محمدظہیرالدین بھٹی


قادیانیوں کی طرح ’بہائی‘ بھی استعمار کے کاشتہ پودے اور انھی کے گماشتے ہیں۔ وہ اپنے آقائوں کے استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہائی  خوب فعال ہیں اور اپنا مطبوعہ لٹریچر پھیلا رہے ہیں۔ کئی سادہ لوح مسلمان انھیں ’مسلمان‘ سمجھ کر ان کے دامِ تزویر میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی تراکیب کے استعمال کے باوجود وہ بھی قادیانیوں ہی کی طرح کافر ہیں۔ اس مضمونِ کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ’بہائی‘ مسلمانوں کا فرقہ نہیں بلکہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ خود بھی مسلمانوں کو ’کافر‘سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ بہائی اپنے بہت سے عقائد و نظریات کو لوگوں سے عمداًمخفی رکھتے ہیں۔

  • تاریخ: ’بہایت‘نے ’بابیت‘ کے بطن سے جنم لیا ہے یعنی ’بابیت‘ سے الگ ہوکر ایک مستقل مذہب کی صورت اختیار کی ہے۔ بابیت کا بانی مرزا علی بن محمد رضا شیرازی تھا۔ وہ ایران کا باشندہ تھا۔ اس نے ’بابُ اللہ‘ (اللہ کا دروازہ) ہونے کا دعویٰ کیا۔ اُسے روس کی مکمل تائید    حاصل تھی۔ روس نے اُسے ’مہدی منتظر‘کا دعویٰ کرنے پر اُکسایا۔ روس ہی کی شہ پاکر اس نے نبوت و رسالت کا دعویٰ کر دیا۔ جب اس کے باطل افکار و نظریات کو فروغ ملنے لگا تو ایرانی حکام نے ۱۸۴۷ء میں اسے گرفتار کرلیا اور ۱۸۴۹ء میں اسے برسرِعام گولی سے اڑا دیا گیا۔ اگرچہ روس اور برطانیہ کی حکومتوں نے اسے سزاے موت نہ دینے کی درخواست کی اور اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا مگر ان کی کوششیں بے سود رہیں۔ اگر ہندستان میں بھی مسلم حکومت ہوتی تو مرزا غلام احمد قادیانی کا انجام بھی یہی ہوتا اور برعظیم کے مسلمان قادیانی فتنہ سامانیوں سے محفوظ رہتے۔ بابیت قبول کرنے والوں میں ایک شخص ’حسین علی بن عباس بزرگ‘ تھا۔ یہی بہائیت کا بانی ہے۔ یہ شخص ۱۸۱۷ء میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان سرکاری ملازمت میں پیش پیش تھا اور استعماری طاقتوں بالخصوص روس اور برطانیہ سے اس خاندان کے خصوصی مراسم و تعلقات تھے۔

حسین علی نے بابیت قبول کرلی تھی مگر باب شیرازی نے اسے ’زندہ حروف‘ میں شمار نہیں  کیا تھا جس کا حسین علی کو قلق تھا۔ ’زندہ حروف‘ بابیت کے قائدین شمار کیے جاتے ہیں۔ حسین علی حسدو انتقام کی آگ میں جل کر ’باب‘ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگیا اور مناسب موقعے کی تلاش میں رہنے لگا۔ علی شیرازی‘ یعنی باب جب قیدخانے میں بند تھا توا س کے پیروکاروں میں ’اُم سلمیٰ زرین تاج‘ نامی عورت شامل تھی۔ اس نے ۱۸۴۸ء میں ایران کے ’صحراے دشت‘ میں بابیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ باب شیرازی نے اس عورت کو ’قرۃ العین‘ کا لقب دیا۔ یہ عورت اپنے حسن و جمال‘ شاعری‘ خطابت اور شیریں زباں ہونے کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہوگئی۔ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ نہ رہی تو خاوند نے اسے طلاق دے دی۔ اُس کی اولاد نے بھی اپنے آپ کو اپنی ماں کی طرف منسوب کرنے میں عار محسوس کی۔

مذکورہ کانفرنس کے صحراے دشت میں آغاز سے کچھ ہی دیر پہلے قرۃ العین نے حسین علی المازندرانی سے ملاقات کی۔ کانفرنس میں شراب کا دور چلا‘ اور بے حیائی کا ارتکاب بھی ہوا۔ اسی کانفرنس میں قرۃ العین نے اسلامی شریعت منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ چندایک حاضرین نے جب اس پر احتجاج کیا تو حسین علی نے کھڑے ہو کر سورۃ الواقعہ پڑھی اور اس کی باطنی تشریح کی۔ اس نے قرۃ العین کے اعلان کی تائید و توثیق کی۔ بعد میں ایرانی حکام نے قرۃ العین کو سزاے موت دے دی۔ قرۃ العین ہی نے حسین علی کو ’بہاء اللہ‘ کا لقب دیا تھا۔ ایک راے کے مطابق حسین علی نے خود ہی ’بہاء اللہ‘ کا لقب اختیار کیا‘ وہ ’البہا‘ یا ’البہا حسین‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔

اس حسین علی کا ایک بھائی جو مرزا یحییٰ کہلاتا تھا۔ شیرازی (باب) نے اُسے ’صبحِ ازل‘ کا لقب دیا تھا اور اُسے ’زندہ حروف‘ میں شامل کر رکھا تھا۔ باب نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد    ’صبحِ ازل‘ میرا جانشین ہوگا اور وہی بابیوں کا سربراہ ہوگا۔ حکومتِ ایران نے ان دونوں بھائیوں    (بہاء اللہ اور صبحِ ازل) پر الزام لگایا کہ وہ شاہ ناصرالدین قاچاری کو قتل کرنے کی کوشش میں ملوث ہیں‘ چنانچہ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ بہاء اللہ نے روسی سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی اور روس کی کوشش تھی کہ وہ حکومتِ ایران سے اس بات کی یقین دہانی لے لے کہ بہاء اللہ کو سزاے موت نہیں دی جائے گی۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ مرزا یحییٰ (بابیت کے نئے سربراہ) اور حسین علی کو ایران سے ملک بدر کر کے بغداد بھیج دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں بھائیوں کو ۱۸۶۳ء میں استنبول بھیج دیا گیا۔ یہاں ان لوگوں نے یہودیوں سے راہ و رسم خوب بڑھائے۔ مختصر مدت کے بعد دونوں بھائی ادرنہ (ترکی) منتقل ہوگئے۔ حسین علی کی کوشش تھی کہ اُسے موقع ملے تووہ وہ اپنا خصوصی جتھا تشکیل دے۔

ادرنہ پہنچتے ہی ’البہا حسین‘ نے اپنے مخصوص عقائد کی تشکیل و تبلیغ کا آغاز کر دیا۔ اس کے پیروکاروں کا مذہب ’بہائیت کہلایا۔ اب دونوں بھائیوں کے مابین کش مکش اور مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں سے ہر ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ کتاب الایقان  اس کی تصنیف ہے جو ’بہائیت‘ کی گمراہیوں سے لبریز ہے۔ ازلیوں اور بہائیوں کی یہ کش مکش جاری تھی حتیٰ کہ حسین علی (بہاء اللہ) نے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کو زہر کھلا کر ہلاک کرنے کا جتن کیا۔ ۱۸۶۸ء میں بہاء اللہ کو فلسطین کے ساحلی شہر عکا میں جلاوطن کردیا گیا۔ وہاں کے یہودیوں نے بہاء اللہ اور اس کے پیروکاروں کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور اپنے مال و دولت سے بہائیوں کی خوب مدد کی۔ انھوں نے خلیفہ عثمانی کے واضح احکام کی مخالفت کی جس کے حکم پر اُسے جبراً وہاں بھیجا گیا تھا۔ یہودیوں نے بہاء کو وہاں محل میں ٹھیرایا جو اب بھی ’البہجۃ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ عکا میں حسین علی نے اپنے جھوٹے نظریات کا پرچار جاری رکھا۔ بالآخر اس نے اپنی الوہیت کا دعویٰ کر دیا۔ اپنے خدا ہونے کا اعلان کرنے کے بعد وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالنے لگا کیوں کہ اس کے فاسد عقیدے کی رُو سے کسی انسان کے لیے روا نہیں کہ وہ اللہ کی بہاء (رونق وجمال) کو دیکھ سکے۔ اپنی زندگی کے اواخر میں وہ پاگل ہوگیا تھا‘ چنانچہ اس کے بیٹے نے اُسے ایک کمرے میں بند کر دیا تاکہ لوگ اُسے نہ دیکھ سکیں۔ یہی بیٹا بعد میں ’عبدالبہا‘ کے لقب سے مشہور ہوا‘ وہ اپنے والد کا نمایندہ اور ترجمان بن کر لوگوں سے مخاطب ہوتا تھا۔ بہاء اللہ ۲ذی قعدہ ۱۳۰۹ھ (۱۸۹۲ئ) میں مرا۔ ایک خیال کے مطابق اُسے کسی بابی نے قتل کر ڈالا تھا۔ اس کی موت کے بعد بہائیوں کی قیادت اس کے بیٹے عباس افندی نے کی۔ اپنے والد کی موت کے بعد ’عباس افندی عبدالبہا‘ حیفا چلا گیا‘ وہاں اس نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کی خوشامد شروع کردی۔ وہ مسجدوں میں جاکر نمازپڑھتا‘ گرجائوں کی عبادت میں عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوتا اور ساتھ ہی اس نے صہیونیت ویہودیت کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے شروع کر دیے۔

  • عقائد: بہائی اپنے اصل عقائد ظاہر نہیں کرتے‘ وہ جو کچھ ظاہر کرتے ہیں‘ اس پر ان کا ایمان نہیں ہوتا حتیٰ کہ وہ اپنی متداول کتابوں میں بھی اپنے بہت سے اصل عقائد بیان نہیں کرتے‘ یہاں پر ان کے چند مسلّمہ عقائد درج کیے جاتے ہیں۔

بہاء حسین کی تصنیف کتاب الاقدس تمام کتب ِسماویہ کی ناسخ ہے۔ بہائی فرد کی الوہیت‘ وحدت الوجود اور حلول کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بہاء اللہ کے لیے لاہوت اور ناسوت میں جدائی نہیں۔ اسی لیے وہ اپنے چہرے پر نقاب پہنے رکھتا تھا۔ کتاب الاقدس میں مرقوم ہے: جس نے مجھے پہچان لیا اس نے مقصود کو پہچان لیا‘ جس نے میری طرف توجہ کی‘ وہ معبود کی جانب متوجہ ہوا۔

بہائی عقائد کے مطابق وحی کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ’خاتم النبیین‘ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نبیوں کے لیے زینت ہیں جس طرح خاتم (یعنی انگوٹھی) انگلی کے لیے زینت ہوتی ہے۔ بہائی‘ مسلمانوں سے شدید نفرت و بغض رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں انتہائی گھٹیا باتیں کرتے ہیں۔ بہائیوں کی کتاب الایقان کے ایک اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ‘ مسلمانوں کے متعلق کیسا نفرت آلود عقیدہ رکھتے ہیں‘ کتاب میں لکھا ہے کہ: ’یہ جاہل و گنوار ہر روز صبح سویرے فرقان (قرآنِ کریم) پڑھتے ہیں مگر اب تک حرفِ مقصود پانے سے قاصر ہیں‘۔ اس کے علاوہ بہائی‘ پبلک مقامات پر اللہ کے ذکر کو حرام سمجھتے ہیں خواہ یہ ذکر خفیہ ہی کیوں نہ ہو۔ کتاب الاقدس میں ہے: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے اللہ کا ذکر کرے اور اس کے لیے اپنی زبان کھولے جب وہ سڑکوں اورراستوں پر چل رہا ہو‘۔ بہائی ۱۹ کے عدد کو مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کا سال ۱۹ مہینوں کا ہوتا ہے‘ ہر مہینے میں ۱۹ دن ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک قیامت‘ بہاء کی اللہ کے رُوپ میں آمد ہے۔ یہ لوگ جنت‘ دوزخ‘ فرشتوں اور جنوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ موت کے بعد برزخی زندگی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور باب شیرازی کے مابین مدت ہی برزخ ہے۔

یہ لوگ جہاد اور جنگ کو قطعی حرام سمجھتے ہیں (استعماری قوتوں کے ساتھ ان کے روابط کا اصل راز یہی ہے)۔ یہ لوگ سیاست میں حصہ لینے کو بھی حرام سمجھتے ہیں البتہ ان کے نزدیک استعماری قوتوں کا آلہ کار بننے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ بہائی متعہ کے جواز کے قائل ہیں اور زنا بالجبر کی سزا ان کے نزدیک مالی جرمانہ ہے۔ وہ وحدتِ اوطان کے مدعی ہیں اس لیے کسی وطن کی طرف نسبت کرنے کو روانہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ زبانوں (لغات) کو معطل کر دیا جائے‘ یہ صرف اس زبان کو اختیار کرتے ہیں جسے ان کا سربراہ مقرر کر دیتا ہے۔

بہائی مذہب میں قرآنی آیات کی باطل تاویل کی جاتی ہے‘ مثلاً سورۃ التکویر کی فاسد تاویل یوں کرتے ہیں: اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ o (۸۱:۱) (شریعتِ محمدیؐ ختم ہو جائے گی اور شریعت بہائی آجائے گی)۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ o (۸۱:۴) (شہروں کے چڑیا گھروں میں وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے)۔ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ o (۸۱:۷) (یہودی اور عیسائی بہائی مذہب اختیار کرلیں گے)۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (ابراھیم۱۴:۲۷) کی فاسد تاویل بہائی  یوں کرتے ہیں:’دنیا کی زندگی محمدؐ پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے، جب کہ آخرت کی زندگی بہاء پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے‘۔

  • عــبادات: ان کے عقائد کی طرح ان کی عبادات بھی عجیب و غریب ہیں:

نماز: نماز جنازہ کے سوا وہ باجماعت نماز کے قائل نہیں۔ تین نمازیں پڑھتے ہیں: صبح‘ ظہر اور شام۔ ہر نماز میں تین رکعتیں ہیں مگر ان نمازوں کی کیفیت متعین نہیں۔ ان کا قبلہ عکا (اسرائیل) میں قصر بہجہ ہے۔ وضو میں وہ صرف منہ اور ہاتھ دھوتے ہیں۔ عرقِ گلاب سے وضو کرتے ہیں۔ اگر عراق گلاب نہ ملے تو پانچ مرتبہ ’بسم اللہ الاطہر‘ پڑھ لیتے ہیں۔

  • طھارت: یہ غسلِ جنابت وغیرہ کے قائل نہیں کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ بہائیت قبول کرنے والا پاک ہوجاتا ہے۔
  • روز ے: ان کے نزدیک روزے سال میں صرف ۱۹ ہیں جو ۲ سے ۲۱ مارچ تک ہیں۔ بہائی کیلنڈر کا یہ مہینہ ’العلا‘ کہلاتا ہے۔ روزے ۱۱ سال سے ۴۲ سال کی عمر تک کے لوگوں پر فرض ہیں۔ روزے کا وقت طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ مشقت کا کام کرنے والوں اور سست لوگوں کے لیے روزے معاف ہیں۔
  • زکٰوۃ: اصل زر پر ۱۹ فی صد ٹیکس لیا جاتا ہے جو سال میں ایک بار ادا کرنا ہوتا ہے‘ یہی ان کی زکوٰۃ ہے۔
  • حج: حج مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں۔ یہ حج عکا کے قصر البہجۃ میں بہاء اللہ کی قبر پر ادا کیا جاتا ہے۔
  • عقوبات: دیت کے سوا‘ سب سزائیں معاف ہیں۔
  • شادی: مرد ایک بیوی یا زیادہ سے زیادہ دو بیویاں رکھ سکتا ہے۔ ان کی بعض کتابوں میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنے ہم جنسوں سے شادی کرسکتے ہیں۔      بیوہ عورت ایک معین رقم ادا کرنے کے بعد ہی شادی کرسکتی ہے۔ رنڈوا ۹۰ دن کے بعد‘ جب کہ  بیوہ ۹۵دن کے بعد شادی کے مجاز ہیں۔
  • صھیونیوں سے تعلقات: بہائیوں کے استعماری قوتوں سے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ روس کے ساتھ بہاء کے خاندان کے گہرے تعلقات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے جیل سے نکلوانے کے لیے روس اور برطانیہ نے دبائو ڈالا۔

صہیونیوں کے ساتھ بہائیوں کے تعلقات کو ظاہر کرنے میں مصری مصنفہ عائشہ عبدالرحمن کا بڑا دخل ہے۔ وہ ’بنت الشاطیٔ ، کے نام سے لکھتی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ استعماری قوتیں ہمیشہ ایسی تحریکوں کی سرپرستی کرتی ہیں جو جہاد کو حرام قرار دیتی ہوں اور حبِ وطن کے جذبے سے سرشار نہ ہوں‘ جیسے بہائیت اور قادیا نیت وغیرہ۔ استعماری طاقتیں اُن مسلم تنظیموں اورجماعتوں کو بھی اپنے لیے مفید اور بے ضرر سمجھتی ہیں جو اگرچہ حرمتِ جہاد کا فتویٰ نہ دیں نہ ترکِ جہاد ہی کا اعلان کریں لیکن عملاً اپنی تقاریر‘ مواعظ‘ بیانات‘ خطبات اور لٹریچر میں جہاد کا نام نہ لیں بلکہ  مجاہدین اسلام کے لیے دعا تک کرنا غیر مناسب سمجھیں۔ ایسی مسلم جماعتوں کو استعماری قوتوں اور سیکولر مسلم حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے بلکہ سیکولر ’روشن خیال اور معتدل‘ حکمران ایسی جماعتوں کے اجتماعات میں براے حصولِ اجروثواب‘ یا براے حصولِ ہمدردی شریک ہوتے ہیں اور ان اجتماعات کے انعقاد میں حکومت ہر طرح کی سہولیات بھی بہم پہنچاتی ہے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہودیوں نے ترکی میں بہاء اللہ کا والہانہ استقبال کیا‘ پھر فلسطین میں اس کا خیرمقدم کیا اور اس کے لیے قصر البہجۃ تیار کیا۔ استعماری قوتوں اور صہیونیوں کے ساتھ بہاء اللہ کے بیٹے عبدالبہاء عباس افندی کے محبت و تعاون کے تعلقات تھے۔ عبدالبہاء نے سقوطِ فلسطین کے فوراً بعد جنرل لانبے کا پرجوش خیرمقدم کیا اور ’سر‘ کا خطاب حاصل کیا۔ برطانوی سرکار نے اُسے بہت سے اعلیٰ تمغوں سے بھی نوازا۔ عبدالبہاء نے متعدد صہیونی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اس نے اپنی تحریروں اور بیانات میں‘ فلسطین میں یہودیوں کے یک جا ہونے کی ہمیشہ تائید وحمایت کی۔ اس کا ایک قول ہے: ’اس ممتاز و منفرد زمانے اور اس دور میں بنی اسرائیل ارضِ مقدس میں اکٹھے ہوں گے اور یوں یہودی قوم جو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بکھری ہوئی ہے، یک جا ہو جائے گی‘۔

عجیب بات یہ ہے کہ عباس افندی کے بعد بہائیوں کا سربراہ ایک امریکی صہیونی بنا جس کا نام ’میسون‘ تھا۔ یہودیوں نے ۱۹۶۸ء میں مقبوضہ فلسطین میں بہائیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں منظور کردہ قراردادیں صہیونی افکار و آرا سے ہم آہنگ تھیں۔

  • دنیا میں بھائی کھاں کھاں ھیں؟ ان کی سب سے زیادہ تعداد ایران میں آباد تھی مگر انقلابِ ایران کے بعد بہائی وہاں سے اِدھر اُدھر منتشر ہونے لگے۔ بہائی مصر میں بھی آباد تھے۔ وہاں انھوں نے اپنی مخصوص محافل بنا رکھی تھیں۔ ۱۹۶۰ء میں حکومتِ مصر نے ایک فیصلے کے بعد ان تمام محافل کو بند کرا دیا۔ عراق میں بھی بہائی رہتے تھے مگر بعد میں وہ وہاں سے غائب ہوگئے۔ کراچی میں بہائیوں کی ایک بڑی تعداد رہ رہی ہے اور یہاں ان کا ایک بڑا مرکز قائم ہے‘ جہاں سے یہ اپنا گمراہ کن لٹریچر سادہ لوح مسلمانوں تک پہنچاتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں  انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر بہائیوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ شام اور فلسطین میں بھی یہ کافی تعداد میں آباد ہیں۔ اس وقت بہائیوں کی سب سے زیادہ تعداد ریاست ہاے متحدہ امریکا میں ہے‘ یعنی ۲۰لاکھ۔ ان کی وہاں ۶۰۰سوسائٹیاں ہیں۔ نوجوانوں پر مشتمل ان کی ایک اہم تنظیم کا ہیڈکوارٹر نیویارک میں قائم ہے۔ اس تنظیم کا نام ’قافلۂ شرق و غرب‘ ہے۔

دنیا میں بہائیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ شکاگو میں ہے۔ اس کا نام ’مشرق الاذکار‘ ہے۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی بہائی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ مگر چوں کہ وہ صہیونیوں اور استعماری قوتوں کے گماشتے ہیں اس لیے ان کا نمایندہ اقوامِ متحدہ میں موجود رہتا ہے۔ اسی طرح مختلف بین الاقوامی اداروں میں بھی ان کے نمایندے موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے مفادات کا عالمی سطح پر تحفظ کرتے ہیں‘ جیسے یونی سیف اور یونیسکو وغیرہ۔

  • بھائیوں کے بارے میں علما کی راے: یہ بات واضح ہے کہ ’بہائیت‘ایک مستقل مذہب ہے‘ مسلمانوں کا فرقہ نہیں ہے۔ چنانچہ ۱۹۲۵ء میں مصر کی اعلیٰ شرعی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ بہائیت دین اسلام سے الگ ایک باقاعدہ مستقل مذہب ہے۔ شیعہ و سنی علما نے بہائیوں کو کافر قرار دیا ہے اور ان کے عقائد کے باطل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ علماے اہل سنت میں سے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی‘ ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘ الشیخ حمد متولی الشعراوی‘ علماے ازھر کی کونسل‘ سعودی عرب‘ عراق‘ یمن اور فلسطین کے علما نے بھی یہ فتویٰ دیا ہے کہ: بہائی کافر ہیں۔  بہائی عورت سے مسلمان مرد کا نکاح ناجائز ہے۔ بہائی مرد کو رشتہ دینا حرام ہے۔ ان کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں ہے۔ بہائی مُردوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کرنا حرام ہے۔

شیعہ علما کی راے بھی علما ے اہلِ سنت سے الگ نہیں۔ یہاں بہائیوں کے بارے میں صرف ایک شیعہ عالم دین کی راے لکھی جاتی ہے۔ الشیخ محمد السند کہتے ہیں: ’بہائیوں کے بارے میں شرعی موقف یہ ہے کہ وہ کفار میں شمار ہوتے ہیں‘ کیوں کہ انھوں نے دین اسلام اختیار کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان میں سے جو پہلے مسلمان تھا‘ پھر اس نے بہائیت قبول کرلی تو وہ مرتد ہوگیا۔ اسی طرح اگر یہ شخص شہادتین اشہد ان لا الٰـہ الا اللّٰہ واشـھد ان مـحمد رسـول اللّٰہ ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہائیت اختیار کرلیتا ہے تو وہ بھی مرتد ہے‘۔

اس مفصل جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بہائیوں کا اپنے آپ کو مسلمان فرقہ ظاہر کرنا یا شیعہ مذہب کا ایک فرقہ ہونے کا تاثر دینا‘ انتہائی گمراہ کن ہے۔ اس بے بنیاد دعوے کا مقصد سادہ لوح اور نیم تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا‘ اپنے گمراہ کن عقائد کو خوش نما بناکر پیش کرکے اسلام کو زک پہنچانا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہے۔

روس میں اسلام کی آمد

۹۸۸ء میں روسی بادشاہ ولاڈی میر نے تینوں آسمانی مذاہب کے نمایندوں کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ وہ ان سے بات چیت کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک مذہب کو اپنی نوخیز مملکت کا مذہب قرار دے۔ گفتگو کے بعد بادشاہ کو اسلامی اصول و تعلیمات بھائے۔ چنانچہ اس نے قبولِ اسلام اور اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ اس نے مسلم عالمِ دین سے یہ رعایت طلب کی کہ بادشاہ اور روسی رعایا کو شراب نوشی کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ روسی شراب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مسلمان فقیہہ نے یہ شرط قبول کرنے سے صاف انکار کیا۔ اس پر ولاڈی میر نے عیسائیت قبول کرلی۔

یہ حقیقت ہے یا من گھڑت‘ اس سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سرزمینِ روس میں ۹۲۲ء کے قریب پہنچا اور ۱۲۲۹ء تک پھیلتا رہا۔ ۹۲۱ء (۳۰۹ھ) میں عباسی خلیفہ المقتدر باللہ نے‘ بلغاریہ کے بادشاہ الموش بن یلطوار کی درخواست پر‘ بغداد سے ایک دینی سیاسی وفد براعظم ایشیا کے مرکز‘ جو اُس وقت ارضِ صقالبہ کہلاتا تھا ‘کی جانب روانہ کیا۔ یہ وفد علما‘ فقہا‘سرکاری اعلیٰ افسروں اور مؤرخوں پر مشتمل تھا‘اس کی قیادت احمد بن فضلان نے کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالمِ اسلام سے بلغاریہ جانے والے یہ اوّلین لوگ تھے۔ ان سے پہلے مسلمان تاجر بغرضِ تجارت بلغاریہ تک آجارہے تھے اور انتہائی سادگی سے عام اسلامی اصولوں کو پیش کرتے رہے تھے۔ ان کی امانت و دیانت اور حسنِ معاملہ سے لوگ پہلے ہی متاثر تھے۔ ان تاجروں نے ایک طرف بغداد سے وسطِ ایشیا کے ممالک تک اور دوسری طرف بلغاریہ اور روسی قبائل تک ایک طویل تجارتی راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔

جدید تحقیقات کی رُو سے موجودہ مسلم علاقوں کا روس سے تعلق کم از کم آٹھویں مسیحی صدی سے ہے۔ مثال کے طور پر مسلم جمہوریہ بشکیریا کے علاقے لیوشووسیکی میں ہونے والی کھدائی سے اسلامی تہذیب کی کئی علامات ملی ہیں۔ ان میں اہم ترین عباسی خلفاکے چاندی اور سونے کے درہم و دینار ہیں‘ بلکہ کچھ ایسے عربی سکّے بھی ملے ہیں جن کا تعلق دوسری مسیحی صدی سے ہے۔

احمد بن فضلان کی سرکردگی میں سفارتی وفد نے عباسی خلیفہ اور شاہِ بلغاریہ کے مابین سرکاری معاہدے پر دستخط کیے کہ حکمران طبقے تک اسلامی افکار پہنچائے جائیں۔ منتخب و ممتاز افراد کے قبولِ اسلام کے بعد‘ اہلِ بلغاریہ نے اسلامی شعائر و عقائد کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و رسوم اور عرف و رواج بھی اپنائے رکھے حتیٰ کہ مرکز ایشیا کے منبع نور یعنی دبستانِ بخارا سے اُبھرنے والے افکارِ جدید کی روشنی نے بلغاروی عادات و رسوم کو ختم کر ڈالا۔

یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجانا چاہیے کہ مذکورہ بالا ’’وفد ابن فضلان‘‘ نے صدیوں سے جغرافیائی لحاظ سے مختص روسی خطے تک اسلام نہیں پہنچایا تھا بلکہ صرف بلغاروی قوم تک پہنچایا تھا۔ بلغاروی وسط ایشیا کے ترکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وسط ایشیا ہی سے وہ دریاے مولغا کی طرف بڑھے تھے اور اس کے کناروں پر اپنی آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ ان ہی میں سے بعض لوگوں نے قبیلہ ہن کی معیت میں‘ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مشرقی یورپ کا رخ کیا اور جنوب مشرقی یورپ میں بلغاریہ کی مملکت قائم کر لی۔

اس زمانے میں روس کی آخری سرحدیں کوہِ ارال تک تھیں۔ گویا روس محض مولغا بلغار مملکت کا ہمسایہ تھا۔ روس اور بلغاریہ کے مسلمانوں کے مابین تعلقات برابری کی سطح پر قائم رہے مگر روسی حکمرانوں کی نظر بلغاروی مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت پر رہی۔ دسویں صدی کے اوائل سے سولھویں صدی کے نصف تک وہ موقع کی تلاش میں رہے۔ بالآخر روسی بادشاہ ایفان نے مولغا مسلمانوں کو اطاعت پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ۱۵۵۲ء میں مسلم دارالحکومت کازان کا سقوط ہوگیا۔

آرتھوڈکس عیسائیت قبول کرنے کے ساتھ ساتھ روس میں بت پرستی بھی جاری رہی۔  (سنی حنفی) اسلام بھی روس میں حالات کے مطابق اپنی جگہ بناتا رہا۔ سولھویں صدی میں اسلام مولغا‘ تترستان اور بشکیریا میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکا تھا۔ جب روس اور تتارستان میں مسلح تصادم ہوا تو بشکیر اورشاہِ روس کے مابین اس امر پر اتفاق ہوگیا کہ بشکور توستان کو روسی مملکت میں داخل کرلیا جائے‘ جب کہ دین اسلام اس کے مذہب کے طور پر بحال رہے۔ آرتھوڈکس روسی شہنشاہیت نے تترستان اور بشکیریا میں سرکاری طور پر تو اسلام کو بطور دین قبول کرلیا مگر عملاً مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے خوف اور لالچ کا ہر حربہ استعمال کیا حتیٰ کہ اذان کے میناروں پر صلیبیں گاڑ دی گئیں مگر کسی ایک مسلمان کو بھی عیسائی نہ بنایا جا سکا۔

روسی تسلط کے بعد مسلم اوقاف پر دستِ ستم دراز کیا گیا۔ روسی حکمرانوں نے وقف ناموں کے منشا و مضمون کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلم اوقاف کی املاک میں تصرفِ بے جا کیا۔ اسلامی تشخص کو مسخ کر کے اسے مسیحی رنگ دینے کی کوشش کی۔ دریاے مولغا کی ریاست میں مساجد کو تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے جواب میں جب ردعمل سامنے آیا تو حکومت نے اوقاف کی تمام املاک پر قبضہ کر کے انھیں مسیحی اداروں کے حوالے کر دیا۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۳۸)

  • زار شاھی دور حکومت: روسی شہنشاہیت اسلامی اقدار سے متاثر ہوئی‘ چنانچہ اس نے امن و امان کے فروغ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اسلامی قوانین سے استفادہ کیا۔ روسی سیاح اواناسی نیکٹن نے مشرق کی سیاحت کی تھی‘ اس کا مسلمانوں کے ساتھ بہت میل جول رہا۔ اس نے مسلمانوں کے عدل و انصاف‘ عاجزی و تواضع‘ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم نہ کرنا‘ ضعیفوں اور عورتوں سے رحم دلی وغیرہ جیسی صفات کا اپنی یادداشتوں میں بھرپور اظہار کیا۔

اسلامی اقدار سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا روسی شہنشاہ ایفان سوم (۱۴۴۰ئ- ۱۵۰۵ئ) تھا۔ اس کا شمار روسی تاریخ میں مجددین میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ملک کی عدلیہ کا نظام سدھارنے میں بہت زیادہ دل چسپی لی اور کئی اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس نے عدلیہ کی بالادستی قائم کی‘ عوام کو کمرہ عدالت میں کارروائی دیکھنے کی اجازت دی‘ عدالتی اخراجات پانچ گنا کم کر دیے اور عدل و انصاف اور امن و امان کے لیے اس نے اسلامی سزائوں کا بھی نفاذ کیا۔ اس طرح روسی شہنشاہیت کی اصلاح اور اسے عثمانی اسلامی نمونہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۴۲)

  • کمیونزم اور مسلمانانِ روس: انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ ملا تو مسلمانوں نے بھی زمینیں‘ دکانیں‘ تجارتی گودام خریدنے شروع کیے۔ انھوں نے مساجد بھی تعمیر کیں مگر جونھی بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا تسلط ہوا تو مذہب حقیر ہو کے رہ گیا۔ تشدد کے نئے مفہوم سامنے آئے۔ مذہب عوام کے لیے افیون اور سوویت اقوام کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرمایہ داری کے زمانۂ عروج میں تشکیل پانے والے دینی ادارے مقفل کر دیے گئے اور کمیونزم کے فلسفے: ’’مذہبی پیشوا محنت کش انسان کا استحصال کرتے ہیں‘‘ کو فروغ ملا۔

روسی مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں میں ’’اسلامی اتحاد‘‘ اور ’’تُرک اتحاد‘‘ کے نظریات کو کچلنے میں کمیونسٹ حکام نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی کیونکہ اگر یہ افکار عملی جامہ پہن لیتے تو روسی سرحدوں میں بہت بڑی تبدیلی ہوسکتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ اور بیسویں صدی کے ربع اوّل میں متعدد مسلم ممالک میں سیکولرازم کے ظہور نے روسی کمیونسٹوں کو اپنے زیرتسلط مسلمانوں کو کچلنے میں مدد دی‘ حتیٰ کہ روسی مسلمان ’’بے ضرر‘‘ سمجھے جانے لگے۔ ان کی عادات‘ اخلاق‘ رسوم و رواج اور طور طریقوں سب کو بظاہر ختم کر کے رکھ دیا گیا۔

مسلمان زیرزمین خفیہ طور پر نماز ادا کرتے کیوں کہ انھیں سوویت کمیونسٹ حکام کی طرف سے سزا ملنے کا اور جلاوطن کیے جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ اُدھر روس کے مرکزی اقتدار کو ہمیشہ یہ اندیشہ دامن گیر رہتا کہ مسلمانوں کو ذرا سی بھی ڈھیل ملی تو ان کے ہاتھوں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اسلام میں بقا اور تجدد کی صلاحیت ہے‘ وہ دبانے سے اُبھرتا ہے۔ اسلام انسانی تاریخ کے اس خوفناک ترین دور میں بھی زندہ رہا۔ غربت و افلاس‘ ظلم و تشدد اور سائبیریا جیسے سرد ترین مقام میں جلاوطن مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی ختم نہ کرسکی۔ عام مسلمان بلکہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں ترین مسلمان ارکان بھی تمام تر پابندیوں اور کڑی نگرانی کے باوجود خفیہ طور پر اسلامی شعائر پر کاربند رہے۔ جب ۸۰ کی دہائی میں اسلامی شعائر کو ادا کرنے کی اجازت ملی تو مسلمانانِ روس نے اس اجازت کو اپنے دینی و قومی تشخص کو نمایاں کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا۔

سوویت یونین میں بہت سے غیرقانونی (غیر رجسٹرڈ) دینی ادارے قائم تھے۔ اس کا آغاز ۶۰ کی دہائی سے ہوا تھا۔ ۱۹۶۳ء کے آغاز میں پورے سوویت یونین میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ مساجد کی تعداد ۳۲۵ تھی‘ جب کہ غیرسرکاری (غیرقانونی) مساجد کی تعداد ۲۰۰۰ تھی۔ ان تمام غیررجسٹرڈ مساجد کے لیے ہر مسجد کا الگ الگ امام ہوتا تھا۔ یہ ائمہ حضرات عیدین‘ جمعہ اور تمام دینی مواقع پر خفیہ طور پر امامت کراتے تھے۔ سب سے زیادہ دینی تقریبات تتارستان میں ہوتی تھیں۔ چیچن اور انگوش مسلمانوں پر چوں کہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور ان کی اکثریت کو سائبریا میں جلاوطن کر دیا گیا تھا‘ اس لیے ان دونوں مقبوضہ مسلم ریاستوں میں غیرقانونی مساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ اگرچہ یہاں کے مسلم پورے سوویت یونین میں سب سے زیادہ دین دار تھے۔

۹۰ کے عشرے میں روس میں اسلام کو بہت فروغ ملا۔ اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ فریضہ حج ادا کرنے والوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہونے لگا۔ صرف داغستان سے ہر سال ۱۲ ہزار سے زیادہ مسلمان حج پر جانے لگے۔ جنوبی روس کے شہر استراخان میں شیدائیانِ اسلام کی کانفرنس منعقد ہوئی تو نہضتِ اسلام پارٹی قائم ہوئی۔ یہ پارٹی سوویت یونین میں اسلامی تحریک کی محرک ثابت ہوئی۔ تاجکستان میں ۱۹۹۲-۱۹۹۳ء کے عرصے میں یہ پارٹی ملک کی سب سے طاقت ور حزبِ مخالف ثابت ہوئی۔ ماسکو میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود اسے سوویت یونین میں اپنی سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ اسے نومبر ۱۹۹۱ء سے مارچ ۱۹۹۳ء تک تاجکستان میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ملی۔ ۱۹۹۱ء میں اس پارٹی نے سوویت یونین کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا۔ پورے سوویت یونین میں کئی اسلامی تحریکیں برسرِکار تھیں۔ داغستان‘ تتارستان وغیرہ میں بہت سی علاقائی سطح کی مسلم جماعتیں ظہور میں آئیں جیسے چیچنیا میں اسلامک پاتھ اور داغستان میںڈیموکریٹک اسلامی پارٹی وغیرہ۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۹)

  • ریشین فیڈریشن میں شامل مسلم ریاستیں اور ان کے مسائل: طویل تاریخی تصادم کے نتیجے میں سوویت یونین کے ڈھانچے سے چھے اسلامی مملکتیں برآمد ہوئیں‘ جب کہ ابھی تک تقریباً ۲۳ ملین مسلمان‘ سوویت فیڈریشن میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اقوام آزادی کے لیے کوشاں ہیں‘ جب کہ باقی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یوں مسلمانانِ روس تین مرحلوں سے گزرے ہیں۔ عیسائی بنانے کے درپے زارانِ روس‘ مارکسزم اور کمیونزم کا فولادی شکنجہ اور وفاقی سیکولرازم۔

روس ۹۰ سے زائد انتظامی وحدتوں میں منقسم ہے‘ ہر وحدت گویا وفاق کی ایک اکائی ہے جو عملاً دارالحکومت ماسکو کے زیرانتظام ہے۔ یہ انتظامی وحدت جمہوریہ‘ صوبہ‘ علاقہ یا حق خود ارادیت رکھنے والی ریاست ہوسکتی ہے۔ روس میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی جمہوریائوں میں رہ رہی ہے جنھیں یونائٹیڈ ریشین فیڈریشن کے قانون کی رُو سے یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو آزادی کے لیے کوشش کرسکتی ہیں۔ ان میں سے ہر جمہوریہ کی اپنی الگ پارلیمنٹ ہے‘ اپنا صدر اور بجٹ ہے جو وفاقی بجٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ ملحقہ جدول سے روس میں مسلمانوں کی جغرافیائی پوزیشن       واضح ہوگی۔ مسلمان دو علاقوں میں مرکوز ہیں۔ پہلا علاقہ: روس کے مرکز میں فولغا اور اورال کا علاقہ۔  اس میں چھے جمہوریائیں ہیں: ۱- تترستان ‘۲- بشکیریا‘ ۳- جوفاش‘ ۴- مورود وفیا‘ ۵-ماری یل‘ ۶-اودموت۔ مسلمان بڑی انتظامی وحدت‘ یعنی صوبہ اورن برگ میں موجود ہیں۔ دوسرا علاقہ: شمالی کوہِ قاف جو سات جمہوریائوں پر مشتمل ہے: ۱-داغستان‘ ۲-چیچنیا‘ ۳-انگوشیا‘ ۴-قبردین بلغاریا‘ ۵- شمالی اوسیٹما الانیا‘ ۶- ادیغہ‘ ۷- قارچیف چرکپیا۔

شمالی کوہ قاف بڑے کوہ قاف کے برابر کا حصہ ہے۔ اس بڑے کوہ قاف کا جنوبی نصف روسی سرحدوں سے باہر ہے اور تین ممالک میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک مسلم ملک‘ یعنی آذر بائیجان ہے‘ جب کہ باقی دو ملک جارجیا اور آرمینیا عیسائی ہیں۔

روسی مسلمان مختلف لسانی اور نسلی خاندانوں کی طرف منسوب ہیں۔ روسی مسلمان ۴۰ مختلف نسلی گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی جمہوریہ داغستان کی مثال دیتے ہیں جس کے باشندے ۱۲ (لسانی نسلی) گروپوں کی طرف منسوب ہیں۔

قلب روس (فولغا اور اورال کے علاقوں) میں رہنے والے مسلمان بے بہا معدنی ثروت‘ تیل کے ذخائر‘ بھاری اور متوسط صنعتوں کے باوجود علیحدگی کے لیے کوشاں نہیں‘ اس لیے کہ وہ روس کے مرکز میں ہیں‘ روس انھیں کسی قیمت پر آزادی نہیں دے گا۔ بالفرض اگر وہ آزاد ہوبھی گئے تو وہ چاروں طرف سے روس میں گھرے ہوںگے‘ جب کہ کوہ قاف کی مسلم ریاستیں___ چیچنیا اور کسی حد تک داغستان کی حالت دیکھتے ہوئے کم از کم مستقبل قریب میں کسی ایسے تلخ تجربے کے لیے تیار نہیں جس میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں اور آبروئیں ضائع ہوں۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۶)

چند نمایاں مسائل

کمیونزم کے طویل تسلط سے نجات کے بعد روس کے مسلمان صحت‘ تعلیم اور دیگر سماجی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بالخصوص نوجوان طبقہ بے روزگاری کا شکار ہے۔ چند مسائل یہ ہیں:

آبادی میں اضافہ اور سھولیات میں کمی:شرحِ پیدایش کے لحاظ سے روس اس وقت دنیا کے ممالک کی فہرست میں ۱۴۱ ویں نمبر پر ہے۔ مسلم اکثریت کی روسی ریاستوں چیچنیا‘ داغستان‘ انگوش‘ شرکس اور کارچیف کی مسلم آبادی کا روس کی عام آبادی سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غیرمسلم روسی آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔ ۱۹۹۲ء سے روس کی آبادی میں ۵ئ۳ ملین افراد کی کمی ہوئی ہے۔ روسی وزارتِ داخلہ کی تحقیق کے مطابق روس کی آبادی ۱۴۵ ملین سے کم ہو کر ۲۰۱۰ء میں صرف ۱۳۰ ملین رہ جائے گی‘ جب کہ ۲۰۵۰ء میں روس کی کل آبادی گھٹ کر صرف ۷۰ملین ہوجائے گی۔ مسلمانوں کی روز افزوں آبادی روسی حکام کے لیے خطرہ ہے کیونکہ مسلمان روسیوں سے نظریاتی اختلاف اور تاریخی تصادم و کش مکش کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے پیش نظر مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جا رہے‘ بلکہ مختلف حربوں سے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں جس وجہ سے مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کی بدنظمی و زیادتی : روسی مسلمان اسلام کے سنہری اصولوں عدل‘ مساوات‘ آزادی اور اخوت کو اپنے لیے آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ وہ خلافتِ راشدہ کو تاریخ انسانیت کا سنہری دور سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف روسی حکمرانوں کی بدانتظامی‘تعصب اور نفرت پر مبنی کارروائیوں کو دیکھ کر وہ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں روس سے الگ ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن چیچنیا کے خونی تجربے کے بعد وہ روس سے لڑ کر علیحدہ ہونے کا نہیں سوچتے۔ مسلمانوں پر زیادتی روسی حکام کا وتیرہ ہے۔ جس سے مسلمان مشتعل ہوجاتے ہیں۔مسلم کارکنوں اور روسی پولیس کے مابین ایسے ہی ایک تصادم کے بعد ۹ جون ۲۰۰۳ء کو ۱۰۰ سے زائد افراد کو ماسکو میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام لگایا کہ یہ ممنوعہ حزب آزادی اسلامی (اسلامک فریڈم پارٹی) کے ارکان کی سرکردگی میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ روسی حکام مسلمانانِ روس کے اتحاد سے سخت خوف زدہ ہیں اور اس اتحاد کو کسی بھی حالت میں قائم نہیں ہونے دیتے۔ ادھر روس کے چوٹی کے اخبارات جہاد کے بارے میں منفی شرانگیز پروپیگنڈے میں منہمک ہیں۔ روسی مسلمانوں کی انٹرنیٹ پر صرف دو ویب سائٹ ہیں۔ دونوں کو ماسکو کی طرف سے سخت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ سابق سوویت صدر میخائل گوربا چوف نے ان حالات کو دیکھ کر روسی حکام سے کہا ہے کہ وہ چیچنیا کو خصوصی اہمیت دے اور امریکا کے عراق میں پھنسنے سے عبرت حاصل کرے۔ (المجتمع‘  شمارہ ۱۶۴۰)

یھودی مذموم پروپیگنڈا :روسی یہودی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ بہت سے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہودی سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں ایک یہودی حاخام عفروم شمولی ویچ (سربراہ تحریک براے مادر وطن) نے کئی مضامین میں یہ شرانگیز بات کہی کہ روس میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مسلمان ملوث ہیں لہٰذا مسلمانوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

مسلمانانِ روس کی قومی تنظیم نے اس یہودی کی الزام تراشی کا سخت نوٹس لیا ہے‘ جب کہ روسی پارلیمنٹ کے ارکان کے ایک گروپ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روس میں یہود کی تمام مذہبی‘ ثقافتی اور سیاسی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔ ان ارکانِ پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ یہودی تنظیمیں ملک میں فرقہ واریت‘ نفرت اور انتشار کو ہوا دیتی ہیں۔ یہود کا ایک مختصر سا ٹولہ روس جیسی عظیم مملکت کے تمام وسائل پر قابض ہے‘ جس طرح امریکا میں مختصر سی یہودی اقلیت نے پورے امریکا کو اپنے اور اسرائیل کے مفادات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ روس میں یہودیوں کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے مگر وہ ملک کے ۷۰ فی صد سے بھی زائد وسائل پر قابض ہیں۔ یاد رہے کہ صہیونیت دشمنی اور یہودی تسلط کا سب سے بڑا مخالف ایک ریٹائرڈ جنرل ماکشوف ہے۔ اُسے روسی عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے۔

  • روسی خاندان اور معاشرہ بحران کا شکار: روس کی کل آبادی ۱۴۴ ملین ہے‘ جس میں سے ۲۳ملین مسلمان ہیں۔ روس کے مشہور ماہر عمرانیات الگزینڈر سینی لینیکوف کی رائے میں روسی خاندان اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ روسی تکبر اور انانیت میں مبتلا ہیں۔ روس میں ہر سال ۷۷۰ ہزار شادیاں ہوتی ہیں۔ سال میں ۲۰ فی صد طلاقیں ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال ۳۴ ملین افراد شادی کے بندھن میں بندھ گئے مگر ان میں سے ۳ ملین کا سرکاری طور پر اندراج نہیں ہوا۔ روسی ماہر عمرانیات کے بقول: ’’شادی کو رجسٹرڈ کرانے کا کیا فائدہ؟ جب بعد میں یک دم طلاق تک نوبت پہنچتی ہو۔ طلاق کی صورت میں مرد کو بچوں کا نفقہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ نیز اپنے گھر اور ملکیت میں سے ایک حصے سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے بہت سے جوڑے شادی کو رجسٹرڈ ہی نہیںکراتے تاکہ علیحدگی کی صورت میں ان اخراجات سے بچا جا سکے‘‘۔

ماسکو یونی ورسٹی کے ایک ماہر عمرانیات کے بقول: شادیوں کی ناکامی میں ذرائع ابلاغ کا بہت دخل ہے۔ ڈائجسٹوں اور رسالوں میں ازدواجی زندگی کے تلخ پہلو سامنے لائے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کو صرف مادی طور پر خوش حال ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بڑی عمر میں کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گذشتہ ۱۵ برسوں میں شرحِ پیدایش میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ اب شرح پیدایش صرف ۲۵ئ۱ ہے‘ جب کہ بقا کے لیے شرح پیدایش ۱۵ئ۲ درکار ہے۔ بچوں کی پیدایش اور ان کی تربیت کے لیے شادی ضروری تصور نہیں کی جاتی۔ حکومت کو شرحِ پیدایش میں کمی پر تشویش ہے اور وہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مالی امداد اور دیگر سہولتوں کی ترغیب دے رہی ہے۔

روس کی اعداد وشمار کمیٹی کے سربراہ ولادی میر سوکولین نے کہا ہے کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد بچے ایسے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی سرکاری طور پر رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ روس‘ امریکا‘ کینیڈا اور آسٹریلیا اس معاملے میں یکساں ہیں۔ فرانس اور برطانیہ میں ناجائز بچوں کی شرح   ۴۰فی صد ہے‘ جب کہ سویڈن میں یہ شرح ۵۰ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔

چیچنیا پر فوج کشی کا بھی روسی معاشرے پر اثر پڑا ہے۔ ۱۹۹۳ء سے لے کر اب تک ۸۰ہزار روسی فوجی چیچنیا میں ہیں۔ روسی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے آغاز سے پہلے وہاں سے فوج مکمل طور پر نکل جائے گی۔ چیچنیا میں روسی فوجی شہریوں سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں مختص خاتون یاک ہین ارتورک نے کہا ہے کہ انھوں نے ایسی شہادتیں جمع کرلی ہیں جن سے روسی فوجیوں کی طرف سے چیچن خواتین پر تشدد کی تصدیق ہوتی ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ میں مجاہدین اور شہدا کی مائوں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کو ’’سیاہ عورتیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

ریشین فیڈریشن کے زیرانتظام بحیثیت مجموعی مسلم ریاستوں کو مشکلات‘ مسائل اور روسی حکومت کے جبر کا سامنا ہے۔ روسی افواج مظالم بھی ڈھا رہی ہیں‘ وسائل کی قلت بھی درپیش ہے‘ سیاسی آزادیوں سے بھی محرومی ہے‘ تاہم مسلمان منظم ہو رہے ہیں‘ اسلامی تنظیمیں آگے بڑھ رہی ہیں‘ جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور اس کے لیے تمام ممکنہ ذرائع و وسائل کام میں لا رہی ہیں‘ جذبۂ جہاد سے سرشار مجاہدین بھی سرگرم عمل ہیں۔ دوسری طرف روسی معاشرہ خود انتشار کا شکار ہے‘ اقتصادی حالت بگڑ رہی ہے___ ریشین فیڈریشن جبر اور طاقت کے بل پر مسلمانوں کو زیادہ دیر تک دبا کر نہیں رکھ سکتی۔ (ماخوذ: المجتمع‘ شمارہ ۱۶۲۴‘ ۱۶۳۸)

انتظامی وحدت

رقبہ

آبادی

مسلمانوں کی شرح

تتارستان

۶۸ ہزار مربع کلومیٹر

۴۲ لاکھ

۶۵ فی صد

بشکیریا

۶ئ۱۴۳ ہزار  "

۴۳   "

۶۰   "  

چوفاش

۱۲  ہزار

۱۶    "

۵۸   "  

موردوفیا

۲۸    "

۱۲    "

۵۵   "  

ماری یل

۳۴   "

۱۰    "

۵۲   "  

اودمورت

۴۳   "

۲۰    "

۵۲   "  

اورن برگ

ایک لاکھ ۲۴ ہزار

۲۵    "

۵۳   "  

داغستان

۵۳ ہزار

۳۲   "

۷۵   "  

چیچنیا

۱۷   "

۱۰    "

۷۴   "  

انگوشیتیا

۴    "

۵۰   "

۷۴   "  

کابردین بلکاریہ

۱۲ ہزار ۵ سو

۹     "

۷۵   "  

اوسیتیا شمالی الانیہ

۸   ہزار

۸    "

۵۳   "  

ادیغہ

۷۶  "

۶    "

۶۰   "  

قارچییف - چیرکیسیا

۱۴   "

۶    "

۷۵   "  

 

جدید امریکی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تعامل ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح یورپ کی بنیاد پرست اور سیکولر قوتوں کے مراکز کی کوشش ہے کہ وہ ہالینڈ کے فلم ساز وان گوخھ کے ۲ نومبر ۲۰۰۴ء کے واقعۂ قتل کو گمراہ کن رنگ دیں اور اس دن سے مسلمانوں کے خلاف جدید یورپی تاریخ کا آغاز کریں۔

بہت سے یورپی ذرائع ابلاغ نے ہالینڈ کے اس فلم ساز کے سانحۂ قتل پر اپنا ردعمل  اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کے جذبے کے اظہار سے کیا‘ مثلاً رسالہ دیرسپیجل نے اپنی ۱۵نومبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں سرورق پر یہ جلی سرخی لگائی: ’’اللہ کی بے حقوق بیٹیاں___ جرمنی میں مسلمان خواتین‘‘۔ رسالے نے اسی موضوع پر ۱۵ صفحات کا مفصل مقالہ شائع کیا۔ہفت روزہ ڈی تسایت نے ۱۸ نومبر ۲۰۰۴ء کی اشاعت میں اپنے سات صفحے مسلمانوں کے خلاف سیاہ کیے۔ یورپی ذرائع ابلاغ کے نزدیک سب سے اہم سوال یہ رہا: ’’یورپ اپنی اقدار کو اسلامی خطرے سے کیسے بچا سکتا ہے؟‘‘ اور ’’کثیرتہذیبی معاشرے کا خواب کیسے شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے؟‘‘۔  ان ذرائع نے ’’یورپی قوانین میں اسلامی شریعت کی مداخلت‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ اشارہ ان بعض یورپی عدالتوں کی طرف تھا جنھوں نے اسکولوں میں مسلم بچوں کے حقوق کے سلسلے میں احکام جاری کیے۔ یورپی ذرائع ابلاغ نے یہ مطالبہ کیا کہ ’’یورپ کی مساجد میں نفرت پھیلانے والے‘‘ خطیبوں کو نکال دیا جائے۔ ’’مسلم خواتین پر ظلم و تشدد‘‘ بھی یورپی ذرائع ابلاغ کا مرغوب موضوع ہے۔ یورپی ذرائع ابلاغ کے اسلام دشمن اور مسلم مخالف موضوعات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ معتدل لوگوں نے بھی اظہارِ رائے کیا اور خبردار کیا کہ جلتی پر تیل ڈالنے کا نتیجہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تحریر و تقریر میں ’’ہسٹیریا‘‘ سے بچا جائے۔ یہ معتدل نقطۂ نظر موجودہ حالات میں غیر مؤثر ہے۔

بہت سے یورپی لوگ اسلام کو اُسی پس منظر میں دیکھتے ہیں جس میں وہ مملکت اور کلیسا کے تصادم کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہیں۔ یورپی نژاد باشندوں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت‘ نیز یورپ میں مقیم مسلمانوں کی اسلامی اقدار سے وابستگی نے سیکولر یورپی قوتوں کو مشتعل کردیاہے‘ مثلاً کھیل اور پی ٹی کے پیریڈوںمیں مسلمان طالبات کا نیم عریاں لباس پہن کر شرکت کرنے سے انکار‘ اجتماعی مخلوط سیاحتی دورے میں شامل نہ ہونا وغیرہ۔ اس کے یورپی معاشرے پر مثبت اثرات بھی پڑتے ہیں اور کئی لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مسلمان خاندان کی مضبوطی بھی اہلِ یورپ کے لیے باعث کشش ہے‘ اور وہ اسی وجہ سے اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ یورپ میں شخصی آزادی بھی اپنے مغربی مفہوم ہی میں ہوتی ہے‘ مثلاً جنسی آزادی یا ہم جنسی کی آزادی وغیرہ۔ مسلم والدین چونکہ اپنے بچوں کو اس قسم کی مادر پدر آزادی سے روکتے ہیں‘ اس لیے انھیں ’’بنیاد پرست‘‘ قرار دے کر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جبری تربیت کر کے انہیں بنیاد پرستی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حالانکہ مطلق آزادی کا تصور دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں۔ انفرادی و اجتماعی سلامتی کی خاطر سوسائٹی کو مطلق آزادی پر قدغنیں لگانا پڑتی ہیں۔ چنانچہ کسی کو مار ڈالنے اور کسی کی توہین کرنے کی آزادی پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح کی پابندیاں مسلم والدین اسلامی اقدار کے تحفظ کی خاطر اپنی اولاد پر لگاتے ہیں۔ مگر یورپی حکام اسلام اور مسلمانوں کی توہین کی آزادی پر پابندی نہیں لگاتے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اس آزادی سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی ہے اور مہذب شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو جسمانی‘ ذہنی اور قلبی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مقتول فلم ساز کی رسواے زمانہ فلم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کیا ہے۔ اسے قتل کرنے کا کام چند جذباتی اور حساس افراد کا ہے۔ ایسے چند افراد کے عمل کی بناپر یورپ کے تمام مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھیرانا یقینا ناانصافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی فلم بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی‘ نیز فلم بننے کے بعد اس کے اثرات کے تدارک کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ہالینڈ کے سیاست کار اور صحافی اپنے معاشرے کے انتشار اور کش مکش و تصادم (جس کی وجہ سے ہالینڈ کے معاشرے کو زبردست خطرے کا سامنا ہے) کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے کر‘ اور یوں مسلم اقلیت کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے آپ کو بری الذمہ ٹھیرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہالینڈ کے ان انتہاپسندوں میں سرفہرست گیریٹ چام (نائب وزیراعظم و وزیرخزانہ) ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کی عوامی پارٹی سے ہے۔ اس شخص نے ۱۵ نومبر ۲۰۰۴ء کو ’’اسلامی بنیاد پرستوں‘‘ کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مکمل طور پر کچل دیا جائے گا خواہ اس کے لیے کتنا ہی مالی خسارہ کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ ہالینڈ کے اسی قماش کے کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مشتبہ مسلمانوں کو کسی عدالتی کارروائی اور دفتری ضوابط کے بغیر فوراً ہی ملک سے باہر نکال دینے کا قانون منظور کیا جائے۔ یاد رہے کہ فلم ساز کے سانحۂ قتل کے بعد ہالینڈ میں مسلمانوں پر منظم عوامی حملے ہوئے‘ ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا‘ ان کے اسکولوں کو مسمار اور مسجدوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ہالینڈ کی وزارتِ داخلہ نے ملک کی ۲۵ مساجد کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں اور اس مہم کو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ وزیرداخلہ جوہان ریمکس نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مساجد کے خلاف بالعموم اور مسجد الفرقان اور مسجدالتوحید کے خلاف بالخصوص سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے‘ نیز ہالینڈ کی تمام مسجدوں کے اماموں کی فہرست بنائی گئی ہے۔

۱۹۹۷ء میں اخبارات و جرائد کے ذریعے ہالینڈ کے باشندوں (ہالینڈ نژاد عوام‘ عربوں اور مسلمانوں) سے ایک سوال دریافت کیا گیا تھا کہ کیایہاں نسلی تفریق (discrimination) پائی جاتی ہے؟ اکثریت نے اس پر اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ نسلی تفریق تو ہے مگر پوشیدہ ہے‘ ظاہر نہیں ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں سے نفرت و عداوت اور نسلی تفریق اب ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کے بعد اب امریکا کی طرح یورپ میں بھی مسلمانوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ گویا مسلمانوں کے خلاف اقدام کسی حادثے کا منتظر تھا۔

اب یورپ کی مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کے چند گوشے ملاحظہ فرمائیے:

  • ائمہ مساجد کے خلاف رویہ: بہت سے یورپی ممالک سے ائمہ مساجد اور خطبا کو نکالنے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔ نشانہ زیادہ تر عرب علما و خطبا ہیں اوربالخصوص جامعہ ازہر کے فاضلین پر الزام یہ ہے کہ ان ائمہ و خطبا کے انتہاپسند جماعتوں سے تعلقات ہیں‘ نیز یہ اپنے مقتدیوں اور سامعین کو تشدد پر اُبھارتے ہیں۔ متعدد یورپی ممالک نے عرب اور مسلم خطبا کو باہر سے نہ آنے دینے کی منصوبہ بندی کرلی ہے‘ بلکہ مسلمانانِ یورپ کو اس امر کا پابند کر دیا ہے کہ وہ اپنے اماموں اور داعیوں کی پہلے یورپی یونی ورسٹیوں میں تربیت کا اہتمام کریں اور اس کے بعد انھیں اپنی دینی سرپرستی کے لیے متعین کریں۔ ہالینڈ کے مسلمانوں کو تو چار سال کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اس دوران اپنے اماموں کو یونی ورسٹیوں سے تربیت دلوائیں۔ اس کے بعد کسی عرب امام و خطیب کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ عرب خطیبوں کو دہشت گردی سے مربوط قرار دے کر ملک سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ چنانچہ ۱۷ نومبر ۲۰۰۴ء کو ہالینڈ کی وزارتِ تارکین وطن نے الجزائر کے باشندے عبدالحمید یوشیما کو ملک سے نکال دیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مسلمانوں کو تشدد پر اُکساتے ہیں۔ اس وزارت نے کہا ہے کہ آیندہ سے امام و خطیب کے مذہب کے لیے ویزا حاصل کرنے پر سخت شرائط عائد کر دی گئی ہیں۔
  • مساجد‘ مدارس اور مسلم تنظیموں کی نگرانی: کئی یورپی ممالک نے اپنی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلم اقلیت پر کڑی نظر رکھیں‘ مسجدوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں اور مساجد میں دیے جانے والے دروس‘ تقاریر اور خطبات جمعہ کی نگرانی کریں۔ اسلامی مدارس کے نصاب کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے‘ نیز اسلامی خیراتی و رفاہی تنظیموں اور مسلمانوں کے مالی منصوبے بھی حکومت کے احتساب کا شکار ہیں۔
  • جرمنی: جرمنی میں بھی مسلم ائمہ مساجد کے لیے پابندیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جرمن زبان کے سوا باقی زبانوں میں مسجدوں میں تقریر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جرمن حکومت نے ’’بنیاد پرست مسلمانوں‘‘ کے خلاف وسیع اقدامات کا اعلان کیا ہے۔   حکومت خود ائمہ مساجد تیار کرے گی‘ نیز انتہاپسند ائمہ کو سزا دی جائے گی۔ میری لویز بیک (جرمن امورِ تارکین وطن کی ذمہ دار) نے کہا ہے کہ تارکینِ وطن سے متعلق ایک نئی جامع پالیسی تیار کرلی گئی ہے جو ۲۰ شقوں پر مشتمل ہے۔ اس کے تین اہداف ہیں:

۱- جرمن مسلمانوں میں موجود بنیاد پرستی کی تحریک اور فکر کا سختی سے محاسبہ‘ ۲- ملک کی اسلامی تنظیموں سے مسلسل مکالمہ‘ ۳- قانونِ مذاہب کے تحت جرمنی میں اسلام کو سیاسی طور پر تسلیم کرنا۔

برلن میں ۲۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میری لویز نے مسلمانوں کے خلاف اس پالیسی کی بعض شقوں کو واضح کیا۔ یاد رہے کہ یہ پالیسی ۳۰ لاکھ سے زائد مسلمانوں کے خلاف ہے۔ بتایا گیا کہ جرمن کے متعین مراکز میں ائمہ مساجد کو تربیت دی جائے گی۔ جرمنی آنے والے تمام ائمہ مساجد کو جرمن زبان اور ثقافت سے کافی حد تک روشناس کرایا جائے گا۔ انھیں جرمن ثقافت کے کورس کرنا ہوں گے۔ جرمنی کی تمام مسجدوں میں خطباتِ جمعہ اور دروس کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ان مساجد کی رجسٹریشن کی جائے گی تاکہ نگرانی میں آسانی رہے۔ ۲۰۰۵ء سے جرمنی میں آنے والے تمام نئے تارکینِ وطن کے لیے جرمن زبان سیکھنا لازمی ہوگا۔

جرمنی کی دونوں مسیحی پارٹیوں نے تین ہزار شدت پسند مسلمانوں کے اخراج کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی حزبِ اختلاف نے مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک سے نکال باہر کیا جائے کیوں کہ ان میں تشدد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جرمن حزبِ اختلاف کی ان دو بڑی مسیحی پارٹیوں (ڈیموکریٹک کرسچین پارٹی اور سوشل کرسچین پارٹی) کا یہ مطالبہ ملک کی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کے بعد ہوا ہے کہ جرمنی میں مقیم مسلمانوں کی تشدد کی طرف مائل تعداد ۳ ہزار ہے۔ اس رپورٹ نے جرمن مسلمانوں کو پریشان کر دیا ہے‘ کیوں کہ اس میں ۳ ہزار سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مسجدوں میں باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں اور دینی امور میں شرکت کرتے ہیں۔ ان دونوں مسیحی پارٹیوں کے پارلیمانی اتحاد کے نائب صدر وولف جانچ نے جرمن پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں سے آج ہی جان چھڑا لیں‘‘۔ اُدھر جرمن صدر ہورسٹ کولر نے گوئٹجن یونی ورسٹی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے: ’’عیسائیت اور مسیحی اقدار یورپی تشخص کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ روشن خیالی‘ حقوقِ انسانی اور آزادی نسواں کی تحریکیں بھی ہمارے تشخص کی علامات ہیں۔ ہم اس تشخص کو نقصان پہنچانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے اور اسے سختی سے کچل دیں گے‘‘۔

اُدھر جرمن کابینہ نے وزیرداخلہ کی یہ تجویز منظورکرلی ہے کہ جرمنی میں قیام کے متمنی ہر شخص کو ’’جذب ہونے کے کورسز‘‘ کرنا ہوں گے۔ جرمنی میں نوواردوں کو اب جرمن زبان ۶۰۰گھنٹے میں سیکھنا ہوگی‘ جب کہ ۳۰ مزید گھنٹوں پر مشتمل جرمن تاریخ‘ ثقافت اور قانون کے مبادیات کے کورس پاس کرنا ہوں گے۔

یاد رہے کہ ہالینڈ کے فلم ساز تھیووان گوخھ کے نومبر ۲۰۰۴ء کے اوائل میں سانحۂ قتل اور وہاں پر مساجد اور اسلامی مدارس پر ہونے والے حملوں نے جرمن راے عامہ کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ جرمنی میں مستقل رہنے والے ۳۰ ہزار سے زائد مسلمانوں نے (جن کی اکثریت ترک ہے) مذہب کے نام پر تشدد اور امتیازی رویے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

  • سوئٹزرلینڈ: اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور غیر جانب داری کی شہرت رکھنے والے اس ملک کی صورتِ حال بھی انتہائی ڈرامائی ہوچکی ہے۔ یہاں کی یونی ورسٹیوں میں ائمہ مساجد کے لیے تعلیمی شاخیں کھول دی گئی ہیں تاکہ ان ائمہ کو سوئٹزرلینڈ کی مغربی تہذیب اور غیرملکی زبانیں سکھلائی جائیں۔ وہاں یہ خطرہ بھی زیرِبحث ہے کہ اگر مسلم اقلیت کی تعداد میں اضافے کی یہی رفتار جاری رہی تو مسلمان مستقبل میں اکثریت اختیار کرلیں گے۔ سوئٹزرلینڈ کی بڑی مسیحی تنظیمیں کافی عرصے سے اس امر کا مطالبہ کر رہی تھیں کہ ائمہ کی تیاری کا سرکاری ادارہ قائم کیا جائے جس کی نگرانی ملک کے محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ افسر کریں تاکہ ائمہ مساجد کو ’’مغربی لبرل زندگی کے ساتھ تعامل‘‘ کے قابل بنایا جاسکے۔ اس مطالبے کا اصل مقصد ’’اسلام کو یورپی قالب میں ڈھالنا‘‘ ہے۔ یہاں کے تارکینِ وطن کے وفاقی محکمے کے ترجمان نے کہا ہے کہ تمام تارکینِ وطن کے لیے یہاں کی ثقافت و زبان کی تعلیم جبری ہوگی بالخصوص ائمہ مساجد کے لیے تو یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ یہ ائمہ حضرات ہی مسلمانوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان اماموں کو مسجدوں میں صرف قرآن ہی کے بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہیے بلکہ سوئٹزرلینڈ کے معاشرے کی متفقہ قدروں کے بارے میں بھی اپنے سامعین کو بتانا چاہیے‘جیسے مساواتِ مردو زن وغیرہ۔

سوئٹزرلینڈ کے وزیرِاطلاعات و نشریات نے اپنے ملک کے جرمن زبان کے ٹیلی وژن کے ذریعے بتایا ہے کہ ملک میں ائمہ مساجد کی تعلیم و تربیت کے اداروں کے قیام سے تشدد کے پرچار کی روک تھام ہوسکے گی۔ اس کے برعکس دائیں بازو کی متشدد پیپلز پارٹی کے سربراہ اولی ماؤز نے اس خیال کی مخالفت کی ہے۔ اخبار NZZ میں شائع ہونے والے بیان میں انھوں نے کہا: ’’سوئٹزرلینڈ ایک مسیحی ملک ہے۔ اسلام کے بارے میں یہاںکسی تدریسی اکیڈمی کے قیام کی کوئی گنجایش نہیں ہے‘‘۔

  • فرانس: فرانس کی وزارتِ داخلہ نے مارچ ۲۰۰۴ء میں ہی ’’ماہرین کی کمیٹی‘‘ قائم کر دی تھی جس کا کام ’’ادارہ براے تربیت ائمہ مساجد‘‘ کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے۔ فرانسیسی حکام کے نزدیک اس ادارے کا قیام ضروری ہے کیونکہ فرانس میں تقریباً ۱۵۰۰ ائمہ مساجد ہیں۔ ان کی مسلسل تربیت کے نتیجے میں یہ حضرات اس قابل ہوسکیں گے کہ فرانسیسی ماحول کے قریب تر ’فرانسیسی اسلام‘ اپنے سامعین تک پہنچا سکیں۔ فرانسیسی وزیرِداخلہ نے کہا ہے کہ ماہرین کی کمیٹی کا تعین مملکت کی طرف سے ہوا ہے‘ تاہم وزارتِ داخلہ ان ارکان کی نگرانی کرے گی۔ فرانس کی اسلامی تنظیموں کے اتحاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عام طور پر فرانسیسی حکومت مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرتی مگر اب وہ مذہبی امور میں براہِ راست مداخلت کر رہی ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ حکومت فرانس ان اداروں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط بنائے گی۔ اس اتحاد نے مطالبہ کیا ہے کہ تربیت ائمہ کے اداروں کے قیام کے لیے ایک مستقل غیرجانب دار کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے ارکان کا تعین اسلام کی فرانسیسی کونسل سے کیا جائے۔

فرانس میں ائمہ مساجد کے خلاف گھیرا تنگ کیے جانے کی نمایاں مثال امام یاسر علی ہے جو پیرس کے مضافات میں ارجونٹائے کی مسجدالسلام کے امام تھے۔ ان کے خلاف یہ الزام لگا کر کہ وہ اپنی رہایش گاہ پر انتظامی نگرانی کے عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کرتے‘ گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ ان کے خطبات ’’قدامت پسندانہ انتہا پسندی‘‘ کے حامل ہوتے ہیں۔

  • اسپین‘ اٹلی اور ڈنمارک: یورپ کے ان تینوں ممالک میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ خوسیہ ثاباتیرو کی سربراہی میں اسپین کی سوشلسٹ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اسپین کے مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے ایک منتخب اسلامی کونسل تشکیل دی جائے گی جس کا مقصد ’’متشدد ائمہ مساجد‘‘ کے اثر و نفوذ کی روک تھام ہوگا۔

ڈنمارک نے تارکینِ وطن کے خلاف سخت پالیسی اپنائی ہے جس کا خصوصی ہدف ملک میں ائمہ مساجد کی آمد کو روکنا ہے۔ اٹلی کے حکام نے ایک جزائری معلّم کو ملک سے نکال دیا ہے۔ اس پر ’’دہشت گرد‘‘ جماعت سے تعلق کا الزام لگایا گیا‘ جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اس نے حماس کے قائد الشیخ احمد یاسین شہیدؒ کی غائبانہ نمازِ جنازہ روم کی ایک مسجد میں پڑھائی تھی۔

یورپ میں مسلم علما‘ خطبا اور اماموں کے ساتھ یہ کچھ مسیحی حکام کر رہے ہیں تو عرب اور مسلم ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے اشاروں پر کئی ائمہ مساجد اور خطبا کو بھی ان کے مناصب سے جدا کر دیا گیا ہے۔

  • یھودی لابی کا کردار: مغرب اور مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھنے والے اصحابِ بصیرت کا خیال ہے کہ یہودی لابی نے موجودہ حالات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اسلام اور مغرب کے مابین ایک آہنی دیوار تعمیر کر دی ہے۔ مغرب میں بسنے والے مسلمان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ یہودی لابی کے پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہونے والی اس یورش میں اپنی صفائی پیش کر سکیں‘ جب کہ صہیونی لابی اور دائیں بازو کی مغربی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف مکمل جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابھی تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

مسلمانوں اور مغرب کے مابین یہ کش مکش انتہائی خطرناک صورت اختیار کرنے والی ہے۔ اس صورتِ حال نے بہت سے مسلمانوں کو شکستہ خاطر اور مایوس کر دیا ہے کیوں کہ عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت امریکا کی خوشنودی اور یورپی حکمرانوں کے ساتھ تعاون میں تو پیش پیش ہے مگر وہ امریکی اور یورپی حکمرانوں پر مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اثرانداز ہونے سے قاصر ہیں۔ یہ بزدل حکمران اپنے مغربی سرپرستوں اور آقائوں سے یہ کہنے کے بھی روادار نہیں کہ وہ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں‘ نہ مسلم حکمران ہی مسلمانوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈے مہم کو رکوانے کے لیے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا سارا زور اپنے ہی عوام کو دبانے پر چلتا ہے۔

اُدھر بعض مغربی قلم کار اسے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ قرار دے کر مغرب کی ایک غلطی کا ازالہ ایک دوسری غلطی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ درپردہ مغربی زیادتیوں کو اس کش مکش کا قدرتی مظہر قرار دے کر انھیں حق بجانب ٹھیرا رہے ہیں۔

اس تصادم کے پس پردہ صہیونی لابی سرگرمِ عمل ہے۔ ایک سرکردہ صہیونی لیڈر نے کہا ہے کہ ہم مسلمانوں اور عیسائیوں کو باہم لڑا کر خود ایک طرف ہو جائیں گے اور یوں سرخ رو ہوکر دنیا کی قیادت کے لیے تازہ دم ہو جائیں گے۔ (تلخیص المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۱‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

غربت‘ جہالت اور بیماری کی تثلیث نے پوری دنیا میں مسیحی اداروں کے کام کو آسان بنایا ہے۔ ترکی کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں یورپی ممالک اور امریکا کے سفارت خانے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا جو بھی شہری کلیسا کی معرفت ترکی جانے کی درخواست دیتا ہے اُسے تمام سہولیات اور سفری دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ترکی کا جو شہری مغربی ممالک جانا چاہتا ہے اور وہ ترکی میں کام کرنے والی مسیحی تنظیموں کی معرفت درخواست کرتا ہے‘ فوراً اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ ترکی کے طالب ِ علم اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہیں‘ انھیں مفت باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ مسیحی تبلیغی اداروں کا ہدف آیندہ دس برسوں میں ۵۰ لاکھ ترک باشندوں کو عیسائی بنانا ہے تاکہ ترکی میں ایک بااثر جدید مسیحی اقلیت کی تشکیل کی جا سکے۔

اگست ۱۹۹۹ء میں جب ترکی کا علاقہ مرمرہ زبردست زلزلوں کا نشانہ بنا تو عیسائی تبلیغی اداروں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں کو غذا اور طبی امداد کے ذریعے عیسائی بنالینے میں کامیاب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے گھر بالکل مسمار ہوگئے تھے۔ زلزلوں سے سب سے متاثر شہر اسکاریہ تھا۔ وہاں کے مسلمان اہلِ علم نے بتایا ہے کہ ویٹی کن کے ماتحت خیراتی اداروں کے کارکن صرف اس شرط پر متاثرین کی مدد کرتے تھے کہ پہلے وہ عیسائیت قبول کریں۔ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کو بھاری رقوم سے نوازا جاتا۔ اسکاریا یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کنعان تونج نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: مسیحی ادارے‘ مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سی آئی اے کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔ ان کا اوّلین مقصد بیداری اور ترک قومیت کا تشخص ختم کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کافی مال خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ امداد دیتے وقت لوگوں سے کہتے ہیں‘ دیکھو‘ تمھاری حکومت نے تمھاری مدد نہیں کی‘ ہم نے مدد کی ہے۔ یہ متاثرین کو مال بھی دیتے ہیں اور ان میں انجیل بھی تقسیم کرتے ہیں۔ متاثرین کی نفسیاتی و مالی حالت سے فائدہ اٹھا کر انھیں گرجوں میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مسیحی مبلغ بظاہر ’’مسیحی مقدس مقامات‘‘ کی زیارت کے بہانے ترکی میں آتے ہیں مگر ان کا اصل مقصد ترکی کے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانا ہے۔ صرف گذشتہ تین برسوں میں ترکی میں انجیل کے ۸۰ لاکھ نسخے تقسیم کیے گئے۔ مختلف محلوں اور بازاروں میں گھر خرید کر یا کرائے پر لے کر وہاں چھوٹے چھوٹے گرجے بنا دیے جاتے ہیں۔

ترک پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق عیسائی مبلغ جن اداروں کے پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں‘ ان میں آرمینیائی تحقیقی مرکز‘ اتحاد کلیسا ہاے یورپ‘ اتحاد کلیسا ہاے آرتھوڈکس اور اتحاد کلیسا ہاے عالمی شامل ہیں۔ یہ مبلغ ترکی میں نسلی اور علاقائی تفریق پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پورے ترکی میں عیسائی لٹریچر کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ترکی زبان کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ ترکی کے بڑے شہروں استنبول‘ انقرہ اور ازمیر میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے بھی عیسائیت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔

جنوب مشرقی اناضول کا علاقہ مسیحی سرگرمیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس علاقے میں مسیحی مبلغ یازیدیت اور کلدانیت کے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ کردی زبان سے پابندی اٹھا لیے جانے کے بعد مسیحی مبلغ وسیع پیمانے پر کردی زبان میں کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ کردی زبان میں لاکھوں کتابیں‘ انجیلیں اور کیسٹیںتقسیم کی جاچکی ہیں۔ نہایت شان دار‘ عمدہ کاغذ اور طباعت کی لاکھوں کی تعداد میں انجیل کُردی زبان میں تیار کرکے مفت دی جاچکی ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے والے کُردوں کو یورپ میں بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یورپ جانے کے متمنی ان کُردوں کی صلاحیتوں سے وہاں استفادہ کیا جاتا ہے۔ نوجوان کُردوں کو عیسائیت پر لیکچر دیے جاتے ہیں۔

ترک انٹیلی جنس کے مطابق جنوب مشرقی اناضول میں کئی شہریوں نے مال کی خاطر اسلام ترک کر کے عیسائیت قبول کرلی ہے۔ دریاے فرات کے قرب بپتسمہ پانے والے ان افراد کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر جو تصاویر لی گئیں وہ ترک انٹیلی جنس کے ہاتھ آئی ہیں۔ ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے ساتھ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے اعلیٰ افسر کھڑے ہیں جن کے چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے ہیں۔ بپتسمہ کے بعد‘ نو عیسائیوں میں سے جو لوگ یورپی ممالک جانا چاہیں‘ مغربی سفارت کار انھیں ویزے فراہم کرتے ہیں اور تمام سفری سہولیات کا مفت اہتمام کرتے ہیں۔

افسوس کہ جس ترکی نے اپنے دورِ عروج میں پوری دنیا میں اپنی عظمت کا پرچم لہرایا اور جن عثمانی ترک خلفا کی ہیبت سے یورپی حکمران لرزہ براندام رہتے تھے ‘ آج اُسی ترک قوم کو یوں کھلم کھلا عیسائی بنایا جا رہا ہے!

نصیحت تو یہی کی جاتی ہے کہ سارے جہاںکا درد نہ پالو لیکن مسلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں کسی جگہ بھی تکلیف ہو تو اس کا دل اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ آج کل جس مسلمان ملک کے احوال دیکھے جائیں‘ ہر جگہ امریکی ایجنڈا نظر آتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تو سب پردے ہٹ گئے اور ہر کارروائی بلا جھجک و شرم کھلم کھلا کی جا رہی ہے۔ مصر کی حالت ہم سے مختلف نہیں‘ بلکہ اب تو پاکستان کو مصر کی راہ پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمارے حکمران کو انوارالسادات سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ سو ایک نظر مصر کی طرف بھی!

مصر کے وزیر داخلہ نے سرکاری رسالہ المصور (۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ء) کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ مصر نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کی بھرپور مدد کی ہے‘ اور اسے بہت سی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ اور ارکان کانگریس مصر کے خلاف الزام تراشی اور اظہار نفرت سے باز نہیں آرہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گو مصری حکمران‘ امریکی خوشنودی کے لیے کسی سے پیچھے رہ جانے پر تیار نہیں‘ مگر مصر بہرحال مسلمانوں کا ملک ہے اور امریکیوں کی نظر میں اس سے بڑھ کر عیب کیا ہو سکتا ہے۔ مصری حکمران امریکہ کی اشیرباد حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے اسلام اور جمہوریت کے حامیوں کو کچل کر‘ اپنے عوام کی نفرت و حقارت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن امریکی بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے مصر کو ’’کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور منافق‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ مصر کا فرض ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی نظام کی کڑی بن جائے اور عرب ازم کے نظریے اور اپنے دیگر بوسیدہ افکار سے چھٹکارا پائے‘ یا پھر انجامِ بد کے لیے تیار ہو جائے (۱۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء)۔ امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مصر کو جدید میزائل دینے کے معاہدے پر بھی اعتراض کیے ہیں۔ امریکہ‘ مصر پر زور دے رہا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی کے سرچشمے‘‘ خشک کرے۔ چنانچہ مصر نے تعمیرمساجد پر ۱۰ شرطیں عائد کر دی ہیں اور جامع ازھر سے امریکہ مخالف اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مصر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یاسر عرفات کو‘ یہودیوں کے ساتھ معاہدۂ امن کرنے پر مجبور کرے۔

امریکی جیلوں میں مصری: مصری وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق ۱۱ ستمبر کے بعد ۵۰سے ۲۰۰ تک مصری شہری امریکی جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ بار بار کے مطالبات کے باوجود امریکی حکام گرفتار شدہ مصریوں کی نہ تو تعداد بتا رہے ہیں اور نہ ان سے رابطہ کرنے کی ہی اجازت دے رہے ہیں۔ مصری وزیرخارجہ نے اپنے گذشتہ امریکی دورے کے دوران‘ گرفتارشدگان کی تعداد معلوم کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمیں گرفتار شدگان کی تعداد اور ان پر لگائے گئے الزامات کا علم نہیں ہو جاتا‘ سکون نہیں آسکتا۔

تنظیم الاساتذہ کے خلاف عدالتی کارروائی: اخوان المسلمون کے خلاف قائم فوجی عدالت نے اپنی کارروائی شروع کر دی ہے۔ گذشتہ چھ برسوں میں یہ چوتھی فوجی عدالت ہے۔ گرفتار شدہ ’’ملزموں‘‘ کی تعداد ۲۲ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور مشہور ڈاکٹر ہیں۔ قاہرہ کے مشرق میں--- قاہرہ اسماعیلیہ شاہراہ--- پر واقع ہایکستب چھائونی میں عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ ملزموں کی حمایت و تائید کے لیے ۲۰۰ وکلا موجود تھے۔ ان میں سے کئی سابق جج تھے۔ حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندے بھی حاضر تھے۔ الزامات یہ عائد کیے گئے: دستور و قوانین کو معطل کرنا‘ مملکت کے اداروں کو اپنا کام کرنے سے روکنا‘ اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے ازسرنو احیا کے لیے کام کرنا‘ اخوان کے عناصر کو تیار کرنے کے لیے خفیہ ملاقاتیں کرنا‘ جماعت کی مالی مدد کے لیے لائحہ عمل بنانا‘ عوام کو متحرک کرنے کے لیے طریق کار وضع کرنا‘ طلبہ کو اپنے ساتھ ملانا‘ ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کے لیے غوروفکر کرنا‘ جماعت کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے کے لیے مطبوعات و دستاویزات تیار کرنا۔

یاد رہے کہ تنظیم الاساتذہ کے گرفتار شدہ ارکان میں میڈیکل‘ ایگریکلچرل اور ٹریننگ کالجوں کے آٹھ اساتذہ ہیں۔ اس سے پہلے ۶۰ سے زائد اخوان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ مصر کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی مبصرین کے بقول: مصری حکمران‘ اخوان کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا رہے ہیں۔

تعمیر مساجد پر پابندیاں: ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کیے بغیر‘ اس کے خلاف عالمی سطح پر امریکی کارروائی صرف اس تک محدود نہیں ہے کہ ’’دہشت گرد‘‘ ملکوں اور جماعتوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے جائیں بلکہ دین اور اہل دین پر بھی حملے شروع ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے قانون بنایا ہے جس کی رُو سے مساجد میں نماز پڑھنے والوں کے خلاف جاسوسی کی جا سکے گی اور وفاقی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار مسجدوں میں گھسنے اور نمازیوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کے مجاز قرار دیے گئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدگی سے مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا دیا جائے۔ امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈمن نیویارک ٹائمز میں مسجدوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کا دن فی الحقیقت تیسری عالمی جنگ کا یوم آغاز ہے۔ ہمیں اس جنگ کا مقصد سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں صرف دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے جدوجہد نہیں کرنا‘ دہشت گردی تو فقط ایک آلہ ہے۔ ہم تو آئیڈیالوجی کو شکست دینے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ کسی دینی جماعت کے خلاف صرف فوجوںسے لڑائی نہیں لڑی جا سکتی بلکہ مدرسوں اور مسجدوں میں بھی لڑائی ہونی چاہیے۔ ائمہ اور علما کا تعاون حاصل کیے بغیر آئیڈیالوجی کو شکست نہیں دی جا سکتی‘‘۔ (نومبر ۲۷‘ ۲۰۰۱ء)

دہشت گردوں کے خلاف یہ مہم اب صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ کئی مسلم اور عرب ممالک نے بھی دین اور اہل دین کے خلاف یہ لڑائی شروع کر دی ہے تاکہ ایک طرف تو امریکہ کو خوش رکھا جائے اور دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین کو--- جو زیادہ تر دینی جماعتیں ہیں--- کچلنے کے اس ’’سنہری موقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے مساجد و مدارس کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا ہے وہ اسی امریکی پالیسی کا پھیلائو ہے۔ اس لیے تعمیرمساجد پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مصر میں تعمیر مساجد پر عائد کردہ ۱۰ پابندیاں وزارتِ اوقاف نے نہیں بلکہ مجلس وزرا نے لگائی ہیں۔

پابندیاں یہ ہیں: ۱- رہایشی عمارت کے نیچے مسجد بنانا ممنوع ہے‘ ۲- مسجد کا رقبہ ۱۷۵ مربع میٹر سے کم نہ ہو‘ ۳- مسجد کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے‘ بطور ضمانت کسی بھی بنک میں ۵۰ ہزار گنی (۱۱ ہزار ڈالر) کی رقم جمع کروائی جائے‘ ۴- علاقے کو مسجد کی حقیقی ضرورت ہو‘ ۵- نئی تعمیر ہونے والی مسجد کا پہلے سے تعمیرشدہ کسی مسجد سے فاصلہ ۵۰۰ میٹر سے کم نہ ہو‘ ۶- وزارتِ اوقاف کے واضح اجازت نامے کے بغیر کوئی بھی مسجد تعمیر نہ کی جائے‘ ۷- مسجد انتظامیہ‘ وزارتِ اوقاف کے جاری کردہ احکام و ہدایات پر عمل درآمد کی پابند ہوگی‘ ۸- صحت‘ سماجی اور خدماتی امور کی سرانجام دہی کے لیے‘ مسجد کے نیچے کمرے تعمیر کرنے ہوں گے‘ ۹-اگر دریاے نیل کے کنارے پر مسجد یا خانقاہ تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے وزارتِ آبپاشی سے بھی اجازت نامہ لینا ہوگا‘ ۱۰- کسی بھی غضب کردہ یا متنازعہ جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی جائے۔

مصر میں مساجد کی روز افزوں تعداد سے حکومت خائف ہے۔ وزارت اوقاف نہ تو اتنی زیادہ مساجد کے لیے ائمہ و خطبا کا تقرر کر سکتی ہے اور نہ سیکورٹی فورسز ہی ان مساجد کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ لہٰذا مسجدیں مختلف اسلامی جماعتوں اور انجمنوں کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ حکومت مصر کے نزدیک اس سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فروغ ملتاہے۔ جمعہ کے خطبات میں‘ سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔

آج ہر مسلمان ملک میںاس نوعیت کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسجدیں تک آزاد نہ رہیں تو دشمنوں کو اور کیا چاہیے۔

 

تیونس میں موجودہ اسلامی تحریک کا آغاز چند پرُجوش نوجوانوں نے ۱۹۶۹ء میں کیا‘ جن میں استاد راشد الغنوشی اور شیخ عبدالفتاح مورو سرفہرست ہیں۔ تحریک کا آغاز مساجد اور تعلیمی اداروں سے ہوا۔ تحریک اسلامی نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف نام اپنائے۔ ۷۰ کے عشرے میں ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ ۸۰ کی دہائی میں ’’حرکۃ الاتجاہ الاسلامی‘‘ اور ۹۰ کے عشرے کی ابتدا سے ’’حرکۃ النہضۃ‘‘ کا نام اختیار کیا۔

اہم اہداف:  دعوت و تبلیغ‘ مساجد کی آبادکاری‘ غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ‘ نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا‘ تاکہ وہ مغربی فکری یلغار سے محفوظ رہیں اور ان کا اسلام پر‘بحیثیت عقیدہ و نظام‘ اعتماد بحال کیا جا سکے۔ غریبوں اور پسماندہ طبقوں کے سماجی مسائل میں دل چسپی‘ محنت کشوں اور طالب علموں کی یونینوں میں شرکت‘ نوجوانوں کی ثقافتی و علمی سوسائٹیوں اور کلبوں میں شمولیت‘ جمہوریت ‘ سیاسی آزادیوں اور حقوقِ انسانی کے احترام کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا‘ افریقی ‘ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعاون--- اُمت ِ اسلامیہ کے مسائل و مشکلات میں ہمدردی‘ فلسطین سمیت دُنیا کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی حمایت‘ عورت کا احترام اور اقتصادی‘ سماجی ‘ ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں اس کے مثبت کردار کی توثیق‘ تاکہ معاشرے کی ترقی میں وہ بھرپور حصہ لے سکے۔

تحریک اسلامی ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر‘ پرُتشدد ذرائع کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ سیاسی و فکری اختلافات کے حل کے لیے اسلحے پر انحصار اُمت اسلامیہ کی پس ماندگی اور اس کے مسلسل بحرانوں کا سبب ہے۔ اس کے برعکس وہ گفتگو‘ مذاکرات اور پرُامن بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک فوج کا کام ملک اور قوم کا دفاع ہے نہ کہ انقلاب برپا کرنا۔ وہ دیگر اقوام کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تہذیبی مکالمے اور مشترکہ تعاون کی قائل ہے۔

صدر ابن علی کے انقلاب کی حمایت:  ۷ نومبر ۱۹۸۷ء کو جب بورقیبہ کی جگہ حکومت کی  باگ ڈور ابن علی نے سنبھالی جو اپنے پیش رو کا دست راست تھا لیکن تحریک اسلامی نے وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس انقلاب کی تائید کی۔ مگر اس تعاون کے باوجود حکومت نے اصلاحات اور وعدے پورے کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا بلکہ مجلس قانون ساز کے انتخاب کے موقع پر عوامی فیصلے کی توہین کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج میں صریح دھاندلی کی۔ اب حکومت تحریک اسلامی کو ختم کرنے اور جبرواستبداد قائم رکھنے کے ایک خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

سیاسی صورت حال : آزادی‘ جمہوریت اور حقوق انسانی کے سرکاری نعروں کے علی الرغم سیاسی صورت حال یہ ہے کہ حکمران دستور پارٹی اور مملکتی ادارے سیاسی زندگی پر مسلط ہیں‘ جب کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کو کچلا جا رہا ہے۔ حکمران مخالف سیاسی پارٹیوں کو ’’کنارے پر لگانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس سلسلے میں تشدد کے بدترین ذرائع اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے حزب اختلاف کے خلاف اطلاعاتی و سیاسی سرگرمیاں تیز تر کر رکھی ہیں‘ ان کے اخبارات بند کر دیے ہیں‘ ان کے اجتماعات پر پابندی ہے ‘ ان کے قائدین کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔ ان تمام قومی شخصیات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے ابن علی کا مدّمقابل بن سکتی ہیں۔ ان تمام اداروں کو ختم یا بے وقعت کیا جا رہا ہے جو عوام کو یک جا کرسکتے ہیں یا حکمران اقلیت کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جیسے جنرل لیبر فیڈریشن ‘ طالب علموں کے اتحاد‘ تونسی رابطہ براے تحفظ حقوقِ انسانی‘ آزادی صحافت اور مساجد۔ مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور محکمہ اطلاعات کو یک جا کیا جا رہا ہے تاکہ اس کا مرکزی کنٹرول فردِواحد(صدرمملکت) کے ہاتھوں میں ہو۔ حکمران ٹولے نے اپریل ۱۹۸۹ء میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے ذریعے قومی حق کی توہین کی ہے۔ ان انتخابات میں عوام نے بھاری اکثریت سے تحریک النہضۃ کی حمایت کی تھی جس نے بالواسطہ طور پر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔

قانونی پیچیدگیاں: تیونس کا قانونی نظام‘ ظالمانہ قوانین پر مبنی ہے۔ یہ ظلم و زیادتی کے تمام مرتکب افراد کو مناسب سہارا فراہم کرتا ہے۔ چند ظالمانہ قوانین یہ ہیں: سیاسی پارٹیوں کے دینی بنیاد پر تسلیم کیے جانے کی ممانعت‘ سیاسی پارٹیوں پر وزیرداخلہ کا تسلّط‘ مخصوص قانونی شق کی رُو سے مساجد‘ جامعات‘ صحافت‘ انجمنوں‘ یونینوں اور انتخابات کے تمام مراحل کا وزارتِ داخلہ کے تحت ہونا۔ آزادیِ اختیارِ لباس میں مداخلت‘ عورتوں کے لیے حجاب اوڑھنے کی ممانعت کا قانون اور اس کے نتیجے میں باحجاب طالبات و خواتین کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے برطرف کرنا اور بے پردگی کی حوصلہ افزائی وغیرہ۔ اگرچہ ملک کے دستور میں نقل و حرکت کی آزادی کا اقرار کیا گیا ہے‘ تاہم قانوناً وزیرداخلہ کو نقل و حرکت پر پابندی یا اجازت کا اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ لاکھوں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ انجمن سازی وزیرداخلہ کے رحم و کرم پر ہے۔ چنانچہ سیکڑوں انجمنیں اور اخبارات حقِ وجود سے محروم کردیے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے تھانوں میں روزانہ انسانوں کو تختہِ مشق ستم بنایا جاتا ہے اور یوں حقوقِ انسانی کی توہین کی جاتی ہے۔

ثقافتی مسائل:  راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے حکومت ِ تیونس عربی اسلامی تشخص کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عملاً دین‘ اخلاق اور تحریک نہضۃ کو کچلنے کے لیے حکومت اپنے منصوبے پر سختی سے عمل کر رہی ہے۔ حکومت اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف حرکۃ النہضۃ پر جو سب سے بڑا الزام لگاتی ہے وہ ہے اس کا اسلامی تشخص‘ مگر دوسری طرف اس نے نہضۃ کے کافر ہونے کے فتوے بھی صادر کروائے ہیں۔ قانوناً تمام مساجد کو براہِ راست مملکت کی زیرنگرانی کردیا گیا ہے اور ان میں علما کرام کو عوام کی رہنمائی سے روک دیا گیا ہے۔ عمومی اور تربیتی اداروں کی تمام مساجد کو بند کر دیا گیا ہے جو ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔ بہت سے اقدامات کے ذریعے عربی اسلامی تشخص کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے بے دین‘ اباحیت پسند اور سابق کمیونسٹوں کو تمام اداروں پر مسلط کر رہی ہے جو علانیہ نظریاتی تخریب کاری کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جب کہ ہزاروں اسلام پسند طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ کو تحریک اسلامی کے حامی یا ہمدرد ہونے کے الزامات کے تحت تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے انھی عناصر کو ساتھ ملا کر‘ دین اسلام اور معاشرتی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی کسی بھی ملک میں دورِاستعمار میں بھی مثال نہیں ملتی۔

ایک مکمل ثقافتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ابن علی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تاریخی تعلیمی ادارے جامع الزیتونہ وغیرہ میں درس کی اجازت دی تھی مگر اب یہ اجازت واپس لی جا چکی ہے۔ قرآن کریم کی تجوید کے مدرسے بند کر دیے گئے ہیں۔تمام غیر ملکی اسلامی رسالوں اور پرچوں کی ملک میں آمد ممنوع ہے۔ اسلامی کتب کی درآمد پر بھی پابندی عائد ہے اور ان کتابوں کو فروخت کرنے والے کتب خانوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مارکسی عناصر اور سیکورٹی آفیسرز پر مشتمل قومی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کتب خانوں کی پڑتال کرتی ہے اور انھیں اسلامی کتابوں سے ’’پاک‘‘ کرتی ہے۔ اس انتہائی سرگرم کمیٹی کو وزارتِ ثقافت خصوصی تعاون فراہم کرتی ہے۔

صہیونیت کا پھیلاؤ: تیونس میں صہیونیوں نے اپنے کئی کلب قائم کر رکھے ہیں اور وہ (کم از کم تین بار) فلسطینی قائدین پر حملے کر چکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا سیکرٹری اور کئی اعلیٰ عہدے دار بھی موساد کے ایجنٹ ہیں۔ اطلاعات و ثقافت کے میدانوں میں یہودی اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔ صہیونی مالی ادارے تیونس کی فلم انڈسٹری کی مالی امداد کر رہے ہیں چنانچہ فلموں میں عریانی‘ بے حیائی اور اقدار سے آزادی بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی مخالفت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے‘ آنحضورؐ اور صحابہؓ کی توہین کی جا رہی ہے۔

امن و امان کی صورت حال: تیونس کا نظام دو بنیادوں پر چل رہا ہے: ۱- بیرونی قوتوں کی دست نگری و ماتحتی‘ ۲- پولیس کا ظالمانہ نظام۔ اس کے اثرات یہ ہیں: وزارت داخلہ کا بجٹ ہر وزارت سے زیادہ ہے۔ پولیس کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے کہ وہ جتنا چاہیں‘ مخالفین پر تشدد کریں‘ جیل میں ڈالیں‘ جان سے مار ڈالیں۔ حقوقِ انسانی کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود‘ قتل و تشدد میں ملوث ایک بھی شخص کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کے دوران صرف اسلامی تحریک کے گرفتارشدگان کی تعداد ۳۰ ہزار تھی۔ اس کے بعد بھی تفتیش اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تشدد کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۰ ہے‘ ان میں سے زیادہ تر کو‘ ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر دفن کر دیا گیا۔ تحریک نہضۃکے کئی قائدین‘ قیدِتنہائی میں رکھے گئے ہیں۔ وہ رابطے اور اطلاعات کے ہر ذریعے سے محروم ہیں۔ انھیں علاج معالجے کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جا رہی۔ وہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہیں اور زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں۔ انھیں مکمل قیدتنہائی میں پڑے۴ ہزار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حضرات اپنی مظلومیت کے اظہار کے لیے کئی بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔

یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں پر پولیس کا مسلسل محاصرہ اور قبضہ ہے۔ یونی ورسٹی ہوسٹلوں پر رات کے وقت حملے ‘ طلبہ اور اساتذہ کو دق کرنا اور طلبہ پر فائرنگ ایک معمول بن چکا ہے۔ طلبہ کی تنظیم ’’الاتحاد العام التونسی لطلبۃ‘‘ کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ حکومت تیونس نے بہت سے لوگوں کو اپنا مخبر اور جاسوس بنا رکھا ہے جواسے ہر طرح کی اطلاعات دیتے ہیں ۔ ان میں دکانوں‘ اداروں اور محلوں کے چوکیدار ‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘

قہوہ خانوں کے مالک‘ بلدیہ کے ملازم اور حکمران پارٹی کے ارکان شامل ہیں۔

روز افزوں مقبولیت:  تحریک نہضۃ کے صدر اور جلاوطن راہنما شیخ راشد الغنوشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیونسی حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ تحریک اسلامی کی عوام میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ ملک کا کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد تحریک میں شامل نہ ہو۔ اب تیونس کی تمام سیاسی پارٹیاں تحریک نہضۃ کی طرف دست ِ تعاون بڑھا رہی ہیں اور تیونسی معاشرہ نہضۃ کے گرد جمع ہو رہا ہے۔

تیونسی حکمران اپنے بقول ’’اسلام پسند دہشت گردوں‘‘ کو ختم کرنے کا جامع منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ اسے پڑوسی عرب ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کو برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے گذشتہ اجلاس میں تیونس نے یہ تجویز دی تھی کہ تمام مسلم ممالک میں ’’دہشت گردی‘‘ کو سختی سے کچل دیا جائے۔

 

مراکش میں موروثی شاہی نظام قائم ہے۔ دستور کی رُو سے بادشاہ ایک مقدس ہستی ہے۔ اُسے ایسے مطلق العنان اختیارات حاصل ہیں جو مقننہ ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات سے بالاتر ہیں۔ اس کی طرف سے صادر ہونے والے کسی فیصلے‘ حکم یا رہنمائی پر تنقید کی جا سکتی ہے نہ اعتراض اور نہ اُسے منسوخ اور کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال تو ہے تحریری قانون کی رُو سے۔ غیر تحریری مروجہ قوانین کے مطابق بادشاہ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ شاہ حسن ثانی کی رحلت اور نوجوان بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کے بعد حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

نئے شاہ نے تخت نشینی کے بعد اپنے پہلے خطاب (۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء) میں سابقہ پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ نعرے تبدیل ہوئے مگر پرانے دَور کی بنیادیں قائم ہیں اور گذشتہ کئی ادوار سے مراکش کی سیاسی زندگی پر مسلط ’’حفاظت و تحفظ‘‘ کی ذہنیت‘ اپنی اصل رُوح کے ساتھ برقرار ہے۔ ویسے تو ایک نمایندہ حکومت موجود ہے مگر یہ نمایندگی کے معروف سیاسی اصطلاحی مفہوم سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔عبدالرحمن یوسفی کی موجودہ حکومت بھی شاہی احکام کے نفاذ کی آلہ کار ہے۔ مراکش کے تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے ‘  وزارتوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بادشاہ کے احکام و ہدایات پر عمل درآمد کرائیں‘ بالخصوص حسّاس سیاسی امور کے وزرا تو براہِ راست بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں جنھیں ’’وزرا ے سیادت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اول (وزیراعظم) کے ماتحت نہیں ہوتے‘ جیسے داخلہ‘ خارجہ‘ عدل‘ اوقاف اور قومی دفاع کے وزرا۔ مرحوم شاہ حسن ثانی کے بقول یہ بادشاہ کے مددگار ہوتے ہیں۔ اب ایک بے چارہ مددگار وزیر‘ شاہی احکام و ہدایات نافذ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے!

مراکش میں حقیقی نمایندہ حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ یہ دستوری اصولوں اور جمہوری سیاسی قواعد کی رُو سے تشکیل نہیں پاتی‘ نہ ہی یہ شفاف حقیقی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ یوسفی کی موجودہ حکومت‘ مرحوم شاہ کے ارادے‘ تصور اور شرائط کے مطابق قائم ہوئی۔ یہ گذشتہ حکومتوں کے پیدا کردہ انحطاط ہی کی جانب رواں دواں ہے۔ مراکش کی معیشت سخت بحران کا شکار ہے اور موجودہ سیاسی حالات میں اس کی اصلاح ناممکن ہے۔ تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لے کر جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کا اختیار وزارتی حکومت کے پاس نہیں۔

مراکش میں کسی بھی اسلامی سیاسی جماعت کو عملاً کام کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ البتہ سیکولر پارٹیوں کو کھلی آزادی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکریم الخطیب نے ۱۹۶۷ء میں الحرکۃ الشعبیۃ الدستوریۃ الدیمقراطیۃ کے نام سے پارٹی بنائی تھی۔ حکام نے جب ۱۹۹۲ء میں حرکۃ الاصلاح والتجدید کو کام کرنے کی اجازت نہ دی تو اُس نے ۱۹۹۶ء میں رابطۃ المستقبل الاسلامی کے ساتھ مل کر حرکۃ التوحید والاصلاح کے نام سے پارٹی بنا لی۔ جب اس نئی پارٹی کے مفادات‘ ڈاکٹر الخطیب کی پارٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تو انضمام کے بعد‘ ایک نئی پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ وجود میں آئی۔ حرکۃ التوحید والاصلاح کے افراد اب نئی پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار افراد‘ سرکاری ذرائع ابلاغ اور عام فکری حلقے حزب العدالۃ والتنمیۃ کو مروجہ سیاسی مفہوم کی رُو سے اسلامی پارٹی نہیں سمجھتے‘ یعنی اس کی اسلامی خصوصیت اور اسلامی تشخص کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے ایک عام سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے جو گذشتہ ۴۰ برسوں سے کام کر رہی ہے اور موجودہ نظام پر راضی ہے۔

حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں:  مراکش کے نئے بادشاہ نے اگرچہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے مگر ملک کی جیلیں اب بھی سیاسی قیدیوں سے خالی نہیں۔ ان میں جماعت عدل و الاحسان کے ۱۲ طلبہ بھی ہیں جو قنیطرہ کی سنٹرل جیل میں ہیں‘ جو کسی فوجداری مقدمے میں نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی مقدمے میں ۲۰‘ ۲۰ سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ مراکش میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے احترام کا زبانی کلامی تو بہت شہرہ ہے مگر عملاً حقوق اور آزادیاں سلب ہیں۔ بنیادی مسئلہ‘ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور حقوق اورآزادیوں کا تحفظ کرانے والے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ یوسفی کی حکومت نے تاحال ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے جن سے یہ اطمینان ہو کہ مراکش‘ قانون کی حکمرانی اور ذمہ دار اداروں کا ملک ہے۔ ابھی تک افکار و آرا اور سیاسی پسند و ناپسند کی وجہ سے افراد کو ستایا جاتا ہے اور حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ برس کئی لوگوں کو حج پر جانے سے روک دیا گیا۔ پچھلے موسم گرما میں ’’اسلامی کیمپ‘‘ لگانے سے روکا گیا۔ ابھی تک ’’ہدایات و احکام‘‘ کی پالیسی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔ جماعت العدل والاحسان کے دو اخبارات  العدل والاحسان اور رسالۃ الفتوۃ کی طباعت و اشاعت پر پابندی لگائی گئی جو اب تک قائم ہے۔

شیخ یاسین کی کتاب (العدل: الاسلامیون والحکم) بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔

یونی ورسٹیوں میں طلبہ کو خوف زدہ کیا جاتا ہے‘ ان پر تشدد کیا جاتا ہے‘ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ظالمانہ و  سنگ دلانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ گذشتہ نومبر میں المحمدیہ شہر میں ۱۴ طلبہ کو دو دو سال کی قید کی سزائیں دی گئیں۔ اشخاص‘ اداروں اور گھروں کا وقار پامال کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ حکومت کا آزادیوں کے بارے میں تازہ ترین منصوبہ بھی‘ حقوق انسانی کے حامیوں کے نزدیک‘ حکام کو تشدد اور پابندیوں کی کھلی اجازت دینے اور انھیں عدالتی گرفت سے تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔  جماعت عدل و الاحسان کے مرشد عبدالسلام یاسین کو ایک ظالمانہ حکم کے تحت نظربند کر دیا گیا تھا۔ وکلا صفائی نے‘ اس اقدام کو ظالمانہ ثابت کر دیا مگر یہ فائل عدلیہ کی مجلس اعلیٰ میں دبی رہی۔

موجودہ شاہ کے دَور میں یہ محاصرہ جاری ہے‘ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ چنانچہ گذشتہ مئی میں مرشد کے گھر کی نگران پولیس نے اپنی پوزیشن بدل لی‘ اب وہ گھر سے ذرا ہٹ کر‘ آنے والے تمام راستوں اور اس محلے میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر کے ارد گرد کی گلیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ حقوقِ انسانی کے احترام کا بھرم اس وقت ٹوٹا جب ۹‘ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہو رہی تھیں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان دو دنوں میں حقوق انسانی کی مراکشی تنظیم کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جماعت عدل و الاحسان کے سیکڑوں کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بہت سے گرفتار کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بنے۔ ان میں شیخ یٰسین کے کئی قریبی عزیزاور رشتے دار بھی تھے۔

مراکش کی اسلامی تحریک:  مراکش کی اسلامی تحریک کا نام جماعت العدل والاحسان ہے ‘ جس کے قائد عبدالسلام یاسین اور ترجمان فتح اللہ ارسلان ہیں۔ اس جماعت کی کئی ماتحت ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جیسے نوجوانوں کی تنظیم‘ عورتوں کی تنظیم وغیرہ۔ یہ ایک دعوتی جماعت ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کے اہم اصول ہیں۔ تربیت‘ تنظیم اور پیش قدمی اس کا شعار ہے۔ سیاسی تبدیلی کے لیے یہ عدل و احسان کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ جماعت کے قائد محترم نے عدل و احسان کے موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں جن میں امت اسلامیہ کو دعوت و ریاست کے معاملات میں درپیش مسائل و مشکلات کا عدل و احسان کی روشنی میں گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی معاشرت و معیشت کی اصلاح اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے جماعت اپنے افکار‘ پروگرامات اور اجتہادات پیش کرتی ہے۔ عدالت عالیہ نے جماعت کو قانونی قرار دیا ہے مگر مراکش میں قانون اور اس پر عمل درآمد دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ یعنی جماعت کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے‘ قانونی نہیں۔

مراکش کے سرکاری ذرائع ابلاغ‘ جماعت پر دہشت گردی اور حفاظتی دستوں کے ساتھ تصادم کا الزام لگاتے ہیں مگر جماعت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جماعت کے ترجمان فتح اللہ ارسلان کے بقول: ’’ہاتھوں میں قرآن شریف اٹھا کر چلنے والے تشدد کرتے ہیں یا مسلح حفاظتی دستے جن کی زد سے عورتیں‘ بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی محفوظ نہیں؟ ہم ہر طرح کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم خفیہ کارروائیوں اور غیروں کا آلہ کار بننے کے مخالف ہیں۔ ہم نے آٹھ بڑے شہروں میں پروگرام کرنے کا ارادہ کیا‘ پولیس نے مداخلت کی‘ بہت تشدد کیا‘ مار مار کر لوگوں کو لہولہان کر دیا مگر ہم نے اس کے باوجود صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کے کسی ایک آدمی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا‘ کسی سپاہی کی وردی کا بٹن تک نہیں ٹوٹا۔ جماعت عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے‘ یہ ہماری باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔

انتخابی حکمت عملی :  جماعت عدل و الاحسانتین وجوہ سے انتخابات میں شرکت کو مفید نہیں سمجھتی۔

۱- انتخابات میں شرکت کا مطلب‘ موجودہ نظام کو درست اور جائز قرار دینا ہے‘ جب کہ جماعت کے نزدیک یہ حقوق انسانی اور آزادیوں کے احترام کا نقیض ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کا سیکورٹی سسٹم اٹھاتا ہے‘ کیونکہ یہ ’’جمہوری تماشا‘‘ اس کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے نتائج بھی وہی سمیٹتا ہے‘ لہٰذا انتخابات میں شرکت کا مطلب سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ جماعت کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی ‘ وہ اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔

۲- انتخابات اگر دھوکا اور دھاندلی سے پاک ہوں تو بھی کامیاب ہونے والوں کے پاس دستوری‘ تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے اختیارات نہیں ہیں۔ پھر الیکشن میں حصہ لینے کا کیا فائدہ؟ اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کیا افادیت ہے؟

۳- قائم سیاسی نظام کے زیر سایہ‘ ایسی قوم میں‘ جس کی نصف سے زیادہ آبادی بالکل ناخواندہ ہو‘ سیاسی شعور سے بھی محروم ہو‘ جہاں سیکورٹی فورسز نے دہشت کی فضا پیدا کر رکھی ہو‘ انتخابات کے انعقاد کا مطلب جھوٹ‘ فریب اور مکر کی ترویج‘ قبائلی عصبیت کو مضبوط کرنا اور گروہ بندی اور طبقاتی تقسیم کو قوت بخشنا ہے جس سے انانیت‘ خود غرضی اور خواہشات نفسانی کو تقویت ملتی ہے‘ مفاد عامہ اور امت کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں۔

جماعت عدل والاحسان‘ اسلام کے حامیوں‘ اور سیکولر ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی‘ ہر قسم کے مواقع پر مذاکرات اور گفت و شنید پر یقین رکھتی ہے۔ استاد عبدالسلام نے گفت و شنید کے موضوع پر چار کتابیں لکھی ہیں‘ ایک فرانسیسی میں اور تین عربی زبان میں۔ انھوں نے برادرانہ و مخلصانہ جذبات کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔

اسلامی تحریک مراکش کا یہ اصولی موقف ہے اور اسی پروگرام کو لے کر وہ چل رہی ہے کہ مراکش کے مختلف طبقات کو صرف اسلام ہی متحد رکھ سکتا ہے۔ ’’وطنیت‘‘ ، ’’زبان‘‘ اور ’’مفاد عامہ‘‘ میں یک جا رکھنے کی صلاحیت نہیں۔ مراکش کی مجموعی صورت حال اور مصائب و مشکلات کے پیش نظر تحریک اسلامی کا عزم اور حوصلے کے ساتھ‘ حکومتی تشدد کے باوجود عدم تشدد کی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے آگے بڑھنا اور جدوجہد جاری رکھنا یقینا قابل ستایش ہے۔ بڑھتا ہوا عالمی دبائو‘ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور تحریک اسلامی مراکش کی استقامت یقینا پیش رفت کا باعث بنے گی!

مقدونیا: جنگ کے دہانے پر

عبدالباقی خلیفہ

کوسووا اور مقدونیا کی مشترکہ سرحد پر موجود البانوی نژاد مسلمانوں کو کچلنے کے لیے مغربی اور یورپی ممالک کی تائید مقدونیا کو حاصل ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے تمام یورپی ممالک کا فرض منصبی ہے کہ وہ مقدونیا کی پیٹھ ٹھونکیں۔ مقدونیا بھی مغرب کی نفسیات سے واقف ہے۔ اس لیے اس نے اعلان کیا کہ وہ ’’یورپ کے طالبان‘‘ کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ اس سے پہلے سرب بھی یہ واویلا مچاتے رہے کہ وہ اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں۔

یہ نعرہ یورپ کے بپھرے ہوئے بیل کو سرخ جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ اس لیے یورپی بیل اپنے سینگوں سے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے متحد نظر آتے ہیں۔

مقدونیا کی حکومت کی دھمکیوںکے باوجود یہ مسلمان پرعزم اور بلند حوصلہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ جنگ جاری رکھیں گے یہا ں تک کہ وہ سب اس میں کام آجائیں۔ جنگ بندی کے حوالے سے انھوں نے کہا : ہم نے شکست نہیں کھائی بلکہ مذاکرات کا ایک موقع حکومت کو دینا چاہتے ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور مقدونیا کی حکومت واویلا مچا رہی ہے کہ شدت پسند کو سووا سے در آئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ مقدونیا کے باشندے ہیں جو کئی نسلوں سے مقدونیا میں آباد ہیں لیکن انھوں نے اپنے حقوق کی بات کی تو مقدونیا کے حکمرانوں نے انھیں کوسووا کے درانداز قرار دے دیا۔

ان مجاہدین کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کے ماہرین‘ یوکرین کے پائلٹوں اور یورپی یونین کے ممالک نے حسب توفیق حصہ لیا۔ اس کے باوجود مقدونیا کی حکومت مزید امداد کے لیے بلغاریہ‘ یونان اور یوکرین کے آستانوں پر ہاتھ جوڑتی رہی۔دوسری طرف البانوی مسلمانوںکی بڑھتی ہوئی قوت سے اس اندیشے کو تقویت ملنے لگی کہ یہ خطہ ایک ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے‘ کئی ایک دیہات پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد مقدونیا کی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

البانوی مسلمانوں کی پے درپے کامیابیوں کو روکنے میں مقدونیا کی فوج مسلسل ناکام رہی اور اُسے بھاری مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ سرحدی علاقوں کی ناکہ بندی‘ ممکنہ راستوں کا پہرہ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود وہ ’’دراندازوں‘‘ کو آنے سے نہ روک سکی۔ اس علاقے میں کرفیو لگایا گیا‘ ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن حالات بدستور جوں کے توں رہے۔

البانوی نژاد مسلمانوں کے مطالبات جنھوں نے انھیں بندوق اٹھانے پر مجبور کیا‘ درج ذیل ہیں:

۱- البانوی قومیت کو تسلیم کیا جائے اور انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔

۲- ان کی ثقافت اور دینی تشخص کو تسلیم کیا جائے۔

۳- ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے جائیں اور ان کے تناسب کے مطابق انھیں حکومت میں شامل کیا جائے۔

۴- مقدونیا میں وفاقی نظام قائم کیا جائے ‘جس میں سلاوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں اور البانوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں۔

البانوی مسلمانوں نے یہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مقدونیا کو مستقبل کے حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ البانوی مسلمانوں کی عسکری قوت حیرت انگیز ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے دارالحکومت میں کارروائی کی اور ایک فوجی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔ فی الحال اس خطے میں خاموشی نظر آتی ہے لیکن یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

(ہفت روزہ المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۴۴ ۔ اخذ و ترجمہ:  محمد احمد زبیری)

مسلمان یورپی ممالک میں وقتی طور پر گئے تھے مگر اب اپنی دوسری اور تیسری نسل کے ظہور سے وہ ان معاشروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ لہٰذا ان مسلمانوں کو درپیش مسائل پر توجہ کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ازبس ضروری ہے۔ ان سطور میں مغرب میں رہایش پذیر مسلم خاندانوں کو درپیش ایک اہم مسئلہ--- پرانی اور نئی نسل میں فکری و ثقافتی رابطہ کی کمی--- کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ آخر میں تین یورپی ممالک سوئٹزرلینڈ‘ پولینڈ اور یونان میں مسلم خاندانوں کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے‘ کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔

فکری وثقافتی رابطے سے مراد: اس سے مراد مسلم نسلوں اور خاص طور پر والدین اور اولاد کے مابین ایسا دینی‘ فکری اور ثقافتی تعلّق ہے جس کے ذریعے جدید نسل‘ سابق نسل کے ورثے‘ اسلامی اصولوںاور اخلاقی قدروں کی حامل بنے۔ یہ رابطہ ایک تہذیبی ضرورت ہے۔ اس ایجابی رابطے کے بغیر کوئی بھی تہذیب اپنے اصولوںاور روایات کی حفاظت کر سکتی ہے نہ انھیں ترقی دے سکتی ہے۔ مغربی ماحول میں بسنے والے مسلم خاندانوں میں اس رابطے کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ ہماری جدید نسل اس مغربی ماحول میں ڈھل جائے جس کا مذہب اور اخلاق کے بارے میں اپنا مخصوص موقف ہے‘ جہاں ’’مطلق آزادی‘‘ ‘ ’’انفرادی ذمہ داری‘‘ اور ’’والدین کی حاکمیت کا خاتمہ‘‘ جیسے نظریات کی حکمرانی ہے‘ جہاں اسلام کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل کی اکثریت کو اگرچہ اسلام کی طرف نسبت سے انکار نہیں مگر وہ فکروعقیدہ کے لحاظ سے اسلام کی علم بردار بھی نہیں۔ ان میں سے اکثر شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے خاندانوں سے بھی کٹ چکے ہیں اور مسلمانوں سے بھی۔

رابطے میں حائل رکاوٹیں

یہ رکاوٹیں دو قسم کی ہیں: داخلی و خارجی۔ داخلی رکاوٹوں کا سبب خود مسلمان ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سماجی اور demographic ہیں اور کچھ کا تعلّق اخلاقی مفروضوں سے ہے۔ اہم رکاوٹیں حسب ذیل ہیں:

ماحول کا اختلاف:  ایک اہم رکاوٹ ماحول کا اختلاف ہے۔ والدین مسلم ممالک سے نقل مکانی کر کے گئے ہیں‘ جب کہ اولاد مغربی ماحول میں پلی بڑھی ہے۔ والدین کا اصرار ہے کہ وہ اس مخصوص تربیتی انداز کو جس پر انھوں نے خود پرورش پائی ہے مسلّط کر کے رہیں گے ۔ اسلام اور اس کے اصولوں سے ناواقفیت کے نتیجے میں‘ اسلامی اصولوں اور اس کی اخلاقیات کو مختلف تاریخی و سماجی ماحول سے مربوط تقلیدی عادات و رسوم سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک ہی معاملے میں بیٹی اور بیٹے میں فرق کیا جاتا ہے۔ بیٹی پر تو اپنی سہیلیوں سے ملنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور بیٹے کو مرد و زن ہر ایک سے ملنے کی کھلی آزادی دی جاتی ہے خواہ وہ رات گئے تک گھر سے باہر رہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو مفاسد اور گمراہ کن ترغیبات سے بھرا پڑا ہو یہ انداز تربیت نہایت مہلک ہے اور بچے ’’دوہری شخصیت‘‘ کے مالک بنتے ہیں۔ وہ خاندان اور گھر میں اپنے آپ کو دین دار اور پابند نظم و ضبط ظاہر کرتے ہیں مگر گھر سے باہر نکلتے ہی اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتے ہیں۔

درحقیقت مسلم نوجوان اپنی ذاتی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دو شناختوں میں بکھرا اور دو نسبتوں میں تقسیم پاتا ہے جن میں مطابقت اس کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ اس معاشرے سے نسبت رکھتا ہے جہاں وہ پروان چڑھا‘ دوسری طرف اس کا تعلّق ایسے دین سے ہے جسے یہ معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔یہ تصادم مسلم نوجوان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ نفسیاتی ہم آہنگی اور فکری توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اسے دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی ورثے کو پانے میں عملی مشکلات اور موانع کا سامنا ہے۔

مشکل نفسیاتی و سماجی حالات کا ایک سبب بڑے اور وسیع خاندان سے دُور رہنا ہے‘ جس سے صلہ رحمی اور احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا۔

والدین کا منفی رویہ: کچھ ایسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو اسلامی نظریات کا پابند نہیں دیکھنا چاہتے‘ وہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور کسی قسم کی رہنمائی نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ جب یورپ میں ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ان کی اولاد اس ماحول میں مکمل طور پر جذب ہوجائے۔ بچے ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے ان سے بات چیت‘ کھیل کود اور کام کاج کی فرصتیں چھین لی ہیں۔

اس کے برعکس کچھ والدین‘ اپنی اولاد کے ماحول کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے انھیں پرانی ڈگر پر چلاناچاہتے ہیں۔ وہ مارپیٹ زیادہ اور توجہ و شفقت کم کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی مادی‘ عقلی اور جذباتی ضروریات کا اندازہ نہیں لگاتے‘ نہ ان کی صلاحیتوں اور ذہنی میلان کو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچے خوداعتمادی‘ اعلیٰ اخلاق اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے والدین‘ بچوں کو یورپی معاشرے کی کسی فکر‘ عادت یا ثقافت کو اپنانے کی اجازت نہیں دیتے خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اور اسلامی اصولوں سے بھی متصادم نہ ہو۔

والدین کے اس رویے سے باہمی رابطہ معطل ہو جاتا ہے‘ بچے خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر سے ابھرنے والے خیالات کو ظاہر نہیں کرتے‘ جب کہ باہمی رابطہ کی بنیاد ہی مکالمہ ہے۔

مشرقی ممالک واپسی کی سوچ:  کئی والدین اور سرپرست بچوں کو عجیب تناقض اور

کش مکش میں ڈال دیتے ہیں:’’واپس اپنے ملک جانے کی تیاری کرو اوروہیں اپنا مستقبل تعمیر کرو‘‘، اس نصیحت کے ساتھ ساتھ وہ انھیں یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ متعلقہ یورپی ممالک کی زبان پر عبور بھی حاصل کرو اور یہاں کی تعلیم مکمل کرو۔ کچھ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس ملک میں پڑھائی کا کیا فائدہ؟ وہ کاہل اور سست ہو جاتے ہیں۔ کچھ بچے اپنے بڑوں کے واپسی کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں والدین اور اولاد میں غلط فہمی اور تصادم پیدا ہوتا ہے‘ بالآخر بچے گھر والوں سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ’’واپسی کی سوچ‘‘ رابطہ کی ایک رکاوٹ ہے۔ اولاد ‘ اپنے بزرگوں کو اپنے دکھوں میں شریک نہیں کرتی‘ نہ اُن سے ان اہم موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتی ہے جن کا ان کے حاضر و مستقبل سے تعلّق ہوتا ہے۔ والدین شرمندہ تعبیر نہ ہونے والا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ اولاد کو مغربی ممالک کی شہریت مل چکی ہوتی ہے۔ سن بلوغ کے بعد بالخصوص‘ اولاد نفرت اور علیحدگی کو اپنا لیتی ہے اور وہ کھلے دل سے تبادلہ خیالات سے باز رہتی ہے۔

یہ عوامل نوجوان کو دو متضاد نتیجوں تک پہنچاتے ہیں۔ نتیجتاً یا تو وہ دین سے بالکل الگ ہو جاتا ہے یا پھر وہ انتہا پسندانہ مذہبیت کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ دراصل باہمی رابطے کے فقدان کے نتیجے میں ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا نئی اور پرانی نسل میں باہمی رابطے کو موثر بنانے کی ضرورت اہم تقاضا ہے۔

موثر باہمی رابطہ

یورپ میں آباد مسلم خاندانوں کی جدید و قدیم نسل کے مابین رابطے کے تو کئی ذرائع ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ’’علم رابطہ‘‘ سے استفادہ کیا جائے اور محض قدیم تقلیدی طریقوں پر ہی انحصار نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ نئی نسل فکری‘ علمی اور مہارتوں و ذرائع کی ترقی کے دور میں رہ رہی ہے۔ موثر رابطے کے لیے درج ذیل امور کو خصوصی اہمیت دینا ہوگی:

مسلم شناخت اور معاشرے سے ہم آہنگی:  پرانی نسل کے مسلمانوں کو اس حقیقت کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ انھیں اپنی نئی نسلوں سمیت یورپی ممالک میں ہی رہنا ہے۔ اگر وہ اس نظریے کو قبول نہیں کریں گے تو اپنے حقوق ضائع کریں گے اور اپنے فرائض میں کوتاہی کریں گے۔ انھیں یہاں رہ کر یہاں کے معاشروں سے تصادم کی شدت کو کم کرنا ہے اور ان میں اس طرح گھل مل کر رہنا ہے کہ ان کی اپنی وحدت بھی برقرار رہے۔ اس مقصدکے لیے اسلامی تعلیمات سے استفادے کا طریق کار مقرر کرنا ہوگا اور متعلقہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی بھی برقرار رکھنا ہوگی۔

اعتدال کی روش :  یورپی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ہمیں اعتدال و انصاف سے کام لینا ہوگا۔ ان کی ہر چیز کو خلافِ اسلام نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ اس معاشرے میں انسانی فضا ہے‘ آزادی ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ اور ایسے  راستے ہیں کہ اگر ہم ان سے استفادے کا طریقہ جان لیں تو اپنے بہت سے مصالح و مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نوخیز مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف نسبت میں بھی اعتماد و اطمینان ملے گا۔ وہ اپنے معاشرے سے کٹیں گے نہ اپنے ماحول کے افراد سے قدرتی تفاعل سے دُور ہوں گے۔ اس ایجابی ادغام سے مسلمانوں کے لیے مغربی معاشرے میں ایک موثر عنصر بننا ممکن ہوگا۔

نوجوانوں کی سرپرستی:  نئی نسل کو جن سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے ‘ ان میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی اور قربت کے احساس سے دونوں نسلوں کے مابین خلا کم ہونے میں مددملے گی۔ انھیں اخلاقی تائید میسر ہوگی جس سے وہ نہ صرف بطور مسلم شہری اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں گے اور مغربی رائے عامہ کے سامنے اپنے یورپی شہری ہونے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائیں گے بلکہ وہ کامل باصلاحیت شہری کے طورپر بہبود عامہ کی دعوت بھی دے سکیں گے۔

نوجوانوں کو درپیش مسائل میں عملی رہنمائی:  نئی نسل کو کئی طرح کے دبائو کا سامنا ہے۔ ایک دبائو نسلی تفریق کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ ایک دبائو مادہ پرستانہ معاشرے کا مزاج بھی ہے۔ مسلم نوجوان بالعموم تفریحی ذرائع سے محروم رہتے ہیں تاکہ وہ حرام میں مبتلا نہ ہوں جس سے ان میں نفسیاتی تشنگی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ انھیں اپنے مزاج و حالات کے مطابق کھلے دل کے ساتھ مذاکرات اور تبادلہ خیالات کا موقع فراہم کیا جائے‘ ان کے نیک دوست ہوں‘ پاکیزہ تفریحی ماحول میسر ہو ‘اور خاندان کے ساتھ مل کر سیروتفریح کرسکیں۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ حسن سلوک اور زبانی و عملی محبت کے محتاج ہیں۔ ان کی بات پوری برداشت سے سننا ہوگی۔ ان کی اس طرح سے تربیت اور رہنمائی کرنا ہوگی کہ وہ اپنے خیالات پوری آزادی مگر احترام کے ساتھ پیش کر سکیں‘ اپنے حقوق کے بارے میں بات کر سکیں اور کسی سخت ردعمل کے خوف کے بغیر نامعلوم باتیں دریافت کر سکیں۔

اسلامی تنظیموں کا کردار: یہ تنہا والدین کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں اور اسلامی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو نسلوں کے مابین تیزی سے بڑھتے ہوئے فکری خلا کو کم کرنے کی کوشش کریں ورنہ نئی نسل مادی اغراض کا شکار ہو کر دین اسلام سے برگشتہ ہو جائے گی۔ یورپ میں کام کرنے والی اسلامی تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر دیں اور مسلم بچوں پر توجہ کریں‘ ان کی دینی‘ ثقافتی اور تفریحی ضروریات کا ادراک کریں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر متوازن ہوں اور اسلام کے قابل فخر سفیر بنیں۔ وہ والدین اور اولاد میں واسطے کا کردار ادا کریں۔

یورپی ممالک میں مسلم خاندانوں کی حالت زار

یورپ میں جا کر آباد ہونے والے مسلم خاندانوں کو درپیش مسائل کو جاننے کے لیے ہم یہاں پر صرف تین ممالک کا ذکر کرتے ہیں:

سوئٹزرلینڈ: یہاں مسلمانوں کی کل تعداد ۳ لاکھ ۸۵ ہزار ہے جن میں سے ۷۰ ہزار عرب ہیں۔یہاں مسلم خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ دوسری نسل مغربی معاشرے میں ضم ہو رہی ہے اور اپنی مادری زبان بولنے سے محروم ہے۔ یورپی طور طریقوں اورعادات کو اپنا رہی ہے۔ وہ شرعی پابندیوں کے بجائے ملکی قانون کے احترام کو ترجیح دیتی ہے۔ مسلم خاندانوں میں طلاق کی شرح ۴۰ فی صد ہے۔ ملک کے تعلیمی اور سماجی نیز ٹیلی ویژن کے اثراتِ بد نمایاں ہیں۔ جرمن سوئٹزرلینڈ کے ماتحت علاقوں میں ۵۰ فی صد مسلم لڑکیاں بدچلنی کا شکار ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بلدیہ والے ان مسلم لاشوں کو جلادیتے ہیں جن کے ورثا تدفین میں

دل چسپی نہیں لیتے۔کیونکہ جلانے کے اخراجات دفنانے سے کم ہیں۔ ۳ لاکھ ۵۰ ہزار مسلمانوں کے لیے صرف ۱۰۰ مساجد ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی ضرورت سے بہت کم ہیں۔

عالم اسلام اور اس سے باہر اسلام سے تعلّق کا آخری قلعہ مسلم خاندان ہے۔ مسلم خاندان کا اسلامی تشخص اور اس کی وحدت نہ صرف مسلمانوں بلکہ مشرق و مغرب کے غیر مسلموں کے لیے بھی مفید ہے۔ آزادی کی دو دھاری تلوارمسلم خاندانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مطلق آزادی کے منفی اثرات نے ٹکنالوجی کی ساری ترقیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہ آزادی پوری انسانیت کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ مطلق آزادی مغرب میں ہماری نژادِ نو کے لیے تباہ کن خطرہ ہے۔

یونان:  یونان میں نقل مکانی کر کے آنے والے کئی مسلم خاندان آباد ہیں۔ عالم عرب سے آنے والے مسلم خاندانوں کا پہلا پڑائو ایتھنز رہا ہے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اور پھر جنگ خلیج کے بعد یہاں کافی مسلمان آبسے ہیں۔ کئی مسلم نوجوانوں نے اپنے قیام کو یقینی بنانے اور کچھ نے گناہوں سے بچنے کی خاطر یونانی عورتوں سے شادیاں کر لیں مگر آیندہ نسل اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئی اور جرائم میں مبتلا ہوئی۔

اپنی پوری عمر ’’مال و زر‘‘ کے حصول میں کھپا دینے والے اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غفلت کے مرتکب لوگ اب اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ’’میری بیٹی مسلمان مرد کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرتی ہے‘‘۔ اولاد نہ صرف اپنے اصل وطن نہیں جانا چاہتی بلکہ اس سے کسی قسم کے تعلّق سے بھی انکار کرتی ہے۔ بہت سے مسلم خاوند اپنی یونانی مسیحی بیویوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں کرتے۔ یونان میں اگرچہ نوجوانوں اور بچوں کی دینی تربیت کا کچھ کام ہو رہا ہے مگروہ انفرادی سطح پر ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام وسیع پیمانے پر منظم طریقے سے کیا جائے۔

پولینڈ: پولینڈ میں مسلم خاندانوں کی دینی و اخلاقی حالت‘ تعلیمی و ثقافتی معیار اور عادات و رسوم کے پس منظر الگ الگ ہونے کی وجہ سے مختلف ہے۔ یہاں تاتاری الاصل تقریباً ۵ ہزار مسلمان آج سے ۶۰۰ سال پہلے آباد ہوئے تھے۔ یہ زیادہ تر مشرقی علاقوں میں بسے۔ یہ لوگ ۸۰ کے عشرے تک کمیونزم کے تلخ نتائج کے زیراثر رہے۔ وہ کمیونزم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مسیحی المذہب معاشرے میں ضم ہونے لگے۔ اسلام کی تعلیمات سے بے خبری ہونے لگی۔ حتیٰ کہ تاتاری مسلمان عورتوں نے عیسائیوں سے شادیاں کیں۔

ان مسلمانوں کو اسلام کی درست تعلیمات سے متعارف کروانے میں کئی عوامل نے کام کیا۔ ۸۰ کے عشرے کے اختتام پر عرب مسلم طلبہ نے تاتاری مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ تقاریر‘ خطباتِ جمعہ اور بہت سے اسلامی لٹریچر کے پولش زبان میں ترجمے کے ذریعے ہمہ جہتی تبلیغ کی۔ بچوں کے لیے اختتام ہفتہ پر دینی تدریس کا بندوبست کیا۔ تاتاری خاندان متحد ہے اور انتشار کا بہت کم شکار ہے۔ پورا خاندان عورتوں‘ بچوں سمیت مختلف اسلامی تہواروں پر یک جا ہوتا ہے۔ رمضان کے پہلے دن‘ نصف رمضان اور ۲۷ رمضان کی رات کو سب مسجدوں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔

پولینڈ کے ۲۰۰ مسلمان یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خاندان کی تشکیل میں اسلامی نہج کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں‘ البتہ ان کی عام زندگی یورپی طریقے پر گزرتی ہے۔ باہر سے آنے والے عرب اور دیگر مسلمان ۱۵ ہزار ہیں۔ ان میں طلبہ‘ مزدور اور سفارتی عملہ شامل ہے۔ ان میں سے کچھ نے پولینڈ کی عورتوں سے شادی کے ذریعے یہاں کی شہریت حاصل کی ہے جو شادی سے پہلے یا اس کے بعد مسلمان ہو جاتی ہیں۔ مختلف قومیتوں پر مشتمل خاندان (مثلاً خاوند عرب اور بیوی پولش) کی تعداد بہت بڑی ہے۔ اس لیے عرب طلبہ اور مزدور پولینڈ میں رہایش رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خاندان مختلف حالات سے گزرتے ہیں جس میں زوجین کے مزاج اور مذہبی تعصب کو بھی دخل ہے۔ ایسے خاندانوں کے بچے مختلف مسائل میں مبتلا ہیں۔ ان پر دینی نقطۂ نظر بھی واضح نہیں ۔ یہ شادیاں زیادہ تر ناکامی‘ طلاق اور بچوں کے بگڑنے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر بیوی نے خوشی سے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہو اور خاوند دین دار ہو تو خاندان پر اسلامی اخلاق کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے ورنہ مسلم خاندان بہت سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

 

امریکہ‘ جنگ ِ ویت نام میں لاپتا ہونے والے اپنے فوجیوں کو ابھی تک نہیں بھولا‘ اُسے اب تک قرار نہیں آیا۔ وہ ان کی تلاش میں سرگرم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان لاپتا افراد کی تعداد صرف ایک ہزار ۴ سو ۹۸ ہے‘ جب کہ بوسنیا ہرزگونیا میں لاپتا افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے ۹۸ فی صد سویلین ہیں جن میں سے۳ فی صد بچے ہیں جن کی عمریں چھ ماہ اور ۱۶ سال کے درمیان ہیں‘ ۱۳ فی صد عورتیں ہیں جن کی عمریں ۹ اور ۱۰۲ سال کے درمیان ہیں۔ ۹۹ فی صد لاپتا افراد مسلمان ہیں‘ جب کہ سرب اور کروٹ صرف ایک فی صد ہیں۔ معاہدہ ڈیٹن پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ۶ ہزار ۵ سو اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۳ ہزار ۵ سو قبریں‘ لاپتا افراد کی بین الاقوامی کمیٹی نے ڈھونڈی ہیں اور بقیہ کا کھوج‘ بوسنیا کی تحقیقی کمیٹی نے لگایا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمر ماشوویچ ہیں۔ اُن سے ایک ملاقات کی تلخیص یہاں دی جا رہی ہے۔

۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو معاہدہ ڈیٹن پر دستخط کرنے کے بعد لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی‘ پہلے اس کا نام ’’کمیٹی برائے تبادلہ اسیران‘‘ تھا۔ اس معاہدہ کی چوتھی شق میں مختلف کمیٹیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے لیے ۱۳ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی‘ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میںپانچ ارکان تھے جن کا کام صوبوں میں تلاش کے کام کی نگرانی تھا‘ جب کہ دوسرے حصے میں آٹھ حضرات تھے جنھوں نے سرائیوو میں رہ کر تلاش کے نتائج تیار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی کا مقصد ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء کے عرصے میں مسلمانوں پر سربوں اور کروٹوں کی جانب سے مسلّط کردہ جنگ کے دوران لاپتا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردہ افراد کی تلاش تھا۔ اس کمیٹی نے سرکاری طور پر اپنا کام اپریل ۱۹۹۶ء میں شروع کر دیا۔

لاپتا افراد کی تلاش کی بین الاقوامی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ‘ اجتماعی قبر وہ ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد اشخاص کے ڈھانچے ہوں۔ اس تعداد سے کم‘ خواہ چار افراد کے ڈھانچے کیوں نہ ہوں‘ اجتماعی قبر شمار نہیں کی جاتی۔

لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے دوران ‘ ہمیں دونوں عالمی جنگوں کے دوران کی بھی کئی اجتماعی قبریں ملیں۔ ان میں سے کچھ بوشناق شہرکے مسلمانوں کی تھیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ ان کا تعلّق کن علاقوں اور خاندانوں سے تھا۔ ہمیں ۵۰ جرمن فوجیوں کی بھی اجتماعی قبر ملی‘ جن کے ڈھانچے ہم نے سرائیوو کے جرمن سفارت خانے کے حوالے کر دیے۔

بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں ہر قسم کے لوگ دفن ہیں‘ ان میںوہ بھی ہیں جن کا جنگ کے دوران‘ بین الاقوامی قانون کی رُو سے قتل ناجائز ہے ‘ جیسے ڈاکٹر‘ قیدی‘ معذور‘ علماے دین‘ بچے اور عورتیں۔ہم نے کچھ عرصہ قبل نوا سواچی گائوں میںایک اجتماعی قبر دریافت کی جس میں ۴۴ افراد دفن تھے جن میں یہاں کے امام مسجد بھی شامل تھے۔ ایک اجتماعی قبر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے ملی۔ ایک اجتماعی قبر کے اُوپر مسجد گرا کر اس کا ملبہ ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا دھوکا دینے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سرائیوو کے مضافات میں سمینروفاتس کے علاقے میں امام مسجد‘ اس کی بیوی اور چار بچوں کو مار ڈالا گیا‘ سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار ماہ تھی۔ بوسنیا کے وسطی علاقے جیبحپا کے گائوں یالاچ سے مسلمان بھاگے تو سربوں نے انھیں پکڑ کر واپس گائوں چلنے کے لیے کہا اور کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا مگر گائوں پہنچنے کے بعد انھیں ذبح کر ڈالا۔ ان کی تعداد ۳۰۰ تھی۔ پھر انھیں اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔ اس قبر کا کچھ عرصہ پہلے انکشاف ہوا ہے۔ ایک اجتماعی قبر میں سربوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ چار مردہ گھوڑے بھی پھینک دیے اور ان کے ساتھ دھماکا خیز مواد باندھ دیا تھا۔

حنیویچ گائوں کی مسجد میں ہم نے سات مسلمان مقتول پائے۔ دوسنیا کے گائوں میں امام مسجد کو قتل کرنے کے بعد‘ اس کی لاش مسجد کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ ائمہ مساجد کی ایک بڑی تعداد کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ ابھی تک کئی امام مسجد لاپتا ہیں۔

جب ہمیں کسی اجتماعی قبر کا پتا چلتا ہے تو ہم مقامی اور بین الاقوامی حکام کو مطلع کرتے ہیں۔ پھر کھدائی کرتے ہیں۔ مقتول کی شخصیت اور طریقہ قتل جاننے کے لیے طبّی تجزیہ‘ ہڈیوں کی لمبائی اور لباس وغیرہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہم لاش کی شناخت کے لیے لوگوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے تو صرف انتہائی قریبی رشتے داروں (ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی) کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں تو بعض ایسے خاندان ہیں جو پورے کے پورے ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کو پہچانیں‘ پھر لاشوں کو کفناتے‘ نماز جنازہ ادا کرتے اور الگ الگ دفن کرتے ہیں۔ ہر قبر پر میّت کا نام لکھتے ہیں۔

سب سے بڑی اجتماعی قبر زفورنیک میں دریافت ہوئی جس میں ۲۷۰ مسلمانوں کے ڈھانچے تھے۔ اس کے بعد لانیچ گائوں کی اجتماعی قبر ملی جس میں ۱۸۸ مسلمان دفن تھے۔ اس کے بعد کلیوچ شہر کی قبر ہے جس میں ۵۱ ڈھانچے تھے۔ فوچا میں ۷۰ مسلمان مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد اکٹھا دفنایا گیا۔ اس قبرپر بوسنیا کی قدیم اور خوب صورت ترین مسجد ’الام جامع‘‘ کا کچھ ملبہ ڈالا گیا۔ یہ مسجد پندرھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ قبریں مختلف علاقوں میں ہیں‘ مثلاً پہاڑوں‘ جنگلوں ‘ دریائوں کے کناروں اور وادیوں میں۔ قبر کی زیرزمین گہرائی ۶ میٹر اور ۴۰ میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ جس اجتماعی قبر میں ہمیں ۱۸۸ ڈھانچے ملے‘ یہ سرب فوج کے کیمپ کے وسط میں تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بھیانک جرائم سربوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے حکم سے ہوئے۔ میں‘ آپ کو مسلمانوں کے اس قتل عام کے واقعات‘ رکے بغیر سناتا جائوں تو ختم ہونے میں نہ آئیں۔

دھاندلی یہ ہے کہ مغرب‘ لاپتا افراد کی تلاش وغیرہ کے سلسلے میں سربیا‘ کروٹیا اور بوسنیا کو برابر مالی امداد دیتا ہے۔ بوسنیا کا فنڈ تین گروہوں یعنی مسلمانوں‘ آرتھوڈکس اور کیتھولک میں تقسیم ہوتا ہے‘ حالانکہ سربوں اور کروٹوں کی کوئی اجتماعی قبر نہیں ہے۔ ہم نے صرف پچھلے ایک ماہ میں مختلف عمروں کے مسلمان مرد و زن کے ۳۲۰ ڈھانچے دریافت کیے۔ سرب اور کروٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔ کبھی یہ لوگ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبر ظاہر کردیتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی بات کو سچ نہیں مانتا‘ اس لیے کہ سائنس‘ طب اور ابلاغیات کے اس دَور میں دھوکا دینا مشکل ہے۔

ابھی تک ۳۰۰ اجتماعی قبروں کا پتا نہیں چل رہا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بوسنیا سے باہر ہے۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت‘ اس امر کے سب سے بڑے گواہ ہیں کہ مسلم شہریوں پر کیا گزری او راجتماعی قبریں کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور وہ قاتلوں کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ انھی اشخاص میں سے ایک ہائی اسکول کے مدرس تھے۔ یہ اومارسکا کے سرب کیمپ میں گرفتار تھے مگر بچ نکلے۔ اس علاقے میں ہمیں ایک اجتماعی قبر ملی جس میں ۵۰ افراد کے ڈھانچے تھے۔ ہمیں مقتولین کے بارے میں کچھ نہیں پتا چل رہا تھا۔ یہ مدرس آئے‘ انھوں نے ہمیں مدفون افراد کے نام بتائے‘ مقتولوں کی زیادہ تعداد ان کی کلاس کے طلبہ کی تھی۔ جرمنی اور دیگر ممالک میں مقیم بوسنیائی ہمیں اجتماعی قبروں کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن وہ اس ڈر سے اپنے ملک میں نہیں آتے کہ کہیں وہ متعلقہ ملک کی شہریت سے محروم نہ ہوجائیں اور یوں روزی روٹی سے بھی رہ جائیں۔

بین الاقوامی قوتوں کی سازباز:  ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی ممالک نے بوسنیائی شہریوں کو عمداً بوسنیا سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا تاکہ بوسنیا مسلمانوں سے خالی ہو جائے۔ وہ انھیں موت سے بچانے کا جھانسا دیتے تھے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مسلم دفاعی افواج میں شامل نہ ہوں۔ فرانسیسی افواج نے کرونیا کے صوبے میں ہزاروں سویلین مسلمانوں کے قتل عام کا مشاہدہ کیا مگر کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ بریڈورمیں ۲۲ ہزار مسلمان قتل ہوئے ‘ فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے ۸۰ اشخاص کو نکالا گیا اور گہرا گڑھا کھود کردفن کیا گیا۔ یہ سب کچھ فرانسیسی فوجیوں کے علم میں تھا مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ ہم نے خود اس قبر کو تلاش کیا‘ شہدا کے ڈھانچے نکالے‘ جنازہ پڑھا اور شہدا کے قبرستان میںدفن کیا۔ ہالینڈ کے عسکری کیمپ میں ۳ ہزار ۵ سومسلم سویلین تھے جنھیں سربوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جوارجدہ کے مذبح کے بعد‘ انگریز فوجی سربوں کو دیکھ کر صلیب کا نشان بنا رہے تھے تو ٹیلی وژن کیمروں نے اسے ریکارڈ کیا اور بعد میں اسکرین پر دکھایا۔

کئی بین الاقوامی شخصیات‘ مختلف انداز سے بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ چونکہ انھیں تحفّظ حاصل ہے‘ اس لیے انھیں عدالت میں لانا ناممکن ہے‘ جیسے بطروس غالی‘ یا سوشی اکاشی‘ کارل بلٹ‘ جنرل موریاں‘ جنرل مکنیزی۔ مؤخرالذکر پانچ مسلم دوشیزائوں کو زبردستی کینیڈا بھیجنے کے جرم میں شامل ہے۔

ہالینڈکی وزارتِ دفاع نے وہ تمام کیسٹیں جلا ڈالیں جو ہالینڈ کے فوجیوں کی سربوں کے ساتھ ملی بھگت کا ثبوت تھیں۔ فرانسیسی فوجی‘ سرائیوو ایئرپورٹ پر صحافیوں کی تلاشی لیتے اور وہ کیسٹیں چھین لیتے تھے جو مختلف جرائم کا ثبوت ہوتیں یا جن کا بین الاقوامی فوجیوں کے بالعموم اور فرانسیسی افواج کے بالخصوص جرائم سے تعلّق ہوتا۔ بوسنیائی حکام کو ہالینڈکے میجر فرانکن کے دفتر سے ایک رجسٹر ملا‘ جس میں‘ اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ ہالینڈ کی افواج کے کیمپ میں ۲۷۱ مسلم بوسنیائی شہری تھے ‘ مگر تین کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا گیا۔

لاپتا افراد کے عزیزوں کی حالت زار:  بوسنیا کے بے شمار مسلمان لاپتا ہیں جن کے انجام سے کوئی واقف نہیں۔ ایک ماں نہیں جانتی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کے زندہ بچ رہنے یا فوت ہو جانے کی خبر نہیں۔ موت کا یقین ہو جانے پر تو بالآخر صبر و قرار آہی جاتا ہے مگر لاپتا فرد کے عزیزوںکو کسی پل چین نہیں آتا۔ بہت سی نوجوان عورتوں کے خاوند لاپتا ہیں‘ ان عورتوں کی عمر ۱۸ سے ۲۰ سال کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان عورتیں سخت نفسیاتی کرب میںمبتلا ہیں۔ ہر روز ہمارے پاس لاپتا افراد کی مائیں آتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں کوئی ہڈی دے دو یا کوئی اور نشانی دے کر کہو کہ یہ تمھارے بیٹے کی ہے تاکہ ہم اس کی قبر بنائیں اور اس قبر پر جایا کریں۔ اسی طرح بیویاں اپنے لاپتا شوہروں کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ ایک ماں کا بیٹا شہید ہو گیا تھا‘ وہ میرے پاس آتی ہے‘ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے تاکہ قبر پر جایا کرے۔ ایک ماں رامیزا‘ ہماری کمیٹی کے دفتر میں قرآن شریف کے نسخے لے کر آئی اور کہا: ’’میرے بیٹے کی تلاش کے وقت قرآن شریف ساتھ رکھا کرو۔ ڈرو نہیں‘ قرآن پاک کی موجودگی میں‘ اللہ کے حکم سے‘ آپ کو کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔

ازبکستان میں آزادی سے پہلے ہی اسلامی بیداری پائی جاتی تھی مگر اسّی کے عشرے کے اواخر میں صدر گوربا چوف نے جونہی خودمختاری کی پالیسی کا اعلان کیا‘ اسلامی بیداری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے اور مساجد و مدارس بنانے کا زریں موقع ملا۔ مختلف موضوعات پر ہر طرح کا اسلامی لٹریچر شائع ہونے لگا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ لاکھوں مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹنے لگے۔

مگرافسوس کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے جب اپنے قدم جما لیے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک تو صدر کی پالیسی ذرا نرم اور حزم و احتیاط پر مبنی رہی مگر اس کے بعد وہ کھل کر سامنے آگیا۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین یعنی علماے اسلام کو قیدوبند میں ڈالا‘ جلیل القدر علما کو اغوا کرایا۔ شیخ عبداللہ اوتار صدر حزب النہضۃ الاسلامی کو ۱۹۹۲ء میں اغوا کرایا۔ شیخ عبدالولی میرزا امام مسجد ’’الجامع‘‘ اندیجان شہر کو ۱۹۹۵ء میں ازبک انٹیلی جنس ایجنسی نے تاشقند ایئرپورٹ سے اغوا کر لیا۔

جمہوریہ قارقلباقستان کے صحرائوں کے وسط اور بحرآرال کے مغرب میں جسلق گائوں کے قریب واقع جیل کیمپ میں ۲۵۰ افراد کو صدر جمہوریہ کی شخصی آمریت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔جیل کے ایک ملازم کے بیان کے مطابق یہاں اُن قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محبوس رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ گذشتہ سال یہاں اٹھارہ آدمیوں کو مسلسل جسمانی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انھیں روزانہ ستر مرتبہ قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیے جاتے اور صبح سے رات گئے تک پورا دن خاموشی کے ساتھ بینچ پر بٹھایا جاتا۔ قیدیوں کے لیے حکم ہے کہ کھاناکھا چکنے کے فوراً بعد وہ بآواز بلند کہیں ’’ہم اس خوراک اور سہولتوں پر اپنے صدرِ محترم اسلام کریموف کے شکرگزار ہیں‘‘۔ اس کے بعد ازبک قومی ترانہ گائیں۔

پورے ملک میں اسلام پسند قیدیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے۔ یہ اعداد و شمار وسط ایشیا میں حقوق انسانی کے دفاع کی تنظیم کے‘ جس کا صدر دفترماسکو میں ہے‘  مہیا کردہ ہیں‘ جب کہ ازبک حکومت صرف ۲۰ ہزارتحریک اسلامی کے کارکنوں کے قیدی ہونے کی معترف ہے۔ قیدیوںکی تعداد اور جیلوںمیں ان کی شرحِ اموات میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۹۹ء میں ازبک راجدھانی تاشقند میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے دھماکوں کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری بنیاد پرستوں پر ڈالی تھی مگر اہل نظر و اصحاب بصیرت کے نزدیک یہ سرکاری کارستانی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بھی سرکاری آدمی ان دھماکوں میں نہیں مارا گیا۔امن و سلامتی کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف نہیں کیا گیا۔ صدر نے وزیرداخلہ‘ وزیر خارجہ اور امن عامہ کے ذمہ دار کا محاسبہ کیا نہ سرزنش کی نہ ان پر تنقید کی بلکہ اس کے برعکس ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ان بم دھماکوں کے صرف چند ماہ بعد سلامتی اور امور داخلہ کے سنگ دل اور بدترین سو افراد کے سینوں پر حسنِ کارکردگی کے تمغے سجائے گئے۔

اسلام دشمن کی انتہا :  ازبکستان میں داڑھی رکھنا اور حجاب سرکاری طور پر ممنوع ہیں یعنی ’’جرم ‘‘ ہیں۔ اسلام دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ جاری کیا ہے جس کی دفعہ ۱۴ کے بموجب پبلک مقامات پر مذہبی لباس پہن کر آنا منع ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک اوردفعہ کی رُو سے باپردہ لڑکیوں اور مستورات کے لیے اداروں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ باپردہ تمام طالبات کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ اس آرڈی ننس پر عمل درآمد کرانے کے لیے ذمہ دار افسر مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہائی اسکولوں کے طلبہ کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ہیں۔ طلبہ کے لیے قرآن اور نماز سیکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

باپردہ خواتین کو پولیس سڑکوں سے سیدھا جیل پہنچا دیتی ہے۔ افسوس کہ مسیحی راہبات (nuns) تو شہر میں اپنے مذہبی لباس میں امن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں لیکن مسلم خواتین کو یہ آزادی بھی میسر نہیں۔ انھیں ذرائع ابلاغ سب و شتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گم کردہ راہ‘ رجعت پسند اور دقیانوسیت زدہ جیسی پھبتیاں اور طعنے مسلم خواتین کے لیے عام الفاظ بن چکے ہیں۔

بہت سی باپردہ لڑکیوں نے مجبور ہو کر حجاب ترک کر دیا ہے۔ بہت سے کم زور دل مسلمانوں نے اچانک چھاپے کے خوف سے اپنے گھروں سے قرآن شریف کے نسخے نکال دیے ہیں۔اس لیے کہ پولیس کے انسپکٹرز قرآن شریف اور عام عربی کتابوں میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھتے۔ انھیں تو بس کوئی عربی کتاب ملنی چاہیے‘ گھر سے ملے یا کار سے۔ عربی میں لکھی ہوئی کسی بھی کتاب کا دست یاب ہونا ان کی ملازمت کو پختہ تر کر دیتا ہے اور جس کے قبضے سے کتاب برآمد ہو جائے اس بیچارے کی شامت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ خواہ یہ عربی کتاب صدر اسلام کریموف کی کسی تالیف کا عربی ترجمہ ہی ہو۔

نشانہ ہائے جور و جفا : ازبک سرکار نے حامیان اسلام پر منظم ہلہ بول دیا ہے۔ وادی فرغانہ کے شہر اندیجان کے باشندے نعمت کریموف نے اپنے لخت جگر کی لاش حکام سے گرفتاری کے آٹھ ماہ بعد وصول کی۔ جسم پر مارپیٹ کے واضح نشانات تھے۔ بہت سے خاندانوں نے اپنے جواں سال بیٹوں کی لاشیں اس حالت میں واپس پائی ہیں کہ ان پر تشدد و اذیت دہی کے نشان واضح تھے۔ یہاں پر ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱- فرحات عثمانوف:  تاشقند کا باشندہ‘ ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کو گرفتار ہوا۔  تشدد کی وجہ سے اسی ماہ ۲۵ جون کو فوت ہوا۔غسل دیتے وقت معلوم ہوا کہ اس کی کھوپڑی اور دانت پیہم ضربوں سے توڑے گئے تھے۔

۲- حیات اللّٰہ باباناتوف:  اندیجان کا شہری‘ ۲۰ نومبر ۹۸ء کو گرفتار ہوا اور ۲۳ مئی ۹۹ء کو بوجہ اذیت دہی جاں بحق ہوا۔

۳- جلال الدین جمالوف: اندیجان کا باسی‘ عمر ۳۷ سال۔گرفتاری کے چند ہی روز بعد وفات پائی۔

۴- محمد جان انیوف: اندیجان کا باشندہ‘ عمر ۵۵ سال ۔ صدر کریموف نے حامیانِ اسلام کی ’’سرکوبی‘‘ کے لیے جو فوجی ’’عدالتیں‘‘ قائم کی ہیں اسی قسم کی ایک’’عدالت‘‘ نے انھیں ۱۰ فروری ۹۸ء کو چھ سال کی سزا سنائی مگر اس مظلوم نے ۷ فروری ۱۹۹۹ء کو ضرب شدید کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا۔

۵- ظولوف عالم جان: اندیجان جیسے مردم خیز شہر کا مکین۔ اس شہر نے بہت سے علما و فضلاکو جنم دیا مگر ازبک ہلاکوکریموف کے دورِ استبداد میں یہ شہرِ شہدا بن چکا ہے۔ ظولوف عالم ۱۰ فروری ۹۹ء کو چار بجے شام گرفتار ہوا اور اسی تاریخ کو رات دس بجے‘ اس کی تشدد کے نشانات سے بھرپور نعش گھر پہنچی۔

۶- احمد خان طوراخانوف: وادی فرغانہ کے شہر غنعان کا باشندہ‘ ۵ مارچ ۹۹ء کو ساڑھے پانچ سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس مردِ مجاہد نے ۱۵ جون ۹۹ء کو قید خانہ میں ہی اپنی جان‘ جانِ آفرین کے حوالے کی۔

۷- الوغ بیگ انواروف:  تاشقند سے تعلق‘ جون ۹۹ء میں گرفتاری عمل میں آئی اور ۹ جولائی ۱۹۹۹ء کو جامِ شہادت پیا۔

۸- عظیموف جوراخان: اندیجان کا باشندہ‘  ۲۲ فروری ۹۹ء کو گرفتار ہوا۔ ۱۷ اپریل ۹۹ء کو جیل میں وفات پائی۔

ازبکی نمرود نے اپنے وزیر داخلہ زاکیرالماتوف کو تاشقند میں بم دھماکوں کی پہلی برسی کے موقع پر یہ مہم سونپی کہ ازبکستان میں اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کر دے اور ازبکستان سے اسلام کے نام لیوائوں کا قلع قمع کر ے۔

ازبکستان کا دینی ادارہ حکومت کے ماتحت ہے‘ جسے صدر کریموف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تقریباً ہر سال ازبکستان کے فقیہ کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ مفتی ازبکستان عبدالرشید بحراموف نے حکومت کے دبائو میں آکر ۹۹ء میں مساجدمیں لائوڈ اسپیکر میں اذان دینے کی ممانعت کا فتویٰ جاری کیا اور دلیل یہ دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لائوڈ اسپیکر نہ تھے۔

ازبک حکمرانوں نے نہ صرف ازبکستان کی حدود میں بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی تحریک اسلامی کے کارکنوںکے خلاف اپنی مہم تیز تر کر دی ہے۔ ازبک انتظامیہ کی درخواست پر روسی حکام نے بہت سے ازبک پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ازبک ظالموں کے سپرد کر دیا۔ یوکرائن اور ترکیہ کی سیکورٹی فورسز نے بھی یہی حرکت کی۔ حالانکہ ایسا کرنا‘ پناہ گزینوں کے بارے میں موجود بین الاقوامی معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایک طرف یہودی لابی اور مغرب میں حقوق انسانی کی پاسدار تنظیمیں‘ ایران میں گرفتار یہودیوں کے حق میں‘ بین الاقوامی سطح پر منظم جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ازبک مسلم قوم کے ہزاروں مقتولوں اور لاکھوں گرفتار شدگان کے بارے میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی۔

ہم مسلمانوں کی یہ بے حسی کب تک رہے گی؟

پُرامن مسلم ازبک قوم کب تک جان و مال اور اہل و عیال کے بارے میں خوف زدہ رہے گی؟

کب تک فدائیان اسلام قید و بند میں پڑے اذیتیں سہتے رہیں گے؟

کب تک اہل ایمان تشدد و اذیت کا نشانہ بنتے رہیں گے؟

ستم گروں اور آمروں سے نجات پانے کے لیے امت مسلمہ کب اٹھے گی؟

طویل و تاریک شب ظلم کا خاتمہ کب ہوگا؟