نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے اس واقعے کو ایک ’جرم‘ قرار دینے کے بجائے ’جنگ‘ کا نام دیا۔ پھر دُنیا بھر میں جنگ کا بگل بجانے کے ساتھ اسی امریکا نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالکلیہ نظرانداز کر دیا اور آگے بڑھ کر دومسلم ملکوں: افغانستان اور عراق پر اندھادھند فوج کشی کر دی۔ تمام مغربی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک نہ رُ کنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔محض شبہہ کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کر نے والے اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا اغوا، تفتیش میں تو ہین آمیز اور انسانیت سوز سلوک، حق دفاع سے محرومی، دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی،قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر وحشیانہ فوج کشی، کارپٹ بم باری اور سرحدوں کے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ پہلے تو عالمی برادری امریکی غصّے سے خوف زدہ ہوکر ان اقدامات کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی، مگر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سلسلہ جوں جوں طول کھینچنے لگا تو اس کے خلاف آوازاُٹھنے لگی۔
۲۰۰۹ء میںجنیوا میں قانون دانوں کے عالمی کمیشن کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک نہایت قیمتی رپورٹ شائع کی تھی:War on Terror for Eroding Human Rights۔ اس پینل کی سر براہ آئر لینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں۔ ان کے ہمراہ دُنیا کے کئی ماہرین قانون اور نیک نام سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پربھر پور گرفت کی گئی ہے، جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے نام پر بنائے گئے ہیں، اور جن کی زد بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو ’جنگ‘ نہیں، بلکہ ایک ’جرم‘ اور انسانیت کے لیے خطرے سے تعبیر کیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اس کے انسداد کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ذیل میں اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جن سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بھی پتا چلتا ہے اور ان کی خامیوں پر بھی روشنی پڑتی ہے:
’’دہشت گردی سے جو خطرات در پیش ہیں، ان کو ہلکا سمجھنا ایک غلطی ہوگی۔ان خطرات کا مقابلہ ریاستی سطح پر لازم ہے، مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں، بلکہ ان کے منفی نتائج رونما ہور ہے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں سے جو نقصان ہوا ہے، اس کا تدارک کر نے کے لیے عالمی،علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
’’بہت سی ریاستیں اس آڑ میں خوداپنے معاہداتی اور روایتی قانون کے تقاضوں سے انحراف کی راہوں پر بے دھڑک دوڑ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی ہے۔ نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خوف نے عالمی حقوق انسانی کے بنیادی قانون (بشمول پہلے سے طے شدہ اصول: ٹارچر،ظالمانہ اور غیرانسانی تو ہین آمیز سلوک،افراد کا اغوا اور غیر منصفانہ مقدمات کی ممانعت) کو پامال کر دیا ہے۔
’’لبرل جمہوری ریاستیں ماضی میں انسانی حقوق کے اصولوں کا دفاع کرتی رہی ہیں، مگر اب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کر کے عالمی قانون کو رفتہ رفتہ کم زورکر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں دوسری حکومتوں کی ان کا رروائیوں میں، جوحقوق کی پامالی کا ذریعہ ہیں، شریکِ کار ہیں، یا کم از کم خاموش رہ کران کی سرگرم ساتھی بن رہی ہیں۔
’’دہشت گردی کا مقابلہ کر نے کے لیے فوج داری قانون ہی مقابلے کا اوّلین ذریعہ ہونا چاہیے۔ ہماری تحقیقات اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں نے دہشت گردی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ قوانین وضوابط اور آزمودہ طریقوں کو اپنانے سے تو احتراز ہی کیا ہے، لیکن اس کی جگہ دوسری انتہا کو اختیار کرنے کے وسیلے اور بہانے تلاش کیے ہیں۔ تاہم، اگر ریاستوں کو عوام کی زندگی اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر نا ہے، تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مروّجہ فوج داری عدالتی نظام ہی اوّلین فریم ورک ہونا چاہیے۔
’’نائن الیون کے بعد بہت سے قوانین اور پالیسیوں کو غیر متعین مدت کے لیے بلامقد مہ حراست اور فوجی عدالتوں وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جار ہا ہے، حالاں کہ ماضی میں بھی یہ حربے آزمائے گئے اور اکثر وبیش تر نا کام رہے ہیں۔ مثلاً یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک آزادسویلین عدلیہ برقرار رکھی جائے، جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر جواب دہی کو یقینی بنائے۔
’’ریاستوں نے احتیاطی تدابیر مثلاً: ملک بدری، پابندیوں کے احکام، دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی فہرست پر انحصار بڑھادیا ہے۔ ہم کوتشویش ہے کہ غیر مصدّقہ شواہد اور ناقص خفیہ معلومات کوافراداورتنظیموں کے خلاف اقدام کر نے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور اپیل کا حق سلب کیا گیا ہے، جس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہور ہے ہیں۔
’’پوری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں نے نئے اختیارات اور خطرناک حد تک مؤثر وسائل و آلات حاصل کر لیے ہیں، جب کہ قانونی اور سیاسی جواب دہی بالکل ہی مفقود ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قابلِ اعتمادخفیہ معلومات بلاشبہہ ضروری ہیں، لیکن ساتھ ہی جواب دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے باہمی تعاون کے لیے واضح پالیسیاں اور طریق کار طے کیے جائیں۔
’’بہت سی ریاستوں میں مشتبہ دہشت گردوں کی حراست اور تفتیش پر راز داری کا پردہ پڑا ہوا ہے، جس سے ٹارچر، ظالمانہ،غیرانسانی اور توہین آمیز طر یقوں کو راستہ ملتا ہے، جب کہ ایسی خلاف ورزیوں پر سزا کا خوف بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں عدالتوں اور وکلا تک تیز رفتار اور مؤثررسائی ممکن بنائی جانی چاہیے، تا کہ اس قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے نجات مل سکے۔
’’امریکا کی قیادت میں اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں اور انسان دوست قانون (Humanitarian Law)کوبہت سخت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کو استحصال پرمبنی قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کو، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ ہیں، واضح طور پر مستر دکر نا چا ہیے۔ ماضی کی خلاف ورزیوں پر شفاف اور جامع تحقیقات کروانی چا ہیے اورمتاثر افرادکومناسب تلافی دینی چا ہیے‘‘۔
۲۵۰ صفحات پرمشتمل رپورٹ کے یہ چند اہم نکات ہیں۔ ان سے نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردی سے متعلق بنائے جانے والے عالمی قوانین میں موجود خامیوں اور حکومتوں کی فسطائیت کا پتا چلتا ہے۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے:
اللہ تعالیٰ اس کائنات کا مالکِ حقیقی ہے ۔ وہ دنیا میں امن وسلامتی چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے۔ طاقت ور کم زوروںکا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کر دیں۔ دنیا میں ظلم وفسادا ورقتل وغارت گری کا بازار گرم ہواور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے، دھن دولت، لا لچ ،ہوس،جہاں گیری اور کشور کشائی کے لیے انصاف کا خون بہایا جائے۔ چنانچہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کومحترم ٹھیراتے ہوئے ’’ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیا ہے‘‘(المائدہ۵:۳۲)۔دوسری طرف فتنہ وفساد کوقتل سے بڑھ کرسنگین جرم قرار دیاہے۔(البقرۃ۲: ۱۹۱)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بر پافتنہ وفساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کیا ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۲۵۱ (البقرۃ۲:۲۵۱) ،اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو ز مین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیاوالوں پر اللہ بڑ افضل والا ہے۔
اسی طرح بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کوا پنی ربوبیت کی تدابیر کے ذریعے سردکرتا ہے:
كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ ۰ۙ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۶۴(المائدہ ۵:۶۴) یہ لوگ جب بھی جنگ اور خون ریزی کی آگ بھڑ کا تے ہیں تو اللہ اس کو بجھادیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد بر پا کر نے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اللہ تعالی مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔
ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتاہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو عبادت گا ہیں تک محفوظ نہ رہتیں اور وہ منہدم کر دی جاتیں، مگر اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے، تا کہ فساد رُک جائے۔ (الحج۲۲:۴۰)
جولوگ دہشت گر دی پھیلا نے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک مجرموںجیسا برتاؤ کیا جانا چا ہیے۔ ان کو وہ مقام ہر گز نہیں دیا جانا چاہیے، جو ان جنگجوئوں کا ہوتا ہے جور یاستوں سے بر سرِ جنگ ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت بھی یہی ہے۔ برطانیہ کا قانون دان کوئیس کونسل جیفرے را برٹسن اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے :
ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون نا کام ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۱۵ کا اطلاق صرف ان حملوں پر ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کر یں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی اب تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کر نے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گر داور قانون نافذ کر نے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔
مراد یہ ہے کہ قرآن مجیدنے دہشت گردانہ افعال کوفساد فی الارض سے تعبیر کیا ہے اور اس کے انسداد کے لیے تمام ممکن وسائل وذرائع اختیار کر نے کی ہدایت کی ہے:
اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۰ۭ (المائدہ ۵:۳۳) جولوگ اللہ اوراس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور ز مین میں اس لیے تگ ودوکر تے پھرتے ہیں کہ فساد بر پا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔
اس سخت ترین سزا کا دائرۂ مجرمین تک محدود ہے۔ قانون کا یہ مسلّمہ اصول ہے کہ کسی فردیار یاست کو کسی دوسرے کے جرم کی پاداش میں سزانھیں دی جاسکتی۔انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہیں، جنھیں دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا وبرطانیہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱کے مطابق فرد یا گروہ کا ایسا طرز عمل جوکسی ریاست کی جانب سے نہ ہو، بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔
قرآن مجید نے دوسری قوموں سے کیے گئے معاہدوں کی پاس داری کی تلقین کی، حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی صلح کوتر جیح دی جائے۔ اگر دشمن صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس سے صلح کرلی جائے۔ چنانچہ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ ہواور وہ قوم اپنے یہاں کے مسلمانوں پر ظلم ڈھارہی ہوتو اس کے خلاف جنگ چھیڑ نا درست نہیں ہوگا ،جب تک کہ معاہدے کو ختم کر نے کا اعلان نہ کر دیا جائے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۰ۭ ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۶۲ۙ (الانفال۸:۶۱-۶۲) اوراے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جانے والا ہے۔ اور اگر وہ دھو کے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائیدکی۔
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۸ۧ (الانفال۸: ۵۸)’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہوتو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آ گے پھینک دو۔ یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔
دنیا کا ایک مسلّمہ قانون یہ ہے کہ اگر کسی پر الزام لگایا جا ئے تو جب تک وہ الزام ثابت نہ ہو جائے اسے مجرم نہیں قرار دیا جاسکتا اورنہ ا سے سزا کامستحق سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی کو پھانسی دینے سے پہلے عدالت میں اس کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کا کوئی جرم نہ امریکا کی طرف سے دنیا کے سامنے لایاگیا، اور نہ بین الاقوامی عدالت میں اسے ثابت کیا جا سکا، بلکہ اسے سرے سے پیش ہی نہیں کیا گیا ،بلکہ اس کے بغیر اس کے خلاف فوج کشی کر دی گئی۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں عام آبادی،معصوم بچے،عورتیں، بوڑھے اور مریض ہلاک ہوئے۔
امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘کے نام پر نہ صرف افغانستان کو تاراج کر دیا، بلکہ اس نے افغانستان کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں ڈرون حملوں کے ذریعے وہاں کی عام آ بادی کو نشانہ بنایا ،چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔بہت پہلے امریکی ادارے’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ (ACLU)نے اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیاتھا کہ یمن، صومالیہ اور پاکستان میں امریکا ڈرون حملوں کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے۔ محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور داڑھی کے جرم میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مردیا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید تمام فوج داری جرائم کو ثابت کر نے کے لیے گواہی کا اصول بیان کرتا ہے:
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۴ۙ (النور۲۴:۴) اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسّی (۸۰) کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرو،اور وہ خودہی فاسق ہیں۔
الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط رکھی گئی اور الزام ثابت نہ ہو نے پر اسّی (۸۰)کوڑوں کی سزا متعین کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے اثبات کے لیے کتنی سخت شرائط ہونی چاہییں۔
مغرب نے حقوق انسانی اور آزادی کا جتنا چر چا کیا، اس کے مقابلے میں اس نے حقوق پامال کیے اور آزادانسانوں کو قید خانوں میں برسوں ڈالے رکھا۔ اس کی بدترین مثال گوانتاناموجیل کے بے گناہ قیدی ہیں، جنھیں عر صہ تک قیدرکھاگیا اور ان پر مقد مہ چلائے بغیر رکھا گیا۔
قرآن مجید، تمام انسانوں کے حقوق کی پاس داری کی یکساں تعلیم دیتا ہے۔انسانی جان کی حُرمت کو وہ سب کے لیے یکساں طور پر ہمیشہ اور ہر جگہ تسلیم کرتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ (المائدہ ۵:۳۲) جوکوئی کسی نفس کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کوقتل کیا ہو، یازمین میں فساد پھیلا یا ہوتو اس نے گویا سب انسانوں کوقتل کیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
مساوات انسان کا بنیادی حق ہی نہیں ہے، بلکہ تمام حقوق کی اصل بنیاد ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی منشور میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کے متعلق کہاگیا ہے کہ یہ حقوق سب کو یکساں حاصل ہوں گے۔ ان میں نسل، رنگ، جنس (مرداورعورت)، زبان، مذہب، سیاسی یا دیگر افکاروخیالات، سماجی ومعاشی حیثیت اور جائے پیدائش کی بنیاد پرفرق وامتیاز نہیں کیا جائے گا۔
فرعون کے بارے میں قرآنِ عظیم میں کہا گیا ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۴ (القصص ۲۸:۴) بے شک فرعون نے ارضِ مصر میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں ایک فرقہ (بنی اسرائیل) کو کمزور بنائے رکھتا،ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا اوران کی عورتوں کوزندہ رکھتا۔بے شک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔
انسانوں کے درمیان مساوات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب کے ساتھ عدل وانصاف ہو اور کوئی بھی شخص ظلم وزیادتی کا ہدف نہ بننے پائے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (الحدید۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۸(المائدہ۵:۸)کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر ہرگز آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ جو کچھ تم کرتے اس سے باخبر ہے۔
اسلامی قانونِ شہادت کے تحت کسی شخص کو قید و بند کی سزا اس وقت دی جائے گی، جب قابلِ اعتمادشہادتوں سے ثابت ہوجائے کہ واقعتاً اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اس سزا کا مستحق ہے۔ قرآن مجید میں یہود کے ان مظالم کا حوالہ دیا گیا ہے جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ وہ ایک گروہ کوان کے گھروں سے نکالتے، انھیں قید کرتے،پھران سے فد یہ وصول کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے اور اسے میثاقِ الٰہی کو توڑنے کے مترادف قرار دیا ہے۔(البقرۃ۲:۸۳-۸۵)
گذشتہ برسوں میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ابوغریب(عراق)اور گوانتانا موبے کے قیدخانوں میں قیدیوں کی تذلیل وتو ہین او را نسانیت سوز ٹار چر کے جومناظر دکھائے تھے، وہ روح فرسا، اذیت ناک اور خون کے آ نسور لانے والے تھے۔ قیدیوں کو ما در زادننگا کر کے انھیں ایک دوسرے پرایسے ڈھیر کردیا جاتا تھا، جیسے وہ انسان نہیں کوڑا کرکٹ ہوں۔ بے لباس قیدیوں کوز نجیروں کے ذریعے دیوار سے باندھ کران پر کتّے چھوڑے جاتے تھے اوران کی بے بسی پر قہقہے لگائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ جنسی حرکات کرتے ہوئے تصویرکشی کی جاتی تھی۔ گوانتا نا مو بے کے قیدیوں کو خاص طور سے گز بھرمربع جگہ میں رکھاگیااور ان کے چاروں طرف خار دار تار وںمیں بجلی کا کرنٹ دوڑا دیاگیا۔ان جیلوں میں کیا کچھ ہوا اس کی محض چند جھلکیاں ہی مہذب دنیا کے سامنے آسکیں، ورنہ بہت کچھ پردئہ خفا ہی میں رہا۔
قرآن مجید میں حدود و قصاص کے ضمن میں بعض سزاؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن پر مغرب نے ہمیشہ اعتراضات کیے اور ان کوحقوقِ انسانی کے خلاف باور کرانے کی کوشش کی، مگر دہشت گردی کے انسداد کے نام پر اس نے ایسی ایسی سزائیں ایجاد کی ہیں کہ خدا کی پناہ! بہرحال قرآن مجید ایسی سزاؤں کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید میں حد ودو قصاص کے ضمن میں واضح اصول بیان کیے گئے ہیں اوران کا نفاذمتعین طور پر صرف مجرموں پر ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مشتبہ افراد کو غیر معینہ مدت تک انسانیت سوز سزائیں دی جاتی رہیں۔
ڈکیتی وغیرہ کی متنوع سزاؤں کے باوجودقر آن نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ اگر مجرم گرفت میں آنے سے پہلے تو بہ کر لے تو اس سے سز اساقط ہو جائے گی:
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ۰ۚ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۳۴ (المائدہ ۵:۳۴) مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اسلام میںارتداد کی سخت سزا رکھی گئی ہے، یعنی قتل، مگر اس کے باوجوداس کو تو بہ کی مہلت دی جائے گی۔اگر وہ تو بہ کرلے تو اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مجرم اگر اصلاح پر آمادہ ہوتواسے اس کا موقع دیا جائے گا۔جن مجرمین پر سزا کا نفاذ ہونا ہوان کی تذلیل وتحقیر کی اجازت نہیں دی گئی ہے، بلکہ جومتعین سزا (حدود یا قصاص) بیان کی گئی ہے صرف وہی نافذ کی جائے گی۔ یہ سزائیں صرف ان لوگوں پر نافذ کی جائیں گی، جوحقیقت میں مجرم ہوں اور جرم ثابت کرنے کے لیے تمام عدالتی کارروائیاں پوری غیر جانب داری کے ساتھ انجام پائی ہوں اور جرم اپنے جملہ شرائط کے ساتھ ثابت ہو چکا ہو لیکن اگر ثبوت میں کسی بھی پہلو سے اشتباہ ہوتو یہ سزائیں نافذنہیں ہوں گی، البتہ ریاست کو مجرم کی تعزیر کا حق ہے۔
امن کے اصل معانی نفس کے مطمئن اور بے خوف ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے امانت ہے، جو خیانت کی ضد ہے۔ امین کو امین اس لیے کہا جا تا ہے، کہ اس کی نیک معاملگی پر دل مطمئن ہو تا ہے۔ جواُونٹ قوی اور مضبوط جسم کا ہوا سے’ مامون‘ کہا جا تا ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی نیند کے لیے قرآن مجید نے اَمَنۃً نُعَاسًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ان کے معنیٰ ہیں ایسی نیند جس سے دماغ کو راحت وسکون اور دل کو اطمینان حاصل ہو۔ امن خوف کی ضد ہے، یعنی مستقبل میں کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے دو چار ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی سے مستامن ہے، جس کا اطلاق اس حربی پر ہوتا ہے جواسلامی حکومت سے امان نامہ حاصل کر کے دارالاسلام میں بے خوف ہوکر رہتا ہو۔ گویا امن ایسے حالات کا نام ہے، جن میں ہرشخص یا فریق اپنے تحفظ کے سلسلے میں دوسرے کی طرف سے بالکل بے خوف اور مطمئن ہو۔ سلم،سلام اور اسلام کے الفاظ کا استعمال امن کے مترادف کے طورپرہوتا ہے۔
قرآن مجید میں فرد کی تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، تا کہ وہ ربّ کی مرضی اور امن وسلامتی کی راہ پر گام زن ہو سکے ۔ اسلام امن وسلامتی انفرادی اور سماجی سطح پرہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم کرنا چاہتا ہے، تا کہ ہرمتنفس اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ قرآن مجید میں مختلف اخلاقی اوصاف کا تذکرہ کیاگیاہے، مثلاً ذکر، شکر، تقویٰ، توکل، صبر، توبہ واستغفار،شرم وحیا، احسان، صداقت، خوش اخلاقی، ایفائے عہد، امانت، عدل وانصاف، تواضع، رحم دلی، عفوودرگزر، خیر خواہی،مساوات، وغیرہ۔ اسی طرح فضول خرچی، سودخوری، رشوت، بدکاری، کبر وغرور،جھوٹ، فریب، غصہ ،خیانت ،چوری، شراب نوشی، جوا وغیرہ سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اگر افراد میں یہ اعلیٰ صفات پیداہوں تو ایک پُرامن معاشرہ وجود میں آئے گا۔
اسلام کی رُو سے سماج میں پائے جانے والے تمام طبقات اور گروہوں کے درمیان باہمی تعاون، رحمت و محبت اورامن وسلامتی کا تعلق پایا جا تا ہے۔اس کی بنیاد حقوق وفرائض کے متوازن اور معتدل تصور پر قائم ہے۔ قرآن مجید میں حقوق وفرائض کی صرف قانونی دفعات ہی مذکورنہیں ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں لوگوں کے درمیان اخوت ومحبت پیدا کر نے کی تدابیر بھی بیان ہوئی ہیں۔
معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بغض ونفرت اور خوف و ہراس پیدا کر نے کے ذرائع سے بچنے کی تا کید کی گئی ہے۔ اظہارِ کبر،بے رخی برتنے اور کرخت آواز میں بات کرنے سے منع کیاگیاہے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی تعلیم دی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ اس طرح دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔(حم السجدۃ ۴۱:۳۴)
اصولی طورپر یہ بات بہت واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے کہ باہمی تعاون ہمیشہ اچھے، نیک ،بھلائی اور خداترسی کے کاموں میں کیاجائے اور فتنہ وفساد، ظلم وزیادتی اور بغاوت وسرکشی کے کاموں میں ہرگز نہ کیاجائے(المائدہ۵:۲)۔ایسے طبقات کی نشان دہی کی گئی ہے جو تقویٰ اور حُسن سلوک کے مستحق ہیں اور جن کی مالی معاونت معاشرے میں امن وامان کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے۔ (الضحٰی ۹۳:۹-۱۰،الذاریات۵۱:۱۹)
اس حکم کے ساتھ تعاون باہمی میں رکاوٹوں کا بھی سدّباب کیاگیاہے۔ مثال کے طورپر خودغرضی باہمی تعاون میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ازالے کے لیے ایثار کا حکم دیا گیاہے(الحشر۵۹:۹)۔خود غرضی کی سب سے نمایاں مثال سود ہے، اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے(البقرۃ۲:۲۷۵)۔اس کے ساتھ ناپ تول میں کمی بیشی کو بھی ممنوع قرار دیاگیاہے (المطفّفین۸۳:۱-۳)، کیوں کہ یہ سب چیزیں بدامنی پیداکرتی ہیں اور اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتاہے۔قرآن مجید میں ایسے تمام افعال کو فساد فی الارض قرار دیاگیاہے، جن سے لوگوں کے مال واسباب میں خسارہ ہو۔(الشعراء۲۶:۱۸۳)
درج بالاتعلیمات، قرآن مجید میں عام پیرایے میں بیان ہوئی ہیں،جن کے مخاطب افراد بھی ہیں اور جماعتیں بھی اور حکومتیں اور ریاستیں بھی۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید معاشرے میں امن وسلامتی قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی بھی تلقین کرتاہے اور زمین سے فتنہ وفساد کے خاتمے کو پوری امت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے(اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)۔ وہ مسلمانوں پر بحیثیت خیرِ اُمت یہ ذمہ داری بھی ڈالتاہے کہ روئے زمین سے فتنہ وفساد کی ممکنہ تمام شکلوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے وہ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتاہے(النساء۴:۷۵)۔ اس کے ساتھ وہ حکومت اور قانون کو بھی بروئے کارلانے کی تاکید کرتاہے، تاکہ تمام شہریوں کو سماجی اور سیاسی عدل وانصاف حاصل ہواور امن وامان کا ماحول باقی رہے (النساء۴:۵۸، الحدید۵۷:۲۵)۔اسلامی ریاست کے فرائض میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے حدود وقصاص کے نفاذ کا حکم دیاگیاہے۔
اسلام جس امن وامان کو انفرادی اور قومی سطح پر قائم کرنا چاہتاہے اس کو وہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتاہے۔ چنانچہ وہ مختلف اقوام سے امن معاہدات کرنے اور امن کی پابندیوں کو کرنے کا حکم دیتاہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدہ۵:۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے عہد وپیمان پورے کرو۔
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ (النحل۱۶: ۹۱) اور اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو، جب کہ تم اسے باندھ چکے ہو پورا کرو۔
اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر امن و امان کو فروغ ہوگا، افراد اپنے بنیادی حقوق سے بہرہ ور ہوں گے، ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا، ظالموں کی سرکوبی اور مظلوموں کی داد رسی ہوگی، اور ایک پُر امن معاشرہ وجود میں آئے گا۔