ستمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| ستمبر ۲۰۱۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تاریخ افکار و علومِ اسلامی، علامہ راغب الطباخ (ترجمہ:افتخار احمد بلخی)۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز،  منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات (علی الترتیب) جلد اوّل: ۴۷۲، جلددوم: ۳۸۰۔ قیمت (علی الترتیب)جلد اوّل: ۴۴۰ روپے، جلد دوم: ۴۰۰روپے۔

یہ عربی کتاب الثقافۃ الاسلامیۃ کی اُردو ترجمانی ہے۔ ساڑھے آٹھ سوسے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کو موضوع اور مضامین کے لحاظ سے دوجلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی جلد ماقبل نبوت کی عرب تاریخ سے لے کر قرآن، علومِ قرآن اور حدیث و علومِ حدیث کے مباحث سے متعلق ہے۔ دوسری جلد فقہ، علوم و اُصولِ فقہ اور علم کلام و علم تصوف وغیرہ کی بحثوں پر مشتمل ہے۔

جلد اوّل میں عرب اور اسلام کے تاریخی، علمی اور تمدنی پس منظر پر نہایت اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعد ازاں قرآن مجید کے نزول، مضامین قرآن اور اس کے مقاصد، جمع و تدوینِ قرآن، قرآن کا اسلوب و اعجاز، لہجاتِ قرآن، قرآن کا رسم الخط، علمِ قرائ۔ت اور طبقاتِ قرائ، علمِ تجوید، تفسیر اور علمِ تفسیر، طبقات المفسرین اور ۳۶عربی تفاسیر کا اجمالی تعارف اس جامع انداز میں کرایا گیا ہے کہ ان تمام علوم وفنون کی نہ صرف وقعت و حیثیت اور اہمیت و ضرورت نمایاں ہوگئی ہے بلکہ ان کے حُسن و قبح بھی ظاہر ہوگئے ہیں۔ جلد اوّل کا دوسرا اہم مبحث حدیث اور علومِ حدیث ہیں۔ اس علم کے مقاصد و موضوعات اور اُسلوب و فصاحت کے تذکرے سے بات کا آغاز ہوتا ہے، اور پھر اقسام الحدیث، کتابتِ حدیث، جمع و تدوینِ حدیث اور اہم مجموعہ ہاے حدیث، روایت اور رواۃ، ائمہ و کتبِ حدیث کے طبقات، اُصولِ حدیث، صحاحِ ستہ اور اصطلاحاتِ حدیث کے مؤلفین کے تعارف پر اس بحث کا اختتام ہوتا ہے۔

جلد دوم علم الفقہ اور اس کی تدوین و اشاعت کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ علومِ اسلامیہ کے تعارف اور ابتدائی تالیفات، علم الفقہ کے تاریخی ارتقا اور فقہی مذاہب کے وجوہِ اختلاف پر متوازن اور معلومات افزا بحث ہے۔ چاروں ائمہ فقہ کے مسلک، ان کے تلامذہ اور ان کی تالیفات کا تعارف پیش کیا گیا اور اُن کے دائرۂ اثر کو بھی زمینی حدود کے اعتبار سے متعین کیا گیا ہے۔ یہ بحث ابتدائی تاریخ اور عصرِحاضر کے ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ اس جلد کا دوسرا اہم مبحث علم الکلام اور تصوف ہے۔ جلد دوم کا تیسرا ہم مبحث علومِ ادبیہ کا تذکرہ ہے۔ اس میں علم النحو، علم الصرف،  علم الاشتقاق، علم البلاغت اور علم الجدل کا تعارف کرایا گیا ہے۔ چوتھا اہم مبحث علمِ تاریخ ہے جس میں تاریخ کے ارتقا میں مسلمانوں کی خدمات اور اسلام میں مبداے تاریخ اور تاریخ کے مشہور مؤلفین کے مباحث شامل ہیں۔ پانچواں اہم مبحث یونانی علوم کی اشاعت و اثرات پر ہے۔ چھٹا مبحث علومِ اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اس مبحث میں زوالِ علوم و افکار کے بعد بیداری پر مختصر بات کرکے مختلف خطوں سوریا (شام)، تیونس (تونس)، جزائر (الجزائر)، مراکش (مغربِ اقصیٰ)، عراق، حجاز اور یمن کی علمی تاریخ، تنظیموں، کتابوں، علمی و تعلیمی اداروں، شخصیات اور علوم و معارف کے حوالے سے آگاہی دی گئی ہے۔

اسلامی علوم و معارف اور افکار و نظریات کو مصنف نے ’’اسلامی ثقافت‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ثقافت کی تعریف اور تعین پر نہایت فکر انگیز مقدمہ اربابِ دانش و اہلِ اقتدار کی چشم کشائی کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ مصنف کے نزدیک مسلم تہذیب کے افکار وعلوم ہی اس کی ثقافت ہیں۔ اسلامی تاریخ سے یقینا یہی علوم و فنون مسلمانوں کی ثقافت ثابت ہوتے ہیں۔ دین تہذیب کی بنیاد ہوتا ہے اورتہذیب سے ثقافت جنم لیتی ہے۔ لہٰذا رقص و سرود اور گلوکاری و اداکاری کبھی مسلم تہذیب کی ثقافت نہیں رہی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ شام کے اندر دمشق اور حلب کے لاکالجوں کے نصاب کے لیے مرتب کی گئی تھی مگر اس کی جامعیت اور مشمولات نے اسے پورے عالمِ اسلام کی ضرورت بنادیا ہے۔ علومِ اسلامیہ و عربیہ کا کوئی طالب علم یا اسکالر    اس کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے اعلیٰ سطحی نصابِ تعلیم میں اس کتاب کا مطالعہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے جس طرح یہ شام کے لاکالجوں میں بطور نصاب شامل ہے۔

اس کتاب کی تصنیف و تالیف میں مصنف نے جس عرق ریزی سے کام لیا ہے لائقِ صدتحسین ہے۔ اُردو ترجمہ مولانا افتخار احمد بلخی نے کیا ہے، مگر سرورق اور اندرونی سرورق پر مترجم کا نام نہیں دیا گیا۔  افسوس ہے کہ موجودہ ایڈیشن میں صفحہ سازی اور پروف خوانی کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ آیندہ اشاعت میں اس خامی کا بھرپور ازالہ کرنا ناشر پر واجب ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


علامہ اقبال اور میرحجازؐ ، ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: بزم اقبال ، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات:۷۶۔قیمت: ۱۰۰ روپے۔

محسن انسانیتؐ کی شخصیت کا سورج، اختتام کائنات تک انسانوں کی راہ نمائی کرتارہے گا۔انسانوں کے بحر برعظیم ہند میں علامہ محمد اقبال وہ نابغۂ روزگار ہیں جو غلام ہندستان میں پیدا توضرور ہوئے مگراپنے افکار کے ذریعے انھوں نے غلامی(سیاسی اورذہنی، یعنی ہر قسم کی غلامی) سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔تخلیق ارض وسماسے لے کران کے اپنے دور تک،اگر انھوں نے کسی ہستی کی عظمت و بالادستی کوبسروچشم قبول کیاتووہ محمد کریمؐ کی ذات ستودہ صفات ہے     ؎

ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست

فکرِ ما پروردۂ احسانِ تست

(یہ سب آپؐ کے لطفِ بے پایاں کے طفیل ہے، ہماری فکر نے آپؐ کے احسان سے پرورش پائی ہے۔)

اقبال نے (موجودہ دور میں اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر ہونے کے ناتے) قوت ِعشق سے ہر پست کو بالا کرنے اور دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کی عقیدت اورقلبی وابستگی کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نظر کتاب ایک پُراثر تحریر ہے۔ ۷۰صفحات میں ۲۰ عنوانات کے تحت،متعدد واقعات اوردرجنوں اشعار کوتاریخی حوالوں سے اس طرح سمیٹ دیاگیاہے کہ قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتاب میں علامہ اقبال کی زندگی، رسول اکرمؐ سے ان کی محبت، سفرِحجاز کے عزم،حج بیت اللہ کی خواہش، روضۂ رسولؐ کی زیارت کے واقعات کو  یک جا کر دیا گیا ہے۔ علامہ کی خواہش تھی کہ حیات مستعار کاآخری زمانہ سرزمینِ حجازمیں بسر ہو، وہیں دَم نکلے اور وہیں دفن ہوں۔ علامہ کی اس آرزوکو بھی مؤلّف نے مؤثر اسلوب میں بیان کیاہے۔(محمد ایوب منیر)


سوے حرم، ڈاکٹر ظفرحسین ظفر۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک۱۵، کراچی۔ فون: ۳۸۹۹۹۰۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۱۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

سوے حرم دیدۂ دل سے سفرِحجاز اور حرمین شریفین کی زیارت اور دید کا عکس ہے۔  مصنف نے اس مختصر سے سفرنامے میں روح پرور لمحوں کی تصویرکشی کرتے ہوئے ان اہم ترین مسائل کو چھیڑا ہے جن پر عام سفرنگار کم توجہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ علماے کرام کے نقطۂ نظر کے مطابق حدودِ حرم کے اندر وقف کا مسئلہ۔ اس کے علاوہ انھوں نے دکان داروں کے ان حربوں کا ذکر بھی کیا ہے جو دجل و فریب سے زائرین کو لوٹتے ہیں۔

بیانیہ انداز، مبالغے اور تصنع سے مبرا یہ سفرنامہ انسانی سوچ، فکر اور نفسیات کے اس پہلو کا آئینہ دار بھی ہے کہ کوئی انسان بڑی آزمایش سے دوچار ہو تو وہ صدمہ کہاں کہاں اُسے بے تاب کردیتا ہے۔ جواں ہمت انسان بھی کہاں کہاں سہاروں کے خواب دیکھتا ہے اور یقینا ایسے حساس انسان کی دعائوں کی تاثیر زوداثر ہوجاتی ہے۔ بے شک کوئی آزمایش اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی اور گہرے اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


صحیفہ، شبلی نمبر، مدیر: افضل حق قرشی۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون:۹۹۲۰۰۸۵۶-۰۴۲۔ صفحات: ۷۲۰۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

 ۲۰۱۴ء کو ’سالِ حالی و شبلی‘ کے طور پر منایا گیا۔ اخبارات و رسائل میں ملّت کے دونوں محسنوں پر بہت کچھ شائع ہوا۔ بعض اداروں نے حالی و شبلی سیمی نار بھی منعقد کیے۔ پاکستان کی نسبت بھارت میں تقریری اور تحریری لوازمہ زیادہ مقدار میں سامنے آیا۔ معارف کے مدیراعلیٰ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی کی دل چسپی سے دارالمصنّفین نے شبلی پر عالمی سیمی نار منعقد کیا تھا، پھر رسالے کے خاص نمبر کے علاوہ شبلی پر متعدد کتابیں بھی شائع کیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے مجلّے صحیفہ کا زیرنظر شبلی نمبر اپنے موضوع پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً ۵۰ مضامین پر مشتمل اس ضخیم اشاعت میں شبلی کے سوانح، تصانیف، شعری و نثری کاوشوں اور ان کی نقاد، شاعر، سیرت نگار، مؤرخ کی حیثیتوں پر ہمارے معروف اہلِ قلم (سرسیّد احمد خاں سے لے کر راقم الحروف تک) نے لکھا ہے۔

نئے اور پرانے منتخب مضامین کی تدوین، اشعار اور حوالوں کی اصلاح اور اقتباسات کی تصحیح کے ذیل میں ایڈیٹر کی محنت صاف نظر آتی ہے۔ مجلس ادارت (تحسین فراقی اور افضل حق قرشی) نے بھی مضامین کی شکل میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا مضمون خصوصیت سے علّامہ شبلی کے ایک ایرانی مداح و مترجم فخرِداعی گیلانی سے متعارف کراتا ہے۔ ہمارے علمی حلقوں میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہوں گے۔

قرشی صاحب نے شبلی کی ۱۶ غیر مدّون تحریروں اور تقریروں پر مشتمل ’نوادرِ شبلی‘ پیش کیے ہیں۔  مختصر یہ کہ شبلی پر یہ ایک معلومات افزا اور مستند اشاعت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سرکاری اداروں کی اصلاح، پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب۔ ناشر:ایٹلانٹس پبلی کیشنز، ایسڑن اسٹوڈیو کمپاؤنڈ، بی ۱۶ سائٹ کراچی۔فون:۳۲۵۷۸۲۷۳-۰۲۱۔ صفحات :۳۸۴۔ قیمت: ۵۸۰ روپے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب پاکستان میں شعبۂ تعلیم کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ قریباً ۴۵ سال درس و تدریس ، تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات اور مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں پر فائز رہے، جہاں انھیں مختلف اور ہمہ گیر نوعیت کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ زیر نظر کتاب انھی منفرد تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے، جنھیں مصنف نے بہت خوبی سے قلم بند کیا تاکہ آیندہ آنے والے افراد کو ان تجربات سے استفادے کا موقع ملے۔

کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ (ص ۲۹ تا ۲۲۰) آئی بی اے سے حاصل شدہ مشاہدات سے متعلق ہے جہاں مصنف نے بحیثیت لیکچرار ، ڈین اور بعد ازاں ڈائرکٹر کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ گزارا ہے ۔ حصہ اول میں معیارِ تعلیم کی بہتری ، ادارے میں نئے پروگرامات کے اجرا، نظم و ضبط کے اُمور، میرٹ کی بحالی، مالی بدعنوانیوں پر قابو پانا،دبائو کا مقابلہ اور تعلیمی ادارں میں امن و امان کے حوالے سے کیے گئے اقدامات اور نتائج پر گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ (ص ۲۳۰ تا ۳۷۷) جامعہ کراچی، جہاں مصنف شیخ الجامعہ کی حیثیت سے فائز رہے، کے مشاہدات پر مبنی ہے۔حصہ دوم میں جامعہ کراچی میں کی گئی تعلیمی و انتظامی اصلاحات، ریسرچ کی حالت زار اور جامعہ کے اثاثہ جات کی حفاظت سے متعلق اُمور زیربحث آئے ہیں۔

اس کتاب کا اصل سبق یہ ہے کہ کسی ادارے میں بگاڑ ہو اور سربراہ اصلاحِ احوال کرنا چاہے تو وہ بڑی حد تک کرسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ خود ایسے کردار کا مالک ہو کہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ مخالفتوں کا مقابلہ عزم و حوصلے سے کرے، اللہ کی مدد طلب کرتا رہے۔ داخلہ ٹیسٹ میں دو نمبر کم ہونے پر بیٹے کو بھی داخلہ نہ دیا۔ جعلی ڈگریوں کا منظم سلسلہ جاری تھا، اسے توڑنے میں کیا کچھ  نہ کرنا پڑا۔ جعلی بل پاس نہ کیے تو قاتلانہ حملہ ہوا۔ پوری کتاب اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آنکھیں کھولنے والی ہے اس لیے کہ ہم ۱۰، ۲۰، ۳۰ سال پہلے اور وہ بھی تعلیمی اداروں میں اتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی توقع نہیں کرتے۔ (عبداللّٰہ فیضی )

 


سو (۱۰۰)عظیم مسلم خواتین، مرتب : میر بابر مشتاق۔ ناشر:عثمان پبلی کیشنز ۱۷-بی،فیض آباد، ماڈل کالونی،کراچی۔ فون: ۷۴۲۰۸۰۱-۰۳۳۶۔صفحات:۴۶۰۔ قیمت: ۴۹۵ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں تعمیرِمعاشرہ میں خواتین کے کردار کو زیربحث لایاگیا ہے اور معروف مسلم خواتین کے تذکرے کی صورت میں فکروعمل کے لیے راہ نمائی، نمونہ اور مثالی کردار اور ایمان افروز واقعات پیش کیے گئے ہیں، نیز ظلمت سے روشنی کا سفر کرنے والی معروف نومسلم خواتین کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔ گویا حضرت حواؑ سے نومسلم ڈاکٹر ماریہ تک، مختلف خواتین کے تذکرے سے اسے سجایا گیا ہے۔

ایک بنیادی چیز جو اس کتاب میں کھٹکتی ہے ، وہ یہ کہ نہ تو ان تحریروں کے مصنّفین کا ذکر  کیا گیا ہے اور نہ ان کتب اور مآخذ ہی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


یہودی سیاست (ماضی سے حال تک)، رضی الدین سیّد۔ ناشر: شرکۃ الامتیاز، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۲۳۴۴۸۲۶-۰۳۲۲۔ صفحات:۲۴۷۔ قیمت: ۳۲۰ روپے۔

یہودی دنیا میں غلبے کے لیے ایک مدت سے سازشوں میں مصروف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں ۱۴مسلم اور غیرمسلم (یہودی و عیسائی) مفکرین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے، جن میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

کیرن آرمسٹرانگ نے یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں مختلف اَدوار میں یہودیوں کی جلاوطنی اور تباہی کا جائزہ لیا ہے۔ یہودی مصنف نارٹن میزونیسکی نے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کی قتل و غارت گری کے علاوہ ان کا معاشی قتلِ عام بھی جاری ہے۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع ختم کیے جارہے ہیں اور وہ بدترین حالات میں محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ فلسطینی بستیوں کو قصداً پس ماندہ رکھا جا رہا ہے اور فلسطینی پانی کے لیے کنویں کھودنے تک کے حق سے محروم ہیں۔

رکن امریکی کانگریس پال فنڈلے امریکا میں یہودی اثرو رسوخ کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح امریکی پالیسیاں یہودی مفادات کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ عالمی نظامِ حکومت کے ایک ایسے منصوبے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے تحت ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی کو مختلف حربوں سے گھٹا کر ایک ارب کردیا جائے گا اور پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے گا۔اس کتاب کے مطالعے سے یہودی ذہنیت اور سیاست کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور غیرمسلم مفکرین کی تحریریں اس پر صاد ہیں۔ (امجد عباسی)