مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۲۲

دنیا بھر کے مسلم اہلِ علم و فضل نے یہ اہم سوال اُٹھایا ہے کہ مسلم اُمہ کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہوا ہے؟ کیا معاذاللہ، اسلام ہی غیر متعلق ہوگیا ہے یا کیا اسلام کو اور تاریخ میں اس کے کردار کو سمجھنے کے لیے مسلم طرزِ فکر میں کوئی خامی ہے؟ مغربی استعمار کے شکنجے سے آزادی کی جدوجہد میں اسلام کو مؤثر ترین شکل دینے کی ترکیب کیا ہو، تاکہ مسلم معاشرت کو خود اسی کی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے ؟

غوروفکر اور بحث و مباحثے کی ان ساری کوششوں کا مقصد امت کو تجدید اور تشکیل نو کے راستے پر ڈالنا تھا۔ جمال الدین افغانی، امیر شکیب ا رسلان، حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی، مفتی محمد عبدہٗ، ڈاکٹر محمد اقبال، رشید رضا ،حسن البنا، ابوالکلام آزاد، سیّد قطب شہید،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مالک بن نبی اور متعدد دیگر مفکرین ومصلحین نے انھی سوالات پر غور کیا، اور اُمہ جس دلدل میں دھنس چکی تھی، اس سے اُمت کو نکالنے کے لیے اپنے اپنے فہم کے مطابق مثبت راہیں متعین کیں۔بلاشبہہ مختلف حالات اور الگ الگ پس منظر میں، ان رجالِ کار کی بعض آرا سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے، مگر مجموعی طور پر درست سمت کے تعین کے لیے، ان سبھی نے دردِ دل سے کاوشیں کی ہیں، جن کی قدر کی جانی چاہیے، اور منزل تک پہنچنے کے لیے دینی، فکری، تحقیقی، علمی،سیاسی اور اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے۔

مفکرین اور مصلحین کی اس کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس گھٹاٹوپ فضا میں ۱۹۲۰ء کے زمانے میں صرف ۱۷ سال کی عمر میں انھوں نے مسلم امہ کی تعمیرِنو کا بیڑا اٹھایا ۔دس سال کی صحافتی زندگی کے بعد انھوں نے خود کو مسلم فکر کی تشکیل نو کے جاں گسل کام کے لیے وقف کر دیا اور مسلم دُنیا میں سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کی خاطر ایک تحریک بپا کی۔ جس کا مقصد امت کے احیا کے لیے راہیں متعین کرنا تھا، ایک ایسا راستہ جو پوری امت کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔

اخبار الجمعیۃ میں اسلام کا سرچشمۂ قوت کے حوالے سے سلسلۂ مضامین لکھنے کے بعد، ۱۹۲۷ء میں سیّدمودودی نے اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کا جواب دینے کے لیے ایک طویل تحقیقی سلسلۂ مضامین شروع کیا، جو کتابی شکل میں ڈھل گیا۔ ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کی صورت میں ان کی یہ پہلی باقاعدہ کتاب دارالمصنّفین، اعظم گڑھ سے شائع ہوئی۔اس کے بعد ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو اپنی وفات تک انھوں نے اسلام پر ۱۴۰کتب اور متعدد علمی مقالے لکھے، جن میں مذکورہ فکرمندی اور تاریخی تجربے کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی نمایاں ترین علمی خدمت چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن 'ہے جو ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔

اسلامی فکر کی وضاحت اور تشکیل جدید کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے مسلم معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیا، اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی، جو اس کے تنزل اور انتشار و زوال کا باعث بنے۔ انھوں نے مغربی تہذیب پر اور دنیا، انسان، معاشرت و معیشت سے متعلق اس کے تصورات اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی جامع،علمی، منصفانہ اور مبنی برحقائق تنقید کی۔ وہ نہ تو مغربی تہذیب کے روشن پہلوؤں سے بے خبر تھے اور نہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کج رو نظریات اور تحریکوں سے ناواقف تھے۔ وہ اس کے فکری مغالطوں، انسان، مذہب اور معاشرے کے بارے میں اس کے ناقص تصور ،اس کے اخلاقی الجھاؤ، سیاسی و سماجی کجی اور معاشی ناانصافیوں اور استحصال کے شاکی بھی تھے۔ سیّد مودودی کے افکار نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی بلامبالغہ تین نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ بجا طور پرانھیں جدید اسلامی احیا کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔

سیّد مودودی بیک وقت ایک عالم دین، ایک سماجی مفکر اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا اوّلین اور نمایاں ترین کارنامہ اسلامی فکر کی تشکیل نو ہے، جس کا ماخذ تو دین کی اصل نصوص ہیں، تاہم ان کا انداز ہمارے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہٴ حیات کے طور پر پیش کیا۔ جس کا پیغام انسان میں باطنی تبدیلی پیدا کر کے اس کی روحانی اور اخلاقی تطہیر ہے۔ ان کے پیش نظر یہ ہے کہ ان تبدیل شدہ حضرات و خواتین کو متحرک کرکے نہ صرف ان کی زندگیوں کی تعمیر کی جائے بلکہ الہامی رہنمائی اور اللہ کے رسولوں بالخصوص خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں فراہم کردہ نظریۂ حیات، اقدار ، اصولوں اور خیالات کے مطابق انسانی معاشرے اور تہذیب کی بھی تشکیل نو کی جائے۔

 سید مودودی نے اسلامی فکر کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات کے طور پر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور مسلم اُمہ ایک عالمی برادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور اسی پر اسلام کی اصل فطرت، ثقافت اور تہذیب استوار ہے ۔ بالفاظِ دیگر مسلم اُمہ ایمان کی بنیاد پر قائم ایک عالم گیر برادری ہے۔ توحید کے تصور نے انسان کو اس کائنات کی یک رنگی اور انسانیت کی یگانگت کی بنیاد پر یہ سبق دیا ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی توحیدکے دیے ہوئے قوانین اور اقدار اپنی آفاقیت کے ساتھ ان اُمور کا احاطہ کرتے ہیں۔

پھر یہ کہ اسلام کسی خاص قوم، برادری، نسل، علاقے یا زبان تک محدود نہیں ہے۔ یہ تو انسانوں کے خالق کی طرف سے اس کے رسولوںؑ کے ذریعے بھیجی گئی رہنمائی ہے،جس کا آغاز زمین پر زندگی کی ابتدا سے ہی ہو گیا تھا،یعنی اسلام تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کا دین ہے۔ اس لیے مسلمان، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ـؑپر ایمان رکھتے ہیں۔

’ اسلام‘ کا لغوی مفہوم ’سلامتی اور تسلیم‘ کا ہے۔اسلام یہ بتاتا ہے کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت و اطاعت ہے۔ اور یہ کہ اس کے نبی کو فکر و عمل کے لیے نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور رہنمائی کو مان کر زندگی گزاریں۔ ’شریعت‘ (لغوی معنی: راستہ) ایسے معیارات، اقدار اور قوانین کا مجموعہ ہے، جو مل کر اسلامی طرزِ زندگی تشکیل دیتے ہیں۔

اسلام انسان کے اختیار و انتخاب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور ایمان و عقیدے کے حوالے سے کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانوں کے لیے ایسی مذہبی اور ثقافتی ترتیب فراہم کرتا ہے، جو فی الحقیقت تکثیریت پر مبنی ہے۔ نظریاتی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے آزادانہ مرضی اور دلیل ہی واحد راستہ ہے۔ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے: ایمان اور عبادت، روح اور مادیت، شخصیت و کردار، فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی و بین الاقوامی اُمور۔

 تاہم، زندگی اور کائنات سے متعلق اسلام کا اخلاقی طرز فکر سب پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر مادی شے کو بھی روحانیت اور تقدیس کی چھتری تلے جمع کردیا گیا ہے۔ اس سے نہ تو دنیاوی پہلو خارج ہیں اور نہ اسلام زندگی کے غیرمذہبی پہلووٴں کو مذہبی مراسم سے متصادم سمجھتا ہے، بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو ایک اخلاقی و روحانی نظام کے تابع کرتا ہے ۔

اس لیے اسلام بنیادی طور پر ایمان، رنگ، عقیدے، زبان اور علاقے سے قطع نظر تمام انسانوں کے لیے ایک اخلاقی اور نظریاتی طرزِ فکر ہے۔ یہ ثقافتوں اور مذاہب کے تنوع کی حقیقت تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کا احترام بھی کرتا ہے۔ مسلم اُمہ میں بھی تنوع موجود ہے ۔اسلام مصنوعی اتحاد، جبری اطاعت یا تضادات کے اجتماع کا حامی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ بقائے باہمی اور باہمی تعاون کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔

اسلام میں ایمان و تہذیب کا ایک اہم پہلو ان اقدار کا فروغ ہے، جو قطعی اور عالم گیر ہیں۔  ان کے ساتھ وہ اس پر زور دیتا ہے کہ ایسے بنیادی اداروں کی تشکیل کی جائے، جو اس نظام کو مضبوطی اور پاے داری دیتے ہیں۔ پھر اس احساس کو بھی زندہ و توانارکھتاہے کہ زندگی کا ایک بڑا میدان ایسا ہے، جس میں موجود لچک، وقت کے بدلتے تقاضوں سے نباہ کر سکتی ہے۔ اسلامی اقدار کا ڈھانچا (Islamic System of Values) انسانی فطرت اور عالم گیر حقائق، پر استوار ہے، جس میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ان اقدار کے اطلاق کے لیے باریکیاں اور طریق کار بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات کے مطابق اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

اسلام ایک عمومی ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے، لیکن یہ انسانی افعال و کردار کے لیے سخت گیر ہدایات سے احتراز برتتا ہے ۔یہ ایک فرد کو معاشرے، بلکہ تمام مخلوقات میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہر فرد انفرادی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسان کی حیثیت سماجی مشینری میں محض ایک پرزے کی نہیں ہے۔ معاشرہ، ریاست، قوم اور انسانیت سب ہی اہم ہیں اور ہر ایک کا ایک خاص کردار ہے۔ تاہم، زندگی کے اختتام پر حتمی جواب دہی فرد ہی کی ہوگی ۔اس طرح اسلامی نظام میں فرد کی مرکزیت لازم ٹھیرتی ہے۔ یوں فرد کا ربط معاشرے اور اس کے اداروں سے بھی جوڑا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک متوازن تعلق بھی قائم کیا گیا ہے۔

اسلامی اخلاقیات، زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے تصور پر مبنی ہیں، نہ کہ زندگی کے انکار پر۔ اخلاقی ضابطے کی پاسداری کرکے انسانی افعال کے تمام پہلوؤں کو نیکی کا درجہ مل جاتا ہے۔ فرد کی سطح پر تقویٰ اور معاشرے میں اخلاقیات ایسی مطمئن زندگی تشکیل دیتے ہیں، جس میں ذاتی اوراجتماعی فلاح اور ہر ایک کی بہبود و ترقی محفوظ ہے۔ دولت کوئی مذموم شے نہیں بلکہ مال کمانے کی ترغیب دی گئی ہے بشرطیکہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی حقائق کی پاس داری کی جائے۔ ایک اچھی زندگی انسانی کوشش کا ایک بڑا ہدف ہے ۔

اس دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی کا باہم براہ راست تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں زندگی ہی کے دو رخ ہیں۔ زندگی کے غیر مذہبی امور کو بھی روحانیت سے استوار کرکے اور دنیاوی زندگی کی ہرشکل اور فعل کو اخلاقی نظام کا حصہ بنا کر، انسان کو یہ صلاحیت بخش دی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا معاشرہ بھی تشکیل دے، جس میں  سب کی ضروریات پوری کرنے کا سامان ہو۔

انفرادی آزادی، ملکیت کا حق اور مالی سرگرمی کا حق، کاروبار کے ضوابط اور وسائل و مواقع کی عادلانہ تقسیم، اسلام کے معاشی نظام کے لازمی عناصر ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ، ہرسطح پر اخلاقی چھلنیاں موجود ہیں۔ فرد کی نیت، ذاتی طرزِ عمل، معاشرتی رواج اور چلن، آجر اور اجیر کا رویہ اور فرد وریاست کا تعلق، ان سب کی تہذیب معاشی ضابطوں کو ایک ایسے مجموعی نظام کا حصہ بناتی ہے، جس سے انصاف اور سماجی فلاح یقینی ہو جائے۔ اس میں ریاست کا بھی ایک مثبت کردار ہے بالخصوص نگرانی، رہنمائی اور ضروری قواعد کی تشکیل کے ذریعے۔ تاہم، اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آزادی، معاشی مواقع کے حصول اور حق ملکیت کا تحفظ کرے۔

  اسلام کے طرزِ فکر میں ضروریات کے حصول کو اہمیت حاصل ہے اور یہ ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہو، اور جس کا بنیادی ذریعہ فرد کی محنت اور کمائی کے لیے عمل اور جدوجہد ہے۔ اس نظام میں ایسا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے جس میں نادار افراد کو بھی باعزّت زندگی گزارنے اور معاشرے کا مؤثر کردار بننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے یہ کہا ہے کہ اسلام دولت کمانے کی ہرگز نفی نہیں کرتا بلکہ اسے اللہ کا فضل قرار دے کر تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے لیکن اس کا اصل ہدف اخلاقی بہتری اور روحانی مسرت کا حصول اور عدل و مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، جس میں تمام افراد کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہوں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ معاشی اور سماجی اعتبار سے اپنے کمزور افراد کے لیے مؤثر مدد فراہم کرے۔

اس مقصد کے لیے خاندان کے ادارے، معاشرے اور ریاست کے دیگر ستونوں کا کردار تشکیل دیا گیا ہے۔ ’علم معاشیات‘ میں اسلام کا امتیاز آزادی و فرائض میں اور استعداد و انصاف میں متوازن تعلق قائم کرنا ہے۔ انصاف، اسلام کی اقدار میں سے ایک کلیدی تصور ہے اور عدل کا قیام اللہ کی طرف سے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بتایا گیا ہے ۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اپنے معبود سے روحانی تعلق تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسان کا دوسرے انسانوں اور دیگر مخلوقات سے تعلق بھی اسی طرح سنجیدگی سے لازم ہے۔

یہ اس طرزِ فکر اور انسان و معاشرت سے متعلق تصور کا مختصر بیان ہے، جس میں معیشت اور معاشیات سے متعلق سیّد مودودی کے طرزِ فکر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سیّد مودودی معروف معنوں میں معیشت کے میدان کے ماہر تو نہ تھے، تاہم معاشی موضوعات پر ان کی تحریروں نے معیشت کے بارے میں ایک منفرد طرزِ فکر کی بنیاد ضرور ڈالی ہے، جسے اب ’اسلامی معاشیات‘ کہا جاتا ہے۔

سیّد مودودی نے نہ صرف قرآن اور سنت میں موجود معاشی تعلیمات کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے مجموعی تہذیبی پس منظر میں ایک فرد کی معاشی مشکلات کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ انھوں نے خاصی وضاحت سے بتایا ہے کہ ایک جامع انداز میں ان مشکلات کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے کہ معاشی زندگی کے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری بھی ہو اور مادی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے کو دو ٹوک انداز میں اور پوری وضاحت سے بیان کرنا ہے۔

 ممتاز برطانوی ماہر معیشت اور ڈرہم یونی ورسٹی میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ اور اسلامی علوم کے ڈائرکٹر پروفیسر روڈنی ولسن(Rodney Wilson) کا کہنا ہے :

[سیّد مودودی کی] تحریروں اور تقریروں نے برصغیر میں ماہرین معیشت کی جدید نسل پر گہرے اثرات مرتب کیے،جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو ان خیالات و تصورات کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی کوشش کی، جو انھوں نے اپنی تربیت کے دوران سیکھے تھے۔ اگرچہ ’اسلامی معاشیات‘ کی اصطلاح سیّدمودودی نے ایجاد کی تھی، لیکن اس شعبۂ علم نے ایک درسی مضمون کی شکل ۱۹۷۰ء میں اختیار کرنا شروع کی ۔ (مقالہ: The Development of Islamic Economics، مشمولہ: Islamic Thought in the Twentieth Century، (لندن:۲۰۰۴ء) ، ص ۱۹۶-۱۹۷)

 جدہ، سعودی عرب میں اسلامی ترقیاتی بنک کے اسلامی تحقیق و تربیت کے ادارے (IRTI) کے ریسرچ ایڈوائزر ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے لکھا ہے:

پیشہ ور ماہر معیشت نہ ہونے کے باوجود اسلامی معاشیات کے میدان میں سیّدمودودی کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھیں تاریخ میں ایسے عظیم مفکرین میں شمار کیا جائے گا، جنھوں نے جدید دور میں اس شعبے کی تشکیل کے لیے بنیاد رکھی تھی۔ ہندوپاک میں اور دیگر مسلم ممالک میں اس میدان میں لکھی گئی تقریبا ًتمام تحریروں پر ان کی چھاپ ہے اور وہ انھی کی مرہون منت ہیں ۔(The Muslim World، (اپریل ۲۰۰۰ء) میں مقالہ Mawdudi's Contribution to Islamic Economics، ص ۱۶۳-۱۸۰)

سیّدمودودی نے ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے، اس کی بنیادوں، اس کے منہج اور ایک اسلامی معاشی نظام کے اداروں کے خدوخال بیان کرکے بڑی بنیادی خدمت سرانجام دی ہے۔ انھوں نے روایتی معاشیات میں اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے والے فرد(Homo economicus) کے مقابلے میں ایک ایسے انسان کا تصور دیا ہے، جو اسلام کی بنیاد پر غوروفکر کرنے والا ایک ایسا  ذمہ دار فرد ہے جسے اپنے افکار و خیالات اور فیصلوں کا آخرت میں جواب بھی دینا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بیان کرنا بھی دلچسپ ہے کہ جدید معاشیات کے دو بڑے مکاتب فکر کے بانی ایڈم سمتھ [م:۱۷۹۰ء] اور کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] بھی بنیادی طور پر کوئی ماہرین معاشیات نہ تھے، لیکن کلاسیکی اور اشتراکی مکاتبِ فکر کی بنیاد ان دونوں مفکرین کے تصورات اور تصانیف پر کھڑی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء میں پروفیسر الینور اوسٹروم (Elinor Ostrom -انڈیانا یونی ورسٹی) نے معاشیات کا ’نوبیل پرائز‘ حاصل کیا، حالانکہ یہ خاتون، معروف پیشہ ورانہ بنیادوں پر ماہر معاشیات نہیں ہیں۔

ہم متوجہ کرتے ہیں کہ ماہرین سماجیات و سیاسیات اور سماجی و سیاسی جدوجہد سے وابستہ کارکنان، مولانا مودودیؒ کی تصانیف کو غور سے پڑھیں۔ اس سے اُنھیں ایسا وژن اور بصیرت حاصل ہوگی، جس کی روشنی میں موجودہ سماجی ومعاشی فساد سے معاشرے کو پاک کرنے اور معاشی عدل کی تعمیر کے مؤثر طریقے اپنا سکیں گے۔(جاری)

بلاشبہہ اللہ کی تلقین کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،یعنی یہی راہِ حق ہے ،یہی راہِ مستقیم ہے جسے قرآن نے ’ صراطِ مستقیم ‘سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ نکتہ بہت اہم و لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں تین مقام (البقرۃ۲ :۱۲۰، آل عمران۳: ۷۳،الانفال۸:۷۱) پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے یہ ا علان فر مایا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے: قُلْ  اِنَّ ھُدَى اللہِ  ھُوَالْہُدٰى۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۰)، ’’اے رسولؐ [صاف صاف ] کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت بس اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘،یعنی سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے، جسے اس نے اپنی کتاب کے ذریعے روشن کر دیا ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہے: اِنَّ  ھٰذَا الْقُرْاٰنَ  یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل۱۷ : ۹) ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘‘۔اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ اِسی راہ کو دکھانے میں بسر ہوئی۔ در اصل انسان کے لیے حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ یہی ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ا للہ ربُّ العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کے نام پنے اولین پیغام ہی میں ا س نکتہ کو واضح کردیا تھا اور ان کے توسط سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے باخبر کردیا تھا۔ اس بنیادی پیغام کے پہلے حصہ میں اس حقیقت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا کہ زمین میں اس کی سکونت اور وہاں کے مال و متاع سے انتفاع بس ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہی ہے، یعنی دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے اور یہاں کا ساز و سامان بھی دائمی نہیں ہے ،ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والا ہے، لہٰذا اے انسانو! بہت سنبھل کر زندگی بسر کرنا اور گزر بسر کے لیے جو چیزیں تمھیں عطا کی جائیں ان کا مالک اپنے کو نہ سمجھنا اور نہ انھیں پاکر کسی فریب اور تکبر میں مبتلا ہونا ۔ دنیا کی زندگی اور یہاں کے مال و اسباب، یہ سب عطائے الٰہی ہیں۔ لہٰذا، ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کر تے رہنا اور اسی کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کرنا ۔ارشادِ ربّانی ہے:

وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶ (البقرۃ ۲: ۳۶ ) اور تم سب کے لیے زمین میں جائے قیام اور ساز وسامان [سے انتفاع ]ایک [محدود]مدت تک کے لیے ہے۔

سورۃ الاعراف کی آیت۲۴ میں بھی یہی پیغام مذکور ہے اور اس کے بعد کی آیت۲۵ میں انسان کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی ہے: قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ۝ ’’اللہ نے فرمایا: اسی زمین میں تم لوگ زندگی بسر کرو گے،اسی میں تمھیں موت آئے گی اور پھر اسی سے تم سب [ زندہ کر کے] نکالے جائو گے‘‘۔ اس آیت کے ذریعے انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے اور اس عارضی و فانی مستقر سے رخصتی کے بعد پھر تمھیں زندہ کرکے زمین سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد کیا واقعات ( تمھیں کہاں جانا ہے، کس کے سامنے حاضر ہونا ہے، حساب و کتاب سے کس طرح گزرنا ہے، اعمال نامہ کیسے حوالہ کیا جائے گاا اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ سننا ہے، پھر ایک نئے مستقر یا ٹھکانے میں رہنا ہے، وہاں کتنے عرصہ رہنا ہے؟) رونما ہوں گے ، ان سے متعلق ساری تفصیلات دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ گویا صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا گیا کہ ارضی دنیا میں جو کچھ مختصر یا طویل زندگی میسر ہوگی، اسے یہیں گزارنی ہے، یہیں موت بھی آنی ہے۔ اسی پر بس نہیں، ایک دن اسے اسی زمین سے نکالا جائے گا،یعنی زندہ کرکے اٹھایا جا ئے گا اور مالک الملک کے حضور پیش کیا جائے گا،لہٰذا اس سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کواچھی طرح تیار کرلو۔ یہاں سے رخصتی کے بعد تم چاہو گے بھی اور رو کر، گڑگڑا کر التجا کرو گے تو بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔

سورۃ البقرہ کی آیت۳۶ میں یہ پیغام دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے اس کے بعد کی آیت میں ایک اور انتہائی اہم پیغام حضرت آدم علیہ السلام کے توسط سے سارے انسانوں کو دیا ہے جسے اولین پیغام کی تکمیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و عارضی زندگی کس طر یقہ سے بسر کرے کہ اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کی زندگی پُرسکون،  فرحت بخش اور ہر طرح کے رنج و غم سے پاک بن جائے۔ اس آیت میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ جو کوئی دنیوی زندگی کے شب وروز اللہ ربّ العزت کی ہدایت کے مطابق گزارے گا تو اسے سکون و آرام نصیب ہو گا اور دائمی زندگی میں اسے نہ کوئی غم لاحق ہو گا اور نہ کوئی خوف و خطر دامن گیر ہوگا ، یعنی وہ بامراد ہوگا اور آخرت میں سرخ روئی و کامیابی سے شاد کام ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸ (البقرۃ۲:۳۸) پس میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ بھی میری ہدایت کی پیروی کریں گے، انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی رنج۔

یہ امر بدیہی ہے کہ اس پیغام ِ الٰہی ( جسے ہبوط آدم و حوّا علیہما السلام کے وقت،یعنی زمین پر بھیجتے ہوئے نے ان کے گوش گزار کیا گیا تھا) کے مخاطب اولین انسان و اولین پیغمبر حضرت آدمؑ کے توسط سے پوری نسلِ انسانی یا رہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں ۔ بلاشبہ یہ پیغام اپنے مضمون اور مخاطب دونوں لحاظ سے انتہائی اہم اور معنویت سے بھر پور ہے۔ ان دونوں آیات کے پیغام کا ماحصل آسان اسلوب میں یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا ساز وساما ن عارضی و فانی ہے، انسان کا اصل سرمایہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی ہے۔ دوسری آیت اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنی ہدایت کی پیروی کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسی پر اسے فوز وفلاح اور سکون و اطمینان نصیب ہونے کی بشارت دی ہے۔گویا کہ ارضی دنیا میں انھیں بھیجتے ہوئے ان سے دو ٹوک انداز میں یہ خطاب ِ الٰہی ہوا : اے انسان!ربِّ کائنات کی مرضی کے مطابق تمھیں دنیا میں بھیجا جا رہا ہے ،لیکن یہ جان لو اور یقین کرلو کہ تم سب کی کامیابی اس ا وّلین پیغام کو قبول کرنے اور دنیوی زندگی کے ہر معاملہ میں اس پر عمل کرنے میں ہے۔

ہدایت الٰہی کے لیے رہنمائی

رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کی ہدایت اس کے بندوں تک کیسے پہنچے گی؟ اسے دوسری آیات میں واضح کردیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں قصۂ حضرت آدم علیہ السلام کے بیان میں انسان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہدایتِ الٰہی اور اس کی تفصیلات ا للہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں، یعنی رسولوں کے ذریعے پہنچے گی،پس جو کوئی تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا اور ہدایاتِ ربّانی کی روشنی میں اپنے حالات سدھارے گا، وہ ابدی زندگی میں سکون و طمانیت سے شاد کام ہوگا ۔ارشادِ ربَّانی ہے:

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَاہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۵ (الاعراف۷:۳۵) اے بنی آدم! یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے (میرے) رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی اور گناہوں سے پرہیز کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو اسے نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی رنج ہی سے دوچار ہو گا ۔

 یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ قرآن کی مختلف سورتوں میں حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے اور ہر مقام پر کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بنیادی پیغام ان کے توسط سے سارے انسانوں کے گوش گزار کیا گیا ہے، جیساکہ صاحبِ تفہیم القرآن  نے سورۃ الاعراف کی آیت۳۵ کی تشریح کرتے ہوئے حاشیہ میں اس قیمتی نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’ بنی نوع انسان کی زندگی کا جب آ غاز ہورہاتھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۵ ،حاشیہ ۲۸ )۔   

سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت ۳۸ کی نسبت سے یہ و ضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض مفسرین کی تشریح کے مطابق اللہ کی ہدایت کی پیروی یا اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرنے پر دنیا و آخرت دونوں جہاں میں سکون و اطمینان میسر ہوگا،یعنی اس آیت میں خوف و غم سے نجات کا تعلق دنیوی و اُخروی دونوں زندگی سے ہے (صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام، ریاض، ص۹،حاشیہ ۲ )۔

مفسرِقرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے سورۃ النحل کی آیت۹۷ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا  مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۷  [ اہلِ ایمان میں جو کوئی نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،ہم اسے پاکیزہ و خوش گوار زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور عطا کر یں گے ] کی تفسیر میں یہ واضح کیا ہے کہ اس بشارت کا تعلق دنیوی و اخرو ی دونوں زندگی سے ہے اور بیان القرآن  کے مؤلف گرامی مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’ مفسر تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس بشارت سے یہ مراد نہیں کہ مومن صالح کو کبھی فقر و فاقہ یا مرض طاری نہ ہوگا، بلکہ مطلب یہ کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسا نور پیدا ہوگا،جس سے وہ ہر حال میں شاکر و صابر اور تسلیم ورضا سے رہے گا اور سکون و جمعیتِ خاطر کی اصل یہی رضا ہے‘‘(تفسیر ماجدی، ج ۲،  ص۲۲۹- ۲۳۰،حاشیہ ۱۵۶)     

مزید یہ کہ جدید دور کے بعض مفسرین نے اس آیت کے پہلے حصے سے دنیوی زندگی کی خوش گواری ہی مراد لی ہے، اس لیے کہ اس کے آخری حصے میں خاص طور سے اُخروی زندگی سے متعلق خوش خبری سنائی گئی ہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح میں احسن البیان کے مؤلف گرامی تحریر فرماتے ہیں : ’’حیاتِ طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے،اس لیے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے [ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا  کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ]  میںہے‘‘ ( تفسیر احسن البیان،  محولہ بالا ، ص۳۶۳،حاشیہ ۱)۔

اس آیت کے حوالے سے مولانا سید عبد الکبیر عمریؒ نے بجا فرمایا ہے: ’’جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑی ہی پُر سکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات میں بھی انھیں ایک طرح کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘ (نورِ ہدایت، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، عمر آباد،۱۹۱۴ء،ص ۲۷)۔    

اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اولین پیغام کے دوسرے حصے ( ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں انسان کے لیے فوز وفلاح ہے) کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو متنبہ کردیا ہے جن کی زندگی ہدایتِ الٰہی کے خلاف گزر تی ہے یا گزرے گی کہ انھیں ا خرو ی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا، یعنی ہدایتِ الٰہی کے خلاف زندگی گزارنے والوں کو ان کے بدترین انجام کی خبربھی سنا دی گئی ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ (البقرہ ۲: ۳۹) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنم والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔

اسی سے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت ۳۶ ملاحظہ ہو: وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۶ ’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان (رسولوں) کے تئیں تکبر و سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے ،وہ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘،یعنی ہد ایتِ الٰہی قبول کر نے اور راہِ راست اختیار کرنے والوں کے برخلاف جو لوگ ہدایتِ الٰہی کا انکار کرنے والے،اس سے منہ موڑنے والے اور راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینے والوں سے مخالفت و عداوت کا معاملہ کرنے والے ہیں ان کا بدترین انجام یہ ہوگا کہ وہ ابدی زندگی میں جہنم کی آگ میں جھلسا ئے جا ئیں گے،اس سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ قرآن میں دو سرے مقام پر شیطان کے پیروکاروں کو صاف طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ابلیس یا شیطان کی پیر و ی میں پوری زندگی گز ار دے گا اور کفروانکار اور سرکشی،یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی و نافرمانی کی راہ پر چلتا رہے گا جہنم کو اس سے بھر دیا جائے گا۔ اللہ ربُّ العزت کا فرمان ہے : 

لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۱۸ (الاعراف۷:۱۸) ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تم سب سے[ ان کے سمیت] جہنم کو بھر دوں گا۔

 مزید برآں شیطان اور اس کے متبعین کو مخا طب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا:

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۸۵ (صٓ۳۸: ۸۴-۸۵) اللہ نے فرمایا :حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو ان[میرے بندوں] میں سے تمھاری پیروی کریں گے۔  

راہِ حق اور صراطِ مستقیم

رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انھیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لیے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ،تاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰)۔

قرآن نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے۔ آیتِ ذیل میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے :      

اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ  اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۝۳ (الدھر۷۶:۳) بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔

اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لیے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے   اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشر یح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :  

اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝۵۱  (اٰل عمرٰن۳:۵۱) بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لیا وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کے لیے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس سوال کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں: 

وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۱۰۱(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱) اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔

اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انھی لوگوں کے لیے صلاح و فلاح کی بشارت ہے ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)۔

اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لیے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ (الزخرف ۴۳:۴۳) پس اس چیز [کتاب] کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔

 بلاشبہہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے،یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔

اہلِ حق کی خصوصیات

اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟،اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: 

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ (البقرہ۲:۳-۵) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں،اورجو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔

تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ تا۵) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ (البقرہ ۲:۵) ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انھیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انھیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انھیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔

 مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں،دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انھیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمتِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے (البقرہ۲ :۱۵۶-۱۵۷)۔ واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عملِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:

يٰٓاَ يَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۝۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۝۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۝۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۝۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئنّہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔ 

 رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں ( ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)۔

 اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے :   حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔  اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمھیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ( صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انھیں جنت میں سب سے بڑ ی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفراز کیے جا ئیں گے ۔

اللہ ربُّ العزت نے ایمان و عملِ صالح سے مزین ہوکر رضا ئے الٰہی سے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لیے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ پر نظر ڈالیں جس میں انھیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کیے گئے ہیں ۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انھیں اسی سورہ میں نہ صرف’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس درد ناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کے لیے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:  

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۝۰ۭ (الزمر۳۹:۱۵) کہہ دیجیے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔ 

مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو ’اصحٰب المیمنۃ‘( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں ’اصحٰب الیمین‘( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین ’اصحٰب المشئمۃ‘  (بدنصیب/ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘( نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار)(الواقعۃ۵۶:۴۱) قرار دیے گئے ہیں ۔ اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے۔

ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انھی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا ،اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو اپنے ہی کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵)  جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔

قُلْ يٰٓاَ يُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا ج وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝۱۰۸ۭ (یونس ۱۰:۱۰۸) اے رسولؑ! بتا دیجیے اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمھیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔

 مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لیے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لیے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى۝۰ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۝۷۶(مریم۱۹:۷۶) اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۝۱۷ (محمد۴۷:۱۷) وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

اس میں شبہہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انھیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں، اپنے اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں اور  ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اوراستقامت کی توفیق کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، تو اللہ رحمٰن و رحیم انھیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے:  وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۝۸۲ ( طٰہ۲۰:۸۲) ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایما ن لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں‘‘۔

راہِ حق پر استقامت

ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚ  بَيِّنٰتٍ۝۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۝۱۶ (الحج ۲۲:۱۶) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے‘‘۔ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ (الزمر۳۹:۲۳) ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے‘‘۔ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَ يَہْدِي السَّبِيْلَ۝۴ (الاحزاب ۳۳:۴) ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے‘‘ ۔ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت کسے عنایت کرتا ہے؟، اسے بھی ربِّ کریم نے اپنی کتاب میں واضح فر ما دیا ہے۔ ارشادِالٰہی ہے:

 اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ  اِلَيْہِ  مَنْ يُّنِيْبُ۝۱۳(الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے منتخب کرلیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے ۔  

یہی حقیقت سورۃ الرعد کی آیت۲۷  میں بیان ہوئی ہے: وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۝۲۷ ، ’’وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے‘‘‘۔ 

اوپر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے،ہدایت سے نوازتا ہے ،اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ صحیح معنوں میں کون ہدایت یافتہ ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔ واقعہ یہ کہ راہِ ہدایت پر چلتے ہوئے ،اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ خوش گمانی یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی کیفیت میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے،بس اس راہ میں کوشش اور اس میں کامیابی کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۷ ملا حظہ ہو:

اِنَّ رَبَّكَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ ۝۰ۚ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝۱۱۷ (الانعام ۶:۱۱۷) بے شک تیرا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔

تقریباً یہی حقیقت چھ دیگر آیات میں بھی واضح کی گئی ہے(النحل:۱۶؍۱۲۵،بنی اسرائیل ۷ا:۸۴،القصص۲۸:۵۶-۸۵، النجم۵۳:۳۰، القلم۶۸:۷)۔

واقعہ یہ کہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)،تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوش نودی کے لیے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے: 

 فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۝۳۲ۧ (النجم۵۳: ۳۲) پس اپنے آپ کو بہت پاک نہ سمجھو،وہی[اللہ ہی] بہتر جانتا ہے کہ واقعی کون متقی ہے۔ 

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النساء۴:۴۹) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا ہے۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۝۰ۭ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۵) تمھارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمھارے دلوں میں ہے۔

اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۰ ( العنکبوت۲۹:۱۰) کیا اللہ کو دنیا کے لوگوں کے دلوں کا حال بخوبی معلوم نہیں؟

ان سب کے ساتھ یہ بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ انسانی دلوں کا اُلٹ پھیر ( تصریفِ قلوب) کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کی کیفیت میں جو کچھ تبدیلی ہوتی ہے،اسی کی مشیت سے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصریف اللہ تعالٰی  القلوب کیف یشاء)۔ 

استقامت کے لیـے دُعا

ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ، بہت بڑا متقی سمجھنا چاہیے، بس اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کے لیے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہیے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میںیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ راہِ ہدایت طلب کرنا ہو، اسے اختیار کرنا ہو،اس پر مستقل چلتے رہنا ہو، یعنی راہِ ہدایت پر استقامت یا اس کی ترقی کی منازل طے کرنے کا معاملہ ہو ، خطائیں سرزد ہونے پر مغفرت ِ الٰہی کے لیے التجاء کرنی ہو، ان سب نعمتوں کے نصیب ہونے کے لیے رجوع الی اللہ اور ربِّ کریم سے دعا مانگنا نہ صرف مطلوب،بلکہ بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میںاہم بات یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے دعائیں بھی تلقین کی ہیں۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔سورۃ الفاتحہ، جیساکہ بخوبی معروف ہے، پوری کی پوری دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس میں خا ص دعا اللہ سے ہدایت طلبی (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ہے۔راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝۸  (اٰل عمرٰن۳:۸) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے ‘‘۔

اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لیے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘ ۔ ان سب کے ساتھ اس دعا کا اہتمام بھی ضروری ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہُ  ( ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم ، محولہ بالا ،۲؍ ۳۲۸ ( تفسیر سورۃ البقرۃ،آیت۱۳ ۲) [اے اللہ ہمیں حق کو حق کی حیثیت سے دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما]۔ اس لیےمومن کو ہر حال میں ان دعاؤں کو مستقل مشغلہ یا شیوہ بنا لینا چاہیے ۔ اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو، آمین!

مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض وبرکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :

  • دنیا کی زندگی اور یہاں کا ساز وسامان عارضی و فانی ہے،ان سے تعلق و انتفاع بس ضرورت کی حد تک ہی مفید ر ہے گا۔
  • دنیا میں گزر بسر کے لیے جو کچھ ملا ہوا ہے وہ سب اللہ رب العزت کا عطیہ اور اس کی امانت ہے، انھیں استعمال کرتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کرنا اور اس کی مرضیات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ 
  • زندگی کے ہر معاملے میں ہدایتِ الٰہی کی پیروی دنیا کے عارضی قیام میں سکونِ قلب و اطمینان نصیب کرے گی اور آخرت میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رضائے الٰہی اور جنت کی لازوال نعمتوں سے شاد کام کرے گی اور مستقل مستقر [جنت] کو ایسا فرحت بخش اور خوشگوار بنائے گی کہ وہاں نہ کسی چیز کا خوف لاحق ہو گا اور نہ کوئی غم ہی ہوگا ۔
  • ہر حال میں مومن سے ذکرِ الٰہی،شکرِالٰہی،رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار مطلوب ہے۔      

اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں[ دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے: وَ مَا تَوْفِیْقی اِلَّا بِاللہ۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ آمین ثمَّ آمین! 

۱۳۵۴ھ/ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقعے پر امام حسن البنا ؒ نے ’سعودی جوانوں کی انجمن‘ کے زیراہتمام منیٰ میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر اخباراُم القریٰ نے ۱۹ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ [۱۳مارچ ۱۹۳۶ء]کے شمارے میں شائع کی۔

میرے معزز بھائیو! میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز، اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ (اٰل عمرٰن  ۳:۱۰۳) [سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے]۔

اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ۧ (الحجرات ۴۹: ۱۰) [مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ]۔

اسلام کا بہترین ہدیہ، سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ، پُرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد اُبھرا ہے۔

معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد اُبھارتا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵  (البقرہ ۲: ۱۲۵) [اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو] ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا: ’’ذرا دل کو قرار پکڑنے دو، اور اس تذکرے کو سمیٹو‘‘۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یاد آتے ہیں۔

ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کردیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ، مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں، ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!

معزز نوجوانو، آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔

اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے، وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے‘‘۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔

شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔

آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔

ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور نااُمیدی اور مایوسی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں، ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:

يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۷ (یوسف ۱۲: ۸۷)[میرے بچو، جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ]۔

یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰) [اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں]۔

جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ، اُمتوں اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے، اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے، اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے، سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے، ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ  وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۝۶  (القصص ۲۸: ۴-۶) [واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا ]۔

یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۸  (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) [یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت]۔

آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔

میرے بھائیو، تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔

میں اس موقع پر، آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔

جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا، لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے، اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔

امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ مسلم نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمۂ صافی سے بجھ سکتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو، وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو، اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۝۰ۭ وَمِـمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۝۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۝۱۷(الرعد ۱۳:۱۷) [اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے]۔

اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو، اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۵۷ (الاعراف ۷:۱۵۷)[(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں ]۔

اے نوجوانو، اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے، اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں، برطانیہ سب سے عظیم ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔

اے اسلام کے سپاہیو، تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۱۰ (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰) [اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں ]۔

یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو، بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔

میرے بھائیو، مجھ پر اعتماد کرو ، جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری رُوئے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔

اے نوجوانو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا، اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ انسانیت کے معلم اور رہنما ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق، ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو اَزسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔

مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے، یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کا آئین اسلامی نظام کے احیاء کے لیے تمام اداروں کو پابند بناتا ہے، اسی ملک خداداد میں سودی معیشت (اللہ اور رسولؐ سے جنگ) سے چھٹکارے کے لیے ۲۰ سال تک عدالتی جنگ اور سپریم کورٹ کے فیڈرل شریعت کورٹ کےحالیہ فیصلے کے بعد یہ جدوجہد اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔جس میں عدالتی، آئینی، انتظامی اور مفاداتی رکاوٹیں اپنی جگہ قائم ہیں، جنھیں عبور کرنے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر خزانہ کا محتاط تبصرہ اور وزیر اعظم کا یہ بیان بھی حوصلہ افزا ہے کہ ’’سود کے بارے قرآنی احکام سے حکم عدولی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘۔ تاہم، دوسری طرف ہمارے سامنے یہ بھی ایک بڑی واضح حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ اس قسم کے بیانات، تضادات اور خوش کن وعدوںسے بھری پڑی ہے، جو ہرسال ۲۳مارچ اور ۱۴ ؍اگست کو اخباروں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت میں قانونی موشگافیوں اور حیلوں میں اُلجھنے کے بجائے، راست اسلامی فکرورہنمائی کے مطابق، حکومت اور متعلقہ ادارے اس غلطی کو نہیں دُہرائیں گے، جو ۹۰ کے عشرے میں کی گئی اور جس کا خمیازہ ہم مالی اور معاشی مشکلات کی صورت میں ابھی تک بھگت رہے ہیں۔

۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ءکے فیصلے کے کمزور پہلوئوں کے علی الرغم، اور نظر آتی ایک نئی عدالتی جنگ کے باوجود فی الفور چند بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہو گی ۔اوّلین قدم قرضوں کے حجم کو کم کرنا ہوگا، تاکہ واجب الادا قرض /سود میں بتدریج کمی لائی جا سکے اور ایک خاص مدت کے اندر ہم سابقہ قرضوں کے جن معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سےچھٹکارے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔

 ان قرضوں کوکس طرح اسلامی بنیاد پر حاصل کیے گئے قرضوں میں منتقل کیا جائے؟ جیسے بڑے سوال کا جواب دینے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی سر براہی میں غیرسودی بنکوں، وزارتِ خزانہ اور دوسرے معاشی ماہرین پر مشتمل کمیشن ایک لائحہ عمل بنا سکتا ہے، جس پر عمل کر کے ملکی قرضوں پر سود کے خاتمے کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے، ان کے لیے مختلف لائحہ عمل اختیار کرنے ہوں گے۔حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کے لیے قرضہ جات صرف کار آمد منصوبوں کے لیے ہی لیے جائیں۔ ڈیم بنائیں اور ریل کی پٹڑیاں یا موٹرویز تعمیر کریں۔بیرونی سرمایہ کار اداروں سے شراکت کی بنیاد پر اور بعض معاملات میں ورکنگ کیپٹل اور میٹریل فراہمی کے لیے اسلامی بنیادوں پر سرمایے کا حصول بالکل ممکن ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

۲۰۰۶ء میں قطر نے ایشین گیمز منعقد کراتے وقت انفراسٹرکچرکے لیے اسی بنیاد پر سرمایہ حاصل کیا تھا۔ اب بھی حکومت قطر اپنی پیٹرولیم اور گیس کی صنعت کو وسعت دینے کے لیے غیرسودی بنیاد پر بین الاقوامی اداروں سے سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ کئی دوسرے ممالک میں بھی صکوک کے ذریعے یہ سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے۔ خود پاکستان کی حکومت اور کارپوریٹس نے صکوک جاری کر رکھے ہیں۔البتہ سابقہ قرضوںکے لیے دوجہتوں پر کام کیا سکتا ہے: اوّل یہ کہ ری شیڈولنگ کے تحت ان قرضہ جات کو اسلامک پروڈکٹس میں منتقل کرنا اور پھر جہاں بالکل ناممکن ہو، وہاں شریعۃ سےرہنمائی اور مہلت طلب کرنا۔

بنک معاشی نظام کا ایک جزو ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نا ممکن ہے۔ پاکستان میں بنکوں کو اسلامی بنکاری میں ڈھالنے یا ان سے سود کا خاتمہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔کمرشل بنک آیندہ کے لیے فکسڈ شرح منافع کے بجائے اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز کو نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع دیں۔اسی لیے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے۔ رہا معاملہ ان کے سابقہ دیئے گئے قرضوں کا تو یہ کام سال بھر میں ممکن ہے۔ ان تمام بنکوں کی اسلامک برانچیں موجود ہیں تو باقی بنک کیوں اسلامک بنیاد پر کام نہیں کر سکتے؟

ملک میں اقتصادی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کے لیے بلاشبہہ وقت درکار ہے۔ سٹیٹ بنک اور دوسرے متعلقہ اداروں نے عدالت کے بار بار اس سوال کے جواب میں وقت دینے سے پہلو تہی برتی۔ تاہم، سابق سیکرٹری خزانہ جناب ڈاکٹر وقارمسعود نے علمی بنیادوں پر اس سلسلے میں عدالت کی معاونت کی۔

حالیہ انتہائی پیچیدہ معاشی مشکلات میں حکومت کو بجٹ بنانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہے، اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات کرنے کی جلدی بھی ہے، تاکہ دوسرے ذرائع سے قرضے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو۔

یہ فیصلہ اربابِ اختیار کے لیے ایک عظیم چیلنج ہے۔بلاشبہہ فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ دار حکومت ہی ہے، لیکن اس کے لیے اسلامی اسکالرز،معیشت دان، علما، سٹیٹ بنک ،ایس ای سی پی بنک، اوردوسرے اداروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ صرف عدالتی فیصلوں سے معیشت سے سود کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف ایک اصولی بات کہہ سکتے ہیں۔ جب تک اس راہ میں تمام حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے بنک اور دوسرے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس راہ میں حائل چند رکاوٹوں کا ذکر معاملات پر گہری سوچ و فکر کی طرف یہاں دعوت دی جارہی ہے:

حائل مشکلات

  • عوامی سطح پر عدم واقفیت (عقیدے اور تکنیکی پہلو)
  • بیوروکریسی اورفیصلہ ساز ادارے
  • کمرشل قوانین کی عدم موجودگی
  • اسلامی بنکوں کی عدم دلچسپی
  • ہمارے رویے
  • نئے بنکوں کے قیام میں عدم دلچسپی۔

 

  • عوامی سطح پر آگاہی: مصنوعات یا تصور کو پیش کرنے کے لیے عوام میں آگاہی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے بجٹ کا ایک معقول حصہ مختص ہوتا ہے ۔آگاہی کے بھی دو پہلو ہیں:ایک کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے، جب کہ دوسرا اس کا تکنیکی یا کمرشل پہلو ہے۔

بلحاظ عقیدہ سود کی حرمت کے بارے قرآن وسنت کے احکام واضح ہیں ۔مساجد میں کبھی کبھار خطبوں میں اس کا ذکرضرور کر دیا جاتا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کرسود کی حرمت اور موجودہ دورمیں اس کے ہماری روزمرہ زند گی میں عمل دخل اور تباہ کاریوں سے واقف بھی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے نہ عوامی سطح پر آگاہی کا کوئی پروگرام موجود ہے اور نہ کسی کو اس کی فکر لاحق۔اس وقت عوام، غیرسودی بنکوں سے جو معاملات کر رہے ہیں، اس میں بیش تر افراد صرف اپنے عقیدے کی بنیاد پر سود کو حرام سمجھتے ہوئے اسلامی بنکاروں سے معاملات کر رہے ہیں۔ ملک میں اسلامی بنک اور سودی بنکوں کی اسلامی برانچیں صرف ڈیپازٹس لینے اور محدود پیمانے پر فنانسنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں، جو ناکافی ہی نہیں بلکہ غیر معیاری بھی ہیں۔

جہاں تک اس کے کمرشل پہلو کا تعلق ہے تو مختلف مصنوعات تیار اور پیکنگ کرنے والے بھی دن رات اشتہارات کی مد میں اربوں روپے الیکٹرانک میڈیا کو دے کر اسے قیمت میں شامل کرکے عوام سے ہی وصول کرلیتے ہیں، حالانکہ اس کے بغیر بھی عوام ضروریات کی خریداری کر ہی لیتے ہیں۔ غیر سودی بنکوں کی برانچیں کبھی کبھار اپنے ڈیپازٹس بڑھانے کی خاطر منافع کی شرح کے اشتہارات وغیرہ دے دیتے ہیں۔ تاہم، غیرسودی بنکاری کے دوسرے فنانسنگ پروڈکٹس جو حقیقی اسلامی بنکاری کی روح ہیں، عوام کو اس کے بارے آگاہی نہیں ہے،بلکہ غیرسودی بنکوں کا اپنا عملہ بھی شاز ہی اس بارے مکمل آگاہی رکھتا ہوگا (الاماشاءاللہ)۔

اگر عوام کو یہ آگاہی ہو کہ ان کی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شرعی قواعد کے مطابق فنانسنگ ممکن ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی یہ ضروریات غیر سودی بنکوں سے حاصل کریں گے۔غیرسودی بنکاری میں صرف مرابحہ، مضاربہ اوراجارہ ہی نہیں مشارکہ، بیع سلم وغیرہ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع فنانسنگ بھی موجود ہیں، جن کو بروئے کار لا کر عصرحاضر کی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے غیرسودی بنکاری کو وسعت دی جا سکتی ہے۔

  • بیوروکریسی اور فیصلہ ساز ادارے: یہ ادارے مخصوص مفادات کے لیے راتوں رات بل تیار کرکے چند گھنٹوں میں پارلیمنٹ کو بلڈوز کرتے ہوئے پاس کرا لیتے ہیں۔ مگر جہاں معاملہ اسلامی اقدار کی پاس داری اور بے حیائی کی روک تھام کا ہو تو کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں۔سود کے امتناع کے بارے دسیوں کمیٹیاں اس کی زندہ مثال ہیں۔
  • غیرسودی سرمایہ کاری کے بارے کمرشل قوانین کی عدم موجودگی: غیرسودی فناسنگ کے لیے جو بھی سرمایہ مہیا کرتے ہیں وہ پبلک سیونگ اور اداروں ہی کی امانت ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بنکوں کو رقم کی واپسی میں تاخیر کی جاتی ہے ۔ایسے حالات میں معاملات عدالتوں میں جاتے ہیںاور فنانسنگ سے فائدہ اٹھانے والے مناسب کمرشل قوانین کی عدم موجوگی میں حیلے بہانے تراشتے ہیں ۔ان مشکلات سے بچتے ہوئے غیرسودی بنک عموماً ایسے پیچیدہ پراجیکٹس میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ یوں وہ حکومت اور بڑی کارپوریشنوں کے ساتھ صکوک کی مد میں سرمایہ کاری ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔برطانیہ نے صکوک بانڈ جاری کرنے سے پہلے اپنے ہاں اس بارے مالیاتی قوانین میں تبدیلی کے لیے کافی وقت لیا اور بنیادی تبدیلیاں کیں۔
  • جدید پروڈکٹس کی تیاری میں غیرسودی بنکوں کی عدم دلچسپی: اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے اور تجارت کو جائز قرار دیتا ہے ۔تجارت کے لیے اصول و ضوابط کے بارے مفصل فقہی احکام موجود ہیں۔ فقہا نے اس پر بہت کام کیا ہے۔شرعی اصول وضوابط کا پاس رکھتے ہوئےاور دور جدید کی معاشی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے پراڈکٹس (پیش کشیں) بنائے جا سکتے ہیں، جو کاروباری طبقے کی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کہ بڑے عالمی بنکوں نے غیرسودی بنکوں سے فنڈزکے حصول کی خاطر مرابحہ ،لیزنگ وغیر مشہور پراڈکٹس تیار کیے ۔بڑی بڑی لیگل فرم ان ہی میں کچھ ردو بدل کرکے غیرسودی بنکوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان بنکوں نے اپنی پیش کشوں کی تشکیل اور تشہیر کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ملائشیا،بحرین اور پاکستان کے مرکزی بنکوں نے اس ضمن میں بلاشبہہ کافی کام کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے مائیکروفنانس بنک قائم کرنے تک کی قانون سازی اور طریقۂ کار واضح کیا ہے۔

  • مالیاتی حرکت پذیری (liqudity Management) کا شعبہ: موجودہ بنکنگ کے کام کاج میں یہ شعبہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنکوں کے پاس فوری ضروریات کے لیے ہر وقت کافی سرمائے کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ غیرسودی بنکاری کو شروع ہوئے۴۰ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس شعبے کے لیے کوئی مناسب پیش کش نہیں بن سکی۔ غیرسودی بنکوں کے پاس موجود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ عموماً ایسے ہی روایتی پروڈکٹس میں لگایا جاتا ہے جو کمرشل بنکوں سے مستعار لیے گئے ہیں، جن میں کچھ رَدو بدل کیا گیا ہے ۔شریعہ کے ماہرین نے ان کی محدود پیمانے پر استعمال کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہوئی ہے کہ یہ وقتی حل ہے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • عملے کی تربیت : الحمد للہ، پاکستان میں غیر سودی بنکاری جب سے شروع ہو ئی ہے اس مختصر عرصے میں مجموعی بنکنگ انڈسٹری میں اس کا حجم تیزی سے بڑھا ہے، اورمجموعی برانچوں کی تعداد ۳ہزار۸ سو سے اُوپر ہے ۔یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بغیر کسی مناسب مارکیٹنگ کے بھی عوام میں اس کی کافی پذیرائی ہورہی ہے۔ لیکن غیرسودی بنکاری کےحقیقی فوائد سے تاحال عامۃ الناس کما حقہٗ مستفید نہیں ہو سکے۔ چونکہ بنک مالکان کا مطمح نظر صرف منافع کمانا ہی ہے اور بلاشبہہ اس سے تو کسی کو اختلاف بھی نہیں ہو سکتا کہ سرمایہ کار کو اس کی سرمایہ کاری کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے، لیکن ان کی کچھ سوشل ذمہ داریاں بھی ہیں جن میں ایسے اداروں کی سرپرستی بھی شامل ہونا چاہیے جو اس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں مددگار ہوں۔ہمارے ہاں عموماً یہ کلچر ناپید ہے۔

پاکستان میں جب پہلا کمرشل غیرسودی بنک قائم ہوا تو لا محالہ سٹاف موجود کمرشل بنکوں ہی سے لینا پڑا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی چلتی رہی ہے اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں مختلف تربیتی کورسز بھی کرائے جارہے ہیں، مگر ناکافی ہیں ۔ اس بات کی حدرجہ ضرورت ہے کہ ایسے بنکار تیار کیے جائیں، جو صرف بنکنگ ہی نہیں ’اسلامی بنکاری‘ کی اصطلاحات کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حلال و حرام کی تمیز جانتے ہوں۔اسلامی بنکاری کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر بنک میں آنے والے افراد کی صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے والے بنیں تو عوام کو اسلامی بنکاری کی طرف راغب کرنے میں ممد ومعاون بن کر اس کی ترقی میں حصہ دار اور اجر کے مستحق ہو جائیں گے۔

  • نئے بنکوں کےقیام میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی: اس وقت پاکستان میں پانچ غیرسودی بنک کام کر رہے ہیں۔اور ان میں چار بنک ایسے ہیں جو کلی یا جزوی طور پر بیرونی سرمائے سے قائم ہوئے ہیں۔ صرف ایم سی بی، ایسا اسلامک بنک ہے، جو پاکستانی سرمایہ کار (منشاء گروپ) نے قائم کیا ہے ۔حالانکہ پاکستان کے بہت سارے سرمایہ کار دلچسپی لیں تو اور بھی نئے بنک قائم ہوسکتے ہیں، مگر مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر اس طرف توجہ دی جائےتواسلامی بنکاری میں اضافہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

یہی حال اسلامک انشورنس (تکافل) کا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامک انشورنس کے قوانین بنے، لیکن ابھی تک صرف دو تکافل کمپنیاں ہی وجود میں آسکیں اور ان میں بھی سبقت بیرونی سرمایہ کاروں نے لی ہے، جو قطر کے کچھ مالیاتی اداروں کے تعاون سے  ( پاک قطر تکافل گروپ ) قطر میں مقیم چند پاکستانیوں اور ایک قطری تاجر کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے قائم ہوا۔البتہ روایتی انشورنس کمپنیوں نے دھڑا دھڑ بنکوں کی طرح تکافل ونڈو آپریشن شروع کر دیئے ہیں کہ منافع سمیٹ سکیں۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے سبقت لی اور اسلامی بنک قائم کردیا، جس میں اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کی بھی شرکت داری ہےاور یہ ایک مثالی اسلامک بنک بن چکا ہے، اگرچہ موجودہ حکومت نے اسے برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

 لائحہ عمل

پاکستان کے تمام ادارے آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملک میں اسلام شعائر کےاجراء میں مدد کریں۔ سود ایک لعنت ہے اور قرآن میں اسے اللہ اور رسول ؐکے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔کئی غیرمسلم ممالک میں بھی غیرسودی بنک قائم ہو رہے ہیں ۔لیکن اس مملکت خداداد میں سود کے خاتمے کے لیے کئی عشروں سے عدالتوں میں جنگ لڑی گئی ہے۔

ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے اب تک کے اقدامات ناکافی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ عدالت میں بھی اپنا مقدمہ مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت اگر عمل درآمد نہ کرنا چاہے تو ہزار قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول جاری رکھے گی۔

عوام میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک فوری کام جس کی ضرورت ہے وہ ہمارے قومی نصاب اقتصادی نظام کے بارے مضامین شامل کروانے کی مہم ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کے لیے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کی کلاسوں میں اسباق شامل کیے جائیں۔ یہی نوجوان کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔اگر ان کے ذہن اسلامی اقتصادی نظام کے بارے واضح ہوں گے تو آج جو مخالفت بیوروکریسی اور دوسرے طبقات کی طرف سے کی جا رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

اس کے ساتھ اقتصادی ماہرین کا ایک پینل بنا کرحکومت اور اس کے زیر سایہ مالیاتی اداروں اور بنکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی جائیں، انھیں سود ی معیشت کی تباہ کاریوں سے خبردار کرے اور ساتھ ہی ان کی مشاورت سے کمرشل لا میں اسلامی بنکوں کی ضروریات کے مطابق تبدیلی کے لیے قانون سازی تجویز کرے،تاکہ وہ اسلامک فناسنگ کے دوسرے پراڈکٹس میں بھی سرمایہ کاری کرسکیں، جو کمرشل قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے فی الحال نہیں کر رہے۔

  جب ہم ایک بار یہ قطعی فیصلہ کر لیں گے تو سودی معیشت سے چھٹکارے کا سفر شروع ہوجائے گا اور اس کے اثرات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ہم اس وقت جو بھی قرضہ خواہ پاکستانی بنکوں اور عوام سے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، وہ زیادہ تر نقد ہی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال بھی حکومت /ادارے اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں، جب کہ اسلامی طریقے سے حاصل کی گئی فناسنگ/قرضے صرف کسی پراجیکٹ ہی کی خاطر لیے جائیں گے۔اس طرح غیرترقیاتی مقاصد کے لیے قرضے کے حصول کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یہی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔

انسانی تہذیب میں معاشی ارتقا کا پہلا ذکر شکارچی دور (Hunter Gatherer Age) سے کیا جاتا ہے۱ جس میں انسان اور حیوانات کی زندگی خوراک اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش تک محدود تھی۔

  • شکارچی دور: اس دور میں خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرنا، پرندوں اور جانوروں کا شکار کرنا اور خود کو ان کا شکار ہونے سے بچانا ہی انسانی زندگی کی روزمرہ کی کہانی تھی۔ محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں بھی جانوروں کی مداخلت یا شراکت کا خطرہ موجود رہتا کیونکہ دونوں کے آبائی مسکن اکثروبیش تر پہاڑی غاروں اور جنگلوں پر مشتمل تھے۔ خوراک کا حصول بہت ضروری تھا۔ اگر کبھی مخصوص علاقوں میں پانی کے ذخائر ختم ہوجاتے تو انسان بڑی مشکل سے بنائی ہوئی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑ کر اجنبی علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے اور کچھ عرصے کے بعد وہ نامانوس علاقے پناہ گاہوں کی شکل میں تبدیل ہوجاتے۔

’معاشیات‘ کو سادہ الفاظ میں محدود وسائل سے لامحدود خواہشات کو نظم میں لانے کا علم کہا جاتا ہے۔ مگر انسانی زندگی کا یہ دور معاشیات کے مضمون کے مروجہ مفہوم کے برعکس تھا۔ یعنی وسائل لامحدود تھے اور خواہشات محدود۔ اس کے باوجود معاشی نظام کی کچھ جزئیات اس سادہ معاشیات میں بھی موجود تھیں۔ کام کو قدرے سہولت سے کرنا بھی انسان نے تجربے سے سیکھ لیا تھا، جسے آنے والے وقتوں میں ’محنت کی تقسیم کار‘ سے پکارا جانا تھا۔ علاوہ ازیں، اسی دور میں ہمیں ’بچت اور تقسیم‘ کے شواہد بھی ملتے ہیں، جو آج ایک جدید معاشی نظام کا بھی لازمی جزو ہیں۔ جانوروں کے برعکس انسان اتفاقاً ضرورت سے زائد ملنے والی خوراک کو محفوظ کرلیتے، تاکہ تلاش کے باوجود خوراک کی عدم دستیابی کی صورت میں ذخیرہ شدہ خوراک کو موجود لوگوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ انسانی سوچ، محنت اور ارادے کے باعث انسانی سماجی و معاشی زندگی ارتقا پذیر رہی۔۲

  • پتھر کا زمانہ : ’شکارچی دور‘ سے دوسری حالت کو Neolithic Revolution  یا ’نوسنگی انقلاب‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ۳ یہ انقلاب تقریباً ۱۰ہزار سال پہلے برپا ہوا، جس میں انسان نے مختلف قسم کی فصلیں کاشت کرنا اور جانوروں کو سدھا کر پالتو بنانا سیکھ لیا تھا۔ اس سے ایک منظم معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا اور دُنیا کے مختلف حصوں میں ثقافت اور تہذیب کے آثار نمودار ہوئے، جیسے میسوپوٹیما، یونان، مصر، انڈیا اور چین وغیرہ۔ ان تہذیبوں میں تجارت نے بھی ترقی کی اور مختلف اشیا کے تبادلے کے لیے مخصوص جگہوں کا انتخاب کیا گیا، جہاں اشیاء پیدا کرنے والے اور اشیاء کے خریدار جمع ہوکر ’جنس کے بدلے جنس‘ کا تبادلہ کرتے تھے۔ جسے ہم معاشیات کی زبان میں بارٹر (Barter) یا ’مبادلے‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ خریدوفروخت کی ان مخصوص جگہوں کو تجارتی منڈیاں کہا جانے لگا۔ تقریباً ساری معاشی زندگی کی عکاس تھیں۔

خرید و فروخت کے یہ رضاکارانہ سودے، جنھیں ہم آج کی علم معاشیات کی زبان میں Economic Exchange (معاشی تبادلہ) یا Economic Transaction (معاشی ترسیل یا معاشی سودا) کہتے ہیں، ’شکارچی دور‘ میں بھی موجود تھے، مگر ان کی نوعیت رضاکارانہ کے بجائے طاقت اور چوری پر مبنی تھی۔ طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کی چیزیں زبردستی چھین لیتے تھے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں طاقتور افراد یا قبیلے دوسرے افراد یا قبیلوں کے پانی اور خوراک کے ذخیرے چھین لیتے تھے۔ تاریخ انسانی میں مالی یا معاشی تبادلے (Exchange) کی پہلی شکل بذریعہ طاقت یا چوری چکاری کی صورت میں تھی،جسے ہم ’تجارت‘ نہیں کہہ سکتے۔

جب معاشرے منظم ہوئے اور حکومتیں مستحکم ہوئیں تو تجارت کو بھی تحفظ ملا، جس میں خریدنے والے اور بیچنے والے ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوکر اپنی مرضی سے اشیاء سے اشیاء کا تبادلہ کرتے تھے۔ بارٹر دور میں تجارت کے فروغ میں کچھ مشکلات تھیں۔ کسان گندم پیدا کرنے کے بعدایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے، جنھیں گندم کی تو ضرورت ہو، مگر ان کے پاس وہ جنس بھی موجود ہو جو کسان کو درکار ہے۔ معاشیات کی زبان میں اسے ’دوطرفہ ضروریات کی مطابقت‘ (Double Coincidence of Wants) کہتے ہیں۔ جانوروں کے تبادلہ کی بھی یہی صورت تھی۔

دوسری مشکل وزن اور پیمائش کے بارے میں تھی، کیونکہ آج کے دور کی طرح وزن اور پیمائش کے پیمانے موجود نہیں تھے۔ کتنی گندم کے بدلے کتنے چاول لیے جائیں یا پھر کتنے گدھوں کے برابر ایک گھوڑا ہوگا، اس بات کا تعین بہت مشکل تھا۔ اس صورت میں دستیابی اور ضرورت فیصلہ کن محرکات تھے۔ چونکہ یہ تبادلہ صرف دو افراد کے درمیان براہِ راست تھا، اس لیے خریدنے والے اور بیچنے والے اس سودے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی کوشش کرتے۔ ’علم معاشیات‘ کی زبان میں یہ تبادلہ ’برابر کی قدر کے تبادلے‘ کے مترادف تھا۔

  • کرنسی کی ایجاد: معاشیات کے ارتقاء میں دو واقعات ایسے ہیں، جن کی بدولت نہ صرف ’بارٹر دور‘ کی مشکلات دُور ہوئیں، بلکہ کاروبار میں بہت زیادہ وسعت آگئی۔ ایک تو تجارت کے پیشے کا ظہور اور دوسرے سونا اور چاندی کا اشیاء کے تبادلے میں واسطہ (Medium) کا کردار کرنسی کی ایجاد سے منسوب ہوا۔ کاروباری سودے میں اب دو کے بجائے تین لوگ آگئے۔ خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان تاجر۔ اب ایک معاشی سودے سے تین لوگ مستفید ہونے لگے۔ پہلا اشیاء کا پیدا کرنے والے، یعنی کسان، دوسرا ان اشیاء کو کسان سے خریدنے والا (تاجر) اور تیسرا تاجر سے اشیاء خریدنے والا ضرورت مند۔ دوسری بڑی پیش رفت سونے اور چاندی کا بطور Metallic Currency  (فلزی کرنسی)کے طور پر وجود میں آنا تھا۔ اس سے پہلے تیر، کھالیں اور قیمتی پتھر بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ۴ مگر اسے عمومی طور پر تسلیم شدہ کرنسی کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ سونے اور چاندی میں ایک عمدہ کرنسی کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ یہ دونوں دھاتیں کمیاب ہونے کے باوجود قیمتی پتھروں کی طرح نایاب نہ تھیں۔ دوسرا یہ کہ انھیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا تھا۔ اس نئی دریافت نے ایک تو تبادلے میں آسانی پیدا کر دی اور دوسرے تجارت کی ایک نئی قسم کو بھی جنم دیا، یعنی کرنسی کا استعمال بطور اشیاء (Commodity) یا پھر سادہ الفاظ میں ’سود کا کاروبار‘۔

اس سے پہلے ایک معاشی سودا ان اشیاء پر مشتمل ہوتا جو کھیت یا کارخانے میں پیدا کی جائیں اور منڈی میں ان کا تبادلہ کیا جائے، مگر ’زر‘ کے اب دو مزید استعمال ہوگئے: ایک تو ’تبادلے کا وسیلہ‘ (Medium of Exchange) اور دوسرے زر کو سود پر اُدھار دینا۔ اب ’زردار‘ کے پاس دوراستے تھے: ایک تو زر کو اشیاء اور اجناس کی پیداوار کے کاروبار میں لگاکر نفع کمانے کی کوشش اور اس کام میں نقصان کے امکانات بھی، یا پھر ’زر‘ دوسرے لوگوں کو پہلے سے طے شدہ منافع پر ایک خاص مدت کے لیے قرض پر دینا یعنی سود کا کاروبار۔ تجارت کی یہ شکل ’بارٹر دور‘میں زیادہ ممکن نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود۵  ’نوسنگی دور‘ کے کسان نے اپنے چچازاد کسان بھائی کو بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کاشت کے وقت دی گئی مقدار سے زیادہ کا مطالبہ کیا، مگر جنس یا اشیاء کو سود پر دینے کا یہ کاروبار زیادہ فروغ نہ پاسکا۔

’زر‘ کی اس ایجاد نے یہ مشکل آسان کردی کیونکہ اس کی ترسیل نہایت آسان تھی۔ سود کا کاروبار آسان بھی تھا اور محفوظ بھی، کیونکہ اس میں نقصان کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، لہٰذا سود کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی جس کے باعث معیشت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی: معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں اور کارخانوں میں اجناس اور اشیاء کی پیداوار اور منڈیوں میں ان کی خریدوفروخت میں مصروف ہوگیا۔ سرمایہ، محنت اور وقت کا یہ استعمال معاشی ترقی کی بنیاد بن گیا۔ ’جدید علم معاشیات‘ کی زبان میں معیشت کا یہ حقیقی شعبہ (real sector) ہے۔ سود پر کام کرنے والے تھوڑے لوگ تھے۔ اس دور میں حقیقی شعبہ میں کام کرنے والے تاجر اشیاء کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سود کا کام بھی کرلیتے تھے۔ چند افراد ایسے بھی تھے، جو سرمایے کو سود پر اُدھار دینے کے علاوہ کوئی کام نہ کرتے تھے۔ ایک طرح سے یہ افراد معاشی اُدھارکی ضرورتیں (Credit Needs) پورا کرتے۔ چونکہ بنک یا مالیاتی ادارے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے،اس لیے قرض لینے والوں اور قرض دینے والوں میں براہِ راست رابطہ ہوتا تھا۔ جسے ہم جدید زبان میں P2P  (Person to Person Finance) فرد کا فرد کے درمیان مالیاتی عمل کہتے ہیں۔۶

تجارت کے پیشے نے کاروبار میں آسانی اور بڑھوتری میں بہت مد د کی۔ پیداوار کے عمل میں مشغول لوگ اپنی ہی پیدا کردہ اشیاء کو بیچنے کی زحمت سے بچ گئے۔ خریدار کو بھی آسانی ہوگئی کیونکہ مختلف چیزیں اب انھیں ایک ہی جگہ پر دستیاب ہونے لگیں۔ مارکیٹنگ سہولت کے علاوہ تاجر ضرورت مند لوگوں کو قرض فراہم کرتے تھے، حتیٰ کہ جنگ کی صورت میں بادشاہ بھی ان سے اُدھار لیتےتھے۔ ان سب آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود تاجر یا تجارت کے پیشے کی معاشرے میں کوئی عزّت نہ تھی۔

قدیم یونانی تہذیب میں سوسائٹی کے ہر شعبے کا اپنا ’خدا‘ تھا۔ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ تاجر، چور اور ڈاکو کا خدا ایک تھا، جسے Hermes (ہرمز)کے نام سے پکارتے تھے۔۷ رومن سلطنت میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ ڈاکو، چور، اُچکے اور تاجر لوگوں کا خدا اب Mercury (مرکری)۸تھا اور تجارت اس دور میں بھی ایک کمتر درجے کا پیشہ تھی۔ انگلستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس میں بادشاہِ وقت نے تاجروں سے قرض لیا اور واپسی سے انکار کردیا۔۹  قحط یا اشیائے خورونوش کی قلت کے وقت تاجر ذخیرہ اندوزی کرلیتے، تاکہ ان اشیائے ضروریہ کو مہنگے داموں فروخت کریں۔ ایسے موقعوں پر حکومت کے کارندے تاجروں کے گودام پر چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ اشیاء قبضہ میں کرلیتے اور اکثر اوقات تاجروں کو گرفتار کرلیا جاتا۔ عام لوگ اکٹھے ہوکر ایسے مناظر دیکھتے، تاہم ان کے دلوں میں بھی ان مصیبت زدہ تاجروں کے لیے رحم کی کوئی لہر نہ پیدا ہوتی، جن سے وہ صبح و شام اشیائے صَرف خریدتے تھے۔

’معاشیات‘ کے طالب علم کے لیے یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ قدیم دور میں تاجر اور تجارت پیشے سے وابستہ معاشرتی نفرت اور حقارت کی وجہ کیا تھی؟ بظاہر تو تاجر، معاشی ترقی میں ایک اہم کردار تھا اور تجارت معاشی زندگی کی بنیاد تھی، مگر ایسا رویہ کیوں؟ معاشرے کے دوسرے پیشوں کے مقابلے میں تاجر کی حیثیت مختلف اور منفرد ہے۔ حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لوگ صرف بیماری کی صورت میں جاتے ہیں۔ عالم کے پاس بھی کسی علمی گتھی کو سلجھانے کے لیے ہی رجوع کیا جاتا ہے مگر تاجر کے ساتھ رابطہ تو مسلسل تواتر کے ساتھ ہوتا ہے۔ خورونوش کی اشیاء کے لیے صبح و شام تاجر کی دکان پر جانا پڑتا ہے۔ یہ رابطہ کبھی خریدار اور کبھی فروخت کنندہ کی حیثیت میں ہوتا ہے۔ خریدوفروخت کی دونوں حالتوں میں عام توقع ایک کھرے سودے (Fair Deal) کی ہوتی ہے، جس میں خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں استفادہ کرتے ہیں، جیساکہ ’بارٹر دور‘ میں تھا کیونکہ ایک ’معاشی سودا‘ صرف دو افراد کے درمیان تھا۔ لیکن تاجر کے آنے سے یہ توازن بدل گیا۔ اب ایک معاشی سودے کےتین فریق تھے اور تاجر دو بنیادی فریقوں یعنی بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان رابطے کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاجر کے پیشے کی اس صورت میں ہی عزّت ہوتی جب ایک معاشی لین دین دونوں بنیادی فریقوں کے درمیان ’برابر کی قدرکے تبادلے‘ کے مترادف ہوتا۔

جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی تبادلے کی صورت طاقت کے بل بوتے پر تھی، جس میں طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لیتے تھے، جب کہ تجارت، منڈی یا مارکیٹ میں رضاکارانہ تبادلے کا نام ہے، جس میں خریدنے اور بیچنے والے اپنی مرضی اور خوشی سے لین دین کے عمل میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ کا رضاکارانہ تبادلہ ہرقسم کی چوری اور جبر سے پاک ہو۔ تاجروں کی زیادہ منافع کمانےکی حرص اور لالچ کے باعث معاشی سودے ’برابر کی قدرکے سودے‘ بن جاتے ہیں، جس طرح ڈاکو اور چور علانیہ طاقت کے زور پر عام لوگوں کو لوٹ لیتے تھے۔ اسی طرح تاجر بھی عاجزی اور مسکراہٹ سے انتہائی زیادہ منافع لے کر یا چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے عام لوگوں سے ان کی جمع پونجی بٹور لیتے تھے۔ شاید اسی چوری نما تجارت کے باعث قدیم دور کے فلسفی یونان نے چور، ڈاکو اور تاجر کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا۔

معاشی ارتقا کا یہ سفر منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقلی نے کچھ عملی طریقوں کو جنم دیا، جو معاشی عمل کا مستقل جزو بن گئے۔ مثال کے طور پر ملکیت کا تصور، منڈیوں کا قیام اور ان کی کارکردگی، قیمتوں کا آزادانہ تعین اور ان میں حکومت کی مداخلت اور سود کا کاروبار وغیرہ۔ یہ معاشی سفر کے ایسے بنیادی ستون ہیں جن سے ’منتشر معاشیات‘ (Fragmented Economics) کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ معاشیات کے انھی شذرات سے ابھی ایک معاشی نظام کی تکمیل ہونا باقی تھی۔

چھٹی صدی کے آخر میں روم اور ایران دُنیا کی دو بڑی مستحکم حکومتیں تھیں۔ ان دونوں تہذیبوں میں منتشر معاشیات بدرجہ اَتم موجود تھی۔ تجارتی منڈیوں کی چہل پہل، قیمتوں کا تعین، کبھی طلب اور رسد کی قوتوں کے مطابق اور کبھی حکومت کی مرضی کے مطابق۔ سود پراُدھار لی گئی رقم کی کبھی واپسی اور کبھی ضبطی، ملکیت کے تصور کا کبھی اقرار اور کبھی انکار۔ معاشیات کے یہ سارے بنیادی ستون تو موجود تھے، مگر ابھی تک انھیں کسی قانون اور ضابطے کے تحت بیان نہیں کیا گیا تھا۔ سادہ الفاظ میں انسانیت ابھی تک ایسے ’معاشی نظریہ‘ کی تلاش میں تھی، جو معاشی عمل کے تمام پہلوئوں کو قوانین و ضوابط کی شکل میں بیان کرے۔ ساتویں صدی کی پہلی چوتھائی میں دین اسلام کے ظہور کے ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشی نظام بھی وجود میں آیا، جو قرآن میں بیان ہوا اور ریاست ِ مدینہ میں اس کا نفاذ ہوا۔۰

حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں اہلِ مغرب اس سے واقف ہوئے۔ بعد میں یہ نظام پوری دُنیا میں پھیل گیا اور چار سو سال تک دُنیا میں ’غالب معاشی نظریئے‘ کے طور پر قائم رہا۔

مذہبی دور - اسلام کا عہد زریں

ساتویں صدی کو عام طور پر ’مذہبی دور‘ (Age of Faith) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لیے دُنیا کے پہلے معاشی نظام کو عبادات اوررسومات کی طرح ہی سمجھا گیا۔ اس سے پہلے یہودیت اور عیسائیت میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں الہامی مذاہب میں بہت بڑے معاشی مسئلے ’سرمایہ‘ کے استعمال پر بات ہوئی ہے، اور تینوں مذاہب نے ’سرمایہ‘ کا استعمال بطور سود برتنے کی ممانعت کی ہے۔

تاہم ساتویں صدی کی ’مدینہ معاشیات‘ ؎ ۱۱ نے نہ صرف سود کی مخالفت کی بلکہ سرمایے کے استعمال کا صحیح طریقہ بھی بتایا۔ سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ اس نظام نے تجارت اور تاجر کے پیشے کو عزّت دی۔ تجارت کو معاشرتی فلاح کا ذریعہ قرار دیا اور سچّے تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد بتایا اور بنایا۔ ایسے وقت میں جب دُنیا ’کھلی معاشی منڈی‘ (فری مارکیٹ اکانومی) کے تصور سے مکمل طور پر ناآشنا تھی۔ ساتویں صدی میں یہ نظام ریاست ِ مدینہ میں عملی طور پر نافذ ہوا، جس میں مارکیٹ مسجد کی طرح محترم اور مقدس تھی اور منڈی میں قیمتوں کا تعین ہرحال میں اشیاء کی طلب و رسد کی قوتوں کے مطابق ہوتا تھا۔ ساتویں سے گیارھویں صدی تک دُنیا میں غالب رہنے کے بعد یہ معاشی نظام وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگیا۔ ۲۰۱۱ء میں ملایشیا کے معاشیات دان مرتاسزکا (Murat Cizacka) ؎ ۱۲ نے مدینہ اکنامکس کو دُنیا کا پہلا Market Based Economic System قرار دیا۔۲۰۱۴ء میں جرمن اسکالر بینڈکٹ کوہلر (Benedict Koehlet) نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اپنی مشہور کتاب Early Islam and Birth of Capitalism میں کہا کہ سرمایہ کاری کا نظام، اسلام کے اوّلین دور میں پیدا ہوا۔ ؎ ۱۳

حوالہ جات

۱-    ایم ساہلنز (Sahlins) Stone Age Economics  (۱۹۷۲ء) ناشر: ایلڈن اتھرٹن، نیویارک

۲-    ایم ایم احمد، The 9th Habit for Effectiveness، مطبوعہ جرنل آف بنکرز پاکستان (۲۰۰۷ء)

۳-    کہا جاتا ہے کہ Neolithicفلزی انقلاب، دس ہزار سال پہلے آیا، جس میں ’شکارچی دور‘ کی انسانی زندگی خانہ بدوشی سے زرعی معاشرت میں تبدیل ہوگئی۔

۴-    آر اے جونز (Jones) The Origin and Development of Media of Exchange، مطبوعہ جرنل آف پولیٹیکل اکانومی، (۱۹۷۶ء) ص ۷۵۷-۷۷۵

۵-    ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تک‘ ، ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۲۰ء، ص ۲۵-۳۵

۶-    پی رنٹن (Renton) Understanding peer to peer Lending ، (۲۰۱۱ء)

۷-    www.ancient.eu/Hermes/Roman-God-Britannica.com

۸-    مرکری،

۹-    کے روز برگ اور آرٹی ہوپکنز، The Romance of Bank of England، (۱۹۷۳ء)، لندن

۱۰-  ایم لومبرڈ (Lombard ) The Golden age of Islam، (۱۹۷۵ء)

۱۱-  محمدایوب، اسلامی مالیات، ۲۰۰۷ء، وائلی اینڈ سنزلمیٹڈ،

۱۲-  ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تکــ‘ماہ نامہ ترجمان القرآن،(اکتوبر ۲۰۲۰ء)، ص۲۵-۳۵

۱۳-  بی کوہلر (Koehler) Early Islam and Birth of Capitalism  (۲۰۱۴ء)

غالب نے ایک موقع پر کہا تھا  ع   ’’میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘۔ پاکستانی معیشت کی بنیاد میں بھی ایک خرابی آئینی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ اس خرابی کو سمجھنے کے لیے ہمیں آئین پاکستان کی ان شقوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو ملک کے مالیاتی امور کو بیان کرتی ہیں۔

آئینِ پاکستان ہمیں دو طرح کی قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ ایک قانون سازی وہ ہے جو کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے اور دوسری قانون سازی وہ ہے جو صرف مالیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اس قانون سازی کو ’مالیاتی بل‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے، باقی تمام قانون سازی دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے شروع ہوسکتی ہے، اوردونوں سے اس کی منظوری کے بعد بل، قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جب کہ اختلاف کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس مسئلے کو حل کرتا ہے۔

اس کے برعکس ’مالیاتی بل‘ کی منظوری کا کام براہِ راست منتخب عوامی نمایندوں، یعنی ارکانِ قومی اسمبلی ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے،اور یہ منظوری دینا انھی کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی بل کو ’مالیاتی بل‘ قرار دینے یا قرار نہ دینے کا اختیار صرف اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے، جسے نہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ صدرِ مملکت اس میں کوئی دخل دے سکتے ہیں۔ آئین کے اندر یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کون سے معاملات اس اختیار میں آتے ہیں۔ یہاں ہم ان آرٹیکلوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں:

آرٹیکل ۷۷ یہ پابندی لگاتا ہے کہ کوئی بھی ٹیکس صرف اور صرف قومی اسمبلی کی منظوری اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے تحت لگایا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل ۷۸ یہ کہتا ہے کہ تمام محصولات اور قرضوں سے حاصل شدہ اور ان سے واپس شدہ رقوم وفاقی مجتمع فنڈ (Federal Consolidated Fund) میں جمع کرائی جائیں گی اور دیگر رقوم ایک پبلک اکاونٹ میں جمع کرائی جائیں گی۔

 آرٹیکل ۷۹ یہ پابندی لگاتا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اکاونٹس سے رقوم صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کے تحت لی جاسکتی ہیں۔ اور جب تک یہ قانون بنے تو صدر مملکت کی طرف سے بنائے گئے ضوابط کے تحت لی جاسکتی ہیں۔

آرٹیکل ۸۰ تا ۸۴ میں اس طریق کار کا تفصیلی بیان ہے، جس کے تحت بجٹ (میزانیہ) پیش کیا جائے گا اور قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ آرٹیکل ۸۰سب سے پہلے پابند کرتا ہے کہ وفاقی حکومت ہر مالی سال کے لیے ایک گوشوارہ ، جسے ’سالانہ بجٹ اعلامیہ‘ (Annaul Budget Statement) کہا جائے گا، اس میں صراحت سے یہ علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے گا کہ کون سے اخراجات ہیں، جو آئین پاکستان کے مطابق وفاقی مجتمع فنڈ پر charged (مطلوبہ) اخراجات ہیں اور کون سے ایسے نہیں ہیں۔

آرٹیکل ۸۱ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سے اخراجات ہیں جو ’مطلوبہ‘ کہلائیں گے: ا- صدرمملکت کی تنخواہ اور ان کے دفتر سے متعلق اخراجات؛ ۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات؛ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں اور اخراجات، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تنخواہیں اور اخراجات؛ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تنخواہ اور ان کے دفتر کے اخراجات؛ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قرضوں کی ادائیگی اور ان پر سود کی ادائیگی۔ اس تفریق میں اصل بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی چارجڈ ’اخراجات‘ پر بحث کر سکتی ہے، لیکن ان اخراجات پر ووٹنگ نہیں ہوگی، یعنی ان تجاویز پر کٹوتی کی تحریکیں نہیں لائی جا سکتیں۔ دیگر تمام اخراجات کی تجاویز قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی اور ہر تجویز پر کٹوتی کی تحریک بھی لائی جاسکتی ہے اور بحث کے بعد ان پر ووٹنگ کی جائے گی اور کثرت رائے سے منظور یا نا منظور کی جائے گی۔

تمام تجاویز کا اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وزیر اعظم اپنے دستخط کے ساتھ اخراجات کا ایک جدول قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اس میں شامل تمام اخراجات قومی اسمبلی سے منظور تصور کیے جائیں گے۔ مگر اس جدول پر اس کے بعد کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوگا۔

آرٹیکل ۸۴ وفاقی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی سہولت بھی ہے اور مالیاتی نظام میں بگاڑ کی بہت بڑی اور بنیادی وجہ بھی۔ اسمبلی سے منظور شدہ بجٹ میں حکومت تین تبدیلیاں کرسکتی ہے: lاوّل یہ کہ اگر کسی مد میں ضرورت سے کم بجٹ ہو اور دوسری مد ضرورت سے زائد ہو تو زائد بجٹ کو کم مد میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ lدوم یہ کہ اگر منظور شدہ خرچ سے زیادہ خرچ کرنا پڑے تو وہ ضمنی گرانٹ کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ lسوم، اگر کسی مد میں زیادہ اخراجات ہوجائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ عموماً اگلے مالی سال کے بجٹ کے ساتھ ایک اور بجٹ پیش ہوتا ہے، جس کو ضمنی بجٹ کہا جاتا ہے۔ اصل بجٹ کی منظوری کے بعد اس ضمنی بجٹ کو انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو آئین میں درج ہیں اور جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن بجٹ اجلاس کا یہ مرحلہ صرف ایک آئینی کارروائی کو مکمل کرنا ہوتا ہے ورنہ اصلی بجٹ میں جوممبران کی دلچسپی ہوتی ہے، اس موقعے پر بالکل مفقود نظرآتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو اس کا دفاع کرنے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔ کبھی کبھار یہ ضمنی بجٹ صرف گزرتے مالی سال کا نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے ہونے والے اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔

تو یہ ہے وہ آئینی فریم ورک، جو ہمارے پاکستانی مالیاتی نظام کا احاطہ کر رہا ہے۔ قارئین اس اہم بات کو مدنظر رکھیں کہ جس بجٹ کی قومی اسمبلی منظوری دیتی ہے، وہ صرف اخراجات تک محدود ہے۔ آمدنی کے اندازوں کو بیان ضرور کیا جاتا ہے، لیکن آئین کے تحت یہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ آمدنی کے ذرائع اور مقدار کی منظوری بھی لی جائے۔

بجٹ سیشن میں ایک اہم مرحلہ ’فنانس بل‘ کا پیش ہونا اور اس کی منظوری ہے، جس میں سینیٹ کی سفارشات بھی زیر غور آتی ہیں۔ یہ سلسلہ درحقیقت قومی اسمبلی کے اس اختیار کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ ٹیکسوں کو لگا سکتی اور ان میں رَد وبدل کرسکتی ہے۔

مندرجہ بالا بیان کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ حکومت آمدنی سے زیادہ اخراجات کرسکتی ہے، جس کو بجٹ خسارہ یا fiscal deficit کہتے ہیں۔ اس خسارے کو سال در سال اختیار کرتے چلے جانے سے قومی قرضہ وجود میں آتا ہے اور اس پر ادائیگیوں کا بوجھ اور شرح سود کا ردوبدل معیشت کے دوسرے شعبوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

بجٹ خسارہ اعداد و شمار میں شامل ہوتا ہے، لیکن کیونکہ یہ قومی اسمبلی کا منظور شدہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک عام طرز عمل ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر اور مختلف گوشواروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں اور عموماً اس کو کم از کم سطح پر بیان کرتے ہیں۔ اور پھر آرٹیکل ۸۴ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زائد اخراجات کرتے ہیں یا بجٹ میں آمدنی کے جو اندازے لگائے گئے ہیں، اس سے کم آمدنی (خصوصاً ٹیکسوں کی مد میں)حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں امکانات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ بڑھ جاتا ہے اور یوں قومی قرضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ہم نے گذشتہ پانچ سالوں کے اندر بجٹ میں بیان کردہ خسارے کا اندازہ بمقابلہ واقعی خسارے سے کیا ہے۔ تجزیہ بتاتا ہے کہ اوسطاً تقریباً واقعی خسارہ، بجٹ میں بیان کردہ خسارے سے قومی آمدنی کا کوئی دو فی صد زیادہ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ تفاوت اور بڑھ گیا ہے اور خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے قومی آمدنی کا اندازہ۶۷ ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔  اس کا ایک فی صد ۶۷۰ ارب روپے بنتا ہے اور دو فی صد ۱۳۴۰ ؍ارب روپے ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خسارے میں اضافہ کتنے بڑے پیمانے پر حکومتی اخراجات کا باعث بنتا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں نہ کوئی گفتگو ہوتی ہے اور نہ کوئی منظوری۔ انھی وجوہ سے قومی قرضہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اس سال جنوری میں قومی آمدنی کا نیا اندازہ (re-basing) لگایا گیا، جس کی وجہ سے تقریباً دس ٹریلین سے آمدنی بڑھ گئی اور جس کی وجہ سے قومی آمدنی کی نسبت خسارہ اور قومی قرضہ کچھ کم نظر آرہا ہے، لیکن اگر یہ اضافہ نہ ہوا ہو تا تو ہمارا قرضہ قومی آمدنی کا سو فی صد سے زائد ہوجاتا۔ لیکن اگر ہم اپنے مالیاتی اُمور اسی انداز سے چلاتے رہے تو بہت جلد اس زائد آمدنی کے باوجود ہم اس حد کو پار کرلیں گے۔

معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ رفتہ رفتہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے، اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔

ابن خلدون نے اپنے ’مقدمہ تاریخ‘ میں لکھا تھا کہ ’’معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ، معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے‘‘۔

  • مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرے اور ریاست کو وجود میں لانے کے لیے قوتِ محرکہ،مسلم قومیت کا احساس تھا،لیکن مسلم قومیت کی یہ بنیاد اِس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی اور علاقائی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے، لیکن یہ افراد معاشرے میں عام نہیں ہیں۔
  • فرقہ وارانہ عصبیت: اگرچہ ۱۹۸۲ء کے بعد فرقہ پرست تنظیمیں اور ان کے  دہشت گرد ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں، لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ بلاشبہہ ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے، لیکن سُنّی ، شیعہ، دیوبندی، بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے یہ تمام خون آشام مناظر کسی فرقہ پرست عوامی لہر کی نمایندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تک محدود چلے آرہے ہیں اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں فرقہ واریت کے خلاف ہی ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔

ان تنظیموں کو بہرحال انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو،، کی پالیسی کے تحت شہ حاصل رہی ہے، جس کا آغاز عراق، ایران جنگ کے زمانے میں ہوا۔ پھر بعض مواقع پر دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سر اٹھایا ہے، لیکن یہ ہنگامہ اور المیہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے کی بنیاد مساجد پر قبضہ کرنے تک محدود رہا ہے، مگر ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا عوامی فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔

  • لسانی عصبیتیں : مسلکی فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاجوں پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس جذبے اور احساس نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہا ہے، اور اس کے خاتمے کی کسی کو فکر بھی نہیں ہے۔ اس جذبے اور احساس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی و علاقائی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ، کراچی، بلوچستان، سرحد [خیبر] اور پنجاب کا سرائیکی علاقوں میں عصبیتوں کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر خود اعلیٰ بیوروکریسی میںبھی اس کی بڑی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو، پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو، یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو، ان سب اُمور کو عدل، فنی، پیشہ ورانہ یا میرٹ کی بنیادوں پر دیکھنے کے بجائے عصبیت کی عینک سے دیکھا جارہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہوگئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو، اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون، تعصب کی بنیاد پر ہے۔

ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آیندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے، اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے، لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے، اور کسی جوڑنے والے نظریے کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔

پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک ہے مخصوص مذہبیت اور دوسری عریانیت و فحاشی ۔

  • مذہبی رجحان: ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی، جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’دعوت اسلامی‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے، وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی۔ سیاست کے میدان میں جہاد سے وابستگی کا حوالہ رکھنے والی بعض قوتیں پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے، جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے۔ اس امر کا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں گی، جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
  • مذہبی جماعتوں کی صورت حال:  مذہبی جماعتوں کے کارکنوں میں پچھلے جمہوری اَدوار کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا، لیکن یہ انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں ذہن صاف نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ بس فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔

’مسلح جدوجہد‘ یا ’گوریلا جنگ‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے، لیکن آخرکار وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر ایسے ’انقلاب‘ کو مسلط رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کے لیے فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں، تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا، وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ کے بہترین گروہ تک کو بھی منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے، جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ مزاج کسی راست فکر اصولی اور اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔

  • غیر سیاسی مذہب کا رجحان: پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے، اس کے نتیجے میں بلاشبہہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ، ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے، لیکن اس غیر ’سیاسی مذہب‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت، اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے۔ یہ معاشرے کوبدل نہیں رہے، بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں، ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے، جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔
  • اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان: لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہوچکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکا کے سیاسی، جنگی، معاشی اور فکری طبقات سے ہے، جس پر صیہونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی اور ناگزیر جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے حواریوں کے درمیان ہو گی اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی، اقتصادی صورت حال بھی امریکا اور اس کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے، اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکا سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی ایک تعداد ہے۔ تاہم، انھیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے، جو انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ طرزِ فکر بہرحال مؤثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکا کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکا سے پیدا ہو چکا ہے، وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی، جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔

  • معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: بہرحال، معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔’حیوۃ الدنیا‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص اور مذہبی و غیرمذہبی ریجھا ہوا ہے، ایسا منظر پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف اور دکھلاوے کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر، علم و تحقیق، مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے بربادی کی تصویر پیش کرتے ہیں، تو چند نہایت محدود مثالوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ تعلیمی ادارے نئی نسل کا مزاج بگاڑنے اور دولت کمانے کی فیکٹریاں ثابت ہو رہے ہیں۔ گھر جو اخلاقی، تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے، اس ادارے میں بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں، درس گاہوں میں مزید بگڑتے ہیں، اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور بھی زیادہ ہمہ گیر ہوجاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں، مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔
  • اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آیندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ، اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی، ڈاکے، کاروبار میں دھوکا بازی، یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے بلکہ لے جارہی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔
  • جنسی بـے راہ روی میں اضافہ: ایک بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہرطرف سے جنسی جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک میں شرم و حیا کو ختم کیا جا رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور حجاب لینے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز اور نمازِ تراویح پڑھنے اور اعتکاف بیٹھنے والوں کی تعداد میں بھی الحمدللہ، خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں، خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے، لیکن اس سب کے باوجود اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے، اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہورہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں، ملبوسات کے نئے فیشن، زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے، اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب، مثلاً شادی میں مہندی کی رسم، یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔
  • وقت کا تقاضا : معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں۔

بلامبالغہ ، ان کے مقابلے میں ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں، تو یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو کام کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا ۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے، اور جو مزاجِ فاسد پیدا ہو چکا ہے، اس کی روک تھام کرسکیں گے۔

ڈاکٹر عشرت حسین اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر تھے، آٹھ سال تک پاکستان کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے ڈین رہے۔ پاکستان میں بدانتظامی کے بحران پر ان کی کتابGoverning the Ungovernable   سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ انھوں نے پاکستانی سیاست کے چار سے پانچ قابل منتظمین کا ذکر کرتے ہوئے کراچی کے سابق سٹی ناظم  [۲۰۰۱ء-۲۰۰۵ء] نعمت اللہ خان کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :’’جماعت اسلامی کے بزرگ میئر نعمت اللہ خان ایک ايسے ایماندار فرد تھے جو مستعدی اور باقاعدگی سے زیرتکمیل کاموں کی نگرانی کرتے تھے۔ ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے میں دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے‘‘۔

۱۷دسمبر۲۰۰۴ءکو صدر جنرل پرویز مشرف نے گواہی دی:’’کراچی میں ترقیاتی کاموں کا کريڈٹ نعمت اللہ خان کو جاتا ہے۔ان کی قیادت میں شہر کا نقشہ بدل رہا ہے، ۲۹؍ارب روپے کا ’تعمیر کراچی پروگرام‘ ان ہی کا تصور ہے ، وہی اصل ہيرو ہیں۔ (جنگ،ڈان)

خوش قسمتی سے ہم نے نعمت اللہ خان کی قیادت میں ان کے چار سالہ دور (۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۵ء) کو بہت قریب سے دیکھا ہے، جس کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں :

۱-صوبائی حکومت ان کے سخت ترین مخالفین کے پاس تھی مگر نعمت اللہ خان فنڈز و اختيارات کی کمی کا رونا رونے، کسی سازش یا ماضی پر ملبہ ڈالنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ ايک انتہائی تجربہ کاراور حقیقت پسند انسان تھے،جن کی نظریں مستقبل پر تھیں۔ وہ تخریب کے بجائے تعمیر و تدبیر پر یقین رکھتے تھے۔ ساری توجہ اس بات پر تھی کہ چار سالہ دور میں ڈليور کرکے دکھانا ہے ، نظام میں رہتے ہوئے راستہ نکالنا ہے اور دستیاب سرکاري افسران سے کام لینا ہے تاکہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔

۲-نعمت اللہ خان تو ۷۰ سال کی عمر میں میئر بنے، مگر جماعت اسلامی نے مختلف شعبوں کے ليے مشیروں کی جو ٹيم انھیں فراہم کی وہ ۳۵سے۴۰سال عمر کے ديانت دار اور اعلیٰ تعلیم يافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ یہی معاملہ ٹاؤن ناظمین اور یونین کونسل ناظمین کا تھا ۔ اس طرح نعمت اللہ خان نچلی سطح تک مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔

۳-ايک اچھے منتظم کی طرح انھیں کراچی کے تمام مسائل کا ادراک تھا۔ پھر مسائل کا حل اور اہل افراد کی ٹیم ان کے پاس موجود تھی مگر اصل چیلنج یہ تھا کہ وسائل کس طرح حاصل کرنے ہیں؟ 

یہ بات چند مثالوں کے ساتھ دیکھیے کہ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما اور سٹی ناظم نے کس طرح وسائل حاصل کیے؟ گڈ گورننس کی مثال قائم کی اور کرپشن کا خاتمہ کردیا۔

  •  پہلی مثال:کراچی کے ٹرانسپورٹ مسائل کے حل کے لیے شہری حکومت کے پاس اربوں روپے کی میٹرو بس کا بجٹ نہیں تھا۔ انھوں نے اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغاز کیا۔ بسوں کی خریداری پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے سرمایہ کاروں کو شہر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور شہر میں۱۵سےزائد روٹس پر ۳۶۴ بڑی،کشادہ اور آرام دہ بسیں رواں ہوگئیں۔ کراچی میں پہلی بار گرین بس انھی کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ یہ تدبیر اور حسن انتظام کی ایک عمدہ مثال ہے کہ نہ قرض لینا پڑا، نہ حکومت کا سرمایہ خرچ ہوا اور عوام کو ایئر کنڈیشنڈ بسیں بھی مل گئیں۔
  • دوسری  مثال:جماعت اسلامی کی شہری حکومت نے اس دور میں پٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی ماہانہ۷۰لاکھ روپے اور سالانہ ۸کروڑ۴۰ لاکھ کی کرپشن کا خاتمہ کیا، جس سے شہری حکومت کی آمدنی میں نماياں اضافہ ہوا اور نئے منصوبوں کی گنجایش پیدا ہوئی (۲۰۰۱ء میں پٹرول ۲۰روپے ليٹر تھا، جب کہ آج ۲۳۴روپے ليٹر ہے)۔ سوال یہ ہے کہ نچلی سطح پر یہ کرپشن کس طرح ختم ہوئی؟سابق ناظم گلبرگ ٹاؤن فاروق نعمت اللہ کے مطابق: ’’گلبرگ ٹاؤن کے حصے میں کچرا اُٹھانے کی ۱۱۰گاڑیاں آئیں، ۹۰ گاڑیاں بالکل خراب تھیں، ان کے ٹائر تک نہیں تھے۔ ان گاڑیوں کا ماہانہ بل ۲۴لاکھ روپے تھا۔ ہم نے روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنے سامنے ڈیزل بھروانا شروع کیا ،کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اس سے قبل گاڑی میں ۵لیٹر ڈالا جاتا تھا اور پرچی پر ۴۰لیٹر لکھ دیا جاتا، باقی رقم حصے داروں میں بٹ جاتی۔ صرف ۶ماہ بعد صورت حال یہ تھی کہ تمام ۱۱۰ گاڑیاں کچرا اٹھانے کے قابل تھیں اور ڈیزل کا بل ۲۴لاکھ سے کم ہوکر ۸لاکھ پر آگیا تھا۔
  •  تیسری مثال:جب خان صاحب سٹی ناظم بنے تو بل بورڈز یا آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے سالانہ آمدنی صرف سوا دو کروڑ روپے تھی۔ بیش تر بل بورڈز کی آمدنی طاقت ور وزرا کے اکاؤنٹس میں چلی جاتی اور شہري حکومت کےہاتھ کچھ نہ آتا۔ سٹی ناظم نے آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کا شعبہ اپنے ايک ایک قابل اعتماد مشير زاہد سعید کو اس ہدایت کے ساتھ سونپ دیا کہ یہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے شہر میں ہر سال ایک فلائی اوور کا اضافہ کیا جائے گا۔ سابق یوسی ناظم اور معروف تاجر زاہد سعید کے مطابق: ’’صرف ايک سال میں آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ سوا دو کروڑ سے بڑھ کر سالانہ ۲۵کروڑ تک پہنچ گئی اور اسی آمدنی سے ایف ٹی سی کا فلائی اوور بنا اور اگلے سال پھر ۲۵کروڑ روپے جمع ہوئے۔
  • چوتھی مثال:کراچی میں سرکاری شعبے میں دل کا صرف ایک اسپتال تھا، اور جناح اسپتال پہنچتے پہنچتے روزانہ چھے افراد راستے میں ہی فوت ہوجاتے۔ اسی زمانے میں فیڈرل بی ایریا میں واقع کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج نارتھ ناظم آباد میں ایک بالکل نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ نعمت اللہ خان نے میڈیکل کالج کی پرانی عمارت میں ضروری تبدیلیوں اور نئی تعمیرات کے بعد جدید سہولیات سے آراستہ امراض قلب کا بڑا اسپتال کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کم خرچ اور قلیل مدت میں میں قائم کردیا۔ ۱۷۰بستروں پر مشتمل یہ اسپتال آج بھی ضلع وسطی اور شرقی کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، اگر سندھ حکومت مناسب توجہ دے۔
  • پانچویں مثال: پاکستان انفارمیشن ٹکنالوجی ایکسپورٹ میں اضافہ چاہتا ہے مگر انجینئرز کی تعداد کم ہے۔ماضی میں جب نجی یونی ورسٹیوں میں نہایت مہنگے بی سی ایس پروگرام شروع ہوئے تو نعمت اللہ خان نے کراچی کے چھے بڑے بوائز اور گرلز سرکاری کالجز میں جامعہ کراچی سے منظور شدہ بی سی ایس کمپیوٹر سائنس پروگرام کا آغاز کیا۔ اس طرح بلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو کم فیس پر بہترین ڈگری ملی اور یہ ہزاروں افراد ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔
  •  چھٹی مثال:سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے بقول: ’کے تھری واٹر پراجیکٹ‘ نعمت اللہ خان نے ۶؍ارب۸۰کروڑ کے بجائے ۶؍ارب میں مکمل کیا تھا اور ۸۰کروڑ روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بچت کس طرح ممکن ہوئی؟ تب خان صاحب کے مشیر ڈاکٹر فیاض عالم صاحب نے بتایا:’کے تھری پراجیکٹ‘ کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے رقم سٹی گورنمنٹ کے پاس آچکی تھی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی ادارہ سرکاری منصوبوں پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ نعمت اللہ خان نے اس ادارے سے منسلک دو انجینئرز کو بلایا اور کہا کہ ’’یہ ہمارا پہلا میگا پراجیکٹ ہے، آپ ٹینڈر طلب کرنے کے عمل میں شامل ہوجائیں‘‘۔ ان کے انجینئرز نے جواب دیا کہ ’’ہم تو واچ ڈاگ (یعنی نگران) ہیں، ہمارا کام تو آپ پر چیک رکھنا ہے‘‘۔ سٹی ناظم نے جواب دیا: ’’اگر آپ ٹرانسپیرنسی چاہتے ہیں تو ہمارا ساتھ دیں‘‘۔ یوں خان صاحب تقریباً ایک ارب روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ منصوبہ مکمل ہوا تو کراچی کو روزانہ ۱۰۰ملین گیلن پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ ’کے تھری‘ کے بعد ’کے فور‘ آج تک نہیں بن سکا۔
  • ساتویں مثال: ۲۰۰۳ء میں کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں۔ نعمت اللہ خان نے کہا: ’’انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ کراچی کو ۲۰؍ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے۔ صدر مشرف نے جواب دیا: ’’آپ لینڈ سے محصول حاصل کریں‘‘۔ نعمت اللہ خان نے جواب دیا: ’’ہم شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے، ہاں ایک آئیڈیا ہمارے پاس موجود ہے‘‘۔ نعمت اللہ خان نے تجویز دی کہ کراچی میں قائم وفاقی ادارے جیسے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم اتھارٹی، پی آئی اے وغیرہ کراچی کے وسائل استعمال کرتے ہیں مگر شہر پر خرچ نہیں کرتے۔ میں منصوبوں کی نشاندہی کرتا ہوں آپ ان اداروں کو پابند کریں کہ وہ یہ منصوبے اسپانسر کریں گے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف اس تجویز پر بہت حیران ہوئے۔اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلایا گیا اور نعمت اللہ خان نے ۲۹؍ارب روپے کے پیکج کی پوری تفصیلات اور منصوبے شرکا کے سامنے رکھے۔ پیکج کے تحت ۱۴؍ارب روپے وفاقی اداروں،۶،۶؍ ارب روپے شہری اور سندھ حکومت، جب کہ تقریباً ۲؍ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے ۔ یہ پروگرام کراچی کے لیے تبدیلی کا انجن ثابت ہوا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ایک انقلاب آگیا۔ کراچی میں انڈرپاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری کوریڈورز بنے تو ٹریفک جام کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوگیا ۔
  • آٹھویں مثال: تعلیم کے شعبے میں لائی گئی اصلاحات کا فائدہ یہ ہوا کہ چار سال کی مدت میں اے ون اور اے گریڈ میں میٹرک کرنے والے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی تعداد ۱۵۰سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی،جب کہ ۳۲کالجوں کی تعمیر بھی مکمل ہوئی۔

مندرجہ بالا مثالیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک باصلاحیت ایڈمنسٹریٹر کی قیادت میں کس طرح اہل اور دیانت دار ٹیم تمام تر رکاوٹوں کے باوجود، شور شرابے اور ہنگامے کے بجائے تدبیر کے ذریعے راستے بناتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس طرح چار سال میں کراچی کا بجٹ ۶؍ارب روپے سے ۴۳؍ ارب روپے تک پہنچایا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں انقلاب لے آئی۔

نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم نے اس دور میں ثابت کیا کہ صرف کرپشن میں کمی لے آئیں تو آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے بلکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ چار سال میں سیکڑوں پارکس بنائے مگر کسی پر انٹری فیس نہ رکھی۔ سٹی گورنمنٹ کے ماتحت تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم رائج تھی جو آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی۔ نعمت اللہ خان نے سیلف فنانس اسکیم ختم کرکے اوپن میرٹ کا نظام قائم کردیا۔ وہ چار سال میئر کراچی رہے مگر ایک دن بھی سرکاری رہائش گاہ میں نہ رہے… ان کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اپنی تنخواہ نہیں نکلواتے تھے اور بلدیہ کی نظامت ختم ہونے کے بعد چار سالہ تنخواہ زلزلہ متاثرین فنڈز میں جمع کرا گئے تھے۔

درحقیقت، نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم کی کامیابی کی بنیادیں بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی رکھ کر گئے تھے، جنھوں نے لکھا ہے: ’’اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوؤں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا ۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں‘ اور ’ صالح انفرادی سيرتیں‘ موجود ہیں يا نہیں ۔ کاغذی نقشوں کی غلطی تو اللہ کی توفیق سے ’علم‘ اور ’تجربہ‘ ہر وقت رفع کرسکتا ہے لیکن ’صلاحیت‘ اور’صالحیت کا فقدان‘ سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا‘‘۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں [مارچ ۲۰۱۹ء میں]کالعدم قرار دی گئی جماعت اسلامی سے منسوب ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر[۱۳جون ۲۰۲۲ء کو چار صفحات پر مشتمل مفصل حکم نامے کے ذریعے] پابندی کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ پریشان ہوگئے ہیں۔

ایک متاثرہ خاتون ٹیچر کہتی ہیں: ’’ہم پہلے ہی پریشان تھے۔ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بند پڑی ہیں، نہایت قلیل معاوضے پر ہم کام کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت کے اس فیصلے نے مزید پریشان کردیا ہے‘‘۔

  • فلاحِ عام ٹرسٹ پر پابندی: کشمیر میں نہایت قلیل فیس کے عوض معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے [جموں و کشمیر] جماعت اسلامی ۱۹۷۲ء میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کا قیام عمل میں لائی۔ ٹرسٹ کے موجودہ ڈائرکٹر شوکت احمد کے مطابق: ’’فی الوقت وادیٔ کشمیر کے دس اضلاع میں ٹرسٹ کے ۳۳۲ اسکول ہیں، جن میں ۸۰ہزار لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، اور ان اداروں میں غیر تدریسی عملے سمیت دس ہزار اساتذہ کام کر رہے ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ ۲۰۱۹ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے سے چند ماہ قبل ہی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں قائم اس کا صدر دفتر سیل کر کے اس کے امیر حمید فیاض کو جماعت کے کئی کارکنوں سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

پیر [۱۳ جون]کے روز جس سرکاری حکم نامے میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں کو دو ہفتوں کے اندر اندر سیل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں اس پابندی کی فوری وجوہ کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، یہ کہا گیا ہے کہ ’’سال ۱۹۹۰ء میں ہی ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد تھی اور تب سے اب تک اس کے اسکولوں میں زیرتعلیم طالب علموں کی رجسٹریشن عدالتی احکامات پر ہوتی رہی ہے‘‘۔ حکم نامے میں محکمہ تعلیم کے افسروں کو کہا گیا کہ ’’ٹرسٹ کے اسکولوں میں جو طالب علم زیر تعلیم ہیں اُن کا نزدیکی سرکاری سکولوں میں داخلہ یقینی بنایا جائے‘‘۔ مگر ہزاروں اُستانیوں اور اساتذہ کے بارے میں حکومت نے کچھ بھی نہیں کہا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟

ٹرسٹ کے ناظم تعلیمات شوکت احمد کہتے ہیں:’’وہ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کریں گے۔  ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے زیر نگرانی گذشتہ تین عشروں کے دوران بیش تر اسکول، ٹرسٹ سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور حکومت کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے باقاعدہ تسلیم شدہ ہیں۔ حکم نامے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’کون سے اسکولوں کو بند کیا جانا ہے، اس کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ اور طالب علموں اور ان کے والدین میں تشویش ہے‘‘۔

شوکت احمد کا یہ بھی کہنا تھا: ’’ہمارا ٹرسٹ ایک ’غیر سرکاری اور غیر منافع بخش‘ ادارہ ہے، جو نہایت قلیل فیس کے عوض اُن لوگوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے، جو بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ نہیں کر پاتے۔ان اسکولوں کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے اسکولوں میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، جو سرکاری اور دوسرے نجی اسکولوں میں رائج ہے۔ پھر انڈیا بھر سے ماہرین ہمارے ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں‘‘۔

اس پابندی کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہوسکتے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی سیشن کے عین درمیان معطل ہونے سے ان کا تعلیمی مستقبل خراب ہوسکتا ہے۔

اگرچہ سرکاری حکم نامے میں اس پابندی کے واضح محرکات کا ذکر نہیں ہے لیکن بعض سرکاری اہل کار کہتے ہیں: ’’ ان اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں میں حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاتے ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ ٹرسٹ کے قیام کے چند ہی سال بعد ۱۹۷۷ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمدعبداللہ نے بھی ’فلاح عام ٹرسٹ‘ پر پابندی عائد کی تھی۔ تب ٹرسٹ کے اسکول دوسرے ناموں سے چلتے رہے، یہاں تک کہ۱۹۸۹ء میں ایک بار پھر ٹرسٹ کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اُس وقت ٹرسٹ نے یہاں کی عدالت عالیہ سے رجوع کر کے ایک عبوری ریلیف کی درخواست کی، تو عدالت نے اسکولوں کے بچوں کو مقامی بورڈ کے ذریعے امتحانات میں شرکت کی اجازت دے دی۔ موجودہ حکم نامے پر اگر عمل ہوا تو یہ پچھلے ۳۳ برسوں میں ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ پر تیسری پابندی ہوگی۔

’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے وابستہ ایک کارکن نے بتایا: ’’حکومت یہ بات جانتی ہے کہ ہمارے یہاں سے فارغ بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں نام کما چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی بچہ ایسا نہیں جو کسی تخریبی کارروائی میں ملوث پایا گیا۔ دوسری طرف حکومت کی اپنی یونی ورسٹیوں میں سے کئی لڑکے ایسے تھے، جنھوں نے بندوق اُٹھائی، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن یونی ورسٹیوں کو بھی بند کیا جائے؟ ہماری تمام سرگرمیاں عام اور شفاف ہیں، مگر اس کے باوجود ہمیں تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔{ FR 675 }

  • پاکستانی ڈگریاں  منسوخ: دوسر ی طرف پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے جموں و کشمیر کے طلبہ کی اعلیٰ تعلیمی پاکستانی ڈگریوں کو کالعدم قرار دینےکا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔

ثمرین گل (فرضی نام) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ ہیں، جو کشمیر اپنے گھر عید کے لیے آئیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈیا کی حکومت ان کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دے گی۔ اسی طرح فواد حسن (فرضی نام) کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ وہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں میڈیکل کالج کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں، وہ کہتے ہیں:’’میرے والدین چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ انڈیا میں کوشش کی مگر داخلہ نہیں ملا۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں کوشش کی تو پاکستان میں نہ صرف داخلہ ہوا بلکہ یہ دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا بھی تھا‘‘۔

ثمرین اور فواد حسن سمیت کشمیر کے کئی طالب علموں کو، جو پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا حال ہی میں تعلیم مکمل کر چکے ہیں، ان کے لیے انڈیا کے اعلیٰ تعلیم کے وفاقی ادارے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور آل انڈیا کمیشن برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کا وہ اعلان ذہنی تناؤ کا باعث بن چکا ہے، جس کے مطابق: ’’پاکستان سے حاصل کردہ ڈگری کی بنیاد پر آیندہ سے انڈیا [اور انڈیا کے زیرتسلط کشمیر] میں تعلیم یا نوکری نہیں ملے گی‘‘۔

واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان عشروں سے جاری ’سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام‘ (SEP) کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نوجوان ہر سال پاکستانی تعلیمی اور تربیتی اداروں میں داخلہ لیتے تھے۔پاکستان میں فی الوقت زیرتعلیم کشمیریوں کی تعداد کے بارے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے آج تک کوئی مجموعی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

تاہم، پاکستان سے واپس لوٹنے والے طالب علموں کا کہنا ہے: ’’گذشتہ کئی برس سے ہرسال کم از کم ۱۰۰ نوجوان میڈیکل،انجینیرنگ یا کمپیوٹر سائنسز کے شعبوں میں ڈگریاں لے کر کشمیر لوٹتے تھے۔ پاکستان میں کشمیری طالب علموں کی تعداد میں خواتین کا تناسب ۴۰ فی صد ہے۔

۲۰۱۶ء میں مسلح عسکریت کے بعد حال ہی میں انڈین اداروں کا یہ متنازعہ فیصلہ سامنے آیا ہے، اوراس فیصلے سے قبل ۲۰۲۰ء میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ایک متنازعہ مقدمہ سامنے آیا، جو جموں و کشمیر پولیس کے کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر (CIK) شعبے نے درج کیا۔ اس مقدمے میں الزام لگایا گیا کہ ’’کشمیری علیحدگی پسند رہنما پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے کے عوض کشمیریوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں اور یہ سرمایہ بعد میں مسلح تشدد کے لیے استعمال ہوتا ہے‘‘۔

حُریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کے اس دعوے کو مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا ہے:’’یہ بات تو خود طالب علموں یا اُن کے والدین سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے‘‘۔

پاکستان سے ہی ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر واپس لوٹنے والے ایک نوجوان کے والد نے ہمیں بتایا کہ’’یہ نوجوان اپنے ہی پیسوں پر ڈگریاں لیتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت پر پاکستانی وسائل خرچ ہوتے تھے۔ واپسی پر وہ کشمیر میں ہی کشمیری انتظامیہ کا ایک انسانی وسیلہ بن جاتے تھے۔ لیکن اب اس فیصلے سے برین ڈرین [فرارِ ذہانت] ہوگا۔ ظاہر ہے جب ایک ڈگری یافتہ نوجوان یہاں ناکارہ قرار دیا جائے گا، تو وہ کیا کرے گا؟ وہ یا تو پاکستان واپس جائے گا یا پھر خلیجی ممالک یا برطانیہ اور امریکا جائے گا‘‘۔

یوں تو ہر روز بھارت کے طول و عرض پر پھیلے مسلمانوں کی جان، مال، عزّت، مستقبل اور ایمان سے کھیلنے کے متعدد واقعات برقی اور طباعتی ذرائع ابلاغ پر شائع ہوتے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں اس جارحیت نے ایک دوسرے طریقے سے پیش قدمی کی۔

بھارتی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے ٹی وی کے ایک لائیو شو میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے خلاف عالمِ عرب کے رد عمل نے عرب دنیا میں بھارتی سفارت کاری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے ۔ دس دن تک بھارت میں مسلمان، نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے، مگر ان کو عرب دنیا کے رد عمل کے بعد ہی پارٹی سے معطل کیا گیا ۔

پاکستان،ترکیہ،ملایشیا، ایران بشمول ’اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے احتجاجات کو بھارتی حکومتیں عموماً نظر انداز یا مسترد کرتی تھیں ، مگر عالم عرب کے موجودہ رد عمل کی وجہ سے آج کل آئے دن مشرق وسطیٰ میں موجود بھارت کے سفارت کار ان ملکوں کے متعلقہ افسران اُمورخارجہ، میڈیا کے نمایندوں ، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افرادکے دروازوں پر دستک دے کر یہ پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں کہ: ’’بی جے پی کے ترجمانوں کا رد عمل اضطراری تھا اور حکومت کا ان کے اس عمل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اوران کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا ہے‘‘۔ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بارے میں عالمی فورمز پر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے ۲۰۱۹ء سے سزا کے بطور بھارتی وزارت خارجہ نے جمہوریہ ترکیہ کے ساتھ فارن آفس ڈائیلاگ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ مگر اس قضیے کے بعد آناً فاناً وزارت خارجہ میں سیکرٹری ویسٹ سنجے ورما نے انقرہ کا دورہ کرکے اس ڈائیلاگ کا احیا کر دیا ۔ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں ترکی بھی عربوں کی طرح سرکاری طور پر احتجاج نہ درج کروادے ۔

یہ امرواقعہ سیکڑوں برسوں کی تاریخ میں ثبت ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا ان کے حکمرانوں نے عصبیتوں اور ذاتی فوائد سے بالاتر ہوکر ایک جسد واحد کی حیثیت سے عمل یا ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو اس کے خاصے دیرپا اور مثبت نتائج نکلے ہیں ۔ عالم عرب کے اس رد عمل نے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں ہیں ۔ اس سے قبل چاہے بابری مسجد کی مسماری کا مسئلہ ہو یا فرقہ وارانہ فسادات___ ان کے فوراً بعد ہی کسی جید عالم دین یا دینی تنظیم کے رہنما کو حکومت کی طرف سے مسلم ممالک کا دورہ کرواکے وہاں کے حکمرانوں تک پیغام پہنچایا جاتا تھا کہ یہ بس چند شرپسندوں کی کارستانی تھی اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور حکومت اس سے احسن و خوبی کے ساتھ نپٹ رہی ہے‘‘ ۔ انھیں یہ بھی باور کرایا جاتا تھا کہ’’ آپ کی مداخلت سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے‘‘۔ مگر اب کی بار چونکہ اس وقت معاملہ پیغمبر ؐ اسلام کا تھا، اور شاید اب جید عالم دین یا دینی تنظیم کے لیڈر وں کو اس حد تک کنارے لگایا جا چکا ہے کہ وہ اب مسلم ملکوں میں بھارتی حکومت کی غیر سرکاری سفارت کاری کرنے سے گریزاں ہیں ، اس لیے بھی وزیراعظم نریندر مودی کے سفارت کار عالم عرب میں برپا ہونے والے رد عمل کی روک تھام نہیں کر پا رہے ہیں ۔

اس دوران میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ ساز رام مادھو نے مسلمانوں کو تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ بھارت میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں ۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں: ’’مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں ، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں، اور مسلمان جہاد کے نظریئے سے خودکو الگ کریں ‘‘۔

پہلی اور تیسری شرط کےلیے مشاہیر اورعلما کو رام مادھو کو جواب دینا چاہیے۔ دوسری شرط یعنی مسلمانوں کے امت کے تصورسے ہمیشہ ہی نہ صرٖ ف ہندو قوم پرست بلکہ لبرل عناصر بھی نالاں رہے ہیں اور ایک عرصے سے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمان اس تصور سےوابستگی کو رد کردیں۔

اگر ماضی پہ نظر دوڑائوں تو یاد آتا ہے کہ ایک بار کشمیر کے بارے میں نئی دہلی میں محکمہ دفاع کے ایک تھنک ٹینک نے سیمی نار کا انعقاد کیا تھا۔ اس موقع پر ایک حاضر سروس بریگیڈیر نے امت کے اس تصور ہی کو کشمیر کے ایشو کی جڑ قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ اس کی بیخ کنی کرنی ضروری ہے۔ بھارتی فوج کے ان اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مکہ میں فریضہ حج ادا کرنے سے بھی اس تصور کو تقویت ملتی ہے ۔ اس لیے بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کرکے، یا مسلمانوں کو ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے درگاہ اجمیرشریف جانے کی ترغیب دلائی جائے‘‘۔

اسی طرح ایک بار کشمیر پر ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں بظاہر نہایت ہی لبرل کشمیری پنڈت دانش ور نے بھی مسلمانوں میں امت کے تصور کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بس یہی ایک چیز بین المذاہب مکالمہ میں رکاوٹ بنتی ہے ‘‘۔ ان دنوں فرانس میں سکھوں کی پگڑی پہننے کا معاملہ درپیش تھا،اور بھارتی حکومت نے اس کو حکومت فرانس کے ساتھ اٹھایا تھا اور چین کے کیلاش پہاڑوں میں ہندوؤں کی مانسرور یاترا کی تیاریا ں بھی ہو رہی تھیں ۔ میں نے ان سے پوچھا: ’’محترم پنڈت صاحب، آخر ان دونوں معاملات پر بھارتی حکومت کیوں اتنی زیادہ فعال ہے؟  اس تصور کو تو پھر ہندوازم سے بھی خارج کرنا ضروری ہے ‘‘۔

۱۸فروری ۲۰۰۷ء کو ’سمجھوتہ ٹرین دھماکوں‘ کے بعد جب ہندو دہشت گردی کی بازگشت سنائی دینے لگی، تو میں نے جنوبی دہلی میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ویشیوا ہندو پریشد (VHP) کے ہیڈ کوارٹر میں ہندو قوم پرستوں کے شعلہ بیان لیڈر ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا کا انٹرویو کیا ۔ وہ اس وقت تنظیم کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری تھے ۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا:’’آپ توایک ڈاکٹرہیں اور وہ بھی کینسر اسپیشلسٹ ۔ آپ انسانوں کے جسم سے کینسر دور تو کرتے ہیں ، مگر سوسائٹی میں کیوں کینسر پھیلاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’ہم بھارتی سوسائٹی میں مدرسہ اور مارکسزم کو کینسر سمجھتے ہیں اور ان دونوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پُرعزم ہیں، چاہے اس کے لیے سرجری کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے؟‘‘ کئی اور سوالوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ’’بھارت میں تو تقریباً ۲۰کروڑ مسلمان بستے ہیں، اور ان سبھی کو تو آپ ختم نہیں کرسکتے ۔ کیا کوئی شکل نہیں ، کہ ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ اپنے مخصوص انداز میں میز پر مکہ مارتے ہوئے انھوں نے کہا:’’ہاں ہاں کیوں نہیں ،ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں تعاون کیا ہے، مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویے سے ہے ۔ وہ اپنے مذہب کے معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں ۔ وہ ہندوؤں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں اور ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزت نہیں کرتے ۔ ہمیں مسلمانوں سے کوئی اور شکایت نہیں ہے ، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔

میں نے تو گڑیا سے پوچھا:’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ توان کا کہنا تھا: ’’ہندو کم و بیش ۳۲  کروڑدیو ی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں ‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پر سکھ گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، توگڑیا نے کہا:’’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں ، بدھوں اور جینیوں نے ہندوؤ ں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا ۔ اور تو اور مسلمان محمود غزنوی، اورنگ زیب، محمد علی جناح، اور دہلی کے امام احمد بخاری کو اپنا رہنما مانتے ہیں ، یہ سبھی ہندو رسوم و رواج کے قاتل تھے ۔ شاید ہی کوئی مسلمان داراشکوہ، عبدالرحیم خان خاناں، امیرخسرو یا اسی قبیل کے دانش وروں کو قابل تقلید سمجھتا ہے ۔ یہ سبھی شخصیتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں ، مگر بخاری اور علی جناح نہیں ہوسکتے‘‘۔

اسی طرح ایک روز بھارتی پارلیمان کے سینٹرل ہال میں ، میں نے صوبہ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ سے، جو ان دنوں ممبر پارلیمنٹ تھے پوچھا: ’’ آپ آئے دن مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے ۔ ان کو تو ختم کیا جاسکتا ہے نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے ۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے، کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزارسکیں؟‘‘ ; تو انھو ں نے کہا: ’’ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں ۔ مگر اب و ہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب ، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ ہندوؤ ں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارے دیوی دیوتاؤں کی عزّت نہیں کرتے اور ہندو جذبات کا خیال نہیں رکھتے‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جارہی تھی، مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی ۔ یوگی جی اب ایوان میں جانے کےلیے کھڑے ہوگئے، مگر جاتے جاتے پروین توگڑیا کا جملہ دہرایا:’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں سکھوں ، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں‘‘۔

اسی طرح غالباً گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگپور چلا گیا، جس میں اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے ۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کی لیڈر شپ کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریئے کو بیان کرنا تھا ۔ جب اس وفد نے سدرشن جی سے پوچھا:’’کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا جے؟‘‘ اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا: ضرور آر ایس ایس مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ آپ لوگ اسلام ہی کو برحق اور سچا دین کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔

اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے ۔ آرایس ایس، علماو دانش وروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے ۔

اپنی سوانح حیات یادوں کی بارات میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ اپنی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ انھوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں۔ آپ جس قدر خوفناک برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ میں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ، جن کے خاندان باہرسے آکر یہاں آباد ہو گئے ہیں ، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا ، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں ، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔

سردار پٹیل کا یہ جملہ ہندو قوم پرستوں کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ ان کو امت کے تصور سے زیادہ اسلام کے آفاقی اور سماجی انصاف کے نظام سے خطرہ لاحق ہے ، جو حج کے وقت یا امت کے تصور سے ظاہر ہوجاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار برس اس خطے پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان جنوبی ایشیا میں اس سماجی انصاف کے نظام کو لاگو نہیں کرپائے، بلکہ خود ہی طبقوں اور ذاتوں میں بٹ گئے، ورنہ شاید اس خطے کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی !

۱۶جون کو پاکستان کے وزیرخارجہ مسٹر بلاول زرداری نے اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’’پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی سے دوچار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے سے ہمیں کون سا فائدہ ہورہا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بحال اور تجارت کریں‘‘۔

یہ وہی بلاول زرداری ہیں، جو حکومت میں آنے سے قبل جب حزبِ اختلاف میں تھے تو عمران خان حکومت کو طعنہ دیا اور الزام لگایا کرتے تھے کہ ’کشمیر کو مودی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے‘۔ ہمارے ہاں یہ عجیب مریضانہ رواج ہے کہ جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو گرماگرم تقریریں کی جاتی ہیں اور حکومت کی کسی بات کی کبھی تحسین نہیں کی جاتی، مگر جب خود حکومت میں آتے ہیں تو رویئے فوراً بدل جاتے ہیں اور موقف یک سر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کل تک جو پہلے وزیراعظم کو طعنے دے رہے تھے۔ اب وہ خود ایسے شوشے چھوڑ رہے ہیں کہ ’’ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے چاہییں‘‘۔

کوئی ذی شعور پاکستانی، بھارت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کی قیمت کیا ہے؟اگر تو اس کی قیمت یہ ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے تنازعے ہی کو نظرانداز کردیں اور بھارت مقبوضہ جموںو کشمیر میں جو کچھ کرتا چلا جائے، ہم اس پر احتجاج نہ کریں اور اس تمام تر ظلم و زیادتی پر سردمہری برتتے ہوئے اسے تسلیم کرتے رہیں، اور لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل سرحد مان کر اس تنازعے کو اسی طرح ختم کر دیں، جس طرح ہمارے ہاں کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود اس پر بحث بھی ہوسکتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح وزیرخارجہ بلاول نے بیان دیاہے، اس کی ٹائمنگ کو پہلے ذہن میں رکھیے۔ پھر اس بیان کی جڑ بنیاد (substance) کی بات کرتے ہیں۔

صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے آپ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (او آئی سی) کے جنرل سیکرٹری کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ’’او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور بھارت کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا جائے۔ بھارت میں کانپور سے رانچی تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، اس کے خلاف اقدامات اُٹھائے جائیں‘‘۔ مگر اس کے صرف تین روز کے بعد آپ یہ پیغام دے رہے ہیں۔ اس بات پر  او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اور پوری دُنیا یہ کہتی ہوگی کہ ’’یہ کیا مذاق کیا جارہا ہے؟ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ خود ان کا موقف واضح نہیں ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں؟ ایک طرف ہمیں یہ کہتے ہیں کہ اجلاس بلائیں اور تجارت ختم کریں اور بھارت کا بائیکاٹ کریں اور دوسری طرف اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں‘‘۔ اس طرح متضاد اور جگ ہنسائی پر مبنی بیانات دے کر ہم دنیا کے سامنے اپنی ساکھ کو دائو پر لگادیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ ہمارے ساتھ کھڑی نہ ہوئی، کجا یہ کہ ہم سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس بلا کر ہی کچھ کرلیتے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہورہی ہے کہ ہمارے اہل حل وعقد کی ایسی تضاد بیانیوں کی وجہ سے کہیں بھی ہمیں کوئی ٹھوس اور بامعنی تائید نہیں ملی۔ اقوام متحدہ کے اندر بلاشبہہ چند تقاریر ضرور ہوگئیں، اس کے سوا ہمیں کیا تائید و حمایت ملی؟ آج پھر ہم وہی غلطی کر رہے ہیں۔ یہی لوگ جب حزب اختلاف میں تھے تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ خدارا، تھوڑا سا ٹائمنگ کا خیال رکھ لیں کہ حالات کیا ہیں اور اس وقت بھارت میں کیا ہورہا ہے؟ اور وہاں کون سی قیامت برپا ہے؟ موجودہ حالات کے پس منظر میں کیا ایسی بیان بازی موزوں ہے؟

دوسری طرف اس بیان کا جائزہ لیجیے۔ بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل پر باتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن جب آپ چیزوں کو پبلک ڈومین یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے کر آتے ہیں اور اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا بنیادی مذاکرات کی بات کرتے ہیں، تو پھر آپ کے ہرلفظ اور ہرجملے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ آپ بیک ڈور چینل پر ایک گرائونڈ تیار کرتے ہیں اور جب تک گرائونڈ تیار نہیں ہوجاتی اس وقت تک اسٹرکچرل ڈائیلاگ کے لیے بیان دینا مناسب نہیں۔ لہٰذا، یہ دانش مندی کی بات نہیں ہے کہ ہم براہِ راست یہ کہیں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا مذاکرات کرنا چاہییں۔ بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بیک ڈور چینل پر مصروف رکھتا ہے اور جب اسٹرکچرل ڈائیلاگ کا مرحلہ آتا ہے تو خصوصاً کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرواتا رہتا ہے۔

۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیر پر ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے؟ کس طرح دہشت گردی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا تنازعہ بنایا؟ حالانکہ اصل تنازعہ تو مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس وقت تک کبھی معمول پر نہیں آسکتے، جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ یہ پہلو ہروقت سامنے رہنا چاہیے۔

اگر وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان اس وقت ’تنہائی‘ کا شکار ہے، تو اس کی وجہ کشمیر یا پاک بھارت تعلقات کی خرابی نہیں ہے، بلکہ ہماری داخلی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں۔ ہمارے اندر کے جو معاملات ہیں، ’میموگیٹ‘ سے لے کر ’ڈان لیکس‘ وغیرہ تک کے جو ایشوز ہیں، اگر ان کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خدارا، پاکستان کی سفارت کاری کو اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مذاق نہ بنایئے۔ ہمارا ایک مضبوط قومی موقف ہے، اسی کو برقرار رکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی انتظامی اور اداراتی کمزوریوں کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ اور حکومتوں کو اس طرف نہیں لاسکے ہیں۔ اس کے پیچھے گوناگوں مسائل اور سفارتی سطح پر ہماری کوتاہیاں ہیں۔

وزیرخارجہ کے اس بیان میں پائی جانے والی کمزوری اور ناسمجھی، کشمیر کے موقف سے اساسی انحراف اور ایک بڑی زیادتی ہے۔ یہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ جو گذشتہ ۷۵برس سے جانی اور مالی سطح پر بہت بڑی قربانی دے رہے ہیں، اور پھر بنیادی طور پر کشمیریوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم ہے جو بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں اور ابھی تک جنھوں نے پاکستان کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔

ایک طرف یاسین ملک صاحب اور شبیراحمد شاہ صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ مسرت عالم اور آسیہ اندرابی کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ڈاکٹر قاسم فتو اور  بلال لون کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کتنے نام گنوائے جائیں؟ کتنی مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں اور کیا کیا مظالم انھوں نے برداشت نہیں کیے۔ آج بھارت جو کچھ کررہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مٹانے کے لیے جس طرح کے اقدام کر رہا ہے، کیا اس سب کے باوجود آپ بھارت سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارت سے تعلقات بحال کرکے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات سے ہم اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں، اور حاصل کچھ نہیں ہوتا، اور اس طرح کشمیر پالیسی کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس کو دُور کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ صرف یہی طریقہ نہیں ہے کہ آپ بھارت کے سامنے بچھ جائیں کہ ہماری مدد کیجیے۔اگر یہی ذہنی سانچہ ہے تو بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے نئے چیلنج سامنے لے کر آتا ہے، لیکن اس بار یورپ اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال میں یہ دورہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اس امکانی دورے کو خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ’ذرا مختلف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ’اب یا کبھی نہیں‘ والی سوچ کارفرما ہے۔

اس ارضی خطے کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور امریکا بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔

روسی فیڈریشن ایک نئے دور کی ابتدا کرچکی ہے، جس کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کا بچنا آسان نہیں ہے۔ چین کی اقتصادی میدان میں عالمی پیش رفت کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر بھی آگے بڑھنے کے رجحانات براہ راست امریکی پریشانی کا اہم سبب ہے۔

افغانستان سے جس ڈھب سے امریکی فوجی انخلا پچھلے سال مکمل ہوا تھا، اس کا بھی دبائو ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکی اثر ورسوخ کو کم ہونے سے روکنے کے لیے نئے بندوبست کو ممکن بنانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کریں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس میں ضروری سرعت نہیں دکھائی جا سکی۔ افغانستان سے اس انداز میں نکلنے کے بعد جو دھچکا امریکا کو سہنا پڑا ہے، اس کے ازالے کی کوشش کے علاوہ خود جو بائیڈن کی اور ان کی جماعت کی ساکھ اور صلاحیت ِ کار پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں برطانیہ کے نئے فوجی سربراہ جنرل پیٹرک سینڈر کا یہ بیان: ’’۲۴ فروری کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘‘، صرف برطانیہ کے لیے ایک بڑے انتباہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ امریکا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

جوبائیڈن اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کو مزید نیچے آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہے ہیں۔ رواں برس ماہ نومبر میں امریکا میں وسط مدتی انتخابات ان کی جماعت کے لیے ایک اندرونی، فوری اور بڑے چیلنج کے طور پر سامنے ہیں۔ ان انتخابات میں بُرے نتائج سے جوبائیڈن کی صدارت کے معنی ہی بدل جائیں گے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس میں داخلے سے قریب تر ہو جائیں گے۔

ان حالات میں بائیڈن چاہتے کہ ہیں کچھ فوری نوعیت کے ’مفید‘ کام ممکن ہو جائیں یا ان میں نظر آنے والی پیش قدمی ہو۔ اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انھیں اچھے لگتے تھے، یا نہیں، مگر اس وقت وہ ان کے لیے اتنے ہی اہم ہو چکے ہیں، جتنے کہ محمد بن سلمان کے لیے خود  صدر بائیڈن اہم ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کو ہر طرح سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے سعودی ولی عہد سہ ملکی دورے پر نکلے، جس میں مصر، اردن اور ترکیہ میں اہم ملاقاتیں اور مشاورتیں پیش نظر ہیں، تاکہ بڑے فیصلوں میں اکیلے آگے نہ بڑھیں، دوسروں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔

اسی دوران میں سعودی ولی عہد کے سہ ملکی دورے سے ایک روز قبل سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیونی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے سعودی شاہی خاندان کی اہم شخصیت شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل ماضی میں اسرائیل کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران سے اُبھرنے والے ’خطرات‘ پر بھی ان کی نظر ہے۔ ایرانی جوہری اور ڈرون پروگرام کو سمجھنے اور اس پر رائے کے حوالے سے شہزادہ فیصل، امریکا اور اسرائیلی خدشات میں یکسانیت کا پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں، جب کہ یمن، لبنان، عراق اورشام میں ایرانی اثرات کے مظاہر بھی روز افزوں ہوں۔

لہٰذا، بعض اہل الرائے اس تصویر کے بنائے جانے اور سامنے لانے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے۔ اس تصویر کے ٹویٹ ہونے کے فوری بعد میڈیا نے اسے جتنی اہمیت دی ہے، وہ بھی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ گویا دو اہم سعودی واسرائیلی شخصیات کی یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی چغلی کھاتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک: ’’یہ ایک تصویر نہیں ہے، بلکہ جوبائیڈن کے دورے کا عنوان ہے‘‘۔

یہ ’مفروضاتی عنوان‘ اس حقیقت کے باوجود بڑا اہم ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، عبوری حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے اور اکتوبر تک نئے انتخابات یقینی نظر آرہے ہیں۔

لیکن دو باتیں اور بھی بہت اہم ہیں۔ جس طرح امریکا کے بارے میں یہ معروف بات ہے کہ اس کی حکمت عملی ریاستی نوعیت کی ہوتی ہے، حکومتی انداز کی نہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف بھی ایسے ہی ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت یا فرد کی ہو، اسرائیلی اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا، امریکا کی داخلی ضرورتوں اور عالمی مسائل کے ساتھ اسرائیل، مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکیہ کے بڑے ایوانوں کی درون خانہ سرگرمیوں کو نکتے ملانے والی ایک سرگرمی کے طور پر ہی لے لیا جائے تو یہ کھیل کافی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کھیل کئی ممالک اور ان کے موجودہ حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کا بھی تقاضا ہے۔

ایک دو حوالے خود وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بھی دستیاب ہیں:

ایک تو یہ کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ایک صحافی کا حالیہ دورۂ اسرائیل، اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کے زیرکمان ان کی سیاسی جماعت کے ایک اہم اور کاروباری شخصیت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا تفصیلی بیان۔ پاکستان کی مخلوط حکومت کی طرح اسرائیل میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس کی اکثریت نقش بر آب کی طرح ہے۔ بدترین معاشی صورت حال میں امریکا اور آئی ایم ایف سے تقاضے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے توقعات بھی ایک مشترکہ منظر پیش کرتی ہیں۔

پاکستان میں کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہی نہیں، ماہ نومبر میں ’اہم فیصلوں‘ کی ایک عرصے سے جاری بحث بھی موجود ہے۔ اگر اس سب کچھ کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کے رجحانات اور حالات کا بننے والا ہیولا مذکورہ بالا منظر نامے سے قریب تر نظر آتا ہے۔

 ’گلوبل ویلیج‘ کا حصہ ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کو تعاون دینا تو لازم ہوتا ہی ہے، خصوصاً جب حالات یہ بن چکے ہوں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مشکلات میں گھرا ہوا اور فطری طور پر کمزور بھی سمجھنے لگا ہو۔ ایسے میں سب ایک دوسرے کے تعاون کے متلاشی بھی ہوتے ہیں اور تعاون ’بارٹر‘ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا دُور کی کوڑی لانا ہر گز نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اہم فیصلوں کا امکان غالب ہے، جو صرف سعودی عرب یا عرب دُنیا کے حوالے سے نہیں، بلکہ بعض دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فیصلے حتمی نوعیت کو نہ چھو پائیں، مگر اصولی فیصلوں یا ابتدائی فیصلوں کے درجے میں ضرور شمار ہوں گے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سب فریق ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر چلنے پر بھی متفق ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں اسی سمت بڑھنے کے لیے بڑے فیصلوں کی خاطر مقامی سطحوں پر مزید تبدیلیوں کے امکانات پیدا کر کے مشرق وسطیٰ کو بھی بدلنے کی راہ مزید ہموار کریں گے۔

مشرق وسطیٰ پہلے ہی ’تبدیلیوں‘ کے اس راستے کا راہی بن چکا ہے۔ ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کے اشاروں سے بات آگے نکل چکی ہے جسے یہاں تک لانے میں ’لالچ اور دھمکی‘ کی امریکی حکمت عملی کو گہرا دخل حاصل ہے۔ یہ پالیسی نئے حالات میں کبھی ایک ملک کے لیے اور کبھی دوسرے ملک یا کسی شخصیت کے لیے بروئے کار رہ سکتی ہے۔

مغرب میں اسلام کی جو تصویر ہے، اس کا مطالعہ کیا جائے تو شاید بیش تر واقعات و حوادث کی حقیقت کو واضح کرنے کی بنیاد مل جائے اور ہمیں اس بات کا مزید ادراک بھی حاصل ہو جائے کہ رائے عامہ پر کس طرح اثر انداز ہوا جاتا ہے اور عوام کے جذبات سے کس طرح کھیلا جاتا ہے؟  دنیا میں تصویر یا تشخص کی جنگ جاری ہے، جس میں ہر ملک اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ [دنیا کے سامنے]اپنی تصویر بنانے اور اپنے دشمنوں کی گھسی پٹی تصویر قائم کرنے کا ملکہ حاصل کر لے۔

تصویر کی اس جنگ میں امریکی سنیما انڈسٹری نے اہم کردار ادا کیا ہے، اور اس نے ایسی بہت ساری فلمیں بنائی ہیں، جن کا مقصد دوسروں یا دشمن [ممالک]کے بالمقابل امریکا کے تشخص کو مثبت تصویر کےچوکھٹے میں پیش کرنا ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکی تحقیقاتی مراکز نے صرف ہدف کو چُنا ہے کہ اسلام کو امریکا اور یورپ کے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان مراکز کی ملی بھگت نے مسلمانوں کی مطلوبہ منفی تصویر کُشی کے لیے بہت سی فلمیں منظر عام پر لانے کی بنیاد فراہم کی ہے۔

  • اسلام کی تصویر کشی کے سیاسی اہداف: ایک سروے، جسے چار پاکستانی محمد یوسف، نعمان سیل، عدنان مناور اور محمد شہزاد نے انجام دیا ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام کی تصویر کو بگاڑنے کی صورت میں امریکی سنیما بعض سیاسی اہداف کی تکمیل کر رہا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سنیما نے بعض اصطلاحات اور تصورات مثلاً ’ریڈیکل اسلام‘، ’انتہاپسند اسلام‘، ’ملیشیائی اسلام‘، ’بنیاد پرست اسلام‘، ’اسلامائزیشن اور انقلاب پسند‘ اسلام کا استعمال کیا ہے۔ ان اصطلاحات کے استعمال نے اسلام اور مسلمانوں کی گھسی پٹی تصویر سازی کے لیے فلسفیانہ اور پروپیگنڈا بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ اصطلاحات عوام کو اس بات پر مجبور کر رہی ہیں کہ وہ ان الفاظ و تصورات سے وہی تصویر قبول کریں، جو ہالی وُڈ کے نظریات پر مبنی ہے، یعنی سنیما پروپیگنڈے ،عوام کے جذبات و رجحانات سے کھیلنے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔
  • سنیما اور اسلاموفوبیا : اسی طرح سنیما نے اسلاموفوبیا کا ہوّا کھڑا کرنے یا اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کو جنم دینے میں بھی خوب مدد کی ہے۔ اہل مغرب کے دلوں میں اسلام مخالف جذبات پیدا کیے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کو ہوا دی ہے۔ اس تحقیق کا ایک اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ اسلام کو اسی نظریۂ تہذیبی تصادم سے ہم آہنگ کر کےپیش کررہے ہیں، جسے سیموئیل ہن ٹنگٹن نے پیش کیا تھا۔

تہذیبی تصادم کے نظریے نے دنیا کو تقسیم کرکے مغرب اور اسلام کے درمیان گہری کش مکش پیدا کی ہے۔اس نظریئے کو دنیا کے اوپر تھوپنے کے لیے ذرائع ابلاغ ، خاص طور سے سنیما کو استعمال کیا گیا ہے، جس نے اہلِ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز و اختلاف کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔اسی لیے امریکی سنیما نے اسلام کو ایک مذہب (دین) کی حیثیت سے لیا ہی نہیں، اور تعصب و جانب داری سے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو چوٹ پہنچائی ہے۔

  • فلم موثر ترین ذریعہ:سروے اور تحقیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی لگی بندھی تصویر پیش کرنے میں سنیمائی فلمیں دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ سے بھی زیادہ موثر رہی ہیں۔دنیا اس وقت تصویری تہذیب کے دور میں جی رہی ہے۔ فلم تواتر اور تسلسل کے ساتھ تصویروں کے جس مجموعے کو پیش کرتی ہے ، انھیں پردے پر ایسے متاثر کن انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان ڈرامائی اور تخیلاتی تصویروں کو اصل حقیقت کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔اسی وجہ سے ہالی وڈ اپنے اندر بڑی اثرپذیری کی قوت رکھتا ہے۔

اسی لیے چاروں محققین نےاپنے سروے میں اس انڈسٹری کو آکٹوپس سے تشبیہ دی ہے جس نے دنیا کو اپنے بازؤں کی گرفت میں لے رکھا ہے۔دنیا کے بازارِ تفریح (Entertainment Market ) پر ہالی وُڈ کی حاکمیت ہے۔ کروڑوں لوگ اس کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ ان فلموں کی وجہ سے ہالی وُڈ نوجوانوں کا سب سے طاقت ور استاد بن چکا ہے، کیوں کہ سب سے زیادہ فلموں سے جڑنے والا طبقہ نوجوانوں کا ہی ہے۔

دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہالی وُڈ میں کام کرنے والے پرڈیوسرز، ڈائرکٹرز، قلم کار اور اداکار سب کے سب امریکا کے اشرافیہ (Elite) طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا کا وہی تصور پیش کرتے ہیں جو یہ طبقہ رکھتا ہے۔

  • سنیما کا سیاسی و تشہیری کردار:امریکا سرد جنگ سے فاتح کی حیثیت سے باہر نکلا تو ہالی وُڈ نے اپنی فلموں میں اس اصطلاح پر توجہ مرکوز کر دی، جسے امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا نام دیا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے ااستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کو بھی استعمال کیا۔ چنانچہ ایسی بہت سی فلمیں تیار کیں، جن کا مقصد امریکی عوام کی ذہن سازی کرکے انھیں امریکی قیادت کی حمایت و تائید پر مجبور کرنا، اور افغانستان و عراق کے خلاف امریکی جنگ کے فیصلے کو جائز ٹھیرانا تھا۔

اسلام کی روایتی منفی تصویر جو ہالی وُڈ نے گھڑی ہے، اس کا استعمال امریکا نے فلم بیں حضرات کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمان ’انتہاپسند‘، ’دہشت گرد‘ اور ’متعصب‘ ہوتے ہیں۔

سنیما کے اس سیاسی و تشہیری کردار سے واضح ہوتا ہے کہ ہالی وُڈ صرف تفریح کا ایک وسیلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ذہنوں میں ایک مخصوص تصویر قائم کرنے کی فیکٹری بھی ہے۔ یہ سنیما ہی تصویری و اصطلاحاتی جنگ اور تہذیبوں کے مابین کش مکش کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ سنیما ہی امریکی اشرافیہ کے نقطۂ نظر کو عام کرکے اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی کر رہا ہے۔

بدقسمتی سے لوگ دنیا کو ہالی وُڈ کے اسی کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، جو حقائق کو پیش نہیں کرتا، بلکہ تصویروں، اور خواص کی مدد سے من پسند اور مذموم واقعات کو جنم دیتا ہے اور پھر عوام کے جذبات کو ان کے خلاف اُبھارتا ہے جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

  • جعلی اور گمراہ کن روایتی تصویر: عوام کے سامنے ہالی وُڈ جو معلومات پیش کرتا ہے، ان کا انداز عمومی نوعیت کا ہوتا ہے اور ان کے توسط سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اس قسم کے احکامات صادر کرتا ہے، جو عوام کو گمراہ کرنے والے اور ان کے جذبات واحساسات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ہوتے ہیں۔چنانچہ ان چار محققین نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء کےدرمیان ریلیز ہونے والی چار ہالی وُڈ فلموں کے ۲۸۷ مناظر کا جائزہ لیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’امریکی سنیما نے اسلام کو منفی شکل میں پیش کیا ہے‘‘۔ اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’اس تصویر میں بلاکسی امتیاز کے تمام اسلامی ممالک کو شامل کیا گیا ہے ، اور مغرب نے مسلم ممالک کی اس منفی تصویر کو تہذیبوں کے مابین تصادم کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں ان باتوں کو فروغ دیا گیا ہے جو اہل مغرب کے جذبات کو مشتعل کرنے والی اور انھیں اسلام سے متنفر اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرتی ہیں‘‘۔

اسی طرح ہالی وُڈ نے اسلام کی ایسی تصویرکو دنیا میں عام کرنے کا کام بھی کیا ہے کہ مسلمانوں کو دُنیا کے لیے خطرہ بتا کر ان سے لوگوں کو خوف زدہ کیا جا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ دینِ اسلام کے خلاف دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔مثال کے طور پر امریکا، کینیڈا، یورپ اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں مساجد کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

  • وطن پرستی اور اسلاموفوبیا کے درمیان تعلق:مسلمانوں کی روایتی انداز کی منفی تصویر کا تعلق امریکا اور یورپ میں وطن پرستانہ جذبات کو ابھارنے سے بھی ہے۔ اس سے ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور محقق ابوسادات بھی اس سے پہلے اپنی تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہالی وُڈ اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر بنانے پر کام کررہا ہے۔
  • استعمار ابھی  بھی زندہ ہـے:عبید منشاوی فوال نے کونکورڈیا یونی ورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے مقالہ پیش کیا ہے۔ اس مقالےمیں انھوں نے اپنی تحقیق کا یہی نتیجہ پیش کیا ہے کہ ہالی وُڈ کے فلم ساز استعماری دور کے یورپی مستشرقین کے پیش کردہ افکار پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔  اور مستشرقین کے یہ افکار مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر کے سہارے استعمار کی برتری کے جواز کو  بیان کرتے ہیں۔دوسری طرف یورپی استعمار کی صورت گری سفید فام اہلِ مغرب کے اندر احساس برتری اور تکبّر اور حتمی غلبے کے جذبات کو غذا فراہم کررہی ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد سے امریکی سنیما کا استعمال اسلام کی اقدار، تہذیب اور روایات کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے لیے بھی کیا جانے لگا۔ اس کوشش کے تحت اسلام کو ’دہشت گردی’، ’تشدد‘، ’انتہاپسندی‘، ’بنیاد پرستی‘ اور ’جمہوریت دشمنی‘ سے جوڑا جانے لگا۔

امریکی فلم سازوں نے تہذیبی تصادم کے نظریے، سبز خطرے (Green Danger)، نظریاتی کش مکش، اور قدیم صلیبی جنگوں کے نظریات کو فلموں میں استعمال کیا ہے، اور یہ وہ نظریات ہیں، جو بین الاقوامی کش مکش کے لیے فکری اساس کی حیثیت سے وضع کیے گئے ہیں۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ سنیما، عالمی کش مکش کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے سنیما کا استعمال اس فکر کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا کہ ’’امریکی جمہوریت خطرے میں ہے اور امریکا دہشت گردی کی زد میں ہے‘‘ ، اس لیے ضروری ہے کہ مسلم دُنیا کے خلاف عسکری جنگ کا سلسلہ جاری رکھا جائے‘‘۔

اس حقیقت کی روشنی میں فوال یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ ’’اسلام کی جو روایتی انداز کی تصویر امریکی سنیما نے گھڑی ہے، وہ نہایت تباہ کن اور سخت خطرناک ہے۔ یہ تصویر مستقل طور پر اسلام دشمنی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔یہ تصویری جنگ حقیقی جنگ کے لیے راہ ہموار کرنے والی ہے، جس کا مقصد ملکوں پر قبضہ جمانا اور انسانیت کو برباد کرنا ہے۔ مغربی فوجیوں کو اپنے دشمن پر میزائل چلانے سے پہلے ایک ذہنی تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، جو امریکی فوج کی سرگرمیوں کو احترام دینے والی ہو اور امریکی فوجیوں کو ہیرو کا رُوپ دے سکتی ہو۔ اسی طرح انھیں ایک ایسی روایتی تصویر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے دشمن کی صورت کو بگاڑ کر پیش کرتی ہو اور انھیں بدمعاش، دہشت گرد اور جمہوریت وترقی کے دشمن کے طور پر پیش کرتی ہو‘‘۔

امریکی سنیما اپنے طویل تاریخی تجربات کو بروئے کار لا رہا ہے اور تصویری جنگ میں اپنے کردار کو انجام دینے کے لیے ٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو کام میں لا رہا ہے۔ اس کی نظر میں یہ تصویری جنگ ہی دنیا کے مستقبل کی تشکیل اور استعماری غلبے کے نئے دور کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس تصویری جنگ کا مقابلہ کیسے کریں اور کیسے ایک ایسی میڈیا انڈسٹری کی تشکیل کریں، جو مسلمانوں کو [درست]معلومات فراہم کر سکے، ان کے فہم و شعور کی تشکیل کر سکےاور اکیسویں صدی کے چیلنجوں کے مقابلے کی قوت امت کے اندر پیدا کر سکے؟

مستقبل کی تعمیر وتشکیل ایسے اصحابِ علم اور محققین کی ضرورت مند ہے، جو اپنے ممالک کو ذہنی تصویر سازی کے قابل بنا سکیں اور اس قابل بنا سکیں کہ وہ ان روایتی اورگھسی پٹی، آلودہ اور بیہودہ تصویروں کا مقابلہ کر یں، جو امت کے خلاف دشمنی کی بنیاد بن رہی ہیں اور امریکا جو کہ سنیما کو اسلام کی منفی تصویر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، وہ ان بنی بنائی تصویروں کازیادہ دن تک سہارا نہ لے سکے۔

ذہنی و روایتی تصویر اس بنیاد کی تشکیل کرتی ہے جس پر مغرب کے پالیسی ساز اپنی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں، جب کہ استعماری سوچ آج بھی ہالی وُڈ کے پروڈیوسرز کے لیے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکیوں اور یورپیوں نے ۲۰۲۲ ء میں یوکرائنیوں کے لیے جس ہمدردی اور گرم جوشی کا اظہار کیا، وہ ۲۰۱۰ء کے عشرے میں شامی مہاجرین کے ساتھ روا رکھی جانے والی بے ربط اور اکثرو بیش تر معاندانہ پالیسیوں کے بالکل اُلٹ تھا۔ماہر سیاسیات ڈیوڈ لیٹن نے اس معاملے میں مذہبی شناخت کا کردار واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’دراصل شامی مہاجرین زیادہ تر مسلمان تھے، اس لیے ان کو عیسائی پس منظر رکھنے والے یوکرائنیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔

میڈیا ایسی معلومات فراہم کرتا ہے، جن سے مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کے رویے جنم لیتے ہیں۔ پیو (PEW) ریسرچ سنٹر کے ۲۰۰۷ء میں امریکیوں سے کیے گئے سروے میں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے بالعموم میڈیا میں آنے والے مواد کو پڑھ کر یا سن کر قائم ہوئی۔ ماہرابلاغیات منیبہ سلیم اور ان کے رفقائے کار نے میڈیا کی فراہم کردہ معلومات اور ’’لگے بندھے خیالات، منفی جذبات اور نقصان دہ پالیسوں کی حمایت‘‘ کے مابین براہِ راست تعلق ثابت کیا ہے۔

زیادہ بہتر طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ میڈیا مسلمانوں اور اسلام کو کس طرح پیش کرتا ہے، ۲۰۲۲ء میں مسلمانوں کی نمایندگی کے بارے میں امریکی اخباروں کا تقابلی جائزہ پیش کرنے والی ہماری کتاب American Newspapers in Comparative: Covering Muslims Perspecitve  میں کئی عشروں پر پھیلے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں مضامین کو پرکھا گیا ہے۔ ہم نے امریکا میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی بہت زیادہ منفی انداز دیکھا۔

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منفی نمایندگی میڈیامیں عام ہے۔ ماہرین ابلاغیات سیف الدین احمد اور جورگ ماتھس کی ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۵ء تک کی گئی تحقیق اور جائزوں پر نظر ڈالنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کو میڈیا میں منفی طور پر ظاہر کیا گیا اور اسلام کو بہ کثرت دہشت پھیلانے والے مذہب کے طور پر دکھایا گیا۔مگر جس تحقیق کا انھوں نے جائزہ لیا، اس میں دو اہم سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے، تاہم ہماری تحقیق ان کا احاطہ کرتی ہے:

اول، کیا مسلمانوں اور اسلام پر مضامین اخبارات کے عام اوسط مضامین سے زیادہ منفی ہوتے ہیں ؟

دوم، کیا میڈیا میں مسلمانوں کو دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں دکھایا جاتا ہے ؟

اگر اقلیتی مذہبی گروہوں کے متعلق خبر اس وقت بنتی ہے جب وہ کسی تنازعے میں کسی نہ کسی شکل میں شریک ہوں، تو خبر کا منفی انداز ان کے مسلمان ہونے کی وجہ تک محدود نہیں ہوتا۔

ان سوالات کے جواب کے لیے ہم میڈیا ڈیٹا بیس ،جیسے LexisNexis, NexisUni, ProQuest  اور فیکٹیواسے رجوع کر کے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق ۲لاکھ ۵۶ہزار نوسو ۶۳ مضامین تک پہنچے۔ اس کے لیے ہم نے ’مسلم مضامین‘(Muslim Articles ) کے عنوان سے امریکا کے یکم جنوری ۱۹۹۶ء سے ۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ ء تک کے ۲۱ سال کے عرصے کے دوران شائع ہونے والے ۱۷ قومی ، علاقائی اور چھوٹے مقامی اخبارات کا احاطہ کیا۔

ہم نے مثبت یا منفی رجحان ماپنے کے لیے ایک قابل بھروسا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اس کا مقابلہ مختلف اخبارات میں بغیر ترتیب دیے ہوئے ۴۸ہزار دوسو ۸۳ مضامین کے لب ولہجہ سے کیا۔ یہاں ’منفی‘ ہونے کا مطلب اس مضمون یا خبر کا ایک اوسط درجے کےعام مضمون، یا خبر سے زیادہ منفی ہونا تھا۔

اس طریق کار نے کئی مزید تقابلی جائزوں کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ہم نے امریکی اخباروں سے نہ صرف مسلمانوں سے متعلق مضامین جمع کیے بلکہ امریکا میں موجودمختلف حجم اور حیثیت کے تین اقلیتی مذہبی گروہوں، یعنی: کیتھولک عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے متعلق بھی مضامین اکٹھے کیے۔ پھر ہم نے برطانیہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے مختلف قسم کے اخبارات سے بھی مسلمانوں سے متعلق مضامین حاصل کیے۔

ہماری تحقیق کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’’امریکا میں مسلمانوں اور اسلام پر اوسط مضامین عام اور بے ترتیب دیکھے جانے والے ۸۴ فی صد مضامین سے زیادہ منفی ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک عام مضمون کے مقابلے میں امریکی اخبارات میں اسلام اور مسلمانوں پر ’منفی‘ مضامین زیادہ ہوتے ہیں‘‘۔

واضح طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ مضامین کتنے منفی ہوتے ہیں، ذرا اس جملے پر توجہ کیجیے جس کا لب و لہجہ ایک عام مضمون جیسا ہے:’’روسی شخص کو خفیہ اہلکار نے یہ باور کرایا کہ تابکاری مواد ایک مسلم تنظیم کے حوالے کرنا ہے‘‘۔ اس ایک جملے میں دو انتہائی منفی الفاظ ’خفیہ‘ اور ’تابکاری‘ کے استعمال سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مسلم تنظیم ناپاک مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے۔

جن مضامین میں مسلمانوں کا ذکر تھا وہ زیادہ منفی تھے ، بہ نسبت ان مضامین کے، جن میں دیگر گروہوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ کیتھولک عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے لیے مثبت اور منفی مضامین کا تناسب ۵۰:۵۰ تھا، مگر اس کے برعکس مسلمانوں سے متعلق مضامین ۸۰ فی صد منفی تھے۔ یہ فرق چونکا دینے والا ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میڈیا دیگر مذہبی گروہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے منفی انداز نہیں اپناتا، مگر جب بات مسلمانوں کی ہو تو ایسا کرنے پر خود بخود مائل ہو جاتاہے ۔

مختلف گروہوں کی نمایندگی کے تقابلی مطالعے کے ساتھ ساتھ ہماری دلچسپی مختلف ممالک میں روا رکھے جانےوالے انداز میں بھی تھی۔ یہ جاننے کے لیے کہ شاید مسلمانوں کو منفی انداز میں دکھانے میں امریکا نمایاں طور پر منفرد حیثیت رکھتا ہے، ہم نے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے، اسی دورانیے کے مختلف اخبارات سے۵لاکھ ۲۸ہزار ۴سو ۴۴ مضامین جمع کیے۔ ہم نے دیکھا کہ ان ممالک میں بھی منفی اور مثبت مضامین کا تناسب تقریباً وہی تھا، جو امریکا میں پایا گیا تھا، یعنی تقریباً ۸۰ فی صد۔

مسلمانوں اور اسلام سے متعلق منفی مضامین  بلحاظ ملک

۲۱ سال پر محیط۵لاکھ ۲۸ہزار۴ سو ۴۴  مضامین کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ’منفی‘ مضامین کا تناسب امریکا، برطانیہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں تقریباً یکساں ہے:

امریکا       ۸۰ فی صد برطانیہ      ۷۹ فی صد

کینیڈا ۷۹ فی صد آسٹریلیا      ۷۷ فی صد

(۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۶ء تک مختلف اخبارات میں شائع شدہ مضامین)

متعدد ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’منفی مضامین سے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوا ملتی ہے‘‘۔ منفی معلومات کے اثرات پرکئی مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’اس سے  مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کرنے کی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے ، جیسے مسلمانوں کی مخبری یا مسلم ممالک پر ڈرون حملے وغیرہ‘‘۔

مزید برآں، نوجوان امریکی مسلمانوں کے سروے سے پتہ چلتا  ہے کہ منفی سلوک کی وجہ سے امریکی شناخت ظاہر کرنے اور امریکی حکومت پر اعتماد کرنے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی منافرت کے تدارک کےلیے ضروری ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں اور اسلام کی منفی نمایندگی کی موجودگی کا اقرار کیا جائے اور اس کا حل ڈھونڈا جائے۔ اس طرح بلاتفریق مذہب سب کے لیے قابلِ قبول انسانیت پسند اقدامات کے مواقع کھلیں گے۔

انسانی زندگی میں یہ دو سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں: 

  • میرا ، آج گذشتہ کل سے کیسے بہتر ہو؟ 
  • آج کے دن کرنے کے کاموں کی فہرست کیسے تیار کریں؟

زندگی ___     صرف آج کا دن

زندگی کیا ہے؟___ صر ف اور صرف آج کا دن۔ ہمیں اپنی زندگی کے اگلے لمحے کا کوئی علم نہیں ہے۔ہر زندہ رہنے والے انسان کو آج کے دن چوبیس گھنٹے یا ۱۴۴۰ منٹ ملتے ہیں، مگر ان کے بارے میں بھی یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگلا لمحہ نصیب ہوگا یا نہیں نصیب ہوگا۔جو فرد عطاشدہ ان لمحات کی اس نعمت کو جتنے بہتر انداز سے استعمال کرتا ہے، اتنا ہی وہ کامیا ب ہوتا ہے۔صبح جب ہم اٹھتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے اور ایک معجزہ ہے کہ ہم اُٹھ گئے، حالانکہ نیند میں تو ہمیں کسی چیز کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔

ہر دن ایک نئی زندگی ہے اورآنے والا دن، کل کے لیے آج کا دن ہوگا۔ زندگی جو کچھ بھی ہے وہ آج کا دن ہے۔یہ دن کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئے گا، جیسے آپ دریا کے کنارے کھڑے ہوکر منظر دیکھتے ہیں کہ پانی گزرتا چلا جاتا ہے، اور پھر وہ کبھی واپس نہیں آتا۔کہتے ہیں کہ جس کا آج کا دن گذشتہ کل کی طرح ہے، وہ تباہی کی طرف سفر کررہا ہے۔ زندگی کے اس سفر میں انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ آج کا دن ہے اور اسے اس دن کو بہترسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

٭     آج کے دن کی اہمیت:علامہ سیوطی ؒ نے جمع الجوامع  میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے: ’’جو شخص آج کوئی بھلائی کر سکتا ہے کرلے، آج کے بعد پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔

دن کی بہتر کارکردگی کے لیے اس فرمان کو یاد رکھیے جو کہ حضرت حسن بصریؒ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب میں ہدایت سے معروف ہے: وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو فرماتے: ’’یااللہ! میرے لیے خیر کر اور اسے میرے لیے پسند کر‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ’’ بے شک وہ مسافر جسے کامیابی کی امید اور ناکامی کا خطرہ ہے، اسے چاہیے کہ اپنے سفر کے لیے اچھا سامان تیار کرے‘‘۔ انھی کے چند اقوال یہ ہیں: ’’جوشخص کوئی کام کر نے سے پہلے انجامِ کا ر سوچ لیتاہے ،اس کو اس کام کے تمام پہلو اور نشیب و فراز معلوم ہوجاتےہیں‘‘۔’’جوشخص انجامِ کار کا سوچتاہے وہ آفتوں اورمصائب سے بچارہتاہے اور جو شخص تجربہ کاری میں مضبوط ہوتاہے وہ ہلاکتوں سے نجات پالیتاہے‘‘۔’’عقل مند وہ ہے، جو اپناایک سانس بھی ، غیر مفید کام میں ضائع نہ کرے اور نہ ایسی چیز جمع کرے جو ساتھ نہ دے‘‘۔ ’’صبح سویرے کام کوجاؤ، کیونکہ سویرے جانے میں برکت ہے، اور اپنے کاروبار میں دوستوں سے مشورہ کیاکرو کہ اس طرح مقاصد میں کامیابی حاصل ہوتی ہے‘‘۔ ’’چراغ کو بر وقت جلانا اور بجھانا کامیابی کی علامت ہے‘‘۔ ’’کوچ کرنے کی تیاری کرو کیونکہ تمھارے کوچ کا وقت آپہنچا ۔ اور موت کےلیے تیار ہوجائو کیونکہ وہ تمھارے سر پر آگئی ہے‘‘۔

آج کا دن ___ کرنے کے کاموں کی فہرست

٭     یومیہ پیش نظر کاموں کی فہرست کو ’کرنے کے کام‘ کہتے ہیں۔ اس فہرست کے ذریعے آپ اپنے روزانہ کے کاموں کو ایک جگہ تحریر کرتے ہیں اور پھر ترجیحات متعین کرتے ہوئے  کرنے کی کوشش کرتےہیں۔یہ ایک جگہ: کاغذ، ڈائری، کارڈ، نوٹ بک، سمارٹ فون ، ڈیوائس یا کوئی سافٹ ویئر یا اپلی کیشن ہوسکتی ہے۔

٭     اپنے نصب العین کے تحت مقاصد کو پیش نظر رکھیے،اور اس ہفتے کے کرنے کے کاموں کی فہرست نکال لیں۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے، یومیہ فہرست بنا لی جائے۔

٭     منصوبہ بندی کے لیے ایک ہی طریقۂ کار، کارڈ یا ایپ استعمال کریں۔ ایک ہی فہرست بنائی جائے ، بہت سے فہرستیں نہ بنائی جائیں کہ اس سے آپ الجھ جائیں گے۔فہرست تیار کرنے کا دن اور وقت مقرر ہو اور اس میں باقاعدگی اور پابندی کریں۔کوشش کریں کہ یہ فہرست جمعہ یا اتوار کی شام (یعنی ہفتہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے)تیار ہوجائے ۔ اس انداز سے کہ فہرست کے ساتھ دنوں کے کالم ہوں، جس پر ٹک مارک لگا کر دن مختص کیا جا سکے کہ یہ کام اس دن کرنے کا منصوبہ ہے۔

٭     یومیہ منصوبہ بندی بہتر ہے شام کے وقت کرلی جائے، تاکہ رات کو ذہن اس پر سوچ بچار کا کام کرے۔اس فہرست میں وہی کام ہوں، جو آپ اگلے دن کرنا چاہتے ہیں۔وہ کام جو کہ بہت اہم ہیں انھی پر توجہ مرکوز کریں۔بہتر کارکردگی کے لیے ہمیشہ اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھیے۔ نصب العین کے حصول کے لیےمقاصد کو بھی سامنے رکھیے۔ احساس ذمہ داری، کردار، رویہ، عادات، صلاحیتیں، مہارتیں اور ٹکنالوجی ٹولز کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

٭     آپ کے ہر کام کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ کا م سے پہلے اپنے آپ سے منطق کے یہ چھ کاف والے سوالات پوچھیں: کیا، کیوں، کیسے، کب، کون اور کہاں؟ہر کام کے لیے ڈیڈ لائن متعین ہونی چاہیے، ورنہ آپ کے دن ویسے ہی گزرتے جائیں گے۔

٭     باقاعدگی سے جائزہ کی عادت ڈالیں۔ روزانہ رات سونے سے پہلے احتساب کی عادت ڈالیے۔ ہرکام کی ابتد ا اچھی کیجیے اور انجام پیش نظر رکھیے۔اپنے بہتر انجام کے لیے دعا کیجیے۔اللہ کے نام سے کام شروع کیا جائے کیونکہ ہر وہ کام جو اللہ کے نام سے شروع نہیں کیا جاتا ناقص رہتا ہے۔ ہمیشہ اپنے اعلیٰ مقصد کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ضائع  نہ کرے۔اپنے دن کی ابتدا میں یہ دعا پڑھا کریں: اے اللہ ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔

آج کے دن کی فہرست کیسے بنائیں؟

٭     کرنے کے کاموں اور اپائنٹمنٹس کے لیے ایک ہی ڈائری یا نوٹ بک یا سافٹ وئر استعمال کیجیے اور اس کا ریکارڈ اپنے پاس ہمیشہ رکھیے۔

٭     اس بات پر بھی غور کیجیے کہ میرے وہ کو ن سے کام ہیں، جو اگر آج کرلیےجائیں تو بقیہ زندگی میں آسانی ہوگی۔جو بھی کام کرنے ہوں ان کےاہم نکات لکھیے کہ کیا کام کرنا ہے؟ زندگی کے مقاصد پورا کرنے والے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دی جائے۔اہم کاموں کے لیے دن کا بہترین حصہ استعمال کیجیے۔فہرست کی تیاری کے دوران آپ کے ذہن میں مختلف خیالات بھی آتے رہیں گے، جن کو نوٹ کرنے کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔اسے’پارکنگ پلیس‘ کہتے ہیں۔

٭     اہم ترین کاموں کو سر فہرست رکھیں، یعنی ترجیحات مقرر کرنے کی عادت ڈالیں:’’میرے پانچ اہم ترین کام جو کہ آج ہی کرنے ہیں‘‘۔ روزانہ اس قسم کا ٹارگٹ ضرور بنائیں۔ تمام کاموں کے لیے ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کام کرنے والے کو معلوم ہو جائے گا کہ کس کام کے لیے کتنی محنت کرنی ہے اور کتنا وقت دینا ہے؟کاموں کے درجات یوں متعین کیجیے: الف، ب، ج ___   l الف :وہ کام جو آپ کی کامیابی کے لیے لازم ہیں اور انھیں آپ کو ہر صورت میں کرنا ہے۔lب: وہ کام جو فوری نوعیت کے ہیں اور کوشش کرکےکرلینےچاہییں۔lج: وہ کام ہیں جو اگر ہوجائیں تو بہتر ہے۔

٭     ترتیب میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ غیر ضروری کاموں کو فہرست سے نکال دیں۔ملتی جلتی سرگرمیوں کو ایک ساتھ جمع کیا جائے۔ جو کام دوسروں کے حوالے کیے جا سکتے ہوں ان کو دوسروں کے حوالے کردیں۔ اس طرح آپ کو زیادہ اہم کاموں کی انجام دہی میں مدد ملے گی، سوچنے کے لیے وقت زیادہ ملے گا،عمومی نوعیت کے کاموں سے چھٹکارا ملے گا اور دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ’’اپنے ملازموں کو کام بانٹ کربتلادیاکرو۔اس طرح اپنے مفوضہ کام میں کوئی شخص سستی نہ کرےگا‘‘۔

٭     اپنے ممنوعات کی بھی فہرست بنالیں، یعنی وہ کام جو آپ دن میں نہیں کریں گے، جیسے سوشل میڈیا کے کام اور رابطے۔ یہ کام آپ دفتری اوقات میں نہیں کریں گے بلکہ ان کا بھی ایک وقت معین ہوگا، جس میں آپ یہ کام کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ نقصان دہ چیزیں ہیں، جن  میں آپ ڈوب جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ نکل نہیں سکتے۔کاموں کی انجام دہی کے لیے بہترین طریقہ اپنا نے کی کوشش کریں۔ہر کام کے لیے صحیح اورمناسب طریقۂ کار اختیار کرکے وقت بچایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ہر کام کے لیے وقت متعین کیا جائے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وقت کے ساتھ غیر مربوط کام کبھی پورے نہیں ہوتے۔ جب اس فہرست کو استعمال کریں تو یہ فہرست سارا دن آپ کی نظروں کے سامنے رہنی چاہیے۔ جو کام ہوجائیں وہ چیک کرتے رہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک کام ختم ہونے کے بعدوقفہ لیںتاکہ میدان کی گرد صاف ہو۔ لیکن اگر جاری کام ہی کے دوران وقفے لینے شروع کردیے تو آپ کے کام ادھورے رہ جائیں گے۔جو کام ادھورا رہ جائے، اسے اگلے دن پر ڈال دیں۔

چند مزید اہم باتیں

٭     کام کا آغاز صبح سویرے کیا جائے۔ہمیشہ دفتر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔مؤثر اور مستعد ہوکر کام کیجیے۔کام کو اسمارٹ طریقے سے کرنے کی کوشش کریں، آپ مناسب اور مطلوبہ محنت کریں۔باتوں اور چیزوں کو نوٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیے۔اپنی صحت ، توانائی اور قوت کار کا خاص خیال رکھیں۔اپنے معاونین کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں۔وہ کام جنھیں کرنا اور نہ کرنا ایک جیسا ہو، ان کاموں کو نہ کریں۔وہ تمام کام جو کہ تقاضے کے زمرے میں نہیں آتے ان کاموں کو چھوڑ دیں۔ چند ہفتے اپنے اوقات کا استعمال ضرور تحریر کریں اورپھر جائزہ لیں کہ کتنا وقت ضائع ہوتا ہے۔

٭     ہر کام اس کے کاریگروں سے لیا کریں۔وہ آپ سے کچھ رقم لے کر آپ کے کام کو احسن طریقے سے کردیں گے، اور دنیا میں آپ ان کے رزق کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

٭     انجام کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام بغیر معاوضہ طے کیے دوسرے سے نہیں کرواتے تھے۔اگر ہم بھی ایسا کریں تو بہت سارے اختلافات اور رنجشوں سے بچ جائیں گے۔ ایسے کام سے بچیں، جس سے عذر پیش کرنا پڑے ، یا شرمندگی ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس زندہ رکھیں۔اپنے غصے اور رد عمل کو کنٹرو ل میں رکھیں۔ آپ اختلاف کرسکتے ہیں مگرجھگڑنے سے بچیں۔

٭     اپنی ٹیم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اوران کے کام کی حوصلہ افزائی کریں۔ای میل، سوشل میڈیا، واٹس ایپ اور اس قسم کی دیگر چیزوں پر کسی حد تک پابندی لگائیں۔ان کے قیدی مت بنیں۔ غیر ضروری پروگراموں میں شرکت سے گریز کریں۔اپنے آپ سے سوال کریں کہ ’’کیا میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کررہا ہوں اور زندگی کے نصب العین، مقاصد اور اقدارسے وابستہ اور قریب ہورہا ہوں؟‘‘

٭     سُستی ، کاہلی اور اکملیت پسندی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ٹیلی ویژن اور وڈیوز سے دوستی  کم کرلیں۔جو کام دوسروں کے ذریعے ہوسکتے ہیں، انھیں معاملات طے کرکےکردیں۔ اپنی توجہ ہٹانے والے معاملات کا پیشگی اندازہ کرکے ان کا بندوبست کرلیں۔

با قاعدگی سے تجدید عہد کا طریقہ

ہمیں اس بات کا موقع ملتا ہے کہ ہم روزانہ، ورنہ ہفتے میں ایک بار یہ جائزہ لیں کہ:

٭     کیا ہم زندگی کے طے شدہ نصب العین کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا فرار کی راہ اختیا ر کیے ہوئے ہیں؟

٭     جو مقاصد مقر ر کیے ہیں، کیا ہم ان مقاصد کے لیے آگے بڑ ھ رہے ہیں یا ہم محض انھیں ڈائری میں نوٹ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں؟

٭     میر ی ذمہ داریاں کیا ہیں؟میرے لیے کون سے کام بہت اہم ہیں؟میرے فوری کرنے کے کام کون سے ہیں؟کیا میں جو کچھ کررہا ہوں ،وہ صحیح کررہا ہوں؟

٭     کیا میری زندگی میں اعتدال اور توازن ہے؟کیا میرے کام اور گھر کے معاملات میں توازن ہے؟ کیا میں اپنے گھر والوں کے حقوق ادا کررہا ہوں ؟ میرے نزدیک کامیابی کا کیا تصور ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں دنیا کے حصول کے لیے آخرت کو تباہ کررہا ہوں؟

٭     یہ جائزہ ہمیشہ لیتے رہیں کہ ہم نے جو عہد اپنی ذات سے، اپنے گھر والوں سے، اپنے ادارے سے، اپنی قوم سے اور اپنے رب سے کیا ہے اس عہد کو پور ا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی زندگی کے عہد کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہیں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہم میں ہمیشہ توانائی برقرار رہے اور ہم اپنے نصب العین کے حصول کے لیے کوشش کرتے رہیں اور اسی نصب العین سے وابستہ مقاصد کے حصول کی بھی کوشش کرتے رہیں۔

٭     کیا ہم اس دنیا میں رہتے ہوے اصل منزل، یعنی آخرت کی تیاری کررہے ہیں؟ کیا اولاد کی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ آیندہ اس کارخیر کو سنبھال سکیں؟ اپنی علمی، سماجی اور مالی دولت اگلی نسل تک منتقل کرنے کی تیاری کرلی ہے؟ کیا ہم نے اس سلسلے میں تربیت کی ہوئی ہے،کیونکہ ہمیں اپنی کمائی اور ترکہ کا حساب دینا ہے؟ معاشرے میں صدقۂ جاریہ کے کام کی تیاری کی ہے؟

٭     کیا اپنے اثاثہ جات اور واجبات کا اصل ریکاردڈ موجود ہے؟تاکہ بصورت موت خاندان اور وابستہ افراد کی رہنمائی ہو؟ کیا کاروبار کی ملکیت تحریری صورت میں ہے تاکہ بھائیوں ، شرکا اور اولاد کے درمیان جھگڑے نہ ہوں۔

دعائیں

٭    اے اللہ ! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں آج کے دن کی خیر (و خوبی)، اور جو آج کے دن میں (پیش آنے والا) ہے اس کی خیر (وخوبی)، اور جو آج کے بعد (پیش آنے والا) ہے اس کی خیر (وخوبی)۔ اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں آج کے دن کے شر سے اور جو آج کے دن میں (پیش آنے والا) ہے، اس کے شر سے اور جو آج کے بعد (پیش آنے والا) ہے اس کے شر سے۔

٭     اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ مجھ سے سرزد ہونے والی میری تمام حرکات و سکنات (چلنا پھرنا، اُٹھنا بیٹھنا، آنا جانا) آج کے دن میں میرے حق میں بہتر ہیں، تو ان کو میرے لیے مقدر کردے اور ان کو میرے لیے آسان کردے، اور تو جانتا ہے کہ اگر وہ میرے حق میں شر اور ضرر رساں ہیں تو ان کو مجھ سے دُور رکھ اور مجھے ان سے دُور رکھ۔

٭     اے اللہ! جو کچھ ہم نے مانگا ہے تو اسے قبول فرما، جو کچھ مانگنا چاہتے ہیں اور زبان پر نہیں آرہا تو وہ بھی عطا فرما۔ اے اللہ ہماری وہ حاجتیں پوری فرما جن کو ہم دعاؤں میں بیان نہیں کرسکتے۔جو مانگنا چاہیے اور نہیں مانگ رہے تو وہ بھی عطا فرما، اور جو تو عطا کرنا چاہتا ہے اور ہم نہیں مانگ رہے تو ہمیں وہ بھی عطا فرما۔

٭     اے اللہ تو ہمیں جو کچھ عطا کر وہ اپنی شان کے مطابق عطا کر۔اے اللہ تجھ سے ہر اس خیر کے طلب گار ہیں جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے طلب فرمایا اور تیری پناہ میں آتے ہیں ہر اس شر سے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری پناہ چاہی۔

٭     اے اللہ! تو جو بھی خیر ہمیں عطا کرے ہم اس کے محتاج اور فقیر ہیں، آمین!

غیرمسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے

سوال : کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں، جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق اقتصادی، فوجی،فنی امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قراردے گی؟ پھر مادّی، صنعتی، زرعی اور سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص مسلم ممالک یا اس ایٹمی دور میں Have اور Have Not کے درمیان حائل ہے، کس طرح پُر ہوسکے گی؟ نیز کیا اندرونِ ملک تمام بنکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع اور گڈوِل (Good Will) اور خریدوفروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟

جواب : اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیرمسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔ لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی اُن کی شرائط پر۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یہ تعلق، اِس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادّی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سُدھارنے کی کوشش کرے گی۔

اخلاقی حالت سُدھرنے کےمعنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کارپرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں۔اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں۔ اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو، جس کے لیے جان و مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو، اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔

یہ صورتِ حال اگر پیدا ہوجائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے، وہ سو فی صدی وصول ہوں گے اور سو فی صدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے۔ نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہوگی اور نہ ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہوگی۔ اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایے کا ایک بڑا حصہ رضاکارانہ چندے کی صورت میں، اور ایک اچھا خاصا حصہ غیرسودی قرض کی صورت میں، اور ایک حصہ منافعے میں شرکت کے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہوجائے گی۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے، تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہوجائے گا۔

بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر صورت پیش آہی جائے، یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہو اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے، تو مجبوراً دوسروں سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بند کیاجاسکتا ہے اور پورا مالی نظام (Financial System) سود کے بغیر چلایا جاسکتا ہے۔ میں اپنی کتاب سود میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ بنکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (Profit Sharing) کے اصول پر چلایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح انشورنس کے نظام میں ایسی ترمیمات کی جاسکتی ہیں، جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقے اختیار کیے بغیر حاصل ہوسکیں۔ دلالی، منافع، پگڑی، کمیشن یا گڈوِل (Good Will) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا تو اس کا جائزہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔ یہ کام لامحالہ ماہرینِ شریعت اور ماہرینِ  مالیات کو مل جل کر کرنا ہوگا۔(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۶۱ء)

جو دولت جائز حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی ہو، اس کے بارے میں یہ سوال اُٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ مِن این لک ھٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا؟)۔ اس دولت کے بارے میں قانونی تحقیق ہونی چاہیے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے، تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔

جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے، بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، تاکہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کرسکے، جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، یا جس میں خود اُس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔

اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صرف نہیں کرسکتا۔ شراب نوشی اور قماربازی اور زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ اِسراف اور حد سے زیادہ ترفّہ اور تنعُّم پر بھی وہ حدود عائد کرتا ہے۔ اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اور تمھارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہونے کا آدمی کو حق دیتا ہے۔ اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسب ِ مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کرسکتا ہے۔

پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر، جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز وہ اموالِ تجارت پر، زمین کی پیداوار پر، مواشی پر، اور بعض دوسرے اموال پر بھی، ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔

اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہوگئی ہو، اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کردیتا ہے، تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔ (’اسلام اور عدل اجتماعی‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۴، جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۴۵-۴۶)