جنوری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

ازبکستان یا جیلستان

محمدظہیرالدین بھٹی | جنوری ۲۰۰۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ازبکستان میں آزادی سے پہلے ہی اسلامی بیداری پائی جاتی تھی مگر اسّی کے عشرے کے اواخر میں صدر گوربا چوف نے جونہی خودمختاری کی پالیسی کا اعلان کیا‘ اسلامی بیداری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے اور مساجد و مدارس بنانے کا زریں موقع ملا۔ مختلف موضوعات پر ہر طرح کا اسلامی لٹریچر شائع ہونے لگا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ لاکھوں مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹنے لگے۔

مگرافسوس کہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے جب اپنے قدم جما لیے تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء تک تو صدر کی پالیسی ذرا نرم اور حزم و احتیاط پر مبنی رہی مگر اس کے بعد وہ کھل کر سامنے آگیا۔ پہلے اپنے سیاسی مخالفین یعنی علماے اسلام کو قیدوبند میں ڈالا‘ جلیل القدر علما کو اغوا کرایا۔ شیخ عبداللہ اوتار صدر حزب النہضۃ الاسلامی کو ۱۹۹۲ء میں اغوا کرایا۔ شیخ عبدالولی میرزا امام مسجد ’’الجامع‘‘ اندیجان شہر کو ۱۹۹۵ء میں ازبک انٹیلی جنس ایجنسی نے تاشقند ایئرپورٹ سے اغوا کر لیا۔

جمہوریہ قارقلباقستان کے صحرائوں کے وسط اور بحرآرال کے مغرب میں جسلق گائوں کے قریب واقع جیل کیمپ میں ۲۵۰ افراد کو صدر جمہوریہ کی شخصی آمریت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔جیل کے ایک ملازم کے بیان کے مطابق یہاں اُن قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محبوس رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ گذشتہ سال یہاں اٹھارہ آدمیوں کو مسلسل جسمانی اذیتیں دی گئیں حتیٰ کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انھیں روزانہ ستر مرتبہ قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جاتا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیے جاتے اور صبح سے رات گئے تک پورا دن خاموشی کے ساتھ بینچ پر بٹھایا جاتا۔ قیدیوں کے لیے حکم ہے کہ کھاناکھا چکنے کے فوراً بعد وہ بآواز بلند کہیں ’’ہم اس خوراک اور سہولتوں پر اپنے صدرِ محترم اسلام کریموف کے شکرگزار ہیں‘‘۔ اس کے بعد ازبک قومی ترانہ گائیں۔

پورے ملک میں اسلام پسند قیدیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زاید ہے۔ یہ اعداد و شمار وسط ایشیا میں حقوق انسانی کے دفاع کی تنظیم کے‘ جس کا صدر دفترماسکو میں ہے‘  مہیا کردہ ہیں‘ جب کہ ازبک حکومت صرف ۲۰ ہزارتحریک اسلامی کے کارکنوں کے قیدی ہونے کی معترف ہے۔ قیدیوںکی تعداد اور جیلوںمیں ان کی شرحِ اموات میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۹۹ء میں ازبک راجدھانی تاشقند میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے دھماکوں کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری بنیاد پرستوں پر ڈالی تھی مگر اہل نظر و اصحاب بصیرت کے نزدیک یہ سرکاری کارستانی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بھی سرکاری آدمی ان دھماکوں میں نہیں مارا گیا۔امن و سلامتی کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف نہیں کیا گیا۔ صدر نے وزیرداخلہ‘ وزیر خارجہ اور امن عامہ کے ذمہ دار کا محاسبہ کیا نہ سرزنش کی نہ ان پر تنقید کی بلکہ اس کے برعکس ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ان بم دھماکوں کے صرف چند ماہ بعد سلامتی اور امور داخلہ کے سنگ دل اور بدترین سو افراد کے سینوں پر حسنِ کارکردگی کے تمغے سجائے گئے۔

اسلام دشمن کی انتہا :  ازبکستان میں داڑھی رکھنا اور حجاب سرکاری طور پر ممنوع ہیں یعنی ’’جرم ‘‘ ہیں۔ اسلام دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ جاری کیا ہے جس کی دفعہ ۱۴ کے بموجب پبلک مقامات پر مذہبی لباس پہن کر آنا منع ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک اوردفعہ کی رُو سے باپردہ لڑکیوں اور مستورات کے لیے اداروں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ باپردہ تمام طالبات کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ اس آرڈی ننس پر عمل درآمد کرانے کے لیے ذمہ دار افسر مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہائی اسکولوں کے طلبہ کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ہیں۔ طلبہ کے لیے قرآن اور نماز سیکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

باپردہ خواتین کو پولیس سڑکوں سے سیدھا جیل پہنچا دیتی ہے۔ افسوس کہ مسیحی راہبات (nuns) تو شہر میں اپنے مذہبی لباس میں امن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں لیکن مسلم خواتین کو یہ آزادی بھی میسر نہیں۔ انھیں ذرائع ابلاغ سب و شتم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گم کردہ راہ‘ رجعت پسند اور دقیانوسیت زدہ جیسی پھبتیاں اور طعنے مسلم خواتین کے لیے عام الفاظ بن چکے ہیں۔

بہت سی باپردہ لڑکیوں نے مجبور ہو کر حجاب ترک کر دیا ہے۔ بہت سے کم زور دل مسلمانوں نے اچانک چھاپے کے خوف سے اپنے گھروں سے قرآن شریف کے نسخے نکال دیے ہیں۔اس لیے کہ پولیس کے انسپکٹرز قرآن شریف اور عام عربی کتابوں میں امتیاز ملحوظ نہیں رکھتے۔ انھیں تو بس کوئی عربی کتاب ملنی چاہیے‘ گھر سے ملے یا کار سے۔ عربی میں لکھی ہوئی کسی بھی کتاب کا دست یاب ہونا ان کی ملازمت کو پختہ تر کر دیتا ہے اور جس کے قبضے سے کتاب برآمد ہو جائے اس بیچارے کی شامت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ خواہ یہ عربی کتاب صدر اسلام کریموف کی کسی تالیف کا عربی ترجمہ ہی ہو۔

نشانہ ہائے جور و جفا : ازبک سرکار نے حامیان اسلام پر منظم ہلہ بول دیا ہے۔ وادی فرغانہ کے شہر اندیجان کے باشندے نعمت کریموف نے اپنے لخت جگر کی لاش حکام سے گرفتاری کے آٹھ ماہ بعد وصول کی۔ جسم پر مارپیٹ کے واضح نشانات تھے۔ بہت سے خاندانوں نے اپنے جواں سال بیٹوں کی لاشیں اس حالت میں واپس پائی ہیں کہ ان پر تشدد و اذیت دہی کے نشان واضح تھے۔ یہاں پر ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱- فرحات عثمانوف:  تاشقند کا باشندہ‘ ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کو گرفتار ہوا۔  تشدد کی وجہ سے اسی ماہ ۲۵ جون کو فوت ہوا۔غسل دیتے وقت معلوم ہوا کہ اس کی کھوپڑی اور دانت پیہم ضربوں سے توڑے گئے تھے۔

۲- حیات اللّٰہ باباناتوف:  اندیجان کا شہری‘ ۲۰ نومبر ۹۸ء کو گرفتار ہوا اور ۲۳ مئی ۹۹ء کو بوجہ اذیت دہی جاں بحق ہوا۔

۳- جلال الدین جمالوف: اندیجان کا باسی‘ عمر ۳۷ سال۔گرفتاری کے چند ہی روز بعد وفات پائی۔

۴- محمد جان انیوف: اندیجان کا باشندہ‘ عمر ۵۵ سال ۔ صدر کریموف نے حامیانِ اسلام کی ’’سرکوبی‘‘ کے لیے جو فوجی ’’عدالتیں‘‘ قائم کی ہیں اسی قسم کی ایک’’عدالت‘‘ نے انھیں ۱۰ فروری ۹۸ء کو چھ سال کی سزا سنائی مگر اس مظلوم نے ۷ فروری ۱۹۹۹ء کو ضرب شدید کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کیا۔

۵- ظولوف عالم جان: اندیجان جیسے مردم خیز شہر کا مکین۔ اس شہر نے بہت سے علما و فضلاکو جنم دیا مگر ازبک ہلاکوکریموف کے دورِ استبداد میں یہ شہرِ شہدا بن چکا ہے۔ ظولوف عالم ۱۰ فروری ۹۹ء کو چار بجے شام گرفتار ہوا اور اسی تاریخ کو رات دس بجے‘ اس کی تشدد کے نشانات سے بھرپور نعش گھر پہنچی۔

۶- احمد خان طوراخانوف: وادی فرغانہ کے شہر غنعان کا باشندہ‘ ۵ مارچ ۹۹ء کو ساڑھے پانچ سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس مردِ مجاہد نے ۱۵ جون ۹۹ء کو قید خانہ میں ہی اپنی جان‘ جانِ آفرین کے حوالے کی۔

۷- الوغ بیگ انواروف:  تاشقند سے تعلق‘ جون ۹۹ء میں گرفتاری عمل میں آئی اور ۹ جولائی ۱۹۹۹ء کو جامِ شہادت پیا۔

۸- عظیموف جوراخان: اندیجان کا باشندہ‘  ۲۲ فروری ۹۹ء کو گرفتار ہوا۔ ۱۷ اپریل ۹۹ء کو جیل میں وفات پائی۔

ازبکی نمرود نے اپنے وزیر داخلہ زاکیرالماتوف کو تاشقند میں بم دھماکوں کی پہلی برسی کے موقع پر یہ مہم سونپی کہ ازبکستان میں اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کر دے اور ازبکستان سے اسلام کے نام لیوائوں کا قلع قمع کر ے۔

ازبکستان کا دینی ادارہ حکومت کے ماتحت ہے‘ جسے صدر کریموف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تقریباً ہر سال ازبکستان کے فقیہ کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ مفتی ازبکستان عبدالرشید بحراموف نے حکومت کے دبائو میں آکر ۹۹ء میں مساجدمیں لائوڈ اسپیکر میں اذان دینے کی ممانعت کا فتویٰ جاری کیا اور دلیل یہ دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لائوڈ اسپیکر نہ تھے۔

ازبک حکمرانوں نے نہ صرف ازبکستان کی حدود میں بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی تحریک اسلامی کے کارکنوںکے خلاف اپنی مہم تیز تر کر دی ہے۔ ازبک انتظامیہ کی درخواست پر روسی حکام نے بہت سے ازبک پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ازبک ظالموں کے سپرد کر دیا۔ یوکرائن اور ترکیہ کی سیکورٹی فورسز نے بھی یہی حرکت کی۔ حالانکہ ایسا کرنا‘ پناہ گزینوں کے بارے میں موجود بین الاقوامی معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایک طرف یہودی لابی اور مغرب میں حقوق انسانی کی پاسدار تنظیمیں‘ ایران میں گرفتار یہودیوں کے حق میں‘ بین الاقوامی سطح پر منظم جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ازبک مسلم قوم کے ہزاروں مقتولوں اور لاکھوں گرفتار شدگان کے بارے میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی۔

ہم مسلمانوں کی یہ بے حسی کب تک رہے گی؟

پُرامن مسلم ازبک قوم کب تک جان و مال اور اہل و عیال کے بارے میں خوف زدہ رہے گی؟

کب تک فدائیان اسلام قید و بند میں پڑے اذیتیں سہتے رہیں گے؟

کب تک اہل ایمان تشدد و اذیت کا نشانہ بنتے رہیں گے؟

ستم گروں اور آمروں سے نجات پانے کے لیے امت مسلمہ کب اٹھے گی؟

طویل و تاریک شب ظلم کا خاتمہ کب ہوگا؟