جون ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | جون ۲۰۱۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت معاویہ بن حکمؓ سے روایت ہے ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چرا رہی تھی، میں اس کے پاس آیا تو میں نے اپنی ایک بکری کو گم پایا۔ میں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا: اسے بھیڑیے نے کھا لیا ہے۔ یہ سن کرمجھے لونڈی پر غصہ آیا اور میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔ میں انسان تھامجھ سے یہ بشری کمزوری صادر ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  سن کر فرمایا: تم نے لونڈی کو اس کے کسی قصور کے بغیر تھپڑ مار کر بہت بڑی زیادتی کی۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اسے اس زیادتی کے عوض آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی مجھ پر بطور کفارۂ ظہار یا کفارۂ قسم، ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، تو کیا اس کو اس کفارے کے عوض میں آزاد کردوں تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اسے بلائو۔ اسے بلایا گیا تو آپؐ نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں، اس نے جواب دیا: آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔ (موطا امام مالک، مسلم)

صحابہ کرامؓ کی جو ایمانی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اس کے نتیجے میں اگر کبھی ان سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا گناہ ہوجاتا تھا تو جلد ہی انھیں اپنی غلطی اور زیادتی کا احساس ہوجاتا تھا اور وہ اس پر نادم ہوجاتے تھے۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ سے اپنی لونڈی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ انھوں نے اسے جو تھپڑ مارا وہ بلاوجہ تھا، بکری کو بھیڑیا کھا گیا، اس میں لونڈی کی غفلت کو دخل نہ تھا۔ وہ بکریوں کی نگرانی اور رکھوالی کر رہی تھی کہ اس دوران میں بھیڑیئے نے اچانک حملہ کیا اور ایک بکری کو لے گیا۔ لونڈی نے چھڑوانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ کو احساس ہوگیا کہ انھوں نے بشری کمزوری کی بناپر بلاوجہ لونڈی پر غصہ نکالا اور بلاوجہ تھپڑ مارا۔ لہٰذا لونڈی کو آزاد کردینے کاارادہ کرلیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کا مقصد یہ تھا کہ ان پر اس سے پہلے ایک کفارہ بھی واجب ہوگیا تھا، قسم توڑنے کا یا بیوی کے ساتھ ظہار کرنے کا۔ انھوں نے پوچھا کہ اس لونڈی کو اگر مَیں اس کفارے کے عوض آزاد کردوں، تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ اور جو مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اس کا مداوا بھی ہوجائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو بلاکر دو سوال کیے۔ ان سوالات کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ مومنہ ہے یا نہیں، کہیں زمینی معبودوں کی بندگی کی قائل تونہیں۔ جب اس کے جواب سے آپؐ کو اطمینان ہوگیا کہ وہ مومنہ ہے تو آپؐ نے اسے آزاد کر دینے کا حکم فرما دیا۔ اس لیے کہ کفارۂ قسم اور کفارۂ ظہار میں اس غلام کو آزاد کرنا کفارہ بنتا ہے جو مسلمان ہو، غیرمسلم غلام اور لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم اور کفارئہ ظہار ادا نہیں ہوتا۔آپؐ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ اس لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم یا کفارئہ ظہار بھی ادا ہوسکتا ہے اور جو زیادتی تجھ سے ہوگئی ہے اس کا ازالہ بھی ہوجائے گا اور آخرت میں تم سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا۔ صحابہ کرامؓ آخرت میں سزا بھگتنے کے بجاے دنیا میں اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرکے اُخروی سزا سے بچنے کی تدبیر کیا کرتے تھے۔ آج ہم غفلت کا شکار رہتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو تلف کردینے کے باوجود پروا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی طرح کا احساس اور فکرمندی عطا فرما دے، آمین!


حضرت عمران بن حطان سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوذرؓ کے پاس آیا تو انھیں مسجد میں سیاہ چادر اُوڑھے تنہا بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے عرض کیا: ابوذرؓ! یہ تنہائی کیسی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تنہائی بُرے ہم نشین کے مقابلے میں بہتر ہے اور صالح ہم نشین تنہائی کے مقابلے میں بہتر ہے، اور خیر کی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموشی بُری بات پھیلانے سے بہتر ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

کیسی عمدہ اور جامع نصیحتیں ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے والا اپنی جھولیاں نیکی سے بھرے گا اور بُرائیوں سے محفوظ رہے گا۔ تنہائی میں اللہ کا ذکر ہو یا پھر صالح ہم نشین ہو تو اس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر ایمان اور عمل میں اضافہ کرے گا ۔ اگر صالحین کی جماعت میسر ہوجائے جو اقامت ِ دین کی جدوجہد  میں مصروفِ عمل ہو تو پھر انسان اس مقصد کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے گا جس کے لیے انبیاے علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں، یعنی غلبۂ دین اور حکومت الٰہیہ یا دوسرے الفاظ میں خلافت ِ راشدہ کا قیام۔ پھر خیر کی اشاعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں مصروف رہنا وہ سعادت ہے جو  انبیاے علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس حدیث پر ہرمسلمان عمل کرے تو اُمت میں عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت کا ایک کفارہ  یہ ہے کہ آدمی اس شخص کے لیے استغفار کرے جس کی غیبت کی ہے۔ کہے: اے اللہ! ہماری اور   اس کی مغفرت فرما۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات)

جس کی غیبت کی جائے اس کا اصل کفارہ تو یہ ہے کہ آدمی اس سے معافی طلب کرے۔ اگر یہ نہ کہہ سکتا ہو کہ میں نے جو آپ کی غیبت کی ہے وہ معاف کردیں تو یوں کہہ دے کہ مجھ سے آپ کا جو حق تلف ہوا ہو، جو زیادتی ہوئی ہو وہ معاف کردیجیے، اور اگر متعلقہ شخص فوت ہوگیا ہو تو پھر غیبت کا کفارہ اس شخص کے لیے دعاے مغفرت ہے جس کی غیبت کی گئی۔ غیبت گناہِ کبیرہ ہے۔ قرآن پاک میں اسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے غیبت کے گناہ کے ازالے کے لیے آدمی کو فکرمند ہونا چاہیے۔ دنیا میں اس کا ازالہ نہ کیا جاسکا تو آخرت میں اس کا عوض دینا بہت مشکل ہوگا۔  اللہ تعالیٰ ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو دنیا میں راضی رکھنے کی توفیق سے نوازے، آمین!


ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی۔ وہ دونوں روزے سے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی تو ان دونوں سے فرمایا: تم دوبارہ وضو کرو، دوبارہ نماز پڑھو، اور جو روزہ رکھا ہے، اسے مکمل کرو لیکن اس کی قضا بھی کرو۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کس وجہ سے؟ آپؐ نے فرمایا: تم نے فلاں آدمی کی غیبت کی ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

غیبت کرنے والے کا وضو، نماز اور روزہ سب ناقص ہوتے ہیں۔ ان سے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے جو ان عبادات سے مرتب ہونے چاہییں۔ تزکیۂ نفس اور ایمان میں اضافہ او رتعلق باللہ حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب شخص کی نیکیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ لوگ اس حقیقت سے بے خبری کی وجہ سے ایک طرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں کہ عبادات تو ادا کر رہے ہیں۔ تاجر ہو تو مال میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ دودھ میں پانی، ناقص گوشت اور کم تولنا، دیگر اشیاے خوردونوش میں ایسی چیزوں کی ملاوٹ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کسی محکمے کا افسر ہے تو خیانت اور کرپشن اور رشوت کے ذریعے مال بنا رہا ہے۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہے، لیکن دل دنیا پرستی، زرپرستی اور شاہ پرستی کے مرض میں مبتلا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ روزے کو مکمل کرو اور اس کی جگہ ایک روزہ قضا بھی کرو، کا معنی یہ ہے کہ روزہ غیبت کے باوجود ٹوٹتا نہیں ہے لیکن ناقص ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ایسا روزہ رکھو جو غیبت اور دوسرے کبیرہ گناہوں سے پاک ہو۔ دوبارہ وضو کرنے، دوبارہ نماز پڑھنے اور روزہ قضا کرنے سے غیبت کا گناہ ختم نہیں ہوتا۔ غیبت کا گناہ اس وقت ختم ہوگا جب اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہے معافی طلب کی جائے اور اگر وہ فوت ہوگیا ہو تو اس کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ارشادات میں اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ اس کو اس حدیث کے ساتھ شامل سمجھا جائے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں ان پر رات کے وقت بارشیں برسائوں اور دن کے وقت سورج طلوع کروں اور انھیں گرج کی آواز نہ سنائوں۔ (مسند احمد)

جب بندے اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان ہوجائیں، اور اس کے کام کرنے لگیں تو اللہ بندوں کے کام خود کرنے لگتا ہے۔ ہوائیں ان پر بارشیں برساتی ہیں، سرسبز ی و شادابی ملتی ہے، خوش حالی حاصل ہوتی ہے، معاشی حالت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ دنیا میں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، رات کو بارشیں اور دن کو سورج نمایاں نظر آتا ہے اور گرج و چمک کی تکلیف سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی خوش حالی اور معاشی استحکام کا حصول اور تکالیف اور پریشانیوں سے نجات ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی دنیا بھی بناتے ہیں اور آخرت بھی سنوار دیتے ہیں۔ ان کی دنیا کی ہر طرح کی پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ وہ کسی معمولی تکلیف سے بھی دوچار نہیں ہوتے، سورج کو بادل نہیں چھپاتے اور بارش پھر گرج اور چمک کے ساتھ برستی ہے۔ وہ اپنے گھروں میں آرام اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی بندگی میں کیوں سستی کی جائے، اس کے کاموں کے ذوق و شوق اور جذبے میں کیوں کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، آمین!