جولائی ۲۰۱۶

فہرست مضامین

سیسی نے فرعون اور جمال ناصر کو بھلا دیا

عبد الغفار عزیز | جولائی ۲۰۱۶ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

مصر کے منتخب اور قانونی صدر محمد مرسی کی صاحبزادی شیما مرسی بتاتی ہیں: ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو جب جنرل سیسی اور اس کے حواری ایک سالہ مصری جمہوریت پر شب خون ماررہے تھے، رات گئے چند لمحوں کے لیے والد محترم اپنی رہایش گاہ میں آئے۔ ہم سب اہل خانہ وہاں جمع تھے۔ ان پر تھکاوٹ غالب تھی۔ میں نے شدت جذبات سے کہا: ابو یہ مصری قوم اس قابل ہی نہیں ہے کہ آپ جیسا خدا سے ڈرنے والا اور باصلاحیت شخص ان کا حکمران بنے۔ آپ ان کے لیے اللہ کی ایک نعمت تھے، انھوں نے کفران نعمت کیا۔ انھیں فرعون حکمران ہی راس آتے ہیں۔ یہ اسی قابل ہیں کہ ایک بار پھر ڈکٹیٹر شپ کے شکنجے میں کس دیے جائیں، جو ان سے ان کے منہ کا نوالہ، ان کی زندگی اور  ان کا قومی سرمایہ چھین لے۔ شیما کہتی ہیں: ابو میری بات سن کر سخت ناراض ہوگئے اور کہا :آیندہ کبھی ایسی بات زبان پر نہ لانا۔ مصری عوام تو بے چارے خود مظلوم ہیں۔ انھیں سالہا سال سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایک ظالم اور جابر ٹولہ کئی عشروں سے ان پر مسلط ہے اور ان کی بوٹیاں نوچ رہا ہے۔   ان پر ناراض نہ ہوں۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا:آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ مجھے  اپنی نہیں، خود مصری عوام کی فکر ہے کہ اگر انھوں نے ظلم قبول کرلیا، ملک کے خلاف ہونے والے اس جرم اور ظلم پر خاموش رہے تو ان کا انجام جو ہوگا اس کا تصور کر کے میں لرز جاتا ہوں۔

باپ بیٹی کا یہ مکالمہ آج مصر کی ایک تلخ ترین حقیقت ہے۔ تین برسوں میں مصری عوام پر فرعون سیسی نے وہ مظالم ڈھائے ہیں، جو شاید اس سے پہلے کسی جابر حکمران نہیں ڈھائے تھے۔ پورا ملک جیل خانے میں بدل چکا ہے۔ ۴۲ ہزار بے گناہ مستقل قیدیوں کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب افراد مختلف اوقات میں جیلوں میں جا چکے ہیں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے ریکارڈ بناتی ہیں، جنرل سیسی کی حکومت ملک میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑی جیل تعمیر کرنے کا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ سیسی بغاوت کے وقت مصر میں ۳۳ جیل خانے تھے، جو گذشتہ ۳ سال میں ۵۲ ہوچکے ہیں۔ ان میں اس وقت زیر تعمیر قاہرہ اسیوط روڈ پر واقع مصر کی سب سے بڑی جیل بھی ہے جس کا رقبہ ۴ لاکھ ۳۲ ہزار ۶ سو میٹر ہے اور اس پر ۹۰ملین پاؤنڈ کا خرچ آرہا ہے۔ ۳۸۲ قید خانے اور سیکڑوں خفیہ تعذیب گاہیں ان جیلوں اور تھانوں پر مستزاد ہیں۔

تعذیب و تشدد کے نتیجے میں ۳۸۱ افراد دوران حراست شہید کیے جاچکے ہیں۔ مختلف اجتماعات اور پروگرامات پر براہِ راست فائرنگ کے نتیجے میں چار ہزار سے زائد نہتے شہری شہید کیے جاچکے ہیں۔ نام نہاد عدالتیں ملک کے منتخب صدر، متعدد وزرا اور اخوان کے مرشد عام اور اسمبلی کے اسپیکر سمیت ۲ہزار افراد کو موت کی سزا (پھانسی) سناچکی ہیں۔

گرفتار شدگان میں ۱۸ برس سے کم عمر کے ۳۲۰۰ بچے بھی شامل ہیں اور انھیں ناقابل یقین سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ۱۷ فروری ۲۰۱۶ء کو تو مصری عدالت نے انصاف کا ایک انوکھا ریکارڈ قائم کردیا۔ ساڑھے تین سالہ بچے احمد منصور قرنی کو ۱۱۵ مزید افراد کے ساتھ مل کر مصری خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پر ہلہ بولنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنادی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق: احمدقرنی نے اخوان کے ایک مظاہرے میں شریک ہوکر چار افراد کو قتل اور آٹھ افراد کو شدید زخمی کردیا جس سے ان کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ اس نام نہاد عدالت عالیہ کا یہ بے نظیر فیصلہ آنے سے پہلے، بچے کے وکلا نے اس کے برتھ سرٹیفکیٹ سمیت دستاویزات پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ تین سال پانچ ماہ کا یہ بچہ کیوں کر ایسے سنگین جرائم کرسکتا ہے؟ لیکن عدالت نے ایک نہ سنی۔ ’المرصد المصری‘ نامی قابل اعتماد ریسرچ سنٹر کے مطابق جنرل سیسی کے ابتدائی ۱۰۰ دنوں میں ۱۲ بچوں کو براہِ راست فائرنگ سے شہید کردیا گیا تھا، اس دوران میں ۱۴۴ بچے گرفتار کیے گئے تھے، جن میں سے ۷۲بچوں کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جنرل سیسی کو اقتدار میں لانے اور سہارا دینے میں امریکا اور اسرائیل کا کردار سب سے نمایاں ہے، لیکن بعض عرب ممالک کی طرف سے اس کی پشتیبانی بھی کوئی راز نہیں۔ مختلف خلیجی ریاستوں کی طرف سے اسے ۳۳؍ارب ڈالر کی نقد امداد دی گئی۔ منصوبوں اور سرمایہ کاری کے نام پر اربوں ڈالر کی امداد اس کے علاوہ ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ساری امداد کے باوجود مصر اور مصری عوام کی معاشی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہے۔مصری زرمبادلہ اپنی کم ترین حد تک جاپہنچا ہے۔ صدر محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تو ملکی خزانے میں ۱۷ ارب ڈالر تھے۔ ایک سالہ پُر آشوب دور اور کئی اہم اقتصادی منصوبے شروع کرنے اور پیرس کلب کے ۷۰۰ ملین ڈالر ادا کرنے کے باوجود، اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔ آج جنرل سیسی کے تین سالہ اقتدار کے دوران میں ۳۳ ارب ڈالر نقد امداد ملنے کے باوجود خزانے میں صرف ۶ئ۱۳؍ ارب ڈالر باقی بچے ہیں۔ بیرونی قرضے جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا اندازہ اسی بات سے لگائیے کہ ایک سال پہلے یعنی ۲۰۱۵ میں یہ قرضے ۴۸؍ارب ڈالر تھے، جو مئی ۲۰۱۶ میں ۸۳ ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اندرونی قرضوں کے اعداد و شمار مزید چکرا دینے والے ہیں۔ سرکاری رپورٹوں کے مطابق مصر کے اندرونی قرضے ۶ئ۲ٹریلین، یعنی ۲۶۰؍ ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو کل قومی آمدنی کا تقریبا ۸۵فی صد بنتا ہے۔ مصری سکے کی قیمت مسلسل گررہی ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بھی ایک سبب ہے۔ صدر محمد مرسی کے عہد میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پاؤنڈ کا تھا، اس وقت چند پیسے کمی آئی تھی تو ذرائع ابلاغ میں طوفان آگیا۔ آج ۱۲؍ پاؤنڈ کا ہے، لیکن اس پر کوئی احتجاج نہیں کرسکتا۔

صدر محمد مرسی پر لگائے جانے والے سنگین الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے صحافیوں پر پابندیاں لگائیں۔ خود ہمارے بعض پاکستان صحافی حضرات نے بھی اس پر خوب ردّے چڑھائے اور بھانت بھانت کے نوحے لکھے۔ جنرل سیسی کے دور جبر میں ذرائع ابلاغ کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے، مگر ہمارے صحافی احباب کو شاید خبر ہی نہیں ہوسکی۔سیسی بغاوت کے فوراً بعد مصرکے ۲۷ چینل اور اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔ متعدد صحافیوں کو شہید کردیا گیا، کئی صحافتی گروپوں کے مالکان کو ہتھکڑیاں لگا کر ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان پابندیوں اور سزاؤں کا نشانہ  سیسی مخالف ہی نہیں، بہت سارے ان صحافی حضرات اور صحافتی اداروں کو بھی بنایا جارہا ہے، جو صدر مرسی کے خلاف بڑھ چڑھ کر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ آج کئی بڑے میڈیا ہاؤس براے فروخت کا اعلان کرچکے ہیں۔

مئی ۲۰۱۵ء میں تاریخ میں پہلی بار پولیس نے صحافیوں کی قومی یونین کے دفاتر پر دھاوا بولا، اور متعدد صحافی گرفتار کرلیے، کئی زخمی ہوئے اور باقیوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔ یہ وہی صحافی اور دفاتر ہیں جو منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا مراکز تھے اور آج مکافات عمل کا شکار ہیں۔ صحافی آئے روز بینر لہرا رہے ہوتے ہیں۔ أنا صحفی مش إرھابی (میں صحافی ہوں دہشت گرد نہیں)۔ الحریۃ للجدعان (ہمارے بہادر صحافیوں کو رہا کرو)۔ سابق وزیر اطلاعات و نشریات صلاح عبد المقصود کے بقول صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور حکومت کے دوران ذرائع ابلاغ کا کل بجٹ ۶؍ ارب پاؤنڈ تک جاپہنچا تھا۔ اشتہارات کی آمدن صرف ڈیڑھ ارب پاؤنڈ تھی، جب کہ ساڑھے چار ارب پاؤنڈ صدر محمد مرسی کی مخالف حکومتوں کی طرف سے میڈیا کی خفیہ امداد کے طور پر پہنچ رہے تھے۔

مصری عوام ہی نہیں، اہلِ غزہ بھی سیسی مظالم کے یکساں شکار ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شروع کیے جانے والے حصار کا دسواں سال شروع ہوچکا ہے۔ تقریباً ۲۰ لاکھ انسان پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اس وقت ۵ ہزار سے زائد مریض اپنا علاج کروانے کے لیے غزہ سے باہر جانے کے انتظار میں ہیں۔ ہزاروں طلبہ عالمی تعلیمی اداروں میں داخلہ ملنے کے باوجود مصری سرحد عبور نہ کرسکنے کے باعث داخلے منسوخ کروابیٹھے ہیں۔ دو سال سے اہل غزہ میں سے کوئی شخص زیارت بیت اللہ کے لیے نہیں جاسکا۔ غزہ اور مصری سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائلی باہم رشتہ دار ہیں، لیکن کسی کی خوشی غمی میں شرکت کے لیے بھی ایک دوسرے کے ہاں نہیں جاسکتے۔

ایک معروف مصری شاعر اور صحافی عبد الرحمن یوسف کے بقول امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے: میں صدر سادات سے اپنے ۱۰ مطالبات منظور کروانے گیا تو اپنے ہمراہ اضافی طور پر مزید ۵۰ مطالبات لکھ کر لے گیا، جن میں سے کئی ایسے تھے جو میرا خیال تھا کہ کسی صورت نہیں مانے جائیں گے، لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ سادات نے کچھ دیکھے پوچھے بغیر میرے ۵۰کے ۵۰ مطالبات منظور کرلیے۔

عبدالرحمن یوسف کے بقول جنرل سیسی کے زمانے میں امریکا اور اسرائیل کو مطالبات کرنا ہی نہیں پڑتے، سب کچھ ان کے تصورات سے زیادہ بہتر صورت میں انھیں مل جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک یہی دیکھ لیجیے کہ جنرل سیسی نے غزہ کی سرحد پر واقع پورا مصری رفح کا قصبہ ہی ملیا میٹ کردیا ہے، کیوں کہ اسرائیل کے بقول ان گھروں کے نیچے سے سرنگیں کھود کر اہل غزہ اپنے لیے جینے کا سامان لے جاتے ہیں۔ سیسی نے پورا قصبہ خاک میں ملا کر وہاں طویل کھائیاں کھود دی ہیں اور ان میں سمندری پانی چھوڑ دیا ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں اب اس کی طرف سے اسرائیل کو یہ پیش کش کی جارہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے ہمیشہ ہمیشہ خاتمے کے لیے مصری صحراے سینا کا ایک وسیع علاقہ ایک نئی فلسطینی ریاست کے لیے دے دیتا ہوں۔ یہاں پر سیسی کے منصوبہ ساز اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ وہ صحرائے سینا میں مسجد اقصی اور قبلہء اول کیسے لائے گا۔ اسے یہ بھی یقینا معلوم ہوگا کہ فلسطینی عوام اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبے مسترد کرچکے ہیں، جن میں انھیں اُردن کو متبادل وطن تسلیم کرتے ہوئے سرزمین اقصی سے دست بردار ہونے کی پیشکش کی گئی تھی اور انھوں نے ۶۸ سال گزر جانے کے باوجود آج تک اس کا جواب نفی میںدیا ہے۔

منتخب صدر محمد مرسی کے بارے میں احمقانہ حد تک بے بنیاد پراپیگنڈے میں یہ الزام بھی تھا کہ انھوںنے اہرام مصر، ابوالہول اور نہر سویز کا علاقہ قطر کو فروخت کردیا ہے۔ اب جنرل سیسی صحرائے سینا میں فلسطینی بسانے کی بات کرکے انھی عجوبہ منصوبوں کو حقیقت میں بدلنے کی بات کررہا ہے۔ لیکن ہر آنے والا دن اس کی بلیک میلنگ اور دھوکا دہی کو بھی بے نقاب کررہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سعودی شاہ سلمان کے دورۂ مصر کے موقعے پر جنرل سیسی نے کسی اور کارروائی یا منظوری کے بغیر خلیج عقبہ میں واقع دو متنازعہ جزیرے تیران اور منافیر سعودی عرب کو دینے کا اعلان کردیا۔ اس ایک تیر سے اس نے کئی شکار کرنا چاہے: ایک طرف شاہ سلمان کو راضی کرنے کی کوشش اور شاہ عبد اللہ کی طرح مالی مدد جاری رکھنے کی درخواست، دوسری طرف اسرائیل کو یہ لالچ کہ یہ جزیرے اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث سعودی عرب سے اس کے روابط کاذریعہ بن جائیں گے۔ اور تیسری جانب اخوان سمیت ان تمام مصری سیاسی جماعتوں اور سعودی عرب کے مابین اختلافات پیدا کرنا جو ان جزیروں کو مختلف تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر مصری سرزمین قراردیتے ہیں۔

سیسی کی یہ عیاری ۲۱ جون ۲۰۱۶ء کو اس وقت بے نقاب ہوگئی کہ جب ایک اعلیٰ مصری عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جزیرے سعودی عرب کو دینے کا معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ عہد سیسی کا ہو اور کوئی عدالت اس کے اشارۂ اَبرو کے بغیر بلکہ اس کے علی الرغم فیصلہ سنادے؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ تجزیہ نگار اس عدالتی ڈرامے کے دو بنیادی اسباب بتارہے ہیں: ایک تو سعودی عرب کو یہ پیغام کہ ’’پیسے ختم ہوگئے ہیںمیرے آقا مزید امداد‘‘ (واضح رہے کہ سیسی کی اپنے ساتھیوں سے گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگ کئی بار آچکی ہے جس میں وہ ان کے ساتھ خلیجی ممالک سے مزید ڈالر اینٹھنے کے طریقوں پر مشورہ کررہاہے)۔ دوسرا یہ کہ یہ عدالتی فیصلہ دو روز قبل ایک اور عدالتی فیصلے پر آنے والے ردعمل کو کم کرنے کے لیے ہے، جس میں منتخب صدر محمد مرسی کو چالیس سال قید اور ایک خاتون صحافی اسما الخطیب سمیت چار صحافیوں اور صدر مرسی کے دو ساتھیوں کو سزاے موت سنائی گئی۔ یہ مقدمہ اور فیصلہ بھی مصر کی فرعونی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کے طور پر لکھا جائے گا۔

ستمبر ۲۰۱۴ء کو صدر محمدمرسی سمیت ۱۱؍افراد پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے تقریباً دو سال دورِ اقتدار میں قومی راز قطر کو فراہم کیے ۔کسی عدالتی کارروائی کے بعد صدر مرسی کواس الزام سے  بری الذمہ قرار دے دیا گیا، لیکن ایک سیاسی جماعت (اخوان) سے تعلق کی بنیاد پر ۲۵ سال اور قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کے حصول پر مزید ۱۵ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ سزاے موت اور ۱۵ سال قید کی سزا پانے والے ایک سینیئر صحافی ابراہیم ہلال (الجزیرہ چینل کے سابق نیوز ڈائریکٹر) نے فیصلہ سننے کے بعد کہا: ایک صحافی ہونے کے ناتے اگر ہمیں واقعی کوئی خفیہ دستاویزات مل بھی جاتیں تو ہم مکمل ذمہ داری اور امانت کے ساتھ اسے نشر کرتے، لیکن یہ ساری کہانی ہی مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ جنرل سیسی، دراصل الجزیرہ کومصر میں ہونے والے مظالم کی خبر دینے سے روکنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سات افراد کو مجموعی طور پر ۲۴۰ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ان تمام غیر انسانی سزاؤں اور درندوں کے راج کے باوجود، ان بے گناہ قیدیوں کی اخلاقی و ایمانی کیفیات کیا ہیں؟ اس کا اندازہ حالیہ عدالتی ڈرامے کی اختتامی کاروائی سے ہی لگالیجیے۔ بدنام زمانہ جج فیصلہ سنانے لگا تو ملک کے قانونی صدر محمد مرسی کو ایک ساؤنڈ پروف پنجرے میں بند کرکے لایا گیا۔ فیصلے سے پہلے انھوں نے بات کرنے پر اصرار کیا تو جج نے پنجرے میں لگا مائیک کھلواتے ہوئے کہا: علی طول خش یا مرسی... خش یا مرسی’’ مرسی جلدی سے بات کرو .. مرسی جلدی کرو‘‘۔انھوں نے دو تین بار بات شروع کی، لیکن جج مسلسل ٹوکتا رہا۔

محمد مرسی نے کہا: میں عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہی اپنے ساتھیوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں: ’’صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردگی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاسکو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)۔ اس پر جج نے طیش میں آکر بات کاٹی اور مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت برخواست کردی۔

مصر کے معروف قانون دان ولید شارابی نے انھی دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیاہے کہ جنرل سیسی کی طرف سے صدر مرسی اور ساتھیوں سے رابطہ کرتے ہوئے سودے بازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا، اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار گرفتار اسپیکر ڈاکٹر سعد الکاتا کے پاس گیا اور معاملات طے کرنے کی پیش کش کی۔ قیدی اسپیکر نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا:  مصر کا قانونی اور منتخب صدر ایک ہی ہے اور وہ آپ کے پاس ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنا ہے تو انہی سے ہوسکتی ہے۔ اس رابطہ کار کے چلے جانے کے بعد اسپیکر ڈاکٹر سعد نے کہا کہ یہ لوگ میرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ انھیں صدر مرسی سے بات کرکے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہوگا۔

صدر مرسی کے اہل خانہ کے مطابق گذشتہ تین سالہ غیر قانونی قید کے دوران میں اہل خانہ کی صرف ایک ملاقات ہوسکی، جو چند منٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس مصری ’گوانتا نامو کیمپ‘ سے پوری دنیا نہ صرف لاتعلق ہے ،بلکہ خاموش تماشائی بن کر جلاد کی پشتی بانی کررہی ہے۔ رہے مصر سمیت دنیا کی مختلف جیلوں میں گرفتار اہل ایمان، تو ان کا رب یہ پیغام اُمید دے رہا ہے: فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ  (الروم۳۰: ۴۷) ’’پھر جنھوں نے جرم کیا ہم نے ان سے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘۔