ڈاکٹر شائستہ پروین


اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ رب العزت نے بچوں کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے اور بار بار طفولیت، ذُرّیت اور اولاد کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے، نیز لوگوں کی تعلیم و تفہیم کے لیے بعض انبیا کرامؑ کی طفولیت کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت محمدؐ کے زمانۂ طفولیت کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ بچوں کو زندگی کی رونق کہا ہے:
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ۝۰ۚ (الکہف۱۸: ۴۶)یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔
دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے اولاد کو مرغوب چیزوں میں شمار کیا ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۴) لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت خوش نما معلوم ہوتی ہے،جیسے عورتیں اور بیٹے ہیں۔
قرآن کریم میں کئی مقامات پر اطفال و اولاد کو نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ (بنی اسرائیل۱۷:۶) ہم نے تمھاری مال و اولاد سے مدد کی۔
حضور اکرمؐ کے اوقات میں بچوں کا بھی حصہ تھا۔ چنانچہ آپؐ بچوں کے ساتھ مزاح فرماتے، ان کے ساتھ تفریح کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی بچوں کے ساتھ مہربانی و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم فرماتے۔
مذکورہ ارشادات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بچوں سے محبت کرنا بجا ہے، لیکن ان کی صحیح تربیت و پرورش اہم ذمہ داری ہے۔ بصورت دیگر یہی بچے جو فخر، قوت، کثرت کا سبب ہوتے ہیں، باعث ذلت و عذاب بھی بن سکتے ہیں۔اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۝۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۱۵ (التغابن ۶۴:۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

تربیت کی اہمیت او ر تقاضے

بچے کو بڑوں کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نشوونماکے یہ مراحل اپنی الگ خصوصیات رکھتے ہیں۔ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں مطلوبہ تقاضوں اور ضرورتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے تو کوشش نتیجہ خیز ہوتی ہے، ورنہ نتائج تسلی بخش نہیں ہوتے۔ ماہرین علم النفس نے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے انسانی اَدوار کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے، جس میں بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے بلوغ تک پہنچتے ہیں: 
۱- زمانۂ حمل(قرارِ حمل سے وضع حمل تک کا زمانہ)۲-ابتدائی بچپن (مدت رضاعت) ۳-بچپن(نرسری سے چھے سال تک) ۴-لڑکپن(۶ سال سے ۱۰ سال تک) ۵-نوجوانی (۱۰سال سے ۱۸ سال تک)
یوں تو انسانی عمر کا ہر دور انتہائی نازک اور توجہ طلب ہے، لیکن لڑکپن اور نوجوانی بچوں کی ابتدائی تعلیم کے اَدوار ہیں۔ لڑکپن کے اس دور میں بچے کی جسمانی، نفسیاتی اور عقلی بالیدگی پچھلے دور کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ وہ ہر کام میں اپنے بڑوں کا دست نگر نہیں رہتا۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ عمر کا یہ دور گھر سے نکل کر اسکول جانے اور دوسرے بچوں سے ملنے جلنے اور دوستی کرنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں بچوں کے اندر اُچھل کود، کھیل کود، بھاگ دوڑ اور چیزوں کی جستجو کا شوق بڑھ جاتا ہے ۔ان کے اندر کاموں کے کرنے اور ایک دوسرے سے وفاداری کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ قوت فیصلہ بلاکی ہوتی ہے۔ اپنے بڑوں خاص کرماں باپ اور اساتذہ کا دل سے احترام کرتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے، جس کے لیے وہ مقدور بھر کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کے کسی کام میں استقرار نہیں ہوتا۔ یہ سب عمدہ صفات ہیں۔ ان کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ کامیابی پر شاباش دی جائے اور ناکامی پر ہمت دلائی جائے، نقد و جراح سے گریز کیا جائے ، اور صحت مند تفریح کا اہتمام کیا جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جہاں بچوں کے حقوق کے حوالے سے فکر مند ہے، وہیں قرآن میں بچوں کے تحفظ کے اہتمام و انتظام کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ پیدایش سے پہلے ہی بچے کا تحفظ شروع ہوجاتا ہے اور بعد پیدایش اس میں تقویت اور استحکام آجاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بچوں کی اہمیت کے پیش نظر اسلام کا دامن بچوں کے لیے وسائل تربیت سے بھرا پڑا ہے۔ اسلام بچوں کی روحانی تربیت مواعظہ حسنہ سے کرتا ہے۔ عقلی و ذہنی صلاحیتوں کی اصلاح اعلیٰ کردار کے ذریعے کرتا ہے اور جسمانی تربیت اچھی عادات اور کھیل کود و ورزش کے ذریعے کرتا ہے۔
’تربیت‘ کا لفظ اپنے وسیع تر معنی میں انسان خاص کر چھوٹے بچوں کی جسمانی و عقلی، روحانی اور فکری قوتوں کا اُجاگر کرنا ہے، اور پرورش و پرداخت کے ذریعے ان کی مخفی صلاحیتوں کو کمال بخشنا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’بچہ والدین کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اس کا پاک دل ایک صاف شفاف عمدہ جوہر ہے، جو ہر طرح کے نقش و نگار سے خالی ہے۔ اس پر جس طرح نقش جمانا چاہیں جم جائے گا۔ اگر اچھی عادتوں کا خوگر بنایا گیا اور تعلیم و تربیت کا عمدہ بندوبست کیا گیا تو وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند ہوگا، اور اس کے والدین اور مربی اس کے اجر و ثواب میں برابر کے شریک ہوں گے، اور اگر اس کی تعلیم و تربیت میں غفلت برتی گئی، اور بری عادتوں کا خوگر بنایا گیا تو وہ ہلاک و برباد ہوگا، اور اس کی ذمہ دار اس کے مربی پر عائد ہوگی‘‘۔(الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۷۲)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔
گویا تربیت کے ذریعے بنی نوع انسان کو عقیدہ و اخلاق، علم و ہنر اور تہذیب و تمدن کا پابند کیا جاتا ہے۔ ان کی جسمانی قوتوں کو مناسب غذا فراہم اور ان کی روحانیت کو فروغ دیا جاتا ہے، تاکہ اچھے افراد پیدا ہوں، صالح جماعت کی تشکیل ہو اور دنیا کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلے۔
قرآن کریم کی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم نافع، اعمال صالحہ اور خوفِ خدا کے ساتھ جسمانی قوت سربراہی و سرداری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کی افادیت اور اس کے مستحسن ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ’طالوت‘ کو اس کی طاقت و قوت کی وجہ سے بادشاد منتخب کیا اور فرمایا:
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے: ’’ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حق دار ہوگیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مال دار آدمی نہیں ہے‘‘۔ نبی نے جواب دیا: ’’اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کے اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطافرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔(البقرہ۲: ۲۴۷)
چنانچہ دیگر اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ سربراہ کے لیے جسمانی طاقت و قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے دوسری فطری قوتوں کی طرح جسمانی قوت کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے، تاکہ امت کا ہر فرد اخلاقی، علمی اور جسمانی، ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ کسی بھی گوشے سے نقص کا احساس نہ ہو۔ اس کی طاقت و قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہو۔

اسوہ ٔ رسولؐ کی روشنی میں

اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے بھی بدنی سرگرمیوں کے ثبوت ملتے ہیں۔ مختلف کھیلوں اور ورزشوں کا ذکر ملتا ہے۔ ماں باپ کے لیے بچوں کی تربیت سے متعلق کھیلوں اور بدنی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی ترغیب و تنبیہ ملتی ہے کہ حرکت بچوں کے لیے حصولِ قوت کا باعث ہے۔ احادیث میں ہے کہ بھاگ دوڑ میں مقابلہ آرائی خواہ پیدل ہو یا سواری پر اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں ہو اکرتی تھی۔ خود اللہ کے رسولؐ اس طرح کے مقابلے میں شریک ہوتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ قَدْ اُضْمِرَتْ، فَاَرْسَلَھَا مِنَ الْحَفْیَاءِ ، وَکَانَ  أَمَدُھَا ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ  ، وَسَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ لَمْ تُضَمَّرْ ، فَأَرْسَلَھَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ ، وَکَانَ أَمَدُھَا مَسْجِدَ بَنِیْ زُرَیْقِ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص ۵۹) بے شک اللہ کے رسولؐ نے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کیا اور بغیر تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کیا۔
مربی اعظمؐ مفید ورزشوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور بذات خود بچوں کی نگرانی فرماتے۔ حدیث میں ہے کہ:’’آنحضرتؐ حضرت عبداللہؓ، حضرت عبید اللہؓ اور بنی عباس کے اور بچوں کو کھڑے کرکے فرماتے، دوڑ کر جو پہلے میرے پاس پہنچے گا اسے اتنا انعام ملے گا۔ چنانچہ بچے آپؐ کی طرف دوڑتے اور آپؐ کے پاس پہنچ کر کوئی آپؐ کے سینے مبارک اور کوئی پیٹ مبارک پر گرتا۔ آپؐ ان کو اٹھاتے اور چومتے، گلے لگاتے‘‘۔(مسنداحمد: ۲۱۴)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بچوں کے لیے بعض ورزشوں کو برقرار رکھا کیونکہ ورزش بچے کی عقلی، اخلاقی، بدنی، حتیٰ کہ معاشرتی قوت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
تیر اندازی فن سپہ گری کا اہم جز ہے جس سے فوجی تربیت اور ذہنی ورزش بیک وقت ہوتی ہے۔ جسم میں تیزی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ زمانۂ قدیم میں دشمنوں کے لیے اس کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ دوسری اہم بدنی ورزش پیرا کی ہے جس سے انسان کا جسم صاف پانی سے دھل کر چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔نبی کریمؐ نے والدین کو نصیحت کی ہے کہ: عَلِّمُوا اَوْلاَدَكُمْ السِّبَاحَةَ والرِّمَايَةَ (بیہقی ، کتاب السبق و الرمی، ج ۱۰، ص ۱۵) ’’اپنی اولاد کو تیرا کی سکھائو اور تیراندازی سکھلائو‘‘۔
ماہرین کی نظر میں
جدید تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ ورزش اور کھیل سے بچے کی ذہنی قوت میں ترقی ہوتی ہے۔تربیت کے ماہرین کی راے ہے:’’کھیل ایک زبردست خواہش اور فطری داعیہ ہے، جس کی بہر حال جائز حدود میں تکمیل ہونی چاہیے۔ جو لوگ بچوں کو کھیل سے محروم رکھتے ہیں، وہ دراصل فطرت سے جنگ اور بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ قدرت نے یہ زبردست داعیہ بلاوجہ نہیں رکھا ہے۔  بچوں کی ذہنی و جسمانی، معاشرتی و اخلاقی نشونما کے لیے کھیل نہایت ضروری ہے۔
ماہرین نفسیات نے اپنے مشاہدے سے کھیل کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں، جن کا تذکرہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے مفید و معاون ثابت ہوسکتا ہے اور وہ اس طرح ہیں:
    ۱-    کھیل کے ذریعے بچے اپنی فاضل توانائی خارج کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو فالتو قوت بچوں کے جسم کو متاثر کرسکتی ہے۔
    ۲-    کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے آپ کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بچیاں گڑیاں کھیل کر امور خانہ داری سے واقفیت حاصل کرتی ہیں اور بچے مختلف کھیلوں کے ذریعے فرائض کی انجام دہی کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔
    ۳-    وہ  اپنی الجھنوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کھیل کود سے اپنی طبیعت کا بار ہلکا کرتے ہیں۔
    ۴-     اس طرح وہ اپنے جذبات، رشک، رقابت اور مقابلے و مسابقت کی تسکین کرتے ہیں۔
    ۵-    کھیل، ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے مظہر ہیں۔
    ۶-    بالیدگی اور نشوونما کے مختلف مراحل پر جسم اور ذہن مختلف قسم کی جسمانی مشقت کا تقاضا کرتے ہیں اور کھیل ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
علما و مفکرین اسلام نے بھی بچوں کے لیے کھیل کود کو اہم بتایا ہے۔ 
امام غزالیؒ بچوں کی فکری و نفسیاتی نشوونما پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں:’’دن میں کسی وقت بچے کو ورزش کرنے اور چلنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ اس پر سُستی کا غلبہ نہ ہو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’سبق پڑھنے کے بعد بچے کے لیے فکری راحت اور قلبی تفریح کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ بچہ شوق سے پڑھے، اور پڑھائی سے متنفرنہ ہوجائے۔ سبق سے فارغ ہونے کے بعد اسے ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے کہ جس سے وہ دماغی تھکاوٹ دُور کرسکے، دل و دماغ کو راحت پہنچا سکے، مگر کھیل ایسا نہ ہو جو اس کو مزیر تھکاوٹ میں مبتلا کردے۔ اگر اس قدر کھیل کی اجازت نہ ہو اور تعلیم میں ہمیشہ سخت گیری کی جائے تو بچے کا دل اُکتا جاتا ہے اور طبیعت کی تیزی سست پڑنے لگتی ہے، بلکہ زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کوئی حیلہ ایسا ڈھونڈنے لگتا ہے کہ جس سے بالکل کچھ نہ سیکھے ‘‘۔ (الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۱۲۹)

تعمیر شخصیت میں کھیل کا کردار

مشہور مقولہ ہے:’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے، اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں گے، اس ملک کے اسپتال آباد ہوں گے‘‘۔
اس لیے انسانی زندگی میں کھیل کی بہت اہمیت و افادیت ہے۔ 
۱- جسمانی فائدے: آج کے اضطرابی دور میں بچوں کی تعلیم، کسب معاش اور دیگر اہم مسائل ہمہ وقت انسان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سارے دن کی محنت و مشقت کے بعد انسان تھک جاتا ہے اور طبیعت میں چڑ چڑاپن پیدا ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ورزشی تفریح انسان کی کسالت کو دور کرکے پھر تازہ دم کردیتی ہے۔ دراصل انسان ورزش میں فطری طورپر دل چسپی رکھتا ہے، جیسے دوڑنا، کودنا، چھلانگ لگانا، کرکٹ، فٹ بال وغیرہ۔ اس قسم کے کھیلوں سے ورزش خود بخود ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہاتھ، پیر، نظر کا استعمال، آوازوں کا نکلنا، یہ سب ورزش کے ذریعے ہیں۔ 
اسی طرح کھیلنے سے دل کی حرکت تیز ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے خون تیزی سے جسم کے ہر حصے میں گردش کرتا ہے، بند مسامات کھل جاتے ہیں، پھیپھڑوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور صاف اور تازہ ہوا جسم میں داخل ہوکر تازہ خون پیدا کرتی ہے۔ اعضا طاقت ور اور پٹھے مضبوط ہوجاتے ہیں، بچہ چُست اور پھر تیلارہتا ہے۔ کوئی بیماری جلد اثر انداز نہیں ہوتی۔
۲-اخلاقی فائدے: بچوں میں اخلاق و اتحاد پیدا ہوتا ہے اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنے سے، اجتماعی زندگی گزارنے کی قدرت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و ضبط کی پابندی اور منظم زندگی بسر کرنے کے جذبات کو ترغیب ملتی ہے۔ متفقہ کوششوں سے منزل مقصود پر پہنچنے کی بہتر تربیت اور تعلیم کھیلوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
۳-نفسیاتی فائدے:کھیل بچوں کو اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔ ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنے سے دوسروں کی راے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دینے کا مادہ پیدا ہوتا ہے، انانیت و خود پسندی سے نجات پانے میں معاون ہوتا ہے، اور دوستانہ ماحول میں کھیلنے سے کینہ و کدورت بھی ختم ہوتی ہے اور تعلقات خوش گوار ہوجاتے ہیں۔ 
چنانچہ کھیلوں سے جہاں جسمانی توانائی پیدا ہوتی اور ذہنی نشوونما ہوتی ہے، وہاں فرماں برداری، فرض شناسی، تدبیر، حسن انتظام، صبر، قناعت، تحمل مزاجی اور مدِمخالف کو شکست دینے کے جذبات اور اخلاقی محاسن پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اپنے مخالف کی طاقت سے مرعوب نہ ہونا، ناکامی اور مایوسی کے باوجود ہمت نہ ہارنا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا، مشکلات میں ثابت قدم رہنا، کسی حالت میں ہراساں نہ ہونا بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا، یہ سب اوصاف محض کھیلوں سے پیدا ہوتے ہیں۔
لہٰذا بچے کی زندگی اور صحت کے لیے ورزش اور کھیل کی اہمیت واضح ہے۔ والدین، اساتذہ اور ہرسطح کی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ بچے کے لیے ایسی فضا ہموار کریں، تاکہ وہ ورزش اور کھیل کے ذریعے اپنی قدرتی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اُجاگر کرسکے۔ تاہم، خیال رہے کہ نامناسب، نقصان دہ اور غیر شرعی کھیل نہ کھیلیں، یعنی جس میں جوا شامل ہو، حیا اور و قار برقرار نہ رہتا ہو، اور وہ کھیل جو دوسروں کے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوں۔

اسماعیل راجی الفاروقی [یکم جنوری ۱۹۲۱ء، جافا، فلسطین ۔ شہادت:۲۷مئی ۱۹۸۶ء، ونکوٹ، امریکا] عالم اسلام کی ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں، جنھوں نے غلبۂ اسلام کے لیے منتشر شیرازے کو منظم کرنے کی کوشش کی، حالات کا تجزیہ کیا اور امت مسلمہ کو ان کی اصل پر لانے کے لیے خاکہ سازی کی کہ تاریخ کااصول ہے:’’خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ  وہ خود اپنی حالت نہ بدلے‘‘۔

قرآن کے اس اعلان کی روشنی میں الفاروقی نے محسوس کیا کہ اُمت مسلمہ موجودہ دور میں بے بسی اوربے چارگی کے دور سے گزر رہی ہے اور مصائب نے لوگوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔دیگر نظا م کی بالا دستی نے بے اعتمادی کی فضا پیدا کردی ہے، اجنبی تہذیبوں کی دوڑ ہر میدان میں دکھائی دے رہی ہے، انگریزی اورفرانسیسی زبانوں کی مقبولیت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، مختلف پروگراموں اورمعاشی وسیاسی سرگرمیوں میںا س کا اثر دیکھنے کو مل رہاہے۔ اگر ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہماری نگاہ تعلیمی نظام پر جاکر ٹھیر جاتی ہے جو دومتضاد رویوں کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میںدیگر تہذیبوں کے اثرات نے مسلم معاشرے کارخ اپنی جانب بہت تیزی سے موڑا اور پوری طرح اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی اورمسلم معاشرہ اسلام سے دُور ہوتا چلاگیا۔ اسلامی فکروعمل پر غیر اسلامی افکار وخیالات کاغلبہ نظرآنے لگا اوریوں اُمت مسلمہ اندرونی کرب وبے چینی کا شکار ہوگئی۔

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تہذیبی تباہی کو لانے اور حالات کا رُخ مغربی اقوام کی طرف موڑنے میں جوچیز سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی، وہ تعلیمی نظام تھا، جو دوحصوں پر منقسم تھا: ایک حصہ اسلامی علوم پر مشتمل تھا اور دوسراجدید علوم پر مشتمل۔ ابتدائی مدارس کے ماحول کی وجہ سے دل تو اسلام کی جانب مائل رہتا،مگر دماغ اورشعور بہ تدریج اعلیٰ جدید تعلیم کے ذریعے متاثر ہوجاتا، جس کا مقصد مغربی افکار ونظریات کو پروان چڑھانا اورمحض مادی خواہشات کی تکمیل تھا۔

راجی الفاروقی نے تعلیم کی اسی تقسیم کو مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب قراردیا کیوں کہ علوم کا دوخانوں میں بٹوارہ کسی بھی صور ت میں امت کی تشکیلِ نو کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتا اوراس نظام کے تحت امت اپنے فرض کو پوراکرنے پرقادر نہیں ہوسکتی۔

مسلم امت کے زوال کے اسباب کو جاننے اورسمجھنے کی سعی دیگر مسلم مفکرین سرسیداحمد خاں اور محمد عبدہٗ وغیرہ نے بھی کی اورانھوںنے یہ حل نکالا کہ: ’’تعلیمی نظا م میں تجدید کی آمیزش سے  نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوسکتی ہے اورمسلم قو م ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے‘‘۔ راجی الفاروقی نے مذکورہ حضرات کی تجدیدی فکر اوران کی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے :

’’ ماضی میں کچھ مسلمان دانش وروں نے اسلامی نظام تعلیم کی اصلاح کی یہ صورت نکالی کہ اس کے نصاب میں اجنبی افکار سے مستعار لی ہوئی چیزوں کی پیوندکاری کردی جائے۔    سرسید احمد خاں اور محمد عبدہٗ اسی طرزِ فکر کی حامل شخصیتیں ہیں۔ اسی انداز فکر پر عمل کرتے ہوئے جمال عبدالناصر نے مضبوط اسلامی قلعہ جامعۃ الازہر کو ۱۹۶۱ء میں ایک جدید یونی ورسٹی میں تبدیل کردیا۔ اس تجدیدی فکر کی پوری عمار ت اس مفروضے پر قائم کی گئی تھی کہ نام نہاد جدید علوم بے ضرر ہیں۔ اس نکتے پر کم ہی توجہ دی گئی کہ اجنبی ادبیات، معاشرتی علوم اورسائنسی علوم وغیرہ زندگی، کائنات اور تاریخ کے ایک منضبط نظریے کے مختلف پہلوہیں، جو اسلام کے لیے قطعاً بیگانہ ہیں۔   یہ لوگ اس لطیف مگر لازمی تعلق کو شاید ہی سمجھ سکے ہوں جو ان علوم کے طریقہ ہاے تنظیم اور نظریہ ہاے صداقت اورعلم کو اجنبی دنیا کے نظامِ اقدار کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ اسی سبب سے ان کے اقدامات کچھ مثبت نتائج پید انہ کرسکے ‘‘۔

آگے چل کر راجی الفاروقی نے اس نظامِ تعلیم کے نقصانات کوا ن الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’ایک جانب اسلامی علوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا اور دوسری جانب جدید علوم کا اضافہ بھی وہ عظمت نہ بخش سکا جواس نے اپنے موجدوں کواپنے اصل وطن میں بخشی تھی، بلکہ توقع کے بالکل برخلاف اس طرز فکر وعمل نے مسلمانوں کو اجنبی تحقیق اور قیادت کا محتاج ضرور بنادیا۔ معروضی طرزِ فکر کے بلند بانگ دعووں کے بل بوتے پر جدید فکر نے مسلمانوں سے ان اسلامی عقائد کے منافی افکار کو تسلیم کراکے چھوڑ ا جوترقی کے علَم برداروں کے نزدیک رجعت پسندی اورقدامت پرستی کا دوسرا نام تھا‘‘۔

راجی الفاروقی نے تعلیمی اصلاح کے لیے جو تصور پیش کیا، اس کا دائرۂ کار انتہائی وسیع ہے۔ آپ کے خیال میں علوم اسلامی میں علوم جدیدہ کی آمیزش سے بہتر ہے کہ علوم جدیدہ کی اسلامی تشکیلِ نو کی جائے ۔آپ کاخیال ہے کہ:

ادبی، معاشرتی اورطبعی علوم کی تفہیم وتشکیلِ نو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اب علوم کو لازمی طورپر اسلامی بنیادفراہم کی جانی چاہیے اوراسلامی طرزِ فکر سے ہم آہنگ مقاصد کاان کو پابند کیا جانا چاہیے۔ ہرشعبۂ علم یا مضمون کی تدوینِ نو کی جانی چاہیے، تاکہ اس کی منہاجیات،حکمت ِعملی ،بنیادی مفروضات ، مقاصد اورمسائل کو حل کرنے کے طریقوں میں اسلامی اصولوں کو سمویا جاسکے۔ ہر مضمون کی نئی صورت گری اس طور ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق اسلام کے نظام اقدا رسے استوار ہوجائے ۔

اپنے نظریا ت کو عملی شکل دینے کے لیے آپ نے چند نکات اورتجاویز پیش کی ہیں:

  1. وحدتِ علم:جس کے تحت تمام علوم آتے ہیں جس میں علومِ عقلی اورنقلی کی تقسیم نہیں ہوتی۔
  2. وحدتِ حیات :سارے علوم کویکساں اہمیت ملنی چاہیے ۔
  3. وحدتِ تاریخ:جس کے تحت تمام علوم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ تمام انسانی حرکات کے پیچھے معاشرتی مزاج کا رفرما ہوتاہے اوراس طرح معاشرے کی تاریخی خدمت پرمامور ہوجائیں۔ اس طرح تمام علوم انسانی اورمعاشرتی شکل اختیارکرلیں گے۔

دوسرا اہم نکتہ فکر وعمل کی سنجیدگی ہے، جس سے مسلمان عام طور پر پہلوتہی کرتے ہیں۔ مسلم قائدین کو تفکر ،منصوبہ بندی اورحفظ ماتقدم کی طرف توجہ اوردلچسپی کی ضرورت ہے ۔

اگر ہم مسلمانوں کے علمی ارتقا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ زوال کے اس عہد سے پہلے علوم میں ترقی اوروسعت کا سہرامسلمانوں کے سرہے۔ انھوں نے تمام علوم کو اسلامی نظریے اور اقدار سے مربوط کرکے اسلامی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا، لیکن افسوس ہماری غفلت کے سبب غیر مسلموں نے مسلمانوں کے علمی ورثے میں اپنے نظریات شامل کرکے اپنے مفاد اورمقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اورآہستہ آہستہ پوری طرح قابض ہوگئے۔موجودہ وقت میں عالم اسلام کے تمام تعلیمی اداروں میںیہی غیر اسلامی کتب ونظریات مسلم طلبہ و طالبات کوپڑھائے جارہے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام میں تعلیم کی حالت بہت تشویش ناک ہے، اس لیے مسلم مفکرین اور دانش ورحضرات کو نوجوان نسل کی اسلامی ذہن سازی کے لیے سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ علمی زوال کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن راجی الفاروقی کی شکل میںنمودا رہوئی، جنھوںنے حالات کا رخ بدلنے اوراسلامی آفاقی نظریہ قائم کرنے کے لیے چند مقاصد بیان کیے ہیں:

  1. جدید علوم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔
  2. اسلامی ورثۂ علم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔
  3. جدید علوم کے ہر شعبے سے اسلام کا خصوصی تعلق قائم کرنا۔
  4. جدید علوم اوراسلامی ورثے کے تخلیقی امتزاج کی راہیں تلاش کرنا۔
  5.  اسلامی فکر کو ایسے خطوط پر استوار کرنا کہ قدرتِ حق کے خزانوں سے فیض ممکن ہوسکے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ نے درجِ ذیل اقدامات کی جانب رہنمائی کی ہے :

علوم کی اسلامی تشکیلِ نو: ضروری اقدامات

  1. جدید علوم پر کامل دسترس: اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مغربی علوم کو مختلف اقسام ، اصولوں ،منہاجات،مسائل اورموضوعات میں بانٹ دیا جائے اور وضاحتی اور تجزیاتی جملوں کے ذریعے اعلیٰ ترین شکل میں واضح کیا جائے ۔
  2. مضامین کا جائزہ:ہر مضمون کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس کے تسلسل اورتاریخی ارتقا پر اس کی منہاجات کی نشوونماپر ،اس کی وسعتوں اوراس پرلکھنے والے تمام علما اوران کی تحریروں پر مضامین لکھے جانے چاہیے، تاکہ ان تمام عناصر کے خدوخال کو نمایاں کیا جاسکے۔ ہر شعبۂ علم سے متعلق اہم ترین تصنیفات وتالیفات پر مبنی وضاحتی فہرست کتب کی تیاری اس جائزے میں شامل ہونا چاہیے۔ اس طریقے سے مسلم دانش ور متعلقہ علم کو ٹھیک اسی انداز میںسمجھ سکے گا، جس انداز میں وہ مغرب میں وجود میں آیا اورپروان چڑھا۔
  3. اسلامی ورثہ ٔ علم پر کامل دسترس:اسلاف کے ورثے سے واقفیت اسلامی علوم کی تشکیلِ نو کی راہ میں نقطۂ آغاز ہے۔ اسلامی علوم میں مہار ت کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدہ کے تمام شعبوں کے عنوانات، مسائل اور مضامین سے واقفیت لازمی ہے۔ اس طرح تحقیقات کے لیے ایک مطلوبہ معیار مہیا ہوجائے گااور جدید علم کے مضمون سے متعلق اہم اجزا پرمشتمل ،مفصل دستاویز ات تیار ہوجائیں گی، جن کی مدد سے جدید مسلم دانش وروں کے لیے علم کے ورثے تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔
  4. اسلامی ورثہ ٔ علم پرماہرانہ تجزیہ:اسلامی بصیرت کی مکمل تفہیم کے لیے تاریخی تناظر میں اسلاف کی علمی خدمات کا تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسلامی ورثے کا تجزیہ یوں ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ پہلے مضامین کی تقدیم وتاخیر کے مدارج قائم کرنا ہوںگے۔ پھر    دانش وروں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ ان کو اسی ترتیب پر زیر مطالعہ وتجزیہ لائیںاورنمایاں مسائل کو اپنے علم و تحقیق کا خصوصی موضوع بنائیں ۔
  5. شعبہ ہاے علوم کے ساتھ اسلام کی متعین مناسبت قائم کرنا: جدید علوم کے مزاج ،اس کے اجزاے ترکیبی، اصول، مسائل، مقاصد اورتوقعات ،کارنامے اور نقائص، غرض  تمام چیزوں کا اسلامی ورثے سے تعلق قائم کرنا چاہیے ۔
  6. جدید علوم کا تنقیدی محاسبہ: مذکورہ اقدامات کے بعد دانش وروں پر یہ  ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ علم کو اسلامی نقطۂ نظر سے تنقیدی تجزیے کے پیمانے پر جانچیں اورپرکھیں۔ یہ علوم کی اسلامی تشکیل کے لیے اہم قدم ہے ۔
  7. اسلامی ورثے کا تنقیدی تعیین :اسلامی ورثے کا مطلب اوّل: قرآن حکیم اور دوسری چیز سنت رسولؐ اللہ ہے۔ قرآن وسنت کا مصدّقہ معیار شک وشبہے اورتنقید وتجزیے سے بالاتر ہے، مگر اس سلسلے میںمسلمانوں کی فکراور افہام وتفہیم،تنقید وتبصرے سے بالاتر نہیں ہے۔ لہٰذا، انسانی کاوش کے اس پہلوپر نظر ثانی کی جانی چاہیے ۔دوسری اہم بات یہ کہ تمام علوم کے ماہرین کو انسانی افعال کے ہر میدان میں اسلامی ورثے کا تجزیہ کرنا چاہیے اورماہرین علومِ اسلامی کی مدد لینا چاہیے، تاکہ بہترین تفہیم ممکن ہوسکے ۔
  8. امت کے بڑے بڑے مسائل کا جائزہ :دورحاضر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اُمت کے مسائل اوران کی وجوہ پرغور کیا جائے۔ ساتھ ہی دیگر داخلی عوامل اور مسائل کے نتائج پربھی غور کیا جائے ۔کسی بھی مسلمان دانش ور کو اپنا مطالعہ محض عقلی تجسس کو تسکین پہنچانے کی غرض سے نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اُمت کے وجودی حقائق کو نظرانداز کرکے جو مطالعہ کیا جائے گا، وہ عملی افادیت سے خالی ہوگا۔ ہم اللہ سے علم نافع کی جودعا مانگتے ہیں، اس کا اظہار ہماری علمی کاوشوں میںبھی ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کرعلوم کے مسائل اوراپنے تعلیمی اداروں پر بھی نظررکھنی چاہیے، یعنی یہ کہ اسلام سے ان کی دوری اوراسلامی خطوط پران کی استواری کی کوشش کس مرحلے میں ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ امت کودرپیش بڑے بڑے سیاسی ،سماجی، معاشی،عقلی، ثقافتی، اخلاقی اورروحانی مسائل پر خاطرخواہ توجہ صرف کی جانی چاہیے۔ علاوہ ازیں ہر شعبۂ زندگی سے متعلق امت کے تمام مسائل مسلم دانش وروں کی توجہ کے مستحق ہیں۔کسی بھی شعبے کو نظرانداز کیا جانا مناسب نہیں ۔
  9. انسانیت کے مسائل کا جائزہ:اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں پر نہ صرف اُمت مسلمہ کی فلاح وبہبود بلکہ پوری بنی نوع انسان کی بھلائی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یقینا پوری کائنات اللہ کی امانت ہے۔ اسلام کے حامل ہونے کے سبب صرف امت مسلمہ کے پاس وہ بصیرت پائی جاتی ہے، جو بنی نوع انسان کی اصل کامیابی وخوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ لہٰذا، مسلم مفکرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کودرپیش مسائل کا مطالعہ و تجزیہ کریں،اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں اور انسانوںکوشیطانی قوتوں سے راہِ راست کی طرف بلائیں۔ نسل پرستی عالمی پیمانے پرانسانی تعلقات کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ شراب،آزادنہ جنسی اختلاط، جہالت اورجنگجو ئی نے انسانیت کو برباد کر ڈالا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا اور تمام انسانیت کی ایسی خوش حالی کی جانب رہنمائی کرنا، جو عدل واحترام سے بھرپور ہو، اسلامی نظامِ حیات کے علَم برداروں کا فریضہ ہے۔
  10. ۰-اسلامی ورثہ اور جدید علوم کا امتزاج :اسلامی ورثہ اورجدید علم کے درمیان ایک نوع کا تخلیقی امتزاج پیدا کرنا اور جمود کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسلامی ورثۂ علم کو وہاںتک پہنچنا چاہیے جہاں تک جدید علم کی روشنی پہنچ چکی ہے۔ اسی کے ساتھ سارے عالم کے مسائل کایقینی حل تلاش کرنا اوراسلامی توقعات کے پس منظر میں اٹھتے رہنے والے تمام مسائل سے سروکار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں اسلامی توقعات کے مخصوص مضمرات کا اندازہ لگانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نیا امتزاج انسانیت کی توقعات کی بازیافت میںکیوںکر معاون ثابت ہوگا؟
  11. اسلامی دائرہ عمل کے مطابق علوم کی تشکیل نو:فکری اختلاف انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اورقابل مذمت نہیں بلکہ خوش آیند ہے۔ مختلف تجزیوں اورآرا سے امت مسلمہ کے شعور کوقوی بنایا جاسکتاہے۔ دراصل جب تک اسلام دوبارہ تمام مسلمانوں کے   نادر افکار و خیالات کا ماخذ نہ بن جائے، اُمت میں ہمہ جہت فعالیت دوبارہ پید ا نہیں ہوسکتی۔ اسی ایک ماخذ سے اللہ تعالیٰ کی سنت کا ادراک ممکن ہے کہ یہ ایسے تخلیقی اوراخلاقی امکانات کا لامحدود مخزن ہے، جس کی بنیاد پر آفاقی اقدار اورہدایا ت کو معرض وجود میں لایاجاسکتا ہے اور تاریخی عمل میں شریکِ کاربنایا جاسکتاہے ۔اسلام کے مفہوم میں شامل ہونے والی نئی بصیرت اوراس نئے مفہوم کی عمل پذیری کے لیے تخلیقی امکان کا تقاضا ہے کہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے لیے نصابی کتب تیار کی جائیں تاکہ اسلامی ذہنوں کی آبیاری کی جاسکے اوران کو عقلی طورپر قوی تر بنایا جاسکے۔
  12. اسلامی تشکیل شدہ علم کی ترویج:علمی کاموں کو اپنی ذاتی لائبریری میں اکٹھا کرنا یا پھرچند دوستوں تک محدود رکھنا نامناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو کچھ کیا جائے اس کو پوری امت تک پہنچایا جائے اوراس کے ذریعے انسانوں کو بیدار اورروشن خیال بنایا جائے۔ اسلامی بصیرت کے پیش کردیے جانے کے بعد اس کو خدائی رضا کا آلۂ کار بن جانا چاہیے ۔اس علمی خاکے کومسلم یونی ورسٹیوں سے متعلق ہر صاحب ِعلم ودانش تک بلاقیمت پہنچانا چاہیے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کے دماغوں اوردلوں میں بصیرت اسلام کو راسخ کردے۔اہم بات یہ کہ اس علمی خاکے کے تحت تیار شدہ مواد کو مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوں اورکالجوں کوسرکاری طورپر پیش کیا جائے اوریہ درخواست کی جائے کہ وہ اس کو ممکنہ حد تک داخل نصاب کرنے میں تذبذب نہ کریں۔

راجی الفارقی نے ان اقدامات کے ساتھ کچھ وسائل بیان کیے ہیں،جو اسلامی تشکیل علوم کے لیے لازمی ہیں :

  1. کانفرنسیں اورسیمی نار: متعلقہ علوم کے ماہرین کو اکثر وبیش تر کا نفرنسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ کسی بھی مضمون سے متعلق مسائل کوزیر بحث لاکران کا حل تلاش کیا جاسکے۔ امت کے مسئلے کا حل دراصل یہی ہے کہ اس کو درپیش مشکلات پر بیش تر علوم بیک وقت روشنی ڈال سکیں۔ ایک ہی مضمون میں تخصیص رکھنے والے ماہرین اورعلما کے مابین بھی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہنی چاہییں، تاکہ وہ انفرادی کاوشوں میںایک دوسرے سے تعاون کرسکیں ۔
  2. اساتذہ کی تربیت کا اہتمام: ان اقدامات کے مطابق درسی کتب اورضروری مواد کی تیاری کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ معلّمین کی تدریسی صلاحیت کی تربیت کی جائے، تاکہ وہ تیار شدہ نصاب کو بخوبی پڑھا سکیں۔ جوعلما اس نصاب کی تیاری کی ذمہ داری انجام دیں ان کو تدریسی عملے سے ملاقات کرنے اورگفت وشنید کا موقع دیاجانا چاہیے، تاکہ وہ مضامین اورکتب میں شامل غیر تحریری مضمرا ت، نظریات اور اُصولوں پر اظہار وتبادلۂ خیال کرسکیں۔ مزید یہ کہ ایسی نشستیں نصاب کے سلسلے میں ممکنہ تدریسی مسائل کو سامنے لانے اورہدف تک پہنچانے میں نہایت مدد گار ثابت ہوں گی۔

مصر میں ۳۰ برسوں تک استبداد وآمریت کے بَل پر حکومت کرنے والے صدر محمد حسنی مبارک کو آخر کار ۱۸ دنوں کے عوامی مظاہروں کے بعد ۱۱ فروری ۲۰۱۱ء کو استعفا دینا پڑا۔ مغربی میڈیا او ر مغرب کے پروردہ عرب اخبارات و رسائل کے اسلام اور اسلامی تحریک کے خلاف زبردست   منفی پروپیگنڈے کے باوجود ملک میں ہونے والے تین مراحل میں عوامی انتخابات کا نتیجہ ۲۰۱۲ء  میں سامنے آیا، تو معلوم ہوا کہ ’اخوان المسلمون‘ نے ۴۷ فی صد (۲۳۵) اسمبلی نشستیں اور دوسری  بڑی اسلامی جماعت ’النور‘ نے۲۵ فی صد (۱۲۵) نشستیں حاصل کیں اور مغرب کے گماشتوں سیکولر رہنماؤں اور پارٹیوں کا صفایا ہوگیا۔ عوامی انتخابات میں اسلام پسندوں کی یہ عظیم الشان فتح ان کی ۸۲ سالہ تعمیری جدوجہد ، فلاحی خدمات اور صبر آزما کو ششوں کا نتیجہ ہے۔ شاہ فاروق سے لے کر  حسنی مبارک تک سب نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کی اور اس کے کارکنوں کو مسلسل قیدو بند اورتشد دکا نشانہ بنائے رکھا۔ ان کا جرم کیا ہے؟ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ۔ اور اس سے بڑاگناہ ہے ان کی خدمت خلق کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور اللہ پر ایمان و توکّل ۔

اخوان المسلمون کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب مصر میں وطن پرستی، قوم پرستی اور  مغرب پرستی شروع ہو گئی تھی اور روایتی اسلام اور تجدد کے درمیان ٹکراؤ شروع ہو گیا تھا، جس میں  شیخ علی عبدالرازق کی۱؎  الاسلام واصول الحکم، ڈاکٹر طہٰ حسین کی ۲؎ الشعر الجاھلی،   قاسم امین ۳؎ کی تحریر المرأۃ اور المرأ ۃ الجدیدۃ نے خاص رول ادا کیا۔ جس میں سید جمال الدین افغانی،۴؎ مفتی محمد عبدہٗ ،۵؎ سید رشید رضا،۶؎مصطفی صادق الرافعی۷؎ محمد فرید وجدی۸؎ اور      محب الدین الخطیب ۹؎ جیسے اسلام پسندوں کی کوششیں بظاہر دب کر رہ گئیں۔

۱- امام حسن البنّا شھید (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ)

ا مام حسن البنّا کی قیادت میں ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء تک اخوان ایک نظریے اور تحریک کی شکل میں ظاہر ہوئے ۱۰؎اور پہلا دعوتی مرحلہ انتہائی خاموشی سے عمل میں آیا۔ دوسرا مرحلہ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک ہے۔ اس میں اخوان نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ، سماجی اور اقتصادی پروگراموں میں توسیع کی ، ثقافتی اور جسمانی تربیت کا اہتمام کیا اور پورے ملک میں آزادی اور اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ نتیجے کے طور پر حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور انگریزوں نے ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی۔ حکومت پر دباؤ ڈالا اور ہفتہ وار التعارف، الشعاع اور ماہنامہ المنار پر پابندی عائد کردی۔۱۱؎ آپ کی قیادت میں تیسرا مرحلہ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۸ء پر مشتمل ہے جس میں اخوان نے مصر کی سرحدوں سے نکل کر عالم عرب میںا پنی شاخیں قائم کیں۔ ۵ مئی ۱۹۴۶ء کو الاخوان المسلمون کے نام سے تحریک نے پہلا روز نامہ شائع کیا، جس سے استعماری حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ انگریزوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ ہوا اور ان سے براہِ راست تصادم ہوا۔ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو عرب لیگ کے زیر اہتمام فلسطین میں عرب فوجیں اُتریں اور یہودیوں کے خلاف جہاد شروع ہو گیا۔ اخوان نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری کے خوب جو ہر دکھائے۔ و زیر اعظم نقراشی پاشا نے ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو مارشل لا آرڈی ننس نمبر ۶۳ کے ذریعے اخوان کو خلافِ قانون  قرار دے کر پورے ملک میں تشدد کا ماحول پیدا کردیا اور خود ایک نوجوان کی گولی کا نشانہ بن گیا۔  نئے وزیر اعظم عبدالہادی پاشا کے دور میں اخوان کے ہزاروں کا رکن گرفتار کر لیے گئے اور امام  حسن البنّا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو خفیہ پولیس نے شبان المسلمین کے دفتر کے سامنے سر بازار شہید کردیا۔۱۲؎

۲- حسن بن اسماعیل الھضیبیؒ(۱۸۹۱ئ-۱۹۷۲ئ)

 ۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو اخوان نے ممتاز قانون دان حسن بن اسماعیل الہضیبی کو اپنا دوسرا مرشد عام منتخب کیا۔۳؎۱شیخ ہضیبی نے بحیثیت قائد، حکومتی جبروتشدد کے ردعمل میں تحریک اسلامی کو جوابی تشدد سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن و سنت کے دلائل پیش کیے اور اخوانی نوجوانوںکے ایک انتہا پسندگروہ کی تفہیم کے لیے آپ نے ایک کتاب دعاۃ لاقضاۃ ( ہم داعی ہیں، داروغہ نہیں) تصنیف کی، اور تمام آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود ملک میں اسلامی اور جمہوری اقدار کی بحالی پرڈٹے رہے۔ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما اسٹیج کیا گیا، اور اس کا ’الزام‘ اخوان پر لگاتے ہوئے اس کے کار کن گرفتار کر لیے گئے جن کی تعداد ۵۰ ہزار تک پہنچی۔ ۷نومبر ۱۹۵۴ء کو فوجی عدالت نے چھے ا خوانی رہنماؤں کو سزاے موت دے د ی۔ وہ چھے رہنما    یہ تھے: ۱- عبدالقادر عودہ ، نائب مرشد عام ، ۲-شیخ محمد فرغلی، مکتب الارشاد کے رکن رکین،      ۱۹۵۱ء میں معرکۂ سویز میں اخوانی دستوں کے کمانڈر ، جن کے سر کی قیمت انگریزی فوج کی ہائی کمان نے ۵ ہزار پونڈ مقرر کی تھی، ۳-یوسف طلعت، شام کی تنظیم کے نگران اعلیٰ، ۴- ابراہیم الطیب ، قاہرہ زون کی خفیہ تنظیم کے سر براہ، ۵-ہنداوی دویر ایڈوکیٹ، ۶-عبداللطیف۔

جولائی ۱۹۶۵ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں تقریباً ۲۰ ہزار سے ۵۰ہزار تک اخوان جیلوں میںڈال دیے گئے جن میں ۷۰۰ سے ۸۸۰ تک خواتین بھی شامل تھیں۔ مرشد عام حسن الہضیبی کو تین سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ طویل مدت تک قیدوبند کی آزمایش سے رہا ہوئے تو ان کی صحت تیزی سے بگڑتی گئی اور ۱۹۷۲ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ شیخ الہضیبی کی زندگی میں اخوان المسلمون بڑے نازک مراحل سے دوچار ہوئی مگر مرشد عام کی فراست اور ایمانی استقامت نے تنظیم میں لغزش نہ آنے دی۔۱۴؎

۳- سید عمر تلمسانیؒ (۱۹۰۴ئ-۱۹۸۶ئ)

حسن الہضیبی کے انتقال پُرملال کے بعد اخوان کے باہم غور وخوض کے بعد سید عمر تلمسانی تیسرے مرشد عام مقرر ہوئے۔۱۵؎جمال عبدالناصر کے بعد محمد انور سادات کا دور مصر میں قدرے  نرمی کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ انھوںنے ناصری دور کی دہشت گردی اور ظلم وجور کا خاتمہ کیا اور  اخوانی رہنماؤں اور دوسرے قیدیوں کو بتدریج جیل خانوں سے رہا کیا ۔ سید عمر تلمسانی نے پورے دور میں تعلیمی اور تربیتی امور پر توجہ مرکوز رکھی۔ اسی دورمیں الاخوان کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں نے ’الجماعات الاسلامیہ‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ ۱۶؎اس کے رہنما ایک نابینا خطیب اور مبلغ  شیخ عمرعبدالرحمن تھے۔ حکومت نے اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی لگادی اور     شیخ عمرعبدالرحمن گرفتار کر لیے گئے اور ہزاروں کا رکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، بالآخر انھیں ملک چھوڑ نا پڑا۔ ۱۹۷۹ء میں اسماعیلیہ میں الفکر الاسلامی کے موضوع پر سیمی نار ہوا، اس میں صدر مملکت نے اخوان پر اعتراضات والزامات کی بوچھاڑ کردی، جس کا سید تلمسانی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۱۷؎۱۹۸۱ء میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اخوان بلاجواز نشانہ بنے۔ اخوان سے اختلاف رکھنے والے افراد کے ہاتھوں صدر سادات کے قتل کے بعد ملک کی باگ ڈور حسنی مبارک کے ہاتھوں میں آئی۔

۱۹۸۶ء میں مرشد عام کبرسنی اور نقاہت کے باعث جوارِ رحمت الٰہی میں چلے گئے۔

۴-استاذ محمد حامد ابو النصرؒ (۱۹۱۳-۱۹۹۶ئ)

۱۹۸۶ء میں استاذ محمد حامد ابو النصرؒ کو چوتھے مرشد عام کی ذمہ داری سونپی گئی۔۱۸؎استاد محمد حامد کے ۱۰ سالہ دورِ قیادت میں اخوان نے سیاسی سطح پر غیر معمولی کا میابی حاصل کی۔ اپریل ۱۹۸۷ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر مصری پارلیمنٹ میں۳۶ اخوان امیدوار کامیاب ہوکر شامل ہوئے۔ ۱۹۸۹ء کی مجلس شوریٰ کے وسط مدتی اور مقامی انتخابات میں بھی اخوان نے حصہ لیا۔

۱۹۹۱ء میں اخبار الاھرام کے ایک ذیلی ادارہ سنٹر فارپولٹیکل اینڈ اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز نے مصر کے سیاسی وسماجی حالات پر ایک معروضی تجزیہ پیش کیا۔ اس رپورٹ میں اسلامی قیادت کی مقبولیت اور اخوانی کا رکنوں کے عوامی اثرات پرا ضطراب کا اظہار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں  پارلیمانی انتخابات سے قبل ہی صدر حسنی مبارک نے اخوان کے ساتھ پھر داروگیر کا معاملہ کیا، اور  بیش تر اخوانی رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے کہ پہلی بار اس کیس میں ملک کے مختلف طبقوں اور تمام احزاب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ۳۵۰ وکیلوں نے اخوان کے دفاع کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ۱۹؎

استاذ محمد حامد ابوالنصرؒ کے دور میں اخوان نے خلیجی ممالک اور عالم اسلام کے مسائل پر بڑا جرأت مندانہ اور معتدل موقف اختیار کیا اور تمام حالات کا سنجیدہ تجزیہ کر کے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ استاذ ابوالنصرؒ کاپہلا بیان کویت پر عراق کے حملے کے دن ۲؍اگست ۱۹۹۰ء کو ہی شائع ہوا، جس میں عراقی جارحیت کی مذمت اور جان ومال کی تباہی پر اظہار افسوس کیا گیا تھا۔ ۲۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو مرشدعام نے امریکی حملے کے تیسرے دن ایک اور بیان جاری کیا جس میں امریکی حملے اور   متحدہ فوجی قوتوں کی مذمت کے ساتھ اس بحران کا ذمہ دار عرب حکام کو قرار دیا۔ تیسرے مرحلے میں  عرب حکومتوں سے عوام کو آزادیِ راے اور صحت مند شورائی نظام کے قیام کی درخواست کی۔

چوتھے مرشد عام استاذ محمد حامد ابو النصرؒ نے ۱۰ سال اخوان المسلمون کی بھر پور قیادت کرکے ۲۹ شعبان ۱۴۱۶ ھ مطابق ۲۰ جنوری ۱۹۹۶ء کو عالم آخرت کی راہ لی۔ ۲۰؎

۵-استاذ مصطفی مشھورؒ (۱۹۲۱ئ-۲۰۰۲ئ)

استاذ ابو النصرؒ کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد، تمام اخوانی رہنماؤں نے پانچویں مرشد عام کی حیثیت سے استاد مصطفی مشہور کے نام پر اتفاق کرلیا۔۲۱؎استاد مصطفی مشہور ایک ادیب ، مصنف، صحافی اور خطیب بھی ہیں۔ ان کی دسیوں کتابیں اور سیکڑوں مقالات شائع ہوچکے ہیں ۔ استاد مصطفی کاسب سے اہم فکری کارنامہ قضیۂ تکفیر کا تجزیہ ہے، یعنی اسلام کے انقلابی تصور کو نہ ماننے والوں اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے غفلت کرنے والوں کو کافر یا مشرک قرار دینا۔ اس مسئلے پر اخوان کے دوسرے مرشد حسن اسماعیل ہضیبی نے فقہی اور قانونی پس منظر میں کلام کیا ہے، مگر آپ نے دعوتی اور سماجی تناظر میں دلائل کے ساتھ بات کی ہے جس کے مختصر نکات یہ ہیں:

۱- دوسروں کے ایمان واسلام کے بارے میں فیصلہ دینا کسی مسلمان پرواجب نہیں ہے۔

۲- ہرمسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو محترم ہے۔ اس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

۳- راہِ حق کی آزمایشیں انسانی غلطیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سنت الٰہی کاحصہ ہیں۔

۴-کفر کے فتووں سے عام مسلمانوں میں نفرت اور وحشت پیدا ہوتی ہے اور وہ دعوت کے دشمن بن جاتے ہیں۔

فاضل مصنف نے اس فکری انحراف کے اسباب پر مفصل گفتگو کی ہے، جن کا اختصار اس طرح ہے: (الف) سطحی اور سرسری علم (ب) اصول اور فروع میں عدم امتیاز(ج) افراط و تفریط (د)عجلت اور بے صبری (ہ) تربیت کے بجاے سیاسی طریقے پر زور (و) اشخاص اور قائدین پر انحصار۔

آپ کا انتقال ۸ رمضان المبارک۱۴۲۲ھ مطابق۱۴؍نومبر۲۰۰۲ء کو ہوا۔۲۲؎

۶-المستثار محمد مامون الھضیبیؒ(۱۹۲۱ئ-۲۰۰۴ئ)

استاد مصطفی مشہور کی وفات کے بعد ان کے نائب مرشد عام محمد مامون الہضیبی چھٹے مرشد عام منتخب ہوئے۔ ۲۳؎اخوان المسلمون کا ابتدائی دور دعوت و تبلیغ کے ساتھ، کش مکش اور جہاد کا دور ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا و آزمایش کا دور ہے۔ شیخ عمر تلمسانی.ؒ کے دور سے سیاسی نظام میں تبدیلی ہوئی، حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی اور دوسرے محاذوں پر تقویت دینے میں محمدمامون کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ تقریباً ۱۴ مہینے تک مرشد عام کی   ذمہ داری نبھانے کے بعد محمد مامون الہضیبی جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء میں انتقال فرماگئے۔

۷- استاذ محمد مھدی عاکف (۱۹۲۸ئ)

ساتویں مرشد عام کی شکل میں اخوان نے استاد محمد مہدی عاکف کو منتخب کیا۔۲۴؎۶ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کو مہدی عاکف نے مصر میں سیاسی اصلاحات کی دعوت دی اور افغانوں، عراقیوں اور فلسطینی عوام کی جدو جہد اور آزادی کی بھرپور حمایت کی۔ ملک کے اندرونی بحران پر مرشد عام نے گہری تشویش ظاہر کی۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ء کے پارلیمانی انتخابات میںمحمدمہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون کے سیاسی کا رکنوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور اپنی حیران کن فتح سے مغربی میڈیا اور عرب دنیا کو ششدر کردیا۔ اسلام پسندوں کی اس انتخابی پیش رفت نے صدر حسنی مبارک، امریکا اور دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو شش و پنج میں مبتلا کردیا۔۲۵؎

مرشد عام محمد مہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون مصر اور عالمِ عرب میں  احیاے اسلام کی جدو جہد میں مصروف رہی۔ بدلتے حالات میں دعوت وا قامتِ دین کی نئی راہیں انھوں نے تلاش کیں۔ آج وہ پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ آخر کار ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء کو مرشد عام محمد مہدی عاکف نے اپنی خرابی صحت کی بنا پر انتخاب عام کروایا اور نئے مرشد کے ہا تھوں میں تنظیم کی باگ ڈور سونپ دی۔

۸-ڈاکٹر محمد البدیع

اخوان المسلمون کے نو منتخب آٹھویں مرشدعام ڈاکٹر محمدا لبدیع نے گذشتہ ایام میں ہزاروں گرفتار ہونے والے افراد پر اظہار افسوس کیا۔ ۲۶؎ ان قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد البدیع نے۱۶ جنوری ۲۰۱۰ ء کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: ’’اخوان کبھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی مخالفت براے مخالفت پریقین نہیں رکھتے۔ خیرمیں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا تے ہیں‘‘ ۔

اپنی پوری زندگی میں اللہ کی عبادت کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں کواس کی روشنی سے منور کرنا صرف اور صرف اخوان کی دعوت تھی۔ ۱۹۲۸ء میں قاہرہ میںپانچویں کانفرنس میں اخوان کے مشن اور دعوت کا تعارف کراتے ہوئے حسن البنّا نے فرمایا: ’’الاخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے۔ اس لیے کہ اخوان اسلام کی ابتدائی صورت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے ہیں اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے اصل سرچشموں کی طرف بلاتے ہیں۔ یہ ایک سنی مسلک بھی ہے، کیوں کہ ان تمام چیزوں میں بالخصوص عقائد وعبادات میں لوگ سنت رسولؐ پر گامزن ہیں۔

  •  یہ اہلِ تصوف کا ایک گروہ بھی ہے، کیوں کہ یہ خیرکی اساس، دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی، عمل پرمداومت، مخلوق سے در گزر ، اللہ کے لیے محبت اور نیکی کے لیے یگانگت کو ضروری سمجھتی ہے۔
  •  یہ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے، کیوں کہ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی اصلاح کی جائے، اس کی خارجہ پالیسی میں ترمیم کی جائے، رعایا کے اندر عزت واحترام کی روح پھونکی جائے اور آخری حد تک ان کی قومیت کی حفاظت کی جائے۔
  •   یہ ایک علمی وثقافتی انجمن بھی ہے، اس لیے کہ اخوان کے کلب فی الواقع تعلیم ومذہب کی درس گاہیں اور عقل و روح کو جِلا دینے کے ادارے ہیں۔
  •  یہ ایک معاشرتی اسکیم بھی ہے، کیوں کہ یہ معاشرے کی بیماریوں پر دھیان دیتی، ان کا علاج دریافت کرتی اور امت کو صحت مندر کھنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس طرح تصور اسلام کی جامعیت نے ہماری فکر کو اصلاحی پہلوؤں کا جامع بنادیا ہے۔ چنانچہ اخوان نے ملک کے ہر طبقے کے لیے ہمہ جہتی خدمات انجام دیں۔ اخوان نے ایک طرف تعلیم یافتہ طبقے پر توجہ دی، تو دوسری طرف کسانوں اور مزدوروں کے طبقوں میں سرگرمیاں تیز کردیں۔ قرآن وحدیث سے اسلام کا صحیح اور جامع تصور پیش کیا۔ طلبہ اور اساتذہ کے اندر دین کی روح پھونکی جس سے ہوا کا رخ ہی بدل گیا اور اہل علم وادب اسلامی نظام کی قصیدہ خوانی میں لگ گئے کہ: ’’اسلام عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی، وطن بھی ہے اور نسل بھی ، دین بھی ہے اور ریاست بھی، روحانیت بھی ہے اور عمل بھی ، قرآن بھی ہے اور تلوار بھی‘‘۔

میدان صحافت بھی اخوان کی توجہ کا مرکز رہا۔روز نامہ اخوان المسلمون،ماہنامہ المنار، ہفتہ روزہ التعارف، الشعاع، النذیر، الشھاب، الدعوۃ، المباحث جاری کیے۔  تعلیم کے میدان میں اخوان کی خدمات وسیع پیمانے پر ہیں۔ مثلاً لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے علیحدہ فنی درسگاہیں قائم کرنا، مزدوروں او ر کسانوں کے لیے شبینہ مدارس جاری کرنا، کمسن مزدور بچوں کے لیے تعلیم و تر بیت کے شعبے قائم کرنا، صنعتی تعلیم کے مراکز قائم کرنا۔ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے معاشی کمپنیاں قائم کیں۔ طبی خدمات کے پیش نظر صرف قاہرہ میں ۱۷ شفا خانے تھے۔ زراعت کے میدان میں بھی قابل قد رخدمات انجام دیں، نیز معاشرتی خدمات کے لیے ایک مستقل بورڈ قائم تھا۔۲۷؎

اخوان المسلمون کی جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہوئے جنھوں نے جملہ مسائل پرا سلام کی مدلل اور بے لاگ ترجمانی کی۔ ان ادیبوں نے مصر کے علاوہ شام، لبنان ، سعودی عرب، کویت، قطر، عراق ، فلسطین، اردن عالم عرب اورعالم اسلام کے دوسر ے ملکوں میں اپنی تحریروں کے تراجم کے ذریعے ہند وپاک کی اسلامی فکر کے ارتقا پر اپنے اثرات مرتب کیے ۔

سید قطبؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ)

پورا نام سید قطب ابراہیم شاذلی تھا۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۶ کو بالاے مصر کے اسیوط شہر کے گاؤں موشا میںپیدا ہوئے۔ والد ابراہیم قطب، مصطفی کامل کی پارٹی الحزب الوطنی کے رکن تھے۔ دارالعلوم قاہرہ سے بی اے ایجو کیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایجو کیشن میں ایم اے کی ڈگری امریکا کے ولسنزٹیچرز کالج سے لی۔ امریکا کے قیام میں آپ نے مغربی تہذیب کی بربادی کابچشم خود مشاہدہ کیا اور اسلام پرا ن کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوا۔

ابتدا میںطہٰ حسین ، عباس محمود العقاد اور احمد حسن الزیات سے بڑے متاثر تھے، مگر بعد میں ان کے اسلوب اور افکار کے مخالف اور ناقد بن گئے۔ ۱۹۵۳ء میں الاخوان المسلمون کے مدیرر ہے، مکتب الارشاد کے رکن منتخب ہوئے ۔ بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کا نفرنس میں شرکت کی۔ معاشرتی بہبود کے سرکل کی طرف سے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے۔ انھیں ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی دی گئی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۲ ہے: oفی ظلال القرآن oالعدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام oمشاھد القیامۃ فی الاسلام oالتصویر الفنی فی القرآن oالاسلام العالمی والاسلام oالمدینۃ المسحورۃ oالقصص الدینیۃoحلم الفجر oالشاطئی المجھول۲۸؎

عبدالقادر عودۃ (م:۱۹۵۴ئ)

ممتاز قانون دان شیخ عبدالقادر عودہ، اخوان المسلمون کے رہنما تھے۔ شاہ فاروق کے زمانے میں مصری عدالت کے جج مقرر ہوئے، مگر غیرالٰہی قانون کے مطابق فیصلوں کے نفاذ کے سبب اس منصب سے استعفا دے دیا۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف تھے، لیکن آپ کی کتاب التشریح الجنائی الاسلامی(اسلام کا قانون فوجداری ) نے سب سے زیادہ شہرت پائی۔ آپ کی دیگر تصانیف اس طرح ہیں: 

oالاسلام وأضاعناالقانویۃ (اسلام اور ہمارا قانونی نظام) oالاسلام وأوضا عنا السیاسیۃ(اسلام اور ہماراسیاسی نظام ) oالمال والحکم فی الاسلام (اسلام میںمالیات اور حکمرانی کے اصول) oالاسلام حائر بین جھل أبنائہ وعجز علمائہ( اسلام اپنے فرزندوں کی جہالت اور اپنے علما کی کوتاہ دستی پر حیران ہے! ۲۹؎ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جن چھے اخوانی رہنماؤں کو پھانسی کی سزادی گئی ان میں عبدالقادر عودہ شہید بھی تھے۔

مصطفٰی محمد الطحان

۱۹۳۸ء میںلبنان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں استنبول یونی ورسٹی ترکی سے کیمیکل انجینیرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں عالم عرب میں موجودہ استنبول یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم قائم کی اور انھیں احیاے اسلام کے لیے جد وجہد کرنے پر اُبھارا۔  الاتحاد اسلامی العالمی للمنظمات الطلابیہ (IIFSO)کو یت کی تاسیس میںپیش پیش رہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔

فکر اسلامی اور دعوتی وجہادی تحریکات پر بیسیوں کتابیں لکھیں، جن میں سے چند یہ ہیں: oالفکر الحرکی بین الا صالۃ والانحراف(تحریکی فکر۔ بنیاد پرستی اور انحراف کے درمیان)oالحرکۃ الاسلامیہ الحدیثۃ فی ترکب(ترکی میں جدید اسلامی تحریک) oالقومیۃ بین النظریہ والتطبیق(قومیت: نظریہ اور نفاذ ) oالنظام الاسلامی منھاج متفرد(اسلام: ایک منفرد نظام) oالمرأۃ فی موکب الدعوۃ (دعوت دین اور خواتین ) oنظرات فی واقع المسلمین السیاسی (مسلمانوں کی سیاسی صورت حال پر چند مباحث) ۳۰؎

ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی

آپ ۱۳۵۴ھ /۱۹۳۵ء میں عراق میںپیدا ہوئے۔۱۳۷۸ھ/ ۱۹۵۹ء میں جامعۃ الازہر قاہرہ سے کلیتہ الشرعیہ سے بی اے ، ایم اے اور اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامی فقہ آپ کی دل چسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ آپ کی تصانیف اس طرح ہیں: oالاجتہاد والتقلید فی الاسلام (اسلام میں اجتہاد اور تقلید) o حقوق المتھم فی الاسلام (اسلام میں ملزم اور متہم کے حقوق) oادب الاختلاف فی الاسلام(اسلام میں اختلاف کے اصول) oاصول الفقہ الاسلامی منھج بحث و معرفۃ (اسلامی فقہ کے اصول اور منہا جیات) oالأزمۃ الفکریۃ المعاصرۃ ( معاصر فکری بحران) ۳۱؎

ڈاکٹر عماد الدین خلیل

موصوف عراق کے شہر الموصل میں ۱۳۵۸ھ/ ۱۹۳۹ء میںپیدا ہوئے۔ جامعہ شمس قاہرہ سے ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء میں تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آج کل صلاح الدین یونی ورسٹی اردبیل عراق کے آرٹس کالج میں اسلامی تاریخ ، منہاجیات و فلسفۂ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ آپ ۵۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور سیکڑوں مقالات ومضامین لکھ چکے ہیں۔ آپ کی چند کتابیں یہ ہیں: oآفاق قرآنیہ ( قرآن آفاق) o العلم فی مواجھۃ المادیۃ (سائنس مادیت کے مقابلے میں ) o حول اعادۃ تشکیل العقل المسلم (فکر اسلامی کی تشکیل جدید) oالتفسیر الاسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تفسیر) o دراسۃ فی السیرۃ (سیرت طیبہ پر ایک مطالعہ ) ۳۲؎

ڈاکٹر عبدالحمید احمد ابو سلیمان

سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں شوال ۱۳۵۵ھ /دسمبر۱۹۳۶ء میں آپ پیداہوئے۔ قاہر ہ کالج آف کامرس سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۷۳ء میں پنسلوانیا یونی ورسٹی سے اسلام اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی اہم تحریر یں یہ ہیں: oقضیۃ المنھجیۃ فی الفکر الاسلامی (فکر اسلامی میںمنہاجیات کا مسئلہ ) oأزمۃ العقل المسلم (فکر اسلامی کا بحران )۳۳؎

ڈاکٹر فتحی یکن

آپ کی پیدایش طرابلس میں ۱۹۳۳ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم المعہد الامریکی سے حاصل کی۔ ۱۹۷۳ء میں آپ نے کراچی یونی ورسٹی پاکستان سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۲ء میں لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ دعوت و تحریک الاسلام کے مختلف موضوعات پرا ٓپ کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:oالاسلام فکرۃ وحرکۃ وانقلاب(اسلام،نظریۂ تحریک اور انقلاب ) o التربیۃ الوقائیۃ فی الاسلام (اسلام میں احتیاطی تربیت کا تصور) oمشکلات الدعوۃ والداعیۃ(دعوت اور داعیان کرم کے مسائل) oالصحوۃ الاسلامیہ مقوماتھا ومعوقاتھا(اسلامی بیداری، فرائض اور رکاوٹیں)۳۴؎

ڈاکٹر سعید رمضانؒ (۱۹۲۶ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر سعید رمضان مصر کے شہر طنطا میں ۱۲؍اپریل۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ اخوانی رہنمااور عالم ڈاکٹر البہی الخولی کے ہاتھوں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ نوجوانی میں جلاوطنی کے چند برس کراچی، پاکستان میں گزارے، جہاں پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے قربت پیدا ہوئی۔ آپ نے ۱۹۵۹ء میں کولون یونی ورسٹی جرمنی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رمضان نے عالمِ عرب، عالمِ اسلام اور یورپ کے بیش تر ملکوں میں اخوان کی فکر ، طریق کار اور اصولوں کو عام کیا۔ مجلہ شہاب کے بعد قاہرہ سے ماہنامہ المسلمون نکالا۔آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:mThree Major Problems Confronting the World of Islam  (عالم اسلام کو در پیش تین اہم مسائل) ۳۵؎  mIslamic Law:Its Scope and Equity  (اسلامی قانون: امکانات اوراطلاق)

پروفیسر محمد قطب

استاذ محمد قطب سید قطب شہید کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پیدایش اسی خانوادہ میں ۲۶؍اپریل ۱۹۱۹ء کو ہوئی ۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تحصیل کی۔ اس کے بعد ایجوکیشن میںڈپلو ما اور ایجو کیشن سائیکالوجی کا کورس مکمل کیا۔

پروفیسر قطب کامیدان کار ادب اور تصنیف کا رہا۔ آپ نے اسلام،دعوت اسلامی اور مسلمانان عالم کے موضوعات پر دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں: oالانسان بین المادیۃ والاسلام(انسان مادہ پرستی اور اسلام کے درمیان) oمنھج الفن الاسلامی(اسلامی فن کی منہاجیات) oفی النفس والمجتمع (نفسیات اور معاشرے کا مطالعہ) oالتطور والشبات فی الحیاۃ البشریۃ(انسانی زندگی  میں جمود اور ارتقا) oقبسات من الرسول (رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی چند جھلکیاں)۳۶؎

زینب الغزالیؒ (۱۹۱۷-۲۰۰۵ئ)

اخوان المسلمون کی اہم ادیبہ ومصنفہ کی پیدایش ۲جنوری ۱۹۱۷ء کوہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اور ثانوی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں سے علم حدیث، تفسیر اوردعوہ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ ۱۸ سال کی عمر میں ۱۹۳۶ء میں آپ نے ’جماعۃ السیدات المسلمات‘ کی بنیاد رکھی۔ا ٓپ کی خود نوشت ایام من حیاتی (رودادِ قفس، ترجمہ: خلیل احمد حامدی) قید وبند   کے ایام سے متعلق ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اخوان کے ترجمان الدعوۃ، اور دوسرے   رسالہ لواء الاسلامکے ذریعے قلمی جہاد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ عالم اسلامی کی یہ معروف معلمہ ، مبلغہ ۸؍اگست ۲۰۰۵ء کو خالق حقیقی سے جاملیں۔۳۷؎

شیخ محمد الغزالیؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۶ئ)

مصر کے ممتاز عالم ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء میں بحیرہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ محمد الغزالی نے ۱۹۴۱ء میں جامعۃ الازہر سے فراغت حاصل کی۔ مصر میں مساجد کو نسل کے ڈائریکٹر ، اسلامی دعوۃ کے ڈائریکٹر جنرل اور وزارت اوقاف میں انڈر سکریٹری کی حیثیت میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ شیخ محمدا لغزالی نے کم وبیش ۴۰ کتابیں تصنیف کیں۔ چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں:o تأملات فی الدین والحیاۃ(دین اور زندگی کے چند مسائل پر غور وفکر) oرکائز الایمان  بین العقل والقلب(عقل وقلب کے درمیان ایمانی ذخیرے) oعقیدہ المسلم (مسلم کا عقیدہ) oالاسلام والطاقات المعطلۃ (اسلام اور معطل قوانین)oمن ھنا نعلم (یہاں سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے)۳۸؎

ڈاکٹر مصطفٰی السباعیؒ (۱۹۱۵-۱۹۶۴ئ)

شیخ مصطفی السباعی علما کے خانوادہ میں شہر حمص میں پیدا ہوئے۔ جامعۃ الازہرمیں داخلہ لے کر آپ نے مصر کی اسلامی وسیاسی جدو جہد میں بھر پور حصہ لیا۔ آپ کی کتابیں اس طرح ہیں: oاشتراکیہ الاسلام (اسلام کا تصور اشتراکیت) oالسیرۃ النبویۃ ۔دروس و عبر (سیرت نبویؐ ، عبرت ونصیحت کا خزینہ) oمن روائع حضارتنا (ہماری تہذیب کے   تابناک پہلو) oالمرأۃ بین الفقہ والقانون(عورت اسلامی فقہ اور جدید قوانین کے تناظر میں)۔ آپ نے تین معروف علمی جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دیےoالمنار oالمسلمون oحضارۃ الاسلام۔ ۳۹؎ 

عبدالبدیع صقر

عبدالبدیع صقر ابراہیم، اخوان المسلمون کے سابقوں الاولون میں سے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں امام حسن البنّا سے ملاقات ہوئی تو ان کی فکر اور شخصیت کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ شیخ صقر نے ۱۹۴۰ء میںاپنی معروف کتاب کیف ندعوا الناس؟  تصنیف کی او ر دعوت دین کے طریقۂ کا ر پر کھل کر گفتگو کی۔ آپ نے انفرادی تزکیہ و تربیت پر زیادہ زور دیا اور اسے کلیدِ انقلاب قرار دیا۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں:oلأخلاق للبنات( لڑکیوں کا اخلاق) oالتجوید و علوم القرآن  (تجوید اور علوم قرآن) oالتربیۃ الأساسیۃ للفرد المسلم(مسلمان کی بنیادی تربیت) oرسالۃ الایمان oالوصایا الخالدۃ (دائمی نصیحتیں)۔۴۰؎

عبد الفتاح ابوغدّہؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۷ئ)

شیخ عبدالفتاح بن محمد بشیر بن حسن ابوغدّہ شمالی شام کے شہر حلب الشہباء میں ایک دین دار تاجر گھرانے میںپیدا ہوئے۔ ابتدا ئی تعلیم اسی شہر میں المدرسۃ العربیۃ الاسلامیہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کلیۃ الشریعۃ جامعۃ الازہر میں داخل ہوئے اور ۱۹۴۴-۱۹۴۸ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دعوتی وتبلیغی میدان میںشیخ ابو غدّہ کی شخصیت بڑی ممتاز تھی۔ آپ کی چند مشہور کتابیں یہ ہیں: o العلماء العزاب الذین أ ثر والعلم علی الزواج(شادی پر علم کو  ترجیح دینے والے علما) oقیمۃ الزمن عند العلمائ(علما کے نزدیک و قت کی قدروقیمت) oالرسول المعلم واأسا لیبہ فی التعلیم (معلم انسانیت اوران کے تعلیمی طریقے) oامراء المومنین فی الحدیث(مسلمان حکمران حدیث کی روشنی میں)۔ ا۴؎

محمد محمود الصواف ؒ (۱۹۱۵ئ-۱۹۹۲ئ)

محمد محمود الصواف اوائل شوال ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء شمالی عراق کے شہر الموصل میںپیدا ہوئے۔ آغاز عمر ہی سے طلب علم کے بڑے دل دادہ تھے۔ علوم شریعت کی تحصیل کے لیے جامعۃ الازہر کا رُخ کیا اور چھے سالہ نصاب کی تکمیل تین سال ہی میں کرڈالی۔ ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۱۳ھ مطابق ۹؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ موصوف نے مختلف علمی ودینی موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں چند کے نام یہ ہیں: oالمسلمون و علم الفلک ( علم فلکیات اور مسلمان) oالقیامۃ رای العین (قیامت کا چشم دید منظر) oزوجات النبی الطاھرات (اُمہات المومنینؓ) oرِحلاتی الی الدیار الاسلامیہ (سفرنامہ عالم اسلام)۔ ۴۲؎

ڈاکٹر نجیب الکیلانی (۱۹۳۱ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر نجیب الکیلانی ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میںایک مصری گاؤں شرشابہ میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں طنطا سے ثانویہ کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ پھر میڈیکل کا لج قاہرہ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۰ء میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ طبابت کے پیشے کے ساتھ تعمیری ، بامقصد ناول، ڈرامے اور قصے بھی برابر لکھتے رہے۔ ڈاکٹر کیلانی نے ۷۰ سے زائد کتابیں لکھیں۔ ناول ، قصوں کے ساتھ شعر، تنقید، فکر اسلامی اور طب کے تمام پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔تصانیف: ارض الانبیائ، لیالی ترکستان، عمالقۃ الشمال وغیرہ اور تاریخی ناول میں مملکتہ الغیب، امرأۃ عبدالمتجلی، أقوال ابوالفتوح الشرقاوی بہت اہم ہیں۔ شاعری کے میدان میں عصر الشہدا ،أغانی الغرباء ،مدینۃ الکبائر وغیرہ اور تنقید میں الاسلامیہ والمذاہب الأدبیۃ ، مدخل الی الادب الاسلامی اور علی أسوار دمشق ، علی ابواب خیبر وغیرہ ڈرامے بڑے قابل قدر ہیں۔ ۴۳؎

اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے عمدہ نظم ونسق او ر جامع مکمل منصوبہ بندی ناگریز ہے۔  یہ دونوں اوصاف حالات کے تھپیڑوں ، شدائد و مظالم کے طوفان کا جم کر مقابلہ کرسکتے ہیں اور کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ عصرِحاضر میں اسلامی تحریکوں نے اس پہلو پر خصوصی توجہ دی ہے:

۱- تمام اسلامی تحریکوں نے تربیت و تزکیہ کے تمام پہلوؤں پر کافی توجہ دی ہے۔     تربیتی کارگاہوں کا انعقاد، عربی، اردو، انگریزی او ر دوسری مقامی و بین الاقوامی زبانوں میں   تربیتی کتب کی تصانیف اور ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم اس کا اہم حصہ ہیں۔    الاخوان المسلمون کی تربیتی ادبیات میں تزکیہ و تربیت سے متعلق کتب کی ایک طویل فہرست ہے۔

۲- اسلامی تحریکات میں فرد کی تربیت کی بنیادی اہمیت ہے، کیوں کہ اسلامی شریعت کا خطاب سب سے پہلے فرد سے ہے، اور افراد کی اصلاح و تزکیے کے ذریعے صالح اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔

۳- الاخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا شہیدؒ نے بیعت کے ۱۰ ناگزیر اجزا پر زور  دیا ہے جو دراصل اسلامی شخصیت کے عناصر ترکیبی ہیں: ۱-فہم ۲-اخلاص ۳-عمل ۴-جہاد ۵-قربانی ۶-اطاعت کیشی۷ -ثابت قدمی ۸-یکسوئی ۹- بھائی چارہ۱۰- باہمی اعتماد۔

۴- اخوان المسلمون نے فرد کے اخلاقی و روحانی تزکیے کے لیے جو نظام ترتیب دیا ہے اس میں متصوفانہ اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے عام فہم اور آسان الفاظ میں فرد کے اخلاقی اوصاف ومحاسن سے بحث کی ہے۔

۵- جماعت اسلامی ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش نے فر د کی تربیت و تزکیہ کا جو نظام ترتیب دیا، اس میں بنیادی اہمیت قرآن وحدیث کے براہ راست مطالعے کو حاصل رہی۔مولانا مودودی    کی تفسیر تفہیم القرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبرقرآن اور سید قطب کی تفسیر     فی ظلال القرآن کے اُردو ترجموں نے کا رکنوں کی تربیت پر زبردست اثرات مرتب کیے ۔

۶- الاخوان المسلمون کے تربیتی نظام میں اوراد و اذکار کا اہتمام ، وظائف ، نوافل، اور  تہجد گزاری شامل تھے۔ اور ’احتسابی چارٹ‘ کی خانہ پری تزکیۂ نفس کے لیے ضروری قرار دے دی گئی تھی۔

 

مقالہ نگار شعبہ علومِ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، بھارت میں استاد ہیں

حواشی و تعلیقات

۱-            شیخ علی عبدالرازق(۱۸۸۸ئ-۱۹۶۶ئ) کی مشہور تصنیف: الاسلام وأصول الحکم بحث فی الخلافۃ والحکمۃ فی الاسلام قاہرہ سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی۔

۲-            ڈاکٹر طہٰ حسین (۱۸۸۹ئ-۱۹۷۱ئ) مصر کے مشہور ناول نگار ۔ الشعر الجاھلی کے علاوہ مستقبل الثقافۃ فی مصر  بھی ا ٓپ کی کتاب ہے جس میں مغرب کی تقلید پر بڑا زور دیا گیا ہے

۳-            قاسم امین (۱۸۶۳-۱۹۰۸ئ) مصر کے معروف ادیب جن کو’ محرر المرأ ۃ‘ کا خطاب دیا گیا۔

۴-            سید جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)افغانستان کے شہر اسد آباد میںپیدا ہوئے۔ آپ کی کتابیں تاریخ الافغان ، رسالۃ الردّ علی الدھر یین طبع ہو چکی ہیں۔

۵-            مفتی محمد عبدہٗ(۱۸۴۹ئ-۱۹۰۵ئ)۔ رسالۃ التوحید، رسالہ الواردات، الاسلام و النصرانیۃ مع العلم والمدینۃ آپ کی اہم تصنیفات ہیں۔ اسکندر یہ میں آپ کی وفات ہوئی۔

۶-            سید محمد رشید رضا(۱۸۶۵ئ-۱۹۳۵ئ) نداء للجنس اللطیف، یسرا لاسلام وأ صول التشریع العام ، الوھا بیون والحجاز آپ کی اہم کتابیں ہیں۔

۷-            مصطفی صادق الرافعی(۱۸۸۱ئ-۱۹۳۷ئ) اعجاز القرآن البلاغۃ والنبوتہ اور تحت رأیۃ القرآن، ان کی معروف تصانیف ہیں۔ آپ کی طنطا میں وفات ہوئی۔

۸-            محمدفرید وجدی(۱۸۷۸ئ-۱۹۵۴ئ)کی پیدایش اسکندریہ میں ہوئی۔ دائرۃ معارف القرآن، الرابع عشر العشرین  آپ کا علمی اور تحقیقی کا رنامہ ہے۔

۹-            محب الدین الخطیب (۱۸۸۶ئ-۱۹۶۹ئ)، کتب: تاریخ مدینۃ الزھراء بالأندلس،الرعیل الاول فی الاسلام ، اتجاہ الموجات، الشریۃ فی جزیرہ العرب ۔

۱۰-         شیخ حسن البنّا کے احوال کے لیے، پڑھیے: امام حسن البنا، ایک مطالعہ، مرتبہ: عبدالغفار عزیز، سلیم منصور خالد، ۲۰۱۱ئ، منشورات، منصورہ، لاہور، پاکستان

۱۱-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت، خدمات، ۱۹۸۱ء ص ۴۳-۴۴

۱۲-         انور الجندی ، حسن البنّا الداعیۃ ، الامام المجدد اردو ترجمہ محمد سمیع اختر حسن البنّا شہید، ۱۹۹۱ئ،ص ۳۱۸۔

۱۳-         حسن الہضیبی مصری کالج سے قانون کی ڈگری لی ۲۷ سالوں تک جج کے فرائض انجام دیے۔

۱۴-         خلیل احمد حامدی حوالہ بالا، ص ۱۲۷

۱۵-         سید عمر تلمسانی ۴؍نو مبر ۱۹۰۴ء کو قاہرہ کے علاقہ غوریہ میںپیدا ہوئے۔ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونی ورسٹی لا کالج میں داخل ہوئے۔

۱۶-         The Oxford Encyclopaedia of the Modern Islamic World, 1995. vol2,p.354-356,article on Al Jamaat,at-Islamia

۱۷-         سید عمر تلمسانی ، یادوں کی امانت، (ترجمہ: حافظ محمد ادریس) مدینہ پبلشنگ سینٹر، دہلی، ۱۹۹۳، ص۳۵۷-۳۵۹

۱۸-         استاذ محمد حامد ابو النصرؒ فریدی،۱۹۱۳ میں مصر کے شہر منفلوط میںپیدا ہوئے۔

۱۹-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمار ۱۱۷۸، ۵؍دسمبر ۱۹۹۵ء ، ص ۳۰-۳۲

۲۰-         حاضر العالم الاسلامی عام ۱۹۲۲م، المرکز العالمی للکتاب الاسلامی ، کویت، ص ۹۷-۹۸

۲۱-         استاذ مصطفی مشہور، قاہرہ کلیۃ العلوم سے فلکیات اور رصد کا ری میں گریجویشن کیا ۔

۲۲-         عبید اللہ فہد فلاحی، اخوان المسلمون ، القلم پبلی کیشنز ، کشمیر، ۲۰۱۱ئ، ص ۳۹-۴۳

۲۳-         آپ کے والد حسن اسماعیل الہضیبی نامور قانون دان تھے۔ ۲۸مئی ۱۹۲۱ء کوآپ کی ولادت ہوئی۔  کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کے بعد مصر کی عدالت میں بحیثیت جج تقرر ہوا۔

۲۴-         استاذ محمد مہدی عاکف ۲۱؍جولائی ۱۹۲۸ء کو مصری ڈیلٹا کے قہلیہ خطہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں فیزیکل ہیلتھ ایجوکیشن کالج سے گریجویشن کی تکمیل کی۔

۲۵-         Egypt's New Dilemma  ،  The Guardian، لندن، ۹دسمبر ۲۰۰۵ء

۲۶-         ڈاکٹرمحمد البدیع۔ مصری سائنسی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عرب دنیا میں پتھالوجی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

۲۷-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت خدمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی

۲۸-         عبید اللہ فہد فلاحی ۔ سید قطب شہید کی حیات وخدمات کا تجزیہ، دہلی ،۱۹۹۳ء

۲۹-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، ص۸۷

۳۰-         مصطفی محمد الطحان ، وسط ایشیا میں اسلام کا مستقبل، ترجمہ ڈاکٹر عبید اللہ فلاحی ، ۱۹۹۶ء

۳۱-         Taha Jabir al-Alwani, Ijtihad ,International Institute of Islamic Thought, Herndon, USA,1993.P32

۳۲-         عماد الدین خلیل ،مدخل الی اسلامیۃ المعرفۃ مع مخطط مقترح ا لا سلامیۃ علم التاریخ المعھد العالمی للکفر الاسلامی ، ہیرنڈن امریکا ۱۹۹۱ء ص ۲

۳۳-         Abdul Hamid A. Abu Sulayman, The Islamic Theory of International Relations, IIIT, Herndon,1987,P.2

۳۴-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمارہ ۱۱۵۲،۶؍جون۱۹۹۵ئ، ص۲۲

۳۵-         ہفت روزہ المجتمع  ۱۱۶۲،۱۵؍اگست ۱۹۹۵،ص۴۱

۳۶-         محمد اشرف علی، محمد قطب۔مساھمتہ فی النثر العربی الحدیث ، غیر مطبوعہ پی ایچ ڈی مقالہ، زیر نگرانی ڈاکٹر صلاح الدین عمری،شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،۱۹۹۵ء

۳۷-         زینب الغزالی،ایام من حیاتی، بیروت دارالقرآن الکریم، للعنایہ بطبعہ ونشر علومہ، ص۱۷۰-۱۷۱

۳۸-         قطب عبدالحمید قطب، خطب الشیخ محمد الغزالی فی شئون الدین والحیاۃ، دارالاعتصام ، قاہرہ، ۱۹۸۷ئ،الجزء الاول ص ۱۳-۱۷

۳۹-         The Oxford Encyclopedia of the Modern -Islamic World, vol. 1V,p.71-72

۴۰-         عبدالبدیع صقر، کیف ندعوالناس ،المکتب الاسلامی، بیروت، طبع ششم ، ۱۹۷۷، ص۱۰و۱۶۵۔

۴۱-         المجتمع کویت، شمارہ ۱۲۳۹، ۲۵؍ فروری۱۹۹۷ئ،ص۳۴-۳۷۔

۴۲-       "    ۱۲۷۰،۷؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ص ۵۱۔

۴۳-      "     ۱۳۲۶،۱۷؍نومبر ۱۹۹۸ئ، ص۴۸-۵۰۔

۴۴-         عبید اللہ فہد فلاحی ، اخوان المسلمون،القلم پبلی کیشنز ۲۰۱۱،ص ۲۰۹-۲۴۳۔