنات کی مسلسل نگرانی میں ہے۔ نگرانی کا یہ احساس اس کو نہ صرف بہت سی برائیوں اور کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اوامرالٰہی کی پابندی اور نواہی سے اجتناب میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ حضوری کی یہ کیفیت جس کو حدیث پاک میں ’’احسان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا احسان کی ہدایت کی گئی ہے اور احسان کرنے والوںکو اللہ کا محبوب بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی انھی ہدایات کی بنیاد پر اکابر اسلام نے تزکیہ و احسان    کے اصول اور قواعد مرتب فرمائے اور ان کو ایک باضابطہ علم کی شکل دی۔ علماے دین کا یہ مقدس گروہ جن کو علامہ اقبالؒ نے اسلام کے ماہرین نفسیات قرار دیا ہے‘ انسانی نفس‘ اس کے رجحانات اور رغبات و مکائد پر غور کرتا رہا ہے۔ ان حضرات نے انسانی کمزوریوں کا پورا پورا احساس و ادراک کرتے ہوئے تزکیہ و احسان کے حصول کے لیے بہت سی تدابیر تجویز فرمائیں جن کو ایک جداگانہ فن کی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ دیگر انسانی کاوشوں کی طرح اس فن میں بھی بہ تقاضا بشری بہت سا رطب و یابس داخل ہو گیا۔

ایام اللّٰہ (عروج و زوال)

قرآن پاک کا چوتھا بنیادی مبحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں ’’ایام اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایام اللہ سے مراد دنیا کی تاریخ میں مسلسل جاری رہنے والا وہ نشیب و فراز ہے جو اللہ کی سنت کے مطابق دنیا میں جاری ہے جس کے نتیجے میں افراد اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر طالب علم اس بات کو جانتا ہے کہ اس کتاب میں اقوام سابقہ اور انبیاے سابقین میں سے بہت سوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سورۂ فاتحہ سے ہی ان دونوں قسم کے انسانوں کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے راستے پر چلائے جن پر اس نے انعام فرمایا اور ان لوگوں کے راستے سے محفوظ رکھے جن پر اس کا غضب نازل ہوا‘ یا وہ راہِ راست سے بھٹک گئے۔ یوں کتاب الٰہی کے آغازہی سے اللہ کے مقبول بندوں کا تذکرہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں کا بھی۔ پھر آگے چل کر قرآن پاک میں بڑی تفصیل سے جابجا انبیا علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کا ذکر بھی کم نہیں۔ چنانچہ فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ ہامان‘ قارون اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ یہ تذکرہ کہیں نام لے کر کیا گیا اور کہیں نام لیے بغیر۔

انبیا علیہم السلام کے تذکرے میں ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا میں سے کم و بیش ۲۶ کا تذکرہ قرآن پاک میں ملتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا علیہم السلام میں سے ۲۶ کا انتخاب کس بنیاد یا کس حکمت کے تحت کیا گیا؟ اسی طرح جن ناپسندیدہ افراد کا ذکر ہے ان کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا؟

انبیا علیہم السلام میں سے جن جن کے اسماے گرامی قرآن پاک میں آئے ان کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بعض خاص خاص اوصاف و امتیازات کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام دعوت دین میں استقلال اور تحمل کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ حضرت ایوب  علیہ السلام صبر کی صفت کے مظہر ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ذات میں صفات زہد و فقر نمایاں ہیں‘ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی ذات میں شکر کا نمونہ ملتا ہے۔ ان تمام اوصاف حمیدہ کے چلتے پھرتے نمونے ان انبیا علیہم السلام کی صورت میں قرآن پاک میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ایک قاری جب کتاب الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے سامنے بار بار مجسم اچھائیوں اور سراپا خوبیوں کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں۔ ایک قاری یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نیک بندے کو اقتدار سے نوازتا ہے تو اس کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی سنت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مال و دولت اور انعامات کی فراوانی عطا فرماتا ہے تو اس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا رویہ اپنانا چاہیے۔ دین کی خاطر گھربار اور وطن چھوڑنا ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ پیشِ نظر رہتا ہے۔ یوں اس کی نظر میں یہ مثالیں اور نمونے ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے انبیا علیہم السلام کے واقعات ہر وقت اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ خود ان کا مشاہدہ کر رہا ہو۔

سابقہ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ ایام اللہ کے ضمن میں قرآن مجید میں سیرت نبویؐ کے اہم واقعات بھی محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ہر قاری روحانی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ چشمِ تصور سے بدروحنین کے معرکے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہجرت کے مناظر تازہ رہتے ہیں۔ وہ غزوئہ اُحد میں صحابہ کرامؓ کی پریشانی اور سراسیمگی کو محسوس کرتا رہتا ہے‘ اور یوں وہ چشمِ تصور سے واقعات سیرت کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس کو مسلسل مہمیز ملتی رہتی ہے۔ اس گہری اور مسلسل روحانی وابستگی اور چشمِ تصور کے ذریعے اس مشاہدے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کے عقائد اور اخلاق اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں انبیا علیہم السلام کی سنت سے مسلسل رہنمائی حاصل کرتے رہنا اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔

اس کے برعکس جن لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا ان کو کس انجام کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ بات بھی قرآن کے قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی۔ قرآن مجید میں اس غرض کے لیے جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ان میںہر ایک انحراف اور سرکشی کے ایک خاص انداز کی نمایندگی کرتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں انسان راہ راست سے بہک جائے تو کہاں جا کر دم لیتا ہے۔ یہ چیز فرعون کے انجام کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ مال و دولت کی بہتات کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ چیز قارون کے انجام سے پتا چلتی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اپنے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ اقتدار‘ لیکن اس کو کسی صاحب ِ اقتدار کی مصاحبت میسر آجاتی ہے‘ شہر میں اس کی اپنی کوئی آبرو نہیں ہوتی لیکن شاہ کا مصاحب بن کر اتراتا پھرتا ہے اور یوں اس کا ذہن فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید میں ہامان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہامان‘ فرعون کا مصاحب تھا اور صحبت شاہ نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا۔

ان چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے لوگوں کی رشتے داری بھی بعض اوقات انسان کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن مجید نے مختلف رشتے داریاں بیان کر کے یہ بتایا ہے کہ کسی کی محض رشتے داری نہ انسان کو اچھا بنا سکتی ہے اور نہ بُرا‘ اگر وہ خود اچھا یا بُرا نہ بننا چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مشہور اور بڑی شخصیتوں کے رشتے داروں کا تذکرہ بھی اس سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ‘ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے‘ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا تذکرہ اللہ کے باغیوں کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے تمام قریبی اعزہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور اسلام کے سابقین اولین میں شامل ہوئے۔ البتہ آپؐ کا ایک بدنصیب چچا ابولہب تھا جو اس فہرست میں شمولیت کا مستحق  نہ ٹھیرایاگیا۔ اچھے لوگوں کے نالائق رشتے داروں کے ساتھ نالائق لوگوں کے اچھے رشتے داروں کا ذکر بھی   کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کی تمام تر گمراہیوں اور سرکشیوں کے باوجود اس کی اہلیہ محترمہ آسیہ تقویٰ اور دین داری کے بہت بلند معیار پر فائز رہیں اور ان کو نیکی اور اخلاص کی ایک لازوال مثال کے طور پر بیان کیا گیا۔

یہ تمام واقعات و تفصیلات عبرت اور سبق آموزی کی خاطر بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کا صرف اتنا حصہ بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا جو سبق آموزی کے لیے مفید اور ناگزیر تھا۔ ان واقعات کی وہ تفصیلات جو سبق آموزی کے لیے ضروری نہ تھیں نظرانداز کر دی گئیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘ یہ کوئی تاریخ یا آثارِ قدیمہ کی کھتونی نہیں۔

زندگی بعد موت

قرآن مجید کا آخری بنیادی مبحث مرنے کے بعد دوسری زندگی کے حالات اور ان کی تفصیلات ہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مضمون عقائد سے تعلق رکھتا ہے‘ اس لیے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تعلق عقیدئہ آخرت ہی سے ہے۔ لیکن چونکہ قرآن نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس لیے علماے کرام اور مفسرین نے اس کو ایک جداگانہ مبحث قرار دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس کے لیے تذکیر بالموت ومابعد الموت کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ حیات بعد الموت کی تفصیلات بیان کرنے‘ ان کو ذہن نشین کرانے اور عقیدئہ آخرت کو اہل ایمان کے رگ و پے میں سمو دینے میں کوئی اور مذہبی کتاب قرآن مجید کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔   قرآن مجیدنے جس تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ قیامت کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے وہ نہ صرف مذہبی لٹریچر کی تاریخ میں بلکہ ادبیات عالم میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ نہ صرف مسلمان علما بلکہ غیرمسلم اہل علم نے بھی قرآن پاک کے اس پہلو کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ بیسویں صدی کے مسلمان ادیبوں اور محققین میں مصر کے سید قطب شہیدؒ کا نام اس معاملے میں بڑا نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب  مشاہد القیامہ فی القرآن میں قرآن پاک کے اس پہلو پر انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ انداز سے گفتگو کی ہے۔

روز قیامت کے مناظر و مشاہد قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں سے لے کر آخر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سکرات موت کا تذکرہ بھی ہے۔ مرنے کے بعد عالم برزخ کے سوال و جواب‘ قبر کی کیفیات و تجربات‘ مرنے والے کے روحانی احساسات سے لے کر جنت اور دوزخ کے مناظر تک ہر ہر مرحلے کی جھلکیاں موجود ہیں۔

یوں تو یہ مضمون قرآن مجید کے ہر حصے میں ملتا ہے لیکن مکی سورتیں اس معاملے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مکی سورتیں یوں بھی اپنے غیرمعمولی زوربیان‘ خطیبانہ اسلوب اور اثرانگیزی میں ممتاز ہیں۔ یہ اسلوب‘ یہ انداز اور یہ اثرانگیزی مناظر قیامت کے ضمن میں سہ آتشہ بلکہ چہار آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صاحب ایمان جو عربی زبان کا فہم رکھتا ہو اور قرآن مجید کے مضامین سے واقف ہو‘ ان آیات کو پڑھے اور ان سے اثر نہ لے۔ ایسے واقعات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں کہ اللہ کے نیک بندے    آیاتِ قیامت کو پڑھ کر یا سن کر تڑپ تڑپ گئے‘ بے قابو ہو گئے اور دھاڑیں مار مار کر رو پڑے۔ ایسے واقعات بھی لاتعداد ہیں جن میں آیاتِ قیامت کو پڑھنے یا سننے والے بیہوش ہو کر گر پڑے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بعض حساس اور تقویٰ شعار بزرگ تمام رات ایک ہی آیت کو دہراتے رہے۔ یہی ان آیات کا مقصد ہے اور شاید اسی لیے یہ خصوصی انداز اس مضمون کے ضمن میں اختیار فرمایا گیا ہے۔

یہ ہیں وہ پانچ بنیادی مباحث و مضامین جن سے قرآن پاک میں بیشتر آیات اور سورتوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کلام کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہرمضمون کا تعلق قرآن مجید کے اصل مقصد اور نفس مضمون سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ‘یعنی انسان!

 

عالم کے پروردگار نے انسانیت پر بیش بہا احسانات کیے۔ ان میں سے چند کا تذکرہ خصوصیت سے کیا۔ حکمت بھی انھی نعمتوں میں ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ ارشاد باری ہے:  یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’(اللہ) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘ اور جسے حکمت ملی اسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی طرح اللہ نے اپنے نیک بندے لقمان کا ذکر کیا کہ انھیں حکمت عطا کی گئی۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اللہ نے سلطنت اور حکمت سے نوازا۔ حکمت کی یہی دولت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دی گئی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی۔ قرآن کا بیان ہے کہ اس نعمت سے جملہ انبیا و مرسلین سرفراز ہوئے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف اس نعمت کا حظ وافر عطا کیاگیا بلکہ یہ بات آپؐ کے فرائض نبوت میں شامل کر دی گئی کہ اُمت کو بھی اسی کی تعلیم دیں: وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’اور یہ رسول تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ اس کے بعد اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط  (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔

نبی کریمؐ نے فرمایا ہے: ’’حکمت کی بات مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جہاں سے ملے وہ اُس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ترمذی)۔ دانائی کا اعلیٰ ترین مقام اللہ کا خوف ہے۔

امام مالکؒ نے اپنی  مؤطا میں حضرت لقمان ؑکا یہ قول نقل کیا ہے: بے شک اللہ حکمت کے نور سے دلوں کو زندگی بخشتا ہے جیسے کہ وہ آسمان کی بارش سے مردہ زمین کو زندگی عطا کرتا ہے۔

حکمت سے مراد: مفسرین قرآن کے نزدیک حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ ہے (علامہ ابن کثیر)۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے حکمت اس قوت اور صلاحیت کو کہا ہے جس سے انسان معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اسی کے ثمرات میں سے ہے۔ اہل عرب حکمت کا لفظ اس قوت اور صلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت کی جامع ہو‘ چنانچہ دانش مند آدمی کو حکیم کہا جاتا ہے۔مولانا مودودیؒ کے نزدیک حکمت کا لفظ وسیع ہے‘ جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبیؐ لوگوں کو سکھاتے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے مطابق حکمت سرتاسر قرآن ہی سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ ان کے نزدیک جو لوگ حکمت سے مراد حدیث لیتے ہیں ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔علامہ شاطبیؒ کے نزدیک کتاب سے مراد شریعت ہے اور حکمت سے مراد وہ فلسفہ ہے جو شریعت کے فوائد و ثمرات کو واضح کرتا ہے۔

سید قطبؒ کے مطابق حکمت تعلیم کتاب کا نتیجہ اور ایسا ملکہ ہے جو تمام معاملات کو ان کی جگہ رکھنے اور تمام امور کو ان کی اصل قیمت اور وزن دینے کی صلاحیت عطا کرتا ہے اور یہ فہم عطا کرتا ہے کہ ان احکامات و ہدایات کا اصل منشا کیا ہے۔

چنانچہ حکمت کے معنی دین کی سمجھ بوجھ‘ تفقہ فی الدین کے بھی ہیں اور معاملات میں فہم و فراست اور قوت فیصلہ کے بھی ہیں‘ ہر قدر کو پرکھنے کی صلاحیت کے بھی ہیں اور چیزوں کا اصل وزن اور قیمت معلوم کرنے کے لیے درکار بصیرت کے بھی‘ نیز اخلاق و کردار میں پختگی‘ طور اطوار میں شرافت اور تہذیب میں شائستگی بھی حکمت ہے۔ ان سب معاملات میں ساری انسانیت کے لیے نبیؐ کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ حکمت ہے اور سب سے بڑھ کر دانائی اللہ کا خوف اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے ۔ گویا حکمت کتاب اللہ  سے الگ اپنا مستقل مقام رکھتی ہے اور حکمت کے نتیجے میں ہی انسان کے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حکمت کی معراج اللہ کا خوف ہے‘ نیز حکمت ہی کے ذریعے انسان شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

حکمت کی ضرورت: دین کا تعلق انسان کی ساری زندگی سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دین ہر دور‘ ہر علاقے میں رہنے بسنے والوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے اس کا نظام ایسا بنایا کہ ہر دور‘ ہر علاقے اور ہر قسم کے انسانوں کی سوچ‘ فکر اور عمل کے دائروں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ نیز انسان خواہ اونٹ پر سفر کرنے والا ہو یا جیٹ جہاز میں‘ کسی بھی دور اور کسی بھی جگہ کا انسان اس دین پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیچھے جاتا ہوا یا وقت کے دھارے سے کٹتا ہوا محسوس نہ کرے‘ بلکہ ہر پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کر سکے اور ہر جدت یا ایجاد کو (اگر وہ دین کے مجموعی نظام سے ہم آہنگ ہو) خوش آمدید کہہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے صرف ان امور کی تفصیلات بیان کیں جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھیں‘ جب کہ دیگر معاملات میں صرف اشارات دیے اور رہنما اصول قائم کیے‘ مثلاً وراثت کے احکامات تو نہایت وضاحت سے دیے‘ حلال و حرام کا تعین نہایت صراحت سے کیا (کیونکہ یہ امور ہر جگہ اور ہر دور کے لیے ناقابلِ تغیرتھے) لیکن سیاست‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے لیے صرف رہنما اصول دیے جن کی روشنی میں تفصیلات مرتب کی جا سکتی ہیں۔

اسی روش کی تعلیم آپؐ نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو دی۔ جب ان کو یمن کا گورنر مقررکیا تو پوچھا کہ معاملات کیسے حل کرو گے؟ انھوں نے جواب دیا: قرآن کی روشنی میں۔ فرمایا: اگر وہاں نہ پائو‘ تو۔ وہ بولے: رسولؐ اللہ کی سنت میں دیکھوں گا۔ فرمایا: اگر وہاں بھی نہ ملے‘ تو۔ بولے: اپنی رائے سے معاملہ حل کروں گا اور اس کوشش میں ہرگز کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر آپؐ نے انھیں شاباش دی اور اس طریقۂ کار کو اُمت کے لیے پسند فرمایا۔ چنانچہ دین کے معاملات میں حکمت کی دوہری ضرورت ہے‘ یعنی جو احکامات واضح ہیں ان کو ٹھیک سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے بھی اور جو واضح نہیں ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنے کے لیے بھی۔

اگر غورکیا جائے تو دین کے نظام میں چند بنیادی حکمتیں کارفرما ہیں۔ ان کو سمجھے بغیر دین سمجھنا مشکل ہے۔

دین آسان ہے

سب سے پہلی چیز جو دین کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ دین آسان ہے۔ انسانوں کے بس میں ہے۔ اس کا کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو انسانوں کے بس سے باہر ہو۔ چنانچہ فرمایا:  وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰیج (الاعلٰی ۸۷:۸) ’’اور ہم تمھیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں‘‘۔ اس کو نبیؐ نے اپنی تاکید سے مزید واضح فرمایا:  یسّروا ولا تعسّروا ’’دین میں آسانی پہنچائو‘ تنگی پیدا نہ کرو‘‘۔ اسی چیز کو آپؐ نے مستقل سنت کے طوراپنایا۔ ہمیشہ دو راستوں میں سے آسان راستے کا انتخاب کیا۔ دو کام پیش نظر ہوتے تو پہلے آسان کام سرانجام دیتے۔ نماز اور کھانا ایک وقت میں آجاتے تو پہلے کھاناکھا لیتے۔ گویا رہبانیت کا یہ تصور کہ زیادہ تکلیف اور مشقت میں زیادہ ثواب ہے‘ اسلام کا تصور نہیں۔

فتح مکہ کے سفر میں چونکہ رمضان تھا‘ صحابہؓ کی سہولت کے پیش نظر آپؐ نے سرعام روزہ افطار کیا۔ آپؐ کی دیکھا دیکھی صحابہؓ نے بھی افطار کرلیا۔ لیکن کچھ لوگ روزے سے رہے۔ جب پڑائو پر پہنچے تو جو افطار کر چکے تھے انھوں نے سارا کام جلدی سے کیا‘ جب کہ روزہ دار نڈھال تھے۔ آپؐ نے فرمایا: آج سارا ثواب ان افطار کرنے والوں نے لوٹ لیا‘ یعنی روزے دار اس اجر سے محروم رہ گئے۔ گویا ثواب اور اجر کا تعلق ظاہری عمل کے بجائے انسان کی نیت اور اتباع سنت سے ہے۔ چنانچہ وہ کام جو اتباعِ سنت میں کیا جائے‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے آسان اور دل چسپ ہی کیوں نہ ہو‘ بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔

یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ دین کے بعض مطالبات مشکل کیوں نظر آتے ہیں‘ جب کہ دین کو آسان کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ جہالت‘ لاعلمی اور فکرآخرت سے غفلت ہے۔ جیسے ہی انسان جہالت سے نکل کر علم کی روشنی میں آتا ہے‘ اسے حکمت کی دولت ملتی ہے تو وہ سنور جاتا ہے۔ چنانچہ دین کے وہ مطالبات جو اس سے پہلے اس کے لیے وبال جان تھے اب اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا سامان بن جاتے ہیں۔ اسی چیز کو قرآن نے یوں بیان کیا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّعَلَی الْخٰشِعِیْنَ o  الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o  (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) ’’صبراور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ سخت مشکل کام ہیں‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔

احکام میں تنوع اور لچک

دوسری چیز جو کتاب و سنت کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دین انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ انسانی فطرت لچک اور تنوع کی خواہاں ہے۔ چنانچہ دین کے تمام احکامات میں انسان کی اس فطری خواہش بلکہ ضرورت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ نمازوں کے اوقات متعین کرتے وقت اول و آخر وقت کی نشان دہی کر دی گئی تاکہ انسان ان کے درمیان کسی وقت پڑھ لے۔ کسی گناہ کا کفارہ بتایا تو متعدد یا کم از کم دو متبادل بتائے‘ مثلاً رمضان کا روزہ قصداً توڑ دیا تو دو ماہ مسلسل روزے رکھو اور اگر یہ نہ کر سکو تو ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ نماز کے لیے وضو کرو‘ لیکن اگر عذر اور مجبوری ہو تو تیمم کرلو۔ حرام چیزوں کو صراحت کے ساتھ واضح کیا لیکن اضطرار کا دروازہ کھلا رکھا۔ اسی طرح فرائض کا بار کم سے کم رکھا اور سنن و نوافل میں زیادہ کم پڑھنے کی آزادی دی۔ اعمال سرانجام دیتے ہوئے اگر ممکن ہوا تو ایک سے زائد انداز اختیار کیے‘ مثلاً نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے‘ ناف پر بھی اور کھلے بھی چھوڑے تاکہ جسے جو ادا پسند آئے‘ اپنا لے۔ حج کے موقع پر جب لاکھ سے اوپر لوگ موجود تھے‘ بعض افراد نے سر منڈوانے‘ قربانی کرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے کی ترتیب کے بارے میں پوچھا کیونکہ لوگوں نے یہ کام ہجوم کی وجہ سے مختلف ترتیب سے کیے تھے۔ آپؐ نے سب کو ایک ہی جواب دیا: لا باس‘ یعنی کوئی حرج نہیں۔ گویا اس بھیڑ میں اہمیت ترتیب کی نہیں عمل کی ہے۔

دین میں ترجیحات

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی کہ دین کے مآخذ صرف دو ہیں‘ اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت۔ جو چیز ان سے ثابت ہے وہی دین ہے‘ اور جو عمل جس درجے میں رکھا گیا اس کی اہمیت وہی ہے۔ جو مقام فرض کا ہے وہ سنن کا نہیں‘ جو درجہ جہاد کا ہے ذکر و تسبیحات کا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم امور میں اطاعت کا حکم دیا گیا لیکن باقی معاملات میں اتباع کا تصور دیا‘ یعنی جو آپؐ کی محبت میں جس قدر بڑھ جائے‘ اور آپؐ کی عادات واطوار جس قدر اپنا لے یہ اس کا اپنا ظرف ‘اپنا شوق اور اپنی محنت ہے۔ اس کے بارے میں کوئی معیار اور پیمانہ مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

نیکی اور بدی کا جامع تصور

یہ تصور بھی ذہن نشین کرایا گیا کہ نیکی صرف چند خاص اعمال سرانجام دینے کا نام نہیں بلکہ اس کا میدان وسیع ہے۔ چنانچہ زندگی کا ہر کام اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق کیا جائے تو وہ نیکی ہے‘ چاہے وہ اپنے نفس کے حقوق کی ادایگی ہو‘ والدین اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال ہو‘ یا کوئی اور چھوٹے سے چھوٹا عمل‘ بلکہ فرمایا: لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلیق (مسلم) ’’نیکی کے کسی (چھوٹے) کام کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ چاہے یہ اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اسی طرح کسی کے ساتھ زیادتی‘ جھوٹ‘ بہتان‘ غیبت یا وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل جس سے کسی بے گناہ انسان حتیٰ کہ جانور کو بھی ضرر پہنچے‘ گناہ ہے۔ فرمایا:  ا لمسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

حلال و حرام کے معاملات

حلال و حرام کا مسئلہ چونکہ بہت اہم اور حساس ہے لہٰذا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس باب میں یہ اصول بتایا گیا کہ تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں‘ اور نجس چیزیں حرام ہیں۔ سابقہ شریعتوں میں بھی یہ چیزیں وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی تھیں لیکن ان اُمتوں نے ان معاملات میں خود اپنی خواہشات کا اتباع شروع کر دیا اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئے۔ یا تو اتنے جری ہوئے کہ حرام چیزوں کو حلال ٹھیرانے لگے اور یا اتنے متشدد کہ حلال چیزوں کوحرام قرار دے دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے ان معاملات کو ایک بار پھر واضح فرمایا: الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط (الاعراف ۷:۱۵۷) ’’(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

حلت و حرمت کے ان قوانین کا آخری مجموعہ سورہ مائدہ میں نازل کیا گیا جو کہ مدنی دور کے آخر میں نازل ہوئی‘ ساتھ ہی دین کی تکمیل کا مژدہ جانفزا بھی سنا دیا گیا۔ گویا حلال و حرام کا یہ قانون قطعی اور اٹل ہے۔ اس میں اب ترمیم نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ اس بات سے بھی شدت سے منع کیا گیا کہ اس قانون کو چھیڑا جائے یا اس میں رد و بدل کی کوشش کی جائے‘ یہاں تک کہ آپؐ کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ فرمایا:  یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج (التحریم ۶۶:۱) ’’اے نبیؐ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے‘‘۔

جو چیز منع نہیں وہ مباح ہے

یہ تعلیم دی گئی کہ جس چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ کسی بھول چوک کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تم پر نظرکرم کرنا چاہتا ہے۔ وہ علیم و حکیم ہے‘ سمیع وبصیر ہے‘ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں‘ کوئی امر اس کے احاطۂ علم سے باہر نہیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو اور بہت زیادہ سوال کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر کسی چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے تو یہ اس کی جانب سے تمھارے لیے رحمت ہے‘ اس کا فائدہ اٹھائو۔

اصلاح و تربیت کے چند پہلو

سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا جائے تو آپؐ کی سیرت حکمت کے مظاہر سے بھرپورنظر آتی ہے۔ آپؐ نے انسانوں کو جس طرح جمع کیا‘ منظم کیا‘ ان کی تربیت فرمائی‘ انھیں اپنے وقت کا قائد اور امام بنا دیا۔ اس سارے کارنامے کا راز اگر معلوم کرنا ہے تو قرآن نے اسے پہلے ہی افشا کر دیا ہے۔ فرمایا:  فَبِمَا رَحْمَۃٍ  مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (آل عمران ۳:۱۵۹) ’’یہ توسراسر اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے نرم خو ہیں‘ اگر آپؐ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے‘‘۔ نیز فرمایا:  لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۲۸) ’’تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ۔تمھارا نقصان میں پڑنا اسے ناگوار ہے‘ تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور مہربان ہے‘‘۔

خرم مراد مرحوم نے اصلاح معاشرہ میں حکمت رسولؐ کے عنوان سے سیرت النبیؐ سے ایسے واقعات جمع کیے ہیں۔ ایک بدو آیا اور مسجد نبویؐ کے صحن میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ صحابہؓ اس کی طرف لپکے لیکن آپؐ نے انھیں منع کر دیا۔ جب وہ فارغ ہوگیا تو اسے پاس بلا کر بٹھایا اور مسجد کے آداب کی تعلیم دی۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ گندگی کو پانی بہا کر صاف کر دیں۔ ساتھ ہی فرمایا: تم خوشی اور بشارت دینے والے ہو‘ تنگی اور مشکل پیدا کرنے والے نہیں۔

اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھ کر آج کی مساجد میں جاری اصلاحی سرگرمیوں کا جائزہ لیجیے‘ کوئی پتلون پہن کر نماز کے لیے آجائے‘ یا ننگے سرہو‘ یا معصوم بچہ اگلی صف میں چلا جائے‘ اس کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ ہماری اجتماعی سوچ اور ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

تالیف قلب کا تصور

انسانوں کی اصلاح کرتے وقت آپؐ نے ان کے دلوں کو نرم کرنے اور نفوس کو رام کرنے کے لیے تالیف قلب کا قرآنی تصور مدنظر رکھا اور افراد کی دلجوئی کا حتی المقدور اہتمام کیا۔ سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر میں سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر لکھتے ہوئے سیرت کا دل چسپ واقعہ نقل کیا ہے۔

ایک بدو آپؐ کے پاس آیا اور کچھ مانگا۔ آپؐ نے اسے کچھ دے دیا اور پوچھا: کیا میں نے تم سے اچھا سلوک کیا؟ بدو نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ مسلمانوں کو اس پر غصہ آگیا اور وہ (اسے مارنے کے لیے) بڑھے۔ آپؐ نے اشارے سے انھیں روک دیا۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے۔ بدو کو بلایا اور اسے کچھ اور عطا کیا جس پر وہ خوش ہو گیا اور آپؐ کے حق میں کلماتِ خیر کہے۔ آپؐ نے اسے کہا کہ یہی بات میرے ساتھیوں کے سامنے بھی کہہ دو تاکہ ان کے دلوں سے بھی رنجش نکل جائے۔

اگلے روز اس نے آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے بھی یہی بات کہہ دی۔ تب رسولؐ اللہ نے فرمایا: میری اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص کی اونٹنی اس سے بھاگ گئی۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے تو وہ اور دُور بھاگ گئی۔ پھر مالک کچھ گھاس لے کر آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ اسے واپس لے آیا۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ تب اس نے اس پر کجا وہ کسا اور سوارہو گیا۔ تو اگر میں تمھیں چھوڑ دیتا اور تم اس شخص کو قتل کر دیتے تو یہ دوزخ میں پہنچ جاتا۔

بطور قائد‘ دشمنان اسلام کے سا تھ رویہ

آپؐ کی سیرت کا اگر اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود آپؐ نے ایک اسلامی ریاست قائم کی۔ اس کے بعد تقریباً ایک عشرے تک مسلسل تگ و تاز میں مصروف رہے لیکن اس دوران کم سے کم قوت استعمال کر کے‘ کم سے کم خون بہا کر ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ اس کی نظیر لانا ممکن نہیں۔

آپؐ نے دشمن کی نقل و حرکت پر بھرپور نظر رکھی اور اس کے عزائم کا بروقت نوٹس لیا۔ ہمیشہ دشمن کی توقع سے پہلے غفلت کی حالت میں اسے جا پکڑا۔ خبررسانی اور جاسوسی کا بہترین نظام قائم کیا اور فرمایا: الحرب خدعہ‘ جنگ تو چالوں سے لڑی جاتی ہے۔

ٹکرائو سے حتی الامکان اجتناب کیا‘ گرہیں کھولنے کی کوششیں کی۔ بند راستوں سے ٹکرانے کے بجائے انھیں وا کرنے کی سعی فرمائی۔ ہر معاملے میں متعدد راستوں کی نشان دہی فرمائی۔ خود قرآن نے اس بارے میں رہنمائی فرمائی۔ فرمایا: دشمن کے سامنے کمزوری نہ دکھائو۔ اسے صلح کی پیش کش نہ کرو لیکن اگر دشمن صلح چاہے تو یہ پیش کش قبول کر لو۔

دشمن کے ساتھ معاہدات کا بھرپور احترام کیا لیکن اگر ان معاہدات میں کچھ کمزور پہلو رہ گئے تو ان کا فائدہ اٹھایا۔ صلح حدیبیہ میں یہ شق کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے تو اسے واپس کیا جائے گا‘ اس کا پورا احترام کیا گیا۔ لیکن جب خواتین مکہ سے بھاگ کر آئیں تو انھیں واپس نہ کیا اور کہا کہ معاہدے میں خواتین کا ذکر نہیں۔

دشمنان اسلام سے یکساں رویہ نہیں رکھا بلکہ وقت اور حالات کے پیش نظر اس میں نرمی و سختی آتی رہی۔ اہل کتاب اور مشرکین سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکامات قرآن میں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ اہل کتاب سے احسن انداز میں گفتگو کرنے اور انھیں مشترکہ بنیادوں کی طرف دعوت دینے کے احکامات بھی موجود ہیں‘ نیز مشرکین کے بارے میں بھی صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے مواقع پر نرم رویے کی مثالیں موجود ہیں۔

یہ ہے حکمت کا وہ بھرپور خزانہ جس کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ آج کے دور میں اسلامی تحریک کو دین کی دعوت ‘جو کہ اجنبی بن چکی ہے‘ عام فہم‘ پُرکشش اور موثرانداز میں پیش کرنا ہے۔ پوری ملت کے اندر ایک نئی تڑپ پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر دیارِ مغرب کا رخ تبدیل کرنا ہے اور ان کے سامنے اس بیش بہا خزانے کو رکھنا ہے۔ اس عظیم تر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت دین کو سمجھنا اور ہرمعاملے میں ملحوظ خاطر رکھنا ازبس ضروری ہے۔

 

شوال کا چاند ہلال عید بن کر ہر آنگن میں اُتر رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ،   اے اللہ! اس چاندکو ہمارے لیے امن و سلامتی‘ خوش حالی و فراخی کا موجب اور ایمان میں اضافے اور استقامت کا باعث بنا--- وَالْسَّلاَمَۃِ وَالْاِسْلاَمِ --- اور سلامتی ٔ روح و جسم‘ فکروشعور اور اطاعت و فرماں برداری‘ تسلیم و رضا کا پیغام بر بنا۔ وَالْتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی--- اور اس چاند کے ذریعے طلوع ہونے اور شروع ہونے والے مہینے میں اپنی رضا و پسند کے کاموں کی توفیق سے نواز۔ اے ہلال عید!  رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ --- ہمارا اور تمھارا آقا‘ پروردگار اور پالنہار‘ مالک و مختار صاحب ِ شان و شوکت اللہ جل جلالہ ہی ہے!

عیدالفطر کی روشن صبح طلوع ہو رہی ہے۔ اہل ایمان کو مبارک ہو!

عیدالفطر--- اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے!  لِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ--- رمضان کے مہینے میں ہدایت کی شاہراہِ مستقیم پر چلنے کے بے شمار مواقع عطا کرنے والے    اللہ کے احسانِ عظیم کا بس ایک ہی تقاضا--- ہر شاہراہ پر ‘ ہر گلی محلے‘ بازارو دکان‘ ہر گھر اور مکان میں--- زمین کے ہر کونے اور ہر گوشے میں اعلانِ عام---  اللّٰہُ اَکْبَرْ--- اللہ ہی بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ---   اللہ ہی بڑا ہے--- لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ --- اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی ‘ اطاعت و فرماں برداری‘    سجدہ و رکوع‘ حمدوثنا‘ عزت و عظمت‘ شان و شوکت‘ غلبہ و اقتدار‘ حکم و اختیار کا سزاوار نہیں---!!      وَاللّٰہُ اَکْبَرْ--- فی الحقیقت وہی بڑا ہے۔ سب سے بڑا--- کائنات کا ذرہ ذرہ ‘بروبحر‘ شجروحجر‘ شمس و قمر‘ زمین و آسماں‘ گلستان و بیاباں--- سب زبانِ حال و قال سے یہی گواہی دے رہے ہیں کہ وہی --- صرف وہی--- سب سے بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ--- اور سب عظمتیں‘ تعریفیں‘ بزرگیاں اُسی کے لیے ہیں!!

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ--- بندئہ مومن سرِنیاز خم کر دے اپنے حمدوثنا کے سزاوار رب کے حضور! اس کی اَن گنت بخششوں اور عطائوں کے اظہار شکر کے لیے! تسبیح--- تسبیح کے دانوں پر بھی--- اور دشمنانِ حق کے ٹھکانوں پر بھی--- نفس کے بت خانوں اور شیطان کے آستانوں پر بھی--- کفر کے قانون‘ معاشرے کے رسوم و رواج‘بے حیائی کے مراکز‘ ظلم وجبر کے ایوانوں پر بھی--- حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ--- فتنوں کی مکمل سرکوبی تک!

عیدالفطر--- اہل ایمان کی بخشش کا دن ہے! ارشاد نبویؐ ہے جب لوگ عید کی نماز پڑھ چکتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے: اَلَا اِنَّ رَبَّکُم قَدْ غَفَرَ لَکُمْ--- سنو لوگو! تمھارے رب نے تمھیں بخش دیا ہے۔ فَارْجِعُوْا رَاشِدِیْنَ اِلٰی رِحَالِکُمْ--- پس اب کامیاب و کامران اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ فَھُوَ یَوْمَ الْجَائِزَۃِ--- یہ دن تمھارے لیے انعام کا دن ہے! اِس دن کو فرشتوں کی دنیا--- یعنی آسمان--- میں انعام کا دن کہا جاتا ہے۔

عیدالفطر--- اہل ایمان کی یک جہتی اور اتحاد کا مظہر ہے۔ سب اہل اسلام روشن صبح کے نکھرے اُجالوں میں اُجلے کپڑوں اور اُجلے دامن کے ساتھ--- ایک ہی نغمہ و ترانۂ عظمت ِ الٰہی گاتے--- کھلے میدانوں میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر‘ ایک ہی مالک کے حضور سجدئہ شکر و امتنان بجا لاتے ہیں۔ کشادہ سینوں میں محبت و اخوت کے زمزمے رواں‘ نفرتیں دُور‘ دشمنیاں ختم اور اخلاص و محبت کا اظہار‘ مصافحے‘معانقے‘ مبارکباد--- یہ سب اُمت کے جسد واحد اور بُنیانٌ مَرْصُوْص ہی کی تو تصویریں ہیں!!

عیدالفطر --- اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر دشمنی کے عملی اظہار کے ذریعے تکمیلِ ایمان کا موقع ہے۔ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأعَطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ--- یہ دن ایمان سے محبتوں‘ دوستیوں‘ وفاشعاریوںکی تجدید اور نفرتیں دُور کرنے ‘ اللہ کی خاطر دینے‘ لینے اور اپنی نفرتوں اور محبتوں کو اللہ کے حوالے سے ترتیب دینے کا دن ہے!

عیدالفطر--- ہمدردی و غم گساری کے مہینے کی عطا کردہ تربیت کے مطابق--- صدقۂ فطر کی ادایگی‘ صلۂ رحمی‘ پڑوسیوں اور مہمانوں کے حقوق کی ادایگی‘ تحفے تحائف دینے‘ خوشیوں کے پیام پہنچانے اور مبارک دینے کے ذریعے اخوت و محبت کے اظہار کا نقطۂ عروج ہے۔ معاشرے کے محروم‘ لاچار‘ مسکین اور فقیر‘ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے‘ فاقے دُور کرنے‘ غم اور دُکھ ہلکے کرنے اور اُن میں خوشیاں بانٹ کر--- اس کنبے کے مالک و سربراہ ---اللہ کو خوش کرنے کا دن ہے!!

عیدالفطر--- یومِ عزم ہے!

رمضان میں نازل ہو کر اِسے جشن بہاراں بنانے والے--- قرآنِ عظیم کی تلاوت و سماعت کرکے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بعداِسے لے کر اُٹھنے‘ اس کے غلبہ و نفاذ اور اس کی حکمرانی و کارفرمائی اور ساری دنیا پر اس کے سائے کو پھیلا دینے ‘ اس کے پیغام کو عام کر دینے اور اس کی سربلندی کا فریضہ ادا کرنے اور کرتے رہنے کا عزم کرنے کا دن!

عیدالفطر دن ہے--- اتباع و نفاذِ شریعت کے عزم کا--- اللہ و رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی و اطاعت‘ اُن کے ہر حکم و مرضی پر راضی‘ مطمئن و مسرور رہنے کے عزم کا--- بندگی کے جملہ تقاضوں کو ہر جگہ ‘ ہر وقت‘ ہر لحظہ پورا کرتے رہنے کے عزم کا۔

اے روزہ دار! بندئہ مومن!

عید اس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ شَرِبَ وَاَکَلْ --- جس نے محض کھایا‘ پیا‘ لذیذ و متنوع سحری‘ مرغن اور مشتہی افطاری--- روزہ بھی--- اور نافرمانی کا ہر رویہ‘ ہر طرزِعمل‘ بداخلاقی‘ فساد اور پستیٔ کردار کا ہر مظاہرہ--- اللہ کی اطاعت و بندگی کا کہیں نہ اقرار نہ اظہار۔ اُسے عید منانے کا کوئی حق نہیں۔ عید تو اُس کی ہے --- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اَخْلَصَ لِلّٰہِ وَالْعَمَلِ--- جس نے اپنی ذات اور اپنے ہرعمل کو اللہ ذوالجلال کے لیے خالص کر لیا--- جو سب سے کٹ کر صرف اُسی کا بن گیا--- اپنی زندگی کا مرکز و محور اور مطمح نظر اُس کو اور اُس کے حکم کی بجاآوری کو بنا لیا!!

عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَا--- جو شان و شوکت‘ فخروغرورکے اظہار کے طور پر‘ اپنی عظمت و کبریائی کی خاطر--- سواریوں پر چڑھا‘ عیش و عشرت میں غرق اور یادِ خدا سے غافل ہوا--- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا، اصل عید تو اُس کی ہے اور جشن منانے کا حق دار بھی وہی ہے‘ جس نے خطاکاری سے اجتناب اور اس کے ہر راستے سے گریز کیا‘ اور اسے اپنی عمومی زندگی کا طرزعمل بنایا۔

عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ--- جس نے فقط نئے اور    خوب صورت لباس میں اپنے جسم و روح کی ناپاکی‘ گندگی اور غلاظت کو چھپایا--- اس کا فقط ظاہر ہی اُجلا، ہوا۔ دل روشنی اور سعادت سے محروم رہا۔ نہ تطہیر فکر ہو سکی‘ نہ تعمیر افکار‘ قلب و نظر کے اندھیرے دُور نہ ہو سکے‘ نہ دل کے سیاہ داغ دُھل سکے۔ تن تو اُجلا بن گیا‘ من پاکیزہ و صاف اور روشن نہ بن سکا---!! عید تو اس کے لیے ہے! اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْدَ--- جس نے اللہ کی آیات‘ احکامات ‘ فرامین و ہدایات‘  اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پڑھا‘ سنا‘ سیکھا‘ سمجھا--- صدقِ دل سے ایمان لایا--- اپنے دل اور عمل پر اُسے نافذ کیا--- اور اُس کی سزا کے خوف سے لرزہ براندام رہا۔

عیدالفطر کا دن--- جائزے اور تقابل کا دن ہے! اللہ کی رحمتوں اور اپنی لغزشوں کے تخمینے‘ جائزے اور موازنے کا دن!! کہ اے بندئہ مومن! اپنے رحیم و کریم رب کے مقابل تو کہاں کھڑا ہے؟ کیا تیرے دامن میں کوئی بھی ایسا عمل ہے‘ جو اُس کی لامحدود عنایتوں کے مقابل وفاداری کا حوالہ بن سکے؟ پھر آخر مَا غَرَّکَ بَرِبِّکَ الْکَرِیْمِ؟ اپنے رب کریم‘ رحیم کے مقابل تجھے کس چیز نے اس قدر سرکش وباغی اور جری اور بے وفا بنا دیا اور دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے؟ تیرے لیے عیدالفطر کا پیغام یہی ہے کہ رمضان کی طرح پلٹ آ-- اسی عفو بندہ نواز کے دامن میں---! سر جھکا دے‘ اسی آقا و مولا کی بارگاہ میں--- اور اسی دَر کا سوالی بن جا--- اور اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جا‘ اسی کے دامن رحمت سے لپٹ جا‘ اور اسی شجرعاطفت سے وابستہ رہ اور اُمید بہار رکھ--- کہ اس کے سوا کوئی جاے پناہ و اماں نہیں---!!

عیدالفطر--- فی الحقیقت --- اے بندئہ مومن--- تیرے طویل امتحان کا آغاز ہے۔ رمضان کی تربیت گاہ میں حاصل کردہ تعلیم و تزکیہ کا نصاب تجھے اس امتحان میں سرخرو کر سکتا ہے۔ اگر تو اس عزم و تجدیدعہد اور تجدید وفا کے جذبے سے عید منائے--- تو تو بڑا نیک نصیب ہے‘ تو ہی عید منانے کا حق دار ہے۔ عیدالفطر--- تیرے لیے --- منزل نہیں‘ نشانِ منزل ہے--- جہاں سے نیکیوں کا سفر ایک بار پھر شروع ہو رہا ہے۔ عیدالفطر کے روز شروع ہونے والا تیرا یہ سفر یقینا تیری حقیقی منزل --- جنت--- تک پہنچ کر ہی ختم ہو گا---!! ان شاء اللہ!!

 

رمضان المبارک کا مہینہ گزر گیا‘ اس کے گزرنے سے بہت سے لوگوں پر ایک مایوسانہ کیفیت طاری ہوئی‘ جیسے کوئی عزیز مہمان رخصت ہو جائے اور بہت دنوں میں اس کے آنے کی اُمید ہو۔ بہت سے لوگوں پر ایک اطمینانی کیفیت طاری ہوئی‘ جیسے ان کا کام ختم ہو گیا اور اب ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ دونوں کیفیتیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے منشا اور رمضان المبارک کی روح اور پیام کے منافی ہیں۔ رمضان اگر رخصت ہوا تو ایمان اور اس کے تقاضے‘ شریعت اور اس کے احکام‘ اللہ تعالیٰ اور اس سے تعلق بہرحال باقی ہے۔ رمضان درحقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں‘ ایک دور کا آغاز ہے۔ رمضان انتہا نہیں‘ ابتدا ہے۔ رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کر کے اور لپیٹ کر نہیں جاتا ہے‘ وہ بہت کچھ دے کر‘ جھولیاں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتا ہے۔ رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود بہت سے بھائی دل میں کہتے ہوں گے کہ رمضان گیا‘ اب کیا کریں؟ اس مختصر مضمون میں اسی سوال کا جواب مقصود ہے۔ یہاں ان باتوں کا تذکرہ کیا جائے گا جو رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے کی ہیں۔

۱-  توبہ: سب سے مقدم اور اہم کام جس کے لیے کسی زمانے اور مقام کی قید نہیں مگر رمضان المبارک اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنا دیتا ہے‘ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا رشتہ یا چھوٹا ہوا رشتہ جوڑیں۔ توبہ کی قرآن و حدیث میں اس قدر ترغیب و تاکید ہے اور اس قدر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایمان کے بعد سب سے اہم چیز معلوم ہوتی ہے۔ قرآن شریف میں ہے:

وَتُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)

اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط (التحریم ۶۶:۸)اللہ سے سچی اور مخلصانہ توبہ کرو۔

حدیث شریف میں آتا ہے:  کلکم خطاؤن وخیر الخطائین التوابون،  ’’تم سب اے انسانو! خطاکار ہو اور گنہگار ہو اور خطاکاروں اور گنہگاروں میں سب سے بہتر کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔ ایک دوسری حدیث میںہے: التائب من الذنب کمن لاذنب لہٗ ،’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہیں‘‘۔

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ صرف ضرورت ہی کی چیز اور مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ جب آدمی کسی معصیت میں مبتلا ہو جائے توتوبہ کرے۔ یہ تو فرض واجب ہے اور اس کے بغیر تو صاحب ایمان کو چین سے ہونا نہیں چاہیے۔ توبہ ایک مستقل عبادت ہے‘ قرب اور محبوبیت کا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے سے جو ترقی ہوتی ہے اس کو کوئی عبادت نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے ابرار و صالحین اور مقربین کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ وہ جب کسی توبہ کرنے والے پر رحمت الٰہی کی بارش اور اُس ذات عالی کی نوازش دیکھتے ہیں تو ان کو اپنی بڑی بڑی عبادتیں اس کے سامنے ہیچ اور حقیر معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور وہ اس وقت اس گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو رحمت الٰہی کا مورد ہوتا ہے۔

بہرحال رمضان کے بعد سب سے مقدم اور اہم اور سب سے اعلیٰ و افضل کام یہ ہے کہ ہم اپنے سارے گناہوں سے توبہ کریں اور وقتاً فوقتاً توبہ کرتے رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شخص بڑا خوش قسمت ہوگا جو حشر کے دن اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے گا۔

۲-  ایمان کی تجدید: بہت سے بھائی سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ لے آنا کافی ہے۔ اس کے بعد اس کو تازگی‘غذا‘ تجدید‘ کی ضرورت نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایمان اسی طرح پرانا ہوتا جاتا ہے جیسے کپڑا میلا اور پرانا ہو جاتا ہے۔ اُس کو نیا اور اُجلا کرتے رہو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اس کو کس طرح نیا کریں؟ فرمایا: لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی کثرت کرو۔ خود قرآن شریف میں ہے:

اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَل مِنَ الْحَقِّلا وَلاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْط  وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فَاسِقُوْنَ o  (الحدید ۵۷: ۱۶) کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی‘ پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے اور آج اُن میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔

اس آیت کے سننے اور پڑھنے کے بعد بعض اصحاب اپنے دل کی سختی اور بے حسی سے شاید مایوس ہوتے اور سمجھتے کہ دل کی یہ زمین بالکل اوسر اور بنجر ہو گئی ہے اور اب کبھی اس میں شادابی اور روئیدگی پیدا نہیں ہوگی‘ تو معاً اس کے بعد ارشاد ہوا:

اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِی الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (الحدید ۵۷:۱۷)  یاد رکھوکہ اللہ تعالیٰ زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے‘ ہم نے تمھارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کیں اگر تم سمجھتے ہو۔

بہرحال ہر شخص کو اپنے ایمان کی تکمیل ‘تجدید اور تقویت کی ضرورت ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں:

(الف) سوچ سمجھ کر شعور و احساس کے ساتھ کلمۂ توحید کی تکرار و کثرت۔ صحابہ کرامؓ سے کہا گیا کہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی کثرت کرو۔ ظاہر ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے اور معنی و مطلب پر غور کیے بغیر کلمہ کی تکرار اور کثرت نہیں کرتے ہوں گے۔

(ب)  ذکر کی کثرت اور ذکر کی قوت‘ یہ دونوں مستقل چیزیں ہیں۔ عام حالات میں ذکر کی کثرت ذکر میں قوت پیدا کر دیتی ہے۔ خاص حالات میں ذکر کی قوت کثرت کے قائم مقام بن جاتی ہے۔ قوت کے معنی یہ ہیں کہ خاص کیفیاتِ توجہ و استحضار کے ساتھ اللہ کو یاد کیا جائے۔ ان کیفیات و خصوصیات کے ساتھ تھوڑا سا یاد کرنا بھی تھوڑا نہیں ہے اور بڑے اثرات رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات بڑی استعداد یا اعلیٰ یقین یا طویل محنت‘ یا ندامت اور انابت سے پیدا ہوتی ہے۔

(ج)  اہل یقین کی صحبت‘ جس کی کیمیا اثری اور پارس صفتی دنیا کو تسلیم ہے اور قرآن مجید کی اس پر مہر لگی ہوئی ہے:  وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ ۹:۱۱۹)’’اور صادقین (راست بازوں) کے ساتھ رہو‘‘۔

(د)  اعمال کی کثرت اور مداومت‘ اس سے بھی ایمان میں جِلا اور قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔

۳-  احکام شریعت کی پابندی: رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے والے کاموں میں شریعت کی پابندی اور فرائض و احکام کی بجاآوری ہے جس کی خصوصی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے‘  لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب رمضان میں حلال و طیب چیزیں ایک خاص وقت کے اندر ممنوع قرار دی گئیں اور اُن پر بندش عائد ہوگئی تووہ چیزیں جو سدا سے حرام اور قیامت تک حرام رہیں گی‘ وہ غیر رمضان میں کیسے جائز ہو سکتی ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ مومن کے دو روزے ہیں‘ ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی روزہ رمضان میں ہوتا ہے‘ صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتاب تک۔ اس میں کھانا پینا اور ممنوعات صوم سب ناجائز ہوتے ہیں۔ دائمی روزہ بلوغ سے موت تک ہے۔ اس میں خلاف شریعت کام اور ممنوعات شرعیہ سب ناجائز ہوتے ہیں۔  وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ (الحجر ۱۵:۹۹) ’’اپنے رب کی بندگی اور تابعداری کرو جب تک موت نہ آجائے‘‘۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی کی جائے اور دائمی روزے کو کھیل بنا لیا جائے‘ جس کا ایک جز اور ایک حصہ یہ عارضی روزہ ہے۔ اگروہ روزہ نہ ہوتا تو یہ روزہ بھی نہ ہوتا۔ وہ روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے‘ یہ روزہ کلمہ پڑھ لینے اور اسلام کی حالت میں زمانۂ بلوغ کے آجانے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ روزہ آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے‘ یہ روزہ بھی جب تک زندگی کا آفتاب رہتا ہے‘ باقی رہتا ہے۔ جہاں زندگی کا آفتاب غروب ہوا اور طائر روح نے اپنے قفس کو چھوڑا وہ روزہ بھی ختم ہوا۔ رمضان گزر گیا۔ فرض روزے بھی اس کے ساتھ گئے‘ مگر اسلام باقی ہے اور اس کا طویل اور مسلسل روزہ بھی باقی ہے۔ پہلے کی عید دوگانہ ہے جو عیدگاہ اور مسجد میں ادا ہو جاتی ہے۔ دوسرے کی عید وہ حقیقی عید ہے جس کے متعلق شاعر عارف نے کہا ہے     ؎

انبساط عید دیدن روئے تو
عیدگاہِ ما غریباں کوئے تو

(عید کی خوشی تو آپ کا دیدار ہے۔ ہم غریبوں کی عیدگاہ تو آپ کا کوچہ ہے)

وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ o  اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ o  (القیامۃ ۷۵:۲۲-۲۳)اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے‘ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

۴-  قرآن سے تعلق: رمضان مبارک کا بڑا تحفہ اور عطیۂ ربانی یہ قرآن مجید ہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِج (البقرہ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔ رمضان تو سال بھر کے لیے رخصت ہوا۔ مگر اپنا پیام‘ اپنا تحفہ اور اپنی سوغات چھوڑتا گیا۔ ضرورت ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد اس تحفے سے اس کی یاد تازہ کی جائے‘ اس کی برکات حاصل کی جائیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تحفہ قاصد سے بڑھ کر ہے۔ شاہِ وقت اپنے کسی منتخب غلام کو کسی قاصد کے ہاتھ تحفہ بھیجے تو یہ تحفہ اس کی خاص سوغات ہے۔ یہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات کا مظہر ہے۔ اس وقت پورے عالم انسانی میں اور اس زمین کی سطح کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات سے قرب رکھنے والا اور اس کی صفات و کمالات کا پرتو قرآن مجید ہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کو ایک زندہ کتاب کی طرح ہمیشہ پڑھا جائے اور یقین پیدا کیا جائے کہ ہم اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں اور اُس ذاتِ عالی سے مخاطب اور ہم کلام ہیں۔ پڑھتے  وقت ہمارا سینہ اس یقین سے معمور‘ ہمارا دل اس احساس سے مسرور اور ہماری روح اس کیفیت سے مخمور ہو۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے حضورؐ سے پوچھا تھا: ھل سمّانی ربّی‘ کیا میرے مالک نے میرا نام لے کر کہا کہ (ابی بن کعب سے) قرآن مجید پڑھوا کر سنو اور جب اس کا جواب اثبات میں ملا تو فرطِ مسرت سے رو پڑے۔

 ہم کو بھی اس پر ناز ہونا چاہیے کہ ہمارا رب ہم سے مخاطب ہے اور ہم میں سے ہر شخص فرداً فرداً اس کا مخاطب اور شرف خطاب و التفات سے مشرف ہے۔ بہت سے بھائی رمضان میں بڑی مستعدی سے قرآن مجید سنتے اور پڑھتے ہیں مگر رمضان ختم ہوتے ہی اس کو طاق پر ایسا رکھتے ہیں کہ پھر رمضان ہی میں اُتارتے ہیں۔یہ بڑی ناقدری اور نادانی ہے۔ رمضان مبارک اس کی تقریب کرا کے رخصت ہوتا ہے۔ وہ اس لیے آتا ہے کہ آپ سال بھر اس کو پڑھتے رہیں‘ نہ اس لیے کہ سال بھر کا آپ اس میں پڑھ لیں پھر سال بھر کے لیے چھٹی۔ اس لیے رمضان کے بعد کرنے کا چوتھا کام یہ ہے کہ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق باقی رکھیں اور اس کی تلاوت اور اس پر غوروتدبر جاری رکھیں۔

۵-  حسن سلوک: رمضان مبارک ہمدردی و غم خواری‘ امداد و اعانت اور حسن سلوک کا خاص مہینہ ہے۔ اس کو شھرالبرّ والمواساۃ کہا گیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں اس شعبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور ان سب بھائیوں کی خبر لیتے رہنا چاہیے‘ جو ہماری امداد و اعانت اور سلوک کے محتاج ہیں۔ موجودہ بے روزگاری اور گرانی نے ان لوگوں کی تعداد بہت بڑھا دی ہے جو پیسے پیسے کے محتاج ہیں اور دانے دانے کو ترستے ہیں اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔  لِلْفُقَرَائِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز  (البقرہ ۲: ۲۷۳) ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے‘‘۔ رمضان کی تاثیر اور روزے کی قبولیت کی یہ بھی علامت ہے کہ دل میں گداز اور طبیعت   میں نرمی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت‘ غربا پر ترس‘ اور پریشاں حال لوگوں کے ساتھ سلوک کی خواہش اور کوشش ہو۔

یہ ہیں وہ سب کام جو رمضان کے بعد بھی جاری رہنے چاہییں اور جن کے لیے رمضان خاص طور پر تیار کر کے جاتا ہے۔  فَبَشِّرْ عِبَادِ o الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۱۷-۱۸) ’’پس (اے نبیؐ) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانش مند ہیں‘‘۔

(صدق ‘ لکھنؤ‘ جون ۱۹۵۵ء)

 

حج کی طرح‘ حج کی تیاری بھی ایک پورا عمل ہے۔ ساری ساری عمر تمنا کرنا‘ دعائیں کرنا‘ یہ بھی تیاری ہے۔ اس تیاری کی کیسی کیسی مثالیں علم میں آتی ہیں‘ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ساری ساری عمر لوگ زادِ راہ جمع کرتے ہیں‘ رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ کی زیارت نصیب ہو۔ اس کے خواب دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔

ایک وقت گزرا کہ قرعہ میں نام نہ نکلنے پر صدمے کی کیفیت ہوتی تھی کہ ابھی بلاوا نہیں آیا اور اگلے سال کا انتظار شروع ہو جاتا اور یوں تیاری جاری رہتی تھی۔

بحری جہاز سے حج کی صورت میں آٹھ دس دن بڑی ہمہ گیر‘ ہمہ وقتی تیاری کا موقع ملتا تھا۔ حج کے سفرناموں میں اس کا خوب بیان ملتا ہے۔ پابندی سے نمازیں‘ ذکرواذکار کی مجالس‘ دعائیں‘ توجہ‘ شوق --- یہاں تک کہ جدہ کا ساحل نظر آجائے اور شوق کی بے تابیاںاگلے مراحل کے لیے فزوں تر ہو جائیں۔

یوں‘ حج کے لیے سفر کی مدت کا طول بھی تیاری کا حصہ بن جاتا ہے۔ نائیجیریا سے آئے ہوئے ایک دوست نے بتایا کہ ایک زمانے میں سفر اتنے ماہ لیتا تھا کہ کسی کو دوسرے سال حج کرنا ہو تو وہ ادھر ہی رک جاتا تھا۔ جانے آنے میں چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ عبدالماجد دریابادی کے حج نامے میں ۱۹۲۹ء میں مناسک حج کے لیے نقل و حرکت کا ذریعہ اُونٹنی بیان ہواہے۔

وقت بدلنے کے ساتھ‘ سفر مختصر ہوتا گیا۔ اس سے تیاری کا‘ یعنی کیفیت سے گزرنے کا عمل متاثر   ہوا ہے۔ بحری جہاز کا سفر غیر مقبول ہوا اور بالآخر ختم ہوگیا۔ اب حاجی چند گھنٹے اس کیفیت میں گزار کر‘   ہوائی جہاز میں سوار ہو کر چند مزید گھنٹوں کے بعد جدہ پہنچ جاتا ہے۔ ہفتوں اور مہینوں خاص کیفیات میں گزارنے کا تاثر چند گھنٹوں میں تو‘ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے لیے بارش کی مثال دی ہے کہ زمین پر برستی ہے لیکن ہر حصہ اپنی کیفیت اور قوت نمو کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ چٹیل چٹان پر سے تو پانی گزر ہی جاتا ہے۔ اسی طرح حج کی مثال ہے۔ لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے جاتے ہیں‘ کئی کئی دن اکٹھے گزارتے ہیں‘ رحمت و مغفرت کی بارشیں جاری رہتی ہیں لیکن ہر ایک اپنے ظرف کے لحاظ سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یقینا کچھ ضرور ایسے ہوں گے‘اللہ کرے سب ہوں‘ جو ایسے معصوم ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔ اس کا انحصار بڑی حد تک تیاری پر ہے۔

اب تیاری خود سے ارادہ کر کے‘ مصروفیات اور زندگی کے ہنگاموں سے وقت نکال کر کرنا ہوگی۔ تربیت حجاج کے کسی پروگرام میں شرکت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن آخری بلکہ اولین بنیادی بات وہی کہ تیاری تو آپ کو خود ہی کرنا ہے‘ خود ہی پروگرام بنانا ہے‘ خود ہی عمل کرنا ہے--- آخر حج بھی تو آپ خود ہی کر رہے ہیں!

تیاری کا عمل

تیاری کے سلسلے میں دو اہداف ہونا چاہییں۔ مناسک ِ حج کے لیے تیاری‘ جو ۷ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں‘ اور مکہ مدینہ کی سرزمین پر ۳۰‘ ۳۵ دن قیام کا جو موقع ملنے والا ہے‘ اس کے لیے تیاری--- تاکہ وہاں کا ہر ہر لمحہ استعمال ہو۔اس مقصد سے‘ جب سے بنکوں میں رقم جمع ہوتی ہے‘ کچھ نہ کچھ تیاری شروع کی جا سکتی ہے۔

جب میں حج کرنے گیا تو میرا خیال تھا کہ میرا کام مکہ مدینہ پہنچنا اور خانہ کعبہ دیکھنا اور طواف کرنا ہے‘ باقی اس دوران کی کیفیات --- جس کا حال سفرناموں میں پڑھا تھا غالباً خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاری کی جائیں گی‘ یعنی وہاں جا کر خود بخود طاری ہو جائیں گی۔ معلوم نہیں‘ میں کوئی خاص گنہگار تھا‘ یا سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ حرم میں بیٹھ کر بھی‘ راہوار خیال کو جہاں چاہے لے جا سکتے ہیں۔ شیطان زیادہ طاقت سے زور آزمائی کرتا ہے کہ اللہ کو بتائے کہ دیکھ‘ یہاں تک چل کر آنے والا بھی بہکایا جاسکتا ہے۔ ہر طرح کے ملک ملک کے مناظر وہاں نظر آتے ہیں اور آپ جہاں چاہیں اپنے کو لے جا سکتے ہیں۔ اور حرم سے ذرا باہر نکلیں تو فٹ پاتھ‘ دکانیں‘ ہوٹل--- پورا بین الاقوامی بازار سجا سجایا--- جتنے گھنٹے چاہیں گزاریں‘ جو چاہیں خریدیں--- یوں آزمایش تو بڑھ جاتی ہے۔ خیال تھا کہ یہاں پہنچ گئے تو سب کام آسان ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں پایا۔ اس لیے تیاری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

تیاری کی پہلی شق یہی ہے کہ پہلے دن سے نیت کو خالص کیا جائے اور پھر کوشش کر کے دورانِ قیام اور دورانِ مناسک حج خالص رکھا جائے۔ ہرشخص خود ہی جائزہ لے کر معلوم کر سکتا ہے کہ نیت میں کہاں‘ کس طرح کا کھوٹ ہے‘ یا آ سکتا ہے۔ اس کی پیش بندی کرے‘ عملی تدابیر کرے اور اللہ سے دعا بھی کرے کہ سارا سفر‘ محنت‘ خرچ محض دوڑ بھاگ ہی نہ ثابت ہو۔

دورانِ قیام کی ایک اہم سرگرمی مسجدحرام اور مسجد نبویؐ کی نمازیں‘ خصوصاً جہری نمازیں ہیں۔ دوسری ساری سرگرمیاں اس کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلے سے ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہاں نمازیں بالکل  ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ہیں (چاہے یہاں کیسی بھی عادات ہوں)۔ اس کے لیے دو باتوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے:

ایک یہ کہ نماز کے بارے میں لٹریچر میں جو کچھ پڑھا ہے‘ اسے تازہ کر لیا جائے۔ پانچ وقت کی نماز کو ذکر کے حقیقی معانی کے ساتھ قائم کیا جائے گا تو اس کی برکات‘ اور زندگی پر اثرات بچشم سر دیکھے جا سکیں گے۔ کتابیں حاصل کر لی جائیں‘ ساتھ رکھی جائیں۔

دوسری بات‘ بہت ضروری یہ ہے کہ اگر آپ کو اتنی عربی آتی ہے کہ قرآن سنتے ہوئے اس کا مفہوم ذہن میں آتا جائے تو اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی فکر کیجیے۔ اب   بے شمار ایسے کورس چل رہے ہیں جودو تین ماہ میں اتنی شدبُد کرا دیتے ہیں کہ آپ کا یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ روزانہ دو تین گھنٹے دیں‘ تو ایک ہفتے میں بھی ہدف حاصل ہو سکتا ہے (منشورات خرم مراد کے قرآنی عربی کے ۱۵ اسباق جلد ہی شائع کرنے والا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے)۔ یہ نہ ہو کہ فجرو عشا ء میں‘ مسجد نبویؐ اور مسجدحرام کے امام قرآن کی پُرلطف ‘ وجد آفریں تلاوت کر رہے ہوں‘ قوموں کے عروج و زوال کے احوال بیان ہو رہے ہوں‘آخرت کی حقیقت اور مناظر کا نقشہ کھینچا جا رہا ہو‘ احکام الٰہی اور ان کی  مصلحتیں بتائی جا رہی ہوں‘ انفس و آفاق کی آیات پر توجہ دلائی جا رہی ہو‘ آپ کے نفس کو جھنجھوڑا جا رہا ہو‘ اور آپ کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔

نماز کی اپنی کیفیت ہے‘ لیکن معنی و مطلب کے ساتھ شعوری توجہ ہو تو افادہ ہزار چند ہو جاتا ہے۔ اپنے کو اس سے کیوں محروم رکھتے ہیں؟ جو عربی آپ سیکھیں گے‘ ساری عمر کام آئے گی۔ نمازوں کے علاوہ بھی یہاں تلاوت کا بہت موقع ملتا ہے۔ کئی کئی قرآن ختم کیے جاتے ہیں‘ یہ بامعنی ہوں توکیا کہنے!

ایک تیاری دعائوں کی ہے۔ یہ پورے اہتمام سے کریں‘ زبان کی کوئی قید نہیں لیکن قرآن کی بتائی ہوئی اور رسولؐ اللہ کی کی ہوئی دعائیں‘ آپ کے جذبات کو اور داعیات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتی ہیں اور جذبات کی تہذیب بھی کرتی ہیں۔ اس لیے ان کے مجموعے آپ کے پاس ہونے چاہییں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں دعائوں کے لیے بہت وقت ملتا ہے۔ آپ کے پاس جتنا بھی ذخیرہ ہو‘ کم پڑ جاتا ہے۔ آپ کوشش کرکے جمع کریں‘ یہ تیاری کا حصہ ہے۔ یاد نہ بھی ہوں تو سامنے رکھ کر‘ بیٹھ کر‘ آرام سے کی جا سکتی ہیں۔ (عربی جاننا یہاں بھی کام آئے گا)۔ یہ چار دن کا نہیں‘ مہینے بھر کا موقع ہے۔  اذکار مسنونہ (ابن قیم/ خلیل احمد حامدی)  نالہ نیم شب (خرم مراد) کے علاوہ بھی آسان دعائیں اور قرآنی دعائوں کے مجموعے عام ملتے ہیں۔ دعائوں کے لیے خصوصی اوقات اور مقامات کا بیان آپ کو ہر تذکرے میں ملے گا۔

دعوہ اکیڈمی کا شائع کردہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا ۷ روپے کا ایک کتابچہ (وہاں کوئی اسلامی مکتبہ اسے ۷ریال کا فروخت کر رہا تھا!)  سیرت نبویؐ دعاؤں کے آئینے میں ‘میرے ساتھ تھا۔ انھوں نے ترجمہ عبدالماجد دریابادیؒ کا نقل کیا تھا۔ ان گلیوں میں رسولؐ اللہ کا قرب آپ محسوس کرتے ہی ہیں‘ پھر آپؐ کی دعائیں‘ بہترین اُردو میں ترجمہ--- میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ مختصر کتابچہ میرے کتنے کام آیا!

تیاری کا ایک اہم حصہ مناسب کتب کا ساتھ رکھنا ہے۔ مطالعے کا وقت وہاں نکالیں۔ جتنا بازاروں اور گپ شپ سے بچیں گے‘ زیادہ مطالعہ کر سکیں گے (شیطان کی خصوصی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو اِدھر اُدھر کے کاموں میں لگائے رکھے اور اصل شغل آپ ملتوی کرتے رہیں کہ بہت وقت پڑا ہے‘ آپ پہلے ہی دن سے چوکنے رہیں‘ اس جال میں نہ آئیں) ۔خود ہی سوچیں کہ مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر حدیث کا مطالعہ‘  چند لمحات کلام نبویؐ کی صحبت میں‘ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے۔ مکہ مدینہ کے آثار اور نشانیاں دیکھنے جائیں تو سیرت کا مطالعہ مستحضر ہونا چاہیے۔ تیاری کے ایک حصے کے طور پر اسے بھی تازہ کر لیں۔

اب آیئے اصل حج‘ یعنی مناسک ِ حج کی طرف!

یہ چار پانچ دن ہی وہ اصل دن ہیں جن کی خاطر یہ سفر کیا گیا اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ تیاری کی گئی۔ اس حوالے سے ہر طرف ہدایات مہیا ہوتی ہیں‘ بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔ حاصل یہ ہونا چاہیے کہ آپ کے ذہن میں مناسک کا پورا نقشہ‘ روز کا پروگرام تفصیل کے ساتھ آجائے۔

ایک وقت وہ بھی رہا ہوگا جب خانہ کعبہ کی تصویر بھی دیکھنے کو نہ ملتی ہوگی۔ لوگ آکر ہی دیکھتے ہوں گے۔ پھر تصویر آگئی‘ لیکن جو بات اصل کی تھی‘ وہ تصویر میں کہاں--- لیکن اب تو ہمہ وقت خانہ کعبہ کا‘ اس میں نمازیوں کا منظر ٹی وی پر اتنا نظر آتا ہے کہ پہلی دفعہ دیکھنے والی بات اب کہاں--- یہی لگتا ہے کہ جیسے دیکھی ہوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ پھر بھی خود وہاں موجود ہونے‘ اس کا حصہ ہونے‘ اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھنے‘ اپنے قدموں سے طواف کرنے‘ آبِ زم زم‘ چشمہء  زم زم پر کھڑے ہو کر پینے کی لذت کیا اور کس طرح بیان کی جائے--- یقینا یہ امور بیان سے ماورا ہیں!

مناسک ِ حج سیکھنے کے لیے‘ پڑھنا بھی چاہیے‘ کسی پروگرام میں بھی شرکت کرنا چاہیے لیکن سب سے موثر کسی فلم کو توجہ سے دیکھ لینا ہے۔ آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ سب کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ وہاں کوئی آپ کو بتا نہ سکے کہ اس طرح کرو۔ آپ کو صحیح بات کا علم ہونا چاہیے۔ یہ تیاری لازماً کریں‘ یہ نہ سوچیں کہ وہاں معلوم ہو جائے گا‘ کوئی نہ کوئی بتا دے گا‘ سب ہی کر رہے ہوں گے--- آپ کو اعتماد کے ساتھ علم ہونا چاہیے۔

اور آخری بات‘ جو پہلی بات بھی ہو سکتی تھی‘ یہ ہے کہ جانے سے پہلے ایک‘ بلکہ دو تین حج کے سفرنامے پڑھیں اور کیفیات سے گزریں۔ میں نے عبدالماجد دریابادیؒ صاحب کا سفرنامہ حج پڑھا اور حقیقت یہ ہے کہ بہت فائدہ اٹھایا۔ مناسک کے علاوہ‘ اس دور کے حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ آپ اپنی پسند کے مصنف کا سفرنامہ لیں مگر پڑھیں ضرور۔

یہ تیاری کے لیے کوئی جامع امور نہیں‘ چند متفرق باتیں ہیں۔ امید ہے کہ عازمین حج انھیں مفید پائیں گے۔

تیاری کے سلسلے میں ۱۰۱ نکات بھی بیان کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں بعض اہم بنیادی امور کی  نشان دہی پیش نظر تھی۔ جزئیات میں جائیں تو یہ بھی کام کی بات ہے کہ جوتوں کے لیے تھیلی بنوا کر لے جائیں‘ لیکن میں نے تو یہ بھی نہیں ذکر کیا کہ عرفات کا دن کتنا اہم ہے‘ منیٰ میں کیسے وقت گزارا جائے‘ مزدلفہ میں کنکریاں کیسے چنی جائیں‘ رمی جمار میں کیا احتیاطیں کریں‘ قربانی کس طرح بہتر رہے گی‘ بار بار عمرے کریں یا نہ کریں‘ طواف کا کیا لطف ہے وغیرہ۔ حج کے ہدایت ناموں میں یہ سب کچھ ملے گا۔ میری بتائی ہوئی باتوں میں کچھ فائدہ محسوس کریں تو دعائوں میں مجھے بھی یاد کر لیجیے گا (فہرست میں کہیں نام لکھ لیں) اور روضہ رسولؐ پر میرا سلام بھی پیش کر دیجیے گا۔ اللہ قبول فرمائے۔

معاصر اسلامی ریاستوں میں غیرمسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمت سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔

یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیرمسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلوخلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ ِ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم و ستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔

ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی و مفہوم کو بھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۲۹)اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق (اسلام) کی (سیاسی اور سیادتی) برتری کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کا اعلان کرتے ہیں‘ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ اس حالت میں دیں کہ وہ ذلیل ہوں۔

آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جاسکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں سے یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اُسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں‘ ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں‘ سیاسی فضا سازگار ہونے پر‘ اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔

جنگ ِ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیرمسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست ہی دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘قرار دے کر ان پر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔

اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورتِ حال پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان ممالک کی زمینیں امتدادِ زمانہ کے ساتھ اور سامراج کے قبضے سے بہت پہلے نہ تو عشری زمینیں رہی ہیں اور نہ ’’اہل ذمہ کی زمینیں (خراجی زمینیں) رہی ہیں۔ خرید و فروخت‘ سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی دستوری اور قانونی پوزیشن بالکل ہی بدل چکی تھی۔ یوں نہ ذمی فرد ہی آج    ذمی باقی رہا ہے اور نہ ذمیوں کی زمینیں ذمی (خراجی) رہی ہیں۔ بالفاظِ دیگر نہ تو ملک کے ذمی افراد ہی ذمی رہے ہیں اور نہ ملک بحیثیت ملک‘ بحیثیت زمین اور بحیثیت رقبہ ذمی رہا ہے۔ (دیکھیے:  فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۱‘ ص۴۱۷-۴۱۸۔  اَیْنَ الْاَرْضُ الْخَراجِیَۃ الآن؟ الطبعۃ الثانیۃ)

یہ سب حقائق نہایت درجے دور رس‘ گہری اور بنیادی تبدیلیوں پر دلالت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم ممالک کی اپنی اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے سب شہری برابر کے شہری قرار پاتے ہیں۔ البتہ فرق ہے تو مسلمانوں اور غیرمسلموں میں مدنی قانون (سول کوڈ) کی حد تک جو غیر مسلم اقلیتوں کو ان کی اپنی شریعتوں کے مطابق نکاح‘ طلاق اور وراثت وغیرہ میں ان کی عدالتوں اور ان ہی کے ججوں کے ذریعے احکام صادر کرنے کا حق دیتا ہے۔ رہے عام مدنی اور فوج داری اور امن عامہ سے متعلق قوانین‘ تو وہ عام ملکی قوانین قرار پا کر‘ کیا مسلم کیا غیرمسلم‘ سب پر‘ یکساں لاگو ہوں گے۔

اسلام کا سب سے زیادہ امتیازی نشان یہ ہے کہ اس نے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے حقوق بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیے ہیں۔ سچے مسلمان ان کی دل سے تنفیذ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ شاید ان میں اضافہ تو کر سکتے ہیں مگر ان میں کمی کرنے کا ان کو ہرگز اختیار نہیں ہے۔

یوں بھی آج کے دستوروں میں بنیادی انسانی حقوق‘ جو سب شہریوں کے مشترکہ طور پر حقوق ہوا کرتے ہیں‘ پوری وضاحت سے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی تنفیذ میں کہیں اونچ نیچ ہو تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے اور ہر شخص خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے۔

اُوپر بیان کردہ وجوہات کے علاوہ آج کل کی دنیا میں مسلمان دیگر غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلم اقلیتوں کو ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ جن میں کسی عقیدے کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی آزادی بنیادی اہمیت کی حامل ہے‘ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کس طرح اپنے ملکوں کی غیر مسلم اقلیتوں کو    ’’کم تر درجے کا شہری‘‘ قرار دے کر ان سے برابر کا نہیں بلکہ کم تر درجے کا سلوک اختیار کر سکتے ہیں؟

میری اپنی رائے میں زمانے کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر مختلف پہلوئوں اور نقطۂ نگاہ سے سیرحاصل اور مفصل گفتگو کی جائے تاکہ اس کی روشنی میں کسی متفق علیہ نتیجہ پر پہنچا جا سکے۔

 

موت سے کس کو مفر ہے اور اللہ کا فیصلہ ہر ذی روح کے لیے محکم ہے--- لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے دل یہی کہتا ہے کہ اے کاش! انھیں اور مہلت مل جاتی‘ اور اے کاش! ہماری زندگی بھی ان کو مل جاتی۔ الاستاذ مصطفی مشہورؒ ان ہی چند نفوسِ قدسیہ میں سے تھے لیکن بالآخر وہ بھی ہمیں ہی نہیں ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ کر ۸ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ مطابق ۱۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے رب حقیقی سے جاملے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاخوان المسلمون کا مرشدعام اور لاکھوں انسانوںکے دلوں پر حکومت کرنے والا ۸۳ سالہ نوجوان تقریباً ۷۰ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ظلم کے ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیند سو گیا لیکن اس طرح کہ ۱۴ سال کی عمر میں جس تحریک سے روشناس ہوا تھا اور جس عظیم مجاہد امام حسن البنا شہیدؒ سے قرب حاصل کیا تھا‘ اور پھر ۱۹ سال کی عمر میں جو عہد امام شہیدؒ سے کیا تھا اس پر زندگی بھر سختی سے قائم رہا‘ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سر کی‘ تحریر و تقریر کے معرکوںمیں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے گزرا اور ہزاروں انسانوں کو گزارا اور بالآخر اپنا وہ عہد سچ کر ڈالا جو اپنے پیدا کرنے والے سے اپنے ایک چاہنے والے کے ہاتھ پر بیعت کر کے کیا تھا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ--- (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے‘‘۔

اکتوبر کے آخری دنوں میں ‘ میں نے اپنے عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر احمد العسال کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمدالعسال نے اطلاع دی کہ ۲۹ اکتوبر کو مرشدعام الاستاذ مصطفی مشہور پر دل کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں ہیں۔ اسی لمحے ان کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا۔ پھر عمرہ کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں اللہ کے حضور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں‘ میں نے ہی نہیں ان کے ہزاروں مداحوں نے--- لیکن امر ربی ہر چیز پر غالب ہے۔ مدینہ ہی میں اطلاع ملی کہ ۸ رمضان المبارک کو ہمارے محبوب بھائی اور اُمت کے کاروان کے قائد اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے--- اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت و رحمت کی آغوش میں لے لے‘ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے--- آمین!

الاستاذ مصطفی مشہورؒ ۱۹۱۹ء میں منہیا القمح السعدین (مشرقی مصر) میں پیدا ہوئے۔ آرٹس کالج قاہرہ سے فلکیات‘ رصدکاری میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ حکومت مصر کے شعبہ فلکیات میں ملازمت اختیار کی اور پھر جوانی ہی میں شب و روز تحریک اخوان المسلمون کی خدمت میں وقف کر دیے۔ تحریک سے ابتدائی تعارف ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ پانچ سال تحریک کو سمجھنے اور اپنے کو اس کے لیے تیار کرنے میں لیے اور ۱۹۳۸ء میں امام حسن البنا شہیدؒ سے عہدِوفا باندھا۔ کچھ عرصہ تحریک کے نظام خاص سے وابستہ رہے۔ پہلی گرفتاری ۱۹۴۸ء میں شاہ فاروق کے دور میں ہوئی جو ۱۹۵۱ء تک جاری رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار ہوئے اور بدترین انسانی تعذیب کا نشانہ بنے مگر صبروثبات کا مجسمہ رہے۔ یہ دور ۱۹۶۴ء میں ختم ہوا لیکن پھر ۱۹۶۵ء میں انورالسادات کے دور میں تیسرا دور ابتلا شروع ہوا جو ۱۹۷۱ء تک جاری رہا۔ جوانی کے ۲۰ سال قیدوبند کی نذر ہوئے لیکن یہی دور اُن کی روحانی ترقی‘ قرآن سے شغف‘ اور مقصدِحیات پر محکمی سے قائم رہنے کا دور ثابت ہوا اور وہ اس طوفان سے نایاب گوہر بن کر نکلے۔

مجھے الاستاذ مصطفی مشہورؒ سے ملنے کی سعادت ۸۱-۱۹۸۰ء میں حاصل ہوئی جب وہ تحریک کے بیرونی کام کے انچارج اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکات سے ربط کے ذمہ دار تھے۔ کویت‘ پیرس‘ استنبول‘ لندن‘ میونخ‘ قاہرہ‘ پاکستان‘ نہ معلوم کتنی جگہ اور کتنی مرتبہ ملنے کا موقع ملا۔ لیکن اس طرح کہ ’’وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے!‘‘

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی کشش بلکہ مقناطیست تھی۔ میانہ قد‘ گٹھا ہوا بدن‘ واضح نقوش‘ آنکھوں میں ذہانت اور محبت کی چمک اور ہاتھوں میں فولاد کی سی مضبوطی مگر ریشم کی سی نرمی --- ان کی پوری شخصیت اخوت اور محبت کی گرمی اور لطافت کا مرقع تھی! گفتگو آہستہ آہستہ ٹھنڈے انداز میں کرنے کے عادی مگر جب تقریر کرتے تو عربوں کی خطابت کا جادو جگاتے۔ تحریر اور تقریر دونوں میں ادبی نفاست کے حامل صاحب ِطرز ادیب‘ ۱۷ کتابوں کے مصنف‘ سیکڑوں مقالات ان کے قلم سے نکلے جو عالم اسلام کے عربی رسائل خصوصیت سے الدعوۃ اور الاخوان المسلمون میں شائع ہوئے اور نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ مصطفی مشہورؒ سب ہی حلقوں میں مقبول تھے مگر سب سے زیادہ نوجوانوں میں مقبول تھے جو ان کے گرویدہ رہتے ۔اور کیوں نہ رہتے کہ ان کی باتوں میں ایمان کا نور ہی نہیں جوانوں کا سا عزم اور جہاد اور غلبۂ دین کی خوشخبری ہوتی تھی۔

مجھے ان کے ساتھ تربیتی پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع ملا اور تنظیمی اجتماعات میں بھی‘ عوامی ریلیز میں بھی اور بین الاقوامی علمی کانفرنسوں میں بھی۔ میں نے مصر میں ان کے ساتھ نوجوانوں کے ان اجتماعات میں بھی شرکت کی جہاں وہ نوجوانوں کے ساتھ نشید اسی شوق سے گاتے تھے جس سے نوجوان گاتے تھے۔ دریاے نیل میں ان کے ساتھ کشتی میں بھی سفر کیا اور اسکندریہ میں انجینروں کے حلقے کے کیمپ میں بھی قیام کیا۔ یورپ میں بھی ان کے ساتھ رہنے اور سفرکرنے کا موقع ملا اور پاکستان میں پشاور‘ اسلام آباد اور لاہور میں ساتھ وقت گزارا۔ ان کی شفقت اور محبت کے نقش دل پر مرتسم ہیں۔ اس ۲۰ سالہ تعلق میں ہر ملاقات کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوا۔ ان کے خلوص اور محبت نے ان کا گرویدہ بنا لیا‘ ان کے جذبۂ جہاد اور شوق دعوت نے اسلاف کی یاد تازہ کی اور جس پیار اور گرمی اخوت سے انھوں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ معاملہ کیا اس کا بیان مشکل ہے:

ساز دل چھیڑ کے بھی‘ توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے تیسرے مرشدعام شیخ عمرتلمسانی  ؒ کے دور میں بیرونی کام کے   ذمہ دار ہوئے اور اخوان کی عالمی تنظیم قائم کرنے اور چلانے پر مامور ہوئے۔ اسی حیثیت سے وہ ہمارے ساتھ بھی مربوط ہوئے اور ہم نے اسلامی تحریکات کے درمیان تعاون و تنسیق کی جو کوششیں بھی کیں وہ ان کی رہنمائی اور معیت میں کیں۔ اس زمانے میں ‘ میں جماعت کے بیرونی شعبے کا انچارج تھا۔ اس لیے ان سے بہت ہی قریبی ربط و تعلق رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے چوتھے مرشدعام استاد ابوحامد ابونصرؒ کے نائب مرشدعام اول بنے۔ یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۰ سال نبھائی۔ ۱۹۹۶ء میں استاذ ابونصرؒ کے انتقال پر انھوں نے مرشدعام کی ذمہ داری سنبھالی جسے وہ آخری لمحے تک نبھاتے رہے اور اس طرح انجام دیتے رہے کہ پچھلے چند سال سے نقل و حرکت پر پابندی تھی‘ تقریر پر قدغن تھی لیکن وہ ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھے۔ ہر ہفتے مضمون لکھتے رہے‘ ہر روز بلاناغہ دفتر جاکر بیٹھتے رہے تاکہ ایک دن کے لیے بھی نظم سے رشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔ مجھ سے دوستوں کے ذریعے ربط آخری دنوں تک رہا۔

اخوان المسلمون کا ایک عظیم کارنامہ اُمت کو اور خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کو قرآن سے جوڑنا ہے۔ جو تعلق ایک عام اخ کا قرآن سے ہے وہ قابل رشک ہے اور مصطفی مشہورؒ تو فنا فی القرآن تھے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور قرآن سننے میں وہ لطف آتا تھا کہ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا تھا کہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ!

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی دل آویزی تھی۔ تحمل اور بردباری‘ معاملہ فہمی اور اصابت رائے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بارہا تجربہ ہوا کہ دو تحریکوں کے کارکنوں کے درمیان اگر کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو مصطفی مشہورؒ نے ہمیشہ انصاف کے ساتھ اور ہر حزبی جذبے سے بالا ہو کر اسے طے کیا۔ میں خود اس معاملے میں کئی بار پڑا اور خوش گوار تجربہ ہوا۔ جزاھم اللّٰہ جزا الخیر۔

مصطفی مشہورؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے مگر میری رائے میں ان کے تین کارنامے ایسے ہیں جو اس صدی میں تحریک اسلامی کی‘ خصوصیت سے عرب دنیا میں تحریک کی‘ تاریخ میں نمایاں رہیں گے۔

سب سے پہلے یہ کہ انھوں نے بڑے پُرآشوب دور میں تحریک کے پیغام ہی نہیں اس کے نظام کو عالمی بنیادوں پر استوار کیا اور وہ ہزاروں اخوان جو ہجرت کر کے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئے تھے ان کو پھر تحریک کے شیرازے میں منسلک کیا۔ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ جنوب مشرقی ایشیا غرض ہر جگہ وہ گئے‘ لوگوں کو منظم و مجتمع کیا اور عالمی تحریک سے وابستہ کیا۔  ربط و اتصال کا مستقل نظام بنایا اور اس طرح عالمی اسلامی احیا کے موجودہ دور کی شیرازہ بندی کی۔ انھوں نے دعوت اور تنظیم دونوں میدانوں میں اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بڑے خاموش اور منکسرانہ انداز میں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو اور شہد کی مٹھاس تھی اور انھی ہتھیاروں سے انھوں نے تمام ہی انسانوں مگر خصوصیت سے تحریکی نوجوانوں کو نظم سے جوڑا اور نیا ولولہ دیا۔

ان کی دوسری عظیم خدمت وہ حکمت عملی اور طریق کار کی تبدیلی ہے جو ان کی قیادت میں مصر میں تحریک اخوان المسلمون میں آخری ۳۰ سال میں واقع ہوئی۔ بلاشبہہ اس میں وہ اکیلے نہیں تھے لیکن اس زمانے میں انھوں نے تحریک کو دعوت و تربیت کے ساتھ اجتماعی نظام میں جمہوری ذرائع سے تبدیلی اور دوسری سیاسی اور اجتماعی قوتوں کے ساتھ تعاون اور الحاق کے ذریعے تحریک کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ اخوان پرآج بھی مصر میں پابندی ہے مگر یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ پیشہ وارانہ تنظیموں ہی کے ذریعے نہیں بلکہ مقامی کونسلوں اورپارلیمانی سیاست میں بھی اخوان کا ایک کردار نمایاں کر دیا۔ آج بھی ساری دھاندلیوں کے باوجود مصری پارلیمنٹ میں اخوان کے ۱۷ ارکان ہیں جو سب سے بڑی حزب اختلاف ہے۔ انھوں نے تشدد کے راستے سے کلی اجتناب کیا اور خصوصیت سے مصر میں برپا تحریکوں جن میں حزب التحریر اور جماعت تکفیر وہجرہ اہم ہیں سے ہٹ کر تحریک اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ اس باب میں     وہ فکری اعتبار سے بالکل یکسو تھے اور حالات کی صورت گری میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔

تیسری چیز نوجوانوں سے ان کی محبت اور نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور تحریک میں سمو دینے کی ان کی صلاحیت تھی۔ میں نے ان کو ۸۳ سالہ نوجوان ان کے اسی خاص وصف کی بنیاد پر کہا۔ آج اخوان کی قیادت ۶۰ اور ۷۰ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اخوان کی اصل قوت وہ ہزاروں لاکھوں نوجوان ہیں جو تحریک کے دست و بازو ہیں۔مصر کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹیوں ہی میں نہیں ہر جگہ‘ قاہرہ کے ہوٹلوں کے ویٹرز میں بھی اخوان ہی کے نوجوانوں سے بات چیت کا موقع ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ جس ملک اور قوم کے نوجوانوں میں یہ دعوت رچ بس گئی ہے وہ ایک دن ضرور اسلامی انقلاب کی آماجگاہ بنے گی--- ان شاء اللہ!

مغربی میڈیا کو اس پر حیرت ہے کہ الاستاذ مصطفی مشہورؒ کے جنازے میں جن لاکھوں انسانوں نے شرکت کی ان کی اکثریت ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ مجھے اس پر ذرا بھی حیرت نہیں بلکہ  یہ عین اس مشاہدے کے مطابق ہے جو میں نے خود قاہرہ اور اسکندریہ کے گلی کوچوں میں کیا۔

الاستاذ مصطفی مشہورؒ کی شخصیت ایک عہدساز شخصیت تھی۔ انھوں نے ۶۰ سال سے زیادہ تحریک اسلامی کی خدمت کی۔ جہاد افغانستان میں روحانی ہی نہیں جسمانی شرکت کی۔ اُمت کے ہر مسئلے پر انھوں نے مضبوط موقف اختیار کیا اور اپنے نقطۂ نظر کا برملا اظہار کیا۔ اُمت مسلمہ کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ بوسنیا‘ فلپائن‘ اریٹریا‘ غرض ہر مسئلہ انھوں نے اس طرح اٹھایا جس طرح اس کے اٹھائے جانے کا حق ہے۔ وہ ایک ملک کے نہیں‘ پوری دنیا کے شہری تھے۔ وہ ایک تحریک کے نہیں تمام اسلامی تحریکات کے قائد تھے۔ وہ زمین پر نہیں دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے صرف رب اعلیٰ ہی پورا کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور اُمت کو ان جیسے خادموں سے نوازے تاکہ یہ قافلہ اپنی منزل مراد کی طرف کشاں کشاں پیش قدمی کر سکے۔ آمین!

 

والدین کی مشتبہ کمائی

سوال:  میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں۔ عنقریب میری شادی بھی ہونے والی ہے۔ میرے والد صاحب بنک کی ملازمت کرتے ہیں۔ جب سے اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ ہوئی ہوں‘ مجھے یہ احساس شدت سے ہے کہ میرے والد کی کمائی جائز نہیں ہے۔ میں اس سے بچنا چاہتی ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ ناگزیر کھانا کھائوں اور سہولیات کو کم سے کم استعمال کروں لیکن عملاً یہ محال ہے۔ ہماری آمدنی کا ایک ذریعہ مکان کا کرایہ بھی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ضروریاتِ زندگی زیادہ تر اسی آمدن سے پوری ہو جائیں۔ میں نے اپنے والدین کو اس طرف بارہا توجہ بھی دلائی ہے لیکن وہ میری بات سننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے۔مجھے خیال آتا ہے کہ کیا میری پرورش حرام کمائی پر ہوئی ہے؟ مجھے اس پر شدید احساسِ ندامت ہے۔ کیا کفارے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟

شادی کے موقع پر والدین کی طرف سے ملنے والا جہیز یا دیگر اشیا میں لے سکتی ہوں یا نہیں کیونکہ یہ بھی ناجائز آمدن سے حاصل کی جائیں گی؟ کیا میں‘ میرا شوہر‘ میرے سسرال والے‘ میرے والدین کے گھر سے کھا پی سکتے ہیں‘ جب کہ ان کی آمدن جائز نہیں؟

جب بھی میری سہیلیاں مجھے ملنے آتی ہیں تو یہی خیال آتا ہے کہ میں ناجائز آمدن سے ان کی تواضع کر رہی ہوں۔ ایک سہیلی تو احتیاط کرتی ہے اور اپنے ساتھ اپنا کھانا بھی لے آتی ہے۔سوچتی ہوں شادی پر اپنی سہیلیوں کی تواضع اپنے مہر کی رقم سے کرلوں؟ میں نے سوچا ہے کہ کسی کشمیری گھرانے کی کفالت کا ذمہ لے لوں۔ کیا اس سے میرا کفارہ ادا ہوجائے گا؟

جواب:   سب سے پہلے اس خوش خبری پر مبارک باد قبول کیجیے کہ ان شاء اللہ جلد آپ کو    تکمیلِ ایمان کی سعادت مل رہی ہے اور آپ عملی زندگی میں پورے عزم اور دعوتی جذبے کے ساتھ داخل ہونے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خاندانی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق بنائے اور آپ کو اِس دنیا اور آخرت میں اپنے فضل و کرم سے نوازے۔ آمین!

پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ جب تک آپ والدین کے سہارے تعلیم حاصل کررہی ہوں اور آپ کا کوئی اپنا ذریعہ ایسا نہ ہو جس کے سہارے آپ تعلیم کے اخراجات کو پورا کر سکیں تو اس عرصے کے لیے جواب دہی آپ پر نہیں آپ کے والد پر ہے۔ ہاں‘ آپ کا اور آپ کی والدہ کا فرض ہے کہ انھیں متوجہ کرتے رہیں کہ وہ کوئی ایسا ذریعہ معاش اختیار کریں جو نہ مشتبہ ہو اور نہ اس میں ظاہری طور پر حرام کا دخل ہو۔

والدین اگر آپ کو کوئی تحفہ‘ سامان‘ کپڑے وغیرہ دیتے ہیں تو اس میں بظاہر آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ آپ کا ذریعہء حصول جائز ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد والدین کے ہاں جا کر کھانا پینا آپ کے حقوق میں شامل ہے۔ قرآن نے صلۂ رحمی اور والدین کے گھر میں کھانے کے حق کو تسلیم کیا ہے (النور ۲۴:۶۱)۔ آپ کے شوہر اور ان کے والدین وغیرہ بھی آپ کے والدین کے ہاں کھانا کھا سکتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے تحائف وصول کرسکتے ہیں۔

کسی بھی مستحق کی کفالت کرنا بہرصورت اجر کا باعث ہے۔لیکن چونکہ آپ نے والدین کے ساتھ زندگی گزار کر کوئی گناہ نہیں کیا ہے‘ اس لیے کفارہ کا سوال نہیں۔ اسے بطور ایک نیک عمل کے ضرور کریں۔ دین توازن‘ اعتدال اور آسانی کا نام ہے۔ کوشش کیجیے کہ فرائض اور سنتوں کا پورا اہتمام ہو۔ نوافل جتنے زیادہ ہو سکیں پڑھنے کی کوشش کیجیے لیکن نوافل کو فرائض کا مقام نہ دیجیے۔

اگر آپ کی کوئی سہیلی آپ کے ہاں آکر رہتی ہے تو اسے اپنا کھانا وغیرہ لانے کی ضرورت نہیں۔  یہ انتہا پسندی ہے۔ ہاں‘والدین کو احترام و محبت سے ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر اور حکمت کے ساتھ گھریلو حالات کو احسن طریقے سے حل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! (ڈاکٹر انیس احمد)

مسجد سے متعلق بعض اہم مسائل

س :  ۱- اپنے گائوں کی مسجد کے لیے چندا ہمارے پاس جمع ہے۔ کیا ہم اس چندے کو دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں؟

۲-  مسجد کے لیے ایمپلی فائر ہم نے اپنے پیسوں سے خریدا۔ لوگوں نے وعدے کے باوجود اُس کے لیے کوئی چندا نہیں دیا۔ کیا ہم اس ایمپلی فائر کو دوسری مسجد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟

۳- ہماری مسجد جو میرے چچا نے تعمیر کی ہے اُس میں نمازی ہمارے ساتھ ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں۔ کیا ہم دوسری مسجد اپنے لیے بنا سکتے ہیں؟

۴- مسجد کے امام صاحب کی خدمت کوئی نہیں کرتا۔ مجبوراً ہمیں اُن کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ کیا اِس کے باوجود ہم اُن کی خدمت کریں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں؟ اُنھوں نے میرے والد کی توہین کی ہے اور ہر وقت فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔

ج :  ۱-   چندا جو کسی ایک مسجد کے لیے جمع کیا جائے وہ اُسی مسجد کی ملکیت ہے جو صرف اُس کی مرمت‘ اس کی ضروریات اور دیگر متعلقہ اُمور پر خرچ کیا جاتا ہے۔ شرعاً یہ اجازت نہیں کہ اس کو مطلق مسجد کا چندا سمجھ کر دوسری کسی مسجد کی تعمیر یا مرمت یا دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو جتنی رقم اُس میں سے دوسری جگہ خرچ کی ہے اس کی ذمہ داری خرچ کرنے والے پر ہے اور وہ اُس رقم کی واپسی اور مسجد کے فنڈ میں جمع کرنے کا شرعاً پابند ہوگا۔

۲-  مسجد کے لیے جو ایمپلی فائر آپ نے خریدا اور کوئی دوسرا اُس کی قیمت ادا کرنے میں شریک نہیں ہوا تو وہ اُس وقت تک آپ کی ملکیت ہے جب تک آپ کے پاس رہے۔ لیکن اگر آپ نے اُسے مسجد میں اِس نیت سے ایک بار رکھ لیا کہ یہ اِس مسجد کے لیے ہے تو اس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل نہیں رہا کہ آپ اُسے وہاں سے اٹھا کر کسی اور جگہ یا اپنے گھر میں لے جائیں۔ اس لیے کہ جو چیز ایک بار مسجد کو دی گئی  ہو وہ اُسی کی ملکیت اور وقف ہو گئی۔ اب وقف مال اور مسجد کے مال پر کسی کا اختیار نہیں کہ وہ اُس کو وہاں سے ہٹائے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور ازکار رفتہ ہو جائے۔ تب بھی مسجد سے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہاں‘ اہل محلہ اور امام مسجد کی اجازت سے فروخت کر کے اُس کی قیمت اسی مسجد کے فنڈ میں دی جا سکتی ہے۔

۳- سب سے پہلے بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد کے نمازی اور اہل محلہ آپس میں جھگڑے ختم کر کے بھائی بھائی بن جائیں۔ مسجد میں جمع ہونے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ آپس میں شیروشکر ہوں‘ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ غمی شادی میں شریک ہوں اور اُن میں اتحاد و یگانگت اور باہمی احترام کا جذبہ پختہ ہو۔ یہ افہام و تفہیم کے ذریعے عین ممکن ہے۔ احادیث میں صفوں کو سیدھا اور دُرست کرنے کا فلسفہ بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان کی درستی سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔

اولیت صلح و مصالحت کو دینی چاہیے۔ ضد اور اَنا کو اللہ اور اُمت محمدیؐ کی خاطر چھوڑ کر لوگوں سے حسن سلوک اور بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے کہ یہی انسانیت ہے۔ اسی میں کامیابی ہے۔ کسی تحریک کے کارکنوں کی کامیابی کے لیے یہی ضرورت ہے کہ مقصد کی خاطر وہ حُسن سلوک‘ عوام کی خدمت اور کسرِنفسی سے کام لیا کریں اور ہمیشہ دوسروں کی عزت کریں۔ اس طرح اسی مسجد میں ہی ایک خوش گوار ماحول پیدا ہو جائے گا اور پھر آپ الگ مسجد بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔

خدانخواستہ اگر حالات اِس قدر بگڑ گئے ہوں کہ مصالحت کا امکان باقی نہ رہا ہو اور ایک مسجد میں جمع ہونے سے نمازیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہو اور مصالحتی کوشش کے باوجود بہتری نظر نہ آ رہی ہو تو فتنے سے بچنے کے لیے اور جھگڑے کے سدباب کے لیے الگ مسجد بنا سکتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی‘ چاہے ایک شخص یا ایک خاندان اپنی زمین پر اپنے پیسے سے تعمیر کرے۔ وہ عام مسلمانوں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوسری مسجد تعمیر کرنے کے بعد مصالحتی کوشش دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ خود تھوڑا جھک کر دوسروں کو راضی کریں۔ اسی میں بڑائی ہے۔ یہی اصل جیت ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کا موجود ہونا مقصد اولین ہے اور فرقہ واریت و افراتفری سے ان کا شیرازئہ قومیت بکھر جاتا ہے۔

۴- امام مسجد کی خدمت اگر پہلے سے کررہے ہیں تو اب اُس میں اور اضافہ کیجیے تاکہ اُن کی تالیف قلب ہو جائے اور اُن کی رضا مندی اور خوشی مسجد میں خوش گوار ماحول پیدا کرنے کا باعث بنے اور اسی طرح سارا مسئلہ حل ہو جائے۔ (مولانا فضل ربی)

ذخیرہ اندوزی کے مسائل

س: ۱- ایک زمین دار اپنے کھیت میں پیدا کی گئی جنس (گندم‘ کپاس ‘ مسور‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) منڈی میں مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے ذخیرہ کر لے تو کیا یہ ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟

۲- فیکٹریاں خام مال (گندم‘ کپاس‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) دوران سیزن اسٹاک کر لیتی ہیں تاکہ پراسیس کر کے آٹا‘ دالیں‘ چاول وغیرہ مارکیٹ میں فروخت کرلیں۔ یہ فیکٹریاں سارا سال کام کرتی رہتی ہیں۔کیا یہ بھی ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟

۳- ایک دکان دار یا تاجر جو زمین دار سے مال خریدتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد یہ اجناس مارکیٹ میں فروخت کر دیتا ہے۔ اس میں نفع و نقصان دونوں کا امکان ہوتا ہے‘ جب کہ اس وقت مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اجناس وافر مقدار میں ہر وقت خرید و فروخت کے لیے موجود ہوتی ہیں ۔ کیا یہ ذخیرہ اندوزی ہوگی؟

ج:  ۱- ذخیرہ اندوزی کو فقہی اصطلاح میں ’’احتکار‘‘ کہا جاتا ہے۔ احتکار یا ذخیرہ اندوزی کی تعریف فقہا کے نزدیک یہ ہے کہ ایک چیز کو خرید کر منجمد رکھنا یہاں تک کہ اُس کی قلت ہو جائے اور مارکیٹ میں اُس کی قیمت بڑھ جائے اور اس طرح یہ عمل مسلمانوں کے لیے باعث ضرر بن جائے۔

اِس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اِس میں مسلم معاشرے کے لیے ضرر ہے اور یہ عمل لالچ اور کج خلقی پر مبنی ہے۔ اِس بارے میں احادیث تفصیل کے ساتھ وارد ہیں۔ امام ابودائودؒ، امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ نے معمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک رات کا طعام ذخیرہ کرے تو اللہ اُ س سے بری ہے اور وہ اللہ سے بری ہے۔ ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اَلْجَالِبُ مَرْذُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌ، جو شخص بیچنے کی چیز بازار میں لاکر بیچتا ہے اُس کو اللہ رزق میں وسعت دیتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔

جمہور فقہاے اُمت نے ممنوعہ احتکار‘ یعنی ناجائز ذخیرہ اندوزی کے لیے تین شرطیں مقرر کی ہیں کہ جو شخص ایسی ذخیرہ اندوزی کرے جس میں یہ تینوں شرطیں پوری ہوں تو وہ حرام اور ناجائز عمل کا مرتکب سمجھا جاتا ہے۔

۱- پہلی شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کی ہوئی جنس وغیرہ اپنی حاجت اور ضرورت سے زائد ہو۔ اگر اپنی ضرورت کے لیے ذخیرہ کرے‘ مثلاً زمین دار اور کاشت کار لوگ اپنے سال بھر کے خرچ کے لیے اور گھر میں استعمال کرنے کے لیے اناج اور مختلف اشیاے خوردن خاص مقدار میں ذخیرہ کرتے ہیں تو وہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے سے باہر ہے۔

۲- دوسری شرط یہ ہے کہ اُس وقت کا انتظار کرتا ہو‘ جب کہ نرخ بڑھ جائیں‘ اور وہ اُسے بہت زیادہ قیمت پر فروخت کر سکے۔

۳- تیسری شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کرتے وقت لوگوں کو اُس کی ضرورت ہو اور اُس کے ذخیرہ کرنے سے مارکیٹ میں اُس چیز کی قلت پیدا ہو رہی ہو یا پہلے سے اُس کی قلت ہو۔ اِس صورت میں ذخیرہ اندوزی کرنا ممنوع ہے۔ جن صورتوں میں درج بالا تینوں شرائط موجود ہوں وہ ممنوع اور شرعاً ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آجاتی ہیں۔

میرے خیال میں سوال میں مذکور تمام صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ شرائط پوری نہیں ہوتیں جو حُرمت کے لیے ضروری ہیں۔ خاص کر آخری شرط کہ اُس وقت اُن اشیا کی قلت مارکیٹ میں موجود ہو اور اِن کے ذخیرہ کرنے سے اُس قلت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

ویسے بھی کاشت کار کا اناج ذخیرہ کرنا یا فیکٹری والے کا خریدی ہوئی اجناس پراسس کرنا وغیرہ معمول کے کام ہیں جو عموم البلوٰی کے ضمن میں آجاتے ہیں اور شارع کی رخصتیں عموم البلوٰی کے بارے میں موجود ہیں۔ علامہ ابن نجیم نے اپنی مشہور تصنیف الاشباہ والنظائر میں عموم البلوٰی کی وجہ سے شرعی رخصتوں کی بڑی تعداد بتائی ہے۔

سوال میں مذکورہ صورتیں ناجائز ذخیرہ اندوزی‘ یعنی احتکار کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ اس لیے کہ اِس قسم کے عمل سے نہ تو بازار میں اُن اشیا کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور نہ اِس باعث اِن اشیا کے نرخ ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ان صورتوں کو حرام اور ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( ف - ر )

مصنوعی پلکوں اور کانٹیکٹ لینز کا استعمال

س:  میں نے سنا ہے کہ بالوں میں بال لگانا جائز نہیں ہے۔ کیا پلکوں میں نقلی پلکیں لگانا صحیح ہے یا نہیں‘ کیونکہ دلہن کے میک اپ میں یہ بہت اہم چیز ہوتی ہے؟

کانٹیکٹ لینز کے ساتھ وضو کرنے کے بارے میں بھی بتایئے۔کیا انھیں اُتار کر وضو کرنا چاہیے؟

ج : پلکوں میں جوڑ لگانے اور بالوں میں جوڑ لگانے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے اور یہ حدیث کی  واضح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حسن و توازن خود بنایا ہے اسی میں انسان کے لیے زیادہ فائدہ     ہے۔ اگر کانٹیکٹ لینز لگانے ضروری ہیں‘ تو انھیں لگانے سے قبل وضو کر لیجیے اور پھر ۲۴ گھنٹے تک ان کے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ طبی طور پر بھی ان کو سوتے میں لگانے سے منع کیا جاتا ہے اور عام طور پر سونے سے قبل انھیں نکال کر مخصوص ڈبیہ میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ (ا - ا )

 

قرآن حکیم ‘ مع ترجمہ اور اخذ و تلخیص تفسیر تدبر قرآن‘ مولاناامین احسن اصلاحیؒ، اخذ و تلخیص: خالد مسعود۔ ناشر: فاران فائونڈیشن‘ ۱۲۲ فیروز پور روڈ‘ لاہور۔۵۴۶۰۰۔ صفحات: ۹۸۹۔ ہدیہ: ۵۵۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر تدبرقرآن نو جلدوں میں دستیاب ہے۔ چھ ہزار سے زائد صفحات کی اس ضخیم اور مفصل تفسیر کا مطالعہ قاری سے ایک خاصے لمبے عرصے کا تقاضا کرتا ہے‘ نیز: ’’یہ ان لوگوں کو مشکل محسوس ہوتا ہے‘ جو علمی چیزں کا مطالعہ کرنے کے عادی نہیں‘‘۔ چنانچہ مولانا اصلاحیؒ کے شاگردِ خاص‘ خالد مسعود صاحب نے زیرنظریک جلدی نسخہ تیار کیا ہے‘ جس میں متنِ قرآن کے ساتھ‘ ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں‘ جو مرتب کے بقول: ’’مولانا کی تفسیر سے ماخوذ اور بیشتر انھی کے الفاظ میں ہیں‘‘۔ ہر سورہ کے حواشی سے پہلے ایک دوسطروںمیں اس سورہ کا مرکزی مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔

مرتب نے پیش لفظ میں زیرنظر کتاب کی سکیم کے ساتھ‘ مولانا اصلاحیؒ کے ترجمۂ قرآن حکیم کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ مثلاً: اصلاحی صاحب سلیس عبارت میں بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں‘ تاہم وہ سلیس زبان میں کسی قدر قدامت بھی باقی رکھتے ہیں۔ ایک ہی مضمون پر مشتمل آیات کے مجموعوں کا لحاظ رکھتے ہوئے‘ ترجمے کو پیروں کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ عربی اسلوب بیان میں الفاظ اور جملوں کے حذف کی متعدد شکلیں ہیں مگر اُردو میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن حکیم کے مترجمین محذوف مفہوم کو قوسین میں لکھتے ہیں‘ مگر اصلاحی صاحب ایسا نہیں کرتے‘ وہ حذف کو کلام کا حصہ مانتے ہوئے‘ ترجمے میں اُسے کھول کر لکھ دیتے ہیں--- وغیرہ۔

ترتیب ‘ کتابت ]ہر صفحے پر متن‘ ترجمہ اور پاورق میں حواشی--- چاروں طرف حاشیے میں ہلکے رنگ کی سکرین نما‘ زمین[‘ طباعت‘ کاغذ‘ جلد‘ سب بہت عمدہ اور مناسب۔ اس اہتمام سے تیار کردہ کتاب کو بجا طور پر ’’سٹینڈرڈ ایڈیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ خدا کرے خدمت ِ قرآنی کی اس کاوش کو شرفِ قبول عطا ہو۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ترقی پسند تحریک و صحافت: مکالمات‘ میزبان و مرتب: ڈاکٹر احسن اختر ناز۔ ناشر: القمرانٹرپرائزرز‘   رحمن مارکیٹ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پاکستانی صحافت ہمارے معاشرے میں ریاست کا پانچواں ستون ہے؟ یہ بگاڑ کی کتنی ذمہ دار اور بنائو میں کتنی حصے دار ہے؟ منصبی ذمہ داری کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لیے کس حد کوشاں ہے یا غیرذمہ دارانہ رویے کے باعث ریاست و سیاست کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کتنی علم بردار؟ ---ان     تلخ سوالات کے جوابات کو برملا بیان کرنا آسان نہیں۔ تاہم‘ کمیونسٹ پارٹی کے زیراثر پروان چڑھنے والی ’’ترقی پسند‘‘ ادبی و صحافتی تحریک پر زیرتبصرہ مکالمات سے صحافتی دنیا کے بہت سے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس مختصر کتاب میں ۳۴ افراد کی گفتگووں سے بہت سی پرتیں کھلتی ہیں۔

حقیقت حال توکتاب کو پڑھ کر ہی سامنے آسکتی ہے‘ اس کے باوجود بعض جملے ضرور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں جیسے--- بقول ڈاکٹر مبشرحسن ’’] ترقی پسند[ تحریک کا ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ … انھوں نے اپنی سوچ کا اہتمام ماسکو یا بیجنگ کے سپرد کر دیا‘‘ (ص ۱۹۰)۔ حسین نقی: ’’بھٹو نے اگر کوئی کام کیا تو وہ یہ کہ مغربی پاکستان کے فیوڈل ازم کو بچایا اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں نے استعماری رویہ اپنائے رکھا اور بھٹو نے موقع پرستی کی‘‘ (ص ۱۹۷)۔ محمود شام: ’’امیراور غریب ] کی [ جنگ ابھی موجود ہے‘ لیکن پاکستان کے ترقی پسند اب کبھی اکٹھے ہوتے نظر نہیں آتے‘‘ (ص ۲۰۸)۔ عباس اطہر: ’’ان ] ترقی پسندوں[ کے لمبے چوڑے مفادات نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کا بیٹا روس میں پڑھ گیا ] یا[ چند بوتلیں شراب کی مل گئیں‘‘ (ص ۲۱۶)۔ شفقت تنویر مرزا: ’’NGO'sکی سیاست کیا ہے؟ یہ لیفٹ کو کرپٹ کرنے کے لیے سوچا گیا تھا‘ لیفٹ کو بڑی حد تک کرپٹ کر دیا گیا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ سبط الحسن ضیغم: ’’] پنجابی[ اخبار سجن میں زبان بہت گھٹیا اور غیر معیاری تھی (ص ۲۳۴)… ترقی پسند تحریک کے لیڈر لوگ بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ اور ہیں۔ ان تضادات کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک وغیرہ سبھی ناکام ہو گئیں‘‘ (ص ۲۳۶)۔ محمد حنیف رامے: ’’محدود تنگ نظری ] ترقی پسند[ تحریک کے زوال کا باعث بنی‘‘ (ص۸۱)۔اور بقول ضمیر نیازی: ’’لیفٹ کے لوگ بنے بنائے سانچے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ ایسے سانچے بیکری میں تو ہمیشہ کام آسکتے ہیں‘ لیکن عملی زندگی میں یہ سب باتیں چلتی نہیں‘‘۔

کتاب میں احمد ندیم قاسمی سے لے کر غلام نبی آگرو تک اور زیڈ اے سلہری‘ نعیم صدیقی‘ ارشاد احمد حقانی سے لے کر‘ پروفیسر خورشید احمد‘ محمود احمد مدنی‘ الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی اور عطاء الرحمن تک کے انٹرویو شامل ہیں۔ اس طرح دونوں نقطۂ ہاے نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


حرص و ہوس کا ڈسا پاکستان ‘ ڈاکٹر سہیل احمد۔ پتا: ۲- گرین ٹائون‘ ضلع ساہیوال۔ صفحات: ۴۸۵۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

مملکت خداداد پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی و اقتصادی نظام تشکیل نہ پا سکا جس کی بدولت نئے نئے مسائل جنم لیتے رہے۔ ملک دولخت ہوا اور آزادی کے ۵۵ برسوں کا نصف وقت فوجی حکمرانی کی نذر ہوگیا۔ پاکستان مقروض کیوں چلا آ رہا ہے؟ اِس کے اقتصادی زوال نے عوام الناس اور دیگر طبقات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور غیر ملکی مالیاتی ادارے پاکستان کو غریب سے غریب بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں؟ اس حوالے سے قومی اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ چھوٹے بڑے ۱۱۲ طویل و مختصر مضامین اور کالموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں قومی شخصیات (قاضی حسین احمد‘ پروفیسر خورشید احمد‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ الطاف حسن قریشی اور حمید گل) کے ساتھ صحافتی اور سیاسی شعبوں سے متعلق متعدد اہل قلم بھی شامل ہیں۔ چھ مضامین خود مؤلف کے قلم سے ہیں۔

مضامین کے انتخاب اور ترتیب کا محرک وطن عزیز سے مؤلف کی محبت اور ملّت کے بارے میں ان کا احساسِ درد مندی ہے۔ مضامین کے ساتھ کچھ انٹرویو‘ تجزیے‘ ترجمے اور متفرق آرا بھی شامل ہیں مگر ترتیب و تدوین کا انداز یکساں نہیں بلکہ کچھ بے ڈھب سا ہے۔حوالے درج کرنے کے لیے بھی کوئی معروف اسلوب اختیار نہیں کیا گیا ہے۔کہیں مضمون کے شروع میں کہیں آخر میں۔

بہرحال‘ پاکستان کے مختلف شعبہ ہاے حیات کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


Milestones to Eternity  ]احوال قیامت[‘ محمد ابومتوکل۔ پتا: ذکی انٹرپرائزز‘ اے/۴۷‘ بلاک۱۱‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: تقریباً ۴۰۰ ]صفحوں پر شمار نمبر درج نہیں[۔قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔

مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم:  بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔

مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کے اصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (م - ا - م )


سلاطین دہلی اور شریعت ِ اسلامیہ‘ ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی۔ تقسیم کار: محمداسلام عمری‘ مکتبہ اسلام‘ پان والی کوٹھی‘دودھ پور‘ علی گڑھ‘ بھارت۔ صفحات: ۱۳۳۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

برعظیم کے قلب و مرکز دہلی پر مسلمانوں کو سب سے پہلے (بہ زمانہ: قطب الدین ایبک ۱۲۰۶ء تا ۱۲۱۰ء) تیرھویں صدی شمسی کے آغاز میں جو تصرف و اختیار حاصل ہوا تھا‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں چھ صدیوں تک قائم رہا۔ زیرنظر کتاب میں اجمالاً جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سلاطینِ دہلی کس حد تک شریعت ِ اسلامیہ کا احترام کرتے تھے اور دہلی کی مختلف سلطنتوں کے حکومتی‘ سیاسی‘ عدالتی اور انتظامی امور میں شریعت کی پاسداری کی کیا صورت تھی؟

ڈاکٹر ظفر الاسلام (شعبہ علوم اسلامیہ‘ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی سلاطینِ دہلی اپنی ذاتی زندگیوں میں دین دار تھے اور احکام اسلامی کی بڑی حد تک پابندی کرتے تھے (اگرچہ ان سے بہت سے خلافِ شرع امور بھی سرزد ہوتے اور علما کی تنبیہ پر وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتے تھے)۔ سماجی زندگی اور بعض انتظامی امور میں وہ شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوششیں بھی کرتے تھے‘ (بے شک وہ جزوی ہوتی تھیں) لیکن سیاسی معاملات میں وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانی کرجاتے تھے (ص ۴۲‘ ۱۱۹) اور مخالفین اور مجرمین کو غیر شرعی طریقوں سے سزا دیتے تھے۔

فاضل مصنف نے بتایا ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود‘ شاہانِ دہلی اپنی مملکت میں عدل و انصاف کے قیام اور مظلوموں کی داد رسی کے سلسلے میں بہت حساس تھے اور مجرموں کو‘ ممکنہ حد تک شریعت کے مطابق سزا ملتی تھی (ص ۱۱۹)۔ بادشاہ علما سے مشورے کا اہتمام کرتے اور قاضیوں اور مفتیوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جرائم و مقدمات کی تفتیش کا ایک مرتب نظام موجود تھا۔ مصنف کے نزدیک یہ امر بھی   لائق تعریف ہے کہ بادشاہ بالعموم‘ خود کو ’’قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے--- قاضی کی عدالت میں حاضر ہونے میں کوئی تکلف نہیں محسوس کرتے تھے‘‘ اور ’’عدالت کے فیصلوں کوبلاچون و چرا قبول کرتے‘‘۔ وہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی کے ہمیشہ قائل رہے اور یہ اس عہد کا ایک مسلّمہ رویہ تھا۔ بادشاہوں کا عمومی طرزِعمل شریعت کے مقابلے میں انکار یا بغاوت کا نہیں‘ اقرار اور اطاعت کا تھا--- بقول مصنف: ’’آج کے اس جمہوری دور میں مسلم بادشاہوں کا یہ طرزِعمل‘ موجودہ حکمرانوں کے لیے وجہِ عبرت و لائق اتباع ہے‘‘۔ (ص ۱۲۰)

اس اہم اور مفید علمی موضوع کا مطالعہ آسان نہیں تھا کیوں کہ اس پر ایک تو وافر مصادر دستیاب نہیں‘ دوسرے‘ دستیاب و میسر لوازمے اور مورخین کے بیانات میں خاصا تضاد ملتا ہے۔ بہ ایں ہمہ مصنف محترم نے عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی مصادر کی مدد سے سلاطین دہلی کے ہاں حکومت و شریعت کے تعلق کی نوعیت پر ایک عمدہ کتاب تالیف کی ہے‘ جس میں اصول تحقیق اور اسالیب ِ علمی کی پوری طرح پاس داری کی گئی ہے۔ (ر- ہ )


افعال القرآن اول‘ مولانا فقیر حسین حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ گراں قدر تالیف نہ جانے کتنے سالوں کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کام وہی کر سکتے ہیں جو پِتّا مار کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب ہمزہ سے شین تک کے حروف سے شروع ہونے والے مادوں سے برآمد ہونے والے افعال پر مشتمل ہے (غالباً دوسرا حصہ ص سے ی تک ہوگا)۔ کتاب کے آغاز میں صرف کے بنیادی قواعد بتائے گئے ہیں اور ثلاثی مزید کی خصوصیات بھی۔ افسوس ہے کہ کمپوزر کی حماقت سے صفحے سے صفحہ نہیں ملتا‘ سطر سے سطر نہیں ملتی۔ ایک فعل کی تفصیلات‘ دوسرے فعل کے ساتھ منسوب ہوگئی ہیں‘ نعوذ باللہ۔

یہ کتاب قرآن مجید کو سمجھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس نہایت اہم دینی خدمت کو تحسین و تجمیل کے ساتھ شایانِ شان طریقے پر پیش کرنا ضروری تھا۔ ایڈیٹنگ بھی نہیں کی گئی۔

ہمیں خوشی ہوگی اگر اگلا ایڈیشن صحت کے ساتھ شائع ہو اور اس کی قیمت کم ہو اور یہ وسیع حلقوں تک پہنچے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)

تعارف کتب

  •  محدث‘ فتنۂ انکار حدیث نمبر‘ مدیراعلیٰ: حافظ عبدالرحمن مدنی۔ ناشر: مجلس التحقیق الاسلامی‘ ۹۹ جے‘ ماڈل ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔] پرویزیت اور فتنۂ انکار حدیث پر نامور علما و مصنفین کے گراں قدر مضامین کے علاوہ‘ اس خصوصی نمبر کی اہم چیز‘ انکارِ حدیث کی تردید اور حجیت حدیث کے موضوع پر ایک وضاحتی کتابیات (از ڈاکٹر خالدظفراللہ رندھاوا) اور دوسرا ۳۶دینی رسائل میں ۶۵۳ شائع شدہ مضامین کا‘ نہایت محنت سے مرتبہ اشاریہ ہے۔ دونوں حوالے کی اہم چیز ہیں اور تحقیق کاروں کے لیے مفید معاون۔[
  •  بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ سراج الدین ندوی‘ ترجمہ: محمد طاہر نقاش۔ ناشر: دارالابلاغ پبلشرز (فون: ۷۱۲۰۲۰۷) لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔ ] قرآن و حدیث‘ طب و حکمت اور جدید سائنس کی روشنی میں‘ اپنے موضوع پر ایک عمدہ کتاب‘ جس میں ہرپہلو سے سادہ اور رواں اسلوب میں مفید معلومات اور ہدایات یکجا کی گئی ہیں۔ اشاعتی معیار بہت عمدہ ہے۔[
  •  ختم نبوت ؐکے محافظ‘ محمد طاہر رزاق۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ، حضوری باغ روڈ‘ ملتان۔ ملنے کا پتا: مکتبہ علم و عرفان‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔صفحات: ۲۰۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ ] تحریک ختم نبوتؐ سے متعلق متفرق لوازمہ‘ یعنی واقعات‘ خبریں‘ تقاریر‘ تبصرے‘ یادیں‘ یادداشتیں‘باتیں‘ کرامات اور کچھ محیرالعقول واقعات۔[
  •  پیامِ محبت‘ محمد موسیٰ بھٹو‘ مرتبین: آزاد سمیجو‘ اشفاق احمدبھٹو۔ ناشر: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ ۴۰۰-بی‘ یونٹ نمبر۴‘ لطیف آباد‘ حیدرآباد۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ ] ’’محمد موسیٰ بھٹوکے علمی اور دعوتی خطوط کا مجموعہ‘‘۔ جی ایم سید‘ شیخ ایاز سے لے کر پروفیسر اسداللہ بھٹو تک ۴۶ شخصیات کے نام خطوط میں لادین اور مذہب بیزار ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں کے ذہنی اشکالات پر بحث۔ اسلام کی طرف دعوت میں حکمت عملی کی نشان دہی‘ اصلاحِ نفس کے لیے تجاویز‘ دردمندانہ محبت بھرا انداز۔ جوابی خطوط ساتھ ہی دینا مفید رہتا۔[
  •  آپس کی باتیں‘ ڈاکٹر شان الحق حقی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ہمدرد سنٹر‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۸۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ ]سرورق: ’’ذہین نونہالوں کے لیے دل چسپ مضامین‘‘ مثلاً: سائنس کیا ہے؟ کیوں ہے؟ پہیلی بوجھنے کا طریقہ۔ پہاڑوں کا شکریہ۔ شعرفہمی۔ نثر اورشعر کا فرق وغیرہ۔ نونہالوں کے ذہنوں کو جگمگانے کے لیے مفید اور معلومات افزا کتاب۔[
  •  مولانا محمد چراغ‘ پروفیسر محمد اسلم اعوان۔ ناشر: مکتبہ المعراج‘ اروپ‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۱۵روپے۔ ] مولاناانور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد خاص‘ مولانا محمد چراغ  ؒ (۱۸۹۴ء-۱۹۸۹ء) بانی جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے حالات پر یہ مختصر سا کتابچہ بقول مصنف: ’’شاید مولانا مرحوم کے تلامذہ و متوسلین واحباب کے لیے ایک تحریک بن جائے‘‘ اور کوئی ان کی مفصل سوانح عمری لکھ ڈالے۔ ہمارا خیال ہے کہ ۱۳ سال میں کسی نے نہیں لکھی‘ اب کون لکھے گا؟ پروفیسر صاحب خود ہی عزم کریں ۔ یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔[

اعجاز ندیم‘ لاہور

’’فنیاتی انقلاب کے چیلنج‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) مضمون ایسا لگا جیسے اس نے میرا اور میرے جیسے بے شمار لوگوں کا مسئلہ حل کر دیا ہو جو فنیاتی انقلاب کے منفی پہلوئوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مضمون نگار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فنیاتی    عالم گیریت کے منفی اثرات سے بچائو کا واحد راستہ والدین کا مثالی رویہ‘ خاندان کا استحکام‘ والدین اور اساتذہ کی نئی نسل کی اسلامی تصورِ جہاں کی مضبوط بنیاد پر تعلیم و تربیت‘ جنسی طرزِعمل میں اخلاقی و شرعی احکامات پر عمل اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کرنا ہے۔یہ مضمون سوچ کے کئی زاویوں پر غوروفکر کی دعوت دے رہا ہے اور لائحہ عمل بھی پیش کر رہا ہے۔

وحیدالدین سلیم ‘  حیدرآباد‘بھارت

عبدالرحمن الکاف صاحب کا مضمون ’’حکمت عملی کے فہم کی ضرورت‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) انتشار خیال و تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ انھوں نے مسلم معاشرے اور ممالک کو اپنے مشوروں سے خوب نوازا ہے۔ نظام عدلیہ کی خرابیوں پر نہایت سطحی اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے ’’الفقہ الاسترے تیجی‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا ہے‘ اگر اُس کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ خود اس کے دائرئہ کار سے خارج ہو جائیں گے۔ محض منطق و مفروضات سے دنیا کا نظام نہیںچلا کرتا۔ انقلابِ ایران اور سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے متعلق انھوں نے نہایت ناقص معلومات کی بنیاد پر ماہرانہ راے کا اظہار کیا۔

عبداللّٰہ گوہر‘ کراچی

عجیب بات ہے کہ حکمت مودودیؒ (نومبر ۲۰۰۲ء) کے تحت ’’اسلامی نظام کا قیام کس طرح‘‘ میں آپ نے جو کچھ نقل کیا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سید مودودیؒ نے جیسے آج کے حالات سامنے رکھ کر لکھا ہو۔ اسے ان کی تحریر کا اعجاز سمجھیں‘ یا ہمارے حالات کا ایک جگہ کھڑے ہونا‘ یا ان کی ہدایات پر اُس وقت عمل نہ کیا جانا۔ ایسا نہ ہو کہ ۲۵ سال بعدپھر کوئی انھیں اسی طرح نقل کرے!

ثوبیہ ہاشمی‘ حیدرآباد

خرم مراد صاحب نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘ کا نیا تصور پیش کیا ہے (نومبر۲۰۰۲ء)۔ ان کی تحروں میں قوموں کی خوداحتسابی کو اجتماعی استغفار کا عنوان دیا گیا ہے۔اس طرح کی تراکیب کے کثرتِ استعمال سے ایک پورا تصور بیک نظر سامنے آجاتا ہے۔ بہت سے نیک ’’متقی‘‘ لوگوں کے مالی اور عائلی معاملات خراب دیکھ کر اس کی ضرورت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ بعض مخصوص نیکیوں کے اصل نیکی ہونے کے تصور نے اس طرح جڑ پکڑی ہوئی ہے کہ اجتماعی اہمیت کی نیکیاںپس پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ اس اطمینان کے ساتھ ہم اللہ کو راضی کر رہے ہیں--- بار بار حج اور عمرے‘جب کہ عازم حج و عمرہ کے پڑوس میں غربت ہو‘ غذا اور علاج میسر نہ ہو‘ اسے آپ کیا کہیں گے؟ نیکی؟؟

 

…… وہ مختلف عناصر جن سے اس جماعت کی ترکیب ہوئی ہے‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے بمشکل آمادہ ہوتے ہیں۔ نہ ان میں اتنا صبر ہے کہ ہمدردی کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھیں اور بتدریج ایک دوسرے کی اصلاح و تربیت کریں‘ نہ اتنا انصاف ہے کہ اپنی خوبیوں کے ساتھ اپنی کمزوریوں کا اور دوسروں کی کمزوریوں کے ساتھ ان کی خوبیوں کا بھی احساس و اعتراف کریں‘ نہ اتنی لچک ہے کہ کسروانکسار سے ایک متحد المزاج معجون بننے کے لیے تیار ہوں‘ نہ اتنا حسنِ ظن ہے کہ جو لوگ انھی کی طرح ایک دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے آئے ہیں اُن کے عمل میں اگر کچھ کوتاہی پائیں تو اس کو ارادی فجور و عصیان یا قصدی غلط کاری کے سوا کسی اور سبب پر بھی محمول کرسکیں۔ ہر ایک جس طبقے سے آیا ہے اور جس رنگِ زندگی سے اب تک مانوس رہا ہے اسی میں پوری جماعت کو رنگا ہوا دیکھنا چاہتا ہے‘ اور اس سے مختلف رنگ دیکھ کر دل برداشتہ ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ یہ ذہنیت اس جماعت کے مزاج کے بالکل خلاف ہے اور اس کا نتیجہ پھر یہی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک طبقے اور ایک ایک رنگ کے لوگ الگ الگ گروہ بن جائیں اور ہر ایک گروہ اپنی خوبیوں کے ساتھ اپنی اُن کمزوریوں اور خامیوں کا بھی حامل رہے جن کی بدولت اب تک ہمارا کوئی گروہ اقامت ِ دین کے لیے کوئی قابل ذکر سعی نہیں کر سکا ہے۔

ہماری اس جماعت کی خوبی یہ تھی کہ اس نے ایک کلمہ اور ایک نصب العین کی کشش سے تمام مختلف طبقات کے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر یکجا کرلیا۔ ان میں وہ نئے طبقے کے لوگ بھی ہیں جو جاہلیت ِ جدیدہ میں غرق ہو چکے تھے اور اب اللہ نے ان کی آنکھیں کھول کر راہِ راست انھیں دکھا دی۔ ان میں وہ متوسط طبقے کے لوگ بھی ہیں جو نئے اور پرانے رنگ کی مخلوط سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں وہ پرانے رنگ کے لوگ بھی ہیں جن میں کچھ شرعی صورت کی تقالیداور کچھ دور انحطاط کے قدامت پرستانہ تعصبات ملے جلے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک طبقہ اپنے اندر کچھ خوبیاں رکھتا ہے جو دوسرے طبقہ میں نہیں ہیں اور کچھ خرابیاں رکھتا ہے جن سے دوسرا طبقہ محفوظ ہے۔ ہماری اس جماعت کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ یہ سب مل کر باہمی رفاقت‘ صحبت اور تعاون سے بتدریج ایک دوسرے کی خرابیوں کو دُور کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیاں جذب کرنے کی کوشش کریں‘ اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ان میں تحمل ہو‘ صبر ہو‘ ہمدردی ہو‘ انصاف ہو‘ لچک ہو‘ حسن ظن ہو۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۱ھ ‘ دسمبر۱۹۴۲ء‘ جنوری ۱۹۴۳ء‘ ص ۷-۸)