کسی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے اصول و قواعد سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے عربی زبان سیکھنے کے لیے علمِ صرف اور علمِ نحو کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ عربی صرف و نحو پراُردو زبان میں بیسیوں کتابیں ملتی ہیں۔ مولانا فراہیؒ نے اسباق النحو کے نام سے قواعدِ نحو کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی جس میں بعض پہلوتشنہ رہ گئے تھے۔ خالد مسعود مرحوم نے کتاب کے تشنہ پہلوئوں کو مکمل کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں ’عربی زبان کی ابتدائی باتیں‘ کے عنوان سے فراہم کی گئی معلومات عربی کے مبتدی طالب علموں کے لیے بہت اہم اور مفید ہیں۔ عربی زبان کی عمارت میں کلمے اور کلام کی حیثیت ایک بنیادی اینٹ کی ہے۔ مؤلف نے کلمے کی تین قسموں‘ یعنی اسم‘ فعل اور حرف کو الگ الگ عنوانات کے تحت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس لیے یہ کتاب علمِ نحو کی ایک جامع دستاویز بن گئی ہے۔ کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ہرسبق کے آخر میں اس کے مضامین سے متعلق ایک مشق دی گئی ہے جسے اگر اساتذہ اپنی نگرانی میں طلبہ سے حل کرائیں گے تو ساتھ ساتھ اس کا عملی اجرا بھی ہوتا جائے گا۔ کتاب کے آخر میں تمام مشقوں کا حل بھی دیا گیا ہے جو طلبہ کے لیے اپنی مشق کی صحت جانچنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس طرح مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: یہ کتاب طلبۂ فن کے لیے کافی ہے۔ اس سے عربی زبان سیکھنے کا راستہ کھل جائے گا۔ پھر قرآن و حدیث اور ادبِ عربی کی اعلیٰ کتابوں کے مطالعے سے اس زبان کا ذوق پیدا ہوجائے گا (ص ۷)۔ مدارس کے ابتدائی سالوں کے نصاب میں شامل کرنا مفید ہوگا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)
اسلامی علوم کی روایت کا یہ ایک روشن پہلو ہے کہ اس میں فرد کے محض علم و کلام پر اکتفا نہیں کیاجاتا‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود مصنف یا کسی علمی ماخذ کے مددگارفرد کے کردار و افکار تک کے زاویے کوپرکھا جاتا ہے۔ دوسرے پہلو پر توجہ دیتے ہوئے بسااوقات تعصب یا غلط فہمی کی آلودگی ظلم کی داستانوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور بے چارا صاحب ِ علم و فن عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محمد بن مسلم المعروف امام ابن شہاب زہری کے ساتھ پیش آیا۔
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث (۵۳۷۴) کے بعد سب سے زیادہ احادیث کی روایات‘ تابعی امام فی الحدیث ابن شہاب زہری سے مروی (۲۲۰۰) ہیں (ابتدائیہ)۔ اتنی بڑی تعداد میں احادیث کو محفوظ کرنے والے ابن شہاب خود مسلمانوں کے ایک گروہ اور مستشرقین کی سخت تنقید کا نشانہ بنے۔مستشرق گولڈزیہر نے ابن شہاب کو بے وزن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ حالانکہ: ’’امام زہری کے ثقہ اور ضابط و عادل ہونے پر اَئمہ محدثین کا اتفاق ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ زیرنظر کتاب میں فاضل محقق نے امام زہری پر الزامات کو متعین شکل میں پیش کیا ہے اور ان کا مدلل علمی جواب دیا ہے۔ انھوں نے استشراقی حملوں اور ان کی ہم نوائی پر تلے ہوئے بعض قلم کاروں کے استدلال کاعلمی نظائر سے توڑ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
کتاب کے تمام قارئین عربی دان نہیں ہوتے‘ اس لیے ضروری تھا کہ عربی حوالہ جات/ اتھارٹیز کا اُردو ترجمہ بھی درج کردیا جاتا۔ شیخ زاید اسلامک سنٹر کی فاضل [سابق] ڈائرکٹر محترمہ جمیلہ شوکت اہلِ علم کے تشکروامتنان کی مستحق ہیں کہ انھوںنے اسلامک سنٹر کو تدریسی مشاغل کے ساتھ ٹھوس علمی سرگرمیوں کی شاہراہ پر گام زن کر دیا۔ (سلیم منصور خالد)
احکامِ احادیث پر مشتمل امام ابن حجر عسقلانیؒ کی مشہور کتاب بُلُوغ المَرام دنیا بھر کے اکثروبیش تر مدارس دینیہ کے نصاب کا حصہ ہے۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار احادیث ہیں اور متعدد زبانوں میں اس کی شروح لکھی جاچکی ہیں‘ لیکن اُردو زبان میں تاحال کوئی ایسی شرح دستیاب نہ تھی کہ جس میں تمام احادیث و آثار کی مکمل تخریج و تحقیق کی گئی ہو‘ قدیم و جدید مسائل اور احکام یک جا کیے گئے ہوں۔ حافظ عمران ایوب نے اس علمی ضرورت کے پیش نظر زیرنظر شرح تیار کی ہے۔
تمام احادیث کی تخریج کی گئی ہے‘ صحت و ضعف کا تعین کیا گیا ہے‘ اور اختلافی مسائل میں برحق موقف کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ائمہ اربعہ کے علاوہ علامہ ناصرالدین البانی‘ شیخ عبداللہ بہام‘ علامہ شوکانی‘ امام نووی‘ امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ شیخ عبدالعزیز بن باز وغیرہ کی تحقیقات کو پیش نظر رکھا گیا ہے‘ نیز سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی کے اقوال و فتاویٰ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ شرح جدید و قدیم علوم کے امتزاج کی حامل ہے جو اس کی انفرادیت ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں (مثلاً معاشرت‘ تجارت‘ جرائم‘ حدود‘ جہاد وغیرہ) سے متعلق فقہی رہنمائی میں عام لوگوں کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسلوب عام فہم ہے۔ عربی متن کے ساتھ مشکل الفاظ کی لغوی توضیح اور پھر معنی و مفہوم اور مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مفید علمی و تحقیقی کاوش اہلِ علم‘ طلبہ اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید ہے۔(امجد عباسی)
جامعہ حفصہ اور جامع لال مسجد‘ اسلام آباد کے جس خونیں واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک سنگ دل انسان کا دل بھی موم ہوجاتا ہے‘ یہ کتاب اس تذکرے پر مبنی ہے۔ یہ مولانا زاہد الراشدی کے ۱۱کالموں اور آپریشن سے چند گھنٹے پہلے تک جاری رہنے اور پھر ناکامی سے دوچار ہونے والے مذاکرات کے تفصیلی رپورتاژ پر مشتمل کتاب ہے۔
فاضل مصنف نے اس المیے کے جملہ مراحل کو بڑے شستہ‘ متوازن‘ مدلل اور بصیرت افروز انداز سے قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے مسئلے کی نوعیت‘ اس قضیے کے اُتارچڑھائو‘سلجھائو اور الجھائو کی راہوں کو بے نقاب کرکے مؤرخ کے لیے ایسا لوازمہ فراہم کر دیا ہے کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ مولانا راشدی کے استدلال سے اختلاف کی گنجایش کم ہے۔ انھوں نے نہ صرف علما کے موقف کو خوبی سے منقش کیا ہے‘ بلکہ مشرف حکومت کے اس پروپیگنڈے کو بھی تارتار کردیا ہے کہ: ’یہ مذاکرات غیرملکیوں کے لیے تحفظ مانگنے کے سوال پر ٹوٹے تھے‘ (ص ۶۳)۔ اس کتابچے کا عربی اور انگریزی میں ترجمہ مفید رہے گا۔(س - م - خ )
زیرنظر کتاب میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی ریاست‘ قرآن اور عدل پر سیرحاصل گفتگو کے بعد‘ قرآنی قوانین کو ایک منضبط بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں اس دائرے میں رائج قوانین کے بیان سے تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ کتاب میں علمی مزاج اور تحقیقی ذوق کے ساتھ ایک منطقی استدلال بھی ملتا ہے۔ مصنف نے قرآنی قوانین کے مقابلے میں پاکستان میں رائج قوانین کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔یہ کتاب وکلا کے ساتھ‘ عام قاری کے لیے بھی دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔(محمد الیاس انصاری)
فاضل گرامی ڈاکٹر انعام الحق کوثر ایک باہمت شخصیت ہیں۔ عرصۂ دراز تک بلوچستان کے دُوردراز علاقوں میں درس و تدریس میں مصروف رہے‘ اور ملازمت سے سبک دوشی کے بعد اب تصنیف و تالیف کو مشغلۂ حیات بنا رکھا ہے۔ کوئی برس نہیں جاتا کہ اُن کی دوچار کتابیں چھپ کر منظرعام پر نہ آتی ہوں۔ علم و ادب کے لیے بلوچستان کی بظاہر سنگلاخ زمین میں انھوں نے کتابوں کے گل و گلزار کھلا .ِ دیے ہیں ع ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
زیرنظر کتاب بلوچستان میں اُردو کا ایک مختصر مگر جامع تذکرہ ہے اور ایک اعتبار سے اُردو زبان و ادب کے ارتقا کی ایک مختصر تاریخ بھی ہے جسے زیادہ تر اصنافِ ادب کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ قدرتی طور پر شاعری کا ذکرطویل اور ضخیم ہے۔ نئے پرانے مقامی اور غیرمقامی شعرا کا مختصر تعارف اور نمونۂ کلام دیا گیا ہے۔ ترتیب الف بائی ہے۔ اسی طرح دیگر اصنافِ ادب (تحقیق و تنقید‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری‘ سفرنامہ‘ تذکرہ نویسی و سوانح نگاری‘ یادداشتیں‘طنزومزاح‘ بچوں کا ادب‘ تراجم) کے لحاظ سے بلوچستان کے اُردو ادب‘ ادیبوں‘ قلم کاروں اور اُن کی تصانیف کا تعارف کرایا گیا ہے۔ آخر میں مفصل کتابیات شامل ہے ___ یہ علمی کاوش ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے۔ اُردو زبان و ادب کے مؤرخین کے لیے یہ ایک معلومات افزا دستاویز ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کو بہانہ بنا کر‘ امریکا نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے صحافی مقدراقبال حالات کے مشاہدے کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ وہاں گئے۔ زیرنظر کتاب ان کے مشاہدات اور افغانستان پر ان کی تحقیق کاحاصل ہے۔ انھوں نے زمانۂ قبل مسیح سے تاحال افغانستان کی مختصر تاریخ بیان کی ہے اور پھر طالبان کی حکومت سے امریکی حملے تک کے واقعات بھی ایجاز کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
طالبان کے انتظامِ مملکت کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ جس میں نہ صرف ملّاعمر کی سادگی‘ بلکہ ان کے گورنروں‘ وزیروں‘ سکرٹریوں کی درویشی کا ذکر ہے۔ طالبان کی عمل داری میں غربت‘ پوست کی کاشت اور گداگری کا خاتمہ ہوگیا اور شرعی حدود نافذ ہوئیں۔
مصنف کا اسلوب سادہ‘ عام فہم اور انداز تحقیقی ہے۔ فارسی و اُردو اشعار اور حوالوں سے اپنی بات کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ یہ دل چسپ کتاب خصوصاً نوجوانانِ اُمت کے لیے سبق آموز ہے۔(قاسم محمود وینس)
معین کمالی کے کالموں میں شگفتگی‘ طنز اور تلخی کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے باقاعدہ کالم نویسی کا آغاز ۱۹۶۶ء میں کیا تھا اور مختلف عنوانات (’چھلکے‘، ’قلم برداشتہ‘، ’دوراہے پر‘، ’چٹکیاں‘، ’خبرونظر‘، ’برجستہ‘ وغیرہ) کے تحت لکھتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ۳۹ دل چسپ کالم یک جا کیے گئے ہیں‘ مثلاً صفحہ ۴۱ پر ’حبیب و داماں کی خیر ہو یارب‘ کے عنوان سے کراچی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’بہت سے مسلمان جیب کترے… روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنے دھندے کی ابتدا بسم اللہ کوچ سے کریں‘‘۔ معین کمالی نہایت خوب صورتی سے روزمرہ کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر قارئین کو ایک زمانے کی سیر کرا دیتے ہیں۔یہ مجموعہ ایک محب ِ وطن کے دل کے احساسات کا آئینہ ہے۔(م - ا - ا )