ستمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

قرآن اور خاندان -۳

ڈاکٹر کوثر فردوس | ستمبر ۲۰۲۳ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انھیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے___ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے___ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۲-۲۳۳)

یعنی دودھ پلانے کا معاملہ اس صورت میں طے ہونا ضروری ہے، جب ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی ہو ۔اس کے لیے نان نفقہ بھی دینا ہوگا۔ باپ کا انتقال ہو جائے تو یہ حق اس کو ادا کرنا ہوگا جو باپ کی جگہ ولی ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ علیحدگی اور شوہر کی وفات کی صورت میں بچہ ددھیال والے لے لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہم خود دیکھ لیں گے۔ عورت کی خواہش کے برعکس ایسا کرنا ممتا کےلیے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اس لیے ایسے افعال سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

بیوہ کی عدّت

تم میں سے جو لوگ مر جائیں، اُن کے پیچھے اگر اُن کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے، دس دن روکے رکھیں۔ پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے، تو انھیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۴)

’’یہ عدّ تِ وفا ت ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔اس کی عدّتِ وفات وضع حمل تک ہے ،خواہ وضع حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یااس میں کئی مہینے صرف ہو ں۔ ' ’اپنے آپ کو روکے رکھیں‘ 'سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مدت میں نکاح نہ کریں ،بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے، مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ وہ اس زمانے میں گھر سے نکل سکتی ہیں یا نہیں؟ائمہ اربعہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانۂ عدّت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو (البتہ ضر ورت کے لیے) وہ باہر جا سکتی ہے مگر قیام اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس حضرت عائشہؓ اور تمام اہل الظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ ۲۵۹)

’عدّت‘ کے احکام سے بے خبری بھی عام ہے اور کچھ خود ساختہ آزادی یا پابندیاںہیں  جس پر عموماً معاشرے میں عمل ہوتا ہے ۔ایک رویہ یہ ہے کہ عورت کو سفید دوپٹہ اُ وڑھا دیا جائے، زیورات اتار دیئے جائیں ،قریب سے بھی آوازیں آتی ہیں 'ہائے بے چاری کیا کرے، کچھ نہیں ہوتا خوامخو ا ہ کی سختی نہ کریں ۔ملی جلی آوازوں میں، بیوہ بھی پریشان اور گومگو کی کیفیت میں چلی جاتی ہے کیونکہ خود علم نہیں ہوتا اور فوری طور پر علم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا۔

عدّت کے دوران نکاح کی ممانعت

زمانۂ عدّت میں خواہ تم اُن بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمھارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معرف طریقے سے کرو۔ (البقرہ ۲:۲۳۵)

’عدّت‘ کے احکام کا علم نہ ہونے کی بنا پر، یا کئی اور نام نہاد مجبوریوں کی آڑ میں کبھی علانیہ اور اکثر خفیہ رکھ کر نکاح کر لیا جاتا ہے،جو کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور اگر معاشرے کے سرکردہ لوگ ،اسی طرح کریں تو وہ بھی عوام الناس کے لیے وجۂ جواز بن جاتی ہے۔

رخصتی سے قبل طلاق

تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں اُنھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقے سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ (البقرہ ۲:۲۳۶)

رشتہ جوڑ کر توڑ دینے سے عورت کی ساکھ کو نقصان تو پہنچتا ہے،اس لیے اللہ نے حسبِ استطاعت ازالے کا حکم دیا ہے۔

اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمھارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۷)

 یعنی نکاح ہوگیا ،رخصتی نہیں ہوئی اور مہر مقرر ہو چکا تھا تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا ۔اور اس میں شوہر اور بیوی دونوں کو فراخ دلی اور فیاضی برتنے کی تلقین کی گئی ہے، کہ انسانی معاشرے میں خوش گوار تعلقات کی اساس یہی ہے۔ اور یہی تقویٰ کا رویہ ہے۔

بیوہ کے حق میں وصیت

تم میں سے جو لوگوں وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، اُن کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(البقرہ ۲:۲۴۰)

یہ احکامِ وراثت سے پہلے کی آیت ہے۔ بیوہ کا ورثے میں حصہ مقرر ہو جانے کے بعد، اس وصیت کر نے کا حکم منسوخ ہو گیا ،تاہم پسندیدہ یہی ہے کہ بیوہ سسرال میں ہی رہے۔ البتہ اگر سسرال میں قدرے مشکل ہو یا میکے میں آسانی ہو یا کوئی مجبوری ہو تو وہ دوسری جگہ بھی قیام کر سکتی ہے۔

علیحدگی کے وقت حسنِ معا ملہ

اِسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے۔ اُمید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔(البقرہ ۲:۲۴۱-۲۴۲)

طلاق سے گو کہ شوہر اور بیوی کے تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ اور طلاق کا عمل بالعموم   آپس کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں ناراض ہونے، لڑنے یا تعلقات ختم کرتے ہوئے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ تحا ئف دلوں کو نرم کرتے ہیں۔ رنج اور غصے کی کیفیت جو علیحدگی کے وقت طر فین پر طاری ہوتی ہے،کچھ دینے اور لینے سے بہتر ہوتی ہے۔

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء ۴:۱)

آغاز اس سے کیا کہ ’تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا‘۔خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے معنی ہیں اسی کی جنس سے۔ اگرچہ اس کے معنی لوگوں نے اور بھی لیے ہیں، لیکن جس کی بنیاد پر لیے ہیں وہ نہایت کمزور ہے۔ سورئہ نحل میں ہے: وَاللہُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (۱۶:۷۲) کہ اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔ مراد یہ کہ نسلِ انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے، اور نسلِ آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں، پھر یہ کہ جس طرح آدمؑ تمام نسلِ انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حواؑ تمام نسلِ انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حواؑ کو آدم ؑ ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر،فروتر اور فطری گنہگار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرفِ انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔(مولانا امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن، ج۲، ص ۲۴۵-۲۴۷)

آغاز میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو، رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ ’’یہ یقین کرلو ،اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘ ۔یہ آیت ،یعنی سورۂ نساء ،کی پہلی آیت خطبۂ نکاح میں پڑھی جاتی ہے ۔اس میں یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ، اس جوڑے کے باہمی معاملات کی نگرانی کررہا ہے۔ نکاح دُنیاداری یا رسمِ دُنیا نہیں، کچھ تقریبات ،کپڑوں اور زیورات کی نمائش نہیں ۔یہ کڑی ذمہ داری اور باہمی تعلقات کی ابتدا وعہد ہے جو رب کی رضا کے حصول کے لیے، رب کے حکم پر عمل کرنا ہے۔ کتنی بدنصیبی ہوتی ہے ،جب یہ تعلق ،اللہ کی رضا کی بجائے ،ہمارے طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ کی ناراضی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

یتیم کے مال کی حفاظت

یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔(النساء ۴:۲) 

یعنی جب تک وہ بچے ہیں، ان کے مال انھی کے مفاد پر خرچ کرو، اور جب بڑے ہوجائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انھیں واپس کر دو۔

تعدد ازدواج

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔(النساء ۴:۳)

اس کے تین مفہوم مفسرین نے بیان کیے ہیں :

۱-حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر دھرا تو ہے نہیں ،جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ،وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں،ان میں سے جو تمھیں پسند آئیں، ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔اسی سورہ میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔

۲-ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حدنہ تھی ۔ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا ۔اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ،بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی ہے اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔

۳-سعید بن جُبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں ،کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔نیز اس کامفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں ۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، حاشیہ۴)

یہ بات بھی قابل غور ہےکہ یہ آیت چار بیویوں کی اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ تعددِ اَزواج کی تعداد کو چار تک محدود کرنے کے لیے نازل ہوئی ۔فقہائے امت کا بھی اجماع ہے کہ اس آیت کے ذریعے تعددِاَزواج کی حد مقرر کر دی گئی ۔اور یہ حکم ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع کرنے کے لیے ہے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ آیت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص بیویاں ایک سے زیادہ رکھتا ہےمگر ان کے در میا ن عدل نہیں کرتا، وہ اللہ کے اس حکم سے کہ ’ایک سے زیادہ بیویاں کرلو‘ سے تو فائدہ اٹھاتا ہے مگر عدل نہ کر کے گویا اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔

اسلامی حکومت کی عدالتوں کو ایسی بیوی یا بیو یو ں کی داد رسی کرنی چاہیے ،جن کو شوہر سے انصاف نہ ملے۔ ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنا بعض حالات میں ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے ،تو جو لوگ ایک بیوی پر صبر نہیں کرسکتے، دوسری عورتوں کے ساتھ صنفی تعلقات قائم کرتے ہیں اور تمدنی و اخلاقی مسائل کی وجہ بنتے ہیں، جس کے نقصانات معاشرے کو اس سے کئی گنازیادہ بھگتنے پڑتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت ملنا ایک استثنائی حکم ہے۔

اہل مغرب کی عیسائیت زدہ رائے کی بنا پر بعض احساسِ کمتری کا شکار قرآن کے اس حکم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیویوں کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے یہ ابتدائی حکم دیا تھا۔ گویا اصلاً ایک ہی بیوی ہونااسلام کا حکم ہے،یہ رائے غلط ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، حاشیہ۵)

آخر میں جو یہ فرمایا کہ ان عورتوں کو اپنی زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضے میں ہیں ،تو اس سے مراد لونڈیاں ہیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں ،جو جنگ میں گرفتار ہوکر آئیں اور حکومت ان کو علانیہ لوگوں میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت بنا دے۔(ایضاً، حاشیہ نمبر۶)

ایک سے زیادہ نکاح کے بارے میں امت مسلمہ کے رویے مختلف ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی عورت دوسری بیوی یا سوکن کو بہت مشکل سے گوارا کرتی ہے،اور اس گھر کے سو مسائل شروع ہوجاتے ہیں، جو مرد سنبھال نہیں پاتا۔ بقیہ دنیا میں ملا جلا معاملہ ہے ۔ مرد دوسرے نکاح تو کرلیتے ہیں مگر عدل کامعاملہ عموماً نہیں کر پاتے۔ جس پر نہ وہ خود مطمئن ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ دین کی سمجھ رکھنے والی بیویوں کو بھی مطمئن نہیں کر پاتے۔

مہر

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ (النساء ۴:۴)

 بیویوں کے ’مہر‘ان کا حق ہے ۔اور اس ’مہر‘ کا ادا کیا جانا شوہر پر فرض ہے ۔نکاح کے موقع پر ہی مقررکردہ ’مہر‘ ادا کر دیا جانا اولیٰ ہےمگر ’معجل‘ اور’ غیرمعجل‘ کی رعایت بھی موجود ہے۔ بیوی شوہر کو حق مہر معاف بھی کر سکتی ہے ۔لیکن بعد ازاںاگر وہ پھر اس کا مطالبہ کرے تو شوہر کو یہ ادا کرنا ہوگا،اور عدالت عورت کو یہ دلوانے کی پابند ہوگی۔کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔

’مہر‘ کے معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ حق مہر کی ادائیگی طلاق دینے کے وقت تک مؤخرر کھی جاتی ہے ۔بہت زیادہ حق مہر لکھوائے جاتے ہیں کہ مرد لڑکی کو طلاق نہ دے سکے ۔باہم فریقین کا نباہ بھی نہیں ہوتا ،مگر تفریق کبھی نہیں ہو سکتی، کہ لڑکا لکھا ہوا حق مہر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا ۔

’حق مہر‘ کا ایک خود ساختہ تصور ’شرعی حق مہر‘ کا ہے جو کہ ۳۵ روپے ہے۔لوگ دین دار گھرانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ اب ان کی دین داری کہا ں ہےاور زیادہ مہر کیوں مقرر کر رہے ہیں؟ مہر بھی دین کا وہ حکم ہے جو دین دار حلقوں میں بھی کما حقہٗ متعارف نہیں۔ اس پر عمل ضروری ہے ،کہ اس کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور اس میں حیلے بہانے کرنے والوں کی کسی درجہ میں گرفت ہوسکے۔

وراثت کی تقسیم

 مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔(النساء ۴:۷)

اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں:ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں ،تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔تیسرے، اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا، خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔چوتھے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو ۔پانچویں، اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب کے رشتےدار کی موجودگی میں بعید تر رشتےدار میراث نہ پائے گا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء حاشیہ ۱۲)

وراثت میں حصہ مردوں اور عورتوں کا ہے اور رشتے کے لحاظ سے ہے ۔مرد بیٹا ہے ،یا باپ ہے، عورت بیٹی ہے ،یا ماں ہے ۔عملاً معاشرے میں اِلا ماشاء اللہ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو،تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں تقسیم ہوتی ہے وہاں صرف نقد رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ۲۰ لاکھ بہن کے حصے میں آتا ہےتو ۱۰ لاکھ دے کر فارغ ہو جائیں گے ۔گھر بالعموم مشترکہ ہوتے ہیں، وہ تقسیم ہو تو کاروبار خراب ہوتا ہے،لہٰذا بہن کے حصے میں کچھ نہیں آ تا ہے ۔

گھر تقسیم کیسے ہوں؟ بہنوں کو حصہ کیسے دیں ؟ دے دیں تو ماں اور بیٹے کہاں رہیں ؟ لہٰذا تقسیم نہیں ہوسکتا اور نہیں ہوتا ۔رہا دوسرا سامان و غیرہ، تو وہ سب حساب میں لایا ہی نہیں جاتا ،ماں بھی بہوؤں کی ہم نوا بن جاتی ہے ، بیٹیاں اپنی قسمت کاکھا رہی ہیں ،یہاں کی چیزیں یہاں ہی رہنے دو ،یا ان چیزوں کی تقسیم کا کیا ذکر ہے؟

ماں باپ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے بیٹے اور بیٹیوں کے نام برابر ہدیہ کر دیتے ہیں کہ ہد یے میں تو برابری ہونی چاہیے ۔بعد میں بچے لڑتے نہ رہیں، بیٹیوں کو شاید حصہ نہ دیں یا یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری جائیداد اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کے نام کر دیں تو بیٹیاں عدالت جاپہنچیں۔ نہ بہوؤں کو اپنے میکے سے حصہ ملتا ہے، نہ وہ نندوں کو حصہ دینے کے حق میں ہوتی ہیں۔ اگر کہیں بیٹیاں خاموش رہنے کی بجائے ،زبان کھول کر مانگ لیں تو ساری عمر ان کا میکے میں داخلہ بند اور باہم لین دین ، شادی،خوشی کے موقع پر مل بیٹھنا سب ختم ہو جاتا ہے و غیر ہ ۔

قرآن میں قانونِ وراثت بڑی تفصیل سے مذکور ہے ،اس کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ،اس کا ابلاغ کرنا، بحیثیت مسلمان ہماری سب کی ذمہ داری ہے ۔جس کے بارے میں یقیناا للہ پوچھے گا۔

یتیم کے مال کی حرمت

لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔(النساء ۴:۹)

یہاں پھر اللہ تعالیٰ خاندانوں میں رہنے والے یتیموں کے حقوق کے بارے میں یاد دہانی اور تاکید کرتا ہے ۔یتیم کا والی وارث دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اللہ خود اس کے مال کے حوالے سے تمام مسلمانوں کو مالِ یتیم کی حرمت کے لیے یاد دہانی کراتا ہے۔

اولاد اور والدین کا میراث میں حصہ

تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب ِاولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب ِاولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)، جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔(النساء ۴:۱۱)

’میراث‘ کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ مرد کا حصہ عورت کے حصے سے دوگنا ہو تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر ا للہ نے خا ند ا نی زندگی میں معاش کا بوجھ ڈالا ہے ،اور عورت پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ مرد عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔

اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہو ں تو حصوں میں نسبت ۱:۲ / لڑکا :لڑکی ہو گی، لیکن اگر وارث صرف لڑکیاں ہوں تو ان کو کل ترکےکا ۳/۲ملے گا اور ۳/۱  باقی وارثوںمیں تقسیم ہوگا۔

اگر اولاد میں صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہےکہ وہ کل جائیداد کا وارث ہوگا، جب کہ دوسرے وارث موجود نہ ہوں۔

والدین میں ہر ایک کا حصہ ۶/۱ ہے ،اگر میت صاحب اولاد ہو ۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ۳/۱  حصہ ملے گا۔ آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض کا ہونا ہر میت کے حق میں ضروری نہیں ہے اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اجماع اس پر ہے کہ قرض پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت یعنی ایک تہائی وراثت کے بارے میں میت نے جو کہا ہے وہ نکالا جائے گا۔ بعد ازاں وراثت وارثوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کل ورثے کا ۳/۱  حصہ ہوگا۔ اس میں کسی رشتے دار، یتیم پوتا پوتی ،دیگر ضرورت مند افراد یا اداروں کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔ وصیت اُس کے حق میں نہیں ہوگی جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں مقرر کر دیا ہے۔

قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل ورثاکی ذمہ داری ہے۔ جس کو خوشی خوشی ناک منہ چڑھائے بغیر پورا کیا جانا چاہیے ۔اگر مرنے والے نے وصیت میں کچھ بے جاتصرف کیا ہے ،تو ورثا باہم مشورے و رضامندی سے کسی قاضی کے ذریعے ،یہ بے ضابطگی درست کروا سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جو مبنی بر حکمت ہے ۔اس کو پوری طرح سے نافذ کرنا چاہیے ۔اور اس میں اپنی ناقص عقل سے اصلاحات تجویز کرنا ،یا ہیرا پھیری کے راستے تلاش نہیں کرنے چاہییں۔