ستمبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کشمیر پکار رہا ہے

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۱۰ | مقالہ خصوصی

Responsive image Responsive image

ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے برطانوی، ڈوگرہ اور بھارتی سامراجیوں کے مختلف النوع ظلم اور استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور ہے اور ان کا بدن خون سے لہولہان ہے۔ لیکن اپنے ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں الحمدللہ انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر دور میں اور ہرحال میں استعماری قوتوں کی مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اور استقامت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو ظلمت کے شکار ساری دنیا کے انسانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ اس وقت کشمیر میں جو تحریک اپنے شباب پر ہے، اس میں جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی الم نشرح ہے، وہیں کشمیر کے بوڑھوں اور جوانوں ہی نے نہیں، بچوں اور خواتین کے ایک سیلاب نے سب کو ششدر کر دیا ہے۔ احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے مہمیز کا کام کر رہے ہیںاور جموں و کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا علَم لے کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے، اور بوڑھے مگر جوان ہمت قائد سید علی شاہ گیلانی کی آواز پر ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک ۸۱ویں روز بھی ہڑتال جاری ہے اور قائد کے الفاظ میں:

کشمیری عوام نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں۔ بھارت ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر انھیں خاموش نہیں کرسکتا۔ کشمیر کا پتّا پتّا بوٹا بوٹا بھارتی قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

ویسے تو کشمیر کی بدقسمت تاریخ کے دور کا آغاز دو صدیوں پہلے برطانوی سامراج کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ اقدام سے ہوا جس میں ایک پوری ریاست اور ایک پوری قوم کو چند ٹکوں     کے عوض ڈوگروں کے ہاتھوں فروخت کر کے ایک استبدادی نظام اور بیرونی سیاسی غلامی کے تحت ایک اور بھی قبیح تر غلامی کا دروبست قائم کیا گیا۔ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک جب نئی کروٹیں لے رہی تھی تو کشمیر کے مسلمانوں نے بھی ڈوگرہ سامراج اور برطانوی اقتدار کے خلاف اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا، اور اپنے مخصوص حالات کی روشنی میں ۱۹۳۰ء ہی کے عشرے میں تحریکِ پاکستان سے بھی ۱۰سال قبل اپنی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا اور اس طرح برعظیم کی آزادی کی تاریخِ جدید میں جدوجہد، مزاحمت اور قربانیوں کا ایک نیا روشن باب رقم کیا۔

تقسیم ملک کے فیصلے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی اسمبلی کے مسلمان ارکان نے الحاقِ پاکستان کا اعلان کیا، اور ریاست گیر تحریک برپا کی جسے قوت کے ذریعے کچلنے میں ڈوگرہ راج نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اہلِ اقتدار نے بھارتی قیادت کا ساتھ دیا اور مائونٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ہراصول اور وعدے کو پامال کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کا راستہ صاف کیا۔ پاکستان کی افواج کے برطانوی کمانڈر نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کرکے پاکستان کے متبادل اقدام کو ناکام کیا جس کے ردعمل میں عوامی تحریک نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ قبائل کے مجاہدین نے   اس میں شرکت کی اور اس جدوجہد سے ریاست کا ایک حصہ بھارتی تسلط سے بچایا جاسکا لیکن   اس مزاحمت میں محتاط اندازے کے مطابق ۵ لاکھ شہید ہوئے اور لاکھوں کے گھربار لٹ گئے اور انھیں ہجرت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب عوامی تحریک اور پاکستان نے جو پہل کی اسے غیرمؤثر کرنے کے لیے عالمی سیاست کا کھیل شروع ہوا۔ بھارتی وزیراعظم شکست سے بچنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف دوڑے اور امریکا اور برطانیہ کے کلیدی کردار اور پاکستانی حکومت کی خودفریبی، ناتجربہ کاری اور سادہ لوحی کے نتیجے میں جیتی جانے والی بازی سیزفائر اور استصواب کے وعدوں کی نذر ہوگئی۔ بھارت کی فوجوں نے جموں و کشمیر کی ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ ضرور کرلیا اور اپنی من پسند حکومتوں کو بھی وہاں مسلّط کردیا لیکن جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کو وہ مسخر نہ کرسکے اور ان کی تحریک مزاحمت زیرِزمین اور برسرِزمین جاری رہی۔

بھارت کے وعدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے غیرمؤثر ہونے، پاکستان اور بھارت کی سیاسی، عسکری اور معاشی قوت کے تفاوت اور پاکستان کی حکومتوں کی غلطیوں، کمزوریوں، پسپائیوں اور قول و عمل میں بعد، نیز ۱۹۷۱ء کے سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے کے اثرات کی روشنی میں کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا دوسرا دور اندر سے تبدیلی کی ایک کوشش تھا۔ ۱۹۷۲ء میں پہلی دفعہ اسلامی تحریک کے قائدین نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے اہداف پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر نئی حکمت عملی مرتب کی اور برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی کی دستوری جدوجہد کی کتابِ تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ سید علی شاہ گیلانی ۱۹۷۲ئ، ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۷ء میں ریاست جموں و کشمیر کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اسمبلی کے اندر اور باہر استصواب اور الحاقِ پاکستان کی مہم کی قیادت کی۔ مگر بھارتی حکومت نے جب جمہوری عمل کے ذریعے بھی تبدیلی کا راستہ بند کیا تو تحریکِ مزاحمت کے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ رہا کہ عوامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے قوت کی عدم مساوات کے باوجود عسکریت کا راستہ اختیار کرے، جس طرح دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں نے ریاستی قوت اور دہشت گردی کے مقابلے میں ممکنہ وسائل اور ذرائع سے ریاست کی قوت پر ضرب لگانے اور مزاحمت کی عسکری حکمت عملی اختیار کی۔

تحریکِ مزاحمت کا موجودہ مرحلہ

تحریکِ مزاحمت کا یہ تیسرا دور ۱۹۸۹ء سے شروع ہوا ہے اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود جاری ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ کشمیری عوام نے یہ راستہ بھارتی حکومت کی جمہوریت کُش پالیسی اور تشدد کے ذریعے عوام کے سیاسی حقوق اور سیاسی عزائم کو قوت کے ذریعے دبانے اور عالمی معاہدات اور وعدوں سے فرار کے نتیجے میں اختیار کیا اور اس کا اعتراف آزاد محققین نے تو بار بار  کیا ہی ہے۔ لیکن اب تو اس کا اعتراف بھارتی پالیسی کے معذرت خواہ (apologists) اہلِ قلم بھی کرر ہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال اصغر علی انجینیر کا وہ مضمون ہے جس میں اب بھی وہ بھارت کے دستور میں رہتے ہوئے کسی حل کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ:

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں مسلح مزاحمت ۱۹۸۹ء میں اس وقت شروع ہوئی جب انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور ایک اسکول کے استاد صلاح الدین کو، جو اَب حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں، ناکام قرار دیا گیا، جب کہ بیش تر کشمیری سمجھتے تھے کہ وہ انتخاب جیتے ہیں۔ (ڈان، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بات صرف ایک صلاح الدین کی نہیں، تحریکِ مزاحمت اور متحدہ محاذ کی پوری قیادت کی ہے اور حکمت عملی کی اس تبدیلی کی پوری ذمہ داری بھارت اور اس کی پالیسیوں پر ہے۔ نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ صورت حال صرف جموں و کشمیر میں رونما نہیں ہوئی، سامراج کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ بیرونی قبضے کے خلاف کسی نہ کسی مرحلے پر تحریکِ مزاحمت کو قوت کے نشے میں مست حکمرانوں کے بالمقابل آکر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوام متحدہ کے ۱۹۲ رکنممالک میں سے تقریباً ۱۶۰ ایسے ہیں جوسیاسی اور عسکری مزاحمت کے نتیجے میں آزادی حاصل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے امریکا، روس، بھارت اور اسرائیل کی ساری کوششوں کے باوجود تحریکِ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کی جانے والی عسکری مزاحمت کو  دہشت گردی قرار نہیں دیا اور یہ مقولہ ایک عالمی صداقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ ’’کچھ کی نگاہ میں جو دہشت گرد ہے وہ دوسروں کی نگاہ میں آزادی کا سپاہی ہے‘‘۔ اس کی تاریخی مثال خود  امریکی ریاست کا بانی جیرفرسن ہے جسے امریکا ’آزادی کا سپاہی‘ اور اس وقت کا برطانیہ ’دہشت گرد‘ قرار دیتے تھے۔ نیز مشہور امریکی دانش ور پروفیسر ہن ٹنگٹن بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ دہشت گردی طاقت ور اور منہ زور قوتوں کے خلاف کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ (terrorism is the weapon of the weak against the strong)

جموں و کشمیر میں ۱۹۸۹ء میں برپا ہونے والی اس تحریک نے اپنے اثرات قدم قدم پر مرتسم کیے ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود اور قوت کے محیرالعقول تفاوت کے علی الرغم بھارت کے اقتدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔ بلاشبہہ ۹۰ہزار سے زیادہ شہدا کے لہو نے اس تحریک کو سیراب کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نہیں بھارت کے کم از کم تین چیف آف اسٹاف اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ عسکری قوت سے تحریکِ مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تازہ ترین اعتراف بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کا ہے جو انھوں نے ۱۱جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا ہے کہ بھارتی فوج جو کچھ کرسکتی تھی، اس نے کر دیا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے بس کی بات نہیں۔ مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے:

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا اس پر تعمیر نہیں کرسکے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ سیکورٹی فورسز کی حیثیت سے بہت کام کیا جاچکا ہے۔ حالات کو ایک ایسی سطح تک لایا گیا جہاں حالات بہتر کرنے کے لیے دوسرے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۲ جولائی ۲۰۱۰ئ)

بھارتی فلبرائٹ اسکالر لوو پوری نے جو نیویارک یونی ورسٹی میں پڑھا رہا ہے، بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کی ۷؍اگست ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اپنے مضمون میں بھارت کے آرمی چیف کے اس بیان کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ: ’’فوج کے سربراہ وی کے سنگھ نے سیاسی اقدام کے لیے درست طور پر نشان دہی کی ہے‘‘۔ اسی مضمون میں مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ مسئلہ قانون اور امن و امان کا نہیں بلکہ نظریات کے تصادم کا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور علی محمداصغر کا یہ اعتراف بھی دیا ہے کہ: We cannot fight our people.  (ہم اپنے ہی لوگوں سے نہیں لڑ سکتے)۔

اس کے ساتھ اگر بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نائر کا یہ اعتراف بھی نظر میں رہے تو بھارت کی عسکری پالیسی اور قوت سے کشمیر کو قابو میں رکھنے کی پالیسی کی ناکامی اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت اور اس کے ہر دور کی کارفرمائی کو سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے: ’’یقین کیجیے کہ میں عوام کی قربانیوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا۔ دنیا میں بہت کم تحریکیں اتنی پُرعزم اور اتنی دیرپا رہی ہیں‘‘۔ (ڈان، ۱۱ جون ۲۰۱۰ئ)

تحریکِ مزاحمت کے اس تیسرے دور کے اثرات اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی اور انھیں اس رُخ پر ڈالنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت نے اہم کردار ادا کیا کہ تحریکاتِ آزادی اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی مندرجہ بالا حکمت عملی کی راہ میں مشکلات بڑھ گئیں اور بیرونی دبائو اور سیاسی اور سفارتی تعاون کرنے والے ممالک اور قوتوں کی قلابازیوں کے باعث عسکری مزاحمت کو ثانوی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ یہ بھی تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود چند سو یا چند ہزار مزاحمت کار  بڑی بڑی افواج اور مہلک ترین ہتھیاروں سے مسلح عالمی اور علاقائی قوتوں کے ریاستی دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور عملاً غیرمؤثر کیے ہوئے ہیں۔ عراق، افغانستان، غزہ، لبنان اور کشمیر ہرجگہ یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے پس منظر میں اس مضحکہ خیز صورت حال کو کشمیر ٹائمز کا انتظامی مدیر انورادھا بحثن جیموال بھارتی رسالے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ:

تمام سرکاری اندازوں کے مطابق اس وقت پوری ریاست میں ۶۰۰ سے زیادہ جنگ جُو کارروائیاں نہیں کر رہے ۔ ان کے مقابلے کے لیے وہاں اب بھی ۶/۷ لاکھ فوجی موجود ہیں، جنھیں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے خصوصی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ (اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی، ۱۰ جولائی ۲۰۱۰ئ، جلد XLV، ص ۲۸)

مزاحمت کی عسکری تحریک نے اس دبائو کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ البتہ اپنی حکمت عملی میں حالات اور وسائل کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں کیں اور ایک بار پھر اوّلیت کا مقام سیاسی مزاحمت اور غیرعسکری جدوجہد نے لے لیا، اور اس طرح یہ تحریک اپنے چوتھے دور میں داخل ہوئی جس میں بندوق کے مقابلے بندوق اور گولی کے جواب میں گولی کی جگہ نعرہ، جھنڈے، ہڑتال اور پتھر نے لے لی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اس دور کا آغاز ۱۱جون ۲۰۱۰ء کو ۱۷سالہ طفیل احمد منٹو کی شہادت سے ہوا۔ بلاشبہہ ۱۱ جون کے واقعے نے اس تحریک پر گہرا اثر ڈالا اور اسے ایک نئے فراز کی بلندیوں کی طرف متحرک کیا مگر حقائق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صورت حال کا صحیح جائزہ لیا جائے۔

تحریک کے اس دور کا آغاز ۲۰۰۸ء کے موسمِ گرما میں ہوا۔ جب حکومت نے کشمیر کی ۱۰۰ایکڑ اراضی امرناتھ ٹرسٹ کو منتقل کی اور اس کے خلاف سول تحریک کا آغاز سید علی شاہ گیلانی کی پکار پر ہوا۔ پُرامن احتجاج، ہڑتال اور گولی کے جواب میں پتھر کے ہتھیار کا استعمال اس موقع پر ہوا اور اس طرح تحریکِ کشمیر نے فلسطین کی تحریکِ مزاحمت سے سبق سیکھتے ہوئے غیرمسلح سیاسی جدوجہد کے عنوان کے طور پر پتھر کے استعمال کا آغاز کیا اور حکومت کو اپنے اس اقدام سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تبدیلی کو مؤقر بھارتی جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی نے اپنے ایک اداریے میں اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے اور اس اداریے کا عنوان Kashmiris Civil Disobedience رکھا ہے اور ذیلی عنوان میں اصل حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ:’’یہ صرف بھارتی حکومت ہے جس پر موجودہ بحران کا الزام عائد ہوتا ہے‘‘۔

اس بھارتی جریدے کے تجزیے سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے اس نکتے کو سامنے رکھنا مفید ہے:

حقیقت یہ ہے کہ احتجاج اور بغاوت کے موجودہ مرحلے کا براہِ راست تعلق اس سال  ماچل میں تین شہریوں کے سفاکانہ قتل سے ہے جو فوجی افسروں نے کیا اور ان پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام رکھا۔ اس پر وہ انعامات اور ترقیاں چاہتے تھے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے جس میں بے گناہ عوام کو اُٹھایا جاتا ہے اور سیکورٹی فورسز جنھیں کسی بھی سزا سے تحفظ حاصل ہے، انھیں قتل کر دیتی ہیں۔ کشمیر کے عوام کے لیے عرصے سے انڈیا کا مطلب بندوق کی نالی ہے، گو کہ انھوں نے جمہوری حل کے لیے فیصلہ کن ووٹ دیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیر کے عوام گاندھی کی اس ہدایت کی پیروی کر رہے ہیں کہ جب ریاست کرپٹ ہو اور اس میں قانون پر عمل داری نہ ہو تو سول نافرمانی ایک مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی کی حکومت جو مہاتما گاندھی کا نام جپتی رہتی ہے صرف فوجی عملہ بڑھانے اور بدعنوان اور غیرمتعلق لوگوں سے معاملات چلانے کا سوچ سکتی ہے۔ اگر بھارت کی حکومت اپنا جمہوری دستور ایک طرف ڈال دے اور سامراجی ریاست کے راستے پر چلے تو اس کا انجام معلوم ہے۔ اس کا حل سری نگر کی سڑکوں پر نہیں بلکہ نئی دہلی کی پالیسی اور رویوں میں تبدیلی سے ظاہر ہونا ہے۔ (۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

اور اسی جریدے کے ۳۱ جولائی کے شمارے میں ایک مکتوب نگار فیاض احمد بھٹ نے کشمیر کے تمام نوجوانوں کے جذبات کا اس طرح اظہار کیا ہے:

یہ لشکرِ طیبہ یا علیحدگی پسند نہیں ہیں جو کشمیر میں نوجوانوں کو پتھر مارنے پر اُبھارتے ہیں۔ ریاست کی حکومت اور دہلی کی حکومت دونوں اس کی ذمہ دار ہیں۔ مرکز اور ریاست وادیِ کشمیر کے عوام میں بے معنی بیانات، اور کمیشنوں اور تحقیقات کے ڈراموں سے علیحدگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ میں ایک نام نہاد تعلیم یافتہ فرد ہوں لیکن حکومت کے طریقۂ کار سے مجھے غصہ آتا ہے اور میں خود پتھر پھینکنا چاہتا ہوں۔

کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے اس موجودہ مرحلے کو جو جون ۲۰۰۸ء سے شروع ہوکر    جون ۲۰۱۰ء اور اس کے بعد کے واقعات کی بنا پر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے، اس کے مزاج اور انداز کار پر بھی نگاہ ضروری ہے اور اہداف کے بارے میں جو محسوس اور غیرمحسوس تبدیلی واقع ہو رہی ہے اس کے ادراک کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت کو بدلتے ہوئے حالات کا کوئی ادراک نہیں، یا اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی ترجیحات پاکستانی قوم کی ترجیحات، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات اور کشمیری عوام کے عزائم، جذبات اور احساسات سے کوئی نسبت اور تعلق نہیں رکھتیں جو پاکستان، پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی اور غداری کے مترادف ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے سارے حقائق رکھے جائیں اور دینی اور سیاسی قوتوں کو دعوت دی جائے کہ وہ دوسرے سارے مسائل اور مشکلات کے علی الرغم پاکستان کی زیست اور بقا کے اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ دیں۔

زمینی حقائق

ہماری نگاہ میں تحریک کا یہ چوتھا مرحلہ بہت اہم اور غالباً فیصلہ کن ہے لیکن یہ اپنے پیش رو مراحل کا تسلسل ہے، ان سے انحراف نہیں، حالانکہ بھارتی اور کچھ مغربی تجزیہ کار اسے یہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے حالات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی امور کو سامنے رکھا جائے تاکہ صحیح پالیسی سازی اور عملی اقدام ممکن ہوسکیں:

m            ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے جو منفی اثرات مقبوضہ ممالک میں تحریکِ مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد پر پڑے ہیں اور جس میں امریکا،اسرائیل، روس اور بھارت نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے، نیز پاکستان کی مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت دونوں اس کی گرفت میں آگئی ہیں۔ اس گرفت سے ذہنی اور عملی دونوں سطحوں پر نکلنا اوّلین ضرورت ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے سہارے عالمی دہشت گردی کا جو بازار گرم کیا ہے، وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ عراق سے فوجوں کا انخلا شروع ہوچکا ہے اور افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سارا عمل بھی نہ شفاف ہے اور نہ حقیقی، لیکن حالات میں جو جوہری فرق واقع ہو رہا ہے اسے کوئی روک نہیں   سکتا۔ آزادی کی تحریکات کو دہشت گردی کا عنوان دے کر کچلنا ناممکن ہے۔ امریکا نے عالمی  عسکری دہشت گردی کے ساتھ جس ذہنی اور نظریاتی دہشت گردی کا ہدف پوری دنیا کو بنایا ہے اور بین الاقوامی قانون اور سیاست اور سفارت کاری کے اصول و آداب کو جس طرح مسخ کیا ہے، اس کے خلاف ردّعمل شروع ہوچکا ہے اور یہ بھی اپنے نتائج دکھائے گا۔ دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانے والی امریکا کی جنگ کے جو نقصانات پاکستان کو ہوئے ہیں، ان کا بھی اب ادراک ہورہا ہے۔ خود حکومت کے تازہ ترین جائزوں میں یہ بات آرہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ہی اس کی وجہ سے تہہ و بالا نہیں ہوئیں بلکہ پاکستان کی فوج اور حکومت عوام سے نبردآزما ہوگئے ہیں اور ملک خانہ جنگی کے خطرناک راستے پر پڑ گیا ہے، نیز معاشی طور پر اس نے ملک کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے تازہ ترین مطالعات کی روشنی میں پاکستان کے غریب عوام اس جنگ کی جو قیمت ادا کر رہے ہیں وہ ۰۵-۲۰۰۴ء میں اگر ۱ئ۲۸۹ ارب روپے تھی تو وہ بڑھ کر ۰۹-۲۰۰۸ء میں ۷۹ئ۶۷۷ ارب روپے ہوگئی ہے، اور اس طرح صرف پانچ برسوں میں کُل معاشی چوٹ (economic cost) اس غریب، قرض میں جکڑی ہوئی قوم پر پڑی ہے وہ ۱۲ئ۲۰۸۳ ارب روپے ہے جو ۱۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے اور غالباً ۱۰-۲۰۰۹ء اور ۱۱-۲۰۱۰ء میں یہ سالانہ ضرب ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجائے گی۔

اس جنگ کی دلدل سے نکلے بغیر ہمارے لیے زندگی اور ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے عملاً بھی نکلنا ضروری ہے اور علمی اور سیاسی سطح پر دہشت گردی اور جنگ ِ آزادی کے فرق کو جس طرح ختم کیا گیا ہے اس کے خلاف بھی بغاوت ضروری ہے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس کا موجودہ فراز اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سیاسی مخمصے  سے نجات حاصل کی جائے بلکہ اسے چیلنج کیا جائے جو اس صورت حال کا ذمہ دار ہے۔

  • دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کا راستہ ان شاء اللہ کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت کی افواج ہی نہیں، اب وہاں کے دانش ور اور تجزیہ کار بھی بادل ناخواستہ اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارت کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ قوت سے اہلِ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔ نوجوانوں اور خواتین کے میدان میں آنے اور پوری قوم کے ان کے ساتھ کھڑے ہونے نے اب یہ ثابت کر دیا ہے ۱۹۳۰ء میں جو تحریک شروع ہوئی تھی      وہ چاہے جن مراحل سے بھی گزری ہو اور اس کے اسلوب کار میں جو بھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں اس کا اوّلین ہدف صرف دو ہیں:

اوّلاً: بھارت کے قبضے سے نجات اور آزادی کا حصول، دوم: اپنے اسلامی اور کشمیری تشخص کی حفاظت اور دینی، تہذیبی اور تاریخی رشتوں کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا عزم۔

ہم بڑے دُکھ سے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کی ہولناک غلطیوں، کمزوریوں اور قلابازیوں کی وجہ سے پاکستان سے محبت، عقیدت اور یگانگت کے احساسات کے ساتھ اس کی قیادت سے مایوسی اور اس پر بے اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے دور کی   مشرف حکومت اور موجودہ زرداری گیلانی حکومت کی بے عملی اور بدعملی کی وجہ سے خطرناک حدود کو چھو رہا ہے۔ بھارت کے خلاف ان کے جذبات میں نہ صرف کوئی کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔   اب خود بھارت کے اخبار ہندستان ٹائمز کے سروے کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کے ۸۷فی صد نے بھارت سے آزادی کی تائید کی ہے۔ جموں و کشمیر میں غیرمسلم آبادی کے باوجود ۸۷ فی صد کے بھارت کے چنگل سے نکلنے کے عزم کا اظہار غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے منسلک رہنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، البتہ پاکستانی قوم اور قیادت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کشمیری عوام نے اب تک پاکستان کی قیادت اور پالیسیوں سے تو مایوسی بلکہ برائ.ت کا اعلان کیا ہے لیکن پاکستانی قوم سے ابھی تک انھیں اُمید ہے۔ گو ان کی مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے، اگر اب بھی ہم صحیح پالیسی اختیار کریں اور اس کی روشنی میں صحیح اقدام بھی کریں تو پاکستان سے رشتہ جوڑنا جو ان کے دل کی آواز اور تاریخی آرزو ہے ایک بار پھر ان کی اوّلین ترجیح بن سکتا ہے۔ البتہ بھارت سے آزادی ان کا وہ ہدف اور تاریخ کا وہ اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کا احساس اب بھارت کے سوچنے سمجھنے والے طبقوں میں بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی تجزیہ نگار بھی اس کا احساس و اعتراف کر رہے ہیں، مثلاً روزنامہ دی گارڈین لندن کے مقالہ نگار سائمن ٹس ڈال کے مطابق:

۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد سے، دہلی کی کشمیر پالیسی، یعنی استصواب راے عامہ کے  اقوامِ متحدہ کے مطالبے کو نظرانداز کرنا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، منتخب حکومتوں کو استعمال کرنا یا ان کا تختہ اُلٹ دینا اور معاشی ترقی کو نظرانداز کرنا___ مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ (باربرا کراسٹ کے مطابق بحوالہ دی نیشن)

تشدد اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بہت سے کشمیری ابھی تک اپنے آپ کو بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے اور اعلان کرتے ہیں کہ آیندہ بھی ہرگز نہیں سمجھیں گے۔ بھارت نے کئی لاکھ فوجیوں اور نیم فوجیوں پر مشتمل فوج کشمیر میں رکھی ہے جس نے گرمائی صدرمقام سری نگر کو ایک مسلح کیمپ میں تبدیل کردیا ہے جہاں اکثر کرفیو ہوتا ہے اور ہمیشہ سر پر بندوق ہوتی ہے۔ میڈیا سخت پابندیوں کے تحت کام کر رہا ہے۔ بنیادی حقوق کی  خلاف ورزی اور ٹارچر کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کا فلسطینیوں سے اسرائیل کے سلوک سے تقابل نامناسب نہیں۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۱؍اگست ۲۰۱۰ئ)

دی گارڈین ہی کی ایک اور مضمون نگار کیتھرین لیوک پاکستان کے سیلاب پر مغربی اقوام کے ردعمل کے موضوع پر حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھارت اور اس کی کشمیر پالیسی کا بھی تنقیدی جائزہ لیتی ہے اور اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ کیا گیا ہے:

بھارت کے اپنے گھر میں بھی خود ملکی حالات کی پیدا کردہ بغاوت موجود ہے۔ شمال مشرق میں نیکسلائٹ اور مائو دہشت گرد بھارت کے استحکام کے لیے خطرناک چیلنج ہیں۔ یہ انتہاپسندی جس کی وجہ غربت ہے عالمی مذمت کا نشانہ نہیں بنتی۔ جولائی کے اقوامِ متحدہ کے اشاریے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں افریقہ کے صحرائی خطے کے ۲۶ممالک سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہیں۔ بالآخر پریس میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ گذشتہ ۶۰ برس سے کشمیر کا تنازع حل نہ ہونے کی ذمہ داری زیادہ قطعیت سے بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۳/اگست ۲۰۱۰ئ)

خود بھارتی روزنامہ دی ہندو اپنے ایک حالیہ اداریے میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کی پوری ذمہ داری بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت اور اس کے استبدادی ہتھکنڈوں اور قوت سے سیاسی مسائل کو ختم کرنے کی پالیسی پر ڈالتا ہے۔ (دی ہندو، ۱۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

فیصلہ کن مرحلہ

کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آگئے ہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور وہ کسی کا انتظار نہیں کرے گی کہ کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگاچکی ہے۔ اب فیصلہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کو کرنا ہے کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر ان کا کردار کیا ہوگا؟ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے دبائو۱؎ اور مقامی زبانوں کے میڈیا کے شوروغوغا اور تشدد کو تیزتر کرنے کے واویلے کے باوجود بھارت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور خود پالیسی ساز ان حالات کو بہ امر مجبوری تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہرسطح پر نہ صرف مزاحمت ہے بلکہ بھارتی دانش ور چانکیہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے تسلط کو کسی نہ کسی شکل میں باقی رکھنے، تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، اس کی مخلص اور پرکھی ہوئی قیادت کے خلاف نت نئی چالیں چلنے، پاکستان کی حکومت کو نئے کھیلوں اور پھندوں میں اُلجھانے اور امریکا اور اسرائیل کے تعاون سے اپنی سازشوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔

جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں، وہیں ابھی سازشوں اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی پورا امکان ہے۔ اہلِ کشمیر اور پاکستان کو ہوا کے رُخ کو تو ضرور سمجھنا چاہیے مگر یہ جان کر کہ ابھی ظلم و ستم کی حکمرانی، قوت کے استعمال کے نئے تجربات، سیاسی سمجھوتوں اور دھوکوں کے نئے کھیل ’تقسیم کرو اور مسلط رہو‘ کی سامراجی پالیسی کے نئے ماڈلز کے تجربوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ  ع  ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!

۱-            بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے ۸جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں ایک مضمون Calming Kashmir میں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے جنگ جُو حلیفوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کا جو نسخہ پیش کیا گیا ہے وہ بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے: ’’پاکستان افضل خاں کی شیطانی پالیسی پر چل رہا ہے۔ اس کا جواب وہی ہے جو شیواجی نے دیا تھا‘‘۔ یہ اس تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے جب مرہٹہ سردار شیواجی نے مسلمان سپہ سالار  افضل خاں کو ’امن مذاکرات‘ کے لیے بلا کر قتل کر دیا تھا۔

بھارت، امریکا اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بھی اس مسئلے کے معتدل، مبنی برحق اور فوری حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج دونوں بھارتی حکومت اور فوج کی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے نتیجے میں امریکا کی عالمی حکمت عملی اور پاکستان پالیسی ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت اور اس مسئلے کے منصفانہ حل کے سلسلے میں بھی امریکا کا رویہ یکسر بدل گیا ہے۔

کیا یہی وجہ ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف بھارت پر دبائو دالنے سے گریز کر رہا ہے بلکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے بھارتی الزامات کا سہارا لے کر پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے اور صاف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کس کا دوست ہے اور کس کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور پاکستان کی پالیسی کی ناکامی کا ثبوت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دو بیانات ہیں جو ایک ہفتہ کے وقفہ سے جاری ہوئے۔ پہلے بیان میں کشمیر کے حالات پر تشویش اور بھارت اور پاکستان کو مسئلے کے حل کی ترغیب اور دوسرے میں پہلے بیان سے برائ.ت کا اعلان۔

عالمی ادارے، امریکا اور یورپی اقوام اور مغربی میڈیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی مفادات کی دوڑ میں بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کے مظالم اور سامراجی ہتھکنڈوں تک کا ذکر   الا ماشا اللہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ اب اس صحافتی بددیانتی، طاقت اور مفادات کی جنگ میں کھلی کھلی جانب داری کے خلاف بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں لیکن یہ آوازیں ابھی بہت ہلکی ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں، کشمیریوں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے اور سامراجی قوتوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں، اداروں اور میڈیا کو متحرک کیا جائے لیکن یہ کون کرے، جب کہ پاکستان کی قیادت، اس کے سفارت خانے اور اس کے وسائل پاکستان اور کشمیر کے مفاد میں استعمال نہیں ہو رہے۔

کشمیر کے اس اہم سیاسی اور انسانی مسئلے کے بارے میں تغافل اور جانب داری کے سلسلے میں سیاسی قوتوں اور میڈیا کی ناکامی کے بارے میں جو آوازیں اب اُٹھنے لگی ہیں ان کو پروجیکٹ کرنے اور مزید تائیدی قوتوں کو متحرک کرنے کے جتنے امکانات آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے لیکن کون ہے جو ان سے فائدہ اٹھائے؟

دل خون کے آنسو روتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور پاکستانی قیادت اور سفارت کار خاموش ہیں، جب کہ مغرب کے ایوانوں میں خواہ کتنے ہی مدہم سُروں میں ہو، یہ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ بھارت ظلم اور دھوکے کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے، حقائق بھارت کی تصویرکشی سے بہت مختلف ہیں اور کشمیر کے مجبور انسانوں کی آواز کو اب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں اردتارائے اور دوسرے دانش ور بھارت کی کشمیرپالیسی کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں بھی یہ احساس تقویت پارہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی نمایندہ Lyndia Polgreenسری نگر سے اپنی رپورٹ میں تازہ صورت حال کی پوری تصویرکشی کرتی ہے:

اسکول طالب علم ۱۹سالہ فدا نبی جس کے دماغ میں گولی پیوست تھی، چھے دن زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا رہ کر جان کی بازی ہار گیا۔ کشمیر کے موجودہ خونیں موسمِ گرما میں یہ ہلاک ہونے والا ۵۰واں فرد تھا۔

کئی عشروں سے بھارت نے کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج پاکستان کی برپا کردہ بغاوت کو فرو کرنے کے لیے لگا رکھی ہے۔ پاکستان اس سرحدی علاقے پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔ بغاوت بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے لیکن بھارتی افواج اب تک یہاں ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو درپیش خطرے کا سامنا کر رہی ہیں: ایک انتفاضہ کی طرح کی عوامی بغاوت جس میں نہ صرف پتھر پھینکنے والے نوجوان شامل ہیں بلکہ ان کی بہنیں، مائیں، چچا اور دادا بھی شامل ہیں۔ یہ احتجاج مسلسل تیسرے موسمِ گرما میں پھوٹ پڑے ہیں۔ انھوں نے بھارت کو اپنی حالیہ تاریخ کے سنگین ترین داخلی بحران سے دوچار کر دیا ہے، احتجاج کی شدت اور استقلال کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیریوں کی تائید حاصل کرنے کے لیے پیسہ، انتخابات اور بہت بڑے پیمانے پر طاقت کے عشروں تک کے استعمال کی ناکامی کا اعلان ہونے کی وجہ سے۔

جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی کے پروفیسر ایک کشمیری ہندو امیتاب متو کا کہنا ہے کہ ہمیں کشمیر میں اپنی پالیسیوں پر مکمل طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ پیسے کا مسئلہ نہیں ہے، آپ نے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا ہے۔ یہ منصفانہ انتخابات کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ کشمیریوں کی ایک ایسی نسل تک پہنچنے کا مسئلہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بہت بڑا بھوت ہے جس کی نمایندہ اس کی افواج اور ان کے مورچے ہیں۔

بلاشبہہ حق خود ارادی کے لیے کشمیریوں کا مطالبہ علاقے کی تاریخ میں اتنا شدید پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ تنازعے کے حل کی سفارتی کوششیں جمود کا شکار ہیں۔

لینڈاا پنی حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ:

اس موسمِ گرما میں احتجاج کرنے والوں اور فوجیوں کے درمیان ۹۰۰ کے قریب جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں ۵۰ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جو زیادہ تر بندوق کی گولی کے زخم سے ہلاک ہوئے ہیں۔پتھر پھینکنے والے مجمعوں نے ۱۲۰۰ فوجیوں کو زخمی کیا ہے اور کوئی بھی اس احتجاج میں ہلاک نہیں ہوا۔ جس سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ بھارت کی سیکورٹی فورسز غیرمسلح شہریوں کے خلاف اتنی زیادہ طاقت کیوں استعمال کررہی ہیں اور کیوں اس پر بین الاقوامی احتجاج اتنا کم ہے؟ ۳۱سالہ اسکول کے استاد الطاف احمد کا کہنا ہے کہ جب کشمیری سڑکوں پر مرتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے۔

بھارت کی غلط بیانیوں کا ذکر لینڈا اپنے اس اہم صحافتی مراسلے میں اس طرح کرتی ہے:

بھارتی حکام پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کو سرحدپار کی پاکستان کی جہادی طاقتوں کے ناخواندہ ساتھی کی شکل میں پیش کرتے ہیں، اور تجویز دیتے ہیں کہ معاشی ترقی اور ملازمتیں نوجوانوں کو سڑکوں سے ہٹانے کی کلید ہے۔ مگر پتھر پھینکنے والے بہت سوں کو ناخواندہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ فیس بک میں ’میں کشمیری پتھر پھینکنے والا ہوں‘کے نام سے گروپ بناتے ہیں۔ ایک نوجوان جو احتجاج میں باقاعدگی سے شریک ہوتا ہے اور خالدخان کے نام سے جانا جاتا ہے، ایم بی اے ہے اور اچھی آمدنی والی ملازمت پر ہے۔ (’بھارتی افواج کو کشمیر میں وسیع بغاوت کا سامنا‘ نیویارک ٹائمز، ۱۲؍اگست ۲۰۱۰ئ)

ہفت روزہ نیوزویک ۱۷جولائی کی اشاعت میں مصنف اور تجزیہ کار Jereny Kahn کا مضمون شائع کرتا ہے جو وزیراعظم من موہن سنگھ کو مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کی طرف  توجہ دو:

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے لیے تشدد کی لہر ایک مشکل چیلنج ہے۔ انھیں اپنی حکومت کے عقابوں کو بھی روکنا ہے، جیسے ان کے وزیرداخلہ چدم برم جو طاقت کے بہت زیادہ استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور موجودہ احتجاج کو پرانی طویل بغاوت سے جوڑ کر اور کسی ثبوت کے بغیر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان اور لشکرِطیبہ ان ہنگاموں کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کو اس احتجاجی تحریک کو وہی سمجھنا چاہیے جو یہ ہے۔ یہ ان نوجوان کشمیریوں کے غصے اور محرومی کا احساس ہے جو اپنے آپ کو بقیہ بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ریاست میں مواقع کے فقدان سے مایوسی کا شکار ہیں اور مقبوضہ لوگوں کی طرح رہنے سے تنگ آچکے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں فوجی اور پولیس کے سپاہی کشمیر میں موجود ہیں اور وادی میں ہر جگہ ان کی موجودگی نظر آتی ہے۔ ان سیکورٹی فورسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ صورت حال طاقت کے غلط استعمال کو دعوت دیتی ہے۔

طارق علی لندن کے جریدہ لندن ریویو آف بکس کی ۲۲جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں ایک مضمون Not Crushed, Merely Ignored میں بڑے دُکھ کے ساتھ پوری مغربی صحافت بشمول بائیں بازو کے دانش ور اور قلم کار سے شکایت کرتاہے کہ کشمیر میں مظالم کے کیسے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اور انسانیت خاموش تماشائی ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی قیادت اور میڈیا بھی اس بے حسی کا شکار ہیں:

کشمیر میں اموات کی خبریں تو غائب ہوجاتی ہیں، لیکن تہران کو جانے دیجیے، تبت کے معمولی سے واقعے کو بھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر فخر بھارت کے تشدد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو آسانی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑ دیا گیا اور اسرائیل کے فوجی افسروں کو اکنور کی فوجی چھائونی میں بلایا گیا تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے بارے میں مشورہ دیں۔ ویب سائٹ انڈیا ڈیفنس میں ستمبر ۲۰۰۸ء میں بتایا گیا کہ گذشتہ ہفتے میجر جنرل    اے وی مزراہی نے کشمیر کے متنازعے علاقے کا دورہ کیا تاکہ بھارتی فوج کو مسلمان باغیوں سے لڑائی میں جو چیلنج درپیش ہیں ان کو قریب سے دیکھ سکیں۔ تین دن وہ بھارت میں رہے اور فوج کی اعلیٰ قیادت سے اس منصوبے پر گفتگو کی کہ اسرائیلی کمانڈو بھارت کی افواج کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی تربیت دیں۔ ان کا واضح مشورہ یہ تھا کہ وہی کرو جو ہم فلسطین میں کرتے ہیں اور ہمارا اسلحہ خریدو۔ ۲۰۰۲ء کے بعد چھے سالوں میں بھارت نے اسرائیل سے ۵ارب ڈالر کااسلحہ خریدا۔

طارق علی بھارت کے مظالم کی کچھ جھلکیاں اس طرح دکھاتا ہے:

بھارتی وزیراعظم کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۰۰۸ء میں خط لکھا تھا جس میں کشمیر میں  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیل بیان کی تھی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں ۱۹۸۹ء سے جاری مسلح جدوجہد میں جو لوگ غیرقانونی طور پر قتل کیے گئے، ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا، لاپتا افراد اور دوسری زیادتیوں کا شکار ہوئے ان کی باقیات دفن ہیں۔

صرف اُری ضلع کے ۱۸ دیہاتوں میں ۹۴۰ افراد کی قبریں پائی گئیں۔ ایک مقامی    این جی او، آئی پی ٹی کے کا کہنا ہے کہ ماوراے عدالت قتل اور ٹارچر دادی میں عام طور پر ہوتے ہیں اور مغربی ادارے نئی دہلی سے تعلقات خراب ہونے کے خدشے سے    اس بارے میں کچھ کرنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔

آئی پی ٹی کے،کے فراہم کردہ اعداد و شمار حیرت ناک ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ۱۹۸۹ء سے ۲۰۰۹ء تک کشمیر میں فوجی قبضے کے دوران ۷۰ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ یہ رپورٹ ان دعووں کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ قتل انفرادی فعل ہیں۔ اس کے برخلاف یہ قبضہ کرنے کے باقاعدہ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کو دورانِ ملازمت کارکردگی سمجھا جاتا ہے اور اس پر ترقی اور مالی انعامات دیے جاتے ہیں اور دعووں کی تصدیق کر کے ادایگیاں کی جاتی ہیں۔ اس گھنائونے اور مسلسل جاری تنازعے میں ۵ لاکھ سے زیادہ فوجی اور  نیم فوجی عملہ (عراق اور افغانستان میں موجود امریکی افواج سے زیادہ) کسی سزا کے خدشے کے بغیر کشمیر بھر میں امن عامہ برقرار رکھتا ہے اور لوگوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرتا ہے۔ (لندن ریویو بُک، جلد۳۲، عدد ۱۴، ۲۲ جولائی ۲۰۱۰ئـ)

میں مغربی اخبارات اور رسائل کا مطالعہ گذشتہ ۴۰ سال سے کر رہا ہوں۔ کشمیر میں بھارت کے مظالم اور اس کی کشمیر پالیسی کے سلسلے میں جو معلومات اب آنا شروع ہوئی ہیں اس کی پہلے  نظیر نہیں ملتی۔ لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کی حکومت، اس کے سفارت کار اور خود اس کا میڈیا (نواے وقت، نیشن اور جسارت جیسے چند اخبارات کو چھوڑ کر) اس سلسلے میں جس بے حسی اور بے بصیرتی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ مجرمانہ غفلت سے بھی کچھ بڑھ کر ہے!

اھلِ کشمیر سے یک جھتی کا تقاضا

بھارت اس وقت پریشان ضرور ہے مگر اپنی شاطرانہ چال بازیوں سے باز نہیں آیا۔ وہ اس وقت بھی جب کشمیر کا چپہ چپہ اس کے خلاف بغاوت کی علامت بن گیا ہے، نت نئی چالوں میں  مصروف ہے۔ پاکستان سے مذاکرات اور مذاکرات میں اصل مسائل سے فرار، نیز پاکستان کو بلیک میل کرکے دبائو میں رکھنے کی کوشش اس کا حصہ ہے۔ اب تک ۱۵۰ سے زیادہ مذاکراتی نشستیں ہوچکی ہیں لیکن نہ ماضی میں کچھ حاصل ہوا اور نہ مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر آرہا ہے مگر پاکستان کو اُلجھا کر رکھنا اور بلیک میل کرنا دونوں کام جاری رہیں گے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے سلسلے میں اس کی ترجیح اس کو تقسیم کرنے، مذاکرات کا دھوکا دے کر تحریک کو تحلیل کرنے اور سب سے بڑھ کر اصل ایشو، یعنی حق خود ارادیت سے توجہ کو ہٹاکر معاشی پیکج اور علاقائی خودمختاری کا جھانسا دینا ہے جس کا تجربہ اہلِ کشمیر باربار کرچکے ہیں، اور شیخ عبداللہ ۱۱سال کی قید کے بعد اور خود اپنے تھوکے کو چاٹ لینے کے بعد دوبارہ برسرِاقتدار آئے لیکن ان کی موعودہ خودمختاری کا کیا حشر ہوا؟ خود  کلدیپ نائر کے الفاظ میں سن لیں اور کشمیر کی قیادت اس سے سبق لے:

شیخ عبداللہ اقتدار میں واپس آئے اور اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی سے یہ معاہدہ کیا جس سے وہ خودمختاری بحال ہوگئی جو نئی دہلی میں ان کی غیرحاضری میں ختم کردی گئی تھی۔ لیکن شیخ عبداللہ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ بیورو کریسی اور خفیہ ایجنسیاں جو مضبوط ہوچکی تھیں اس کو کام کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھیں۔ شیخ نے مجھ سے کہا کہ وہ اکثر مجھ سے چپڑاسی کا سلوک کرتے تھے۔ (ڈان، ۶؍اگست ۲۰۱۰ئ)

آج بھی خودمختاری کی باتیں ہو رہی ہیں اور تو اور خود کلدیپ نائر بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ الحاق اور آزادی دونوں ممکن نہیں۔ الحاق کا حشر دیکھ لیا اور آزادی ان کے بقول بھارت اور پاکستان دونوں کو قبول نہیں، اس لیے معاملہ خودمختاری پر طے ہوجانا چاہیے۔ حالانکہ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اہلِ جموں و کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے اور وہ تقسیمِ ملک کے فارمولے، بھارت کے عہدوپیمان، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوتوں کے پختہ وعدوں کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول نہ بین الاقوامی سرحد تھی اور نہ آج ہے۔ کشمیر کے لوگوں کی اس سرحد کے پارآمدورفت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخلہ یا اخراج کی حیثیت نہ رکھتے تھے اور نہ آج رکھتے ہیں۔ یہ ساری بحث کہ کس سرحد سے کون کہاں جا رہا ہے کشمیر کی حد تک غیرمتعلق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اور کشمیریوں کا حقِ خودارادیت محض وقت گزر جانے سے معدوم نہیں ہوجاتا اور اس حق کی حفاظت کشمیری عوام نے اپنے خون سے کی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے کم از کم تین فریق ہیں: یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام۔ بین الاقوامی قانون اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی رُو سے چوتھا فریق عالمی برادری بھی ہے۔ مسئلے کا محض دوطرفہ حل ناممکن ہے۔ حال ہی میں بی بی سی کی اُردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے خود عمرعبداللہ    یہ کہنے پر مجبور ہوا:

کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اسے بھارت اور پاکستان کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ ایسا حل نکالنا ہوگا جو جموں و کشمیر کے عوام کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ سیاسی ہے۔ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنا ہوگا۔ (بی بی سی اُردو سروس، سیربین، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ بنیادی مسئلہ ہے ہی حق خودارادیت کا اور اس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام تینوں کی شرکت اور اتفاق ضروری ہے، اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آخری حق اور اختیار جموں و کشمیر کے عوام کا ہے۔ جو بھی وہ طے کریں اسے قبول کیا جانا چاہیے اور مستقبل کا نظام ان کی مرضی سے قائم ہونا اور چلنا چاہیے۔ اس کے سواکوئی راستہ علاقے میں سلامتی اور استحکام کے حصول کا نہیں۔ اس کے لیے پاکستانی قوم اور حکومت اور عالمی برادری کو مثبت کردار اداکرنا ہوگا۔ سمجھوتوں کی سیاست ناکام رہی ہے۔ اصول اور حق و انصاف پر مبنی حل ہی مسئلے کا حل ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت جس مجرمانہ روش پر گامزن ہے وہ کشمیر، پاکستان، اُمت مسلمہ اور تاریخ سے غدّاری کی روش ہے اور پاکستانی قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس غلط کار حکومت کو یا اس راستے سے مضبوط ارادے کے ساتھ روک دے یا اقتدار ان لوگوں کے سپرد کردے جو ملک، علاقے اور مسلمانانِ پاکستان و کشمیر کے مفادات کی حفاظت کرسکیں۔ کشمیر کا مسئلہ فقط زمین کا تنازع نہیں___ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، نیز ان کے ایمان، تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اصولی بنیاد سے  ہٹ کر اس کا کوئی حل نہیںنکالا جاسکتا۔ یہ اہلِ کشمیر کا حق ہے، یہی پاکستان کا مفاد ہے اور یہی اسلام کا تقاضا ہے۔ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں نے ہر طرح سے قربانی دے کر اپنی منزل اور اپنے اہداف کا اظہار و اعلان کردیا ہے اور وہ کسی بھی سامراجی قوت کے آگے سپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

بھارت کے مظالم ہر انتہا کو پار کرگئے ہیں اور دنیا کی بے حسی افسوس ناک اور شرم ناک ہے لیکن پاکستان کے غیور مسلمانوں اور پوری اُمت مسلمہ کے لیے خاموش تماشائی کا کردار دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے کا سودا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کے لیے صحیح موقف کو کسی رُو رعایت کے بغیر واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو  اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

بلاشبہہ آج پاکستان ایک عظیم آزمایش سے دوچار ہے۔ سیلاب کے طوفان نے ایک چوتھائی ملک کو تاراج کر دیا ہے اور ہر علاقہ اور ہر خاندان متاثر ہے لیکن موجودہ حالات میں بھی اُمت مسلمہ کو جس کردار کی تلقین کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں اپنے ملک کے بھائیوں اور بچوں کے دُکھوں میں شریک اور ان کو اس آزمایش سے نکالنے کے لیے ہرممکن اقدام کریں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں، وہیں ان حالات اور مشکلات کے علی الرغم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی بھی بھرپور انداز میں فکر کریں اور ان کی جدوجہد کی تقویت اور ان کی تحریک کی کامیابی کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں،اور سب سے اہم اپنے اور ان کے اصولی موقف پر سختی سے جم جائیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی۔ صحیح نیت سے بندہ جتنا خرچ کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے:

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُلَہٗ وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَ ھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo (سبا ۳۴:۳۹) اے نبیؐ! ان سے کہو، ’’میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے،وہ سب رازقوں میں سے بہتر رازق ہے‘‘۔

اہلِ ایمان کو یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ فراخی اور غنٰی کے عالم میں دینا تو معمول کی کارروائی ہے، اصل امتحان اس میں ہے کہ تنگی اور سختی کے عالم میں اپنے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرو۔ قرآن نے جہاں فَے کی تقسیم کا اصول بیان کیا ہے وہاں اہلِ ایمان کو یہ ابدی ہدایت بھی دی ہے کہ:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِِلَیْھِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) اور وہ (یعنی اموال فَے) ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیںاور جو بھی ان کو دے دیا جائے  اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہ اسلام کے ابدی اصول ہیں اور فرد، معاشرہ اور ریاست ہر ایک کو ان کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانے کی ہدایت ہے۔ ان احکام کا تعلق محض انفرادی سطح پر اِنفاق تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج جن حالات میں پاکستانی قوم ہے اس میں ان سے روشنی لیتے ہوئے ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویے اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادایگی کی فکر اسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے جس سے ملک کے اندرونی مسائل حل، ضرورت مندوں کی مدد، غلط کاروں کا احتساب اور بحیثیت مجموعی اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنا ہم پر فرض ہے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پرچلنا، اور مصائب اور مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے ع

زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز

اور:

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے