اپریل ۲۰۱۵

فہرست مضامین

اسلامی قانونِ جنگ اور عصرِحاضر

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی | اپریل ۲۰۱۵ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس کرۂ ارضی پر لڑی جانے والی اکثر وبیش تر جنگوں میں نہ کسی ضابطے کا خیال رکھا جاتا ہے اورنہ کسی قانون واصول کی پاسداری کا خیال ذہن انسانی میں آتا ہے، بلکہ ان جنگوں کے ذریعے کائنات انسانی کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنادیاجاتا ہے اور مدمقابل اقوام اور ملکوں کے انسانوں کو بے دریغ تہہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں مخصوص رنگ و نسل اور جنس وعلاقہ کے رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں جنگ کے اغراض ومقاصد کی وجہ جواز کیاہے؟ اس کا مقصد کیاہے؟ کن حالات میں جنگ کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کن مواقع پر جنگ کی اجازت نہیں ہے؟ کیا کمزور انسانوں پر اپناتسلط قائم کرنے کے لیے جنگ کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ جب جی چاہا اپنے جابرانہ نظام کے تسلط کے لیے کسی بھی ملک کی سرحد میں جنگی جہاز اتاردیے؟ ان تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب انسانی قوانینِ جنگ میں نہیں مل سکتا۔ اس لیے انسانوں کا خود ساختہ قانون امن و آشتی کا ضامن نہیں بن سکتا ۔

اس کے بالمقابل دین اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔اسلام نے جنگ کے اصول وضابطے مقررکیے ہیں۔ ان کا پاس ولحاظ رکھنا ہراہل ایمان پر فرض ہے۔ ان کے اصول وقواعد کی پاس داری سے کسی کو مفرنہیں ہے، کیونکہ اعلیٰ وارفع مقصد کے حصول کے لیے جب جنگ ناگزیر ضرورت بن جائے تو تلوار اٹھانے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں مل جاتی ہے، بلکہ حدودوقیود میں رہ کر فتنہ وفساد، سفاکیت ودرندگی اور ظلم وجور کے سدباب کے لیے اپنی طاقت وقوت کا استعمال بجا قرار دیا جاتا ہے ۔

یہ اعزازتو صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے جنگ وجہاد کے واضح مقاصد متعین کیے اور اس کے آداب واصول مرتب کیے اور بلاجواز قتل وخون ریزی کو سنگین جرم قراردیا۔ کسی مسلمان فرد یااسلامی حکومت کو ان بنیادی اصول وضوابط میں ترمیم کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسلامی قوانین ہمہ گیر اور دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔نام ورمصری عالم پروفیسر محمد قطب رقم طراز ہیں :’’اسلام کی یہ جنگیںکسی فوجی قائد کی خود غرضی اور ہوسِ ملک گیری کی پیداوار نہیں تھیں، اور نہ ان کے پیچھے دوسروں کو غلام بنانے کا جذبہ کارفرماتھا، بلکہ یہ جنگیں محض خدا کے لیے لڑی گئیں اور ان کا اصل مقصد رضاے الٰہی کے حصول کا جذبہ تھا، مگر بات صرف جذبے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس نے ان جنگوں کے لیے باقاعدہ اصول وقوانین بھی مقررکیے‘‘۔(اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ، ص۹۰)

اسلامی قوانین جنگ

 اسلامی قوانین جنگ سے متعلق ذیل میں وہی امور بیان کیے جارہے ہیں جن پر قوانین جنگ کی بنیاد قائم ہے۔ اختصار کے ساتھ ان امور کو زیر بحث لایا جاتا ہے:

اطاعت امیر

اسلامی قانون میں جنگ کے تمام اعمال کی ذمہ داری اور امرونہی کے تمام اختیارات کا حامل امیرکو بنایا گیاہے۔ جنگ کی معمولی کارروائی بھی امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اسلام نے اطاعتِ امیر کو خود خدااور رسولؐ کی اطاعت کے برابر قراردیا ہے اور اس کی نافرمانی کووہی درجہ دیا جو رسولِؐ خدا کی نافرمانی کا ہے۔ اطاعت امیر کو خیر و فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔(النسائ۴:۵۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لڑائی دوقسم کی ہے: جس شخص نے خالص اللہ کی رضاکے لیے لڑائی کی اور اس میںامام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اورفساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا ذریعہ ہے۔ اور جس نے دنیا کے دکھاوے اور شہرت وناموری کے لیے جنگ کی اور اس میں امام کی نافرمانی کی اورزمین میں فساد پھیلایا تووہ برابر بھی چھوٹے گا (یعنی الٹاعذاب میں مبتلا ہوگا)۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۲۵۱۵)

ایک دوسرے مقام پر حدیث میں آتا ہے: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خداکی نافرمانی کی، اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۲۸۵۹)

قرآن وسنت کی درخشاں تعلیمات کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اطاعت امیر ایک اہم حکم ہے جو ہرفرد مجاہد پر لازم ہے ،ورنہ اس کے دور رس منفی اثرات ونتائج مترتب ہوںگے۔

معاھدات کی پاس داری

ایفاے عہدکے حوالے سے کتاب اللہ میں متعد د فرامین اورہدایات موجود ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم اللہ کا عہد پوراکردیا کرو، جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کرلینے کے بعد انھیں مت توڑا کرو، جب تم   اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بناچکے ہو۔ بے شک اللہ خوب جانتاہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ (النحل ۱۶:۹۱)

 وفاشعاری اور تقویٰ کی سند وہ حضرات حاصل کرتے ہیں جولوگوں سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو نہیں توڑتے، بلکہ پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ایفاے عہد کرتے ہیں اور جس قول وقرار کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، خشیت الٰہی کے ساتھ اس کی پاس داری ولحاظ بھی کرتے ہیں۔

عہدوپیمان اگر کرلیاہے تو اس کو نبھاناضروری ہے ورنہ نقض عہد کی بناپر مؤاخذہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور وعدہ پورا کیاکرو، یقینا وعدہ کے لیے ضروربازپرس ہوگی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)

مشرکین مکہ نے ابورافع کو اپنا قاصد بناکر بارگاہ رسالت میں بھیجا۔ بارگاہِ نبوی کا اثرابورافع کی ذات پر اتنا ہوا کہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ میں کافروں کے پاس واپس نہیں جائوںگا۔ آپؐ نے فرمایا تم قاصد ہواور قاصد کو روک لینا عہد وپیمان کی خلاف ورزی ہے۔ تم ابھی جائو ، پھر واپس آجانا۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۵۸)

اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندلؓ پائوں میں زنجیریں پہنے ہوئے آئے اور زخموں سے چور بدن کو حضوؐر کے سامنے پیش کیااورعرض کیا کہ مشرکین مکہ مجھ پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑرہے ہیں۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا کہ ہاں، لیکن مشرکین مکہ سے معاہدہ ہوچکاہے کہ کوئی مسلمان اگرمکے سے بھاگ کرآئے گا تو ہم اس کو قریش کے پاس بھیج دیںگے۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت حضوؐر سے سفارش کررہی تھی کہ ان کو واپس نہ بھیجا جائے تاکہ ابو جندل ؓ مزیدجورو ستم کا نشانہ نہ بنیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ معاہدہ لکھا جاچکاہے۔ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا ابوجندلؓ کو آپؐ نے پناہ دینے سے انکار کردیا اور حسب معاہدہ وہ قریش مکہ کے حوالے کردیے گئے۔

ان آیات ،احادیث اور واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے جومعاہدہ کیا اس کو ہر حال میں پوراکیا ۔ حالانکہ آپؐ کویہ خوب معلوم تھا کہ مکہ کے مسلمان ناگفتہ بہ مصائب ومشکلات سے دوچار ہیں لیکن آپؐنے ایفاے عہد کاعظیم الشان نمونہ پیش کیا، بلکہ آپؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ کسی معاہدسے عہد وپیمان توڑنے والا جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا۔ حدیث میں آتاہے: حضوؐر نے فرمایا کہ ’’جوشخص کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ سے قتل کردے تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتاہے‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۶۰)

ایک اور حدیث میں حضوؐر کا ارشاد ہے : جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو اس گرہ کو   مضبوط کرے اوراُسے نہ کھولے یہاں تک کہ جب مدت گذرجائے تو وہ برابری پر عہد کو توڑے۔(سنن ابی داؤد،حدیث:۲۷۵۹)

اسلام نے ہر سطح پر بدعہدی اوروعدہ شکنی کو منع کیا ہے اور اسے اہل ایمان کے لیے قابلِ مذمت فعل قراردیاہے۔ اسلام میں میعاد معاہدہ ختم ہونے تک جنگ کرنے کی ممانعت ہے۔    جن لوگوں کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ہوگیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا ، الا یہ کہ فریق مخالف کی طرف سے نقض عہد کے تلخ تجربات سامنے آئیں یا ان کی طرف سے دشمنوں کی مدد کی گئی ہو۔ معاہدہ   پورا نہ ہونے کی صورت میں فریق مخالف کے خلاف کسی طرح کی جنگی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر معاہدکے خلاف مسلمان مددطلب کرے تب بھی معاہدے کا لحاظ رکھا جائے گااور اس کو توڑا نہیں جائے گا۔عام احوال وکوائف میں معاہدے کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’اگروہ (اہلِ ایمان) دین کے معاملات میں تم سے مدد چاہیں تو ان کی مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلے میں مدد نہ کرنا کہ تمھارے اور ان کے درمیان صلح وامن کا معاہدہ ہوا ہو‘‘۔(انفال ۸:۷۲)

عام حالات میں معاہدے کا احترام وتقدس ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک اور ربانی ارشاد ملاحظہ ہو:’’ سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیاتھا پھر انھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے مقابلے پر کسی کی مدد کی، سوتم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پوراکرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے ‘‘۔(التوبہ ۹:۴)

اسیرانِ جنگ کے قتل کی ممانعت

اہل عرب اسیران جنگ سے نہایت برا سلوک کیاکرتے تھے جیساکہ موجودہ دور میں گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والے والا امریکی برتاؤ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس کے بالمقابل اسلام نے جنگی قیدیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کی تاکید فرمائی اور یہ قانون وضع کردیا کہ نہ ان کو ایذاپہنچائی جائے گی اور نہ ان کو قتل کیاجائے گا۔ آپؐ کا ارشادہے: زخمی پر حملہ   نہ کرو، بھاگنے والے کا پیچھانہ کرو، قیدیوں کو قتل نہ کرو، اور جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امان دے دو۔(الامام ابوالحسن البلاذری: فتوح البلدان، ص۵۳)

اسیرانِ جنگ سے متعلق اسلام کا قانون یہ ہے کہ جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچ جائے توانھیں بغیر فدیے کے آزاد کردیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ اگر انھیں قیدی بناکر رکھاجائے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک وبرتائو کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس (اے ایمان والو) جب تمھارا معاملہ کافروں سے ہوتو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب خوب قتل کر چکو    تو ان کو رسی سے باندھ لو۔ اس کے بعد (تم کو اختیار ہے کہ) یا تو احسان رکھ کر (رہا کردو) یامعاوضہ لے کر چھوڑدو۔(محمد ۴۷:۴)

اسیرانِ جنگ کو صرف قیدی بناکر رکھنے کے لیے ہی نہیں کہاگیا بلکہ ان کے ساتھ نرمی اور حُسنِ سلوک کی بھی تعلیم دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اسیر اور مسکین ویتیم کو کھانا کھلانے کے عمل کے لیے تحریص وترغیب دی گئی ہے او ر اسے نیکو کاروں کا فعل قراردیا گیاہے: ’’وہ خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو محض اللہ کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں ۔کسی جزایا شکر یے کے خواستگار نہیں ہیں۔ ہم تو صرف اس تنگی کے دن سے ڈرتے ہیں    جس میں شدتِ تکلیف سے چہرے بگڑ جائیںگے‘‘۔(الدھر۷۶: ۸-۱۰)

آپؐ نے جنگی قیدیوں کو اہل ایمان کا بھائی قراردیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم ان کے ساتھ بھی اپنے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تمھارے بھائی تمھارے خادم ہیں جن کو    اللہ نے تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ لہٰذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کسی بھاری خدمت کو ان کے ذمے کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹائو۔(بخاری ،حدیث :۲۵۴۵ )

جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ۷۰ سے زیادہ آدمی مارے گئے اور کم وبیش اتنے ہی قیدی بناکر لائے گئے۔ آپؐ نے قیدیوں کو صحابہ کے درمیان تقسیم کردیا اور نصیحت کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔حضرت حسن بصری اس سلسلے میں فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لایا جاتا توآپ اسے کسی مسلمان کے حوالے کردیتے اور فرماتے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ قیدی ان کے پاس دوتین دن رہتا اوروہ مسلمان اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتا تھا۔(الکشاف، زمخشری ، ج۴، ص۱۹۶)

لاشوں کی بے حُرمتی کی ممانعت

 دشمن کی لاشوں اور ان کے اعضا کی بے حرمتی کرنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے کہ انسانی لاشوں کے ساتھ درندگی کا سلوک کیا جائے۔ آپؐ نے بہت ہی سختی سے منع کیا ہے۔عبداللہ بن یزید انصاریؓ روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال لوٹنے اور جسم کو مُثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابی داؤد ، حدیث۲۶۶۶)

غیرمحارب سے عدم تعارض

اسلام نے جو قوانینِ جنگ وضع کیے ہیں ان میں اتنی جامعیت ہے کہ دورِ جدید کا مہذب انسان بھی ان کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق دشمن ہوں یا دوست،  عقائد ونظریات کے اعتبار سے خواہ وہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ظالموں میں سے نہ ہوں اور نہ دین حق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہوں۔ قرآن مجید کی یہ بیّن تعلیم ہے : ’’اللہ تم لوگوں کو ان کے ساتھ نیکی کا برتائو اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ ہی تم کو انھوں نے تمھارے گھروں سے نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)

سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں : ’’اس باب میں اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہل قتال میں سے ہے اس کا قتل جائزہے خواہ وہ بالفعل لڑے یانہ لڑے، اور ہر وہ شخص جو     اہلِ قتال میں سے نہیں ہے اس کا قتل ناجائز ہے سواے اس صورت کے کہ وہ حقیقتاً لڑائی میں شامل ہو یا مقاتلین کے سے کام کرنے لگے‘‘۔(الجہاد فی الاسلام ، ص۲۲۴)

لوٹ کہسوٹ کی ممانعت

اسلام سے قبل محض مالِ غنیمت کے حصول کے لیے بھی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تجارتی قافلوں اور راہگیروں کو لوٹنا پیشہ بن چکا تھا۔ لیکن اسلام نے اس شنیع عمل کی پُر زور مذمت کی اور اس طرز عمل پر قدغن لگادی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹے ہوئے مال کو حرام قراردے دیا۔ مندرجہ ذیل ہدایت کا انتساب آپؐ کی طرف واضح ہے :

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار اور مُثلہ کرنے سے منع فرمایاہے(بخاری، حدیث ۵۵۱۶)۔ ایک دوسری جگہ آپؐ کا ارشاد ہے :’’ جوشخص لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ ،  حدیث ۳۹۳۷ ا)

گویا کہ اللہ کی راہ میںجہاد کرنے والے اگر لوٹ مار اور فتنہ وفساد میں مشغول ہوجائیں اور غیر اخلاقی حرکتوں کے مرتکب ہوںجن کی بنا پر عوام و خواص میں اضطراب وبے قراری عام ہوجائے، تو راہ حق میں اُٹھنے والے یہ قدم ’خیر‘ کا باعث نہ بن کر ’شر‘ کا موجب قرار پاتے ہیں ۔ چنانچہ ان کا جذبۂ عمل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے محروم رہتا ہے ۔

تباھی وبربادی کی ممانعت

اسلام نہ تو ناحق خون بہانے کی اجازت دیتاہے اور نہ دشمنوں کی اَملاک وجایداد کو تباہ وبرباد کرنے کو جائز ٹھیراتا ہے، اور نہ یہ اعمال اسلام کے مقاصد جلیلہ کے شایان شان ہی ہیں۔ اسلام  فتنہ وفساد کو ناپسندکرتا ہے، اس لیے کہ حقیقی معنوں میں یہ امن وآشتی کا علَم بردار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھیتیاں تباہ وبرباد کی جائیں ،نہ    پھل دار درختوں کو کاٹا جائے اور نہ املاک کو نذرآتش کیا جائے ۔یہاں تک کہ کفروشرک کا علَم بردار محارب فریق میدان جنگ میں بھی، اہل ایمان محارب فریق سے امن وعافیت کا خواہاں ہو تو ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔ اسلام کو اگر وہ سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو موقع دیا جائے گا اور پھر بھی اگر وہ اسلام سے بے زاری کا اظہار کرے تو حکم یہ ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچا دیا جائے۔

اس کے علی الرغم عصر حاضر کے خود ساختہ قانون امن وجنگ میں سب کچھ جائز ہے۔  اپنے حریف کو مغلوب کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے، چاہے املاک کی تباہی کی شکل میں ہو یا جانوں کے تلف کی صورت میں ہو ۔ماضی قریب میں بھارت میں گجرات اور آسام کے فسادات اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان ، عراق اور میانمارکے دل دوز واقعات انسانوں کے خودساختہ قوانین جنگ وامن اوران کے بھیانک اور انسانیت کش نتائج کی زندہ مثالیں ہیں۔ ایسے ہی شر انگیزوں اور فساد کاروں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے : ’’اور جب وہ حاکم بنتاہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میںفساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کردے۔ مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۵)

دوسری طرف مذہب اسلام کی بیّن اور درخشاں تعلیمات ہیں جو میدان جنگ میں بھی اخلاق، رواداری اور عظمت انسان کی پاسداری کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتیں، بلکہ وہ فتنہ وفساد کاقلع قمع کرنے کے لیے مؤثر اقدام کی ترغیب و تحریص کرتی ہیں ۔اس سلسلے کی آخری کوشش کے مظہر قتال فی سبیل اللہ کے دوران بھی اخلاق وکردار کو بالاے طاق نہیں رکھا جاتا بلکہ شایانِ انسانیت اخلاق برتنے کی تعلیم و تلقین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کھیتوں اور فصلوں کی بربادی اور درختوں کے اُکھاڑنے اور جلانے تک سے روکاگیاہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ جب کسی لشکر کو روانہ کرتے تو امیرلشکر کو چند ہدایات ضروردیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت اسامہؓ کے لشکر کو آپ نے روانہ کیا تو ان کو ۱۰ ہدایات دیں، ارشاد فرمایا:’’لوگو! ٹھیرو، میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتاہوں۔ تم ان کو یاد رکھنا ۔ دیکھو ! خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا، سرکشی نہ کرنا، دشمن کے ہاتھ پائوں نہ کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجور کے درخت کو نہ اکھاڑنا اور نہ اس کو جلانا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ بکری ، گائے اونٹ کھانے کے سواذبح نہ کرنا۔(تفسیر الطبری، ج۲،ص۴۶۔ بحوالہ صدیق اکبر،ص۳۲۹)

عصمت دری کی ممانعت

اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق نہ تو بلاوجہ کسی عورت کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس کی عفت وعصمت کو مخدوش وداغ دار کیاجائے گا ۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی ذہنی پاکیزگی کا پورا اہتمام اور انھیں ہر طرح کی جنسی آلودگی سے پاک رکھتاہے۔اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا اور معاشرے میں عزت واحترام کا مقام دیا۔جنگ میں دشمن کی بیٹی پر ہاتھ اٹھانے اور اس کی عصمت دری کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی۔یہ امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت کی پاسبانی کا حکم دیا۔

انتقامی کارروائی کی ممانعت

اسلام عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اسلامی ریاست ومملکت میںا نتقامی سیاست کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگوں میں بھی انتقامی کارروائی کی ممانعت کردی گئی ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ فاتح اقوام جوش انتقام میں فتح وکامرانی کے بعد قتل وغارت گری کا ایسا بازار گرم کردیتی ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ نت نئے اسلحہ جات کے ذریعے انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑادیے جاتے ہیں۔گویا کہ مفتوح قوموں کی تباہی وبربادی مقدر بن جاتی ہے ۔قرآن مجید میں اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے : ’’اس نے کہا  (کہ لڑائی بذات خود کوئی اچھی چیز نہیں ہے) جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور اس کے معززلوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریںگے‘‘۔(النمل ۲۷:۳۴)

اذیتیں دے کر ھلاک کرنے کی ممانعت

دیگر اقوام و ملل میں دشمن کے ساتھ نارواسے ناروااور غیر انسانی سلوک کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اسلام نے اس کو انتہائی معیوب و مذموم قرار دیا ہے ۔ اپنے جنگی قوانین میں انسانی ہمدردی اور نیک برتائو کو بنیادی حیثیت دی ہے۔آج کی مہذب دنیا میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی معاملات کرنا باعث شرم وعار نہیں سمجھا جاتا بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیے جانے کو فتح وکامرانی کے نشے میں روا سمجھا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں عالم انسانیت نے یہ دل دوز مناظردیکھے ہیں کہ افغانستان وعراق سے جو لوگ پکڑکرامریکا کی جیلوں میں بندکیے گئے، ان کے ساتھ کتنا اذیت ناک سلوک کیا گیا۔ ان اذیت کدوں سے متعلق دل خراش والم ناک داستانیں امن عالم کے ٹھیکے داروں کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کردیتی ہیں ۔اسلام ان تمام معاند ِانسانیت رویوں کوبہ نظر استحقار دیکھتا ہے اور دشمن پر قابو پالینے اور قیدیوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنے سے اپنے پیروکاروں کوسختی سے منع کرتاہے۔ ابو یعلی سے روایت ہے: ’’وہ کہتے ہیںکہ ہم عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور دشمن کے چار جاسوس پکڑے گئے۔ ان کے قتل کا حکم دیا گیا اوران کو باندھ کر تیر مار کر قتل کیا گیا۔ حضرت ایوبؓ کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔(مسند احمد)

پردہ داری کی تاکید

مجاہدین اسلام کو بلااجازت گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ حالت جنگ میں بھی اسلام نے پردہ داری پر زور دیا ہے۔ آپؐ کا وہ ارشاد ملاحظہ فرمایاجائے جس میں عورتوں اور بچوں کو نہ مارنے اور دکان سے بلا قیمت کوئی مال کھانے کی سختی سے ممانعت کے ساتھ ساتھ اجانب و اعدا کے گھروں میں بلا اجازت داخلے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے جائز نہیں رکھاہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہوجائو مگر اجازت سے نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور پھلوںکو کھانا بھی حلال نہیں‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۳۰۵۰ )

صلح جوئی

اسلام صلح وآشتی کا علَم بردار ہے اور انسانی معاشرے میں خیروفلاح کی قدروں کو فروغ دینا اس کا مطمح نظر ہے۔ اسلام جنگ وجدال سے اجتناب کی بھی تلقین کرتاہے ، بلکہ امن کا قیام اس کی غایت ہے ۔ اسلام صلح جوئی اور قیام امن کا کس حدتک علَم بردار ہے، یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دشمنان اسلام کی طرف سے صلح کی پیش کش ہوتو اس سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہے، بلکہ اس کو قبول کرنا ایمان کا جزہے۔ دشمنوں کے اس اقدام کو ٹھکرانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘۔(النسائ۴:۹۰)

عمومی طورپر اسلام جارحیت وجبر کے خلاف ہے۔ جنگ براے جنگ اس کے اغراض میں سے نہیں ہے۔ جنگ بحالت مجبوری ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بعض ناگزیر احوال میں اس کی اجازت ہے۔ہاں عام حالات میں نہ اس کی اجازت ہے اور نہ یہ مرغوب و پسندیدہ عمل ہے ۔یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگر صلح کاتھوڑا بھی رجحان پایاجارہا ہوتو پھر صلح کو جنگ پر ترجیح حاصل ہوگی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگروہ صلح کی طرف جھکیں توآپ بھی اس طرف جھک جائیں اور اللہ پر بھروسا رکھیے، بلا شبہہ وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والاہے اور اگر وہ لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے‘‘۔(انفال۸: ۶۱-۶۲)

 اگردشمنانِ اسلام بالکل مخالفت وعداوت پر اتر آئیں توان کی مخالفت اور نقض عہد کو دیکھتے ہوئے معاہدے کوتوڑا جاسکتا ہے، لیکن اس اقدام سے معاند ومخالف فریق کو خبردار کیے جانے کا حکم ہے۔ دھوکا اور فریب بہر حال مذموم ہے۔ اسی ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (انفال ۸:۵۸)

جو جنگ نہ کرے، اس سے جنگ نہ کی جائے

کسی ملک سے اسلامی ریاست کو خطرہ نہ ہویااس کے مصالح وضروریات کا تقاضا ہو کہ اس کے ساتھ امن وامان کا معاملہ بنارہے تو اسلامی ریاست اس ملک وقوم سے بلاوجہ جنگ وجدال کے لیے برسرِ پیکار نہ ہوگی جیساکہ حبشہ اور تُرک کے معاملے میں کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی: حبشہ کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تم سے تعرض نہ کرے اسی طرح ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ انھوں نے تمھیں چھوڑرکھا ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، حدیث ۴۳۰۴)

 آپؐ نے صاف طور پر فرمادیا کہ اگر اسلامی ممالک میںدوسری ریاستیں کسی بھی طرح ان کے معاملات میں دخل انداز ی نہ کررہی ہوں تو ان سے خواہ مخواہ محاذآرائی نہیں کی جائے گی۔ ہاں، اگر یہ لوگ اسلامی ریاستوں کے خلاف مہم جوئی شروع کریں تو ان پر طاقت وقوت کے ساتھ یلغار کی جائے گی اور ان کے فتنہ وفساد کا سدباب کیاجائے گا۔

پناہ کے خواستگار کو پناہ دی جائے گی

زمانۂ جنگ میں امن وامان کے حصول کا عمل مختلف مقاصد کے تحت آج بھی جاری ہے۔ جب بھی کوئی غیر مسلم کسی حالت میں امن وامان یاپناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اسلام میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی امن وپناہ کا تصور کسی محدود دائرے میں محصور ومقید نہیں ہے بلکہ پناہ لینے والوں کے جان ومال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔اس کی پناہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔مثلاً بغاوت وسرکشی یااسلامی حکومت اور اس کے علَم برداروں کے خلاف جاسوسی کا عمل ناقابل برداشت ہے، اس لیے کہ یہ فتنہ وفساد کے دائرے میں آتاہے۔ اس سے سرزد ہونے والے دوسرے جرائم میںعام قانون کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔ میدان جنگ میں بھی، جب کہ دونوں فریقوں کے مابین تصادم وآویزش اور جنگ وقتال جاری ہو، اگر فریق مخالف پناہ کاخواہاں ہو تو اسے پناہ دی جائے گی نہ یہ کہ اَنا اور وقار کا مسئلہ بنا کر یا نفس کے تابع ہوکر اس پر وار کیا جاتا رہے گا۔ اگر اس نازک موقعے پر بھی وہ اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو حفظ وامان میں رکھتے ہوئے دعوت دی جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی سابقہ روش کو ترک نہیں کرنا چاہتاتو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ اس کو ہوس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کو اس کے مقام محفوظ تک پہنچا دیا جائے گا۔ (دیکھیے سورئہ توبہ ۹:۶)

یہ حکم ربانی میدان جنگ میں نبرد آزما مشرکین سے متعلق ہے۔ اس کی وضاحت ابن جریر طبری یوں کرتے ہیں : ’’ جن مشرکین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان ہی کے بارے میں یہ بھی حکم ہے کہ  ان میں سے کوئی اسلام کو سمجھنے کے لیے پناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اگروہ اسلام کو قبول نہ کرے تو بہ حفاظت اسے اس کے علاقہ میں پہنچادیا جائے گا۔ اسلامی ریاست کا کوئی فرد اس سے تعرض نہ کرے‘‘۔(تفسیر الطبری، جلد۱۴، ص ۱۳۸)

علَم برداران اسلام نے ہردور میں اس قانون امن وامان کا پاس ولحاظ رکھا اور اس پر عمل بھی کیا ۔اگر کسی نے بڑے سے بڑے مجرم کو لاعلمی میں بھی اپنی پناہ میں لیا تو اس امان کا لحاظ رکھا گیااور اس سے کوئی تعرض نہیں کیاگیا بلکہ اس کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کو بطیب خاطر قبول کیا گیا۔ ہاں، اگر کبھی کسی فریق مخالف یا اس کے کسی فرد کے ساتھ کسی نے کوئی ناروا سلوک کیا جس کا سرا ظلم وتعدی سے مل جاتا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کا ذاتی عمل ہے۔ مذہب اسلام اوراس کی درخشاں انسانیت نواز تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام جس طرح اپنے نام سے امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے اسی طرح قرآن وسنت میں مذکور واضح اور      بیّن تعلیمات ، ظلم وعدوان کی مخالف اور امن وآشتی کی نقیب ہیں۔ یہاں ایک انسان کا قتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے برابر اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ جو مذہب انسانی خون کے احترام میں اس انتہا تک پہنچ جاتا ہو اس کی طرف دہشت گردی اور خونریزی کا انتساب سرتاپاظلم ہے۔ یہاں اگر جنگ کی اجازت ہے تو محض فتنہ وفساد کا قلع قمع کرنے کے لیے تاکہ فرد ، معاشرہ، ملک اور قوم کو امن وآشتی کی خوش گوار فضا میسر ہو اور کاروانِ انسانیت منزل مقصود کی یافت میں امن وسکون کے ساتھ رواں دواں رہے۔

 

مقالہ نگار شعبۂ دینیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ  سے وابستہ ہیں