نومبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

حماس اور غزہ __ صیہونی درندگی کا نشانہ!

خالد مشعل | نومبر ۲۰۲۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image
  • سوال: کیا ۷؍اکتوبر ۲۳ء کو اسرائیل پر حملہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے کیا گیا ہے؟
    • جواب:سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ مختلف ممالک کے درمیان جنگوں اور آزادی کے لیے مزاحمتی لڑائیوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی جنگیں دو یا دو سے زائد ملکوں کے درمیان ہوتی ہیں اور مزاحمتی جنگیں غاصب قوتوں سے آزادی پانے کے لیے عمل میں آتی ہیں۔ ہم سو سال سے زائد عرصے میں، پہلے برطانیہ کو دیئے گئے نام نہاد مینڈیٹ اور پھر صیہونی تسلط سے آزادی کے لیے برسرِپیکار ہیں۔یہ مقدس سرزمین کے دفاع اور الاقصیٰ کی بازیابی کی عالمی اور قانونی سطح پر تسلیم شدہ ایک جائز جدوجہد ہے۔ پچھلے عرصے میں صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے ساتھ شامل تشددپسند گروہوں نے طے شدہ تلمودی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مسجداقصیٰ کی باقاعدہ بے حُرمتی کی ہے۔

اس دوران دہشت گرد یہودیوں کا بار بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر شوروشغب کرنا، نمازیوں کو تنگ کرنا، مسجد کے احاطے میں مسلمانوں کو چیلنج کرکے یہودی عبادات و رسومات ادا کرنا، مسجداقصیٰ کو اپنے زیرتصرف لانے کے اقدامات کرنا اور یہاں تک کہ ہارن بجاکر مسجد کی بے حُرمتی کرنا، سب شامل ہے۔ اقصیٰ کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات شروع کیے گئے: ۱-ضحی (چاشت) کے وقت ۲-ظہر اور عصر کے درمیانی وقت اور ۳- عصر کے بعد کے وقت، مسجداقصیٰ میں مداخلت کرکے اپنے اوقات عبادات کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جو دراصل مسجد اقصیٰ کے انہدام اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے فضا بنانے کا عمل تھا۔ اس دوران غزہ اور مغربی کنارے پر لوگ اشتعال محسوس کر رہے تھے اور روز اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اپنے ہم وطن فلسطینی بھائیوں کے جنازے اُٹھا رہے تھے۔ اس صورتِ حال میں القسام بریگیڈ، حماس، الحرکۃ الاسلامیہ اور ایلیٹ فورسز نے الاقصیٰ کی حفاظت کے لیے ’الاقصیٰ طوفان‘ لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

  • یہ تو اعلانِ جنگ تھا جو حماس کی جانب سے کیا گیا اور اسرائیلی ردعمل کا اندازہ کیے بغیر کیا گیا، جس کی وجہ سے اہل غزہ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے سے پہلے وسیع مشاورت بھی نہیں کی گئی، تو کیا حماس نے یہ فیصلہ اکیلے ہی لے لیا؟
    • اس سوال سے پہلے میں القاسم بریگیڈ، ایلیٹ فورسز کے جوانوں اور دیگر مجاہد گروپوں کے مجاہدین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے یہ کامیاب حملہ کرکے دشمن اور اُس کے حامیوں اور مددگاروں کو حیرت زدہ کردیا، اور اسرائیلی برتری کے افسانے تارتار ہوگئے۔ ہم اُنھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے۔ اب اُمت مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ قضیۂ فلسطین کی نصرت کے لیے اُٹھ کھڑی ہو۔ اگر یہ کارروائی نہ کی جاتی تو مستقبل قریب میں مسجداقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ جلد از جلد ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنے کے لیے صیہونیت نے ضروری اقدام اُٹھا لیے تھے۔ یہ کارروائی نہ کی جاتی تو وہ اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اس اقدامی عمل نے انھیں اگلا قدم اُٹھانے سے روک دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مجاہد گروپوں نے’اچانک فوجی اقدام‘ سے بہترین لمحہ گرفت میں لے لیا۔ ہمارا یہ قدم اُٹھانا کوئی نیا حملہ یا پہلا حملہ نہیں ہے۔ یہ سب اُس جنگ کا تسلسل ہے جو گذشتہ ۷۰برس سے جاری ہے، اور ہم ہرلمحہ حالت ِ جنگ میں چلے آرہے ہیں۔ ہمارا یہ حملہ عالمی قوانین کی حدود میں ہمارے جائز حق کا اظہار ہے، کوئی فائول پلے نہیں ہے کہ ہم باہر سے آکر قابض ہوئے ہوں۔ ہم اپنی ارضِ مقدس بازیاب کروانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، جس کا حق عالمی برادری نے قوانین کے ذریعے ہمیں دیاہے۔
  • یہ آپ کا نقطۂ نظر ہے، دُنیا اور خاص طور پر مغربی دنیا نے جو اسکرینوں پر دیکھا وہ اسے حماس کی طرف سے خلاف ورزی سمجھتے ہیں، جو شہری آبادی پر کی گئی ہے۔ وہ اسے داعش جیسا عمل گردانتے ہیں۔
    • یہ جھوٹ ہے جو نیتن یاہو کی جانب سے گھڑا گیا۔ افسوس کہ اہل مغرب کو اس کے جھوٹ کا ادراک نہیں ہوا، اور انھوں نے اس غلط بات کو سچ شمار کرلیا۔ امریکی صدر بائیڈن نے علاقے کا دورہ کیا لیکن موصوف کو صرف اسرائیل ہی نظر آیا، اہل غزہ کے ساتھ اسرائیل نے جو کچھ کیا، اس نے اس کو مڑکر بھی نہیں دیکھا، بلکہ اسرائیلی اقدامات کی یک طرفہ تائید کی۔ یہاں تک کہ غزہ کے ہسپتال، جس میں پانچ سو سے ایک ہزار تک لوگ جان سے گئے اور زخمی ہوئے۔ اس کے بارے میں مذمتی بیان تک نہیں دیا،جب کہ اسرائیلی جھوٹے پروپیگنڈے کی حمایت جاری رکھی ہے۔ یہاں تک کہ جوبائیڈن اور دیگر مغربی لیڈروں کی ساری بھاگ دوڑ صرف صیہونیوں کی تائید کے اردگرد گھومتی نظر آرہی ہے جس سے ظالم دشمن کو مزید شہ حاصل ہوئی ہے۔ اسی کے نتیجے میں اُس نے غزہ کے عام شہریوں، مسجدوں، عبادت گاہوں اور ہسپتالوں کو بے دردی سے کچلا ہے۔ فضائی حملے کیے، بحروبر سے حملے کیے، صریح جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، اور وہ اب چاہتے ہیں کہ زور زبردستی سے اہل غزہ کو غزہ کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے اور اقصیٰ کو صیہونیوں کے حوالے کر دیا جائے۔
  • غزہ کے شہری شدید تباہی سے دوچار ہیں۔ کیا آپ نے اس بارے میں سوچا بھی تھا کہ ان حالات میں کس طرح ان کی حفاظت کا سامان ہوگا؟ آپ نے اپنی عسکری استعداد کا تخمینہ بھی لگایا تھا یا نہیں؟ کیا لوگوں کے لیے محفوظ جگہوں اور کھانے پینے اور  علاج معالجے کا سوچا بھی تھا ؟
    • کیا یہ درست ہے کہ ہمارے بہادر جوانوں نے اسرائیلی عسکری قوت کو چند گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، جب کہ ہمارے نہتے عوام تو عشروں سے باقاعدہ قتل عام کا شکار ہیں، جس کی مثال دیریاسین، بوبکر و دیگر مقامات پر، ان کی جانب سے کسی اشتعال یا مزاحمت نہ ہونے کے باوجود صیہونی جلادوں نے وحشیانہ انداز سے انھیں قتل کر دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کے حصول کی سعی، طویل جدوجہد کی متقاضی ہوتی ہے، جس کے دوران وقت، مال،جان کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ یہ ایک مشکل اور طویل کوشش سے حاصل ہوتی ہے۔ ویت نام میں ۳۵لاکھ افراد نے قربانی دی، عالمی جنگوں میں کروڑوں لوگ کام آئے، افغانستان نے پہلے روس سےاور پھر امریکا اور اس کے اتحادیوں سے جان چھڑانے کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ الجزائر نے برسوں کی جدوجہد ِ آزادی میں ۶۰لاکھ افراد کی شہادت پیش کی۔ ہم بھی اس جدوجہد کی حالت میں ہیں اور صیہونیت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہم آزادی کے راستے پر گامزن ہیں اور آزادی ہمارا مقدر ہے۔
  • اسرائیل کے زمینی حملے سے قبل ہی اندرونِ غزہ کی صورتِ حال بہت گمبھیر ہوچکی تھی۔ کیا اس حملے کے بعد کی صورتِ حال کا ادراک کیا گیا ہے؟
    • ہمارے فیصلے اندرونی و بیرونی قیادتوں کے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں، جب کہ میدانِ عمل میں فیصلے موجود قیادت حالات کا احاطہ کرنے کے بعد کرتی ہے کہ کیا قدم اُٹھانا ہے اور کس طرح دشمن کے ردعمل کا دفاع کرنا ہے اور کون سا اقدام اُٹھانا مفید ہے؟ یہ مجاہد قیادت کے میدانِ جہاد کے فیصلے ہیں جنھیں حماس و دیگر احباب کی تائید حاصل ہے۔ جہاں تک دشمن کی پیش قدمی کے ارادے کی بات ہے تو یہ پہلا موقع نہیں، موجودہ تاریخ کا پانچواں معرکہ ہے۔ اس سے پہلے بھی فلسطینیوں نے ہرطرح کی قربانیاں پیش کی ہیں اور مسلسل پیش کر رہے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے بھول جائیں کہ ہم نے ۷؍اکتوبر کو ایک بڑا کامیاب حملہ کیا ہے۔ دیکھیے مغربی کنارے میں موجود فلسطینیوں نے تو جہادی مزاحمت ترک کر رکھی ہے۔ مَیں وثوق سے کہتا ہوں کہ دس ہزار بے قصور فلسطینیوں کو قیدوبند میں رکھا گیا ہے۔ پہلے ساڑھے پانچ ہزار قیدی تھے، جب کہ پچھلے چندماہ میں ان کی تعداد دس ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ استعماری صیہونی فلسطینیوں کو ہرحال میں قتل اور قیدوبند سے دوچار کرتے جاتے ہیں، چاہے کہیں مزاحمت ہو یا نہ ہو۔ ابھی انھوں نے وہاں ایک جگہ بہت سے افراد کو بلاسبب قتل کیا ہے، جب کہ مغربی کنارے میں معاہدات کے تحت مراعات دی گئی تھیں۔
  • مغربی ممالک کا الزام ہے کہ حماس نے اسرائیل کے غیرعسکری شہریوں کے خلاف فوجی کارروائی سے زیادتیاں کی ہیں، لہٰذا اسرائیل کے بارے میں بڑی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ کیا حرکۃ الحماس کا اس طرح کا طرزِعمل درست و جائز ہے؟
    • درحقیقت القسام بریگیڈ، ایلیٹ فورس و دیگر جہادی برادر تنظیموں کا بنیادی ہدف فوجی اہداف کو نقصان پہنچانا ہے۔ عام شہری ہمارا کبھی دانستہ ہدف نہیں رہے، لیکن اس طرح کی جنگوں میں کبھی نادانستہ کچھ عام شہری بھی زد میں آسکتے ہیں۔ ہم کسی عام شہری کا جانتے بوجھتے نقصان نہیں کیا کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس موجود اسلحہ جدید ترین نہیں ہے، کبھی اپنے ٹارگٹ سے اِدھر اُدھر ہوسکتا ہے، جب کہ دشمن کے پاس ساری دُنیا اور خاص طور پر امریکا کے جدید ترین ہتھیار پائے جاتے ہیں جو جدید ٹکنالوجی سے لیس ہیں۔ پھر بھی وہ دانستہ نہتے، پُرامن فلسطینیوں کو ہلاک اور مال و اسباب کو تباہ کر رہا ہے۔
  • اسرائیل یہی کہتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو نشانہ نہیں بنارہا کیا آپ حماس کی جانب سے عام اسرائیلی شہریوں کے نقصان کی مذمت اور معذرت کریں گے؟
    • کیا ایسے سوالات آپ لوگوں نے کبھی اسرائیلیوں سے کیے ہیں؟ جب کہ مَیں صراحت سے کہتا ہوں کہ حماس کبھی اسرائیلی شہریوں کو دانستہ نشانہ بنانے کی پالیسی نہیں رکھتی، ہم فوج اور  فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب آپ اسرائیل کے طرزِعمل کو دیکھیں جو کہ عالمی عسکری قواعد و ضوابط کا عملاً انکار کر رہا ہے۔ ان حقوق کو پامال کر رہا ہے جو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی مناسبت سے طے کر رکھے ہیں۔ وہ تو ہسپتالوں کو براہِ راست نشانہ بناتا ہے، جیساکہ ایک بڑے ہسپتال الحمدانی کو تباہ کیا۔ اسرائیل، فلسطینی شہریوں، ان کی املاک و عبادت گاہوں کو جان بوجھ کر ایک ظالمانہ پروگرام کے تحت تباہ کرتا چلاجارہا ہے۔ کیا کسی مغربی میڈیائی ادارے نے اسرائیلی قیادت کے بارے میں بھی سوال کیا ہے کہ اس نے مغربی کنارے کی سول آبادی کو کیوں نشانہ بنایا ہے؟ ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ غزہ کے شہریوں کو کسی طور جبری طور پر وہاں سے نکالنے کی اجازت نہیں۔ ہم اس ظالمانہ بمباری کے شدید خلاف اور غزہ بدری کے اقدام کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔
  • مغربی دُنیا میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ شدید بمباری ردعمل میں کی گئی ہے؟
    • مغرب کے دُہرے معیار رہے ہیں۔ وہ درست دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔  وہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کو ردعمل قرار دے کر اصل بات سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں ہے۔ حالانکہ یہ اسرائیلی حملے تو ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے وجود میں آنے ہی سے ہورہے ہیں جب عالمی صیہونیوں کے حوالے ، عرب کی مقدس سرزمین ناجائز طور پر کردی گئی، جن کی آبادی اس وقت فلسطین کی صرف چھ فی صد تھی۔ پھر ان قابض صیہونی فورسز نے مختلف اوقات میں زور زبردستی سے اکثر فلسطینی زمین ہڑپ کرلی۔ ہم شروع سے ہی ناجائز قبضہ چھڑوانے کے لیے قانونی مزاحمت کررہے ہیں۔ میرا سوال آپ سے ہے کہ آپ فلسطینیوں سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر اور کتنی صفائیاں چاہتے ہیں، جب کہ معاملہ بالکل واضح ہے۔ کیا انھیں مسجد اقصیٰ اور باقی فلسطینی خطے پر یہودیوں کا درندگی بھرا قبضہ اورروز ر وز کی قاتلانہ کارروائیاں نظر نہیں آتیں؟ کیا غزہ کا ۱۶سالہ گھیرائو، عرب مسلمانوں پر کیے جانے والے صیہونی مظالم کوئی ڈھکی چھپی بات ہے اور یہاں تک کہ ان کے ساتھ امن معاہدے کرنے والا یاسرعرفات بھی ان کی طرف سے دیئے جانے والے  زہر سے شہید ہوچکا ہے۔ جو ظلم اس ارض کے باسیوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، کیا کسی نے اسرائیلیوں سے اس کی وضاحت اور طرزِعمل کو حدود و قیود میں رکھنے کے بارے میں سوالات کیے ہیں؟

اب ہمارے موجودہ اقدام نے ہماری عسکری کامیابی کو ثابت کردیا ہے، جو قانونی دائرے میں ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ عالمی جنگ میں ڈیگال کو یہ سہولت بی بی سی کے ذریعے دی گئی کہ وہ فرانسیسیوں سے براہِ راست مخاطب ہوکر انھیں جرمنی کے ساتھ جنگ پر آمادہ کرے، جب کہ آج امریکا کا موقف ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کا درست ساتھ دے رہا ہے کیونکہ یہ جنگ روس نے یک طرفہ شروع کی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ اسرائیل جو ۷۰سال سے زائد عرصے سے یک طرفہ جنگ کر رہا ہے، کیا اس کے خلاف اقدام کی ضرورت نہیں ہے؟

  • مغربی ممالک کی سوچ ہے کہ جب کوئی گروہ اسلحہ کے زور پر اقدام کرتا ہے تو یہ دہشت گردی میں شمار کیا جائے گا؟
    • کیا ہم مغربی قانون کے تابع ہیں؟ مغرب سے آئے لوگوں نے ہماری سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا، جسے چھڑانا ہمارا قانونی، اخلاقی اور شرعی حق ہے۔ انھوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ہمارے سروں پر تھونپا ہی نہیں، ان کے غیرمنطقی اصولوں کا مسلسل تحفظ بھی کیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ اگر کسی ملک پر کوئی بیرونی طاقت آکر قابض ہوجائے تو کیا وہاں کے لوگ ان کے سامنے سرتسلیم خم کرلیں؟ وہ ان کا ناجائز قبضہ چھڑانے کی جائز جدوجہد نہ کریں؟ مغربی سوچ اس وقت کہاں تھی، جب عراق، افغانستان اور دیگر مقامات پر عسکریت سےقبضہ کیا گیا تھا۔
  • عرب دُنیا کے رویوں کے بارے میں کیا کہناہے آپ کو؟
    • اصلاً ہم آزادیٔ فلسطین کے لیے یہ جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارا موقف جہاد کی اہمیت اور ضرورت سے مطابقت رکھتا ہے۔ عرب اور مسلم دُنیا سے جو ہمارے موقف کا ساتھ دیں گے، ہم ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ فلسطین سے باہر لبنان سے ہونے والے حملے ہمارے لیے اہم ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ دیگر جہتوں سے بھی اس میں حصہ ڈالیں، جیسے مصرنے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے ماضی میں جنگیں کیں۔ ہم عرب دُنیا اور مسلم دُنیا سے مزید نصرت اور مضبوط موقف اپنانے کی اپیل کرتے ہیں۔
  • آپ لبنان کے بعد کس ملک سے مداخلت چاہ رہے ہیں، حالانکہ لبنان کے حالات پہلے ہی ٹھیک نہیں؟
    • ہم فلسطین کے اندر ہوں یا باہر، ہم میں سے ہرشخص میدانِ جہاد میں سرگرمِ عمل ہے۔ میں اقدامی یا جارحانہ جنگ کی تائید نہیں کر رہا۔ میں غیرضروری طور پر نہ لبنان اور نہ کسی اور ملک کو اُبھار رہا ہوں۔ یہ درست ہےکہ مسجداقصیٰ اور مقدس سرزمین کا معاملہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عرب اور باقی سبھی مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہے، عمرفاروقؓ اور صلاح الدین ایوبی ؒکی امانت ہے، جسے پسِ پُشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہ پوری اُمت کے لیے امانت ہے جس میں مصر، شام، اُردن، لبنان، عراق، سعودی عرب، ایران، پاکستان، انڈونیشیا، ترکی، افریقی ممالک، باقی عرب واسلامی سبھی ممالک شامل ہیں۔ اس کی حفاظت سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں ہم فلسطینی ہراول دستے کی حیثیت میں اپنے تئیں بھرپور کردارادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ باقی مسلم ممالک کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔
  • آپ نے موجودہ حملے کا فیصلہ انفرادی طور پر خود کیا اور کسی سے مشاورت نہیں کی؟ اب آپ انھیں درمیان میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں؟
    • ماضی میں جب جون ۱۹۶۷ء میں مصر کو شکست ہوگئی تھی،نتیجے میں مصری اور عربی اراضی اسرائیل کے قبضے میں چلی گئی تھی۔ مصر نے دیگر معرکے لڑتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں اپنی زمین دشمن سے چھڑا لی تھی۔ اس دوران کسی عرب ملک نے مصر سے ایسے سوالات کیے تھے کہ پہلے یہ بتائو کہ تم نے ہم سے مشورہ کیوں نہیں کیا، اور جب تک ہمیں مطمئن نہیں کرتے ہم تمھاری تائید اور مدد نہیں کریں گے۔ یہ سوال ممکن ہے کہ ایک ریاست، دوسری ریاست سے کربھی لیتی ہے،جب کہ ہماری کیفیت کچھ اور ہوچکی ہے۔ ہم مشاورتی عمل کا دائرہ بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ زورزبردستی سے ہماری زمینیں چھینی گئیں، ہم ایک قیدخانے میں ہیں اور اُسے چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیا ہروقت ہم سے مشورے کا مطالبہ کیا جاسکتاہے؟ جب ہم عالمی قوانین کی دی ہوئی گارنٹی کے مطابق عملی مزاحمت کرنے کا حق رکھتے ہیں، تو کیا ایسے سوالات سے آپ ہماری کارکردگی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں کہ تم بھگتو ہم تو مشورے میں تھے ہی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ عربی افواج معرکہ آرائی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس صورتِ حال میں مَیں چند ضروری باتیں عرض کرتا ہوں جنھیں وہ آسانی سے کرسکتے ہیں:

۱-         اسرائیل کے خلاف ایسا مشترکہ موقف اختیار کیا جائے جو اسے زیادتیاں کرنے سے روکنے کا باعث بنے، خاص طور پر آج کل کی وحشیانہ بمباری کو رکوانے کے لیے واضح مضبوط موقف اپنانا چاہیے۔

۲-         یہ مضبوط موقف کہ فلسطینی اپنے علاقوں ہی میں رہیں گے، انھیں کسی طور پر اپنے علاقوں سے دربدر نہیں کیا جائے گا۔

۳-         اہل غزہ کی ہرنوعیت کی نصرت کا سامان کیا جائے۔

۴-         تمام ممالک میں عوامی رائے عامہ کو مزید متحرک کرکے مسلسل بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا جائے تاکہ دشمن مزید زیادتی سے رُک جائے۔

۵-         جو کوئی بھی فلسطین کی سرحدوں تک آسکے، آئے۔اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے۔ اسے اس کام سے روکنا ہماری اجتماعی کوششوں سے ممکن ہے۔

  • مصر ۱۹۷۳ء کی جنگ جیت کر بھی جان گیا تھا کہ اسرائیل اکیلا نہیں بلکہ عالمی طاقتیں اس کی پشت پناہی کرتی ہیں، اس لیے مصر نے اسرائیل سے معاہدہ کرلیا تھا۔ آج بھی اسرائیل اکیلا نہیں، امریکا اور دیگر قوتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ قوت کا توازن بھی تو کچھ حیثیت رکھتا ہے اور جب یہ توازن فلسطین کی طرف مائل نہیں ہے تو کیوں کھلی جنگ میں ہاتھ رنگے جائیں؟
    • اگر ترازو میں تول کر متوازن قوت کا پایا جانا ضروری ہوتا تو پھر کوئی مقبوضہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا۔ اگر افغان بے سروسامانی کے باوجود پہلے اشتراکی روس اور پھر امریکا کی قوت سے توازن قائم کرنے کے فلسفے پر عمل کرتے تو ہمیشہ غلام ہی رہتے۔ عرب ممالک نے جن استعماری ممالک سے آزادی حاصل کی، کیا پہلے انھوں نے متوازن قوت حاصل کی تھی ؟ قابض ہرجگہ زیادہ قوت وسازوسامان رکھتے تھے۔ جدوجہد آزادی کی معرکہ آرائی، مقہور لوگوں کو استعماری جلادوں سے پہلے بھی مادی توازن حاصل کرلینے پر منحصر نہیں رہی ہے۔آزادی کا معرکہ فطرت کے قوانین کے تحت بپا ہوتا ہے، جس میں استعماری قوتیں آخرکار ہارا کرتی ہیں، یہی تاریخ کا سبق ہے۔ کچھ عرب لیڈروں نے مذاکرات میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن کیا اس سے کوئی مسئلہ حل ہوا؟ کیمپ ڈیوڈ گئے، اوسلو بھی پہنچے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا بلکہ خسارہ در خسارہ ہوتا رہا۔ وزن بڑھنے کے بجائے اور بھی کم ہوا اور باہم اختلاف بھی زیادہ ہوا، جس سے دشمن ہی کو فائدہ پہنچا۔حالانکہ ان سیاسی دُوراندیشیوں کے برعکس نہتے فلسطینیوں نے پتھروں کے زور پر انتفاضہ سے کامیابی حاصل کرلی، اور شارون کو غزہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجھے معلوم ہے کہ فی الفور   عرب معرکہ آرائی میں شمولیت کے لیے تیار نہیں ہوں گے لیکن وہ ہماری سیاسی، معاشی، عملی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔ فقط حزب اللہ یا ایران پر اکتفا درست نہیں۔ وہ ہمارے بعض مشاورتی، سٹریجیکل اور مالی اُمور میں ہاتھ بٹا دیتے ہیں، لیکن ہم باقی عرب و اسلامی ممالک سے بھی مزید تعاون کی اپیل کرتے ہیں۔
  • کیا حزب اللہ یا ایران آپ کی توقعات پر پورے اُترے ہیں خاص طور پر ایران تو اسرائیل کو مٹا دینے کا اظہار بھی کرتا رہا ہے اورا ب ان کا کیا موقف ہے؟
    • ہمارا کام ہے کہ سب سے تعاون کرنے کی درخواست کرتے رہیں اور باربار یاددہانیاں بھی کروائیں، مگر ہم کسی ایک سمت کی جانب ہی نہیں دیکھ رہے۔ پچھلے عرصے میں ہمیں کسی حد تک مالی اور ٹکنالوجی معاونت حاصل رہی ۔ اس طرح عرب ممالک نے بھی ہمارا ساتھ دیا جو مالی و سفارتی سطح پر تھا۔ اُمت اسلامیہ میں بیداری پائی جاتی ہے۔ خلیجی، سعودی، ایشیائی، افریقی یہاں تک کہ مغرب کے عوام ہمارے موقف کی تائید اور اسرائیلی دشمنوں کے خلاف فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں نے من حیث القوم قضیۂ القدس و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں رکھا۔ پچھلے چند ہفتوں میں کیفیت ایسی بن رہی تھی کہ الاقصیٰ مسجد چھن سکتی تھی، ہیکل کی تعمیر کے اسباب ظاہروباہر نظرآسکتے تھے، لیکن ہمارے بہادر جوانوں نے دشمن کے سارے ارمان خاک میں ملادیئے اور وہ طیش میں آکر مجنونانہ حرکتوں پر تُل گیا۔ ہم اُمت سے مزید پیش قدمی کی درخواست کرتے ہیں۔ اس میں جو کوئی بھی اپنا حصہ ڈالے گا ہم اس کے شکرگزار ہوں گے۔
  •  آپ حماس کی سیاسی عقل و دانش کی علامت کے طور پر معروف ہیں۔ آپ  اسرائیل کے حملوں اور اس کے نتیجے میں کن اقدامات کو اہمیت دیں گے؟
    • ہم نے موجودہ اقدام کیا ہے تو دشمن کا رَتی برابر بھی ڈر، خوف ہمیں لاحق نہیں تھا۔ جب معرکہ احد میں کہا گیا تھا: کفار نے تمھارے مقابلے میں لشکرِکثیر جمع کیا ہے، تم اُن سے ڈرو تو یہ سن کر ان کا ایمان مزید بڑھ گیا۔ وہ کہنے لگے: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ، ’’ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اوروہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ پھر وہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ (خوش و خرم) واپس لوٹے،ان کو کوئی ضرر نہ پہنچا اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے کہ اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔ خوف دلانے والا تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈراتا ہے۔ لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا، صرف مجھ سے ہی ڈرنا‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۷۳-۱۷۵)

ہم فلسطینیوں کی سوچ دو نکات کے تحت پروان چڑھی ہے: ہم عقلی و تدبیری اور سیاسی و ایمانی اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرطرح کی کمی، کمزوری پر ہم نے قابو پایا ہے۔ یہ سب ایمانی، سیاسی، عقلی و عملی نکات کا مرہونِ منت ہے۔ ہم نے گذشتہ سولہ برس میں سخت حصار کے دوران اللہ پر کامل ایمان کے زیرسایہ یہ سب حاصل کیا ہے۔ ہماری ایلیٹ فورس نے علی الصبح اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بفضل اللہ اسرائیلی فساد اور غرور کو، بحروبراور فضا سے پاتال میں پھینک دیا۔ سوال یہ ہے کہ ان برسوں میں کسی نے ہمیں اس شورش سے بچانے کی کیا کوشش کی؟ اسرائیل، سب طاقتوں کے تعاون کے باوجود ایک بار پوری طرح رُسوا ہوا۔ غزہ کے شہریوں کے پاس اپنی عزت و وقار کے سوا اورکیاہے؟ وہ اپنی عزت و تکریم کے بقا کی جنگ لڑتے رہیں گے، چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔

  • موجودہ احوال میں، جب کہ امریکا مکمل طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے، آپ کے پاس اس کے جواب میں کیا منصوبہ ہے؟
    • اسرائیل کے ساتھ ہمارا یہ پانچواں معرکہ ہے۔ وہ ہر معرکے میں ہمیں مکمل تباہ کرنے کا عندیہ دیتا رہا ہے اور الحمدللہ، ہربار ناکام ہوا ہے، اور ان شاء اللہ اب بھی ناکام ہوگا۔ امریکا نے ویت نام، افغانستان، عراق کو ملیامیٹ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن ناکام رہا۔ ناجائز حملہ آور ہمیشہ شکست سے دوچار ہوتے ہیں، یہاں بھی ہوں گے۔ ہم اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں اور اُمت سے تعاون کی اُمید رکھتے ہیں۔
  • اگر زمینی حملہ ہوا تو اسرائیلی، فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دینے میں کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں اہل غزہ کے پاس سمندر میں کود جانا، یا رفح بارڈر سے مصر میں چلے جانا، یا موت کو سینے سے لگالینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا؟
    • فلسطینیوں کو زورزبردستی سے اپنی زمینوں سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا، اللہ ان کی حفاظت کا سامان بھی کرے گا۔ اللہ انھیں دشمن سے بچالینے پر قادر ہے۔ انھوں نے ۱۹۶۷ء کی شکست سے سبق سیکھا ہے۔ اس وقت ملکوں کی باہمی جنگ تھی۔ اب ملک کے ایک حصے میں رہنے والوں سے جنگ ہے، جن کا بظاہر کوئی محافظ نہیں۔ اس لیے وہ بھرپور کوشش سے اپنا اور مقدسات کا دفاع کریں گے۔ فلسطینی اپنی سرزمین میں رہتے ہوئے ہرشرعی، قانونی، اخلاقی حربے سے کام لے کر دشمن کو روک لیں گے۔ میں الفتح اور دیگر اَحزاب کو تعاون کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو ان تاریخی لمحات میں ہم مل کر غالب آسکتے ہیں۔
  • محمود عباس تو آپ کو فلسطینیوں کا نمایندہ ماننے سے انکاری ہے، اور فیصلوں کی تائید نہیں کرتا؟
    • عین معرکے کے دوران باہمی اختلافات پر بات کرنا درست نہیں، لہٰذا ہمیں باہمی تنقید سے بچنا ہے۔ پوری انسانیت دیکھ رہی ہے کہ ہم جس تندہی سے زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے ہیں، اس وقت دفاع کے لیے سرفروشی کرنے والے ہی عوام کی درست نمایندگی کے اہل ہیں۔ الفتح کے بھائیوں نے بھی بہت بھرپور مزاحمتی جدوجہد کی ہے، لہٰذا مل کر مشترکہ دشمن کا مقابلہ ضروری ہے۔
  • آپ الفتح سے براہِ راست بات کیوں نہیں کرتے؟
    • جنگی اَحوال بہت سے معاملات مخفی رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یک جہتی پر مبنی اسٹرے ٹیجی پر اتفاق کرنا اور مشترکہ کوشش کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
  • آپ نے اس معرکے میں جو اسرائیلی فوجی اور سویلین اغوا کیے ہیں، ان کے بارے میں حماس کی کیا پالیسی ہے؟ کیا غزہ پر بمباری روکنے کی شرط پر انھیں رہا کیا جائے گا؟
    • یہ اغواشدہ لوگ نہیں بلکہ باقاعدہ قیدی ہیں، جن کی تعداد اسرائیلی دوسوسے  اڑھائی سو تک بتارہے ہیں، لیکن اصل میں وہ کتنے لوگ ہیں میدانِ معرکہ میں موجود قیادت کو ان کی تعداد کا صحیح علم ہے۔ جہاں تک قیدیوں کا تعلق ہے تو یہ دو طرح کے ہیں: ایک فوجی قیدی جو تعداد میں زیادہ ہیں اور دوسرے عام شہری قیدی، جن میں چند غیراسرائیلی بھی شامل ہیں۔ فوجی افسران اور سپاہیوں کے بدلے میں ہم دس ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کروائیں گے۔ عام شہری قیدی غزہ میں مختلف مقامات پر ہیں۔ جب امن کے حالات پیدا کیے جائیں گے تو ان کی رہائی کی سبیل کریں گے۔ یاد رہے ابھی تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں ان میں سے بھی کئی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بعض عربی و دیگر ممالک کی طرف سے ان کی رہائی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، جن میں قطر اورمصر بھی شامل ہیں۔ سویلین افراد کو قید میں رکھنے کا ہمیں کوئی شوق نہیں۔ ہمارے مطالبات کا احترام کیا گیا تو انھیں چھوڑ دیں گے۔ ان مطالبات میں فضائی و زمینی بمباری کو فی الفور روکنا اور رفح کے بارڈر پر انسانی سہولیات، غذا اور ادویات کی فراہمی کی سہولت دینا بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ امداد جنوبی غزہ تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ غزہ کے تمام باشندوں تک پہنچائی جانی چاہیے۔ دشمن کا منصوبہ غزہ کی آبادی کو مصر اور مغربی کنارے کے لوگوں کو اُردن میں دھکیل دینے کا ہے جو کہ بذاتِ خود ان دونوں ممالک کے خلاف اور فلسطینیوں کو بھی بڑی سازش کے جال میں پھنسانے کا خطرناک منصوبہ ہے۔ ہم ان ملکوں کی اوّلین اور اہم ترین دفاعی لائن ہیں۔ انھیں اپنے مقام سے کسی صورت ہٹانے کی اجازت عالمِ انسانیت کو نہیں دینی چاہیے، اور نہ ہم قبول کریں گے۔
  • کہیں ۱۹۴۸ء کی ہجرت کا سماں اور خوف درپیش تو نہیں ہے؟
    •  ہم اپنے وطن کے بدلے کسی دوسرے دیس کو قبول نہیں کریں گے، چاہے ہماری جان جاتی رہے۔ دشمن کہتا ہے: ’نیل سے فرات تک سب ہمارا ہے‘، جو کہ باطل دعویٰ ہے۔ ہم کسی صورت یہاں سے نہیں جائیں گے بلکہ کھوئی ہوئی زمینیں واپس لیں گے، ان شاء اللہ۔