الحمدللہ، جماعت اسلامی پاکستان کا ملک گیر سطح پر اجتماع عام ۲۱ تا ۲۳ نومبر ۲۰۲۵ء لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں لاکھوں مردو خواتین، بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں نے شرکت کی اور ایک بڑی تعداد آن لائن اس کی کارروائی کی سماعت سے وابستہ رہی۔ اس موقعے پر جن بہت سے اُمور کی طرف متوجہ کیا گیا، ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف یہاں پر متوجہ کیا جارہا ہے:
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں یہ بات قرآن و سنت سے اخذ کر کے بتائی اور سمجھائی کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اس جدوجہد کے لیے تحریک اسلامی کی صورت میں یہ اجتماعیت مل گئی۔ ہماری زندگی کا مقصد اللہ ربّ العالمین کے دین سے وابستہ ہو کر اس کی سربلندی اور اس نظام کو غالب کرنے کے لیے آخری دم تک جدوجہد کرنا ہے۔
اقامت ِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے جب ہم پورے نظام کو بدلنے جیسا بڑا کام لے کر اُٹھے ہیں تو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ وہ سب لوگ جو اس کارِعظیم سے وابستہ ہیں وہ نماز کو قائم کریں یعنی نمازوں کو پابندی سے اور نماز کی روح کے مطابق ادا کریں۔
ہماری اُمنگوں کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کریم ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے۔ جب کھائے پیئے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے بغیر اسلام کی دعوت کے علَم بردار کی زندگی گزر رہی ہو۔ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کریں، اسے سمجھ کر پڑھیں اور اس کا فہم حاصل کریں۔ ہر وہ شخص جسے قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا،آج سے قرآن حکیم کو سیکھنے کا آغاز کرے۔ ایک ایک فرد کم از کم اگلے چار پانچ مہینوں میں کسی ایک فرد کو قرآن حکیم پڑھنا سکھا دے۔ اس طرح ایک تو قرآن حکیم کی تعلیم پھیلتی ہے اور دوسرا دعوتی رابطہ بڑھتا ہے۔ قرآن پاک کو اپنی گفتگوؤں میں اور اپنی تنہائیوں میں ہم سب یاد رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارا ہاتھ پکڑ لے گا۔ یہ قرآن تو ہماری آنکھوں کا نُور ہے، دل کا سرور ہے، ہمارے اخلاق کو سنوارتا ہے اور ہمیں راہ نمائی دیتا ہے۔
اسی طرح اپنے معاملات کی اصلاح فرمائیے۔ ایک قسم کے معاملات وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یعنی آپ کے لین دین سے ہے، آپ کے رشتوں اور تعلقات سے ہے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فرائض اپنے اہل خانہ اور دیگر رشتہ داروں کے لیے عائد ہوتے ہیں، ان سب کا اہتمام کریں۔ لین دین میں کوتاہی نہ کریں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے تعلقات کو خراب نہ کریں۔ جب بھی کوئی معاملہ کریں تو اسے صاف لفظوں میں لکھ لیا کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
اسی طرح مقامی حالات، مسائل اور مشکلات سے واقفیت ہماری ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہرسطح پر پائے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی، لیکن جماعت اسلامی اور دوسروں میں ایک بنیادی فرق ہے کہ ہم اس راستے پر چلتے ہوئے قوم پرست نہیں بنیں گے۔ ہمارے لہجے میں نفرتیں نہیں ہوں گی۔ ہم آبادیوں کو تقسیم نہیں کریں گے۔ ہم بلوچستان کو پنجاب اور پنجاب کو خیبرپختونخوا اور سندھ سے نہیں لڑائیں گے۔ ہم پاکستان سے شکوہ کیوں کریں؟ پاکستان پہ تو چندعاقبت نااندیش طبقوں کا قبضہ ہے۔ پاکستان لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بنا ہے اور پاکستان کے ۲۵ کروڑ عوام کا ہے۔
یاد رکھیے،جہاں عدل نہیں ہوتا وہاں محرومی پیدا ہوتی ہے۔ نفرت لوگوں، قومیتوں یا علاقوں سے نہیں، بلکہ نفرت ظلم کے نظام سے ہونی چاہیے۔ ہمارے کسی رویے سے پاکستان پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے طریق کار کے مطابق ہی ہم اپنے مقامی مسائل اور مشکلات کو اُجاگر کریں گے۔ درحقیقت حق اور سچ اور عدل کی بنیاد پر ہی بات ہونی چاہیے۔
اسی مقصد کے لیے ہم نے ’بدل دو نظام تحریک‘ کا آغاز کیا ہے۔ اس کا لائحہ عمل اور اہم اہداف درج ذیل ہیں:
کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ پاکستان کی حکومت پر ہم زور دیتے ہیں کہ وہ اپنا فریضہ انجام دے۔پورا پاکستان کشمیریوں کا بیس کیمپ ہے، صرف آزاد کشمیر بیس کیمپ نہیں ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، جن کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ اس مطالبے سے ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ثالثی کی باتیں کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پر ثالثی تسلیم کرنے کا مطلب مسئلہ کشمیر کو دفن کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اس لیے اس راستے کا کسی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اہل کشمیر کی اخلاقی، سفارتی اور ہر ممکن مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
فلسطین کا مسئلہ ہمارے لیے ایمان کا مسئلہ ہے۔ ہم اہل فلسطین کے لیے کسی دو ریاستی حل کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے حوالے سے ہم اقوام متحدہ میں صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو اور نام نہاد ابراہیم اکارڈ کو قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح غزہ میں کسی بھی صورت میں پاکستان کی فوج نہیں بھیجنی چاہیے۔ پاکستان کا اصولی موقف قائداعظم محمد علی جناحؒ سے لے کر آج تک واضح طور پر ایک ہی ہے کہ فلسطین ایک ریاست ہے اور اسرائیل کو ہم ناجائز قبضہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے وہاں پر کسی علاقے میں ریاست قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان طبقے پر تعلیم،روزگار اور آگے بڑھنے کے دروازے بند ہیں۔ ۸۰،۹۰ فی صد نوجوانوں کی راہ میں طبقاتی نظامِ تعلیم ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔ یہی حال ہماری قوم کی بچیوں کا ہے۔ این جی اوز ان کا نام لے کر نعرے تو لگاتی ہیں، مگر ان کے پاس ان کے لیے کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے۔
دنیا بدل رہی ہے۔ اس لیے ہم ’بدل دو نظام‘ کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ’زی کنیکٹ‘ پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم آئی ٹی ایجوکیشن میں جو کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔ ہم ریاست اور حکومت تو نہیں ہیں، لیکن ہم عوام کے ذریعے اور عام لوگوں کے وسائل سے ان شاءاللہ اپنی نوجوان نسل کو ’بنوقابل پروگرام‘ کے تحت آئی ٹی کے کورسز بھی کرائیں گے۔ اور ان کو اس قابل بنائیں گے کہ یہ اپنا روزگار حاصل کر سکیں۔
اسی طرح ہم ’ووکیشنل ٹریننگ‘ کا اہتمام بھی کریں گے، جس میں نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے اور ان کے روزگار کی فراہمی کی راہ ہموار کریں گے۔اسی طرح ہمارا مائیکرو فنانسنگ کا پروگرام بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد کرے گا۔
ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ’ٹیلنٹ ہنٹ ‘ پروگرام کے ذریعے اسپورٹس کی سہولت فراہم کرنے کے لیے آواز اُٹھائیں گے اور اہتمام کریں گے۔ حدود و قیود میں رہتے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسپورٹس سرگرمیاں ہوں تو یہ جائز ہیں۔ اسپورٹس کا بھی بُرا حال ہے۔ گراؤنڈز عام لوگوں کو مہیا نہیں ہیں اور جو کلب ہیں، وہ بہت پیسے لیتے ہیں۔ جس طرح تعلیم طبقات میں تقسیم ہو گئی ہے، اسی طرح کھیل بھی طبقات میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
اس ’جنریشن زی‘ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی کسی چیز پر زیادہ دیر توجہ نہیں رہتی۔ جس کا ایک سبب معلومات کا زبردست بہائو بھی ہے۔ جب توجہ مرکوز نہیں رہتی تو اس کے نتیجے میں اس نسل کے لیے کسی ایک کام مرکوز ہوکر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ’جنریشن زی‘ کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان کی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان کی فکری، اخلاقی، سماجی اور فنی تربیت کی جائے۔ اخلاقیات، تربیت اور راہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندہ اور قابلِ عمل اور سدابہار تعلیمات موجود ہیں۔ہم اس مقصد کے لیے یہ اہتمام کریں گے کہ عالمی اسلامی تحریکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راہیں نکالیں۔
اسلامی تحریک تمام مسلّمہ اسلامی فقہا اور مکاتب ِ فکر کا احترام کرتی ہے اور ان کی راہ نمائی سے استفادہ کرتی ہے۔ یہ تحریک کسی ایک فقہی مکتب ِ فکر کی علَم بردار نہیں بلکہ سبھی مسلّمہ مکاتب ِ فکر کے وابستگان کو ساتھ لے کر چلنے کی داعی ہے۔اس لیے حکمت کی زبان، دین کی ترجیحات کی زبان اور دعوت میں وسعت اور اختلافات میں گنجائش پیدا کرنا ہی درحقیقت اسلامی تحریک کا خاصہ ہے۔ سیّدمودودی جیسے عظیم مفکر، مدبر اور داعی تحریک نے بھی جماعت اسلامی کو اپنی فقہی رائے کا پابند نہیں بنایا۔
پاکستان، کسی زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں ہے۔پاکستان ایک نظریے کا نام ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے رفقا نے اسی نظریے کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں۔ وہ حق اور سچ کی بنیاد پر کھڑے رہے، کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان جغرافیہ کے لیے نہیں بلکہ عقیدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا، اور اسی عقیدے کی بنیاد پر انھوں نے اس کی حفاظت کی تھی۔ اسی لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا اور قربانیاں دیں، ظلم و ستم سہتے رہے، اور پھانسیوں کے پھندوں پہ جھولتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو حق کردکھایا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا۔ ہم برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی سالمیت، آزادی اور ترقی کے لیے دُعاگو ہیں۔
ہم یہ بھی واضح کردیں کہ ہمارے ہاں سیاسی اتحادوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہم نے ملک و ملّت کے مفاد میں سیاسی اتحادوں میں بھرپور کردار ادا کیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ اب ہم مزید کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ تاریخ کے اس سبق کے نتیجے میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم اتحاد کریں گے، مگر عوام سے اور عوام کے مختلف طبقات سے، نوجوانوں سے، مزدوروں سے، کسانوں سے، انجینئروں سے، ڈاکٹروں سے اور علما سے۔ہرمعاشرے کی طرح ہمارے ملک میں بھی خواتین کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ ہم اُن کو ساتھ لے کر چلیں گے، ان شاء اللہ۔ یہی اتحاد پاکستان کو مسائل سے نجات دلائے گا۔
البتہ ہم تمام سیاسی قوتوں سے گفتگو، بات چیت، ملنے ملانے کا عمل اور تبادلۂ خیال اور مشترک موقف کے خلاف نہیں ہیں ۔ ہم سیاست میں وضع داری اور رواداری کے قائل ہیں۔ ہم نفرت، گالی اور گولی کی سیاست نہیں کرتے بلکہ اختلاف کو ایک دائرے میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا سیاسی کارکن ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ سیاسی کارکن چاہے وہ کسی بھی جماعت کا ہو، بہت قیمتی ہے۔ مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ اپنے ہی سیاسی کارکن کا استحصال کرتی ہیں۔ خاندانوں اور دولت کی بنیاد پر چلتی ہیں، نچلی سطح پر انھیں اختیارات نہیں دیتیں اوراپنی پارٹیوں میں انتخاب نہیں کراتی ہیں۔ بلدیاتی انتخاب ہو یا تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کا انتخاب، یہ انھیں بہت بُرا لگتا ہے۔ ہم ہرسیاسی کارکن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر عوام کے حق کے لیے جدوجہد کرے۔
ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ سول، مالیاتی اور انتظامی معاملات کے لیے بیوروکریسی بلدیاتی منتخب نمائندوں کے ماتحت کام کرے۔ اسی طرح آپ سے آپ اس نظام میں نوکرشاہی کا کردار ختم ہوگا اور عوام کے منتخب لوگ گراس روٹ لیول پر کام کریں گے۔ نچلی سطح پر جو لوگ منتخب ہوں گے وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں اور سارے اختیارات نچلی سطح پر منتخب لوگوں کو منتقل ہوں۔ مقامی حکومتوں کے وجود کو آئین کے حصے کے طور پر شامل کیا جائے۔
صوبہ پنجاب میں ۲۰۱۵ء کے بعد سے آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ صوبہ سندھ میں مقامی حکومتوں کا نظام تباہ حال ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس کراچی میں نو ٹاؤنز ہیں۔ الحمدللہ، بغیر اختیار کے تعمیر و ترقی کا سفر شروع کر دیا ہے۔ محدود اختیار کے ساتھ اپنا کام آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں میئر سے محروم کیا گیا، مگر اس کے باوجود ہم کام کر رہے ہیں۔ دراصل اختیارات جاگیردار اور وڈیرے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، منتخب لوگوں کو منتقل نہیں کرتے۔ ہم خیبر پختونخوا کی حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ بلدیاتی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کریں۔ قومی زندگی کو صحت مند بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے مقامی شہری حکومتوں کا نظام ناگزیر ہے۔ اس کے لیے عوام سے رابطے کی تحریک چلائیں گے۔ اپنے حق کے لیے ہم آگے بڑھیں گے، ان شاءاللہ۔ یہ ’بدل دو نظام تحریک‘ کا ایک اہم حصہ ہوگا۔
سرمایہ کاری، صنعت کاری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت میں فرق ہے۔ اسلام، سرمائے کی مخالفت نہیں کرتا اور سرمایہ کاری کو اہمیت دیتا ہے،البتہ سرمایہ دارانہ ذہنیت مختلف چیز ہے، جس کے تحت سرمایہ دار، سرمائے کی طاقت سے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ اسلامی حکومت اور اسلامی تہذیب و معاشرت میں بنیادی ضروریات کی فراہمی اور تعلیم اور روزگار کے مواقع سب کو یکساں ملتے ہیں۔جس کی جتنی قابلیت ہوتی ہے، اس کے مطابق وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمائے کی طاقت سے چھوٹے سرمایہ کاروں، چھوٹے کسانوں، کاٹیج انڈسٹری اور غریبوں اور مڈل کلاس کو تباہ کرتی ہے اور چند ہاتھوں میں دولت مرتکز ہوجاتی ہے، ہم ظلم کے اس شیطانی نظام کے خلاف ہیں۔سرمایہ داری کا یہ نظام صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ مغرب میں بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے اورمغرب کے عام لوگ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔
ایسی ہمہ گیر جدوجہد وقت کا تقاضا ہے۔ اس جدوجہد کے لیے وقت دینا ہوگا، صلاحیتیں لگانی ہوں گی اور جان کھپانی ہوگی۔ہم اس کام کو سیاسی نعرہ بازی کے لیے نہیں کرتے بلکہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کے کرتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کا کام عبادت ہے، یہ تو تمام انبیاءؑ کی بعثت کا مقصد ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ ہمارے نزدیک اس نسبت سے اسلامی سیاست ایک افضل کام ہے، جس پر چند غاصبوں نے قبضہ کرکے سیاست کو بدنام کررکھا ہے اور پورے معاشرے کو استحصالی نظام کا یرغمالی اور محکوم و مجبور بنا رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بصیرت بھی دی ہے اور بصارت بھی۔الحمدللہ، ہمارے کارکنوں کو خلوص بھی دیا ہے۔ ہمیں رابطوں کو بڑھانا، گلی گلی جانا اور ان تمام سیاسی مافیات سے جان چھڑانا ہے، جوایک طرف نعرہ بازی کرتے ہیں اور پھر آخرکار اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جاگرتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔ مگر ہم اصولوں کی بالادستی چاہتے ہیں اور اس کلچر کے فروغ کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں۔
پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی پرپابندی نہیں ہونی چاہیے اور کسی کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قیدخانوں میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ہمارے نزدیک سارے سیاسی کارکن قابلِ قدر ہیں اور ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ ’بدل دو نظام تحریک‘ کے اس ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دیں۔اس نظام کو بدلنا پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی اس عزم کے ساتھ اُٹھی ہے کہ اس نظام کو بدل کر رہیں گے۔
اسی طرح ہم نے کارکنانِ جماعت اسلامی کو دو اہداف دیے ہیں:
ممبرشپ مہم میں پچھلے برس ۲۰ لاکھ ممبرز بنے تھے۔ اگر ان کے ساتھ رابطے کی صورت نہ بنائی جائے تو کوئی بڑا انقلاب اور کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ لہٰذا، ان کے ساتھ رابطے کے ساتھ ساتھ اگلے ایک سال میں ہمیں اپنی ممبرشپ کو ۵۰ لاکھ تک پہنچانا ہے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ ہرمقام پر جماعت اسلامی کی تنظیم عوامی کمیٹیاں بنائے، محلوں کی سطح پر اور دیہاتوں کی سطح پر۔ ان کمیٹیوں کی تعداد کو ہم اگلے ایک سال میں ۵۰ ہزار تک لے کر جائیں گے۔
اس تحریک کا ناگزیر تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت پر اعتماد کیا جائے۔ آپ کی قیادت بڑی چھلنیوں سے گزرکر آتی ہے۔ مگر اس کے باوجود کسی بھی فرد سے غلطی اور کوتاہی ہوسکتی ہے، جسے بروقت ٹھیک کرنے کے لیے ہمارا احتسابی نظام متحرک رہتا ہے، اوراس نظام کو متحرک رہنا چاہیے۔ احتساب اور نگرانی کا یہ نظام ہماری قوت ہے اور ہماری فعالیت کا ضامن ہے۔ ہماری کوششوں، کاوشوںاور جدوجہد کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اس لیے ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر منزل کی طرف گامزن رہنا ہے اور ہمہ وقت ربِّ کریم سے مدد اور راہ نمائی کے لیے دُعا کرتے رہنا ہے۔
شرعی طور پر یہ ایک اہم بات ہے کہ ’معیار‘ کو ہر صورت اور ہر سطح پر’مقدار‘ پہ فوقیت دی جائے۔
شرعی طور پر اہم ترین ترجیح میں سے ایک یہ ہے کہ علم عمل پر مقدم ہے، کیوں کہ علم پہلے ہوتا ہے اورعمل بعد میں۔ علم عمل کا رہنمااورمرشد ہوتاہے۔ معاذؓ بن جبل سے روایت ہے:
اَلْعِلْمُ إِمَامٌ وَّالْعَمَلُ تَابِعُہٗ، علم امام ہے اور عمل اس کا مقتدی۔ ؎ ۴
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں ایک باب کا عنوان اَلْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ[علم قول او رعمل پرمقدم ہے]رکھاہے: بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ اس سے امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ قول اور عمل کی صحت کے لیے علم شرط ہے۔ یہ دونوں اس کے بغیر معتبر نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ان پر مقدم ہے۔ یہاں تک کہ یہ اس نیت کی بھی تصحیح کرتاہے جوعمل کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیاہے، تاکہ جب یہ کہاجاتاہے کہ عمل کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں تو اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ علم کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں اور اس کی طلب کی کوئی ضرورت نہیں۔
امام بخاریؒ نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر متعدد آیات اور احادیث ذکر کی ہیں، جو ان کے مُدعا کی بخوبی وضاحت کرتی ہیں: فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۰ۭ (محمد۴۷:۱۹) ’’جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اپنے گناہوں کی بخشش مانگو اور مومنین اور مومنات کے گناہوں کی بھی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو سب سے پہلے حصولِ علم کا حکم دیاہے اور اس کے بعد استغفار کی تاکید کی ہے، جو کہ ایک عمل ہے۔ اور یہاں خطاب اگرچہ رسولؐ اللہ سے ہے، مگرساری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ (فاطر۳۵:۲۸)’’یقیناً اللہ کے بندوں میں اس کی خشیت رکھنے والے وہی ہیں جو علم رکھتے ہوں‘‘۔
وہ علم ہی ہے جو ایک انسان میں اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کی صفت کو پروان چڑھاتا ہے اور اس کی وجہ سے آدمی عمل پر آمادہ ہوجاتاہے۔ احادیث میں سے ایک یہ ہے:
مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِي الدِّیْنِ ،اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے، اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرماتاہے۔ ؎ ۵
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ دین کو درست طور پر سمجھے گا تو عمل بھی کرے گا اور صحیح عمل کرے گا۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی وہ اقرأ تھی [یعنی پڑھ]، اور قراءت علم کی کنجی ہے۔ عمل کے احکام اس کے بعد نازل ہوئے، جیسے:
يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۱ۙ قُـمْ فَاَنْذِرْ۲۠ۙ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۳۠ۙ وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۴۠ۙ(المدثر۷۴ : ۱-۴) اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اوراپنادامن صاف رکھو۔
خلیفۂ راشدعمر بن عبدالعزیزؒ نے کیا خوب صورت بات فرمائی ہے:
مَنْ عَمِلَ فِيْ غَیْرِ عِلْمٍ کَانَ مَایُفْسِدُ أَکْثَرُ مِمَّا یُّصْلِحُ،جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرے گا۔ ؎ ۶
یہ بات ان بعض مسلمانوں کے طرزِعمل سے واضح ہے جن میں تقویٰ، اخلاص اور شجاعت کی کمی نہیں تھی، مگر ان میںشریعت کے مقاصد اور دین کے حقائق کے بارے میں علم وفہم کی کمی تھی۔ یہی صفات خوارج کے اندر پائی جاتی تھیں، جنھوں نے چوتھے خلیفۂ راشد علیؓ بن ابی طالب کے خلاف جنگ کی۔ حضرت علیؓ کی فضیلت ، غلبۂ دین میں ان کی خدمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسب، رشتہ داری اور محبت میں ان کے قرب کے باوجود انھوں نے حضرت علیؓ اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مسلمانوں کابھی خون بہانا درست سمجھ لیا۔
وہ ایسے ہی لوگوں کا تسلسل تھا،جن میں سے ایک نے کسی موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مالِ غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیاتھا۔ اس نے جہالت اور بے وقوفی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاتھا: اِعْدِلْ [عدل سے کام لو]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
وَیْلَکَ! وَمَنْ یَّعْدِلْ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ قَدْخِبْتَ إِذَنْ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلْ، ارے کم بخت! اگر میں عدل نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ اگر میں نے عدل نہ کیا تو تُو یقیناً خائب وخاسر ہوجائے گا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اس تندخو اور اُجڈ آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاتھا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِتَّقِ اللّٰہَ،اے اللہ کے رسولؐ! اللہ کی نافرمانی سے بچو۔
آپؐ نے فرمایا:أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَّتَّقِيَ اللّٰہَ؟’’کیا اہل زمین میں سب سے زیادہ میرا ہی حق نہیں کہ میں اللہ کی نافرمانی سے بچوں؟‘‘ اسی موقعے پر رسولؐ اللہ نے یہ پیش گوئی فرمائی:
اسی طرح کاایک گروہ ظہور پذیر ہوگا جن کی صفات یہ ہوںگی:تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازیں، ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلے میں اپنے عمل کو حقیر جانوگے۔ وہ قرآن کو پڑھتے ہوںگے مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکلتاہے۔ ’قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘ کامطلب یہ ہے کہ وہ ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنائے گا، نہ ان کی عقل اس کے نور سے منور ہوگی۔ وہ اس کی تلاوت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کریںگے، اگر چہ یہ بہت نماز روزے ادا کرتے ہوںگے۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف جنگ کریںگے اور ان کو ’مشرک‘ کہیں گے۔ ؎ ۷
اسی وجہ سے حسن بصریؒ نے اس وقت تک عبادت اور عمل میں غلو سے بچنے کی تاکید کی ہے، جب تک کہ آدمی علم وفقہ کے قلعے میں بند نہ ہو:
علم کے بغیر عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے غلط راستے پر چلنے والا۔ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ لہٰذا علم کی طلب اتنی رکھو کہ اس کی بنا پر عبادت کو نقصان نہ ہو اور اس حد تک عبادت کرو جو علم کے لیے مضر نہ ہو۔ ایک قوم نے عبادت کو اپنایا اور علم کو ترک کیا تو وہ تلوار لے کر اُمت محمدیؐ کے خلاف بغاوت کرگئی۔ اگرانھوںنے علم حاصل کیا ہوتا تو وہ انھیں اس کام کا حکم نہ دیتا جو انھوں نے کیا۔ ؎ ۸
اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۵۴ (یوسف۱۲:۵۴) اب آپ ہمارے ہاں قدر ومنزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔
اس پر یوسف علیہ السلام نے کہا:
اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۰ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۵۵ (یوسف۱۲:۵۵) ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور [ان معاملات کا] علم بھی رکھتاہوں۔
یہاں یوسف علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوںکے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کااہل ثابت کررہی تھیں، جس میں اس دور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان قابلیتوںمیں بنیادی حیثیت دو اُمور کی تھی: ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔ یہاں علم سے مراد تجربہ اور کافی معلومات ہیں۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے مطابق ہیں، جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو بطور ملازم رکھنے کے لیے اپنے والدمحترم کو بتائی تھیں:
اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ۲۶ (القصص۲۸:۲۶)بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتاہے، جو مضبوط اور امانت دار ہو۔
پھر یہی معاملہ سیاسی و فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۰ۭ (البقرۃ ۲:۲۴۷) اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیاہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔
قَتَلُوْہُ قَتَلَہُمُ اللّٰہُ! أَ لَّا سَأَلُوْا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوْا، فَإِنَّمَا شِفَائُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا یَکْفِیْہِ أَنْ یَّتَیَمَّمَ… ؎ ۹ اسے اس کے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے، اللہ انھیں ہلاک کرے۔ جب انھیں علم نہیں تھا تو کسی سے پوچھا کیوں نہیں؟ مرضِ جہل کا علاج یہ ہے کہ پوچھا جائے۔ اس کے لیے تو تیمم ہی کافی تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتویٰ کو اس شخص کے قتل کے مترادف ٹھیرایا اور انھیں ان الفاظ میں بددُعا دی: قَتَلَہُمُ اللہ [اللہ انھیں ہلاک کرے]۔ معلوم ہوا کہ جہالت کا فتویٰ کبھی ہلاک کرے گا اور کبھی تخریب کا ذریعہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن قیمؒ وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے کہ ’’کوئی شخص علم کے بغیر دین میں فتویٰ دینے کا مجاز نہیں‘‘۔ارشادِ ربانی ہے:
وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۳ (الاعراف۷:۳۳) اور یہ بھی ممنوع ہے کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو۔
علامہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جاہل مرے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بے علمی کی حالت میں کوئی فتویٰ دے۔ ابوحصین اشعریؒ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کسی ایسے مسئلے میں بھی بے دھڑک فتویٰ دے دیتا ہے کہ اس جیسا مسئلہ اگر حضرت عمرؓ کو پیش آتا تو وہ اس کے حل کے لیے بدری صحابہؓ کو جمع فرماتے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: اگر میں وہ بات کہوں جو مجھے معلوم نہ ہو تو کون سا آسمان ہوگا جو مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین ہوگی جو مجھے پناہ دے گی۔
اور حضرت علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا کہ اس بات سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوتاہے ___یہ بات انھوں نے تین بار دُہرائی ___کہ آدمی سے ایک مسئلہ پوچھاجائے اور وہ اسے معلوم بھی ہو مگر وہ کہے: اَللّٰہُ أَعْلَمُ، اللہ بہتر جانتاہے۔
سیّد التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ ضرور کہتے: اَللّٰہُمَّ سَلِّمْنِيْ، وَسَلِّمْ مِنِّيْ،’’اے اللہ! مجھے محفوظ فرما اور مجھ سے لوگوں کو محفوظ فرما‘‘۔ ؎۱۰
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ (یوسف۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھتے ہوئے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔
لہٰذا، ہرداعی الی اللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دعوت علی الوجہ البصیرت ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت سے پوری طرح آگاہ ہو۔ جس چیز کی طرف وہ دعوت دے رہاہو، اسے اس نے خوب سمجھا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دے رہاہے، کس کو دے رہاہے، کیوں دے رہاہے اور کیسے دے رہاہے؟
اسی بناپر کہاجاتاہے کہ ربّانی اس کو کہتے ہیں، ’’جو خود جانتا ہو، اس پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہو‘‘۔ اسی کی طرف یہ اشارہ ہے:
وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۷۹ۙ(اٰل عمرٰن۳:۷۹) لیکن تم سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضاہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔
عبداللہ ابن عباسؓ نے ربّانی کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ’’وہ علم اور سمجھ رکھنے والے ہوں‘‘۔ ؎۱۱
دعوت اور تعلیم کے میدان میں علم کے ذریعے جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ معلم لوگوں کے لیے آسانی پیداکرے ، انھیں مشکل میں نہ ڈالے، انھیں خوش خبری سنائے، اور انھیں متنفر نہ کرے۔ جیسا کہ ایک متفق علیہ حدیث میں آیاہے: یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا،’’آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری سناؤ متنفر نہ کرو‘‘۔ ؎۱۲
اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: اس سے مرادنومسلموں کی تالیفِ قلب اور تعلیم میں تدریج ہے۔ اسی طرح اس سے مراد گناہوں سے روکنا بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام تدریج کے ساتھ ہو، کیوں کہ ایک کام کی ابتدا اگر آسان ہو تو پہلی دفعہ کرنے والے کے لیے اس میں دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ اسے خوشی سے قبول کرتا چلاجاتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ اکثر اوقات یہ نکلتاہے کہ اس کی دل چسپی مزید بڑھتی رہتی ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ کیاجائے تو اس کا نتیجہ بھی برعکس نکلتاہے۔(دیکھیے: فتح الباری،۱/۱۶۳)
یہ ’تیسیر‘ [آسانی کا معاملہ کرنا]صرف نومسلموں تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ کی بات سے معلوم ہوتاہے بلکہ یہ ایک عمومی اور دائمی امر ہے۔ یہ ہراس شخص کے لیے لازم ہے جو نومسلم ہو، یا جس نے ابھی ابھی گناہوں سے توبہ کی ہو، یا ہر وہ شخص جو تخفیف کا محتاج ہو جیسے مریض، یا عمررسیدہ یا کسی اور حاجت میں مبتلا شخص۔
علم کی بنیاد پر دعوت کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ داعی، دینی معلومات دل سوزی سے مخاطب تک پہنچائے، تاکہ وہ انھیں بآسانی سمجھ سکے، اور وہ باتیں نہ کہی جائیں جو اس کی عقل و فہم سے بالاتر ہوں۔ ورنہ یہ دعوت لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔ اسی کے بارے میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ، وَدَعُوْامَا یُنْکِرُوْنَ،أَتُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ، لوگوں سے ایسی باتیں کرو جو ان کے لیے مانوس ہوں، جو باتیںنا مانوس ہوں انھیں چھوڑدو۔ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیاجائے؟ ؎۱۳
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لَّا تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلَّا کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً،’’تم جب لوگوں سے کوئی ایسی بات کہتے ہو جس تک ان کا ذہن نہیں پہنچتا تو وہ ضرور ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنے کا موجب ہوگی‘‘۔ ؎۱۴
فہم وفقہ میں اصل اہمیت اس امر کی ہے کہ مقاصدِ شریعت کو گہرائی سے سمجھا جائے اور ان کی حکمتوں کی معرفت حاصل کی جائے، ان کا آپس میں تعلق معلوم کیاجائے اور شریعت کے اصول کو فروع کے ساتھ ملایاجائے، اس کے جزئیات کو کلیات کی طرف لوٹایا جائے اور صرف ظاہر پر اکتفانہ کیاجائے اورالفاظِ نصوص پر جمود اختیار نہ کیاجائے۔
ارکانِ اسلام اور باقی معاملاتِ زندگی مثلاً خاندانی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کے جزئی احکام کی تحقیق و تجزیہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ شارع نے جب کسی کام کو قانون کا درجہ دیا ہے تو اس کے پیش نظر کچھ اہداف تھے۔ اس نے کسی بھی امر کو تحکماً یا بغیر کسی وجہ کے مشروع نہیں کیا۔ بلکہ ہرکام کو کسی حکمت کے تحت مشروع کیا جو اس کے کمال، اس کے علم، اس کی رحمت اور اپنی مخلوق پر اس کے احسان کے ساتھ نسبت رکھتا ہے۔ اس کے اسماء حسنیٰ میں سے العلیم اور الحکیم بھی ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت سازی میں بھی حکیم ہے، جس طرح وہ تخلیق اور تقدیر میں حکیم ہے۔ اس کی حکمت عالم امر میں اسی طرح نمایاں ہے، جس طرح عالمِ خلق میں نمایاں ہے:
اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ (الاعراف۷:۵۴) اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۰ۚ سُبْحٰنَكَ (اٰل عمرٰن۳:۱۹۱) پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد تو نہیں بنایا، تو ہر عیب سے پاک ہے۔
اسی طرح ہم اس کی شریعت کے بارے میں کہتے ہیں: رَبَّنَا مَا شَرَعْتَ ہٰذَا إِلَّا لِحِکْمَۃٍ، ’’اے پرودگار! تو نے یہ قانون بغیر کسی حکمت کے نہیں بنایا‘‘۔
دین اسلام کاعلم سیکھنے والے اکثر و بیشتر بحرِعلم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں اور اس کی گہرائیوں میں نہیں اترتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس میں تیراکی کرنے، اس کی تہہ میں غوطہ زن ہونے اور اس کے ہیرے برآمد کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا ہی نہیں کی ہوتی۔ اس وجہ سے وہ ظاہر میں مشغول ہوتے ہیں اور اسرار ومقاصد کی طرف انھیں توجہ نہیں ہوتی۔ وہ فروع کے چکر میں پڑے رہتے ہیں اور اصول جاننے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔
وہ اللہ کے بندوں کے سامنے اللہ کا دین اور شریعت کے احکام ایسے منتشر فروعات کی صورت میں پیش کرتے ہیں، جن کی کوئی اجتماعی صورت نہیں بن سکتی اور ان بیان کردہ فروعات کا اپنے اسباب و علل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی گفتگوئوں اور تحریروں سے شریعت ایسی صورت میں سامنے آتی ہے کہ گویا وہ مخلوق کے مصالح ا ورمفادات کو حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مگریہ قصور شریعت کا نہیں بلکہ ان لوگوں کے فہم کا ہے، جنھوں نے احکام کے درمیان باہمی ربط وتعلق کو اپنی کم علمی اور ناسمجھی سے کاٹ دیاہے۔اس ظاہر پرستی اورلکیر کا فقیر بننے کے نتیجے میں اکثر اوقات یہ ہوتاہے کہ اللہ نے دین میں جو وسعت رکھی ہے اس میں تنگی آجاتی ہے، اور جس چیز کو شریعت نے آسان بنایا ہے اس میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس چیز میں بھی جمود پیدا ہوجاتاہے جس میں ترقی کاا مکان موجود ہو،اور بعض ایسی چیزوں کو کسی حد میں مقید کردیا جاتا ہے جس میں وسعت اور آزادی پائی جاتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی توجہ اجماعی قطعیات پر مرکوز کریں اور اختلافی گمان اور اندازوں سے بچیں۔ اُمت کو جس چیز نے مشکلات سے دوچار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے قطعیات [یقینی امور] کو چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت دُنیا کے کونے کونے میں داعیانِ اسلام اور علَم بردارانِ سیکولرزم کے درمیان جو معرکہ برپا ہے وہ انھی قطعیات کے بارے میں ہے: عقیدے کے قطعیات، قانون کے قطعیات، فکر کے قطعیات اور کردار کے قطعیات۔ یہی قطعیات تفہیم وتلقین، تعلیم وتربیت اور پوری اسلامی زندگی کے وجود کی بنیاد بننی چاہییں۔ اسلامی دعوت اوردینی کام کے لیے یہ بات سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ لوگوں کوان امور کی طرف دعوت دی جائے جو مختلف فیہ ہیں۔
اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی اختلافی مسئلے میں زبان تک نہ کھولیں۔ یاہم عقیدے، فقہ، یاکردار کے حوالے سے کسی رائے کو کسی پر ترجیح بھی نہ دیں، یہ تو ناممکن ہے۔ اگر یہ بات ہو کہ علما کسی رائے کو صحیح اور کسی کو کمزور نہ کہیں اور کسی کوراجح اور کسی کو مرجوح نہ کریں تو پھر ان کا کام اور کیا ہوگا؟ قابلِ گرفت بات یہ ہے کہ لوگ اس چیز کو اپنے لیے ایک دائمی مشغلہ بنا لیں اور متفق علیہ مسائل سے زیادہ توجہ کو ہٹا کر اختلافی مسائل کی طرف ہی رُخ کر لیں، ظنیات کی فکر میں پڑے رہیں، درآنحالیکہ لوگوںنے قطعیات سے بھی منہ موڑ رکھاہے۔
یہ بات بھی اضطراب اور خطرے کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ایسے مسائل جو مختلف فیہ ہیں ان کو ایسے انداز میں پیش کریں جیسے ان میں کوئی اختلاف موجود ہی نہیں ہے۔ پھر ایسا کرنا بھی درست نہیں ہوگا کہ اس میں ہم دوسروں کی آراء سے جہالت برتیں جن کا اپنا نقطۂ نظر اور اپنے دلائل ہوتے ہیں، خواہ ہم انھیں معتبر سمجھتے ہوں یانہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ دوسری رائے جمہور علمائے اُمت کی بڑی تعداد کی رائے ہوتی ہے اور ___ وہ بھی غلطی سے مبرا نہیں ہوتی، کیوںکہ اس پر یقینی اجماع نہیں ہوتا۔ بعض معتبر ترین علما کی آراء بھی بعض اوقات کسی خاص ماحول اور خاص دَور میں پہنچ کر شاذہو جاتی ہیں۔
_______________
حواشی
۱-ابوداؤد اور نسائی، دیکھیے: صحیح الجامع الصغیر ۲۹۴۰
۲- متفق علیہ بروایت حضرت ابن عمرؓ، دیکھیے: اللؤلؤوالمرجان، ح۱۶۵۱
۳- طبرانی نے المعجم الکبیر اور صحیح الجامع الصغیر، ۵۳۹۴
۴- اس حدیث کو ابن عبدالبر نے روایت کیاہے۔
۵- صحیح بخاری مع فتح الباری، ۱/۱۵۹-۱۶۲۔ طبع :دارالفکر
۶- جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبد البر،۱/۲۷، دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۷- ان کی تفصیلی صفات کے لیے دیکھیے: اللؤلؤ والمرجان، ح۶۳۸-۶۴۴
۸- یہ قول ابن قیمؒ نے مفتاح دار السعادۃ ، ص۸۲ سے لیا ہے۔
۹- ابوداؤد نے حضرت جابرؓسے اور احمد، ابوداؤداور حاکم نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیاہے: دیکھیے: صحیح الجامع الصغیر،ح ۴۳۶۲،۴۳۶۳
۱۰- ابن قیم إعلام الموقعین، [۲/۱۶۵-۱۶۸]، طبع: السعادۃ، تحقیق: محی الدین عبدالحمید
۱۱- امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں درج کیاہے۔
۱۲- شیخین نے حضرت انسؓ سے روایت کیاہے۔ جیسا کہ اللؤلؤ والمرجان ، ح ۱۱۳۱ میں ہے۔
۱۳-امام بخاری نے کتاب العلم میں حضرت علیؓ سے نقل کیاہے۔ دیکھیے: فتح الباری ۱/۲۲۵
۱۴-اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں نقل کیاہے۔
’نرگسیت‘ ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جو انسان کو اپنی ذات کے گرد گھما دیتی ہے۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے، بلکہ انسانی فطرت کے عدم توازن سے پیدا ہونے والا ایک پرانا مرض ہے، جو ہر دور میں مختلف شکلوں میں سامنے آتا رہا ہے۔ آج کے دور میں انفرادی آزادی کے نام پر ہرفرد کی سوشل میڈیا تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ مرض خطرناک حد تک پھیل رہا ہے۔ امریکی نفسیاتی جریدے Journal of Personality (۲۰۲۳ء) کے ایک مطالعے کے مطابق، ۱۸ سے ۳۵سال کی عمر کے ۶۲ فی صد نوجوانوں میں ’نرگسیت‘ کی سطح بہت بلند پائی گئی، جو ۱۹۹۰ء کے عشرے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ ذیل میں ’نرگسیت‘ کی حقیقت، اس کی علامات، سماجی اور انفرادی اثرات اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے تدارک پر بات کی جائے گی۔
نرگس (Narcissus) اصل میں یونانی پھر فارسی لفظ ہے، جو ایک قسم کے پودے اور پھول کا نام ہے جس میں صرف چھ پتیاں ہوتی ہیں اور وہ پیالے اور آنکھ سے بہت مشابہ ہوتا ہے۔ نرگس مجازاً پُرکشش آنکھ اور چشمِ محبوب کے لیے مستعمل ہے، جس کو علّامہ اقبال نے استعارتاً اپنے شعر میں یوں استعمال فرمایا: ’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے___ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘۔
’نرگسیت‘ کا لفظ یونانی افسانوی کردار Narcissus سے نکلا ہے، جو اپنی خوب صورتی میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ علمِ نفسیات میں اسے Narcissistic Personality Disorder کہا جاتا ہے۔ ’نرگسیت‘ انسانی فطرت میں موجود معمول کی خود پسندی نہیں، بلکہ ’نرگسیت‘ ایک ایسی ذہنی ساخت کو کہتے ہیں، جس میں انسان دوسروں کو اپنی توسیع سمجھتا ہے اور ان کی الگ حیثیت تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ نرگسیت ایسی ذہنی حالت ہے جس میں فرد اپنے آپ کو فطری حد سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور وہ اپنی ذات میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اسے دوسروں کے جذبات اور ضروریات کا خیال نہیں رہتا۔ یہ رویہ جب ایک حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ایک نفسیاتی مرض بن جاتا ہے جو انسان کو اپنی حد سے زیادہ ستائش، خود فریفتگی، اپنی ذات، جسم یا صفات کے ساتھ غیرمعمولی لگائو کی وجہ سے خودپرستی اور انانیت تک پہنچا دیتا ہے۔ ’نرگسیت‘ زدہ شخص عموماً اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ اگرچہ عالمی سطح پر ۰ء۵ سے ایک فی صد تک آبادی اس مرض میں مبتلا ہے، لیکن یہ اعدادوشمار ’نرگسیت‘ کے شکار ۲۰ فی صد افراد پر مبنی ہیں کیوں کہ متاثرہ افراد میں سے جو تشخیص کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، ان کی شرح صرف ۲۰ فی صد تک پہنچتی ہے، جب کہ اکثروبیشتر متاثرہ افراد خود کو بیمار تسلیم ہی نہیں کرتے۔
یہ مرض بچپن سے جنم لیتا ہے۔ جب بچے کو بار بار یہ بتایا جائے کہ وہ سب سے خاص ہے، یا پھر اسے شدید تنقید کا سامنا ہو، تو دونوں صورتوں میں خود اعتمادی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ معروف مجلّے Child Development (۲۰۲۱ء) میں شائع ایک تحقیق کے مطابق، جن بچوں کو والدین کی طرف سے غیر مشروط تعریف ملتی ہے، ان میں ۴۰ فی صد امکان ہوتا ہے کہ وہ ۲۰ سال کی عمر تک ’نرگسیت‘ کی طرف مائل ہو جائیں۔ والدین کی طرف سے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار اور ضرورت سے زیادہ تنقید دونوں ہی ’نرگسیت‘ کی جڑ بن سکتے ہیں۔
دوسری علامت ہمدردی کا فقدان ہے۔ وہ دوسروں کے درد کو سمجھتا ہی نہیں۔ اگر کوئی رو رہا ہو تو ایسے فرد کو لگتا ہے کہ یہ ڈراما ہے یا پھر توجہ کھینچنے کی کوشش۔ ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے میں ۱۵۰ ’نرگسیت‘ زدہ افراد کو ایک اداس فلم دکھائی گئی؛ صرف ۱۲ فی صد نے ہمدردی کا اظہار کیا، جب کہ نارمل افراد کے گروپ میں یہ شرح ۶۸ فی صد تھی۔
تیسری علامت حسد اور مقابلہ بازی ہے۔ وہ دوسروں کی کامیابی دیکھ کر جلتا ہے اور فوراً اپنی کوئی بڑی بات گھڑ لیتا ہے۔مجلہ ہاوردڈ بزنس ریویو (۲۰۲۰ء) نے ۵۰۰ کاروباری لیڈروں کا جائزہ لیا، جن میں نرگسیت کی سطح بلند تھی، ان میں سے ۸۴ فی صد نے حسد کو اپنی ترقی کا محرک قرار دیا۔
چوتھی علامت جھوٹ اور مبالغہ آرائی ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں رنگ بھرتا ہے، کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ناکامیوں کو چھپاتا ہے۔ ایک سروے میں ۶۸ فی صد نرگسیت زدہ افراد نے تسلیم کیا کہ وہ روزانہ کم از کم ایک جھوٹ بولتے ہیں تاکہ اپنی ساکھ برقرار رکھ سکیں۔
سماجی زندگی پر اثرات:سماجی زندگی پر ’نرگسیت‘ کا اثر تباہ کن ہوتا ہے۔ خاندان میں ایسا شخص اپنی بیوی، بچوں اور بھائی بہنوں کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتا ہے۔ جرنل آف فیملی سائیکالوجی کے مطابق، جن شادیوں میں بیوی یا شوہر ’نرگسیت‘ زدہ ہوتا ہے، وہاں طلاق کی شرح ۷۳ فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔ طلاق کی یہ شرح عام شرح سے ۲ء۵گنا زیادہ ہے۔
ایک پاکستانی خاندان کا واقعہ: ایک باپ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا، جب کہ بیٹا انجینئر بننا چاہتا تھا۔ باپ نے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ دس سال بعد بیٹا کامیاب انجینئر بنا، لیکن باپ سے رابطہ ختم ہو چکا تھا۔ نفسیاتی رپورٹ میں باپ کو Vulnerable Narcissism کا مریض پایا گیا۔
شادی شدہ زندگی میں ’نرگسیت‘ طلاق کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ شریکِ زندگی کو ہر وقت تعریف، توجہ اور اطاعت چاہیے ہوتی ہے۔ اگر بیوی اپنی کوئی رائے دے تو اسے غرور سمجھا جاتا ہے۔ باہمی تعلقات میں محبت اورباہمی احترام کی بجائے کنٹرول غالب ہوتا ہے۔
دوستوں کے حلقے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ شروع میں تو ’نرگسیت‘ کے مریض دل کش اور پُرجوش لگتے ہیں، لیکن جیسے ہی دوستی گہری ہوتی ہے، ان کی خود غرضی سامنے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کی مدد مانگتے ہیں لیکن خود کبھی مدد نہیں کرتے۔ ایک مطالعہ میں ۲۰۰ ’نرگسیت‘ زدہ افراد کے دوستوں میں سے ۹۱ فی صد نے کہا کہ وہ دوستی کو ’یک طرفہ‘ سمجھتے ہیں۔
کام کی جگہ پر ’نرگسیت‘ والے لوگ عموماً باس بننا چاہتے ہیں، لیکن وہ کبھی ٹیم لیڈر نہیں بن سکتے۔ ’تنظیمی رویے اور انسانی فیصلہ سازی پر مقالے‘ (۲۰۲۱ء)کے مطابق: ’نرگسیت‘ زدہ منیجروں کی ٹیمیں ۳۸ فی صد کم پیداواری ہوتی ہیں، کیونکہ وہ فیصلے اکیلے کرتے ہیں۔
نفسیاتی علاج میں Cognitive Behavioral Therapy (CBT) بہت کارآمد ہے۔ اس میں منفی سوچ کے نمونوں کو چیلنج کیا جاتا ہے اور ہمدردی سکھائی جاتی ہے۔ ایک کلینکل ٹرائل میں ۸۰ مریضوں پر CBT کا تجربہ کیا گیا، چھ ماہ بعد ۵۸ فی صد میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔
گروپ تھراپی بھی مددگار ہوتی ہے، جہاں وہ دوسروں کے درد سن کر اپنے اندر تبدیلی لاتے ہیں۔ ایک مطالعے میں گروپ تھراپی والے مریضوں کی ہمدردی کی صلاحیت ۴۴فی صد بڑھ گئی۔
خود آگاہی بڑھانے کے لیے اپنے ہاتھ سے علامات کو لکھنا، ذاتی جائزے کے لیے ’مراقبہ‘ کرکے اپنی خرابیوں کا شمار کرنا اور اپنی خامیوں کو تسلیم کرنا مفید ہے۔ خاندان کا ساتھ اور صبر بھی علاج کا اہم حصہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی پرورش متوازن طریقے سے کریں۔
ذہنی ورزشوں کے علاوہ، روحانی تربیت بھی ’نرگسیت‘ کو کم کرتی ہے۔ شکر گزاری کے رویے کی پرورش کے لیے روزانہ رات کو وہ تین باتیں لکھنی چاہییں جن پر انھیں شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ مشق بھی نرگسی انانیت کو توڑتی ہے۔ جرنل آف پازٹیو سائیکالوجی (۲۰۲۲ء) کے مطابق: جو لوگ ۳۰ دن تک شکر گزاری کی مشق کرتے ہیں، ان کی ’نرگسیت‘ کی سطح ۲۷ فی صد کم ہوجاتی ہے۔
ایک عملی حل یہ ہے کہ متاثرہ شخص ہر ہفتے ایک چھوٹا کام دوسروں کی مدد کے لیے کسی بھی قسم کے بدلے کی توقع کے بغیر کرے۔ یہ عمل ہمدردی کے پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ایک تجرباتی مطالعہ میں ۵۰؍ افراد نے آٹھ ہفتوں تک رضاکارانہ کام کیا تو ان کی خود غرضی کی سطح ۳۹ فی صدکم ہوگئی۔
بچوں میں ’نرگسیت‘ کی روک تھام کے لیے اسکولوں میں ’ہمدردی کی تعلیم‘ شامل کی جانی چاہیے۔ فن لینڈ کے ایک تجربے میں جہاں بچوں کو ہر ہفتے ایک کہانی سنائی جاتی تھی، جس میں ہمدردی کا پیغام ہوتا تھا، پانچ برس بعد ان بچوں میں ’نرگسیت‘ کی شرح ۵۲ فی صد کم پائی گئی۔
قرآن و سنت کے تجزیاتی مطالعہ سے مرضِ نرگسیت کی ابتداء آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل ہوچکی تھی۔ آدم علیہ السلام اور بنی نوع انسان کو زمین پر بطورخلیفۃ اللہ بنائے جانے کے اعلان اور باقی مخلوقات کو بنی آدم و آدم علیہ السلام کی خلافت فی الارض کو قبول کرنے کے اظہار کے طور پر آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم کے موقع پر گہری نرگسیت (Grandiose Naracissism) میں مبتلا ابلیس نے تکبر (انانیت) کی بنا پر نہ صرف اپنے اور تمام مخلوقات کے خالق و رازق اور الٰہ کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اپنی انانیت (نرگسیت کی شدید ترین صورت) کا برملا اظہار کرتے ہوئے اَنا خیر منہ کے دعوے پر جم گیا۔ یہی نہیں بلکہ ’نرگسیت‘ اور انانیت کے اس شدید ترین مریض نے باقی مخلوقات خصوصاً بنی نوع انسان کے ہرفرد کو اس مرض کا مریض بنانے کا بیڑا بھی اُٹھا لیا اور اپنے خالق و مالک کے سامنے عاجزی کرتے ہوئے اپنی غلطی کی معافی مانگنے کی بجائے انسانوں کو ’نرگسیت‘ میں مبتلا کرنے کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ربّ العزت سے قیامت تک کے لیے مہلت اور اذن بھی مانگ لیا۔ خود نرگسیت میں مبتلا ہونا اور دوسروں کو ’نرگسیت‘ میں مبتلا کرنے کے لیے ہر جتن کرنا ہی شیطانیت ہے۔
بنی آدم اور آدم علیہ السلام کو نرگسیت کے بدترین مریض ابلیس کے ہتھکنڈوں سے متعارف کرانے، اس سے بچنے اور نرگسیت کا شکار ہوجانے کی صورت میں اس کے تدارک (توبہ) کی تربیت، ربّ العزت نے انسان کو جنت میں سکونت دے کر فرمائی۔ آدم علیہ السلام نے اس تربیت کو کامیابی سے مکمل کرنے کا مظاہرہ، ابلیسی سازش کا شکار ہوکر ربّ العزت کی نافرمانی کرگزرنے کا احساس ہوتے ہی اپنی غلطی کا ربّ العزت کے سامنے ندامت و عاجزی سے اعتراف کرتے ہوئے ربّ العزت کی رحمت، عفوودرگزر اور مغفرت کا طلب گار ہوتے ہوئے کیا۔
ربّ العزت نے بنی آدم و آدم علیہ السلام کو نہ صرف نرگسیت کے تدارک کی عملی ترتیب دینے کے بعد ہی زمین پر خلیفۃ اللہ ہونے کی ذمہ داری نبھانے کے لیے زمین پر اُتارا (ان تمام تفاصیل کے لیے دیکھیے البقرہ ۲:۳۰-۳۹، الاعراف ۷:۱۱-۲۵، الحجر ۱۵:۲۶-۴۲)۔ بلکہ بنی نوع انسان کو نرگسیت سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلامی اعتقاد کی بنیاد ہی اشھدا ان لا الٰہ الا اللہ ،’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ (قابلِ پرستش) نہیں‘‘، یعنی خودپرستی (انانیت) ’نرگسیت‘ کی نفی کرتے ہوئے خالص اللہ پرستی پر ہی رکھی۔ ربّ العزت نے خود پرستی (انانیت) ’نرگسیت‘ کی نفی فرماتے ہوئے فرمایا: اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ (الجاثیہ ۴۵:۲۳)’’کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا الٰہ بنا لیا ہے اور اس بناپر اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ہونے دیا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پرستی اور ’نرگسیت‘ کو ایمان کے منافی قرار دیتے ہوئے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعًا لما جئت بہ (السنن الکبریٰ، للبیہقی) ’’تم میں سے کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات بھی اس کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کے آیا ہوں‘‘۔
اعتقاد میں خالص اللہ پرستی کو رائج کرتے ہوئے انسانی رویے سے ’نرگسیت‘ کی سرایت کی جڑ کاٹنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم عملی تعلیمات میں بھی ’نرگسیت‘ کی بیماری کا بہترین علاج پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کسی شخص کو اس کی آرزوئیں دھوکا نہ دیں‘‘ (النحل۱۶: ۲۳)۔ ’نرگسیت‘ دراصل آرزوؤں کا اسیر ہونا ہے۔ جب انسان اپنی ذات کو بھول کر اللہ کی ذات کو ہی اپنی زندگی کا مرکز بناتا ہے، تو خود پسندی (’نرگسیت‘)ختم ہو جاتی ہے۔
سورئہ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۶۳ (۲۵:۶۳) ’’رحمٰن کے (اعلیٰ) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘۔ اس آیت کریمہ میں تعلیم کردہ تواضع اور نرمی ’نرگسیت‘ کا علاج ہے۔ جو شخص زمین پر نرمی سے چلے، وہ خود کو آسمانوں کا مالک نہیں سمجھ سکتا۔ ایک اور آیت میں فرمایا گیا:الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۰ۭ (البقرہ۲:۲۶۱) ’’جو لوگ اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جو سات بالیں اُگاتا ہے، ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں‘‘ ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ جو دیتا ہے، وہ بڑھتا ہے۔ ’نرگسیت‘ والا شخص لینے میں یقین رکھتا ہے،جب کہ قرآن دینے کی ترغیب دیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر ’’جو شخص اپنے دل میں ذرا برابر بھی تکبر رکھتا ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۱۵۸)۔ تکبر ’نرگسیت‘ کی جڑ ہے۔ تکبر چھوڑنے کا مطلب ہے دوسروں کی عزّت کو اپنی عزّت سمجھنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:الکبر بَطْرَ الحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ’’تکبر اس بات کا نام ہے کہ حق کو رَد کر دو اور لوگوں کو حقیر سمجھو‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۱۵۶)
ایک اور حدیث میں ہے:المؤمن مرأۃ المؤمن ’’مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب، حدیث: ۴۲۹۳)۔ یعنی مومن دوسرے کی خامی دیکھ کر اپنی اصلاح کرتا ہے، نہ کہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ ’نرگسیت‘ زدہ شخص دوسروں کو آئینہ نہیں، بلکہ اپنی توسیع سمجھتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:من کان یؤمن باللہ والیوم الْاٰخِر فلا یُؤذ جارہ ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، حدیث: ۴۸۹۳)۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا ایمان کا حصہ ہے، اور یہ ’نرگسیت‘ کے بالکل برعکس ہے۔
عملی ارکانِ اسلام میں نماز بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اقامت ِ صلوٰۃ نہ صرف ’نرگسیت‘ سے بچائو کا تیربہدف نسخہ ہے بلکہ ’نرگسیت‘ کا بہترین علاج بھی ہے۔ جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کی ناک زمین سے لگتی ہے۔ یہ عمل روزانہ پانچ وقت کم از کم ۴۰ بار اسے بتاتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں، سب کچھ اللہ کا ہے۔ سجدہ خود پسندی و خود پرستی کو توڑتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اقرب ما یکون العبد من رَبِّہٖ وھو ساجدٌ ’’بندے کا اپنے ربّ سے سب سے قریب ہونے کا وقت سجدہ ہوتا ہے‘‘ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ،حدیث: ۷۷۳)
ربّ العزت کی عظمت کی یاد اور اس کے سامنے عاجزی ہی اقامت الصلوٰۃ سے مطلو ب ہے۔ارشادِ ربانی ہے: وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ۱۴ (طٰہٰ۲۰: ۱۴)’’اور میری یاد کے لیے نماز کو قائم کرو‘‘۔ پھر فرمایا: وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ۲۳۸(البقرہ۲:۲۳۸)’’اور نماز میں اللہ کے سامنے پوری عاجزی اور یکسوئی کے ساتھ کھڑے ہوجائو‘‘۔ اور جو نماز اللہ کی یاد سے خالی ہو اور خودنمائی کے لیے پڑھی جائے وہ نمازی کے لیے باعث ِ ہلاکت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ (الماعون۱۰۷:۴-۵)’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں۔وہ جو (اپنی نماز) لوگوں کو دکھاتے ہیں‘‘۔
صدقہ اور خیرات بھی ’نرگسیت‘ مٹاتا ہے۔ جب انسان اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہے تو اس کا دل دوسروں کی طرف کھلتا ہے۔ حدیث ہے:ما نقصت صدقۃ من مالٍ ’’صدقہ مال کو کم نہیں کرتا‘‘ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۷۹۵)۔ یعنی جو دیتا ہے، وہ بڑھتا ہے نہ صرف مال میں، بلکہ دل کی وسعت میں بھی۔
ارکانِ اسلام میں سے زکوٰۃ کا نظام بھی ’نرگسیت‘ کا ایک مؤثر علاج ہے۔ جب انسان اپنی دولت کا ۲ء۵ فی صد غریبوں کو دیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ سب اس کا نہیں، اللہ کی امانت ہے۔ قرآن کہتا ہے:خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو‘‘۔یعنی زکوٰۃ ان کے مال کو پاک کرتی ہے۔
اسی طرح ارکانِ اسلام میں سے روزہ ’نرگسیت‘ کو توڑنے کا زبردست طریقہ ہے۔ جب انسان بھوکا رہتا ہے تو اسے غریبوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من صام ایمان واحتسابًا غفرلہ ما تقدم عن ذنبہ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۳۸)۔ روزہ ’اَنا‘ کو پگھلاتا ہے۔
تلاوتِ قرآن بھی ’نرگسیت‘ کا ایک مؤثر علاج ہے۔ جب انسان كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۸۵) ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘ پڑھتا ہے، تو اسے یاد آتا ہے کہ یہ دُنیا عارضی ہے۔ ’نرگسیت‘ زدہ شخص دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔
ذکرِ الٰہی دل کو نرم کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کی مثال جو ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، زندہ اورمُردہ کی سی ہے‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، حدیث:۶۰۵۳)۔ ذکر سے دل میں اللہ کی عظمت بڑھتی ہے، انسان کی عظمت کم ہوتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ’نرگسیت‘ کا اصل علاج جیساکہ تفصیل سے گزر چکا ہے توبہ اور استغفار ہی ہے۔ جب انسان اپنی خامیوں کو مانتا اور اللہ سے معافی مانگتا ہے، تو اس کی ’اَنا‘ پگھل جاتی ہے۔ قرآن کہتا ہے: اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ (البقرہ۲:۲۲۲)’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل بنی آدم خطاؤن وخیر الخطائین التوابون ’’ آدم کی اولاد خطا کار ہے، اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔ (ترمذی، کتاب الذبائح، حدیث: ۲۴۸۳)
اللہ ہمیں اپنی ذات کے حصار اور اپنی ذات کی غلامی سے نکال کر فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ہوجانے کی توفیق و ہمت عطا فرماتے ہوئے اپنی مخلوق کی خدمت کی توفیق عطافرمائیں، اور ہر قسم کی خود پسندی سے محفوظ فرمادیں، آمین!
میں ایک نہایت سادہ مگر نہایت سچی بات سے آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کو اس وقت سمجھ بوجھ کی شدید ضرورت ہے۔ وہ سمجھ بوجھ کہ جس کا تعلق مکالمے اور انسانی پشتوں سے ہے۔ بہت عرصے تک ہم نے دلوں اور انسانوں کے درمیان پُل بنانے کے بجائے دیواریں کھڑی کیں، احترام کے بجائے بدگمانی کو فروغ دیا۔ اور آج رات، جب میں [برطانیہ عظمیٰ کے]کنگ چارلس کے ساتھ کھڑا ہوں، کہ جو اپنے شاہی مقام کے باوجود عشروں تک بڑے انکسار کے ساتھ مذاہبِ عالم کے مطالعے اور مکالمے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ آج مَیں ایک ایسے موضوع پہ بات کرنا چاہتا ہوں، جسے مغرب میں آج بھی بہت سے لوگ غلط طریقے سے سمجھتے ہیں اور وہ ہے: ’اسلام‘۔
جب امریکا یا یورپ کے لوگ لفظ’اسلام‘ سنتے ہیں تو بہت بڑی تعداد کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے تنازعے، جھگڑے اور انتہاپسندی کا خوف اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ میرے دوستو، بدگمانی پر استوار یہ وہ حقیقت ہے، جو گذشتہ کئی عشروں سے ہمارے میڈیا کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ پڑھنے، سننے اور مسلمانوں سے ملنے کا وقت نکالیں تو آپ اسلام کے بارے میں انسانیت، روحانیت، سماجی انصاف کے اصولوں کو گہرائی سے پالیں گے۔
کنگ چارلس نے ایک بار کہا تھا: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام ہمارے ماضی اور حال کا حصہ ہے، اسے سمجھ کر ہم خود کو اور زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے ان کی بات سے زیادہ اتفاق نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد جب میں نے اسلام اور اسلامی دنیا کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے اس بات نے حیران کیا کہ یہاں کتنی تاکید معاشرے میں انصاف (Justice)، ہمدردی (Compassion) اور انصاف پسندی (fairness)پر کی گئی ہے۔
عربی لفظ اُمّہ کا مطلب محض قوم نہیں ہے۔اس کا مطلب ایک ایسی دیکھ بھال کرنے والی جماعت ہے، جو نسل یا دولت سے نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری سے جڑی ہوتی ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہمارے سیاسی نظام اس اصول کی ترجمانی کرتے، اور ہم فی الحقیقت یہ بات تسلیم کرتے کہ ایک شخص کی تکلیف ہم سب کی تکلیف ہے تو ہماری معاشرت پر اس کا کیسا مثبت اثر ہوتا؟ یہ اقدار میرے لیے اجنبی نہیں، یہ آفاقی (universal) اور انسانی ہیں۔
یہی وہ اصول ہے جس پر میں ہمیشہ بطور ڈیموکریٹک سوشلسٹ یقین رکھتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے سے وابستہ اور بندھے ہوئے ہیں کہ کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا جانا چاہیے، اور اخلاقی ہمدردی کو پالیسی کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
اس تقریب سے پہلے جب کنگ چارلس اور میں آپس میں بات چیت کر رہے تھے، تو انھوں نے مجھ سے ایک ایسی بات کہی جو میرے دل کی گہرائی میں اُتر گئی۔ انھوں نے کہا: ’’برنی،میں نے قاہرہ، استنبول اور لاہور کی مساجد میں چہل قدمی کی ہے۔ میں نے رات کے سناٹے میں اذان سنی ہے، اور ان لمحوں میں مَیں نے بہت کچھ سمجھا اور جانا کہ ایمان اپنی بہترین شکل میں غلبے کا نام نہیں، بلکہ خود سپردگی (surrender)کا نام ہے۔ امن کے آگے خودسپردگی، انکساری کے سامنے خودسپردگی، خدا کے حضور خودسپردگی، اور بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جسے جدید دنیا بھلا چکی ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں تکبر کو سراہا جاتا ہے، منافع کی تعریف ہوتی ہے، اور عاجزی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔لیکن اسلام میں یہی عاجزی، طاقت ہے۔ خدا کے حضور جھک جانا، اسلام کے نزدیک اپنی مرضی کو کسی عظیم تر، عادل اور نفس سے بالاتر ہستی کے تابع کرنا ہے۔ جب میں قرآن کی آیات پڑھتا ہوں تو مجھے نہ خوف محسوس ہوتا ہے اور نہ جارحیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، بلکہ حسن، عقل، نظم اور یہ گہرا احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایمان عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’انصاف پر قائم رہو، خواہ وہ تمھارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
لمحہ بھر کے لیے سوچیے! ہمارا معاشرہ کیسا ہوتا اگر ہر سیاسی لیڈر، ہر چیف ایگزیکٹو آفیسر، ہر جج اس حکم پر عمل کرتا؟ مجھے ایک بات کہنے دیجیے۔ اگر آپ محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کا آخری خطبہ (Final Sermon)پڑھیں تو آپ کو وہ قدریں ملتی ہیں، جن کی بلندیوں، تک آج کی دنیا ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ نسلوں کی برابری، عورتوں کے لیے احترام، معاشی انصاف، اور انسانی حُرمت کی پاس داری___ یہ کوئی آج کے انقلابی(Radical) خیالات نہیں ہیں۔ یہ ایک منصفانہ معاشرے کی بنیادیں ہیں۔ لیکن زندگی کے کسی موڑ پر دنیا نے اسلام کی تصویر کو بگاڑ دیا۔ دوسروں پر الزام لگانا اور ایک خودساختہ ’دشمن‘ تخلیق کرنا آسان ہوگیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام جن اصولوں کی تعلیم دیتا ہے ہمدردی، خیرخواہی، مالی معاونت، علم کی راہ میں تحقیق و جستجو وغیرہ آج وہی اصول مغربی تہذیب اپنے دفاع میں پیش کرتی ہے۔
کنگ چارلس اکثر اسلام کی ماحولیاتی اخلاقیات (environmental ethics) کا ذکر کرتے ہیں، کہ کس طرح قرآن فطرت کے احترام، توازن اور پائے داری کی تعلیم دیتا ہے۔ ذرا سوچیئے، ایک ایسے دور میں جب کارپوریشنیں منافع کے لیے زمین کو تباہ کر رہی ہیں، ایک ۱۴ سو برس پرانا مذہب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ’’زمین آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے، آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ آپ اس کے محافظ ہیں (caretakers)، فاتح (conquerors)نہیں ہیں‘‘۔
یہ پیغام میرے دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے، کیونکہ جب میں موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتا ہوں تو میں صرف سیاست یا سائنس کی بات نہیں کرتا بلکہ میں اخلاقیات کی بات کرتا ہوں۔ زندگی کو سہارا دینے والی چیز کو تباہ کرنا ہماری اخلاقی ناکامی ہے۔ اور اسلام نے یہ بات ہماری جدید کانفرنسوں اور کاربن رپورٹوں سے بہت پہلے سمجھا دی تھی۔
جب کنگ چارلس نے برسوں پہلے ’اوکسفرڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘(OCIS) سے خطاب کیا تھا تو انھوں نے ایک جملہ کہا تھا، جو آج بھی گونجتا ہے:’’اسلامی دنیا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل کیا جائے، بلکہ یہ ایک شراکت دار ہے جس سے مل کر کام کیا جائے‘‘۔ (The Islamic World is not a problem to be solved, but a partner to be engaged).
میرے دوستو، اس جملے میں بے پناہ حکمت ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امن غلبے سے نہیں آئے گا، یہ مکالمے سے آئے گا۔ آپ جانتے ہیں، میں نے امریکا اور یورپ کے مسلمانوں، طلبہ، مزدوروں اور اسکالروں سے ملاقاتیں کی ہیں، اور میں نے ان کی آنکھوں میں وہی امیدیں دیکھی ہیں جو ہر انسان کے دل میں ہوتی ہیں:عزّت، استحکام، مواقع، امن۔ لیکن میرا دل اس بات پر ٹوٹ جاتا ہے کہ انھیں کتنی بار اُن کے اپنے ہی ملکوں میں اجنبی سمجھا جاتا ہے۔ کتنی بار انھیں ان دقیانوسی اور الزامی تصورات کے خلاف اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے جنھیں انھوں نے کبھی پیدا ہی نہیں کیا۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک منصفانہ دنیا نہیں بنا سکتے، جب تک ہم تقریباً دو ارب لوگوں کے مذہب کو بدنام کرتے رہیں گے۔ ہم آزادی پر یقین کا دعویٰ نہیں کر سکتے، جب کہ تعصب کو ہوا دیتے رہیں۔ اور ہم مساوات کی بات نہیں کر سکتے، اگر ہم سچائی کو پروپیگنڈے سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
جب میں دھوپ میں چمکتے ہوئے مساجد کے سنہرے گنبدوں اور میناروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اُن میں کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ میں تاریخ پڑھتا ہوں تو اُس میں ایک ایسی تہذیب کو دیکھتا ہوں، جس نے ہمیں الجبرا، طب، فلکیات، تعمیرات اور فلسفہ دیا۔ وہی تہذیب جس نے یورپ کے ’تاریک دور‘(Dark Ages) میں یونانی علم کو محفوظ رکھا۔
اسلام ترقی کا دشمن نہیں تھا، بلکہ سراپا ترقی تھا، اور میں نے یہی بات کنگ چارلس سے بھی کہی تھی: ’’جدید مکالمے (Discourse) کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا ہے۔ ہم نے خوف کو تجسس (Curiosity) پر حاوی کر دیا ہے۔ لیکن اگر ہمیں انسانیت کے طور پر زندہ رہنا ہے اور میرا مطلب اخلاقی طور پر زندہ رہنا ہے، تو ہمیں اس تجسس کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا، اور بلاتعصب سننے کی خواہش کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا‘‘۔
کنگ چارلس نے سر ہلایا اور کہا: ’’برنی، ایمان تقسیم کے بارے میں نہیں، یہ تعلق جوڑنے کے بارے میں ہے‘‘۔ میں مسکرایا کیونکہ چند الفاظ میں انھوں نے وہ سب کچھ بیان کردیا، جس پر ہم دونوں یقین رکھتے ہیں۔ چاہے آپ تاج پہنتے ہوں یا بروکلین کی سڑکوں پر سے چلتے ہوئے آتے ہوں، امن کا راستہ ایک ہی ہے اور یہ انکسار سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے کہتا ہوں ، خواہ وہ مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں، ملحدوں میں سے کوئی بھی ہو، سچائی اخلاص سے تلاش کرو۔ پڑھو، پوچھو، سیکھو‘‘۔
ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کی سرخیوں کی بنیاد پر اپنی رائے نہ بنائو۔ اگر تم قرآن کو کھلے ذہن سے پڑھو گے تو تمھیں توازن، انصاف اور ہمدردی کا پیغام ملے گا۔ اگر تم تاریخ پڑھو گے تو پاؤ گے کہ کبھی مسلمان اور عیسائی اسپین میں ساتھ رہتے تھے، اور فن، شاعری اور رواداری کی ایک تہذیب تخلیق کرتے تھے۔
اگر تم آج کے معاشروں میں بھی دیکھو گے تو تمھیں بے شمار مسلمان ملیں گے جو غریبوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، بیماروں کو شفا دے رہے ہیں، نوجوانوں کو تعلیم دے رہے ہیں، اور انصاف کے لیے کھڑے ہیں۔ یہی ہے وہ اسلام جو میں نے دیکھا ہے۔ میری اور کنگ چارلس کی گفتگو نے شاید یورپ کو چونکا دیا ہو۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی انقلابی گفتگو تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ سچی تھی۔ کیونکہ ایک شور میں ڈوبی ہوئی دنیا میں سچائی واقعی انقلابی محسوس ہوتی ہے۔
ہم سیاست دان اور بادشاہ بن کر اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔ ہم دو انسان بن کر سچ کی تلاش میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اور سچ یہ ہے: اسلام اپنی بنیاد میں مغرب کا دشمن نہیں ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے، انھی ابدی اصولوں کو دکھانے والا جنھیں ہم سب قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں: ہمدردی، عاجزی، اور انصاف۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں: مغرب کو چاہیے کہ اسلام کو خوف کے ذریعے نہیں، بلکہ دوستی کے ذریعے دوبارہ دریافت کرے۔ ہمارے بچے صرف جنگیں نہیں دیکھیں بلکہ دانائی بھی سیکھیں۔ اور ہم ایک بار ہمیشہ کے لیے وہاں پُل بنائیں جہاں جہالت نے دیواریں کھڑی کی تھیں۔ کیونکہ مستقبل ان کا نہیں ہے جو زور سے چِلّاتے ہیں، بلکہ ان کا ہے جو گہرائی سے سنتے ہیں۔ اور یہی، میرے دوستو، امن کی ابتدا ہے۔ جب میں اسٹیج سے کنگ چارلس کے ساتھ اترا تو میں بھی اس لمحے محسوس کر رہا تھا تناؤ، خاموشی، اور کمرے میں ایک نئی بیداری کو۔ کچھ لوگ متاثر ہوئے، کچھ حیران رہ گئے، اور چند شاید بےچین ہوئے، مگر سچ یہی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ جھوٹ کو ہلادیتا ہے۔ یہ انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور جب میں نے کنگ چارلس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:’’برنی، ایک ایسی دنیا میں جہاں خوف منافع بن چکا ہے، امن کی بات کرنا بھی ہمت مانگتا ہے‘‘۔
یہ جملہ کئی ہفتے میرے ذہن میں گونجتا رہا، کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ آج خوف ایک صنعت بن چکا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جو سیاست، میڈیا اور طاقت کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔ اور اسلام گذشتہ کئی عشروں سے اس صنعت کا سب سے آسان ہدف رہا ہے۔ نامعلوم (unknown) کے خوف کو بیچنا لوگوں کو الٰہی سمجھ بوجھ (divine)سکھانے سے کہیں آسان ہے۔
مَیں یہ گفتگو جاری رکھنا چاہتا ہوں بطور سیاست دان نہیں، ورمونٹ [امریکی ریاست] کے شہری کے طور پر نہیں، بلکہ بطور ایک انسان کے، جو انصاف، مساوات اور ہر انسان کی اخلاقی حُرمت پر یقین رکھتا ہے۔ دنیا کے سفر نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ ہر ثقافت، ہر گاؤں، ہر مذہب میں ایک مشترکہ خواہش ہوتی ہے: ’امن‘۔
دنیا بھر کی مائیں چاہتی ہیں کہ ان کے بچے محفوظ رہیں۔ دنیا بھر کے باپ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت کا احترام کیا جائے۔ دنیا بھر کے نوجوان چاہتے ہیں کہ سچائی، طاقت سے زیادہ اہم ہو۔ اور اگر آپ قرآن کو توجہ سے سنیں اور پڑھیں، اگر آپ نبی محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کی تعلیمات کو سمجھیں، تو آپ انھی انسانوں جیسی خواہشوں کی بازگشت سنیں گے۔ قرآن کہتا ہے:’’خدا انصاف، نیکی اور قرابت داروں سے احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔
یہ صرف اسلامی قدریں نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی قدریں ہیں اور یہ ہم سب انسانوں کی میراث ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں، جہاں مقدس چیزوں کو خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے: عیسائی سچ، مسلم سچ، مغربی سچ اور مشرقی سچ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ کا کوئی پاسپورٹ نہیں ہوتا۔ انصاف کی کوئی قومیت نہیں ہوتی اور ہمدردی ہر زبان بولتی ہے۔
کنگ چارلس نے ایک بار کلیرنس ہاؤس میں ہماری نجی ملاقات کے دوران کہا: ’’برنی، مغرب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی درانداز نہیں۔ یہ ہماری مشترکہ کہانی کا حصہ ہے‘‘۔ انھوں نے بالکل درست بات کہی۔ نشاتِ ثانیہ (Renaissance) تنہا کسی خلا میں نہیں ہوئی تھی۔ جدید سائنس، طب اور فلسفے کی جڑیں بغداد، قرطبہ اور دمشق کی لائبریریوں سے جڑی ہیں۔
جب یورپ ’تاریک دور‘ میں ڈوبا ہوا تھا، مسلمان اسکالر ارسطو کا ترجمہ کر رہے تھے، افلاطون کی فکر کو محفوظ کر رہے تھے، ستاروں کے نقشے تیار اور ایسے ہسپتال قائم کررہے تھے جہاں مریض کی دیکھ بھال عبادت سمجھ کر کی جاتی تھی۔ یہ کہانی نہیں، یہ تاریخ ہے۔ اور جب میں مغرب کے لوگوں کو اسلام کو ’غیر ملکی‘ کہہ کر مسترد کرتے دیکھتا ہوں، تو پوچھتا ہوں: ’غیرملکی کس چیز کے لحاظ سے؟‘ کیا یہ عقل کے خلاف ہے؟ کیا یہ ہمدردی کے خلاف ہے؟ کیونکہ اگر آپ اسلامی تہذیب کی تاریخ پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام، فتوحات سے زیادہ تجسس کے بارے میں متحرک تھا۔
عباسی خلافت کے علما نے دنیا کے معاملات کو صرف ذہن نشین نہیں کیا، وہ اس سے سوال بھی کرتے تھے۔ وہ مقصد، توازن اور اندازِکار تلاش کرتے تھے۔ یہی وہ جستجو تھی جس نے صدیوں بعد یورپ میں ’تحریک بیداری‘ کو جنم دیا، مگر ہم یہ حصہ نہیں پڑھاتے۔ ہم نیوٹن [ریاضی دان، ماہرطبیعیات، ۱۶۴۳ء-۱۷۲۷ء]کا نام لیتے ہیں، مگر ابن الہیثم [ماہر طبیعیات و ریاضی دان: ۹۲۵ء-۱۰۳۹ء]کو بھول جاتے ہیں۔ ہم لیونارڈو ڈاونچی [ریاضی دان، انجینئر: ۱۴۵۲ء- ۱۵۱۹ء] کی تعریف کرتے ہیں، مگر الجزری [اسماعیل الجزری، ریاضی دان، انجینئر: ۱۱۳۶ء-۱۲۰۶ء] کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ہم سقراط کو پڑھاتے ہیں، مگر الفارابی [فلسفی، طبیب، ریاضی دان: ۸۱۰ء- ۹۵۱ء]کو بھول جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک نسل یہ سمجھ کر بڑی ہوتی ہے کہ روشنی صرف مغرب نے ایجاد کی اور مشرق ہمیشہ اندھیرے میں رہا۔ یہ جھوٹ تکبر کو جنم دیتا ہے، اور تکبر ہمیشہ تقسیم پیدا کرتا ہے، جب کہ اسلام عاجزی سکھاتا ہے کہ علم خدا کی ملکیت ہے اور انسان کا کام صرف اخلاص کے ساتھ اسے تلاش کرنا ہے۔ یہی پیغام اس دنیا کو اس تکبر سے بچا سکتا ہے، جو آج اسے تباہ کر رہا ہے۔
جب ہم ایمان کے بارے میں بات کر رہے تھے تو کنگ چارلس نے کہا: ’’قرآن کا ماحولیات کے بارے میں نقطۂ نظر وہ چیز ہے، جسے مغرب کو بہت پہلے سیکھ لینا چاہیے تھا‘‘۔ اور میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اسلام زمین کو ایک مقدس امانت سمجھتا ہے۔ نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا: ’’زمین سرسبز و شاداب ہے، اور خدا نے تمھیں اس کا نگہبان بنایا ہے‘‘۔ آج کی دنیا سے اس فرمان کا موازنہ کریں ۔جلتے جنگلات، زہریلے سمندر، کاروباری لالچ جو زندگی کو سہارا دینے والے توازن کو تباہ کر رہی ہے، مگر اسلام جو سکھاتا ہے اور جو سائنس ثابت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ فطرت کو تباہ کرتے ہو تو سمجھ لو کہ تم خود کو تباہ کرتے ہو۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بادشاہ اور ایک سوشلسٹ کے درمیان یہ گفتگو دراصل ’فہم و احساس میں رابطے‘ کے بارے میں ہے۔اس شعور کے بارے میں کہ سچائی کسی ایک سیاسی نظام یا مذہب کی ملکیت نہیں۔ سچ یونہی رواں دواں بہتا ہے، جیسے روشنی ہر کھلے دل میں داخل ہو جاتی ہے۔ میں ایک بات واضح کر دوں: میں یہاں اسلام کی تبلیغ کرنے نہیں آیا اور یہ میرا کردار نہیں۔ مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس چیز کو بدنام (demonizing) کرنا بند کرنا چاہیے، جسے ہم سمجھتے تک نہیں ہیں۔ کیونکہ جس لمحے ہم کسی چیز کو ’دوسرا‘ کہتے ہیں، تو دراصل اُس وقت ہم اسے سننا چھوڑ دیتے ہیں۔
جب کنگ چارلس نے اسلام کی خوب صورتی اور توازن (beauty and balance)پر کھل کر عوام میں (publicly)بات کی تو میڈیا سے وابستہ کچھ افراد نے ان کو ہدفِ تنقید بنایا۔ جب میں نے امریکا میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا تو مجھے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حقیقی قیادت تالیوں (applause)کی طلب گار نہیں ہوتی، وہ سچائی کی طالب اور پیش کار ہوتی ہے، اور سچائی اکثر تنہائی کی شاہراہ پر چلتی ہے۔ آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں: کچھ سال پہلے میری ملاقات مشی گن میں ایک نوجوان مسلمان عورت سے ہوئی۔ اس نے کہا:’’سینیٹر، میں یہاں پیدا ہوئی ہوں اور اس ملک سے محبت کرتی ہوں، لیکن جب کبھی میں حجاب پہنتی اور باہر نکلتی ہوں تو لوگ مجھے ایسے دیکھتے ہیں، جیسے میں یہاں کی نہیں ہوں‘‘۔ اس کے الفاظ نے میرا دل توڑ دیا۔ ہم خود کو مہذب کیسے کہتے ہیں جب ہم اپنے ہم وطنوں کو محض مختلف طریقے سے خداکو ماننے پر اجنبی محسوس کراتے ہیں؟ آزادی کی بنیاد احترام ہے اور ہم یہ بات بھول کیسے گئے؟ یہ گفتگو صرف اسلام کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ہمارے بارے میں ہے کہ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی اخلاقی ہمت رکھتے ہیں؟
کنگ چارلس نے ایک بار کہا تھا،’’ہمیں اپنی جدید دنیا میں مقدس کو دوبارہ دریافت (rediscover the sacred)کرنا ہوگا‘‘۔ میں مکمل اتفاق کرتا ہوں، کیونکہ اخلاق کے بغیر جدیدیت (modernity)کھوکھلی ہے۔ یہ ہمیں ٹکنالوجی تو دیتی ہے، مگر ہم سے نرمی (tenderness) چھین لیتی ہے۔ یہ ٹکنالوجی طاقت تو دیتی ہے، مگر مقصد چھین لیتی ہے۔
اسلام کی اذان ’اللہ اکبر‘ کا مطلب ہے: خدا سب سے بڑا ہے۔ خدا ہماری سیاست سے بڑا ہے، ہمارے غرور سے بڑا ہے، ہماری لالچ سے بڑا ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ہم کائنات کا مرکز نہیں ہیں کہ حکمت کی ابتدا عاجزی (humility)ہے۔ شاید آپ مسلمان نہ ہوں، شاید آپ مذہبی بھی نہ ہوں مگر زندگی کے لیے عاجزی کا اصول مرکزیت رکھتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ضروری ہے، کیونکہ تکبر (arrogance) ہی اس دنیا کو مار رہا ہے۔
جب کنگ چارلس اور میں نے اپنی گفتگو ختم کی تو ایک صحافی نے پوچھا، ’’سینیٹر سینڈرز، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ اسلام مغرب کو بچا سکتا ہے؟‘‘ میں مسکرایا اور کہا، ’’نہیں، میں کہہ رہا ہوں کہ حکمت و دانائی بچا سکتی ہے‘‘۔ کیونکہ ہمیں اسلام کو بچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنی جہالت سے، اپنی تقسیم سے، اپنے اخلاقی زوال (decay)سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی معیشت سے جو انسانوں کے مقابلے میں منافع کو زیادہ اہمیت دیتی ہے،اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اس سیاست سے بچنے کی ضرورت ہے، جو جوڑنے کے بجائے تقسیم کرتی ہے۔ اس ثقافت سے دُور ہونے کی ضرورت ہے جو شور کو حکمت سمجھ بیٹھتی ہے۔ نبی محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا:’’تم میں بہترین وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے‘‘۔ میرے نزدیک یہی بہترین سیاست اور خدمت ہے۔
ذرا تصور کریں اگر دنیا واقعی ان الفاظ پر عمل کرنے لگے، ایک ایسی دنیا جہاں رہنما اپنے لوگوں کو ووٹ نہیں بلکہ امانت سمجھیں۔ جہاں دین ہتھیار نہیں بلکہ ہمدردی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھنے کا دروازہ بنے۔ یہی موضوع تھا جس پر میں اور کنگ چارلس گفتگو کر رہے تھے، عقائد پر نہیں بلکہ انسانیت پر اور مذہبی اختلافات پر نہیں بلکہ اخلاقی عظمت پر۔
ایک روز مَیں اوکسفرڈ کی مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔ اذان شروع ہوئی تو میں نے اپنے اردگرد چہروں کو دیکھا نو جوان، بوڑھے، کالے، گورے، مرد، عورتیں، مختلف زبانیں، مختلف خواب دیکھنے والے، مگر سب ایک ہی آسمان کے نیچے خاموش کھڑے اذان سن رہے تھے۔ اور میں نے سوچا: یہی وہ چیز ہے جسے دنیا بھول چکی ہے کہ آخر میں ہم سب ایک ہی خالق کے سامنے جھکتے ہیں، چاہے کسی نام سے پکاریں۔
یہ احساس کمزوری نہیں طاقت ہے۔ وہ طاقت جو جنگیں روک سکتی ہے، زخم بھر سکتی ہے، اور اعتماد دوبارہ قائم کر سکتی ہے۔ دیکھیں، ہم طاقت کی کئی قسمیں سنتے ہیں: سیاسی طاقت، فوجی طاقت، معاشی طاقت، مگر سب سے بڑی طاقت اخلاقی طاقت ہے۔ معاف کرنے کی، سمجھنے کی، جوڑنے کی طاقت۔ اور یہی اسلام اپنی بنیاد میں سکھاتا ہے کہ سب سے بڑی فتح دوسروں پر نہیں، اپنے نفس پر ہوتی ہے۔
جب میں اور کنگ چارلس اس شام ایک دوسرے سے رخصت ہوئے، تو انھوں نے آہستگی سے کہا: ’’برنی، شاید ہمارے پوتے پوتیاں وہ کام مکمل کریں جو ہم نے شروع کیا ہے‘‘۔ مجھے امید اور یقین ہے کہ نئی نسل مختلف ہے۔ وہ تقسیم سے تھک چکی ہے، وہ سچ چاہتی ہے، قبیلے بازی نہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں، پروپیگنڈا نہیں۔ وہ معنی چاہتے ہیں، اور معنی سچائی سے شروع ہوتے ہیں، اس سچائی سے جو ہم نے اس رات بیان کی تھی، جب ہم نے اسلام کو ’وہ‘ نہیں بلکہ ’ہم‘ کا حصہ سمجھ کر بات کی تھی۔ اگر آپ اس گفتگو سے ایک بات یاد رکھیں تو وہ یہ ہونی چاہیے: کوئی تہذیب اس چیز سے نفرت کر کے نہیں اُبھر سکتی جسے وہ سمجھتی تک نہیں۔ کوئی مذہب خوف کے ذریعے نہیں پھلتا پھولتا۔ اور کوئی دل تعصب کے ذریعے امن نہیں پاتا۔ ہم اسلام سے سیکھ سکتے ہیں اس کی ہمدردی، اس کے نظم کی خوب صورتی، اس کے علم کے احترام، اس کے اس یقین سے کہ رحمت، طاقت سے بڑی ہے۔
یورپ، امریکا، پوری جدید دنیا اور ہم ایک چوراہے پر کھڑے ہیں۔ یا تو ہم تکبر کی راہ پر چلتے رہیں یا سچائی کے آگے جھکنا سیکھیں، حالانکہ سچائی نہ مغربی ہے نہ مشرقی، یہ آفاقی ہے۔ جب قرآن کہتا ہے:’’ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے پیدا کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘، تو یہ صرف شاعری نہیں بلکہ یہ انسانیت کی بقا کا اخلاقی خاکہ ہے۔ میں اور کنگ چارلس یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے۔
شاید اسی لیے یہ بات یورپ کو چونکا گئی ۔اس لیے نہیں کہ یہ متنازعہ تھی، بلکہ اس لیے کہ یہ بات سچی تھی۔ تو آئیے اسلام کی بات خوف سے نہیں بلکہ انصاف سے کریں۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ دین سرحد نہیں، پُل ہوتا ہے۔ ایسی دنیا بنائیں جہاں مسجد، چرچ، کنیسہ اور مندر سب ایک ہی سچ کی گونج کے مراکز بنیں کہ خدا کی روشنی ہر اس دل میں چمکتی ہے، جو امن کی تلاش میں ہو۔ کیونکہ آخر میں ایک ہی سوال رہ جاتا ہے: ’’کیا ہم ایک دوسرے کو سمجھنا اور محبت کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
ایک مرحلے پر، روزہ رکھتے ہوئے میری طبیعت خراب ہونے لگی، لیکن میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ اس کی وجہ یہ ڈر تھا کہ وہ روزہ رکھنے پر پابندی لگا دیں گے۔ بہرحال بیماری کی وجہ سے مسلسل روزے رکھنا مجھے چھوڑنا پڑا۔ جن دنوں روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا، رات کے کھانے کا کچھ حصہ سحری کے لیے بچا لیتا۔ ایک دن ایک گارڈ نے یہ دیکھا اور اپنے اعلیٰ افسران کو رپورٹ کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کمانڈر آیا اور کہا:’’تم رات کا کھانا بچا کر سحری کے لیے نہیں رکھ سکتے۔ اگر یہ زیادہ دیر رکھنے سے خراب ہو گیا اور تم بیمار ہو گئے تو اس کے نتیجے میں ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے یہاں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اگر تم روزہ رکھنا چاہتے ہو، تو صرف پانی پیو اور رات کا کھانا رات ہی کو کھاؤ‘‘ ___ اس کے بعد، میں رات کا کھانا سحری کے لیے نہیں بچا سکتا تھا۔ روزے کے دنوں میں، مجھے صرف پانی کے ساتھ روزہ رکھنا پڑتا تھا۔
ایک رات کھانا ختم کر کے عشاء کی نماز کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک گارڈ آیا اور سرگوشی میں بولا:’’آج رات ہمیں کھانے کے ساتھ ایک ایک کیلا ملا ہے۔ چونکہ تم صرف پانی کے ساتھ روزہ رکھتے ہو، اس لیے میں تمھیں اپنے حصے کا کیلا دیتا ہوں۔ اسے سحری کے لیے چھپا کر رکھ لو‘‘۔
یہ ایک بڑا سا کیلا تھا۔ وہ آہستگی سے بولتا رہا،’’قیدیوں کو اس طرح کچھ دینے کی ہمیں بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کسی کو نہ بتانا کہ میں نے تمھیں یہ دیا ہے۔ سحری میں، اسے خاموشی سے کھانا اور چھلکا ٹوائلٹ میں پھینک کر پانی سے بہا دینا۔ اگر کسی کو پتا چل گیا، تو مجھے اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے‘‘۔
اس نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا، اور سرگوشی میں کہا:’’جب ہم یہاں پر ڈیوٹی کے لیے پہلی بار آتے ہیں، تو ہمیں کچھ باتوں کی بریفنگ دی جاتی ہے۔ شروع میں، ہمیں کئی لاشوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لاشیں گارڈوں کی ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے مختلف طریقوں سے قیدیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے جس طرح قیدیوں کو نام نہاد کراس فائر (یعنی جعلی مقابلے) کے لیے لے جا کر مار دیا جاتا ہے، تو انھیں بھی ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ جن گارڈوں نے ان کی مدد کی تھی، قیدیوں کو سزا دینے کے بعد، ان گارڈوں کو بھی مار دیا جاتا ہے۔ پریس بریفنگ میں کہا جاتا ہے کہ ایک دہشت گرد اور ہمارا ایک آدمی اسلحہ برآمدگی کی کارروائی کے دوران فائرنگ میں ہلاک ہوا‘‘۔
اس کے یہ الفاظ سن کر میرے جسم میں خنجر جیسی تیز دھار نے سنسنی دوڑا دی۔ وہ بولتا رہا: ’’ہمیں ان مارے گئے گارڈوں کی، گولیوں سے چھلنی لاشیں دکھائی جاتی ہیں۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے، یاد رکھو جو کوئی ایسی کوشش کرے گا، اسے اسی طرح مار دیا جائے گا۔ کوئی محکمانہ تحقیقات نہیں، کوئی جسمانی سزا نہیں، صرف براہ راست گولی کی سزا۔ ایسی وارننگ کے بعد ہمیں یہاں کام پر لگایا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم ان معاملات سے بہت ڈرتے ہیں‘‘۔
میں نے کیلا کمرے کے ایک تاریک کونے میں رکھا اور لیٹ گیا۔ یہ سوچا کہ سحری سے پہلے اُٹھوں گا، تہجد پڑھوں گا، کیلا کھاؤں گا، اور پھر روزہ شروع کروں گا۔ اس وقت تک میری جسمانی گھڑی تربیت یافتہ ہو چکی تھی۔ اب اپنی مرضی کے وقت پر جاگ سکتا تھا۔
سحری کے وقت کا اندازہ لگا کر، میں جاگا اور کیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ حیرت سے یہ دیکھا کہ ایک چوہا اسے کھا رہا تھا۔ اچانک گھبرا کر، میں اچھل پڑا۔ اس اچانک حرکت میں، مجھے اپنے سینے کے بائیں جانب ایک تیز کھچاؤ محسوس ہوا، اور درد نے مجھے گرا دیا۔ اس وقت تک چوہا بھاگ چکا تھا۔ سینے کے شدید درد کے ساتھ بیٹھ کر، میں نے سوچا کہ کیا کروں؟ کیا میں گارڈز کو بلاؤں؟ پھر میں نے سوچا۔ وہ شاید کچھ اور تو نہ کر سکیں، لیکن روزہ رکھنے سے ضرور روک سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد درد کچھ کم ہوا، میری سانس دوبارہ نارمل ہوئی۔ میں نے کیلا اٹھایا۔ اس کا کچھ حصہ چوہا کھا چکا تھا، اس خراب حصے کو توڑ کر پھینک دیا اور باقی کھا کر روزہ شروع کیا۔
اس وقت تک، ایک بات واضح طور پر سمجھ چکا تھا کہ یہ لوگ مجھے کبھی کسی عام عمل کے نتیجے میں رہا نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ کسی معجزاتی طریقے سے میری آزادی کا بندوبست نہ کرے۔ اگر اس نے مجھے کسی غیبی طاقت کے ذریعے نہ چھڑایا، تو یہ مجھے کبھی نہیں رہا کریں گے۔ بیماری کی وجہ سے یہ مجھے علاج کے لیے کہیں نہیں لے جائیں گے، نہ کوئی مناسب میڈیکل دیکھ بھال کا بندوبست کریں گے۔
زیادہ تر گارڈ، ہم قیدیوں کے ساتھ سخت ناروا سلوک کرتے تھے۔ ایک یا دو کے علاوہ، مشکل ہی سے کوئی نرم لہجے میں بات کرتا تھا۔
ایک رات میں تہجد پڑھ رہا تھا، دل بوجھل تھا، اور نماز میں رو رہا تھا۔ گارڈ عام طور پر ایک چھوٹی کھڑکی سے ہمیں دیکھتے اور گشت کرتے تھے۔ اچانک مجھے چھوٹی کھڑکی کھلنے کی آواز سنائی دی۔ معمول کے مطابق اس وقت کوئی نہیں آتا تھا، اس لیے میں چونک گیا۔ ایک گارڈ نے کہا:’’دیوار کی طرف منہ کرو اور قریب آؤ‘‘۔
جب میں قریب گیا، اس نے آہستہ سے کہا: ’’ہم تمھیں اکثر دیکھتے ہیں۔ آپس میں ہم کہتے ہیں کہ تم دوسرے قیدیوں جیسے نہیں ہو۔ تم خاموش رہتے ہو، روزہ رکھتے ہو اور نماز پڑھتے ہو۔ تمھیں اس حال میں دیکھ کر ہمیں تکلیف ہوتی ہے، لیکن ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہم یہاں صرف اپنے خاندانوں کو پالنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اگر ہم کچھ اور کر سکتے، تو یہ نوکری فوراً چھوڑ دیتے۔ ہمیں یہ ملازمت اور یہ کام بالکل پسند نہیں‘‘۔
وہ مزید بولنے لگا:’’کیا تم جانتے ہو کہ بنگلہ دیش فوج کی کمانڈو تربیت کے دوران میری کارکردگی اچھی تھی، اور انھوں نے کہا کہ وہ مجھے اعلیٰ کورس کے لیے لیں گے۔ میں خوش تھا کہ زیادہ تربیت کا مطلب بہتر تنخواہ ہے۔ وہ ہمیں انڈیا لے گئے۔ وہاں پر انھوں نے ہمیں سکھایا کہ کس طرح اغوا کرنا ہے، اور کس طرح جسموں کو کاٹ کر پانی میں غرق کرنا ہے۔ یہ ایک خوفناک تربیت تھی! ہمارے گروپ میں ہر طرح کے فوجی تھے، سینئر اور جونیئر بھی۔ پھر یہ زیادہ تر فوجی ملازمین، عوامی سیاست سے وابستہ رہے تھے‘‘۔
وہ بغیر رُکے بولتا رہا: ’’زیادہ تر چھاترو لیگ [اسٹودنٹس لیگ] اور عوامی لیگ کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ہم میں سے چند ہی لوگ فوج میں عام خاندانوں سے تھے۔ ہمیں صرف اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ ہم نے سروس میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ انھوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ کسی کا پیچھا کیسے کرنا ہے، فون ٹریک کرنا، پھر کسی گواہ کی نشانی کے بغیر اپنے ہدف کو اغوا کرنا۔ اور اگر کوئی اغوا کرتے دیکھ لیتا، چاہے مرد، عورت یا بچہ ہو، ہمیں حکم تھا کہ اسے بھی اٹھا لیں۔ کبھی ہم خاموشی سے ایک دوسرے سے پوچھ لیتے ہیں کہ کسے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ لیکن اب ہم یہ ملازمت چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے خاندانوں کا انحصار ہمارے اوپر ہے۔ ہم میں سے کچھ کے باپ کسان تھے، اور کچھ رکشہ چلاتے تھے۔ ہم نے بہت سی راتیں بھوک میں گزاریں۔ یہ نوکری بڑی جدوجہد کے بعد ملی۔ اگر ہم چھوڑ دیتے ہیں، تو ہمارے خاندان تباہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا، مجبوری میں ہم ان چیزوں کا حصہ ہیں۔ یقین کرو، بھائی، ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم اپنی قومی فوج میں اپنے ملک کی حفاظت کے لیے شامل ہوئے تھے، لیکن وہ ہمیں کرائے کے قاتلوں کی طرح استعمال کرتے ہیں‘‘۔
میں ملے جلے جذبات کے ساتھ یہ عبرت ناک حالات سنتا رہا۔
اس نے کہا:’’ست خیرا (Satkhira) میں مَیں نے ایک آدمی کو اعلیٰ حکام کے حکم پر جان سے مارڈالا۔ وہ ایک جماعت کا رہنما تھا اور بالکل میرے سسر جیسا نظر آتا تھا۔ اس بے گناہ قتل کے بعد سے میں آج تک ٹھیک طرح کھا نہیں سکتا۔ پہلے میں مضبوط تھا، لیکن اس کام کے بعد میری بھوک غائب ہو گئی ہے اور میرا جسم گھلتا جا رہا ہے۔ فوج میں ہمیں کیا کام کرنا چاہیے تھا، اور ہم سے کیا کام کرایا جا رہا ہے!‘‘
وہ لمحے بھر کے لیے رکا، پھر بتانے لگا: ’’تربیت کے دوران ایک سینئر نے پوچھا، ’اگر ہمیں اس کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، تو جب کبھی یہ حکومت بدل جائے گی تو ہمارا کیا ہوگا؟ تب کون ہماری حفاظت کرے گا؟’ چونکہ یہ تربیت انڈیامیں ہو رہی تھی، اس لیے وہاں انڈین افسر نے جواب دیا، ’ہم یہ پروگرام ۱۹۵۰ء کے زمانے سے چلا رہے ہیں۔ تمھیں کسی فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تمھاری حفاظت کا خیال رکھیں گے‘‘۔
گارڈنے مزید بتایا: ’’دیکھو، بھائی، تم مسلمان ہو، میں بھی مسلمان ہوں۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ اگر تمھارے پاس یہاں گھڑی ہوتی، تو یہ تمھیں وقت پر نماز پڑھنے میں مدد دیتی۔ ہمارے بنگلہ دیشی مسلم افسران اس بات کو سمجھتے ہیں، لیکن یہاں موجود انڈین افسران اس کی کبھی اجازت نہیں دیتے۔ صرف یہی نہیں، جب بھی ہم اغوا کے لیے جاتے ہیں، انڈین افسران ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ ہر تفصیل پر نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے بنگلہ دیشی اعلیٰ افسران ان کے ہاتھوں میں بے بس اور مجبور ہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔
وہ بولتا رہا اور وقت گزرتا گیا، حالانکہ میں نے مشکل سے کوئی لفظ اسے کہا۔ میں بس سنتا رہا۔ اس ڈیوٹی پر رہنے کے چند مہینوں میں، وہ کبھی کبھار باہر کی چھوٹی چھوٹی خبریں دینے کی کوشش کرتا۔ میں زیادہ بات نہیں کرتا تھا، اور اسے ڈر تھا کہ کوئی شکایت کر دے گا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کے الفاظ میں کتنی حقیقی شرمندگی تھی اور کتنی اپنے جرم کا جواز پیش کرنے کی کوشش۔ وجہ یہ ہے کہ مجرم ہمیشہ اپنے دفاع کے لیے کہانی بناتے ہیں۔ ظالموں کے ساتھی خود سے کہتے ہیں: ’’میں صرف احکامات کا غلام ہوں، میں یہ نہیں چاہتا تھا، میں نے صرف اطاعت کی۔ اس لیے مجھ پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔
یہاں پر مجھے امام احمد بن حنبلؒ کا ایک سبق آموز واقعہ یاد آتاہے:امام احمد بن حنبلؒ بھی ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں قید ہوئے تھے۔ وہ حدیث اور فقہ کے ایک عظیم عالم تھے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صدیوں بعد خدمت ِ دین کا روشن چراغ تھے۔ اس وقت قرآن اور حدیث کی تعلیم اور حفظ عام تھا۔ ایک دن، جس جیلر کے ماتحت وہ قید تھے، اس کے سامنے ایک حدیث پڑھی، جو اُسے انتہائی پریشان کر گئی۔
حضرت کعب بن عجرہؓ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے کعب بن عجرہ! میں تمھیں ایسے حکمرانوں کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، جو میرے بعد ہوں گے۔ جو اُن کے دروازے پر گیا، اور جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم پر ان سے تعاون کیا، وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں، اور نہ وہ حوض [کوثر] پر میرے پاس آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پر گیا یا نہیں گیا، لیکن نہ ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کی، اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض پر میرے پاس آئے گا۔(سنن ترمذی:۶۱۴)
یہ حدیث سن کر وہ جیلر گھبراگیا۔ کیونکہ وہ بھی حکمران کے ظلم میں شریک تھا۔ امام احمد جیسے عالم کو بغیر جرم قید کرنا، اذیت دینا، یہ سب جیل گارڈ کے اپنے ہاتھوں ہی سے ہو رہا تھا۔
جیلر نے بے چینی کے ساتھ، امام احمد سے اس حدیث کی تشریح پوچھی: ’’امام، ہم آپ کو اذیت دینا نہیں چاہتے۔ ہم آپ کو قید بھی نہیں رکھنا چاہتے۔ ہم صرف روزی کمانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہم احکامات کے غلام ہیں۔ جو ہمیں حکم دیا جاتا ہے، ہم کرتے ہیں۔ حدیث میں ’ظالم کے ساتھیوں‘ کی بات ہے۔ کیا ہم بھی اس دائرے میں آتے ہیں؟ حالانکہ ہم ظلم نہیں کرنا چاہتے‘‘۔
امام احمد بن حنبلؒ نے پُرسکون آواز میں جواب دیا:‘‘نہیں، تم صرف ساتھی ہی نہیں ہو۔ ساتھی تو وہ ہیں جو جانتے ہیں کہ کون ظالم ہے اور پھر بھی اس کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ بال کاٹنے، کپڑے دھونے، کھانا پکانے والے لوگ بھی ساتھی ہیں۔ لیکن تم جو ظالم کے احکامات پر عمل کرتے ہو، تم صرف ساتھی ہی نہیں بلکہ خود ظالم بھی بن جاتے ہو‘‘۔
اس حدیث اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے عظیم محدث کی تشریح نے کچھ افسروں اور گارڈوں کو بے چین کر دیا ہوگا کہ صرف احکامات کی تعمیل کا بہانہ انھیں ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتا۔ پھر بھی، دوسرے سخت افسروں اور گارڈوں کے مقابلے میں، چند گارڈ جو ذرا سی نرمی دکھاتے تھے، وہ گویا رحم دل لگتے تھے۔
اس کے بعد اوپر بیان کردہ تفصیل پر کوئی ردِ عمل دیے بغیر وہ خاص گارڈ اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں آہستہ آہستہ میرے ساتھ بات کرنے لگا۔ رات کی خاموشی میں اس کا ضمیر کچھ جاگتا تھا۔ اگرچہ اس کے دل میں کمزوری تھی، لیکن ضمیر کچھ بیدار ضرور ہوا۔ پھر یہ ہمارا ایک معمول بن گیا۔ میں شاذ و نادر بولتا، اور زیادہ تر اُس کی بات سنتا تھا۔
اس کے ذریعے مجھے باہر کی خبروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملنے لگے۔ وہ انھیں رپورٹ کی طرح اعلان نہیں کرتا تھا، بلکہ بے تکلفی یا لاشعوری طور پر چلتے چلتے چند جملوں میں بیان کر دیتا تھا۔ ایسی ہی ایک قابل ذکر خبر تھی: ’’خالدہ ضیاء کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘۔ مجھے یہ بات سن کر دُکھ ہوا۔ ہماری صورت حال اور اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری دیکھ کر، سیاسی تبدیلی کی امید بہت کم لگتی تھی۔
ایک دن اس گارڈ نے مجھ سے کہا:’’تم خوش نصیب ہو۔ ضیاء الحسن کے تبادلے کے بعد ایک اور آدمی یہاں آیا ہے۔ ضیاء ایک بے رحم اور بے درد افسر تھا، جو پل بھر میں لوگوں کو گولی مار دیتا تھا‘‘۔ جب ہم باتیں کرتے، مجھے اس سے قربت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن جب کچھ مدت بعد اس کا تبادلہ کہیں دوسری جگہ ہوا، تو وہ رفاقت ختم ہو گئی اور میں طویل عرصے تک کسی سے کھل کر نہ بولا۔ میں بالکل تنہائی محسوس کرتا تھا، جیسے کسی نے مجھے زندہ دفن کر دیا ہو۔ ان برسوں میں صرف تین یا چار گارڈوں نے مجھ سے کھل کر بات کی۔ وہ عام طور پر صبح سویرے بات کرنے آتے، خاص طور پر جب دوسرے قیدی گہری نیند سو رہے ہوتے تھے۔
تین سے ساڑھے تین سال قید کے بعد، قدرے ایک عمر رسیدہ گارڈ بات کرنے کے لیے کھڑکی پر آنے لگا۔ اس نے کہا کہ ’میری ریٹائرمنٹ میں اب تھوڑا وقت باقی ہے‘‘، اور پھر وہ گہرے دکھ کے ساتھ بولا:‘‘اب ترقیاں اور ریٹائرمنٹس عام طور پر نہیں ہوتیں۔ فوج مکمل طور پر خوشامد پر چلتی ہے۔ جو کوئی رشتہ داری اور پارٹی تعلقات دکھا سکتا ہے، جو سب سے زیادہ چاپلوسی کرتا ہے، وہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا اور ترقی پاتا ہے۔ کوئی امید باقی نہیں۔ میرے کیریئر کے آخر میں مجھے یہاں منتقل کیا گیا ہے اور یہ گھٹیا کام ہم سے کرائے جاتے ہیں‘‘۔
پھر اس نے ایسی بات بتائی جس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ اس نے کہا:’’تمھیں یہاں لانے کے تقریباً ایک ہفتے کے اندر انھوں نے تمھیں مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ سب کچھ تیار تھا۔ کیا تمھیں یاد ہے کہ جب تم آئے تو انھوں نے تمھارا وزن کیا تھا؟‘‘
میں نے کہا:’’ہاں، مجھے یاد ہے‘‘۔
وہ بولتا رہا:’’انھوں نے تمھارے وزن کے برابر اینٹیں تیار کی تھیں۔ بوریاں اور رسیاں، تاکہ لاش کو وزنی کر کے غرق کیا جا سکے۔ نارائن گنج کے واقعے کے بعد، جب لاشیں تیر کر سامنے آئیں اور ہنگامہ کھڑا ہوا، تب سے وہ لاشوں کو چھپانے میں زیادہ محتاط ہو گئے۔ اب وہ لاشیں باریسال کے علاقے میں لے جاتے ہیں۔ پہلے وہ آنکھیں، منہ اور ہاتھوں کو تیزاب سے جلا دیتے ہیں تاکہ چہرے کی شناخت نہ ہو۔ اس عمل سے وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ فنگر پرنٹس نہ لیے جا سکیں۔ پھر وہ پیٹ کھولتے ہیں اور جسم کے وزن کے برابر اینٹیں باندھ کر، لاشوں کو باریسال کے قریب دریا کے دہانوں میں پھینک دیتے ہیں‘‘۔
یہ تفصیل سن کر میرا پورا جسم ٹھنڈا ہو گیا۔ میری پلکوں پہ نمی جیسے جم گئی ہو۔ وہ بولتا رہا: ’’نارائن گنج میں لاشیں تیر گئیں کیونکہ ’شیتالکھیا‘(Shitalakkhya) ایک چھوٹا دریا تھا، اور لوگوں نے انھیں پہچان لیا۔ باریسال کے بڑے دریاؤں میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ انھوںنے تمھیں اسی طرح مارنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن جس کمانڈر نے تمھارے قتل کا حکم دیا تھا، اسی دوران وہ سلہٹ میں ایک دہشت گردانہ حملے میں مارا گیا۔ اس کے بعد تمھارا کیس رُک گیا۔ اس کے بعد آنے والے ہر کمانڈر نے تمھیں نہ مارنے کا فیصلہ کیا۔ تمھاری فائل کئی بار اعلیٰ حکام کو بھیجی گئی کہ یا تو تمھیں رہا کیا جائے گا یا کوئی فیصلہ آئے گا۔ لیکن اعلیٰ حکام نے کبھی واضح حکم نہیں بھیجا۔ وزیراعظم کے دفتر سے ہمیشہ تمھاری رہائی کے بارے میں منفی جواب آیا ہے‘‘۔
بزرگ گارڈ نے کہا:’’چونکہ تمھارے قتل کا حکم دینے والا کمانڈر اس حملے میں مارا گیاتھا، غالباً اس وجہ سے دوسرے کمانڈرز خوف زدہ ہو گئے تھے۔ وہ سمجھتے آئے ہیں کہ تم اتنی عقیدت سے عبادت اور دعا کرتے ہو کہ تمھیں نقصان پہنچانا ان کے لیے بدقسمتی لاسکتا ہے۔ تم نے شاید نوٹ کیا ہو، اب کوئی تمھیں ‘تم‘ کہہ کر نہیں پکارتا۔ سب تمھارے ساتھ کچھ عزّت سے پیش آتے ہیں‘‘۔
جب تک وہ بزرگ گارڈ ڈیوٹی پر رہا، وہ اکثر میرے ساتھ بات کرنے آتا، اور زیادہ تر بین الاقوامی مسائل پر۔ جب میں قومی معاملات پوچھتا تو وہ کہتا،’’میں تمھیں صرف وہ باتیں بتاؤں گا جو اگر عام ہو جائیں تو ہمیں نقصان نہ دیں‘‘۔
میں نے اس سے کہا:’’یہ تنہائی اتنی شدید ہے کہ پانچ منٹ کی بات چیت بھی مجھے بہتر محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ مجھے لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے زندہ دفن کر دیا ہو‘‘۔
اس نے جواب دیا:’’ہاں، کبھی کبھار ہم تم سے بات کرنے آتے ہیں، تمام تر خطرے کے باوجود۔ تمھاری یہ حالت دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بس ہماری ایک گزارش ہے، براہ کرم ہمیں کبھی بددعا نہ دینا۔ ہم یہ کام کرنے کے لیے نوکری میں شامل نہیں ہوئے ہیں، ہم فوج میں شامل ہوئے تھے، لیکن دیکھو ہمیں کیا کرنے کے لیے کہاں کہاں رکھا گیا ہے‘‘۔
اس بزرگ گارڈ کو ذیابیطس تھی۔ وہ چپکے سے مجھے اپنے حصّے کی مٹھائیاں اور سافٹ ڈرنکس دیتا اور کہتا،’’میں ذیابیطس کا مریض ہوں، میں یہ نہیں کھا سکتا۔ انھیں خاموشی سے لے کرکھاؤ۔ اگر کوئی دوسرا ڈیوٹی کے دوران یہ دیکھ لے گا تو ہم دونوں مشکل میں پڑ جائیں گے‘‘۔ وہ یہاں دو سال سے زائد عرصے تک ڈیوٹی پر رہا اور اس نے میری بہت مدد کی۔
قید کے پانچویں سال کے آخر تک، میں نے ایک اور سپاہی سے بات کرنا شروع کی۔ وہ مجھ سے انگریزی میں بات کرتا۔ میں حیران ہوا اور کہا:’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں کوئی انگریزی بول سکتا ہے‘‘۔
اس نے جواب دیا:’’میں ایک بہت غریب خاندان سے ہوں، اسی لیے مجھے یہ نوکری کرنی پڑی۔ ورنہ، میں تو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں جا سکتا، مجھے مجبوری میں اس نوکری میں آنا پڑ گیا۔ میری صلاحیت کی وجہ سے، انھوں نے مجھے اس تربیت کے لیے منتخب کیا اور کہا کہ یہاں ترقی کے بہت مواقع ہیں‘‘۔ وہ صرف انگریزی میں بات کرتا تھا، تاکہ اگر کوئی سن لے تو وہ سمجھ نہ پائے۔ پھر اس نے کہا:’’میں ترقی نہیں چاہتا۔ میں یہاں صرف تھوڑا عرصہ اور ہوں۔ اس کے بعد، میں یہ نوکری چھوڑ دوں گا‘‘۔
اس نے افسوس کے ساتھ مزید کہا:’’میری انگریزی کی وجہ سے، بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ میں نے بہتر ملازمت کیوں نہیں لی، میں یہاں کیوں ہوں؟ میں ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ہوں: تقدیر کے جبر کی وجہ سے، میں یہاں پہنچ گیا ہوں‘‘۔
وقت کے ساتھ، میں اس سے مانوس ہو گیا اور اس کے کچھ ذاتی معاملات جاننے لگا۔ ایک دن اس نے کہا:’’تمھیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت برا لگتا ہے، اسی لیے میں کبھی کبھار بات کرنے آتا ہوں۔ ہمیں خوفناک کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی برا کام ہو، جو ہم نے نہ کیا ہو۔ اس پر مجھے افسوس ہے، لیکن کوئی راستہ ہی نہیں بچا اس دلدل میں اترنے کے بعد‘‘۔
قدرے مذاق میں، میں نے پوچھا:’’تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
اس نے جواب دیا:’’مجھے ڈر ہے کہ ان خوفناک کاموں کی وجہ سے جو میں کرتا آیا ہوں، میرا خاندان ملعون (Cursed)ہو جائے گا۔ شاید میری بیوی اچھی نہ ہو، اور اس وجہ سے زندگی بھر جلتا رہوں۔ شاید میرے بچے ٹھیک نہ ہوں اور ان کے دکھ کی وجہ سے ساری زندگی تڑپتا رہوں۔ اس خوف نے مجھے شادی سے روک رکھا ہے‘‘۔
اسی دوران اس نے ایسی بات کہی جس نے مجھے اُداس کر دیا: ’’میں اکثر تمھاری معصوم بچیوں کو فیس بک پر دیکھتا ہوں، اور اپنے آنسو نہیں روک پاتا۔ اس نوکری میں آنے کے بعد سے، میں نارمل زندگی کبھی نہیں جی سکا۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ہم قصوروار نہیں ہیں، لیکن حکومت ہم سے یہ کام کرواتی ہے، پھر بھی ہوتا تو سب کچھ ہمارے اپنے ہاتھوں ہی سے ہے! یہی میرا گناہ ہے اور یہی میرا غم ہے۔ اب اگر ہم چھوڑنا بھی چاہیں، تو نہیں چھوڑ سکتے۔ شاید بہت پہلے ہم استعفا دے سکتے تھے، لیکن اب یہاں تعیناتی کے بعد، کوئی اپنی مرضی سے نہیں جا سکتا۔ میں نے سنا ہے کہ جن کچھ سپاہیوں نے استعفا دینے کی درخواست کی، وہ غائب کر دیے گئے اور اُن کا کوئی نشان نہ ملا۔ لیکن ان کے خاندانوں کو کچھ معاوضہ دے کر خاموش رہنے کی دھمکی دی گئی، کہ ورنہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں بچا‘‘۔
اس کے الفاظ مجھے سچے لگے۔ میرے قید ہونے سے بہت پہلے، لاتعداد بے گناہوں کو یہاں قید کرکے لایا گیا ہوگا، اور عذاب دیا گیا ہو گا۔ پھر بھی ہم نے کبھی کسی افسر کو سچ بتاتے نہیں دیکھا۔ ضرور اُن کے ضمیر کو بھی کچھ چبھن ہوتی ہوگی! لیکن کوئی ان جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے استعفا نہیں دیتا۔ اس سپاہی کے الفاظ نے اس کی تصدیق کی کہ استعفا دینے کی انھیں آزادی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ظلم کے اس چکّر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
مجھے ان جوان اور ذہین سپاہیوں پر بہت ترس آیا۔ بعد میں، میں نے اس جیسے کئی اور اہل کاروں سے ملاقات کی۔ ان کی ذاتی داستانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بہت باصلاحیت تھے۔ کچھ نے اقوام متحدہ کے تحت تربیت بھی لی تھی، مگر انھیں اسی طرح آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ہر وہ سپاہی جس نے مجھ سے کھل کر بات کی، اس نے ایک ہی بات کہی: ’’کوئی بھی اس ملازمت میں رہنا نہیں چاہتا، سب صرف مجبوری میں بندھے ہونے کی وجہ سے ملازمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑنے کا مطلب اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ ہے‘‘۔
ان لوگوں میں سے ایک بہت متقی آدمی تھا۔ وہ مجھے مختلف دعائیں سکھاتا، اکثر کہتا،’’اگر تم یہ دعا کرو گے تو تمھاری صحت بہتر ہوگی اوراگر وہ دعا کرو گے تو تم مصیبت سے بچ جاؤ گے‘‘۔
میں نے ایک بار اس سے پوچھا:’’آپ اتنے دین دار انسان ہیں۔ عام طور پر، متقی یا اچھے لوگ ایسی نوکریوں میں نہیں آتے۔ آپ یہاں کیسے آ گئے؟‘‘
اس نے جواب دیا:’’پہلے میں ایسا نہیں تھا۔ لیکن خوفناک کام کرنے پر مجبور ہونے کے بعد، مجھے شدید افسوس ہوا۔ اب میں اپنی جان کے ڈر سے استعفا نہیں دے سکتا۔ میں نے خود کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔ دعاؤں میں مشغول ہونا مجھے کچھ سکون دیتا ہے۔ ہم سے اتنا بُرا کام کروایا جاتا ہے، کہ ہمارے پاس جہنم سے بچ جانے کی کوئی ضمانت نہیں۔ آخرت کے اس ڈر نے مجھے دین داری کے راستے پر لگایا ہے۔ میں نے عزم کیا کہ میں اپنے بچے کو حافظ قرآن بناؤں گا اور اسے مدرسے میں بھیجوں گا، تاکہ شاید اللہ اس کے ذریعے مجھے معاف کر دے۔ بھائی، ہم احکامات کے غلام ہیں۔ براہ کرم، ہمارے خلاف کبھی نفرت نہ رکھنا اور ہمیں کبھی بددعا نہ دینا‘‘۔
وہ ایسی باتیں اکثر کہتے، اور میں ان کی آوازوں میں گناہ، غم اور محرومی محسوس کر سکتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا:’’اصل مجرم وہ ہیں جو کمانڈ چلا رہے ہیں۔ ان میں عوامی لیگ کے رہنما اور انڈیا سے کچھ کمانڈر ہیں، اور وہی اصل منصوبہ ساز ہیں‘‘۔
ان کی باتیں مجھ پر کئی حقیقتیں واضح کر دیتی تھیں۔ میں ان کی حالت سمجھتا اور دکھ محسوس کرتا تھا، لیکن اس سے بھی بڑا دکھ اس بات پر ہوتا کہ عوامی لیگ کی حکومت، محب وطن سپاہیوں کو کرائے کے قاتلوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے، بدامنی پھیلا رہی ہے، انڈیا انھیں تربیت دے رہا ہے اور روس اسباب فراہم کر رہا ہے۔ اس طرح حسینہ واجد اور اس کی پارٹی اپنے جرائم کو آسانی سے جاری رکھتی ہے۔
صرف اللہ ہی ان کی بے بسی کی اصلی حقیقت جانتا ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون واقعی بے بس ہے اور کون رضامندی سے ساتھی بننے پر تیار ہے۔ اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بے بس سپاہیوں کو معاف کرے اور انھیں اس لیے اجر دے کہ انھوں نے آخر کار محب وطن لوگوں کے خلاف نہ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ آخرت میں یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ لیکن جو واقعی قتل اور گمشدگیوں کے جرائم کے ذمہ دار ہیں، انھیں انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔ اور جنھوں نے سپاہیوں کو اس طرح کے گھناؤنے کاموں کے لیے استعمال کیا، انھیں سزا ملنی چاہیے، تاکہ بنگلہ دیش کی فوج ان داغوں سے پاک ہو، اپنی عزت اور وقار دوبارہ بحال کرے، اور بنگلہ دیش ایک بار پھر آزادی سے سرفراز ہو۔
غزہ کی جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، عالمی فیصلہ سازی اور یورپ کے فکری ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی کارروائیاں پہلے سے زیادہ منظم انداز میں جاری ہیں۔ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض عسکری واقعات نہیں بلکہ سفارت کاری، سماجیات، انسانی حقوق اور عالمی رائے عامہ کے نئے رُخ کی داستان بھی ہے۔ یہ جنگ نہ صرف فلسطینی بستیوں کو کھنڈر بنا رہی ہے بلکہ خود اسرائیلی معاشرے اور یورپی و امریکی سیاست میں بھی دراڑیں ڈال رہی ہے۔
اسی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں وہ امریکی قرارداد منظور کی ہے جس میں صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق کی گئی ہے۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فوج کی تعیناتی اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کا خاکہ شامل ہے۔لیکن یہاں بھی غزہ کی مزاحمتی قوتوں سے ہتھیار ڈالنے کی شرط موجود نہیں۔ قرارداد کا ایک پہلو یہ ہے کہ مفلوج مقتدرہ فلسطین (PA) کے تنِ مُردہ میں جان ڈالنے اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان سیاسی مکالمے کی بحالی کا تصور پیش کیا گیا ہے،جو موجودہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سب کے باوجود ۱۳ ووٹوں سے قرارداد کی منظوری اس بات کی علامت ہے کہ عالمی سیاست ایک نئے بیانیے کی طرف جھک رہی ہے۔ تاہم رائے شماری کے دوران چین اور روس کی غیر حاضری سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت ور اقوام عالم ٹرمپ منصوبہ پر پوری طرح یکسو نہیں۔
جنگ بندی کے بعد بھی غزہ پر حملے جاری ہیں۔ان بڑے حملوں میں۱۹؍ اکتوبر کو ۴۲ اور ۲۹؍ اکتوبر کو ۱۰۹ ؍افراد شہید ہوئے۔ بی بی سی ویری یفائی شو (BBC Verify show)کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰؍ اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے اُن علاقوں میں جو تاحال اس کے قبضے میں ہیں، ڈیڑھ ہزار سے زائد عمارتیں منہدم کردیں۔ سیٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تباہی چند ہفتوں کے اندر منظم انہدامی کارروائیوں کے ذریعے کی گئی۔ کئی جگہوں پر پوری بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔یہ محض عمارتوں کی شکستگی نہیں بلکہ کھیتوں، باغات اور گھروں کے صحنوں کے مٹ جانے کی المناک داستانیں ہیں۔
خان یونس، رفح کا مشرقی علاقہ اور جبالیا و شجاعیہ کے وہ علاقے ہیں جہاں کبھی سبزہ اور درخت تھے، اب محض ملبہ اور مٹی کا غبار ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک سیاسی و سماجی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کی مثال برسوں سے غربِ اردن میں دیکھی جارہی ہے۔
۱۲نومبر کو غزہ کے ایک کلینک پر حملہ کر کے تین فلسطینی شہید کر دیئے گئے۔ ۱۷نومبر کو غزہ کے کئی علاقوں پر اسرائیلی گولہ باری میں ۱۴ شہید ہوئے، پھر ۲۳نومبر کو اسرائیلی جنگی طیاروں کی بم باری سے ایک ہی وقت میں ۲۴ فلسطینی شہید ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNICEFکے مطابق اسرائیلی فوج نے ان ٹرکوں کو روک دیا ہے، جن پر بچوں کی جدرین کاری(Vaccination) کے لیے ۱۶ لاکھ انجکشن اور دودھ لدا تھا۔بدترین انسانی بحران کے دوران بچوں تک امداد نہ پہنچنے دینا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
نابلوس، طولکرم، قلقیلیہ اور بیت لحم میں گھروں، زیتون کے باغات اور چھوٹے کارخانوں کو آگ لگائی گئی۔جمعرات، ۱۳ نومبر کو ’دیراستیا‘ کی جامع مسجد پر حملہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا گیا اور قرآن کے نسخے نذرِ آتش کیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق یہ سب کارروائیاں فوجی سرپرستی میں ہو رہی ہیں۔ تاہم، فلسطینی عوام ان ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہیں ۔مسجد میں جمعرات کو آگ بھڑکی اور جمعہ کی نماز اسی مسجد کے ایک مرمت شدہ حصے میں ادا کی گئی۔ یہ وہ استقامت ہے جو اس جنگ کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
غربِ اُردن کی اس تباہی پر یورپی یونین نے خاموشی اختیار کی، لیکن کاغذ پر بنی فلسطینی ریاست کے لیے دستور کی تیاری کا کام شروع ہوگیاہے۔ گذشتہ ہفتے پیرس میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے صدر محمود عباس اور فرانسیسی صدر نے مشترکہ آئین ساز پینل پر اتفاق کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ جب مقتدرہ فلسطین کو عوامی مینڈیٹ ہی حاصل نہیں تو اسے آئین سازی کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ریاستی آئین منتخب دستور ساز اسمبلی بناتی ہے، اس مقدس دستاویز کی تدوین مذاکراتی میز پر نہیں ہوتی۔
چند ماہ پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمان سے خطاب میں غزہ پر حملے کو ’تاریخی فتح‘ قرار دیا تھا۔لیکن اب خود یہ’فاتح فوج‘ اندر سے ٹوٹ رہی ہے۔ اسرائیلی چینل ۱۲ کے مطابق کپتان سے لیفٹیننٹ کرنل تک کے ہزاروں اہلکارقبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دے چکے ہیں۔ یہ رجحان فوج کی تمام شاخوں میں دیکھا جارہا ہے اور اُن عہدوں کو متاثر کر رہا ہے، جنھیں اسرائیلی فوج کی آئندہ قیادت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ نفسیاتی دباؤ، جنگی تھکن، ضمیر کا بوجھ، اور عسکری حکمتِ عملی سے مایوسی بنیادی عوامل قرار دیے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی پارلیمان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر تین میں سے ایک ریزرو فوجی کی بیوی علیحدگی یا طلاق پر غور کر رہی ہے۔ خواتین شدید مالی دباؤ اور بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ یہ بحران براہِ راست جنگی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔رپورٹ پیش کرتے ہوئے کمیٹی کی سربراہ میراؤ کوہن (Meirav Cohen)نے کہا کہ ۳ لاکھ ریزرو اہلکار طویل عرصے سے محاذ پر ہیں، جو اس خوفناک سماجی بحران کی بنیادی وجہ ہے۔نصف سے زیادہ خواتین کا کہنا ہے کہ شوہروں کی طویل جدائی سے اَزدواجی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ والد کی غیر موجودگی اور اس کے نتیجے میں ماؤں کے چڑچڑے پن سے بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔
غزہ جنگ کے اثرات اب اسرائیلی یونی ورسٹیوں تک جا پہنچے ہیں۔ گذشتہ ہفتے تل ابیب کی بن گوریان یونی ورسٹی میں سیاسیات کے استاد ڈاکٹر سباسٹین بن ڈینیل ’ غزہ جنگ کے اسرائیلی معاشرے پر منفی اثرات‘ کے عنوان سے لیکچر دے رہے تھے کہ انتہا پسند وزیر الموغ کوہن نے کلاس میں گھس کر زبردستی لیکچر رکوا دیا۔
اسرائیلی اولمپک کمیٹی نے اپنے کھلاڑیوں کو غیر ملکی دوروں سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ نسل کشی کے خلاف دنیا کا بہت آہستگی سے جاگتا ضمیر اسرائیل کو ناپسندیدہ ریاست بنارہا ہے۔
اوکسفرڈ یونین نے ایک قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، ایران کے مقابلے میں خطّے کے استحکام کے لیے کہیں بڑا خطرہ ہے۔ گذشتہ سال بھی اوکسفرڈ یونین نے ایک قرارداد کہ اسرائیل نسل کشی کرنے والی نسلی تفریق پر مبنی ریاست ہے، کو ۵۹کے مقابلے میں ۲۷۸ ووٹوں سے منظور کیا تھا۔یہ قراردادیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ یورپ کے سنجیدہ حلقے اب اسرائیلی موقف سے ہٹ کر حقائق کو تسلیم کر رہے ہیں۔
جرمنی کا برانڈن برگ گیٹ (Brandenburg Gate) جو کبھی اتحاد اور آزادی کی علامت تھا، آج ایک نئے فکری جمود کی نشانی بنتا جا رہا ہے۔ چند نوجوانو ں نے اس تاریخی دروازے پر ایک بینر آویزاں کیا جس پر لکھا تھا: ’’نسل کشی کبھی دوبارہ نہیں، فلسطین کو آزادی دو‘‘۔وہ فلسطینی پرچم لہراتے ہوئےامن کی اپیل کر رہے تھے۔ مگر جواب میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے چھ افراد کو گرفتار کرلیا۔ دنیا کو اظہارِ رائے کا درس دیتا یورپ، اب انسانی ہمدردی کے ایک جملے سے بھی خوف زدہ ہے۔دلچسپ حقیقت کہ گرفتاریوں، جرمانوں اور مقدمات کے باوجود ایسے واقعات یورپ میں معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ گرفتاری طے ہے، پھر بھی وہ بولنے سے باز نہیں آتے کیونکہ خاموشی اب جرم بن چکی ہے۔
غزہ تعلیمی بورڈ نے ۱۳ نومبر کو انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان کیا۔ ضحیٰ نظمی نے ۹۶ء۷ فی صد نمبر لے کر ٹاپ کیا۔ لیکن جب نتیجہ نکلا تو اس شانداز کارکرگی پر خوشی منانے کو ضحیٰ موجود نہ تھی۔ گذشتہ ماہ جب جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے وحشیوں نے نصیرات مہاجر کیمپ پر بم برسائے تو یہ لڑکی اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سمیت اپنے ربّ کے پاس چلی گئی۔ درندگی صرف جسموں ہی کو نہیں بلکہ خواب، محنت، کوشش اور مستقبل کو بھی ملبے میں دفن کر رہی ہے۔
مغربی پریس کے جانب دارانہ رویّے کے باوجود یورپ کا باشعور طبقہ سوشل میڈیا کے ذریعے حقیقت سے آگاہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ بدلتی فکری فضا ہے جو آنے والے کل فلسطین کے سیاسی مستقبل پر اثر ڈالے گی۔ اندھی طاقت عارضی فائدہ تو دیتی ہے لیکن فتح ہمیشہ حق اور ضمیر کی ہوتی ہے۔
اس سوال کی کہانی ۱۹۹۴ء میں شروع ہوئی جب اقوام متحدہ کے ایک ملازم نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے سوڈان کا وہ نقشہ دیکھا ہے جس میں اس کی پانچ ریاستیں دکھائی گئی تھیں۔ جب سوڈان کے موضوع پر یہ بات چیت ہو رہی تھی تو میں اپنے کلینک میں تھا۔ اس کے بعد میں نے میڈیکل کا شعبہ چھوڑ کر سوڈان جانے کا فیصلہ کیا۔
پھر سوڈان کے بارے میں تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی طور پر اپنی تحقیق کے ذریعے، میں نے بہت کچھ دریافت کیا جو اس وقت حقیقت بن کر میرے سامنے آگیا جب میں نے پہلی بار ۱۹۹۶ء میں سوڈان کا سفر کیا۔ پھر میرا آنا جانا جاری رہا ، یہاں تک کہ میں نے ۲۰۰۵ء میں سوڈانی شہریت حاصل کر لی۔ ۲۰۰۰ء میں مجھے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے لیے بلایا اور وہ سوال پوچھا کہ آپ نے سوڈان کے بارے میں کیوں سوچا اور آپ یہاں کیوں آئے؟
میرا جواب یہ تھا کہ ہمارے ممالک میں مغرب کے اہداف کے بارے میں مطالعے نے مجھے کچھ نتائج تک پہنچایا اور امریکا میں مقیم ایک شہری نے مجھے بتایاکہ ’’نوے کی دہائی کے آغاز میں قومی سلامتی کے دفتر میں ایک اجلاس ہوا اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ امریکا کو کس ملک سے خطرہ ہو سکتا ہے اور کون سی سلطنت دنیا پر حکومت کر سکتی ہے؟ اس پر خاموشی چھا گئی ۔ پھر بات شروع ہوئی، تو ایک نے کہا: روسی ریچھ فلاں فلاں وجہ سے، دوسرے نے کہا: چینی شیر فلاں فلاں وجہ سے، پھر تیسرے نے کہا:یورپ ،اگر متحد ہو جائے تو…آخر میں، یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ ان کے گہرے مطالعات کے مطابق، وہ ملک سوڈان ہے جو اس حساب کتاب پر پورا اُتر سکتا ہے۔ اگر ایک محب وطن اور صالح قیادت اس پر حکمران بن جائے اور اس میں واقعی انسانوں کی تیاری شروع کردے، تو یہ ایک زبردست سلطنت بن سکتا ہے…!‘‘
اس لیے کہ اللہ نے سوڈان میں ہر وہ چیز پیدا کی ہے جو تہذیب کو قائم کر سکتی ہے، یہاں تک کہ یورینیم جس سے جوہری ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح تیل، گیس، پانی، معدنیات، زراعت، مویشی اور وہ رقبہ جو ایک براعظم ہونے کے مترادف ہے اور دو ارب انسانوں کو کھلانے اور رہائش فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اللہ نے اس ملک کو طاقت کے تمام عناصر عطا کیے ہیں، اور یہیں سے سوڈان کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اس بڑے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ آیا۔پھر انھوں نے دارفور اور جنوب میں مسائل پیدا کرکے سوڈان کی تقسیم شروع کر دی۔ یقیناً اس سے پہلے نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد سے سوڈان کا استحصال کیا گیا اور جنوب کی پہلی تقسیم ۲۰۰۵ء میں عمر البشیر حکومت اور اسلامی تحریک کی ایک اسٹرے ٹیجک غلطی سے عمل میں آئی۔میں ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے اس تقسیم کی سخت مخالفت کی۔میں نے اخوان المسلمون کے صدر سے ۲۰۱۰ءمیں کہا تھا کہ عنقریب سوڈان دیوالیہ ہونے کا اعلان کردے گا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کیوں؟میں نے کہا تم بہت جلد دیکھ لو گے ۔
خیر میں آپ کو کچھ مثالیں دیتا ہوں کہ اس ملک میں کیا وسائل ہیں جن پر مغرب کی نظر ہے۔سوڈان ایک براعظم جیسا ملک سمجھا جاتا ہے، جسے اللہ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ کچھ ممالک کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ جو کچھ سوڈان ان وسائل سے ایک سال میں پیدا کرسکتا ہے وہ کیا ہے؟ سعودی عرب سالانہ ۱۷۵ بلین ڈالر مالیت کا تیل پیدا کرتا ہے۔ اور یہ دُنیا کے امیر ترین تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
سوڈان میں ۲۵۰ ملین ایکڑ زرعی زمین ہے۔ اگر ہم اس میں سے صرف ۳۵ ملین ایکڑ لوسن (برسیم) کاشت کریں تو اس کی سالانہ پیداوار ۳۵ ملین × ایک ایکڑکی ماہانہ پیداوار ایک ٹن × ۱۲ ماہ × برسیم کی قیمت۴۲۰ ڈالر=۱۷۶؍ ارب ۴سو ملین ڈالر بنتی ہے ۔لہٰذا، رقبے کا ایک چھوٹا سا حصہ جو ۱۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، اگر اسے استعمال میں لایاجائے تو یہ سعودی عرب کی تیل کی پیداوار کے برابر ہو سکتا ہے۔
سوڈان کو مویشی بانی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ۱۵۰ ملین سے زیادہ مویشی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ سوڈان کو ۱۵ فی صد اراضی میں لوسن سے پیدا کرنا چاہیے، وہ مویشیوں کی تعداد کو ۳۰۰ملین تک دوگنا کرنے کے لیے کافی ہے اور ان کی قیمت ۷۵ بلین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا، اگر صرف ۳۰ فی صد اراضی پر لوسن کاشت کیا جائے تو سوڈان کی سالانہ پیداوار ۲۵۰ بلین ڈالر کے برابر ہوگی، یعنی خلیجی ممالک کی تیل کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ صرف ایک شے کی پیداوار سے۔
اگر ہم سونے کے بارے میں بات کریں تو تمام رکاوٹوں کے باوجود سوڈان اب ہر سال تقریباً ۲۰۰ ٹن سونا پیدا کرتا ہے، جس کی مالیت سالانہ ۲۶ بلین ڈالر ہے۔ میڈیا پروپیگنڈا اسے ایک غریب قوم کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کے لیے خیرات اکٹھی کی جاتی ہے، جب کہ حقیقت میں کچھ بدعنوان عناصر ہیں جو عوام کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر اسے لوٹ رہے ہیں۔سوڈان ہر سال ایک ہزار ٹن سونے کی پیداوار تک پہنچ سکتا ہے، جس کی مالیت سالانہ ۱۳۰ بلین ڈالر ہوگی۔ ذرا ان اعداد و شمار کا تصور کریں اور سوڈان کے ایک غریب ملک ہونے کے پروپیگنڈا کا بھی !
سوڈان میں ہر قسم کی معدنیات بھی موجود ہیں، جن کی مالیت کھربوں ڈالر ہے۔اور اگر ۲۵۰ ملین ایکڑ زمین گندم، تل، جو، چارہ اور دیگر اقسام کے ساتھ کاشت کی جاتی، تو اس کی پیداوار سالانہ ۵۰۰ بلین ڈالر سے زیادہ تک پہنچ جاتی۔جہاں تک تیل کا تعلق ہے تو اس کی بہت بڑی مقدار اب بھی غیر استعمال شدہ ہے جس کا حجم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
دارفور کا نام ’دار الفور‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’فور کی سرزمین‘۔ فور ایک بڑا قبیلہ ہے ۔ دارفور، سوڈان کے رقبے کا ایک تہائی حصہ ہے اور اس کا رقبہ ۵۱۱ ہزار مربع کلومیٹر ہے، یعنی فرانس کے رقبے کے برابر ۔ اسے زمین کا سب سے امیر ترین خطہ سمجھا جاتا تھا اور اس پر پرانے زمانے میں تنازع تھا اور عثمانی عہد حکومت میں دارفور کا گورنر: مکہ اور آبار علی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
یہاں دارفور کے بارے میں کچھ حقائق پیش کیے جاتے ہیں جو عموما لوگوں کو معلوم نہیں ۔ یہاں جبل مرہ واقع ہے ۔یہ پہاڑی سلسلہ دنیا کے عجائبات میں سے ہے۔ اس کی لمبائی ۱۶۵ کلومیٹر اور چوڑائی ۶۵-۸۰ کلومیٹر ہے اور یہ ایک عظیم پہاڑ ہے جس میں ایک ہی وقت میں چاروں موسم آتے ہیں۔ یہ سطح سمندر سے ۱۰ ہزار فٹ بلند ہے اور اس کا رقبہ لبنان کے رقبے کے برابر ہے۔ اس میں چشمے، ندیاں اور مختلف قسم کی فصلیں ہیں، اور یہ پہاڑ زمین پر سب سے بڑا سیاحتی منصوبہ بن سکتا ہے ،کیونکہ یہ ایک ملک کے رقبے کے برابر ہے۔
سوڈان کے ایک عالم نےجو برطانوی کمیٹی میں شامل تھے، مجھے بتایا کہ انھوں نے اس کے اندر ایک سلوریں دریا (murkery) دریافت کیا۔ بعض لوگ جبل مرہ سے متعلق بیان کرتے ہیں کہ تورات کے ۱۸۱۷ء اور ۱۸۳۰ء کے نسخوں میں ذکر ہے کہ ہمارے آقا ہارون، نبی موسیٰ علیہ السلام کے بھائی، وادی ھور کے قریب جبل (حور) میں وفات پا گئے تھے، جس کی وجہ سے بعض مؤرخین یہ خیال کرتے ہیں کہ جبل مرہ دراصل (جبل طور) ہے ، لیکن یہ معلومات صحیح نہیں ہیں۔
کچھ انگریزوں نے مجھ سے ذکر کیا اور میں نے۱۹۵۳ ء میں ان کی یادداشتوں میں پڑھا بھی جو یوں درج تھیں: ’’ہم برطانیہ عظمیٰ اگر صرف دارفور میں تانبے کا گڑھا ہی ملکیت میں لے لیتے تو برطانیہ ۵۰۰ سال تک ایک عظیم طاقت بنا رہتا‘‘۔یہ گڑھا جنوبی دارفور میں واقع ہے، اس میں پانچ ارب ٹن تانبے کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر معدنیات اور سونا بھی ہے۔
دارفور میں یورینیم کی کئی کانیں ہیں۔ ان میں تقریباً ۶ ملین ٹن یورینیم ہے اور جیسا کہ میرے ایک پڑوسی نے مجھے بتایا جو دارالحکومت خرطوم میں میرے قریب رہتا تھا اور اقوام متحدہ سے وابستہ تھا۔ ۲۰۰۰ء میں اس نے مجھ سے کہا: ’’ہم دارفور میں مختلف مقامات پر تعینات بکھرے ہوئے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے!‘‘ میں نے پوچھا: ’’آپ کا مشن کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’پہلا مشن دارفور اور اس کی کانوں کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔
اس کے بعد، سوڈان اور دارفور میں سونے، یورینیم، لوہے، ٹائٹینیم، سیسے، کوبالٹ وغیرہ کی کئی کانیں ہیں اور سب سے اہم چیز جو ہم نے ۲۰۱۰ء میں دریافت کی وہ دارفور میں جبل عامر تھا، جس میں تقریباً ۳ہزار ٹن سونا تھا، اس سے روزانہ ۱۵۰ کلو گرام سونا نکالا جاتا تھا۔
دارفور کو دنیا کا سب سے زیادہ تیل سے مالا مال علاقہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں دو عظیم ذخائر ’ایکس ‘ کی شکل میں ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں۔ یعنی پٹرول کا وہ ذخیرہ جو روس سے شروع ہو کر ایران سے ہوتا ہوا خلیج میں داخل ہوتا ہے، پھر بحیرہ احمر اور سوڈان میں داخل ہو کر وسطی دارفور سے جاملتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ نائیجیریا کے تیل کے ذخائر سے ملتا ہے اور یہاں آکر وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ بن جاتے ہیں ۔یہی وہ تیل کا وسیع ذخیرہ ہے جس کے متعلق الجزیرہ چینل نے تقریباً ۲۷ برس پہلےایک پروگرام نشر کیا تھا۔
دارفور دنیا کے سب سے بڑے پانی کے ذخیرے پر تیر رہا ہے، جسے ’نوبین حوض‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں سوڈان کی خصوصی فائلوں میں پڑھا تھا۔ تحقیقات میں ذکر کیا گیا تھا کہ یہ ذخیرہ سوڈان اور اس پر رہنے والے انسانوں، زراعت اور مویشیوں کو ۵۰۰ سال تک زندگی دے سکتا ہے۔ اگر بارشیں نہ بھی ہوں اور چشمے بھی خشک ہو جائیں، اور نیل کا پانی بھی بند ہوجائے۔ تصور کیجیے، اللہ تعالی نے کتنی دولت سوڈان کو عطا کر رکھی ہے ۔ اور یہ پانی کا علاقہ دارفور اور کئی ریاستوں میں اس کے کچھ حصوں تک پھیلا ہوا ہے۔
جبل عامر دارفور کے وسط میں ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، جس میں تقریباً ۳ہزار ٹن سونے کا ذخیرہ ہے۔ میں پہلا شخص تھا جو سیٹلائٹ سے یہ معلومات لایا اور ۲۰۱۰ء میں اسے دریافت کیا۔ پھر جبل عامر کونسل تشکیل دی گئی، جس میں قبائل اور حکومت کی ۱۰۰ شخصیات شامل تھیں۔ اس طویل کہانی کا اختتام ۲۰۱۴ء میں ریپڈ سپورٹ فورسز گروپ کے اس پہاڑ پر کنٹرول حاصل کرنے پر ہوا، اور اس کی سالانہ پیداوار ۴۰ ٹن سونے سے زیادہ تک پہنچ گئی۔
دارفور کو ہیروں، قیمتی پتھروں، نایاب معدنیات، زنک، سونا، چاندی، سیسہ، تانبا اور دیگر کی موجودگی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ میرے پاس بہت سے نمونے ہیں، یہاں تک کہ شہاب ثاقب اور بہت زیادہ تناسب میں لوہے کا خام مال بھی۔
ایک حقیقی دولت جس سے ہم غافل رہے اور اسے نظر انداز کر دیا، اور وہ زمین کی تمام دولتوں سے زیادہ اہم ہے، وہ ہے’انسان ‘!میں نے ماضی میں ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا (نامعلوم انسان)۔ پھر میں نے ایک کتاب لکھنا شروع کی ( نامعلوم سوڈان) لیکن مجھے یہ معلوم ہوا کہ اصل ’نامعلوم سوڈان‘ نہیں بلکہ انسان ہے، اور جب انسان کو اس مقام پر فائز کیا جاتا ہے، جہاں اللہ نے اسے عزّت دی ہے، تو وہی حقیقی دولت بن جاتا ہے جس کے ذریعے باقی دولتیں دریافت ہوتی ہیں اور وہ عزّت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔
جاپان کی طرف دیکھیے، اس کے پاس بالکل بھی تیل، سونا یا دولت نہیں ہے، سوائے ایک دولت یعنی ’انسان‘ کے۔ چنانچہ اس نے عقل اور علم کے ذریعے بنی نوع انسان پر فوقیت حاصل کی۔
سوڈان افریقہ میں واقع ایک مسلم عرب ملک ہے جو عرب لیگ اور او آئی سی کا ممبر ہے۔ اس کا رقبہ ۲ کروڑ ۶۶ لاکھ ۸۱ ہزار ۸ سو ۸۶ کلومیٹر ہے، آبادی بہت کم یعنی ۵۱ملین جن میں ۷۰ فی صد عرب ہیں اور ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں سالانہ پیداوار (GDP) ۱۱۷ بلین ڈالر تھی۔
سوڈان کا بڑا حصہ صدیوں سے سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ ۱۸۸۲ء میں برطانیہ نے مصر کے ساتھ سوڈان بھی قبضے میں لے لیا۔۱۹۱۶ء سے مصر برطانیہ کا زیرحفاظت خطہ (protectorate ) قرار پایا۔ یعنی مصر پر برطانیہ کا براہِ راست قبضہ نہیں رہا،جب کہ سوڈان پر برطانیہ نے براہِ راست قبضہ کرلیا جو یکم جنوری ۱۹۵۶ء تک برقرار رہا، جب برطانیہ نے سوڈان کو مصر سے الگ کرکے اسے آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ۲۰۱۱ء میں سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم ہوئی اور سوڈان کا عیسائی اکثریتی جنوبی حصہ برسوں کی خانہ جنگی کے بعد ’جنوبی سوڈان‘ کے مسلم اکثریتی شمالی حصہ سے کاٹ کر الگ ملک بنادیا گیا، جس کا دارالحکومت ’جوبا‘ ہے اور آبادی تقریباً ۱۵ ملین ہے۔ اس تقسیم سے پہلے رقبے کے لحاظ سے سوڈان افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا۔
برطانیہ سے آزادی کے بعد شروع کے برسوں میں سوڈان میں انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنیں، لیکن دوسرے عرب ممالک کی طرح سوڈانی فوج بھی سیاست میں کود پڑی۔ ۱۹۷۱ء میں جنرل جعفرنمیری نے صدر اسماعیل ازہر ی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ۱۹۸۵ء تک حکومت کی۔ نمیری نے اپنے مخالف اسلام پسند انصار اور کمیونسٹوں کا ہزاروں کی تعداد میں قتل عام کیا۔ ۱۹۸۵ء میں جنرل سوارالذہب نے جنرل نمیری کی حکومت کا تخت اُلٹ دیا اور اس کے چار سال بعد جنرل حسن البشیر نے جنرل سوار الذہب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اگلے ۳۰برس تک لگاتار حکومت کی۔
جنرل عمر حسن البشیرکے زمانے میں ’دار فور‘ جو اسلامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر حسن الترابی کا علاقہ تھا، میں بہت مظالم ڈھائے گئے جس کی وجہ سے بین الاقوامی عدالت نے جنرل عمرالبشیر کو نسل کشی کا ملزم گردانا اور اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ ۲۰۱۹ء میں ایک فوجی انقلاب نے اس کی حکومت بھی ختم کردی اور اکتوبر ۲۰۲۱ء میں فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح صدر بن گئے اور ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ (RSF) کے قائد جنرل محمدحمدان دگالو (حمیدتی) کو نائب صدر مقرر کیا ۔ جنرل برہان نے ایمرجنسی کا اعلان کرکے بہت سی سیاسی شخصیات کو جیل میں ڈال دیا۔
’ریپڈ سپورٹ فورس‘ (قوات الدعم السریع) ایک پرانی ملیشیا (غیر سرکاری مسلح تنظیم) کا نیا نام ہے ۔ یہ پہلے’ جنجوید‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، جس کے معنی ہیں اونٹ پر سوار جنات۔ ۲۰۰۰ء میں جنرل عمر حسن البشیر نے دار فور میں برسوں سے جاری مقامی شورش کو ختم کرنے کے لیے ’جنجوید‘ بنائی تھی۔ ’جنجوید‘ پر عوام کے بے تحاشا قتل، بے جا تشدد، لُوٹ مار اور منظم زنا کاری کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان مظالم کی وجہ سے تقریباً ۲۵ لاکھ لوگ صوبہ ’دار فور‘ چھوڑ کر دربدر ہوگئے اور ۳لاکھ افراد خانہ جنگی کے دوران قتل ہوئے۔ دار فور کی خانہ جنگی ۲۰۰۸ء میں ختم ہوئی۔ اس جنگ میں ’جنجوید‘ ملیشیا سوڈانی فوج کی مددگار کے طور پر اُبھری۔ دار فور میں جنگی جرائم کی وجہ سے سابق صدر بشیر کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلا اور ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں ان کی گرفتاری کا بین الاقوامی وارنٹ جای ہوا۔ چونکہ مسائل حل نہیں ہوئے تھے اور دار فور کے عوام میں شدید بے چینی تھی ، اس لیے وہاں ۲۰۱۳ء میں خانہ جنگی دوبارہ شروع ہوگئی۔
۲۰۱۳ء میں جنجوید ملیشیا کو سرکاری حیثیت دینے کے لیے اسے ’ ریپڈ سپورٹ فورس‘کا نام دیا گیا اور اس کے ایک کمانڈر حمیدتی کو اس نئی سرکاری فورس کا کمانڈر بنا دیا گیا اور اسے’ جنرل ‘کا درجہ دے دیا گیا ۔ جنرل عمر حسن البشیر کا خیال تھا کہ یہ نئی فورس باغیوں سے لڑنے کے علاوہ فوج پر کنٹرول رکھنے کے کام بھی آئے گی جیسا کہ بعض ملکوں میں فوج کے علاوہ ایک اور منظم مسلح گروپ ہوتا ہے ، مثلاً سعودی عرب میں ’الحرس الوطنی‘ اور ایران میں ’سپا ہ پاسداران انقلاب اسلامی‘۔ اس طرح کی الگ مسلح تنظیم کا مقصد باقاعدہ فوج کو قابو میں رکھنا اور اس کو انقلاب لانے سے روکنا ہوتا ہے۔
۲۰۲۱ء میں صدر بننے کے بعد جنرل عبد الفتاح برہان نے کوشش کی کہ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو فوج میں ضم کر دیں لیکن یہ بات ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے قائدین کو پسند نہ آئی ۔ وہ ایک الگ فورس کے طور پر باقی رہنے کو اپنے لیے زیادہ فائدہ مند سمجھتے تھے کیونکہ انھوں نے سونے کی اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندے شروع کر رکھے تھے جس میں اس کے قائدین ملوث تھے۔
اسی دوران ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ کو جنرل برہان کے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر ملک میں مسلح خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں ایک طرف فوج اور دوسری طرف ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ تھی۔ سوڈانی فوج ۲لاکھ پر مشتمل ہے، اور ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں۔ دونوں کا مقصد سوڈان پر مکمل قبضہ جمانا ہے۔ اس دوران ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے خرطوم کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا اور حکومتی اداروں نے خرطوم سے بھاگ کر ساحل سمندر پر واقع شہر پورٹ سوڈان میں پناہ لی اور اب تک وہیں سے کام کررہے ہیں۔اس وقت خانہ جنگی جاری ہے، جس کے دوران ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں ، دسیوں لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں اور تقریباً ۲۵ ملین سوڈانی بھوکوں مر رہے ہیں۔
سوڈان میں خانہ جنگی بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی اور تائید سے چل رہی ہے، ورنہ کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ سوڈان کی فوجی حکومت کو اگرچہ وہاں کی قانونی حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں کے ہاں سوڈانی حکومت کے لیے سرد مہری پائی جاتی ہے کیونکہ متعدد ممالک اس کو نہ صرف اسلام پسند بلکہ ’الاخوان المسلمون‘ اور ’حماس‘ کی حلیف سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے قائد جنرل حمیدتی نے باہر کی طاقتوں، بالخصوص متحدہ عرب امارات سے تعلقات بنا لیے اور ان سے سونے کے بدلے ہتھیار حاصل کرنا شروع کردیے۔ دارفور میں واقع سونے کی کانیں ’ریپڈسپورٹ فورس‘ کے قبضے میں ہیں۔ اس دولت کو استعمال کرکے آج جنرل حمیدتی دنیا کے بڑے مالدار لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور اس نے یہ دولت بیرونِ ملک انوسٹ کر رکھی ہے۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ پچھلے جولائی سے ’نیالا‘ (Niala) شہرسے ایک متبادل حکومت چلا رہی ہے جسے فی الحال دنیا کی کوئی حکومت تسلیم نہیں کرتی۔
’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو بیرونی مدد کے ساتھ ساتھ بیرونی کرایہ کے فوجی (Mercenaries) بھی میسر ہیں جو بڑی بڑی تنخواہوں کے عوض دنیا کے کسی بھی حصے میں جاکر لڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی بڑی تنخواہیں باہر کی طاقتیں دے رہی ہیں۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو فوجی امداد اور کرایہ کے فوجی لیبیا، سنٹرل افریقہ، صومالیہ اور چاڈ کے ذریعے مہیا کرائے جاتے ہیں، جن کی سرحدیں سوڈان سے ملتی ہیں۔ آر ایس ایف کے ساتھ کولمبیا (جنوبی امریکا)کے بھی ہزاروں فوجی لڑ رہے ہیں۔ اس فورس کا لیڈر جنرل حمیدتی اسرائیل کا بڑا مداح ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں اسرائیل کی بڑی ضرورت ہے اور عرب ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے‘‘۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ اسرائیل سے سیاسی تائید کے ساتھ اسلحہ بھی حاصل کر رہی ہے۔ جنرل حمیدتی نے ایک سابق اسرائیلی فوجی افسر آری بن ناشی کی کمپنی ڈکنز اینڈ میڈیسن (Dickens & Madison) سے ۶ ملین ڈالر کا معاہدہ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کا تاثر بہتر کرنے کے لیے کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو مستقل اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ بیرونی امداد کے بغیر ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کی بغاوت اتنے عرصہ تک نہیں چل سکتی تھی۔ روس اس جنگ میں طرفین کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔ برطانیہ بھی ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ،جب کہ ترکی اور مصر سوڈانی فوج کی تائید کر رہے ہیں۔
مصر میں ’عرب بہار‘ کے دوران امریکا نواز صدر حسنی مبارک کی حکومت گرنے اور ’الاخوان المسلمون‘ کے ۲۰۱۲ء کے الیکشن میں جیتنے سے امریکا، اسرائیل اور خلیج کے ملکوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ ایک سال کے اندر ہی امریکا اور اسرائیل کے اثرورسوخ ، فوجی و انٹیلی جنس طاقت اور خلیجی ممالک، بالخصوص متحدہ عرب امارات ،کے پیسوں سے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پوری عرب دنیا میں ’الاخوان المسلمون‘ اور ان کے حامیوں کے خلاف سیاسی اور فوجی حملہ شروع ہو گیا۔ غزہ میں ’حماس‘ کو بے سہارا چھوڑنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عرب حکومتیں ’حماس‘ کو ’الاخوان المسلمون‘ کی ہی ایک شاخ سمجھتی ہیں ۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کی تقریباً تمام عرب ممالک نے خاموشی سے تائید کی اور اسرائیل سے کہا کہ حماس کو تباہ کیے بغیر جنگ بند نہ کرے۔ یہ بات مشہور امریکی صحافی بوب وڈورڈ نے اپنی تازہ کتاب War میں کہی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی موجودہ خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اسلام کے حرکی تصور کے خلاف لڑنا ہے ۔ امارات کا خیال ہے کہ سوڈانی فوج اسلام پسند ہے جو امارات کے لیے سوہانِ روح ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے۔ امارات کے پاس پیسہ بہت ہے لیکن آبادی اور رقبہ کم ہے۔ امارات میں رہنے والے ۹۰ فی صد لوگ غیر ملکی ہیں۔
سوڈان کی معیشت کا بڑا حصہ سونا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں سوڈان نے ۳ہزار ملین ڈالر کا سونا برآمد کیا تھا۔ موجودہ خانہ جنگی سے بہت پہلے سے یعنی ۲۰۱۵ء سے یمن میں جنگ کے لیے متحدہ عرب امارات، سوڈان سے دسیوں ہزار کرایہ کے فوجی لاکر استعمال کررہا ہے۔ امارات کی نظریں سوڈان کی زراعت پر بھی ہیں۔ اگر اس کی مؤید حکومت وہاں قائم ہو جاتی ہے، تو وہاں کی زراعت امارات کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوگی۔ سوڈان کی زمین زرخیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی زمینوں کو ٹھیک طرح سے استعمال کیا جائے تو وہ اکیلا پورے افریقہ کو کھلا سکتا ہے۔ متحدہ امارات کی انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی ’بالفعل‘ سوڈان میں ۵۰ ہزار ہیکٹر پر زراعت کر رہی ہے۔
۱۸ ماہ کے محاصرے کے بعد ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے دارفور کے دارالحکومت ’الفاشر‘ پر ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء کو قبضہ کرلیا۔ اس محاصرے کے دوران شہر الفاشر کے اندر ۲ لاکھ ۶۰ہزار شہری محصور تھے، جن میں ایک لاکھ ۳۰ ہزار بچے تھے۔ شہر پر قبضے کے بعد ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ نے وہاں پر اتنا قتل عام کیا کہ سٹیلائٹ کی تصویروں میں شہر میں خون بہتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بیسیوں ہزار لوگ اس کے بعد دوسرے علاقوں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ محاصرے کے دوران سینکڑوں لوگ بھوک اور علاج سے محرومی کی وجہ سے مر گئے۔ پچھلے ۱۸ ماہ کی خانہ جنگی میں سوڈان کے مختلف علاقوں میں تقریبا ًایک لاکھ ۵۰ ہزار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ان میں سے۶۱ہزار لوگ صرف دارالحکومت خرطوم میں مارے گئے اورایک کروڑ ۴۰ لاکھ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کرملک کے اندر دوسری جگہوں بلکہ چاڈ، لیبیا اور مصر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کے الفاشر پر قبضے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے جنگ کا نقشہ بدل جائے گا۔ سوڈانی فوج اب بھی ملک کے بڑے حصے پر قابض ہے اور مختلف طریقوں سے، بالخصوص فضائیہ کے ذریعے، ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ پر جوابی حملے کر رہی ہے۔
موجودہ خانہ جنگی کے دوران سوڈان میں کاروبار، بینک، انڈسٹری، زراعت، تعلیم، ہسپتال، اسکول، یونی ورسٹیاں وغیرہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ تقریباً ۲۵ ملین سوڈانی بھوک کا شکار ہیں اور تقریباً ۱۰ ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ خانہ جنگی سے سوڈان کو ۲۰۰ بلین (۲۰۰ ہزار ملین) ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
کچھ طاقتیں، بالخصوص امریکا اور اسرائیل___ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کےمسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں، تاکہ ان پر کنٹرول آسان ہوسکے۔ پورے علاقے میں اسرائیل کا کوئی حریف باقی نہ رہے اور امریکا کے لیے پورے علاقے کو کنٹرول کرنا اور انھیں اقتصادی استحصال کا شکار بنانا آسان ہوجائے۔ برسوں سے اس نئے منصوبے کے نقشے موجود ہیں جس کے تحت پاکستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر، سعودی عرب، مصر، لیبیا اور سوڈان وغیرہ کو تقسیم کرکے وہاں علاقائی، قبائلی اور مسلکی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ملک بنائے جائیں گے۔ مختلف ممالک میں پائی جانے والی مذہبی یا قبائلی اقلیتیں اس منصوبے کا خاص مہرہ ہیں، تاکہ نئے بنائے گئے ملک بیرونی مدد و تائید حاصل کرنے کے لیے مجبور ہوں اور ان کے قدرتی وسائل کو بہتر طور سے لوٹا جاسکے۔
سوڈان کی خانہ جنگی میں غیر ملکی طاقتوں کی دلچسپی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ پہلے سوڈان کو مصر سے الگ کیا گیا، پھر جنوبی سوڈان کو الگ کر کے اس علاقے میں ایک نیا ملک بنادیا گیا اور اب عرب اور غیر عرب کی بنیاد پر سوڈان کو مزید دو ،تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ کا خواب پورے سوڈان پر قبضے کا تھا جو ناکام ہو چکا ہے ، البتہ اس کی وجہ سے سوڈان کی ایک بار پھر تقسیم کا خدشہ موجود ہے۔
گذشتہ عشرے کے سیاسی منظر نامے کو غور سے دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ۲۰۱۴ء سے بالعموم اور ۲۰۱۹ء سے انڈیا میں بالخصوص کشمیریوں کے خلا ف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پھر پلوامہ کا افسوس ناک واقعہ محض ایک واقعہ نہ رہا، بلکہ نفرت کی جڑ بنادیا گیا۔ اس کے بعد سے کشمیری مزاحمت کا ہر عمل اور بھارتی ریاست کی طرف سے ترتیب دیے گئے، سابقہ روایت کے مطابق ہرانڈین ساختہ فلیگ آپریشن کو انڈین عوامی جذبات کو مزیدبھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نفرت کو نہ صرف اُبھارا گیا بلکہ انڈین قومی نفسیات میں مستقل حیثیت سے ذہنوں میں ٹھونک دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بجا طور پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔اپنے بیان میں ان ماہرین نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد انڈین حکام نے مقبوضہ کشمیر میں وسیع آپریشن شروع کیے، آپریشن کے نتیجے میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں سمیت تقریباً ۲۸ سو افراد کو حراست میں لیا گیا۔حراست کے دوران افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وکلا اور خاندان کے افراد تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔ انھوں نے ان گرفتاریوں، نظربندیوں، حراست میں مشتبہ اموات، تشدد اور دیگر ناروا سلوک کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان ماہرین نے مزید کہا کہ ’’کشمیری اور مسلم آبادیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی بھی مذمت کرتے ہیں، ان سے متعلق خبروںاور اطلاعات کے بلیک آؤٹ اور آزادی صحافت پر پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا گیا، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے لیے اُکسایا گیا،۸ ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے گئے۔ دوسری طرف گجرات اور آسام میں مسلمانوں کے ہزاروں گھر، مساجد اور کاروبار مسمار کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے انڈیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرنے اور احتساب کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔
تاہم، یاد رہے کہ یہ نفرت نہ تو نئی ہے اور نہ اچانک پیدا ہوئی ہے۔ چودھویں صدی عیسوی سے، جب کشمیریوں کی غالب اکثریت نے اپنی مرضی اور بلاکسی خوف و دباؤکے شاہ ہمدانؒ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، تو ایک نہایت معمولی اقلیت نے لوگوں کی اس تبدیلیٔ مذہب کو ہضم نہ کیا اور انھوں نے اس تبدیلی کے خلاف ایک متعصبانہ موقف تخلیق کیا، جس میں افسانہ سازی اور جھوٹ کا سہارا لے کر کشمیری مسلمانوں کو مندر توڑنے والے، مقدسات کی بے حُرمتی کرنے والے اور ظالم قرار دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پراپیگنڈے کو مزید تقویت دی گئی۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں اس کی سب سے مہلک شکل سامنے آئی۔ جب کشمیریوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تو نئی دہلی نے یہ موقع غنیمت جانا اور انڈین حکمرانوں اور ’ہندوتوا‘ کے پرستاروں نے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کا الزام مسلمان اکثریت پر لگا دیا، حالانکہ یہ شرمناک ڈراما ان کے اپنے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے رچایا تھا۔ درحقیقت یہ جگ موہن ہی تھا، جس نے ان کی بے دخلی کو منظم اور آسان بنایا تاکہ کشمیری مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا راستہ کھل جائے، اور منصوبے کے مطابق، پنڈتوں کے روانہ ہونے کے صرف چند ہی دنوں بعد ہزاروں کشمیری مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اس طرح جدید تاریخ کے سب سے وحشیانہ فوجی آپریشنوں کا آغاز ہوا۔
آج یہ نفرت اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ ہر کشمیری کو غیر معمولی نفسیاتی دباؤ میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ ہرکشمیری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حد سے زیادہ شائستہ، حد سے زیادہ صابر اور حد سے زیادہ پُرامن رہتے ہوئے مسلسل اپنی پُرامن فطرت ثابت کرتا پھرے۔ اس پر براہِ راست اور بالواسطہ دباؤڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس مزاحمتی تحریک سے بھی لاتعلقی اختیار کر لے، جو اس نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے شروع کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیریوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غداری کررہے ہیں جس ملک کی وفاداری کا حلف انھوں نے کبھی لیا ہی نہیں، جس میں وہ کبھی اپنی رضامندی سے شامل ہی نہیں ہوئے اور جسے وہ کبھی اپنا ملک نہیں سمجھتے۔ حق خود ارادیت کا مطالبہ، جس کا انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے اقوامِ متحدہ میں کھلے عام وعدہ کیا تھا، اسے جرم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں انڈیا نے ایک بار پھر وہی پرانا ڈراما شروع کر دیا ہے، جس میں کشمیریوں کو مستقل ملزم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ریاستی مشینری ’سیکیورٹی‘ کے لبادے میں انتقام کے جذبے کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ حالیہ دہلی دھماکا، جو ابھی تک غیر یقینی صورتِ حال اور بے جواب سوالات میں لپٹا ہوا ہے، کشمیریوں کے خلاف گرفتاریوں، چھاپوں، تفتیش اور نفسیاتی جنگ کی نئی لہر کے لیے ایک نیا بہانہ بنالیا گیا ہے۔
دہلی کے مبینہ واقعے سے بھی پہلے، ہزاروں کشمیریوں کوجن میں طلبہ، مزدور، تاجر اور مسافر شامل ہیں، —وادیٔ کشمیر میں ’پری ایمپٹو ڈیٹینشن‘ کے نام پر گھیر کر پکڑ لیا گیا۔ ۹نومبر ۲۰۲۵ء کو ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو سری نگر میں کشمیر کی آزادی کے حق میں پوسٹرز لگانے کے الزام پر انڈین ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور میں گرفتار کیا گیا ہے، جو وہاں ایک نجی ہسپتال میں کام کر رہا تھا۔ پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹر عادل احمد کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ہوئی ہے جس میں اسے سرینگر کے متعدد مقامات پر پوسٹرز لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔۱۱ نومبر ۲۰۲۵ء کو ضلع پلوامہ، شوپیاں، سرینگر، بڈگام، ہندواڑہ، کولگام اور گاندربل کے علاقوں میں انڈین فوج اور پولیس اہلکاروں اور دیگر ایجنسیوں نے صرف تین دنوں کے دوران محاصرے اور تلاشی کی مہم تیز کرتے ہوئے تقریباً ۱۵۰۰؍ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کر لیا۔ ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف آزادی پسند کارکن اور ان کے ہمدرد تھے، جن کے مکان اور بینک کی دستاویزات، ڈیجیٹل آلات، کتابیں اور دیگر اشیا ضبط کیے گئے۔
بریکنگ نیوز کی ہیڈلائن ’دہلی دھماکا کیس میں ایک اور کشمیری گرفتار‘ اتنی بار دُہرایا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کا قومی نعرہ لگنے لگا ہے۔ اب وہ خاص طور پر اور دانستہ طور پر کشمیریوں کے دانش ور طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں، ’وائٹ کالر دہشت گردی‘ جیسی نئی اصطلاحات گھڑ کر ہر کشمیری پر شک اور مسلمان ہونے کی سزا دے رہے ہیں، تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر اور محققین کو بغیر کسی جواز کے ستایا جا سکے۔
۱۳ نومبر ۲۰۲۵ء کو انڈین تحقیقاتی ایجنسیوں نے دلی میں لال قلعے کے قریب ہونے والے حالیہ دھماکے کی آڑ میں ڈاکٹر عمر النبی اور مزمل احمد گنائی سمیت ۵۷ ڈاکٹروں کو دھماکے میں ملوث کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے وادی میں پہنچ کر تین ڈاکٹروں اور خواتین سمیت ۱۷ سو سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا، جن میں سے بہت سوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اےجیسے کالے قوانین کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔
انڈین قابض انتظامیہ نے سیاسی اور دینی تنظیموں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور دیگر حریت پسند تنظیموں کے اراکین اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر مکینوں کو ہراساں کیا اور بینک اور مکانوں کے اہم کاغذات، موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ قبضے میں لے لیے ہیں۔ ضلع پونچھ میں پولیس نے ایک کشمیری محمد اقبال کی جائیداد، جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے، ضبط کر لی۔
انڈین فوج، انڈین پولیس، اور کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر کے اہلکاروں نے وادیٔ کشمیر کے اسلام آباد، پلوامہ اور کولگام اضلاع کے علاوہ جموں خطے کے ضلع ڈوڈہ میں تقریباً ۱۳ مقامات پر چھاپے مارے اور آزادی پسند کارکنوں، کشمیری پیشہ ور افراد اور عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ ۱۵ نومبر ۲۰۲۵ء کو گرمائی دارالحکومت سری نگر کے مضافات میں واقع نوگام تھانے میں ہونے والے ایک پُراسرار دھماکے میں کم از کم ۹ پولیس اہلکار ہلاک، جب کہ ۳۰ کے لگ بھگ زخمی ہو گئے اور یہ تمام کے تمام مسلمان ہیں ۔ دھماکا اس وقت ہوا جب پولیس کی ایک ٹیم تھانے میں رکھے گئے دھماکا خیز مواد کی جانچ کر رہی تھی۔
قبل ازیں انڈین حکام نے انڈین ریاست ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں ایک کرائے کے مکان سے ۳۶۰ کلو گرام دھماکا خیز مواد کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔ مواد کا کچھ حصہ جانچ کے لیے نوگام تھانے میں لایا گیا تھا۔ حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ فرید آباد کے جس مکان سے دھماکاخیز مواد برآمد کیا گیا اس میں ایک کشمیری ڈاکٹر مزمل گنائی رہائش پذیر تھا۔ پولیس نے مزمل گنائی کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ جب وادی میں ہونے والے بم دھماکوں میں شامل مواد کو دہلی فرانزک ٹیسٹ کے لیے لیاجاتا تھا، تو اب کی بار کیوں دہلی اور یوپی کی جدید ترین فرانزک لیبارٹریز پر کشمیر کےایک دُور دراز دیہات کے تھانے کی فرانزک لیبارٹری کا انتخاب کیا گیا؟
بات یہ نہیں کہ پہلے وہ ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کو نشانہ نہیں بناتے تھے، انھوں نے ماضی میں سینکڑوں ایسے افراد کو قتل کیا ہے۔ لیکن اب ان افراد کے خلاف تشدد کشمیری دانش ور برادری کے پورے طبقے کے خلاف ایک مکمل حملے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔آج کا انڈیا سو فی صد اسلام مخالف اور کشمیر مخالف بیانئے کے ایندھن پر چل رہا ہے اور لگتا ہے کہ ’ہندوتوا‘ کے پرستاروں کو ایک مستقل دشمن اور ولن کی ضرورت ہے، جس کے وجود سے ریاستی جبر، نفرت کی مشینری اور ہندوتوا کے نظریاتی خوابوں کو جواز ملتا رہے۔ اس کردار کے لیے کشمیریوں سے بہتر کوئی کردار نہیں۔ بقول ان کی فلاسفی کے کہ کشمیری ظاہری طور پر تو سیدھے سادھے مسلمان لگتے ہیں، لیکن سیاسی طور پر سرکش ہیں۔
اس سوچ کا احاطہ معروف کشمیری نژاد امریکی مصنفہ اطہر ضیا نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ’قابل گردن زدنی‘ قوم ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے یہی نظر آتا ہے اگر انڈیا کے بس میں ہوتا تو وہ ہرکشمیری مسلمان کو گرفتار کر لیتا، پوری قوم کو کسی دھماکے سے جوڑ کر جیلوں میں ڈال دیتا اور ساری آبادی کو ایک ہیڈلائن کا توسیعی حصہ بنا دیتا۔ ابھی تک اسے صرف عالمی سطح پر جمہوریت کا چربہ برقرار رکھنے کی مجبوری ہے۔انڈین عوام سے توقع رکھنا کہ وہ تاریخ سمجھیں گے اور اپنے تعصب سے باہر نکلیں گے، ایک مشکل بات لگتی ہے۔ وہ نادان جنونی جو انڈین مسلمانوں کو محض فریج میں گوشت رکھنے کے شبہے میں بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں اور کھلم کھلا ان کے قتل عام کا مطالبہ کرتے ہیں، ان سے یہ توقع بے کار ہے۔
دُنیا کو جاگنا ہو گا اور ایک اور بڑے قتل عام کو روکنا ہو گا۔ انڈیا چاہتا ہے کہ عالمی برادری، کشمیریوں کو ولن، دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھ لے، تاکہ جب اگلی بڑی بے دخلی یا قتلِ عام ہو تو دنیا کندھے اُچکائے، یا اس سے بھی بُرا کوئی طریقہ اختیار کر کے، متاثرین کو ہی قصوروار ٹھیرائے۔ اسلامی دنیا کو بالخصوص اس صورت حال کو دیکھنا ہو گا اوربروقت اقدامات اٹھانے پڑیں گے ورنہ ایک اور جموں جیسا قتل عام اور اسپین جیسا منظر نامہ بالکل سامنے نظر آ رہا ہے۔
۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب نئی دہلی میں اس کے مضمرات کا جائزہ لیا جا رہا تھا، تو قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا، میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر انڈین موقف کی پذیرائی سے مطمئن نہیں تھے کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا پر کوئی یقین نہیں کر رہا تھا۔ نیوز چینلوں میں ’اسٹار نیوز‘ کے انگریزی شعبہ کو ’این ڈی ٹی وی‘ مواد فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے ’این ڈی ٹی وی‘ کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنا الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔ ’این ڈی ٹی وی‘ کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ ’این ڈی ٹی وی‘ ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔حکومت کی کارکردگی پر جتنی بھی تنقید کرنا چاہے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات میں حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے، جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو‘‘۔
’این ڈی ٹی وی‘ نے اپنی کوریج اور حکومت کے احتساب کرنے کی وجہ سے ساکھ بنالی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیش تر اوقات کیا گیا۔بین الاقوامی سطح پر اس نے ’بی بی سی‘، ’سی این این‘ کی طرح ساکھ بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کرلی۔ یعنی ایک غیر جانب دار میڈیا مشکل حالات میں ملک کےلیے اکسیر کا کام کرتا ہے۔
حال ہی میں جموں میں ریاست جموں و کشمیر کے سب سے پرانے اور مؤثر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے دفتر پر جس طرح پولیس نے یلغار کی اور اس کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کے خلاف مبینہ طور پر کیس درج کیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈین حکومت کو اب کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی ضرورت نہیں ہے۔یہی نظر آرہا ہے کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی بلکہ شائع ہونے کی اجازت دی جائے گی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو۔
نوے کے عشرے میں جب کشمیر میں عسکریت زوروں پر تھی، تو سیکرٹری اطلاعات نے اس وقت کے ڈائریکٹر اطلاعات کو حکم دیا کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخباروں پر نکیل کس دے، کیونکہ وہ عسکریت کے بارے میں خبریں شائع کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر اطلاعات ایک جہاندیدہ کشمیری پنڈت کنہیا لال دھر تھے۔ انھوں نے سیکرٹری صاحب کو ہدایت دی کہ اس بارے میں گورنر سے حکم نامہ حاصل کریں۔ مگر گورنر گریش چندر سکسینہ نے سیکرٹری کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ ’’اگر اخباروں پر نکیل کس دی جائے،تو گراؤنڈ انفارمیشن یا فیڈبیک ان کو کہاں سے ملے گا؟‘‘
کم از کم دکھاوے کےلیے بھی ضروری ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ آزاد ہو، اور اس میں اسلوب و سوچ کی وہ تخلیقی کش مکش زندہ رہے، جو اسے حکومتی ڈھانچے سے الگ اور خودمختار دکھا سکے، تاکہ جب بحران کی گھڑی آئے تو یہی آزادانہ لہجہ کام آسکے۔ اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو ’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سچائی بھی بیان کی جائے۔
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھا پہ آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی ایک کوشش ہی نہیں، بلکہ یہ یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو عشروں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ایسے وقت میں سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ ایک اخبار کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ اصل بات یہ ہے کہ ان آوازوں، تحریروں اور ریکارڈ شدہ یادداشتوں کو خاموش کرانے کی یہ ایک کوشش ہے، جنھوں نے کشمیر کی اجتماعی یادداشت کو تشکیل دیا ہے۔ایک ایسی سوچ کی علامت ہے، جو صحافت کو رکاوٹ سمجھتی ہے، ضرورت نہیں۔ یہ اس بڑی لڑائی کا حصہ ہے کہ کشمیر کی کہانی کون لکھے گا، اور کون اس راستے سے ہٹایا جائے گا تاکہ سرکاری بیانیہ مضبوط رہے۔
ویسے تو ۲۰۲۰ءمیں ہی اس اخبار کے سرینگر کے دفتر کو سیل کر دیا گیا تھا،مگر اس کا جموں کا دفتر قائم تھا۔ وہ بھی تین سال سے بندپڑا تھا، کیونکہ اخبار کی مدیرہ انورادھا بھسین امریکا منتقل ہوگئی تھیں، جہاں سے انھوں نے اخبار کا دیجیٹل ایڈیشن پچھلے سال دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ طاقت ور ریاستی طبقات کے ساتھ اس اخبار کا ہمیشہ ہی سے معرکہ رہا ہے۔ جب فضا پر عسکریت پسند چھائے ہوئے تھے، توان میں سے کوئی نہ کوئی گروہ کشمیر ٹائمزکی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالتا رہا۔ جب سرکار نواز بندوق برداروں کا دور آگیا توان کے کمانڈر محمد یوسف المعروف کوکہ پرے نے اس اخبار کے سرینگر دفتر میں کا م کرنے والے صحافیوں کی موت کے فرمان صاد ر کر دیے تھے۔
فاروق عبداللہ کی حکومت نے ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۲ء تک اس اخبار کے ریاستی اشتہارات بند رکھے۔ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں برپا عوامی احتجاج کے بعد تو بھارتی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو حکم جاری کیا: کشمیر ٹائمز چونکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے، حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔ مجھے دہلی میں کئی بار حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے کہا کہ بانی مدیر وید بھسین کو وزیر اعظم من موہن سنگھ یا وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملنا چاہیے، مگر وید بھیسن صرف اشتہارات بحال کرانے کے لیے وزیروں سے ملنے پر کبھی راضی نہیں ہوئے، حتیٰ کہ انھیں سری نگر کا انتہائی جدید پریس، زمین سمیت بیچنا پڑا۔ اخبار کی سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی، مگر اقدار اور اصولوں پر کبھی اس شخص نے حرف نہ آنے دیا۔
ویسے تو اس اخبار کو وید بھسین نے ۱۹۵۵ء میں ہفت روزہ کی صورت میں شروع کیا تھا اور بعد میں ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اس کو روزنامہ کردیا۔ آنجہانی وید، جموں و کشمیر کی سیاست میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۹ء تک وہ ’جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس یونین‘ (JRSU) کے صدر رہے۔ بعد ازاں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک ’جموں و کشمیر یوتھ نیشنل کانفرنس‘ (JKYNC) کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کے رکن بھی رہے۔ ۱۹۵۳ء کے بعد انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنی توجہ ریاست کی سماجی اور ثقافتی ترجیحات پر مرکوز کر دی۔انھوں نے ۱۹۵۲ء میں نیا سماج کے نام سے ایک اردو ہفت روزہ بھی جاری کیا، جسے وہ ۱۹۵۴ء تک چلاتے رہے۔ ۱۹۵۴ء میں یہ اخبار دفاعِ ہند کے قوانین کے تحت اس لیے بندکر دیا گیا کہ اُس نے اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی برطرفی اور گرفتاری کو’غیر جمہوری‘ قرار دیا تھا۔ بعد ازاں ۱۹۵۵ء میںانھوں نے کشمیر ٹائمز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۰۰ء تک اس کے ایڈیٹر رہے۔تاہم، آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا، تو اخبار اور زیادہ ابتلا و آزمائش کی نذر ہوگیا۔
انو رادھا بھسین نے انٹرنیٹ کی طویل بندش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔ٹھیک پانچ ماہ بعد، ۱۰ جنوری ۲۰۲۰ء کو، عدالت نے کہا کہ ’’حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی‘‘۔ ان کی کتاب ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370پر حال ہی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے ۲۴ دیگر کتابوں کے ساتھ پابندی عائد کر دی تھی۔ ۲۰۱۹ء کے بعدسے جموں و کشمیر میں سیاسی پیش رفت اور میڈیا پر پابندیوں کے بعد کشمیرٹائمز کا پرنٹ ایڈیشن تقریباً بند ہو چکا تھا۔
۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں کشمیر ٹائمز مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ سوپور میں ہر روز بس ڈپو سے متصل یونیورسل نیوز ایجنسی کے باہر بھیڑ دیکھتا تھا۔ لوگ کشمیر ٹائمز حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کر رہے ہوتے تھے۔ چونکہ اخبار جموں سے شائع ہوتا تھا، اس لیے سوپور اکثر دوپہر کو ہی پہنچتا تھا۔ کئی بار ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی۔
باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے ، وہ کب اپنی خاموشی توڑ یں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے؟ یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی تصویر بن جائیں گے:
پہلے وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے،اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔
کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے،اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔
کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ میرے لیے آئے ،اور میرے لیے بولنے کے لیے کچھ بچا نہیں تھا۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایام یعنی، اگست ۱۹۴۷ء کے آخری ہفتے کے دوران لاہور میں ایک سرکاری محکمے کا قیام عمل میں لایا گیا، جو اپنے نام کے اعتبار سے بہت منفرد تھا: ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (’محکمۂ احیائے ملتِ اسلامیہ‘)۔ جدید تاریخ میں کسی سرکاری محکمے کے ساتھ ’اسلامی‘ کا لفظ پہلی دفعہ لگایا گیا تھا… محکمے کی سربراہی مشہور اسلامی مفکر علّامہ محمد اسد کو سونپی گئی۔ علّامہ اسد، لیوپولڈ وئیس کے نام سے وی یانا، جرمنی کے ایک یہودی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن ہدایت کی طرف مائل، اس نوجوان کو اللہ نے جستجو کی وادیوں سے گزارتے ہوئے جوانی میں ہی نورِ ایمان سے منور کر دیا۔ اپنے اس روحانی سفر کی داستان انھوں نے اپنی مشہور کتاب Road to Macca میں تحریر کی ہے۔ علّامہ محمد اسد، علّامہ محمد اقبال کی شخصیت سے متاثر ہو کر ہندستان آگئے اور علّامہ محمد اقبال نے اپنے دوست کو ہندستان کے موسم کی سختیوں سے بچانے کے لیے، چودھری نیاز علی خاں صاحب سے کہا شملہ میں ان کی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔ وہاں رہائش کے دوران انھوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمے کا آغاز کیا ہی تھا کہ جنگِ عظیم دوم شروع ہو گئی اور انھیں ایک جرمن جاسوس سمجھ کر انگریز حکومت نے گرفتار کر لیا۔ ایک عرصے کے بعد رہائی نصیب ہوئی تو انھوں نے اپنا مشہور رسالہ عرفات نکالا۔ اس رسالے کے حوالے سے ان کی خط کتابت اسلامی مفکرین اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ، قائد اعظمؒ سے بھی ہوتی رہی، جو ان کے رسالے کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ رسالے میں علّامہ اسد نےWhat Pakistan Means کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا، یعنی ’پاکستان کا مطلب کیا‘ اور ان مضامین میں اس کا جواب ہوتا ’لا الٰہ الا اللہ‘، یعنی تحریری طور پر یہ نعرہ پہلی دفعہ علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان سے دو سال قبل ہی بلند کر دیا تھا۔
اگست ۱۹۴۷ء کے آخری ہفتے میں ہی ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘‘کے اغراض و مقاصد کا کتابچہ شائع ہوا۔ اس میں محکمے کی ذمہ داریوں میں اسلام کے تعزیراتی قوانین کی تدوین سے لے کر تعلیمی، معاشی اور معاشرتی نظام کے نفاذ پر سفارشات مرتب کرنا شامل تھا۔ یہ محکمہ حکومتِ مغربی پنجاب کے تحت قائم ہوا تھا، لیکن فوراً ہی منظوری کے لیے اس کو مرکزی حکومت کے پاس بھیجا گیا۔ اس موضوع پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں طویل بحثیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ آخرکار جنوری ۱۹۴۸ء میں منظوری کے بعد علّامہ محمد اسد کو ریڈیو پاکستان سے اپنے اغراض و مقاصد اور اہداف بیان کرنے اور پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے محکمے کے کام کا تعارف کروانے کی اجازت دی گئی۔ ریڈیو پاکستان سے علّامہ اسد کی سات ولولہ انگیز اور فکرسے بھرپور تقریریں نشر ہوئیں۔ بعدازاں ریڈیو پاکستان کی اجازت سے رسالہ عرفات کے ستمبر ۱۹۴۸ء کے شمارے میں شائع ہوئیں۔
محکمہ میں علّامہ اسد کے ساتھ کام کرنے والوں میں مفکرین، ڈاکٹر حسین الہمدانی، سیّدنذیر نیازی، محمد جعفر شاہ پھلواری، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، رشید اختر ندوی، مولانا شفیق الرحمٰن اور افتخار احمد چشتی شامل تھے۔ اپنے آغاز سے ہی یہ ادارہ انتہائی تندہی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔ ادارے نے علّامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں اسلامی قوانین کی تدوین کے لیے علما کی ایک کمیٹی بھی قائم کی۔ صرف چند ماہ کی محنت سے محکمے نے اپنی سفارشات مرتب کرلیں۔ جب یہ سفارشات مرکزی حکومت کو موصول ہوئیں تو حکومت پر قابض انگریز کی تیارکردہ بیوروکریسی نے اس ادارے کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے۔ آخرکار علّامہ اسد سے ایک شاطرانہ چال چلتے ہوئے درخواست کی گئی کہ وہ عالمِ اسلام میں پاکستان کی شناخت کروانے میں مدد کریں۔ یوں انھیں یہ ذمہ داری سونپ کر سفیر کے عہدے پر تعینات کر کے مشرقِ وسطیٰ بھیج دیا گیا۔ ان کے جانے کے صرف ایک ماہ کے اندر ہی ادارے کا وہ مرکزی دفتر جو پنجاب سیکرٹیریٹ کے ساتھ پیپلز ہائوس میں قائم تھا، وہاں ایک پُراسرار آتش زدگی کے ذریعے آگ لگا کر سارا ریکارڈ جلا دیا گیا۔ یہ قیام پاکستان کے بعد کسی سرکاری ادارے میں پُراسرار آتش زدگی کی پہلی واردات تھی۔ یوں ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کا سارا ریکارڈ جلا دیا گیا۔
سفارت کاری کے لیے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے یعنی ۱۸؍اگست ۱۹۴۸ء کو مرکزی حکومت کی بیوروکریسی سے تنگ آکر علّامہ محمد اسد نے مرکزی حکومت کو ایک طویل Memorandum (یادداشت) ارسال کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قائد اعظم اپنی علالت کی وجہ سے زیارت میں تھے اور مرکزی حکومت پر برطانوی تربیت یافتہ بیوروکریسی کا مکمل راج تھا۔ شریعتِ اسلامی کے نفاذ کا راستہ روکنے کے لیے اس وقت کی سول بیوروکریسی نے ان پر طرح طرح سے دبائو ڈالا۔ اس میمورنڈم میں آپ کو وہ دُکھ، تکلیف اور شدید کرب نظر آئے گا، جس سے وہ گزرے۔ اس میمورنڈم میں علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان کے ایک سال کے اندر ہی یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ اس ملک پر قابض قوتیں اسے مغربی طرزِ زندگی کی بنیاد پر ایک سیکولر ملک بنانے کی خفیہ سازشیں کررہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی فائلوں میں دبے ہوئے اس میمورنڈم کو چودھری مظفر حسین نے ڈھونڈ نکالا اور اسے انگریزی میں ہی ۱۹۹۸ء میں شائع کر دیا۔ اس میمورنڈم کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔
میمورنڈم ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کو پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہو گا کہ علّامہ اسد نے قیامِ پاکستان کے پہلے سال کے دوران ہی خبردار کردیا تھا کہ اسلامی شریعت سے رُوگردانی کے نتیجے میں اس ملک پر کیسی آفتیں ٹوٹ سکتی ہیں اور ہم بالکل بکھر کر رہ جائیں گے۔ آج ہم انھی آفتوں کا شکار ہیں___ اوریامقبول جان
میں سمجھتا ہوں کہ ’محکمہ ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘، (احیائے ملتِ اسلامیہ) حکومتِ مغربی پنجاب کی سرگرمیوں کے حوالے سے مرکزی حکومت کو غالباً کچھ تشویش لاحق ہوئی ہے۔ اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان میں نظامِ شریعت کے قیام کا دعویٰ کر کے ملک کو تنگ اور جامد ذہنیت کے ساتھ اسلام کی عکاسی کرنے کی طرف موڑنے کے رجحان کا خوف پایا جاتا ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والے افراد کا یہ کردار ان صدیوں پر محیط ہے، جن میں ہم زوال کا شکار تھے۔ بلکہ درحقیقت، یہ ہمارے تنزل کا سبب تھا؛ اور چونکہ ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ کا قیام نظریۂ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا، اس لیے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کی سرگرمیاں بھی، ان رجعت پسندانہ رجحانات کو ہی تقویت پہنچائیں گی اور یوں حکومت کے ایسے اقدامات کو نقصان پہنچے گا، جن کے ذریعے حکومت، پاکستان کو ایک ’روشن خیال‘ اور’ ترقی پسند‘ ریاست بنانا چاہتی ہے۔
شروع ہی میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ محکمہ ’احیائے ملت اسلامیہ‘، جو حکومت مغربی پنجاب کی طرف سے میری سربراہی اور ذمہ داری میں دیا گیا ہے ، اس کا قیام ہمارے اس ملک میں نظامِ زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے، اور قرآنِ مجید کے پیغام ہی میں درج نظریے کا احساس بیدار کرنے میں مدد دینے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ میں زور دے کر اس حقیقت کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی قانون کا تصور، جس کی ہم وکالت کر رہے ہیں، ہرگز وہ نہیں ہے جو ہمارے تاریک ادوار سے خصوصی نسبت رکھنے والے افراد پیش کرتے ہیں۔ مسلم عوام کے درمیان بعض لوگ زیادہ آواز بلند کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دراصل وہی اسلام کے محافظ ہیں۔ درحقیقت ہمارا ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملت اسلامیہ) بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہم ایسے تاریک تصورات کا مقابلہ کریں، تاکہ اسلامی قانون کو اس شکل میں پیش کیا جائے کہ اسے ایک روشن خیال ریاست کے سیاق و سباق میں ایک قابلِ عمل قانون کے طور پر سمجھا جا سکے۔ ہم نے جس قدر تحریریں شائع کی ہیں، ان کے ایک محتاط مطالعے سے ہماری اس سمت کا ثبوت ازخود مل جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے سیاست دان اور سیاست کو سمجھنے کے دعوے دار، جو اس وقت نفاذِ شریعت کی دہائی دے رہے ہیں، انھیں حقیقت میں اسلام کی سچائی یا مسلم عوام کی فلاح و بہبود سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے ذاتی مفادات کی ترویج اور مقتدرمناصب کے حصول کے لیے صرف اور صرف اسلامی نعروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ ان طریقوں سے بھی حصولِ اقتدار کا اپنا خواب پورا نہیں کر سکتے۔ ہمارے لوگوں کی غالب اکثریت کی یہ دلی خواہش ہے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قالب میں پھلتے پھولتے ہوئے دیکھیں۔ دوسرے لفظوں میں مختلف ذاتی مفادات رکھنے والی پارٹیاں دراصل اس لیے اسلامی نعرے استعمال کر رہی ہیں کہ اہلِ وطن کی اکثریت حقیقتاً، دل کی گہرائیوں سے اسلامی اصولوں کے ساتھ وابستہ ہے اور انھیں قیامِ پاکستان کا جواز صرف اور صرف اسلامی قانون کے نفاذ میں ہی نظر آتا ہے۔ عوام کی اس اکثریت کے ذہنوں کو ان تاریک سوچ رکھنے والوں نے جس طرح قابو میں کر رکھا ہے، اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے حصولِ آزادی سے پہلے عوام کے ساتھ نفاذِ اسلام کے جو وعدے کیے تھے، ہماری حکومت کی طرف سے وہ وعدے پورے نہیں کیے گئے اور عوام کی اکثریت حکومت سے مایوس ہو چکی ہے۔
ہماری خودمختاری کے پہلے ہی ہفتے یہ بات مجھ پر بالکل واضح ہو گئی تھی کہ لوگوں کی معاشرتی خوداعتمادی کا انحصار مکمل طور پر، اس بات پہ ہو گا کہ حکومت انھیں واضح طور پر اسلام کی جہت پر لے کر چلتی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ یہی ایک اُمید ہے جو کئی برسوں پر سیاسی جدوجہد کے دوران عوام کے ذہنوں سے بندھی تھی۔ اسی مقصد کے لیے ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملّت ِ اسلامیہ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کا خاکہ دراصل ایک ’نظریاتی منصوبہ ساز مرکز‘ کے طور پر تیار کیا گیا تھا، جو عوام کے اس اسلامی جوش و جذبے کو بھی برقرار رکھے جو پاکستان بننے کا سبب بنا، اور اپنے ہم وطنوں کی جذباتی قوت کو تعمیری مقاصد کی طرف لے کر چلنے کی سمت رہنمائی بھی کرے۔ یہ ایک ظاہر سی بات تھی کہ ایسی کسی رہنمائی کے بغیر ہمارا اپنا معاشرتی وجود ہی خطرے میں پڑ سکتا تھا، کیوں کہ ہمارے ہاں ’مولوی‘ عنصر لوگوں کو پرانے، ناقابل عمل، فقہی تصورات کے ساتھ چمٹے رہنے کی ترغیب دے کر، اسلامی نظریات کو عملی جامہ پہنانا یکسر ناممکن بنا رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس تین راستے ہیں:
یہ ایک واضح بات ہے، ان تینوں امکانات میں سے آخری راستہ ہی اس قابل ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے۔ اور پھر یہی بات بالکل درست انداز میں خود قائد اعظم نے بھی متعدد موقعوں پر وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ انھوں نے جب بھی پاکستان کے بارے میں بات کی تو اسےState of our own concept (ہمارے اپنے ہی تصور پر مبنی ریاست) قرار دیا۔ ایسی ریاست جو اپنی آگہی قرآنِ مجید سے حاصل کرے گی اور اس کا اسلامی شریعت پر مبنی ایک دستور ہو گا۔ یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کی، جس پر وہ کامل یقین نہ رکھتے ہوں۔ ان کے اسی اعتماد کی بنیاد پر حکومت مغربی پنجاب نے محکمہ احیائے ملت ِ اسلامیہ (Depratment of Islamic Reconstruction) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہمارے اس محکمے کا مقصد اپنے قیام کے روزِ اوّل سے ہی اسلامی قانون کے ایسے تصور کو فروغ دینا ہے، جو حقیقی طور پر قرآنِ مجید کے پیغام سے مطابقت رکھتا ہو، اور یہ بدلتے حالات سے ہم آہنگ بھی ہو اور قابلِ عمل بھی۔ ہمارے اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام، دراصل اللہ تعالیٰ کا قانون ہونے کی حیثیت سے، کسی خاص زمانے کے سماجی اور معاشی حالات کے ساتھ نتھی ہو کر نہیں رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے ہماری تاریخ کے گذشتہ اَدوار میں رائج ہر قانونی رائے کو یہ بہرحال من و عن تسلیم کرنے کا تقاضا بھی نہیں کرتا۔
جب ہم شریعت کی اصل بنیاد وحی الٰہی کو تسلیم کرتے ہیں، تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم یہ بھی مانیں کہ ہر زمانے کے سماجی، معاشی اور فکری تقاضے بھی اس میں آغاز ہی سے سمو دیے گئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ شریعت کا تصور ایک جامد تصور و طریق کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، بلکہ انسانی ترقی کے تمام امکانات کی اس میں گنجائش کا پایا جانا، نیز اس کا انسان کی معاشرتی نشوونما کے تمام مرحلوں کی ضروریات کے حسبِ حال ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ یوں یہ بات خودبخود واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی جو تصویر اس وقت ہمارے روایتی علما کی اکثریت پیش کر رہی ہے، وہ آج کے معاشرے کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی، کیوں کہ وہ جامد اور قانون کے ان تصورات سے منسلک ہے، جو اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے عظیم محققین کی محنت کا نتیجہ تھے۔ اس طرح کے تصور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ، یہ تشریح و توضیح شارع کے اصل مقصد کی مکمل ترجمانی ہرگز نہیں کرتی۔ اس لیے کہ ان عظیم محققین کے قانونی استنباط ان کے اپنے زمانے سے متعلق تھے، اور اسی زمانے میں ہی نافذ کیے گئے تھے، اور وہ یقیناً اسی زمانے تک ہی محدود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس خاص زمانے کے معاشرتی اور فکری پس منظر کی موافقت میں ہی بنائے گئے تھے۔ اس بنیاد پر یہ اصول و قوانین ہرگز حتمی نہیں ہو سکتے تھے۔
ایک اور بات یہ بھی ہے کہ وہ گذشتہ تمام صدیوں کے لیے حتمی طور پر مسلسل قابلِ نفاذ نہیں رہے۔ یہ ہے وہ نکتہ جو گذشتہ ایک ہزار سال یا اس کے قریب کے زمانے تک ہمارے اکثر علما (یقیناً سب نہیں) کی نظروں سے اوجھل رہا۔ یوں انھوں نے ہر قسم کے ’خودمختار اجتہاد‘ پر پابندی لگائے رکھی اور خود غوروفکر کرنا بھی بند کر دیا۔ محض اپنے سے زیادہ تخلیق کار اسلاف کے فکری نتائج پر دارومدار رکھنے کی عادت اپنا لی۔ وہ انسانی زندگی کی تبدیلیوں اور تاریخی تجربے (جس میں سائنسی تجربے کو بھی شمار کیا جائے) کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ترقی دینے کے بجائے، نہایت اطمینان اور خوشی سے انھی نظریات اور تصورات کو دُہراتے رہے، جن کا رواج کبھی قدیم ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تہذیب و تمدن آہستہ آہستہ تمام تخلیقی افکار سے خالی ہوتا چلا گیا، اور اس نے اپنی فطری ثقافتی قوت ہی کھو دی اور یوں وہ رفتہ رفتہ بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی سے بھی دُور ہوتا چلا گیا۔
مختصر یہ کہ اسلام کے ابتدائی زمانے کی شان دار شروعات کے بعد اس کے مرحلہ وار فکری و تہذیبی تنزل کی یہی ایک اہم وضاحت ہے، اور یہی ہمارے ہاں ہر طرح کے زندہ غوروفکر کی بندش کی کہانی بھی ہے۔ آج کے دور میں بے جا طور پر جس چیز کو علمِ شریعت کا نام دیا جا رہا ہے وہ یہی علم ہے جس کی جامدیت نے اس جدید معاشرے کے سیاق و سباق میں اس کے نفاذ کو مکمل طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔ المختصر، یہ کہ جو سب کچھ ناقابلِ عمل اور وقت کے تقاضوں سے دُور ہے، وہ ہرگز اسلام نہیں ہے، بلکہ وہ اسلام کے بارے میں اور اس کے قانون کے بارے میں قائم کی گئی فقط آراء ہیں، جو اپنے وقت میں قید قدیم فقہی جزئیات سے اخذ کی گئی ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں ہمارے زمانے کے مسلم معاشرے کے لیے دو راستے کھلے رہ جاتے ہیں: اوّل یہ کہ یا تو وہ اسلام کے اصل پیغام کی طرف لوٹ جائیں اور نئے سرے سے اس کی تطبیق کے بارے میں غوروفکر شروع کریں۔ یا پھر اسلام کو ایک بار پھر اپنی سماجی اور ثقافتی ترقی کی عملی بنیاد بناتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی میں اسلام کے داخلے پر مکمل پابندی ہی لگا دیں، جس طرح کمال اتاترک نے اپنے ملک ترکی میں کیا۔
میری نظر میں پاکستان کے معاملے میں اس دوسرے حل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ پاکستان کے وجود کا مکمل طور پر انحصار ہی اسی حقیقت پر ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے اپنے مذہبی نظریے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ قومیت کا نہ صرف مطالبہ کیا تھا بلکہ لوگ اب تک اسی پر قائم ہیں۔ کتنے برس تک ہم یہ دلائل پیش کرتے رہے کہ جب تک برصغیر کے مسلمانوں کے پاس اپنی کوئی الگ ریاست نہیں ہوتی، اس وقت تک ان کے لیے بطورِ مسلمان اپنی پہچان برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اس بات سے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ الگ ریاستی ڈھانچے کے حصول کے لیے ہماری خواہش کا مقصود ہمارے لوگوں کا یہی فطری عزم تھا کہ ان کے پاس اپنے طرزِ زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے کوئی خطۂ زمین ہو، جہاں وہ اسلام کے جوہر کو نشوونما پاتے ہوئے دیکھیں، یعنی اسلام محض ایک دعوت اور پیغام سے بڑھ کر ایک مکمل سیاسی حقیقت بن جائے۔ فقط یہی ایک وجہ تھی، اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں کہ جس نے ہمیں ہندستان سے علیحدگی کی جنگ لڑنے کا حوصلہ دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس علیحدگی کی جنگ کا جواز ہمیں صرف اسی نظریے سے ملا۔ قیامِ پاکستان کے بعد تعمیرِ پاکستان میں اسلام کے حقیقی کردار کا انکار، پاکستان کے وجود کے جواز کا انکار کرنے کے ہم معنی ہے۔
یہ ایک واضح بات ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اسلام کو اس وقت تک اپنائیت حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک اس کے ہاں نافذ قانون کو اس معاشرے کے قانونی نظام کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ اسی بنا پر ان دنوں نفاذِ شریعت کا مقبول عام مطالبہ قیامِ پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد، اور اسی بنیاد پر پاکستان کا حصول ایک جائز نتیجہ تھا۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ شریعت کے اس روایتی تصور کو جس کی وکالت ہمارے چند رجعت پسند مولوی صاحبان اس وقت کر رہے ہیں، یہ ہماری ملت کے بہترین مفادات کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصلی اور کامل بالذات وہ شریعت ہی نہیں ہے جس کا تصور قرآنِ مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک ڈھانچا ہے جس میں مستند شرعی قوانین کو چھوڑ کر، بے شمار یک طرفہ آراء پر مبنی، وقت کی قید میں مقید استنباطات اور اضافہ جات شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سب ان شرعی قوانین، استنباطات اور بعد کے اضافہ جات سے ماخوذ ہیں، جو ہزاروں سال پہلے رائج العمل فکری اور سماجی حالات کی روشنی میں مرتب کیے گئے تھے۔
اگر اسلام نے ہی ہمارے زمانے میں ایک ’عملی منشور‘ بننا ہے، اور اس نے ایک عملی منشور کے طور پر کام کرنا ہے، تو پھر ہمیں اپنے آپ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک نئے اجتہادی عمل میں خود کو مصروف کرنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں، ہم موجودہ فقہی ذخیرے میں شامل، اپنے اپنے وقت کی ’قید میں بند‘ تمام روایتی فقہی تشکیلات کا ازسرنو جائزہ لے کر قرآن و سنت کے بارے میں ملنے والی بصیرت سے اپنے فہم کی روشنی میں اَزسرنو فقہی تشکیل کی ترتیب کو ہی اپنا ہدف بنا کر کام کا آغاز کریں۔
مجھے یہاں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ اس عمل میں ہمارا مقصود ’اسلامی قانون‘ کی کوئی نئے سرے سے تقسیم کار نہیں ہے۔ کیوں کہ اسلامی قانون تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے، وہ تو اپنے قابلِ عمل ہونے کے لحاظ سے بالکل حتمی ہے۔ البتہ وہ امور جن کا تعلق اس قانون (شریعت) کی تعبیرات اور بہت سے ایسے امور سے ہے، جن میں شرعی احکام کو ابھی تک ہم نے براہِ راست یوں واضح قانونی شکل نہیں دی، لازمی طور پر ہمارے اس پروگرام کا موضوع بھی وہی امور ہونے چاہئیں، جس میں ہم زندگی کے حقائق کو ترقی پسندانہ طریقے سے اپنے دائرۂ عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ میری اس ساری جدوجہد سے مراد صرف اور صرف اجتہادی عمل کا تسلسل ہے۔
(میں کئی سال سے اس موضوع پر لکھتا چلا آ رہا ہوں، اور یہاں اس پر مزید تفصیل میں جانا میری ان معروضات کو اپنے دائرے سے بہت دُور لے جائے گی۔ بہرحال فوری حوالے کے لیے میں اس مسئلے کے بارے میں اپنے ایک مضمون کو ضمیمہ کے طور پر منسلک کر رہا ہوں، جس کا عنوان On the Principles of Islamic Law [اسلامی قانون کے اصولوں کے بارے میں] ہے)۔
مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس ملک میں مکمل طور پر قانونِ شریعت یک دم نافذ کرنا ناقابلِ عمل ہو گا اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شریعت کی ابھی تک قانونی تدوین ہی نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ روایتی فقہی تصورات کے عملی قانون سازی میں فوری استعمال سے قبل ان کی ایک بار جامع نظرثانی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفاذِ شریعت کی کارروائی کو ایک طویل عمل ہونا چاہیے، جو کئی برسوں پر محیط ہو۔
فطری سی بات ہے کہ اس سمت ہمارا پہلا قدم شریعت کی قانونی تدوین ہو گا (اس لفظ کے درست اور اصل مفہوم کے مطابق)۔ اس مقصد کے لیے، میں نے کچھ عرصہ قبل درج ذیل تجاویز مرتب کی تھیں، جنھیں یہاں لفظ بہ لفظ دوبارہ تحریر کر رہا ہوں (یہ تجاویز عرفات، مارچ، ۱۹۴۸ء کےص ۱۱-۱۲ پر بھی شائع کی گئی تھیں):
’’جب تک ہم ان اختلافات کو ہم آہنگی میں نہیں بدلتے اور کم از کم ایسے امور میں، جن کا تعلق مشترکہ عملی مسائل سے ہے اور جب تک ہم کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے، اسلامی اقدامی عمل (Islamic action) کا کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا بالکل ناممکن ہے۔ ایک ایسا لائحہ عمل جو موجودہ تمام مکاتب فکر یا کم سے کم مکاتب فکر کی اکثریت سے اپنا آپ منوا سکے۔ پیچیدگی اور اختلاف کے جس مقام تک ہماری مسلم فقہ گذشتہ صدیوں میں پہنچ چکی ہے، اسے دیکھتے ہوئے فی الحال ایسی کوئی بھی کوشش بے کار ثابت ہو گی، جس کا مقصد موجودہ فقہی اختلافات کو ختم کرنا اور تعبیر و اجتہادی استنباط کے مختلف طریقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ یہی کوشش ہی تو دراصل اس پیچیدگی کا سبب بن سکے گی۔
لہٰذا، اگر اسلامی اقدام کے لیے کوئی عملی، اور قابلِ عمل تجویز پیش کرنا ہے، تو پھر فی الحال ہمیں ان تمام امور کو ایک طرف رکھ کر کچھ ایسے امور سے متعلق تعبیر اور استنباط پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو بذاتِ خود بہت واضح ہوں، اور ان کو وضاحت کے ساتھ قرآن و سنت کے ظاہری الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور ان قوانین کے بارے میں مختلف اسلامی مکاتب ِ فکر میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ اگر ایسے قوانین کی فوراً تدوین ہو جائے، تو ان سے اسلامی معاشرتی تعمیرِ نو کا مقصد حاصل کرنے کے لیے کم سے کم ایک متفقہ بنیاد میسر آ جائے گی۔
’’لہٰذا، اس محکمے کی یہ تجویز ہے کہ، تمام مکاتب ِ فکر کے معتبر علما سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے قابل ترین نمائندے، مستقبل میں زیرِ تشکیل ایک شریعت کمیٹی کے رکن بننے کے لیے نامزد کریں۔ اس کمیٹی کا کام یہ ہو گا، کہ قرآن و سنت کے ان معاشی اور اجتماعی احکام کی تدوین اور ضابطہ بندی کرے، جنھیں نصوص کے زُمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو مکمل طور پر واضح ہیں، اور ان کے الفاظ کے واضح ہونے کی وجہ سے ان کی کسی بھی قسم کی اختلافی تعبیر و تشریح کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
میں آپ کی توجہ مندرجہ بالا گذارشات کے آخری جملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ شرعی قوانین کی ان خطوط پر ضابطہ بندی، جن کی نشان دہی میں نے کی ہے، بذاتِ خود معاشرتی قوانین کے ایک تیار ضابطے کے طور پر نافذالعمل نہیں ہو سکے گی۔ دراصل، یہ ضابطہ بندی ہمیں اپنے مستقبل کے معاشرتی قانون کے لیے محض ایک بنیاد فراہم کرے گی، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ ان شرعی ہدایات کو ایک عملی اور مفصل قانون سازی کی صورت میں ڈھالنا ہمارے اجتہادی عمل پر منحصر ہو گا۔ ظاہر ہے، اس عمل کے لیے ایسے حقیقی علما کا میسر آنا شرطِ اوّلین ہو گا، جو نہ صرف مقاصد ِ شریعت کے سیاق و سباق سے واقف ہوں بلکہ عصری زندگی کے تمام پہلوئوں کو بھی جانتے ہوں۔ ایسے علما، ناپید اور نادرالوجود ہیں،۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ سرے سے موجود نہیں ہیں۔
مزید آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں ان فرائض ِ منصبی کا ایک خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو ’محکمہ احیائے ملت اسلامیہ‘ نے پورے کرنا تھے۔ اور جو اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں، جب حکومتِ پاکستان اس کے بنیادی اغراض و مقاصد سے اتفاق کرے۔
اغراض و مقاصد اختصار کے ساتھ ایک مضمون بعنوان ’اسلامی تعمیر نو‘ (عرفات، مارچ ۱۹۴۸ء، ص۶-۱۵) میں بیان کیے گئے تھے، مجھے اُمید ہے وہ بہت پہلے سے حکومت کے علم میں آچکے تھے۔ ان اغراض و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمارے محکمے نے تین شعبوں میں کام کرنے کا پروگرام بنایا تھا:
اس شعبے کا بنیادی ہدف مندرجہ بالا ’شریعت کمیٹی‘قائم کرنا اور اس کی رہنمائی کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس شعبے کا کام اسلامی قانون کی روشنی میں مخصوص سماجی اور معاشی سوالات کے مناسب اور واضح جوابات دینا ہو گا۔ اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں: جیسے ذاتی زمینوں اور جائیدادوں کو قومیانے کا مسئلہ، اور اصل زر اور محنت کا آپس میں تعلق، بینکنگ اور انشورنس، وغیرہ وغیرہ، جنھیں شریعت نے متعلقہ زمانے کے مطابق اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ مگر ان کا مکمل حل تلاش کرنا ضروری ہے، اگر ہم واقعی اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام تمام زمانوں اور ثقافتی ترقی کے تمام مراحل کے لیے قابلِ عمل ہے۔ اس وقت تک اطمینان کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی، جب تک ہم بجاطور پر اور دلائل کے ساتھ یہ دکھا دینے کے قابل نہیں ہو جاتے کہ اسلامی دستور العمل نہ صرف لوگوں کو روحانی اطمینان بخشے گا بلکہ وہ انھیں روٹی، مکان، سود سے نجات، پیداوار دینے کا کام بھی کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ، کم سے کم معاشرتی تحفظ، بھی فراہم کرے گا۔ اگرہم ایسا نہ کر سکے تو اس کی روحانی تاثیر ختم ہو جائے گی اور میدان کمیونسٹ پروپیگنڈے کے لیے خالی ہو جائے گا۔
ہمارے علما اب تک صرف گزرے زمانوں کے حقائق پر خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہے ہیں اور اسلامی خطوط پر معیشت کی تشکیل کے لیے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں دے سکے۔ ہمارے محکمے کا شعبۂ تحقیق قائم کرنے کا مقصد یہی تھا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسی لیبارٹری بن جائے، جس میں ہمارے تازہ ترین مسائل کا اسلامی نقطۂ نظر سے جدید تحقیقی طریق کار کے مطابق حل پیش کیا جا سکے۔ ہمارے دائرۂ کار میں آنے والے سماجی مسائل میں سے ایک مسئلہ، ’پردہ‘ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُمید ہے کہ ہماری تحقیق قرآنِ مجید اور اسوۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر یہ ثابت کر دے گی کہ ’پردہ‘ دراصل اسلام کے معاشرتی نظام میں شامل نہیں ہے، اور یہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یقینا اس طرح رُوبہ عمل نہیں تھا۔
یہ شعبہ اپنی توجہ زیادہ تر ایک جدید دارالعلوم کے قیام اور اسے چلانے پر مرکوز کرے گا۔ تجویز یہ ہے کہ جو صاحب، دارالعلوم کے پرنسپل ہوں گے، وہی بلحاظِ عہدہ ’محکمہ احیائے اُمت ِ اسلامیہ‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہوں گے۔ شاید سب سے بہتر بات یہ ہو گی کہ اس منصب پر کسی ترقی پسند مصری محقق کا تقرر کیا جائے، جس نے جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی ہو اور وہ ضروری وسعت نظر کے ساتھ ساتھ دنیوی امور پر بھی خوب عبور رکھتا ہو۔ کیوں کہ اس بات میں ایک ابہام موجود ہے کہ ہمارے اپنے علمائے کرام میں سے کوئی ایسے مناسب صاحب مل سکیں گے بھی یا نہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں کچھ حضرات اچھی نیت کے مالک ہوں اور وسعتِ ظرف بھی رکھتے ہوں، مگر ایک اندازہ ہے کہ وہ عصری زندگی کے مسائل سے واقف نہیں ہوں گے۔
شعبۂ تعلیم کا دوسرا کام ہمارے تمام سکولوں اور کالجوں میں اسلامی تعلیم سے متعلق رابطہ قائم رکھنا ہو گا، اور اس مقصد کے لیے ہمیں اپنے پورے تعلیمی نظام میں صحیح اسلامی روح پھونکنا ہوگی۔ تعلیمی کانفرنس کی سفارشات عمومی نوعیت کی ہیں، اور اس میں انھوں نے بہت وسیع اختیار صوبائی یونی ورسٹی کمیٹیوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں دیگر مسلم ممالک کے تجربات سے بھی ضرور استفادہ کرنا ہو گا، خصوصاً مصر سے۔ اس سلسلے میں ہمارا شعبۂ تعلیم دیگر مسلم ممالک کے درمیان مستقل تعلقات بھی قائم کر سکتا ہے اور تعلیمی نقطہ ہائے نظر کا تبادلہ بھی کر سکتا ہے۔
اس شعبے کے فرائض ِ منصبی واضح ہیں: یہ اخبارات، ریڈیو اور خطبات کے ذریعے صحیح اسلامی تصورات کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے گا۔ ہمارا اہم ترین مقصد اپنے ہم وطنوں کی معاشرتی خود اعتمادی/ اجتماعی اخلاقیات کی تعمیر ِ نو ہے، جو، ہماری معلومات کے مطابق اتنی پستیوں میں گر چکی ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ میری رائے میں، بدعنوانی کے خاتمے اور اعلیٰ پیمانے کے سماجی تعاون کے لیے حکومت کے تمام اقدامات کی بنیاد اضطراب و بے چینی کی چٹانوں، تخیلات و توہمات اور اخلاقی بے حسی پر رکھی گئی ہے، جس میں ہماری قوم اس وقت گھری ہوئی ہے۔ اس مسئلے کی غالب وجہ حصولِ آزادی کے بعد حکومت کی جانب سے عوام کو کوئی واضح ہدف نہ دے پانا ہے، وہ ہدف جس کے لیے قیامِ پاکستان سے پہلے ہم لوگ جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ واضح ہدایات پر مبنی جذبے اور عملی مثالیت کے بغیر، قومیں حتمی طور پر اخلاقی اور سیاسی دونوں سطحوں پر بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ اس مسئلے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے کہ، ہماری قوم کو یہ یقین ہو جائے کہ، حکومت پاکستان واقعتاً اسلامی خطوط پر ایک سیاسی نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ میں اس موضوع پر اسی یادداشت کے آخر میں مزید گفتگو کروں گا۔
اس شعبے کا کام قانون سازی میں اسلامی خطوط پر اصلاحات لانے کے بارے میں حکومت کو واضح تجاویز دینا ہو گا۔ واضح سی بات ہے کہ ہم صرف ایسے معیارات کی تجویز دیں گے، جن کا موجودہ حالات میں عملی نفاذ ممکن ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خیالی تجاویز نہیں دی جائیں گی، جیسے کہ عام طور پر ہمارے مولوی صاحبان کی ترجیحات ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ، آج کل ہم ایک ’قانونِ زکوٰۃ‘ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہیں،اور جس دن یہ تیار ہو جائے گا، مرکزی حکومت کے غور کے لیے پیش کیا جائے گا (وجہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ دستور کے مطابق ، کوئی زکوٰۃ بل صوبائی اسمبلی پاس نہیں کرسکتی، خصوصاً اس حقیقت کے پیش ِ نظر کہ زرعی زمین کے علاوہ، جائیداد اور سرمائے پر لگائے جانے والے تمام ٹیکس، وفاقی فہرست کے اندر شامل ہیں)۔
اس مسودے کی تیاری میں رابطہ کاری تو ایک بنیادی ضرورت ہے، مسودے میں ان تمام مکاتبِ فکر کی آراء شامل کی جائیں گی، جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ اوّل یہ کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کی وصولی سے حکومت پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہو جائے گی کہ وہ اور کسی طرح کے ٹیکس عائد نہ کر سکے۔ دوم یہ کہ ایک اسلامی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ حسب ضرورت کچھ خصوصی ٹیکس عائد کرلے۔ یہ ٹیکس بھی انھی عنوانات کے تحت لگائے جائیں، جن پر زکوٰۃ کے قانون کے تحت لگائے جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا دو مسائل کا مسلم تاریخ میں کوئی تسلی بخش جواب میسر نہیں ہے، اور ہم اس معاملے میں ایک طرح سے بالکل اوّلین اور قائدانہ کام کر رہے ہیں۔ (یہاں یہ بات بھی جملۂ معترضہ کے طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اس مسودے کی بنیاد پر جو ہم اس وقت تیار کر رہے ہیں، حکومت کو دیگر تمام ٹیکسوں کے علاوہ، اضافی آمدن کے طور پر کئی کروڑ حاصل ہوں گے، جسے مسلم قوم اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ادا کرے گی، اور اس کا استعمال سماجی فلاحی بہبود کے اقدامات کے لیے کیا جاسکے گا، جیسے بے روزگاری الائونس، سماجی بیمہ اور فلاح و بہبود کے دیگر بہت سے اخراجات جو اب تک عام بجٹ میں سے اٹھانا پڑتے ہیں)۔
مندرجہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم شریعت کو (اس لفظ کے وسیع مفہوم کے طور پر) یک دم نافذ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس، مجھے یقین ہے کہ یہ کام صرف ایک منصوبے کے تحت تیار کردہ لائحہ عمل کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو کم سے کم دس سال کی مدت پر محیط ہو گا۔ اس منصوبے سے متعلق ہمارے محکمے کا عمومی کام یہ ہو گا کہ وہ اسلامی قانون کے مسئلے کی ایک نئی، تعمیری سوچ تیار کرے گا، اور اس طرح اسے اپنے زمانے کے لیے ایک عملی دستورِ کار بنا کر پیش کرے گا۔ البتہ، ایک سرکاری محکمہ ہونے کی بنا پر، ہم امکانی طور پہ اس وقت تک کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کر سکتے، جب تک حکومت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ اسلام کا قانون اس کی حکمت ِ عملی کا تشکیلی عنصر ہو گا، اور پھر اپنا یہ فیصلہ ایک سرکاری بیان کے ذریعے عوام میں عام بھی کرے۔
اب میں اپنی اس یادداشت (میمورنڈم) کے مرکزی نقطے پر آ گیا ہوں۔
انتہائی اعلیٰ سطح پر کیے گئے بہت سے اعلانات کے باوجود کہ پاکستان کو قرآن کی روح کے مطابق چلایا جائے گا، بڑے پیمانے پر یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ابھی تک اس وعدے کی تکمیل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، کافی شواہد ملتے ہیں کہ حکومت علانیہ طور پر مغربی دنیا کے طرز پر آہستہ آہستہ ’سیکولرزم‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ عام تاثر درست ہے یا ہماری نامکمل معلومات کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے حکمت ِ عملی کے بارے میں ایک صاف اور واضح اعلان کے بغیر ہمارا محکمہ لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں کر سکتا کہ یہ اسلامی تعمیر ِ نو کا ’محکمہ احیائے ملت اسلامیہ‘ ایک واقعی شان دار خدمت انجام دینے کے لیے قائم ہے، نہ کہ محض ایک ’تشہیری آلہ کار‘ ۔
میں بڑے افسوس سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں، کہ نظریاتی ابہام، ہماری آج کی زندگی کا ایک کردار بن چکا ہے۔ اس ابہام کا نتیجہ سیاسی بے چینی اور انتشار کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اصول پرستی کے ایک معین معیار اور جذباتی وحدت سے سرشار نہیں ہوتی، اور ہمارے معاملے میں کوئی صورت ایسی نہیں ہے، جو اس طرح کی اصول پرستی اور اس معیار کی وحدت فراہم کر سکے۔ ہمارے لیے اب صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ ہم اسلام پر شعوری یقین رکھیں اور ہمارے اندر اپنے اس یقین کو ایک سیاسی حقیقت میں ڈھالنے کی خواہش بھی موجود ہو۔
ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے وہ لوگ جو پاکستان کے مستقبل کی تشکیل کچھ مختلف خطوط پر چاہتے ہیں، جیسے، مثال کے طور پر ترکی کی طرز پر، یہ لوگ نہ تو ہمیں بتاتے ہیں (نہ، غالباً وہ خود بھی اس سے آگاہ ہیں) کہ اگر اسلام کو ہمارے معاشرے کی تعمیر میں ممتاز حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر پاکستانی ’قومیت‘ کی بنیاد کیا ہو گی؟ ترکی یا برطانیہ کی مثال، یاحتیٰ کہ عرب ریاستوں کی مثال بھی ہمارے جیسے ملک کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ کیوں کہ ان تمام ریاستوں میں یا تو زبان کی بنیاد پر ایک بہت بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، یا پھر نسلی بنیاد پر۔ ان بنیادوں پر وہ ہر تاریخی اور ثقافتی مفہوم میں ’قومیں‘ ہیں۔ جب کہ پاکستان کے معاملے میں ایسی کسی قسم کی ہم آہنگی کا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں ہے (جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی مفہوم میں بھی ایک قوم نہیں ہیں)۔
اگر ہم اس اُلجھن کا مقابلہ بہادری سے کرنا چاہیں، بے کار کے حیلوں بہانوں کے بغیر، تو پھر ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری قومیت کی کوئی اور بنیاد ہے؟، لوگوں کے اسلامی شعور کے علاوہ، جو پنجابیوں، پٹھانوں، بنگالیوں اور سندھیوں وغیرہ، تمام مختلف طبقات کو یک جا کرتے ہوئے انھیں ایک مضبوط قومی وحدت میں سمو سکے۔ ہمارا تعلق مختلف نوعیت کی نسلوں سے ہے اور ہم مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اگرچہ، اُردو غالباً ایک نہ ایک دن ہم سب کی مشترکہ زبان بن جائے گی، پھر بھی وہ مادری زبان تو ان تمام گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی نہیں ہے، جو اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔
مختصراً یہ کہ، ہمارے پاس نسلی شعور یا لسانی روایت کی ایسی وحدت نہیں ہے جو دوسری قوموں میں ’قومیت‘ کو تشکیل دیتی ہے۔ یہ حقیقت کہ کیا ہم اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے ہیں، یا پھر اس کی بجائے یہ کہ، ہم واقعی ایک قوم ہیں؟ اس سوال کی جڑیں کسی اور چیز میں ہیں، اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا یہ شعور ہے کہ ہم ایک نظریاتی گروہ ہیں۔ اسی نے، اور اس کے علاوہ کسی چیز نے نہیں، پاکستان کے قیام کا جذباتی اور عقلی جواز مہیا کیا تھا۔ اگر اسی شعور کو صحیح طور پر پُرعزم منصوبہ بندی کے ذریعے پروان چڑھایا گیا اور اس کی تعمیر کی گئی تو یہی پاکستان کو ایک عظیم، طاقت ور اور ثابت قدم قوت بنادے گا، اور اگر ہم نے اسے نظر انداز کر دیا اور مغربی نظریات کی نقل کرتے ہوئے اسی بحث میں پڑے رہے کہ ایک جدید ریاست میں ’کیا کرنا چاہیے‘ اور ’کیا نہیں کرنا چاہیے‘، تو پھر ہم اتنی جلدی قومی سانحے سے دوچار ہو جائیں گے، جتنا ہم میں سے بہت سوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔
احکامِ اسلام پر عدم رضا مندی کا رویہ جس کی بنا پر ہمارا مغرب زدہ تعلیم یافتہ طبقہ پاکستان میں اس کے نفاذ کی مخالفت کرتا ہے، کوئی بہت معقول رویہ نہیں ہے (اگرچہ ہمارے مولوی صاحبان نے دنیا کو اسلام کی بالکل مبہم تصویر دکھا کر یقینا اس سلسلے میں بہت نقصان پہنچایا ہے)۔ اس کے ساتھ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ جدید دنیا میں کسی جگہ بھی اسلام ایک مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہے۔ مغرب زدہ طبقے کی ساری فکر یہ ہے کہ بیرونی دنیا کی نظروں میں وہ کہیں قدامت پسند شمار نہ ہو جائیں۔ چنانچہ جب بھی ان سے کوئی شخص اس موضوع پر بات کرتا ہے، تو ان کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ، ’’کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ شریعت کی بنیاد پر قانون سازی مصر یا ترکی میں بھی کہیں نافذ ہے؟‘‘ پھر ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ، انھیں جواب نفی میں ہی ملے اور اس طرح ان کا موقف ان کے حق میں ثابت ہو جائے۔ دیگر تمام پہلوئوں سے قطع نظر، یہ رویہ تعمیری سوچ کی کمی کا ایک جھنجھوڑ دینے والا مظاہرہ ہوتا ہے۔
مصر اور ترکی اور دیگر تمام مسلم ریاستیں، پاکستان کی طرح عوام کی طرف سے ایک شعوری نظریاتی مطالبے کے نتیجے میں معرضِ وجود میں نہیں آئیں۔ ان کا قیام بعض صورتوں میں اصل اسلامی سلطنت ٹوٹنے کا نتیجہ تھا اور بعض دیگر صورتوں میں، بعد کے زمانوں میں مسلم فتوحات کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے کسی بھی صورت میں نئی ریاستیں پہلے سے موجود، مخصوص نسلی یا قومی شناخت کی بنیاد پر ہی قائم ہوئیں۔ اس طرح، وہاں کے باشندوں کی قومی شناخت ہی اب ان ریاستوں کی سیاسی بقا کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسی شناخت جس کا ہمارے سامنے پیش کیے جانے والے اس سوال سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ شعوری طور پر اور مؤثر طور پر اسلام کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو، بہرحال، ہمارے لوگوں کی ’قومی‘ شناخت کا وجود اور عدم وجود ہی ان کے نظریاتی شعور پر منحصر ہے جو کہ صرف اسلام ہے۔ ہم اپنے مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک قوم ہیں، کسی بھی اور وجہ سے نہیں۔ بیرونی دنیا کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم نے ایک خودمختار ریاست کی خواہش اس کے علاوہ کسی اور بنیاد پر نہیں کی کہ ہمیں اسلامی نظریے کے لیے ایک وطن میسر آ جائے گا۔
’پاکستانی حب الوطنی‘ کی ضرورت و اہمیت پر جس قدر بھی زور دیا جائے، ممکنہ طور پر اس سے قومی وحدت کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا، جب تک بیان کیے گئے جذباتی عوامل کو شامل نہ کیا جائے۔ انھی جذباتی عوامل کی بنا پر ہماری حب الوطنی پنپ سکتی ہے۔ دوسری مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کا جہاں تک تعلق ہے، تو ان میں قومی ہم آہنگی کے جذبات یقینا نسلی اور تاریخی وحدت کے شعور سے پیدا ہوتے ہیں، یہی جذبات ان کے اپنے لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، یہی ایک ترک کو ترک ہونے کا شدت سے احساس دلاتے ہیں، ایک عرب کو عرب ہونے کا، اور ایک انگریز کو انگریز ہونے کا اور اس طرح دیگر اقوام کو بھی۔ یہ جذبہ اس سوال سے بالکل غیرمتعلق ہے کہ یہ چیز اخلاقاً صحیح ہے یا غلط۔ ان کی قومیت انھیں حب الوطنی کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے، اور یقیناً کرتی بھی ہے۔
جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہماری حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف ہمارا ایک مشترکہ نظریے کے ساتھ مضبوط تعلق ہی پنجابی اور بنگالی کے درمیان اور اسی طرح پٹھان اور سندھی کے درمیان مضبوط تعلق کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس نظریے میں ایک اہم جذباتی طاقت ہے، جو ہمیں جوڑ کر ایک قومی وحدت میں پرو سکتی ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا، جو کہ ہماری قومی وحدت کا عنصر ہے، اور پھر یہ توقع کرنا کہ، ہماری سیاسی خودمختاری کے حصول کے بعد، اسلام کو پسِ پشت ڈال کر محض ’پس منظر کی سُروں‘ کا درجہ دینا، یہ ایک ایسا عمل ہو گا، جو مذہب کی حیثیت سے دوسرے تمام ممالک میں تو قابلِ قبول ہو، مگر ہماری یہ ایک بہت بڑی غلطی ہو گی: کیوں کہ اس طرح کی توقع پاکستان کو سوائے اس کے اور کہیں نہیں لے جائے گی کہ وہ داخلی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر، ہمارا ملک بُری طرح صوبائیت پسندی کا شکار ہے، جو ہمیں زمانۂ ماضی سے ورثے میں ملی ہے۔ مکمل داخلی وحدت کی طرف اس عظیم پیش قدمی کے باوجود جو ہم نے پاکستان کے لیے اپنی جدوجہد کے دوران کی تھی، ہمارے ہم وطن ابھی تک اپنے آپ کو پنجابی، سندھی، پٹھان اور بنگالی ہی محسوس کرتے ہیں، اور کئی موقعوں پر وہ قومی وحدت کے مفادات کے مقابلے میں اپنے علاقائی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ اور کیا چیز ہے جو ذاتیت کے اس باریک خلا کو پُر کر سکتی ہے؟
اسلام کے علاوہ اور کیا ہے جو پٹھانوں کی ’پٹھانستان‘ بنانے کی خواہش کو مغلوب کر سکے، یا بنگالیوں کی اُردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کرنے سے نفرت کو ختم کر سکے؟ اگر آپ انھیں دس لاکھ بار بھی کہیں کہ محب وطن بن کر رہیں یا ریاستی وحدت کے مفادات کو سب سے مقدم رکھیں، تو آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا، جب تک آپ آہستہ آہستہ انھیں یہ شعور ذہن نشین نہ کروا دیں کہ ان کا تعلق ایک فطری وحدت کے ساتھ ہے: اور یہ احساس صرف ان کے اندر یہ اسلامی شعور کے گہرا ہونے کی صورت پیدا ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق ایک مشترکہ نظریاتی طبقے سے ہے، اور ان کا یہ اعتماد کہ یہ مشترکہ نظریہ’ اسلام‘ ہی ہے، جو ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے خدوخال متعین کرنے میں فیصلہ کن عنصر ہو گا۔
کچھ اور نہیں تو کم سے کم پاکستان کے خالصتاً مفادات پر مبنی، دنیوی مفادات کا تعین بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ اسلامی نظریے کو ہمارے سیاسی نظام کی تشکیل میں مرکزی حیثیت دی جائے۔ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ، اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے، جو پاکستان کے بے جوڑ عناصر کو یک جا رکھ سکے۔ اسی طرح اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے،جو اس ملک کو اور دیگر مسلم دنیا کو مؤثر طریقے سے ایک ساتھ رکھ سکے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جو بلا شبہ ہر پاکستانی کے ذہن میں اہم ترین مقام رکھتا ہے۔
غیر مسلم اقوام کے نزدیک آج کی مسلم دنیا کو متاثر کرنے والے دو سُلگتے مسائل: کشمیر اور فلسطین ہیں۔ ان مسئلوں کے بارے میں ان اقوام کے رویے نے بالکل واضح طور پر یہ دکھا دیا ہے کہ ہمارے اپنے دائرے سے باہر مسلمانوں کا کوئی دوست نہیں ہے۔ جب کبھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوتا ہے، مغربی دنیا کی ہمدردیاں ترجیحی بنیادوں پر غیر مسلموں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں فلسطین کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے،جب کہ ’ریڈ کلف ایوارڈ‘ مسلم مفادات کے خلاف ان کے فطری رویے کی دوسری مثال تھا۔ مغربی دنیا کے سیاست دان اس حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں، جیسا کہ سوویت روس اور امریکا نے فلسطین کے معاملے میں کیا۔ مسلم دنیا کے خلاف وہ ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کے لیے اختلافات بھی عارضی طور پر دبا دیا کرتے ہیں۔
اس بنا پر یہ بات واضح ہے، کہ مسلم اقوام اس وقت تک اپنا سیاسی وجود برقرار رہنے کی اُمید نہیں رکھ سکتیں، جب تک وہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہو جائیں، اپنے وسائل کو یک جا نہ کر لیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک سیاسی وحدت میں جمع نہ ہو جائیں۔ ’مسلم اقوام میں رابطہ‘ کی یک جا شدہ قوت، ان کی استعدادِ کار اور معاشی وسائل کو دیگر مشترکہ سیاسی گروہوں کے دبائو کے مقابلے میں جم کر رہنے کے لیے کافی ہوں گے۔ بلکہ یہ قوی اُمید ہے کہ وہ اس موجودہ دنیا میں جو کہ مخالف فریقوں میں بٹ چکی ہے، اپنے جمع شدہ وسائل کو ایک توازن کے ساتھ برقرار رکھنے کے لیے بھی کافی ہوں گے۔ جب کہ، دوسری طرف، اگر مسلمان سیاسی طور پر اسی طرح بے جوڑ ٹکڑوں میں بٹے رہے، جیسے کہ اب ہیں، تو پھر ایسی کوئی چیز نہیں جو اُن کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت دے سکے۔
ہماری مشترکہ بصیرت اور اپنے قوی تحفظ کے فطری شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مسلم دنیا اب متحد ہو جائے۔ اور یہ صرف اسلام کی دعوت ہی سے ممکن ہے، جو ملی وحدت کے لیے جذباتی بنیادیں فراہم کر سکتی ہے۔ اگر ہم، پاکستانی قوم، اسلام کو اپنے معاشرتی اور سیاسی وجود کے لیے بنیادی عنصر بنانے کے معاملے میں انتشار کا شکار ہو گئے، تو ہمارے درمیان اور دوسرے مسلم ممالک مثلاً عربوں، افغانیوں اور ایرانیوں کے درمیان کوئی خاص قدرِ مشترک باقی نہیں رہ جائے گی۔
اس کے برعکس اگر ہم، اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ریاست ہوتے ہوئے، ایک صحیح اسلامی نظریاتی نظامِ سیاست کی تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو پھر پوری اسلامی دنیا کو اس مقصد کی طرف بڑھنے کے لیے بہت بڑا حوصلہ مل جائے گا، اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس سیاسی وحدت کا خواب جتنی مدت میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جلدی یہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔ ایسا ہو گیا تو قیادت یقینا پاکستان کے ہاتھ میں ہو گی۔ نہ صرف اس لیے کہ ہم مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارا بطورِ ریاست قیام ہی اسلام کے لیے ہماری شعوری خواہش کا نتیجہ ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ جدید مسلم دنیا میں سے صرف اور صرف ہم نے ہی وہ نظریہ اپنایا ہے، جس کی بنا پر مسلم وحدت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے، اور یہ ہماری سیاسی فکر اور جدوجہد کا نقطۂ آغاز ہے۔
یہاں فطری بات یہ ہے کہ کوئی شخص، یہ دلیل بھی پیش کر سکتا ہے (اور ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے بہت سے لوگ ان خطوط پر بحث کرتے بھی ہیں) کہ اسلامی نظریے پر علی الاعلان زور دینے سے غیر مسلم دنیا کا بغض بھڑک اُٹھے گا اور وہ ہمارے لیے خارجہ پالیسی میں مشکلات پیدا کریں گے، جب کہ اپنی ریاست کے ’اسلامی‘ کردار پر زیادہ زور نہ دے کر ہم آسانی کے ساتھ اس سے پہلو بھی بچا سکتے ہیں۔
اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تجویز ایک مکمل مغالطے پر مبنی ہے۔ ہم اپنے اسلامی کردار پر زور دیں یا نہ دیں، غیر مسلم دنیا پر یہ واضح ہے کہ ہمارا ہدف اسلامی حکمت عملی ہی ہے۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے، اور وہ یہ کہ دنیا اس حقیقت کو ابھی تک نظرانداز نہیں کر پارہی اور نہ آئندہ کبھی کر سکتی ہے کہ روزِ اوّل سے ہی ہم نے ایک الگ ریاست کے لیے اپنے دعوے کی بنیاد اپنے مسلمان ہونے پر ہی رکھی تھی، اور پھر اپنے اس عزم پر کہ ہم اپنی قومی زندگی اسلامی نظریے کے مطابق تشکیل دیں گے۔
حتیٰ کہ، اس کے برعکس اگر اپنی خارجہ پالیسی کے مفاد میں بھی ہم اپنے اسلامی منصوبوں اور پروگراموں کے حوالے سے مغربی تقاضوں کے مطابق اپنائی گئی دُور اندیشی سے کام لینے کے خواہش مند ہوں گے، تب بھی بیرونی دنیا یہی سمجھے گی کہ ہمارا مقصد اسلام ہی ہے۔ اور ہماری اس ’دُور اندیشی‘ کو دراصل وہ منافقت سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھیں گے (جس پر ہم اس وقت عمل درآمد بھی کر رہے ہیں)۔ یہ بات طے ہے کہ ہم اپنے اسلامی مقاصد کے علانیہ اظہار کو روک کر ہرگز اپنے مزید دوست نہیں بنا سکیں گے، اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی طے ہے کہ ہم ایسا کرنے سے دوسری مسلم اقوام کے ساتھ بھی اپنی دوستی کو کمزور کر لیں گے۔ جہاں تک داخلہ پالیسی کا تعلق ہے، تو اس طرح اسلامی مقاصد کو دبانا ہمارے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
اسلامی حکمت ِ عملی کے حق میں اپنے موقف کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ، کسی ابہام کے بغیر علانیہ بیان کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن بھاری معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کا حل کسی اچھے طریقے سے نکالنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ان وجوہ کی بنیاد پر یہاں اشتراکیت کو پھیلنے کے لیے ایک زرخیز زمین میسر آ سکتی ہے۔ اب تک اس ملک میں اشتراکیت کی پیش قدمی جو محدود رہی ہے، وہ حتمی طور پر ہمارے لوگوں کے اسلام کے ساتھ گہرے تعلق کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر اشتراکی یہاں اشتراکی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر قرآنِ پاک کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرتی اور معاشی نظام قائم کرنے کی تمام اُمیدوں پر پانی پھر جائے گا۔
اس بات کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ اگر ہماری ریاست کو ’سیکولرزم‘ کی طرف کھسکنے کی اجازت دے دی گئی تو لوگوں میں اسلامی شعور کی کمزوری کا امکان بڑھ جائے گا، اور یوں معاشی مشکلات میں مارکسی پروپیگنڈے کے لیے تمام دروازے کھل جائیں گے۔ اسی طرح، آج لوگ جو نظریاتی تذبذب محسوس کر رہے ہیں، اشتراکیت کے علم بردار اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا کر بڑی چالاکی سے ہمارے لوگوں کے روحانی اور سماجی اضطراب کو اپنے نظریے کی خدمت کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اب اشتراکیت کا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، طویل عرصے تک طاقت سے کامیاب مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مقابلہ صرف اس کے برابر کے یا اس سے زیادہ دلوں میں اُتر جانے والے نظریے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا نظریہ، جو معاشی انصاف اور مساوات کے اُصولوں کو انسان کی ذاتی شناخت کی فطری خواہش اور روحانی تسکین کے ساتھ سب کو یکجا کر دے۔ ایسا نظریہ اسلام ہی تو ہے، صرف اسلام، جو کہ ان تقاضوں کا صحیح حل مہیا کر سکتا ہے۔
اس طرح، اسلام کو ہماری حکمت عملی کا غالب عنصر بنانے کی حمایت کے لیے بہت زیادہ مواد میسر ہے۔ اسلام سے میری مراد چند رسمی اور بے جان قسم کی تقریبات ورسوم نہیں ہیں، جن کی وکالت ہمارے پیشہ ور ’حامیانِ اسلام‘ عموماً کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے میری مراد زندہ اور دھڑکنے والا مکمل طور پر وقت کے تقاضوں پر پورا اُترنے والا پیغام ہے، جو قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے اور جس کی عملی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود ہے۔
ہمارے پیش ِ نظر ایسی شریعت کا نفاذ نہیں ہے جو گذشتہ صدیوں کی روایتی اور اپنے زمانے تک محدود فقہ میں پائی جاتی ہے۔ ایسی فقہ کا مطلب ایک قسم کے جمود کو دوام بخشنا ہو گا، جس کی قید میں ہماری مسلم فکر صدیوں سے بے مقصد چکر لگا رہی ہے۔ ایسا کرنے سے طاقت اسی طبقے کے ہاتھ میں دینا ہوگی جو دراصل گذشتہ صدیوں میں ہماری ثقافتی پس ماندگی کے ذمہ دار تھے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام کے بغیر ہمارا گزارا نہیں۔ البتہ وہ اپنی دائمی تروتازگی کے ساتھ اصل اسلام ہونا چاہیے، محض بے معنی تقریبات کے بوجھ پر انحصار نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، ہماری سیاسی فکر اور عمل کے حوالے سے اسلامی قانون کے مسئلے پر ہمارے نقطۂ نظر کی تخلیقی تعمیرِ نو شامل ہے۔
یہ ہمارے محکمے کے قیام کے پس منظر کی تلخیص ہے، جس کی بنا پر ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘ (محکمہ احیائے ملت اسلامیہ) کا تصور پیش ہوا اور یہ وجود میں آیا۔
مگر، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ محکمہ اس وقت تک ہرگز صحیح طریقے سے کام نہیں کرسکتا جب تک حکومت ِ پاکستان، اسلام کے معاملے میں اپنی پالیسی واضح نہیں کر دیتی۔ اگر ہم ایک متعین نظریاتی مقصد کے بغیر گھسٹتے رہے، تو پاکستان کی وحدت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ہم اپنے سیاسی وجود کا واحد بندھن اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھیں گے، جو جذباتی سطح پر ہی ہماری وحدت کا ضامن بھی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی اصل پالیسیوں سے ’طلاق یافتہ‘ ایک محکمہ احیائے ملت اسلامیہ، اسلامی روح کی نشاتِ ثانیہ اور ملی اخلاقیات کی ترویج کا تسلسل کے ساتھ راگ اگر الاپتا بھی رہا، تو اس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ایک غیر مبہم بیان جاری ہو کہ ایک اسلامی نظم ریاست کا قیام، تقسیم سے قبل ہمارا محض ایک نعرہ نہیں تھا اور نہ ہم نے نفاذِ اسلام کے نعرے کو انتخابات جیتنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا تھا، بلکہ یہی قیام پاکستان کا اصل مقصد تھا۔ ہمیں اس معاملے میں مغربی لوگوں اور مغربی لوگوں سے متاثر [مقامی] افراد کی آراء سے ڈرنا نہیں چاہیے جو صرف ایک ’سیکولر‘ ریاست کو ہی دورِ جدید سے مطابقت کی علامت سمجھتے ہیں، اور نہ یقینی طور پر، ہمیں اپنے تئیں یہ ہی سمجھنا چاہیے کہ ’پاپائیت/ ملائیت‘ کی طرز کی ایک ریاست قائم ہو گی، جسے ہمارے ہاں سے کوئی اہم مولوی صاحب چلا رہے ہوں گے، اور یہ ہمارے اسلام کی حقیقی علامت ہو گی۔ ایسا سمجھنے والے لوگ رجعت پسند ہیں، اس کے برعکس، جب کہ اسلام مکمل طور پر ترقی پسند ہے۔ یہ لوگ مُردہ فکر اور قدیم زمانے میں مقید فقہی فارمولوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی زندگی کی تعمیر شارعِ دین کے معتبر مقاصد کے مطابق کرنی ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے، تو پھر پاکستان بنانے میں کوئی معقولیت ومعنویت نہیں رہ جاتی۔
آج حکومت، اسلام سے متعلق عوام کے اندر دل کی گہرائیوں سے موجود اس خواہش کے بارے میں بات کرنے سے کترا رہی ہے، لیکن پھر بھی عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہوئی ہیں۔ عوام برطانوی بیوروکریسی کی وارث قوتوں کو جب دیکھتے ہیں، جو حکومت پر قابض ہیں تو ان کی اصل اُمیدیں مردہ ہوتی جاتی ہیں۔ ان کی خواہش کی تکمیل نظریاتی معنویت کی حامل قیادت ملنے سے ممکن تھی، مگر وہ انھیں نہیں مل سکی۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ لوگوں کو اب وہ سب کچھ دے دیں جو کچھ وہ چاہتے ہیں، اور اس طرح وہ عوام کے دل دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ ’سوتے ہوئے کتوں کو لیٹا رہنے دو‘ کی پالیسی جو اب تک حکومت نے اسلامی پالیسی کے سوال اٹھانے پر اپنائی ہوئی ہے، زیادہ دیر کام نہیں کر سکے گی، کیوں کہ یہ لوگ سچ مچ سوئے ہوئے نہیں ہیں۔ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے، اسلامی قانون کے نفاذ کے بارے میں لوگوں کی فریادیں اور دہائیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائیں گی، اور حکومت کی طرف سے کوئی تعمیری رہنمائی نہ ملنے کی صورت میں وہ آہستہ آہستہ انتشار کی شکل اختیار کر لیں گی۔ مایوسی کے عالم میں، عوام روزبروز تاریک سوچ کے مالک قائدین کے چنگل میں پھنستے چلے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر قدامت پسندانہ رجحانات مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔
آج کل کی زندگی کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پیشہ ور علما کی بالا دستی (جن سے ایسے حالات میں بچنا ممکن نہیں) کا نتیجہ معاشی تعطل، سیاسی تذبذب اور پاکستان کی معاشرتی زندگی میں پست ہمتی میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ ایسی بدنظمی میں جو تعطل کی بیان کردہ مندرجہ بالا صورتوں سے پیدا ہو گا، اس کے نتیجے میں عوام میں تذبذب، پس ہمتی کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہاں اشتراکیت بھی امکانی طور پر غالب آجائے گی، اور ہمارا خودمختار پاکستان تاریخی یادوں میں کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔
لاہور،۱۸ ؍اگست،۱۹۴۸ء،محمد اسد
ڈائریکٹر، ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن ،حکومت مغربی پنجاب