نومبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

ڈاکٹر یوسف القرضاوی مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۲۲ | یاد رفتگاں

Responsive image Responsive image

انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی متاع دو صورتوں میں سامنے آتی ہے: پہلی ایمان اور دوسری دانش۔ دانش اگر ایمان کے بغیر ہو تو بعض اوقات وہ انسانیت کے لیے ضرررسانی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے بلکہ انسانی تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے۔ آج ہمارے گرد پھیلی سماجی تاریکی کا ایک بڑا سبب یہی ’بلاایمان دانش‘ ہے۔ نہایت عزیز اور محترم بھائی، ڈاکٹر محمدیوسف القرضاوی، ہمارے عہد میں ایمان اور دانش سے رچے ایک عظیم رہنما اور ایک قابلِ رشک عالم دین تھے، جو ۹۶برس کی عمر میں ۲۶ستمبر۲۰۲۲ء کو خالق حقیقی سے جاملے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

ہر صاحب ِعلم و فضل انسان اور تحریک اسلامی کے کسی بھی حبیب کی جدائی میرے دل پر گہرا زخم لگاتی ہے ، جس کی کرب ناکی دل اور روح کی پنہائیوں میں محسوس کرتا ہوں، اور جس کا اثر، تادیر اعصاب پر رہتا ہے۔ ایسے پے درپے صدمات کو بار بار دیکھا اور جھیلا ہے، اور اپنے ربِّ جلیل کے ان برحق اور اٹل فیصلوں کو اسی کی ہدایت کے مطابق برداشت کرنے کی کوشش کی ہے مگر امرواقعہ ہے کہ محبی و مکرمی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کے بعد، جناب القرضاوی کی جدائی، دوسرا بہت بڑا صدمہ ہے۔ اور یہ بات کسی مبالغے کے طور پر نہیں کہہ رہا، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اس بڑی محرومی کا تذکرہ کر رہا ہوں، جس کی بہت سی جہتیں ہیں، مثلاً یہ کہ:

  • سب سے اوّلین اور بنیادی قدر تو یہ ہے کہ القرضاوی جیسے عالی دماغ نے ایمان کی لذت پانے کے بعد اپنی زندگی کا مقصد دین اسلام کی خدمت قرار دیا۔ امام حسن البنا شہیدؒ کی طرف سے دعوتِ دین اور طریق کار کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا اور الاخوان المسلمون سے وابستگی کا کانٹوں سے اَٹا ایک مشکل راستہ چُنا۔پھر پوری زندگی اسی مقصد کے لیے اپنی صلاحیتیں، اپنی کوششیں ، اپنے خواب اور اپنے مادی مستقبل کو تج دیا۔ دورِ جوانی ہی میں انھیں اپنے وطن مصر کو چھوڑنا پڑا، اور پھر زندگی کے بقیہ ۶۲برس کے طویل عرصے پر محیط   جلاوطنی کی زندگی میں کسی طرح کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے۔
  • دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنی ذہنی ، فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو تحقیق و جستجو، اور عصرحاضر میں اسلام کے پیغام کی اشاعت کے لیے مخصوص کر دیا۔ آپ کے قلم نے ایمانیات سے لے کر اجتماعیات تک، قوانین سے لےکر تنظیمی اُمور تک، دعوتی پہلو سے لے کر تربیتی اُمور تک اور اسلام کے پیغام کو پیش کرنے سے لے کر اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے تک، ہرزاویے کو برتا اور ہراسلوب کو اختیار کرکے حق کی برملا گواہی دی۔ ان کے ہاں ایک طرف قرآن و حدیث سے استدلال ہے تو دوسری طرف منطق اور کلام کا رنگ نمایاں ہے۔ ایک جگہ خطیبانہ آہنگ ہے تو دوسری طرف وکیلانہ دھیماپن دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ ایک جگہ تاریخ سے استشہاد ہے تو دوسری جگہ عصرحاضر کے احوال و ظروف میں منفرد طرزِ بیان کی وسعتوں کا آہنگ۔ فہم کو مہمیز دینے کے لیے ادب کی چاشنی اس پر سوا ہے۔
  • ان کی تیسری نہایت متاثر کن خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام حیثیتوں پر، ایک معلم کی حیثیت کو غالب رکھا۔ معلّم کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ علم بانٹتا ہے، وہ نئی نسل کو اُس شاہراہ پر چلاتا ہے کہ جسے اُس نے خیر کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ الاستاذ قرضاوی مرحوم نے تعلیمی نظام کی بہتری اور اسے اسلامی تصورِ تعلیم سے مربوط کرنے کے لیے گراں قدر کوششیں کرکے: الجزائر، مراکش، سوڈان اور قطر کی یونی ورسٹیوں اور تعلیم و تحقیق کی دُنیا میں نئی راہیں کشادہ کیں۔ دوسری جانب غیرعرب ممالک پاکستان، انڈونیشیا، ملایشیا اور ترکی میں جس قدر امکان اور گنجایش میسر آئی، انھوں نے نظامِ تعلیم کی سمت درست کرنے کی کوشش کی۔
  • چوتھے یہ کہ وہ ایک محقق اور منفرد شان کے حامل مفکر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ اسلامی احیائی تحریک کے ایک کارکن، ایک لیڈر اورایک داعی بھی تھے۔ اس حیثیت سے انھوں نے بڑی باریک بینی سے تحریک و تنظیم کے عملی اور داخلی و اجتماعی اُمور پر شان دار رہنمائی کے لیے کتب اور مقالات لکھے۔ دعوت و تربیت کے عملی اور اطلاقی پہلوئوں پر زور دیا۔ تحریک اسلامی میں اختلاف رائے کو اتفاق و ترقی کا وسیلہ بنانے کے اصول ذہن نشین کرائے، اور وقت کی گرد ہٹا کر تحریک اور تحریک کے کارکنوں کو ندرتِ خیال اور روشن خیال راستوں کا سراغ دیا۔
  • پانچویں یہ کہ ایک فقیہ اور روحِ عصر کے نباض کی حیثیت سے انھوں نے انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھتے ہوئے اسلام کی روشنی میں اسے حل کرنے کے لیے گراں قدر کتب تحریر کیں۔ اُن میں کتاب فقہ الزکوٰۃ کے پائے کی کوئی دوسری کتاب پیش نہیں کی جاسکتی۔ غربت کے خاتمے، بنک کے سود کی حقیقت، اسلامی اصولِ تجارت اور معاملات پر محکم دلائل اور علمی آثار کی بنیاد پہ لکھا۔اس طرح اسلامی معاشیات کے موضوع پرگراں قدر تصانیف ان سے یادگار ہیں۔
  • چھٹا یہ کہ عصرحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو، مغربی سامراجی قوتوں کی جانب سے جس ریاستی، ابلاغی، فوجی، تزویراتی اور عالمی اداراتی یلغار کا سامنا ہے، اس کے جواب میں فقہ الجہاد، جیسی جامع کتاب لکھی اورجہاد کے حوالے سے حالیہ عرصے میں خود بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں میں جو افراط و تفریط دیکھنے میں آرہی تھی، اس کی اصلاح کرتے ہوئے درست سمت کی نشان دہی کی۔

اس طرح تقریباً۱۷۵ چھوٹی بڑی کتب، اسلامیانِ علم کے لیے جناب قرضاوی کا قیمتی تحفہ ہیں، جن میں کئی کتب دُنیا کی ۴۵ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ جناب یوسف القرضاوی نے جامعیت اور انسائیکلوپیڈیائی ذہن کے ساتھ علمی کارنامہ انجام دیا۔ ’یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق‘ کے ذریعے مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی دینی و فقہی رہنمائی کے لیے ایک مؤثر ادارے کی داغ بیل ڈالی۔یوں علم و نُور کے سفر کے تسلسل کو عملی شکل دی۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی تحقیقات سے استفادے کا موقع ملا۔ پاکستان، برطانیہ اور عالمِ عرب میں متعدد مرتبہ ملنے، گفتگو کرنے اور الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں اُن کی گراں قدر آرا سے بہت مدد ملی۔ ہمارے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات تھے۔ قطر کے سفر کے دوران انھوں نے اپنے گھر پر اہلِ خانہ کے ساتھ ایک عزیز بھائی کی طرح میرا اِکرام کیا۔ بڑی دیر تک اسلامی تحریکوں کے مسائل و مشکلات پر اپنی فکرمندی اور اُمید کے حوالے سے خیالات کااظہار کرتے رہے۔ جب بھی اُن سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی تو علم و فضل کا کوئی نہ کوئی پہلو نکھر کرسامنے آیا۔

جناب قرضاوی کی اجتہادی بصیرت، اس زمانے میں ایک بڑی گراں مایہ خوبی تھی۔ تاہم، ان کی بعض آرا سے ہمیں اختلاف بھی ہوا جو علم کی دُنیا میں ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن اس اختلاف رائے کے باوجود اُن کے اخلاص،علم و فضل اور اجتہادی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا، بلکہ اُن کے اُٹھائے ہوئے نکات پر مزید غوروفکر کرکے، روحِ عصر کو اسلام کے اصولوں، پیغام اور شریعت سے متعارف کرانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ نوجوان تحقیق کاروں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی سے القرضاوی کے کارِ اجتہاد اور آثارِ اجتہاد پر باریک بینی سے کام کریں اور علم و فضل کا پرچم اس شان سے بلند کریں کہ اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!