علّامہ محمداقبال


بادشاہوں کے ’خدائی حق‘ کا تصور اتنا ہی قدیم ہے، جتنا خود بادشاہت کا ادارہ۔ دونوں ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ اس اصول کے مطابق مشرق و مغرب دونوں جگہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’بادشاہ اپنے اختیارات براہِ راست خدا سے حاصل کرتا ہے‘۔ بظاہر یہ عقیدہ مشرق کی ایجاد معلوم ہوتا ہے، جسے عیسائیت کی ابتداء کے بعد مغرب میں درآمد کیا گیا۔ اس تصور کے منطقی نتیجے میں دو اور اصول پیدا ہوتے ہیں:

  • پہلا اصول یہ ہے کہ بادشاہ، زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے، اس لیے وہ رعایا کی ہرذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اس کا فرمان ہی قانون ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرسکتا ہے، اس کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ انگریزی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ’بادشاہ غلطی نہیں کرسکتا‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسی الٰہیاتی تقدس کی باقیات میں سے ہے، جسے بادشاہ کی ذات سے مخصوص کردیا گیا تھا۔
  • دوسرا اصول یہ ہے کہ بادشاہت اسی ایک خاندان تک محدود رہے گی، جسے مقدس شمار کیا جائے گا۔

بادشاہت کے اسی ’تقدس آمیز‘ تصور کی بنا پر ازمنہ وسطیٰ (Middle Ages)کی عیسائی دُنیا میں بادشاہوں کو تاج پوشی کے وقت مذہبی اداروں کی طرف سے ’اصطباغ‘ (Baptism)دیا جاتا تھا۔ شکسپیئر [م:۱۶۱۶ء] بادشاہ رچرڈ دوم کی زبان سے یہ الفاظ کہلواتا ہے: ’دُنیا کی تمام تخریبی قوتیں مجتمع ہوکر بھی اصطباغ شدہ بادشاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘‘۔

تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ انگلستان میں سترھویں صدی کی خانہ جنگی میں کس قدر کشت و خون ہوا، یہ سب اسی اصول پر لوگوں کے سیاسی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ شاہ پسندوں کا خیال تھا کہ ’تمام عیسائی بادشاہوں، شہزادوں اور حاکموں کو اقتدار منجانب اللہ حاصل ہوتا ہے‘۔ [اس کے برعکس] جمہوریت پسندوں کا خیال تھا کہ ’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘۔ بادشاہ چارلس اوّل کا پھانسی پانا، اس مؤخرالذکر اصول کے حامیوں کی جیت تھی۔ ’انقلابِ فرانس‘ [۱۷۸۹ء-۱۷۹۹ء]نے آخرکار بادشاہوں کے خدائی حق کا تصور بالکل پاش پاش کردیا۔ اگرچہ ہر مغربی ملک میں شاہ پسندوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں یہ نظریہ اب بھی مقبول ہے۔

بہرطور، اب سوال یہ ہے کہ اِن ’خدائی حقوق‘ کے بارے میں بادشاہوں کے دعوے یا اس اصول کے حامی عوام کا اعتقاد کہاں تک حق بجانب ہے اور انھیں اس دعوے کا استحقاق کس قدر ہے؟ اس مسئلے پر نظر ڈالتے ہی خیال آتا ہے کہ اس میں خدائی کی بات تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے عام انسانی ذرائع استعمال کیے۔ ان کے پاس آزادی کے مطالبوں کا گلا گھونٹنے کے لیے پولیس اور جیل خانے موجود تھے۔ نیز دوست اور ہمدرد خریدنے کے لیے بے اندازہ دولت تھی۔ان لوگوں نے مادی ذرائع استعمال کرکے انسانوں پر حکومت کی۔ اگر کسی اور شخص کو بھی یہ سہولتیں مہیا کردی جائیں، تو وہ بھی حکومت کرسکتا ہے۔ اس میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ کوئی آدمی جس میں اُلوہیت کا شائبہ بھی موجود نہ ہو ، بس ذرا سی عقل رکھتا ہو، اُسے فوج، خزانہ اور جملہ شاہی لوازمات فراہم کردیجیے، وہ ایسا ہی بادشاہ بن جائے گا جیساکہ خود اعتقادی اور تقدس کے ہالے میں گھرا کوئی اور بادشاہ ہوتا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سادہ لوح انسانوں پر محض طاقت کے بل پر حکومت کی ہے نہ کہ خدائی حق کے زور پر۔ ان مادی وسائل کے علاوہ بادشاہ عوام پر اپنا رُعب داب قائم رکھنے کے لیے نفسیاتی طریقے بھی استعمال کرتے تھے۔ خدا کی نیابت کے یہ دعوے دار، خدا ہی کی طرح عام لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ عام لوگوں کی نظروں سے دُور رہیں۔ مغل بادشاہ اپنے محلّات کے جھروکوں سے کبھی کبھی عوام کو اپنا درشن دیا کرتے تھے، اور اس کا خاص نفسیاتی اثر ہوتا تھا۔موجودہ زمانے میں بھی کئی بادشاہ اپنی رعیّت سے آزادانہ میل جول نہیں رکھتے بلکہ بالکونی سے اپنی ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ اپنے آپ کو رُعب و جلال کے لبادے میں چھپائے رکھیں۔ وہ اس عام نفسیاتی اصول پر عامل ہیں کہ لوگوں سے بہرحال کچھ فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان باتوں میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ اگر کسی خدائی خوار کو بھی یہ مواقع اور ذرائع میسر آجائیں تو وہ بھی ایسا ہی کچھ کرسکے گا بلکہ شاید اس سے بہتر۔ یہ تو وہی مصنوعی انسانی طریقے ہیں، جنھیں سبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں اُلوہیت کا کوئی دخل نہیں۔

ربانی حقِ حکمرانی ان تمام مادی اور نفسیاتی ڈھکوسلوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اسے نہ مال و دولت کی ضرورت ہو، نہ سنگینوں کی حاجت۔ لوگوں میں رُعب و جلال کےباطل اوہام پیدا کرنے کے لیے اُسے نفسیاتی بیساکھیوں کا سہارا بھی نہ لینا پڑے۔ یہ اقتدار تو فوج، خزانہ، جیل اور پولیس کے بغیر ہی قائم ہونا چاہیے۔ صرف ایسا حکمران ہی بجا طور پر اس امرکا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اسے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی حکمران تھے۔ ان کے پاس لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ وہ صرف ایک یتیم لڑکے تھے، جو ہرطرف پھیلی ہوئی بدی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تن تنہا ڈٹ گئے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو زیر کرنے کے لیے آپؐ کی اپنی فوج ہوتی، فوجیں آپؐ کے خلاف صف آرا تھیں۔ ایک پوری قوم آپؐ کے خلاف مسلح ہوکر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ لوگ انھیں بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر تلےہوئے تھے، اور پھر انجامِ کار یہی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرماں ہوگئے۔ درحقیقت یہ ہے عوام پر حکومت کا خداداد حق!

اسلام کے نبیؐ برحق کے پاس دولت بھی نہ تھی کہ اس کا لالچ دےکر لوگوں کو اپنا معتقد بناتے۔ آپؐ تو [مادی زبان میں] غریب آدمی تھے، جنھیں بعض اوقات کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑتی تھی۔ عرب کے حکمران بننے کے بعد بھی آپ کھردری چٹائی پر سوتے تھے۔ اس طرح آپؐ کی پشت پر کھجور کے پتوں کے نشانات پڑ جاتے تھے۔ ایک بے کس اور مظلوم انسان سے ترقی کرتے کرتے آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے حکمران بن گئے۔ پھر بھی نہ آپؐ کو پولیس کی حاجت ہوئی، نہ جیل کی۔ دراصل یہی وہ حکمران تھے، جن کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے کسی فوق الفطرت حق کی بناپر حکومت کی۔ اس لیے کہ آپؐ نے عام بادشاہوں کا سا اقتدار قائم کرنے والا کوئی ایک طریقہ بھی استعمال نہ کیا۔ نہ آپؐ کے پاس سلطنت کے تحفظ کی خاطر کوئی مستقل فوج تھی، نہ آپ کا ذاتی حفاظتی دستہ تھا، نہ کوئی خزانہ تھا، نہ پولیس تھی اور نہ کوئی جیل۔ ایسی کوئی چیز بھی تو نہ تھی۔

بجائے اس کے آپؐ لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لیے انھیں کسی اُلوہیت آمیز رنگ میں اپنی طرف ملتفت کرنے کی کوشش کرتے، رسولِؐ پاک نے لوگوں کے دلوں کو اس شائبے سے پاک رکھنے کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جو آپؐ کے بس میں تھا۔ آپؐ نے ایسے لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی جو پتھر کے اَن گھڑ بتوں کی پوجا کرتے اور ان کی بابت اُلوہیت کے عقائد رکھنے کے عادی تھے۔ آپؐ کے لیے خدائی کا دعویٰ کرنا بھی کچھ مشکل نہ تھا، لیکن رسولِؐ پاک ایسی باتوں سے بالاتر تھے۔آپؐ نے لوگوں کے سامنے، جو بخوشی آپؐ کی پرستش کرنے کو بھی تیار ہوجاتے، صرف یہ دعویٰ کیا کہ ’’میں تو صرف تمھاری طرح ایک انسان ہوں‘‘۔

ان دُنیاوی بادشاہوں کے برعکس جو عوام کے دلوں میں اپنے فوق الفطرت مقام کا عقیدہ پیدا کرنے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں پر ہرممکن طریقے سے یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان ہیں اور بس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر بطورِ حفظ ماتقدم، اس بات کو کلمہ کا جزولاینفک قراردیا کہ’’محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘ مبادا آیندہ چل کر ان کے نام لیوا عقیدت کے جوش میںا نھیں خدائی کے درجے تک پہنچا دیں، جیساکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شخصیت اور اختیار کے بارے میں لوگوں کے تمام شکوک و شبہات واضح الفاظ میں دُور کردیئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھارے آگے یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں خزانوں کا مالک ہوں یا غیب کا علم رکھتا ہوں‘‘۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے [ابراہیم]کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گرہن لگ گیا، تو لوگوں نے سمجھا کہ شاید خدا اظہارِ غم کر رہا ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلمنے فوراً اُن کے اوہامِ باطلہ کو یہ کہہ کر رَد کردیا کہ ’انسان کی موت و حیات کے ساتھ مظاہر قدرت کا کوئی تعلق نہیں‘۔ قرآن مجید ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ رسولؐ اللہ نے کیوں کر لوگوں کو ہرممکن طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپؐ کی ذات میں کوئی مافوق الفطرت بات موجود نہیں۔ جب ایک نابینا بوڑھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اور آپؐ نے اُس سے بے اعتنائی برتی تو خدا کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی۔ بجائے اس کے کہ آپؐ اُسے چھپاتے، آپؐ نے اُسے قرآن مجید میں اللہ کی مرضی کے مطابق تمام آنے والے وقتوں کے لیے محفوظ کردیا۔ کوئی دُنیاوی صاحب ِ اقتدار شخص اپنے خلاف کسی بات کو، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اس طرح مشتہر نہیں کرتا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بے تکلفانہ انداز میں عام لوگوں سے میل جول رکھتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں دوسروں سے بالاتر ہونے کی کوئی امتیازی علامت موجود نہ تھی۔ عوام کے ساتھ آپؐ کا ربط ضبط ایسا تھا کہ جب کوئی اجنبی مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع میں آتا، تو اُسے دریافت کرنا پڑتا کہ ’’تم میں سے محمدؐ کون ہیں؟‘‘۔ آپؐ بطور حکمران اپنے کپڑے سینا، اپنے جوتے مرمت کرنا، اپنی بکریوں کا دودھ دوہنا، اپنے گھر کی صفائی کرنا اور اُمورِ خانہ داری میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا، اپنی کسرِشان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب کھانا پکانے کا وقت آیا تو ہرشخص نے اپنے اپنے حصے کا کام سنبھال لیا۔ رسولِؐ پاک بھی اس کام میں شریک ہوئے اور لکڑیاں چُن لائے۔ جب آپؐ کے پیروکاروں نے کہا کہ آپؐ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں، تو آپؐ نے واضح طور پر جواب دیا کہ آپؐ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہی چاہیے۔

ایسا تھا یہ سب سے طاقت ور حکمران، جو دُنیا نے کبھی دیکھا!

وہ حکمران جس کا حکم صرف جسم پر نہیں دلوں پر بھی چلتا تھا۔ وہ حکمران جس کی کوئی فوج تھی نہ کوئی محل اور نہ خزانہ۔ اور نہ ان لاتعداد وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ کہ جسے دُنیاوی حکمران لوگوں کو مطیع کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ آپؐ لوگوں سے ہر ممکن طور پر بے تکلف ہوتے اور اپنی شخصیت تمام ممکنہ اوہامِ باطلہ سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے، پھر بھی آپؐ حکمران تھے۔

آپؐ کے پیروکار آپؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ دُنیا کے کسی اور بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی۔ آپؐ کے ایک پیروکار کو جب اس امر کا علم ہوا کہ جنگ میں آپؐ کا ایک دانت شہید ہوگیا ہے، تو اُس نے اپنے تمام دانت خود توڑ ڈالے۔ جب کسی جنگ کے خاتمے پر مدینہ کی ایک عورت نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کی، تو اُسے بتایا گیا کہ اس کا شوہر شہید ہوگیا ہے۔ اس اندوہ عظیم سے بے پروا ہوکر اُس نے دوبارہ رسولِؐ پاک کی خیریت پوچھی۔ اُسے بتایا گیا کہ جنگ میں اس کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا۔ اسے جواب ملا کہ اس کا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے زور دے کر پوچھا: ’’رسولِؐ پاک کا کیا حال ہے؟‘‘ جب اُسے بتایا گیا کہ آپؐ خیریت سے ہیں تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ اس صورت میں تمام غم قابلِ برداشت ہیں۔

تاریخ میں صرف ایک حکمران کا ذکر ملتاہے، جس کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت کا خدائی حق حاصل تھا اور وہ حکمران اسلام کے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اگرچہ آپؐ کو لوگوں پر حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل تھا، لیکن آپؐ نے کبھی ملوکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دُنیا کے اس عظیم ترین حکمران کا پیغام اپنے پیروکاروں کے لیے صرف اس قدر تھا:

’’میں تو تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہوں‘‘۔

زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ انسانوں کی طبائع ، اُن کے افکار اور اُن کے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا تیوہاروں کے منانے کے طریقے اور مراسم بھی ہمیشہ متغیر ہوتےرہتے ہیں، اور اُن سے استفادے کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیےکہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریں، اورجو تبدیلیاں افکارکے تغیرات سے ہونی لازم ہیں، اُن کو مدِنظر رکھیں۔

مِن جملہ اُن مقدس ایام کے، جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، ایک میلاد النبیؐ کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک، انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اُن کے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو، وہ ہروقت اُن کے سامنے رہے۔

چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوئہ رسولؐ کو مدِنظر رکھیں، تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔یہ جذبات قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں:

پہلا طریق تو درُود و صلوٰۃ ہے، جو مسلمانوں کی زندگی کا جزوِلاینفک ہوچکا ہے۔ وہ ہروقت درُود پڑھنے کے موقعے نکالتے ہیں۔

عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑپڑتے ہیں، تو تیسرا بآوازِ بلند اللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی سیّدنا محمدٍ وبارک وسلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رُک جاتی ہے اور متخاصمین ایک دوسرے پر ہاتھ اُٹھانے سے فوراً باز آجاتے ہیں۔ یہ درُود کا اثر ہے، اور لازم ہے کہ جس پر درُود پڑھا جائے، اُس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے۔

پہلا طریق انفرادی ہے اور دوسرا اجتماعی___ یعنی مسلمان کثیرتعداد میں جمع ہوں، اور ایک شخص جو حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو، آپؐ کے سوانح زندگی بیان کرے، تاکہ آپؐ کی تقلید کا ذوق شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔  اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہم سب آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔

تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے، لیکن بہرحال اُس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ ہے کہ یادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے، کہ انسانی قلب، نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر ہوجائے، یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے کی جو کیفیت حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مقدس سے ہویدا تھی، وہ آج، ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔

حضرت مولانا رومؒ [۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء]فرماتے ہیں:

آدمی دید است، باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است

یہ جوہرِ انسانی کا کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا اور کسی چیز کی دید سے مطلب نہ رہے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے۔ کتابوںکو پڑھنے یا میری تقریر سننے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوںاور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی اَنوار حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لیے یہی طریقہ غنیمت ہے، جس پر ہم آج عمل پیرا ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس طریق پر عمل کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟

پچاس سال سے شور برپا ہے کہ ’مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے‘، لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے، تعلیم سے زیادہ اس قوم کی تربیت ضروری ہے اور ملّی اعتبارسے یہ تربیت علما کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے۔ صدرِ اسلام میں اسکول نہ تھے، کالج نہ تھے، یونی ورسٹیاں نہ تھیں، لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہرچیز میں ہے۔

 خطبۂ جمعہ، خطبۂ عید، حج، وعظ، غرض تعلیم و تربیت ِ عوام کے لیے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں، لیکن افسوس کہ علما کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم نہیں رہا، اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کا طریقِ عمل ایسا رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہوگئے اور علما کے درمیان، جنھیں پیغمبرؐاسلام کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا، سر پھٹوّل ہونے لگی۔ مصر، عرب،ایران، افغانستان ابھی تہذیب و تمدن میں ہم سے پیچھے ہیں۔لیکن وہاں علما ایک دوسرے کا سر نہیں پھوڑتے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اخلاق کے اس معیارِ اعلیٰ کو پالیا ہے، جس کی تکمیل کے لیے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اور ہم ابھی اس معیار سے بہت دُور ہیں۔

دُنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیلِ اخلاق ہے۔ چنانچہ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بَعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاِخْلَاق[ترمذی:۱۴۲۵]یعنی ’میں نہایت اعلیٰ اخلاق کے اتمام کے لیے بھیجا گیا ہوں‘۔ اس لیے علما کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کریں، تاکہ ہماری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ کی تقلید سے خوش گوار ہوجائے، اور اِتباعِ سنتؐ زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری ہوجائے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ [۸۰۴ء-۸۷۴ء]کے لیے خربوزہ لایا گیا، تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا، اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں، رسولؐ اللہ نے اس کو کس طرح کھایا ہے، مبادا میں ترکِ سنت کا مرتکب ہوجائوں‘‘:

کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد

افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی موجود نہیں، جن سے ہماری زندگی خوش گوار ہوجائے اور ہم اخلاق کی فضا میں زندگی بسر کرکے ایک دوسرے کے لیے باعث ِ رحمت ہوجائیں۔ اگلے زمانے میں مسلمانوں میں اِتباعِ سنّتؐ سے ایک اخلاقی ذوق اور مَلکہ پیدا ہوجاتا تھا، اور وہ ہرچیز کے متعلق خود ہی اندازہ کرلیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارویّہ اس چیز کے بارے میں کیا ہوگا۔

حضرتِ مولانا رومؒ بازار جارہے تھے۔ اُنھیں بچوں سے بہت محبت تھی۔ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ اُن سب نے مولاناؒ کو سلام کیا اور مولانا ایک ایک کا سلام، الگ الگ قبول کرنے میں دیر تک کھڑے رہے۔

ایک بچہ کہیں دُور کھیل رہا تھا۔اُس نے وہیں سے پکار کر کہا کہ ’’حضرت، ابھی جایئے گا نہیں، میرا سلام لیتے جایئے‘‘ تو مولانا نے بچّے کی خاطر توقف فرمایا اور اُس کاسلام لے کر گئے۔

کسی نے پوچھا: ’’حضرت آپ نے بچّے کے لیے اس قدر توقف کیا‘‘۔

آپ نے فرمایا کہ ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا واقعہ پیش آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی یونہی کرتے‘‘۔

گویا ان بزرگوں میں تقلید ِ رسولؐ اور اِتباعِ سنت سے ایک خاص اخلاقی ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔علما کو چاہیے کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کریں۔ قرآن اور حدیث کے غوامض [رُموز، بعض مشکل مسائل]بتانا بھی ضروری ہے، لیکن عوام کے دماغ ابھی ان مطالب ِ عالیہ کے متحمل نہیں۔ اُنھیں فی الحال صرف اخلاقِ نبویؐ کی تعلیم دی جانی چاہیے۔

قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) [رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے]۔

یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھا اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت ِ قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے یہاں جمع ہوئے۔

بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ طاعت ِ حق، یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے، جو خدائے پاک کی فرماں برداری میں پورا اُترنے کی عید مناتی ہو۔

مؤرخین کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقۂ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضوؐر نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا۔ عیدالفطر کی نمازباجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔

اسلام کے ارکان، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جب نبی اُمّی ؐ کی زبان سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحیٔ خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّت ِاسلامیہ وہ ملّت بن جائے جو قرآنِ پاک کے الفاظ کے مطابق دُنیا کی بہترین اُمت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہررکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہیں جسے ’صوم‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کے شکرانہ میں آج آپ عید منارہے ہیں۔

  • روزے کا فلسفہ: روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ گو، اُن کی تعداد وہ نہ ہوجو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیئے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) [تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی]۔گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبط، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔

وہ فائدے جو ایک ’فرد‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا لیکن ’فرد‘ کے علاوہ تمام ملّت کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔

  • عید کی حکمت :آج کی عید عیدالفطر کہلاتی ہے۔ پیغمبر ؐ خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی غرض ہی شارع علیہ الصلوٰۃ کے نزدیک صدقۂ عیدالفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصولِ تقسیمِ وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا، اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقۂ عیدالفطر کا اس لیے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
  • روزوں کا ملّی فائدہ:رمضان کا مہینہ آپ نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی۔ اپنی صحت درست کرلی۔ آیندہ گیارہ مہینے کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنا لیا۔ کفایت شعاری سیکھی۔ رزق کی قدروقیمت سیکھی۔ یہ سب ذاتی فائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحب ِ توفیق مسلمانوں کے دلوں میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقۂ فطر کے ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔ حکم یہ ہے کہ ’عید‘ کی نماز میں شرکت سے پہلے ہرصاحب ِ توفیق مسلمان صدقۂ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہوجائے، بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبط ِ نفس تم کو اس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔
  • نزولِ قرآن کی سالگرہ:باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جائیں؟ سو، واضح رہنا چاہیے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مدنظر رکھ کر ’صیام‘ کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصل مقصود انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرماں برداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اس مہینہ سے مختص کیا گیا جس میں احکامِ الٰہی کا نزول شروع ہوا تھا۔ بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہرسال ایک پورا مہینہ کامل تزکیۂ نفس کے ساتھ نزولِ قرآنِ حکیم کی ’سالگرہ‘ منانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ احکامِ الٰہی کی حُرمت و تقدیس ہمیشہ مدنظر رہے اور نمازِ تراویح پر کاربند ہوکر قوم کے ہرفرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملاً اَزبر ہوجائے۔

اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائل ’صیام‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۸۷  (البقرہ ۲:۱۸۷) [یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے]۔  وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجے کے یہ حکم بھی دیا: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ  (البقرہ ۲:۱۸۸) [اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے]۔

  • دوسروں کے اموال پر ناجائز تصرف:روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمدردی کا احساس پیدا کرلینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غرباء کو دوچار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصود تھا جس سے مستقل طور پر دُنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جہاں تقسیمِ وراثت اور زکوٰۃ سے ملتِ اسلامیہ کے مال و متاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصرف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ  ایک ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدترین روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرف دار بناکر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔
  • مقدمے عدالتوں میں نہ لـے جاؤ : مذکورہ بالا آیت میں اثم کے معنی بعض مفسرین نے جھوٹی گواہی کے لیے ہیں۔ علمائے قرآن نے ’حکام‘ سے مرادمسلمانوں کے اپنے مفتی ، قاضی اور سلطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر لے جانے والے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیراسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر دے نہیں سکتے تو کم سے کم ’حکام‘ کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جائو جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مطلوب ہو۔

آج کے دن سے تمھارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآنِ حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔

  • اِسراف اور مقدمہ بازی چھوڑو:مسلمانانِ پنجاب اس وقت [یعنی ۱۹۳۲ء میں] تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر تقریباً بیس کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کرائو۔ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال و جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمھارے قرض کا کثیر حصہ اَزخود کم ہوجائے گا اور تم خود تھوڑی مدت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرا لو گے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالی مقدمات کا ترک تمھیں اس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو، اس سے اپنی تجارت اور اپنی صنعتوں کو فروغ دے سکو گے، کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور تم عہد نہ کرلو گے کہ تمام دُنیاوی اُمور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہوجائو گے؟

کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ اِیَّـاکُمْ وَالْدِّیْنَ فَاِنَّہٗ ھَمٌّ بِاللَّیْلِ وَمذَلَّۃٌ بِالنَّھَارِ[البیہقی فی شعب الایمان، فصل التشدید فی الدین، حدیث:۵۲۹۴] دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔

حضورؐ کی ایک حدیث

اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شاید عیدالاضحی کے موقعے پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرورِ کائناتؐ کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رُشد و ہدایت کی تمام شاہراہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:

أَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ الْاِخْلَاصِ فِی السِّرِّ  وَالْعَلَانِیَۃُ ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَّبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ  فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ،  وَ أَنْ اُعْفُوَ  عَنْ  مَنْ  ظَلَمَتَی  ، ووأَصِلُ منْ قَطَعَنِی  ، وَأُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ  ، وَأَنْ یَکُوْنَ نُطْقِیِ ذِکْرًا   وَصَمَتِی فِکْرًا  وَنَظَرِیْ عِبْرَۃِ [الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد۷، ص۳۴۶، دارعالم الکتب،الریاض، ۲۰۰۳ء] مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا، غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانےدینا، فقروتونگری میں میانہ روی، جو شخص مجھ پر زیادتی کرے، اس کو معاف کردوں، جو مجھ سےقطع رحمی کرے، میں اس سے صلۂ رحمی کروں، جو مجھے محروم کرے، میں اس کو اپنے پاس سے دوں، میرا بولنا ذکرالٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غوروفکر کے لیے، اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔(ماہ نامہ رسالہ صوفی، مارچ ۱۹۳۲ء، مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیّد عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قرشی، آئینہ ادب، ۱۹۸۸ء،ص ۲۸۲-۲۸۸)

{علّامہ محمد اقبال ؒنے یہ خطبہ عیدالفطر۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کو دیا، جسے ’انجمن اسلامیہ پنجاب‘ لاہور نے شائع کیا۔}

۲نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ کے ذریعے برطانوی سامراجی سلطنت نے، سرزمین فلسطین پر ایک یہودی نسل پرست ریاست کے قیام کا زہریلا بیج ڈالا۔ اس طرح صہیونیت نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے یہاں زمینوں کی خریداری اور قبضے کا آغاز کیا۔ فلسطینی باشندوں اور زبردستی مسلط کیے جانے والے یہودیوں کے درمیان چپقلش شروع ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں یہ تناؤ خوں ریز فسادات میں تبدیل ہوگیا، جس کے نتیجے میں برطانوی سلطنت نے ۷؍اگست ۱۹۳۶ء کو ایرل پیل کی سربراہی میں ایک کمیشن مقرر کیا، جس نے ۷جولائی ۱۹۳۷ء کو ایک رپورٹ پیش کی، جس نے باقاعدہ فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ دیا___ اسی فتنہ پرور رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے ۲۷جولائی ۱۹۳۷ء کو یہ بیان حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پنجاب مسلم لیگ کے جلسے منعقدہ لاہور میں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اُردو ترجمہ اقبال احمد صدیقی نے کیا ہے۔ جب کہ انگریزی متن، اُردو ترجمے کے بعد دیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

میں عوام الناس کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے، میں بھی اسے اتنا ہی شدت سے محسوس کرتا ہوں جتنا کوئی اور شخص محسوس کرسکتا ہے کہ جو مشرق قریب کی صورتِ حال سے باخبر ہو.... برطانوی مدبرین جس مسئلہ سے نبردآزما ہیں، وہ صرف فلسطین ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ سارے عالم اسلام کو سنجیدگی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔

اگر اس مسئلے کا تاریخی پس منظر میں مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خالصتاً مسلم مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں فلسطین، یہودیوں کے مسئلے کی حیثیت سے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے بیت المقدس میں داخلے سے تیرہ سو برس پہلے ختم ہوچکا ہے۔ جیساکہ پروفیسر ہاکنگز نے کہا ہے کہ اِدھر اُدھر پھیل جانا بالکل رضاکارانہ تھا اور ان کی مقدس کتابوں کا بیش تر حصہ بھی فلسطین سے باہر لکھا گیا۔ نہ یہ مسیحی مسئلہ ہی تھا۔ جدید تاریخی تحقیق تو ’پیٹر حرمٹ‘ کے وجود کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیں کہ صلیبی جنگیں، فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنانے کی کوشش تھی، تویہ کوشش بھی صلاح الدین [ایوبی] کی فتوحات کے باعث ناکام ہوگئی۔ لہٰذا، میں فلسطین کو خالصتاً مسلم مسئلہ قرار دیتا ہوں۔

جہاں تک مشرق قریب کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ برطانوی سامراجی عزائم اس قدر مکمل طورپر بے نقاب نہیں ہوئے تھے، جس قدرفلسطین شاہی کمیشن کی رپورٹ  سے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کا تصور محض ایک حربہ ہے۔ درحقیقت برطانوی سامراج کو مستقل انتداب (mandate)کی شکل میں مسلمانوں کے مذہبی وطن میں ایک گھر کی جستجو تھی۔ دراصل یہ ایک خطرناک تجربہ ہے جو فی الحقیقت برطانوی سامراج کے لیے آیندہ مشکلات کا آغاز ثابت ہوگا.... ارضِ مقدس کی فروخت بشمول مسجدعمر جوعربوں پر مسلط کی گئی مارشل لا کے نفاذ کی دھمکی کے ساتھ اور جسے ان کی فیاضی کے نام پر اپیل کے ذریعے نرم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے ان کے تدبر کے دیوالیہ پن کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہودیوں کوایک زرخیز قطعۂ زمین کی پیش کش اور عربوں کو اس کے عوض پہاڑی صحرا اور اس کے ساتھ کچھ نقدی دینا سیاسی دانش نہیں ہے۔ یہ لین دین گھٹیا درجے کا ہے اور ایک عظیم قوم کے نہ صرف شایانِ شان نہیں بلکہ ان کے وقار کے لیے ضرر رساں ہے، جن کے نام پر عربوں سے آزادی اور کنفیڈریشن کے قیام کے قطعی وعدے کیے گئے تھے۔

میرے لیے اس مختصر بیان میں فلسطین رپورٹ پر تفصیل سے بحث کرنا ناممکن امر ہے۔ تاہم، کچھ اہم سبق ہیں جو مسلمانانِ ایشیا کو سیکھنے چاہییں۔ تجربے نے صریحاً واضح کر دیا ہے مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی سالمیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ترکوں اورعربوں میں فوراً دوبارہ اتحاد قائم کیا جائے۔ وہ حکمت عملی کہ ترکوں کو عالمِ اسلام سے علیحدہ کر دیا جائے، اب بھی رُوبہ عمل ہے۔ کبھی کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ ’’ترک، اسلام کو مسترد کرر ہے ہیں‘‘۔ اس سے بڑا جھوٹ کبھی نہیں بولا گیا۔ جن لوگوں کو اسلامی قوانین کے تصورات کی تاریخ کا مطلق علم نہیں، وہ آسانی سے اس قسم کے شرانگیز پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عربوں کو مزید یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان عرب بادشاہوں کے مشورے پر اعتماد کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ،جو آزاد شعور کے ساتھ اُمورفلسطین کے بارے میں آزاد فیصلے کرنے کے اہل نہیں۔ وہ جو کچھ فیصلہ کریں، خود کریں اور اس مسئلے کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں جو انھیں اس وقت درپیش ہے۔

موجودہ لمحہ، ایک آزمایش کا لمحہ بھی ہے۔ ایشیا کے آزاد غیرعرب ممالک کے مسلم مدبرین کے لیے [ترکی کی عثمانی] خلافت کے خاتمے کے بعد سے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس کی مذہبی اور سیاسی دونوں نوعیتیں ہیں جن کا تاریخی قوتیں سامنا کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے امکانات آخرکارانھیں یہ سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس برطانوی، فرانسیسی ادارے کے تعلق سے، جس کے وہ ارکان ہیں اور جسے غلط طور پر ’انجمن اقوام‘ کہا جاتا ہے اور ایسے عملی ذرائع پر غور کریں، جن سے ’مشرقی انجمن اقوام‘ تشکیل پاسکے۔

علامہ اقبال کے بیان کا انگریزی متن

I assure the pepole, that I feel the injustice done to the Arabs as keenly as anybody else, who understands the situation in the Near East.... British statesmen  are tackling is not one of Palestine only, but seriously affects the entire Muslim world.

The problem, studied in its historical perspective, is purely a Muslim problem. In the light of the history of Israel, Palestine ceased to be a Jewish problem long before the entry of Caliph 'Umar into Jerusalem more that 1300 years ago. Their dispersion, as Professor Hockings has pointed out, was perfectly voluntary and their scriptures were for the most part written outside Palestine. Nor was it ever a Christian problem. Modern historical research has doubted even the existence of Peter the Hermit. Even if we assume that the Crusades were an attempt to make Palestine a Christian problem, this attempt was defeated by the victories of Salah-ud-Din. I, therefore, regard Palestine as a purely Muslim problem.

Never were the motives of British imperialism as regards the Muslims people of the Near East so completely unmasked as in the Palestine Royal Commission Report. The idea of a national home for the Jews in Palestine was only a device. In fact, British imperialism sought a home for itself in the form of a permanent mandate in the religious home of the Muslims. This is indeed a dangerous experiment.... It is really the begginning of the future difficultes of British imperialism. The sale of the Holy Land, including the Mosque of 'Umar, inflicted on the Arabs with the threat of martial law and softened by an appeal to their generosity, reveals bankruptcy of statemanship rather than its achievement. The offer of a piece of rich land to the Jews and the rocky desert plus cash to the Arabs is no political wisdom. It is a low transaction unworthy and damaging to the honour of a great people in whose name definite promises of liberty and confederation were given to the Arabs.

It is impossible for me to discuss the details of the Palestine Report in this short statement. There are, however, important lessons which Muslims of Asia ought to take to heart. Experience has made it abundantly clear, that the political integrity of the peoples of the Near East lies in the immediate reunion of the Turks and the Arabs. The policy of isolating the Turks from the rest of the Muslim world is still in action. We hear now and then that the "Turks are repudiating Islam". A greater lie was never told. Only those who have no idea of the history of the concepts of Islamic Jurisprudence fall an easy prey to this sort of mischievous progaganda....

....The Arab people must further remember that they cannot afford to rely on the advice of those Arab Kings, who are not in a position to arrive at an indpendent judgment in the matter of Palestine with an independent judgment in the matter of Palestine with an independent conscience, Whatever, they decide, they should decide on their own initiative after a full understanding of the problem befor them.

The present moment is also a moment of trial for the Muslim statesmen of the free non-Arab Muslim countries of Asia. Since the abolition of the [Turkish Ottoman] Caliphate this is the first serious international problem of both a religious and political nature.... The possibilities of the Palestine problem may eventually compel them seriously to consider their position as members of that Anglo-French institution, miscalled the League of Nations, and to explore practical means for the formation of an Eastern League of Nations. (Speeches, Writings & Statements of Iqbal, edited by Latif Ahmed Sherwani, p 293-205).