مارچ ۲۰۲۴

فہرست مضامین

روزے کا مقصد اور حقیقت

پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق | مارچ ۲۰۲۴ | استقبال رمضان

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے، اس پر عمل اور بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاءؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)

صوم کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

رمضان کے مہینے کی عظمت

رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم) 

حضرت عبداللہ ؓبن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ’’روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا‘‘۔ پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔

روزے کی حقیقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت بیان کی گئی ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔ ( بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(دارمی ،  مشکوۃ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس میں مانع ہے)۔ (بخاری ومسلم ، مشکوٰۃ)

روزہ ڈھال ہے جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو۔(نسائی)

مندرجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزہ کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔

روزہ گذشتہ گناہوں کا کفّارہ

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ یعنی کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کےروزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

  • حقیقی روزہ : وہ روزہ ہے جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے اور یہی ان اعضا کا روزہ ہے اور یہی حقیقی روزہ ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی امید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
  • آنکھ کا روزہ: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ  بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝۳۰ (النور۲۴:۳۰) ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا ۔(رواہ الحاکم )

  • کان کا روزہ: حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔
  • زبان کا روزہ: زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے ، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے ، نہ جہالت کا کوئی کا م کرے ، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔( بخاری)

کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن اسی اللہ نے قرآن مجید میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے، اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں ،نعوذ بک من ذٰلک!

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲ (الحجرات ۴۹:۱۲)اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

  • منہ اور پیٹ کا روزہ: افطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘ (احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم)۔اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینےیا کھانے میں مشغول ہو جائے۔

افطار کے وقت روزہ دار حالتِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

  • دل کا روزہ: دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو، وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی جائے ۔
  • بقیہ اعضاء کا روزہ: ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶  (بنی اسرائیل۱۷: ۳۶) ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے‘‘۔
  • رمضان کی آخری شب مغفرت کا پروانہ ہـے:  ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں۔ عر ض کیا گیا: یا رسول ؐاللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:نہیں۔ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘(مسنداحمد)، یعنی جب وہ پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائےا ور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!

 ضروری نوٹ: راقم کو اپنی دعا ؤں میں(خصوصاً افطار کے وقت) یاد رکھنے کی درخواست ہے!