مرزاوحید


۸جولائی ۲۰۱۶ء کو ایک حُریت پسند رہنما،برہان مظفر وانی کو بھارتی مسلح افواج اور پولیس نے ایک دُور افتادہ کشمیری گائوں میں گولی مار کرشہید کر دیا، جس کے باعث یکایک مظاہروں اور احتجاجوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا،جو محض دنوں کے اندر ہی، بھارت کے تسلط کے خلاف ایک مقبول عام بغاوت میں تبدیل ہو گیا۔ بھارتی حکومت نے جواب میں شدید بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ہفتوں میں ۹۰سے زائد افراد ہلاک کر دیے۔ اس سے بھی صدمہ انگیز اور ششدر کر دینے والی بات یہ ہے کہ ان غیرمسلح احتجاجی مظاہروں کو منتشرکرنے کی خاطر ’غیرمہلک‘ دھاتی گولیاں [چھر.ّے - pellets] استعمال کی گئیں، جن سے سیکڑوں کشمیری بچیاں اوربچے نابینا ہو گئے۔

چارماہ کے دوران ۱۷ہزار بڑے اور بچے زخمی ہوئے اور تقریباً ۵ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی موسم گرما کے دوران کشمیر میں طویل کرفیونافذ کردیا گیا(اور پھر اس کے بعد ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تاریخ کا طویل ترین کرفیو مسلط کیا گیا)۔
یہ سب کچھ دو ماہ بعد بھلایا جا رہا تھا کہ اسی دوران ۱۸ ستمبر کو جنگجوئوں کی چھوٹی سی ٹولی نے شمالی کشمیر میں اُڑی کے مقام کے قریب ایک بھارتی فوجی پڑائو پر چھاپامار حملہ کیا، جو گذشتہ دو عشروں کے دوران کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز پربڑا سخت حملہ تھا۔اس کے نتیجے میں ۱۹بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے،ا ور حسب معمول بھارت نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔ 

اس کے بعد سے دونوںممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی میں اس حد تک اضافہ ہو گیا کہ دونوں ممالک،ایک دوسرے کے ’سفارتی مشنوں‘میں جاسوس تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے۔  ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی روز کا معمول بن گیا۔ وہ لفظی جنگ جو اُڑی میں شب خون کے بعد شروع ہوئی تھی، اس میں بھارتی افواج کے اس بے رحمانہ ظلم وستم کو بڑی حد تک نظرانداز کردیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ایک نیم عسکری ٹی وی نیوزمیڈیاکی معاونت سے اُڑی حملے اور اس کے مابعداثرات کو استعمال کرکے عالمی جاری چپقلش کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکتوں، زخمی ہونے کے بے شمار واقعات اور کشمیری عوام کو نابینا کرنے جیسے حقائق کو چھپایا۔

برہان وانی نے ۲۰۱۰ء میں عسکریت کا راستہ اختیار کیا، تب اس کی عمر محض ۱۵ برس تھی۔ اس راستے پر چلنے کا فوری سبب اس کے والد کے ساتھ بھارتی فوجیوں کا انتہائی تحقیرآمیز سلوک اور حد سے بڑھا ظلم تھا۔آیندہ چند برسوں میں وہ جنگلوں میں رُوپوش اور متحرک رہ کر معروف کشمیری کمانڈر بن گیا اور اس نے نوجوان طبقے کی حمایت حاصل کر لی۔ اس طرح بھارتی غلبے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ وہ عسکریت پسندوں کی نئی نسل کا نمایندہ تھا۔۱۹۹۰ءکے عشرے میں کشمیری حُریت پسندوں کی پہلی نسل کے برعکس،وہ سرحد عبور کر کے پاکستان نہیں گیا تھا۔ اس نے کبھی فرضی نام بھی استعمال نہیں کیا تھا اور اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر اپنے حمایتی پیدا کرلیے تھے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ وانی کے آبائی علاقے ترال،میں اس کی تجہیزوتکفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی،اور جو لوگ جنازے میں نہیں پہنچ سکے، انھوں نے کشمیر بھر میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔

جب کشمیری سڑکوں پر نکل آئے،تو پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد پوری وادی کی ہربستی میں اُمڈ آئی۔ ردعمل میں ہزاروں کشمیری نوجوان مظاہرین نے آزادی کے نعرے بلند کرتے ہوئے پتھروں کے ساتھ بھارتی مسلح افواج کی مزاحمت کی۔بھارتی مسلح افواج نے جواب میں مہلک ہتھیار استعمال کیے،گولیاں چلائیں اور سی ایس گیس پھینکی۔ صرف پہلے تین دنوں میں،تقریباً ۵۰؍افراد ہلاک، جب کہ ہزاروں زخمی ہوگئے۔ پھر ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے مزید لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔بھارتی فوجیوں اور پولیس نے ان میں سے زیادہ تر کو ہلاک اور زخمی کردیا،  حتیٰ کہ ہلاک شدگان کے جنازوں پر بھی بھارتی فوج نے گولیاں برسائیں۔ پھر بھارتی فوج کی جانب سے دھاتی گولیوں کے استعمال کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نابینا ہوگئی۔اس طرح بھارت کو کشمیر بھر میں ایک بھرپور مقبول عام بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔

ان ہلاکتوں میں ایک کشمیری کالج کا طالب علم بھی شامل تھا،جس کو بھارتی فوجیوں نے پتھر مارمار کرہلاک کر دیا تھا۔ پھر ایک گیارہ سالہ لڑکے کو بھی ستمبر کے وسط میں ا س طرح ہلاک کیا کہ اس کا پورا بدن دھاتی چھر.ّوں سے چھلنی تھا۔ اس دوران اکثر نوجوان وہ تھے، جنھیں دھاتی چھر.ّوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ دھاتی چھر.ّے ان بندوقوںکے لیے بنائے جاتے ہیں، جو سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی دھاتی گولیاں خارج کرتی ہیں، یا پھر ایک ایسی چھوٹی سی شاٹ گن استعمال کی جاتی ہے، جس میں سے خارج ہونے والی یہ دھاتی گولیاں آنکھیں چیر دیتی ہیں۔
بھارتی مسلح افواج نے اعتراف کیا کہ ’’صرف ڈھائی ماہ میں ان کی طرف سے ان مظاہرین پر تقریباً ۴ہزار کارتوس چلائے گئے‘‘۔ حالانکہ نہتے مظاہرین، سیکورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے بے رحمانہ سلوک کے خلاف محض احتجاجی نعرے بلند کر رہے تھے۔ گویا ایک تخمینے کے مطابق مسلح افواج نے عوامی اجتماعات کومنتشر کرنے کی خاطر ۳۱ لاکھ دھاتی گولیاں (چھر.ّے) استعمال کیں۔

اس وقت سے لے کر آج تک چار اور پانچ برس کے بچوں کی آنکھوں پر بے شمار دھاتی گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ ستمبر کے آغاز پر کشمیر کے مرکزی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ۹جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد سے ہر روز ہر نصف گھنٹے بعد ان کے پاس ایسے مریض آئے، جن کی آنکھیں دھاتی گولیوں سے زخمی تھیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرروز آنکھوں کے ۱۲ آپریشن کیے جاتے رہے۔ اس پر حکومت نے یہ شرم ناک بیان دیا: ’’جب تک ہمیں کوئی متبادل غیرمہلک ہتھیار نہیں مل جاتا، اس وقت تک ہم انھی [دھاتی چھر.ّوں کو] استعمال کریں گے‘‘۔ دراصل یہ بھارتی حکومت کی وضاحت تھی کہ ’’ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسر اراستہ نہیں کہ کشمیری عوام کی آنکھوں پر گولیاں چلائیں اور انھیں اندھا کریں‘‘۔ ریاستی سطح پر دانستہ لوگوں کی آنکھوں پر دھاتی گولیاں برسا کر انھیں نابینا کرنا عصرحاضر کا ایک ایسا خونیں واقعہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ صرف جولائی اور پھر اگست ۲۰۱۶ء کے اواخر میں،بھارتی قومی اخبارات سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق، ۶ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ۹۷۲؍ افراد کی آنکھوںپرگو لیاںبرساکر انھیںزخمی کیا گیا تھا۔ زخمیوں کی زیادہ تعداد مظاہرین یا اپنے گھر کی کھڑکیوں سے مظاہرے دیکھنے والی عورتوں اور بچوں کی تھی۔ لیکن ان میںسے کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اسے اس کی بینائی سے زندگی بھر کے لیے محروم کر دیا جاتا۔

کشمیر میں بھارتی راج کے خلاف عوامی بغاوت پر ظلم وستم اور بے رحمانہ طرزِعمل ایک وحشیانہ تسلسل ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وادیِ کشمیر میں وسیع پیمانے پر پھیلی شورش کے خلاف بھارت نے سخت کارروائی کی، جس کے دوران ہزارو ںکشمیریوں کو ہلاک کیا گیا۔ انھیںاذیت کا نشانہ بنایا گیا ، اور پھر انھیںحراست میں بھی لے لیا گیا اور انھیں لاپتا کیا گیا۔ ایک تخمینے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے آج تک ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔تقریباً۱۰ہزار نہتے شہریوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں غائب کردیا گیا ہے۔ ۸ہزار کے متعلق یہ بات زبان زدعام ہے کہ انھیں اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد کے حوالے سے یہ معلوم ہوا کہ انھیں اذیت رسانی، پانی میں غوطہ زنی،تیزدھارآلے سے جگہ جگہ سے جسم کاٹنے اور مقعدمیں پٹرول اُنڈیلنے جیسے اذیت ناک ہتھکنڈوں کا شکار بنایا گیا۔ اخبار گارڈین  کی طرف سے۲۰۱۲ءکی  ایک اطلاع کے مطابق،بھارتی حکومتی دستاویزات کے مطابق: بھارتی سیکورٹی ایجنٹوں کے ایک دستے نے مشکوک افراد کے ہاتھ پیرکاٹ دیے اور انھیں اپنے ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔
۱۵سالہ عائشہ اس وقت اپنے گھر کے باورچی خانے میں تھی، جب کھڑکی سے داخل ہونے والی دھاتی گولیوں کی ایک اچانک بوچھاڑ نے اس کا چہرہ چھلنی کر دیا اور یوں ہمیشہ کے لیے اس کی بینائی چلی گئی۔جنوبی کشمیر میں چارلڑکیاں،جن کی عمریں ۱۳-۱۸ کے درمیان تھیں،کے چہروں پر یہ دھاتی گولیاں برسائی گئیں۔ ایک ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ان میں سے سب سے کم عمر تیرہ سالہ عرفہ جان کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھی یہ کم عمربچیاں ۷لاکھ بھارتی فوج کے لیے خطرے کا باعث تھیں۔
دُنیا بھر کے ذرائع ابلاغ جانتے ہیں کہ جب مظاہرین پر دھاتی گولیوں کی بوچھاڑشروع ہوئی،راہگیر اور گھروں میں مقیم طلبہ اور نوعمرزخمی بچے، عظیم جنگوں کا منظر پیش کرنے لگے۔آنکھوں پر پٹیاں بندھے لڑکے اور لڑکیاں قطار اندر قطار بستروں پر موجود ہیں،جب کہ ان کے والدین بے چینی سے ان کے علاج کے منتظرہیں۔اس موقعے پر پولیس اور سرکاری جاسوس بھی ہسپتال کے کمروں میں گھس آتے ہیں تاکہ زخمیوں کے کوائف جمع کیے جائیں، اور رہائی کے بعد ان کی نگرانی کرنے میں آسانی ہو۔
کشمیر میں طویل عرصے سے موجود مبصروں کے لیے بھی یہ سب کچھ ناقابلِ فہم ہے۔  اس کرۂ ارض پر موجود ایک بہت بڑی فوجی قوت، نہتے ہجوم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے، جب کہ  اس کے شکار شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور زخمی آنکھوں کی تصویریں موبائل فون اور کمپیوٹرز کی سکرینوں پر حرکت کر رہی ہیں۔ چونکہ طاقت ور جنونی حاکم ،جو دہلی سے کشمیر پر حکومت کرتے ہیں، انھوں نے بچوں کو نابینا کرنے کے متعلق کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چند ہزار بچوں کی بینائی چھیننے کا عمل،کشمیریوں کو ان کی حد میں رکھنے کی ایک ’معقول قیمت‘ ہے۔شاید بھارتی ریاست نے بدمستی پر مبنی غرور کے ذریعے خود کو اندھا کر لیاہے۔ ایسا پاگل پن قابض قوتوں کی بددماغی کی علامت ہوتا ہے۔
’رقصِ بسمل‘ کا محاورہ جسے فارسی شاعری میں ایک معشوق کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،کو ایک ’زخمی کا رقص‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔وادیِ کشمیر ایک مذبح خانہ (Slaughter House) ہے، جہاں نہتوں کی آنکھیں دھاتی چھر.ّوں سے اندھی کی گئی ہیں اور ان کے ہاتھ پیر توڑ دیے گئے ہیں۔ ہم نے کچھ ایسے مریضوں کو دیکھا جن کی انتڑیوں کی چیرپھاڑ کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہہ رہے تھے:’’ہم کب اس قابل ہوں گے کہ واپس جا کر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوسکیں‘‘۔ یہ بات ایک ڈاکٹر نے نم آنکھوں کے ساتھ بتائی۔
بھارت کے طاقت ور ٹیلی ویژن چینل حکومت کو اُکساتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنایا جائے، جب کہ یہی ٹی وی چینل، کشمیر سے آمدہ خبروں کو مسخ کرتے یا انھیں توڑمروڑ کر  پیش کرتے ہیں۔ایک ممتاز اخبار کی طرف سے آنکھوں کو اندھا کردینے والی بندوقوں کے استعمال کے متعلق ایک آن لائن جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے میں حصہ لینےوالے بھارتیوں کی ایک واضح اکثریت نے اس ظلم کے حق میں اپنی راے کا اظہار کیا۔ممتازکالم نگار مظاہرین کے خلاف بے رحم طرزِعمل کی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔اور پھر حکومتی اقدام کے متعلق ٹویٹر اکائونٹ، ڈیجیٹل انڈیا،نے ایک نظم چسپاں کی، جس میں فوج سے کہا گیا ہے: ’’کشمیریوں کا قتل عام اس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک وہ شکست تسلیم نہیں کر لیتے‘‘۔کشمیر کے تصویری مناظر انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بندکرنے کی کوششوں کے باوجود ان درجنوں زخمیوں کی تصاویر آئی ہیں، جن میں سے اکثر اس طرح کی ہیں، جیسے قصاب کی دکان پر پڑا گوشت۔ 

مظاہرین پر قابو پانے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ٹانگوں کونشانہ بنایا جائے اور کم سے کم نقصان کرکے مظاہرین کو منتشر کیا جائے۔ لیکن یہاں پر بھارت کے نیم فوجی دستوں اور پولیس نے دانستہ طور پر بچوں اور بچیوں کے چہروں پر دھاتی چھر.ّوں کی بوچھاڑ کو وتیرا بنارکھا ہے۔مظاہرین پر یہ بے رحمانہ حملے ہمیں ایک سوال پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں: کیا بھارتی ریاست کشمیریوں کو نابینا کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہے؟‘‘
نئی دہلی کی حکومت یا کشمیر میں موجود ان کے مشیر ’چھر.ّے بکھیرتی بندوقوں ‘ کی تباہ کن قوت سے بے خبر نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل نیٹ ورک آف سول لبرٹیز آرگنائزیشنزاور فزیشنز فار ہیومن رائٹس نے ۱۰۲ صفحوں کی ایک رپورٹ Lethal in Disguise  میں یہ بیان کیا ہے:’’دھاتی گولیاں، بارود کی اندھادھند پھوار خارج کرتی ہیں، جو بہت دُور تک پھیل جاتی ہے اور ان سےکسی واحد چیز کو ہدف نہیں بنایا جاسکتا___ اس لیے یہ نہ صرف قریبی فاصلے پر مہلک ہو سکتی ہیں بلکہ طویل فاصلے پر بھی اندھادھند نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ متعددممالک نے تو پرندوں کے شکار کے لیے بھی ان کے استعمال کی ممانعت کر دی ہے کہ ان دھاتی چھر.ّوں کا پھیلائو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مگر دنیا کی ’بڑی جمہوریت‘ اس سے معصوم بچوں اور بچیوں کو شکار کر رہی ہے اور عالمی ضمیر لمبی تان کر سویا ہوا ہے!
اسرائیل میں سیکورٹی فورسز اکثر فلسطینی مظاہرین کے خلاف براہِ راست فائرنگ کے علاوہ ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں امریکی ریاست کیلے فورنیا کے ہسپانوی علاقے میں ان ربڑ کی گولیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
۲۰۱۱ء میں،تحریرچوک، قاہرہ میں مصری آمر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ایک نوجوان لیفٹیننٹ محمد الشناوی نے اس لحاظ سے بدنامی مول لی کہ اس نے مظاہرین کی آنکھوں پر گولیاں چلائی تھیں جس سے اس کی عرفیت’آنکھ کا شکاری‘ مشہور ہو گئی تھی، اور وہ ظالمانہ ریاستی ظلم وستم کی علامت بن گیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ’آنکھوں کے شکاریوں‘ کے ہاتھ روکے گا، یا ان کو سزا دے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دنیا اس ’آنکھوں کے شکاری‘ بھارت کو لگام دے گی یا اپنی تجارت پر نظر رکھتے اور ظلم کو نظرانداز کرتے ہوئے دنیا کو ’پُرامن‘ بنانے کے خواب دیکھتی رہے گی؟
بھارت اس وقت جس نوعیت کے کٹر نسل پرستی کے جنون میں مبتلا ہے، اس میں حقِ خودارادیت مانگنے والے کشمیری، ناپاک ملیچھ دلت،گائے کا گوشت کھانے والے مسلمان غدار، اور اس وحشت ناک قوم پرستی کے مخالف صحافی قربانی کے بکرے تصور کیے جاتے ہیں۔کوئی بھی آواز جو کشمیر میں ان ’پیلٹ بندوقوں‘پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہے،اس کو یقینی طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

کشمیری خود پر ڈھائے گئے مظالم اور تشدد کے عادی ہو چکے ہیں___اور پھر اسی طرح  وہ دنیا کی بے رحمانہ لاتعلقی اور بے حسی کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔ ۲۰۱۰ءکے موسم گرما میں کشمیری مسلمان مظاہرین پر پہلی دفعہ یہ چھر.ّوں والی گولیاں چلائی گئیں،تو بہت سے لوگوںنے اسے محض ایک وقتی بدقسمتی کے سوا کچھ نہ سمجھا۔ تاہم، حالات پر نظر رکھنے والوں نے اسے کشمیر میں جنگ کے ایک نئے عنصر کا داخلہ قرار دیا تھا۔اگر کوئی یہ چاہے کہ گذشتہ عشروں میں کشمیریوں کے جسموں پر ڈھائے گئے ظلم وستم کا خاکہ کھینچے،تو پھر اسے بمشکل ہی بدن کا کوئی حصہ ملے گا جو زخمی نہ ہوا ہو۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب تشدد اپنی بدترین شکل میں عروج پر تھا،آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیوں کے نزدیک آنکھیں ایک آسان اور پسندیدہ ہدف بن چکی ہیں۔ 
 میں ۱۹۸۰ء اور۱۹۹۰ء کے عشروں کی تاریکی میں پلا بڑھا ہوں۔ ہم نوعمر لڑکے جبلی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ساتھ غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،راہ چلتے ہوئے ہم پر بلاوجہ تھپڑوںکی بارش کی جاتی ہے،اور بندوق کے بٹ سے پیٹا جاتا ہے۔ لیکن ایک بھارتی فوجی کے نزدیک یہ سب کچھ محض ایک مذاق ہوتا ہے۔ ہم لاشوں، جنازوں اور تابوتوں کو گزرتے وقت کی یادگارکے طور پر ذہن میں نقش کرتے، اور ان واقعات کو ’قتلِ عام‘ اور ’شہادت‘ کی اصطلاحوں میں یاد رکھتے۔ 

اس پوری مدت میں مَیں نے انتہائی بے رحم اور بے لطف زمانے کو دیکھا۔  کیونکہ شورش کو کچلنے کی خاطر بھارت کی طرف سے’پکڑو اور مار دو‘کی وحشیانہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ جس کے تحت مسلح اور ’ناپسندیدہ‘ نہتے افراد،دونوں کو فوری طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے، یا انھیں عبرت ناک اذیت دے کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ دہلی کی جانب سے غیرمعمولی ہندو نسل پرستی پر مبنی حکمت عملی سے شہ پا کر بھارتی سیکورٹی فورسز یہ سوچتی ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ظلم اور بے رحمی کا طرزعمل اختیار کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔
۲۰۱۳ءمیں نیویارک ٹائمز کے وقائع نگار زاہدرفیق نے اپنے ایک مؤثر مضمون میں ان چند افراد کی رُودادیں بیان کیں، جنھیں دھاتی گولیوں سے اندھا کر دیا گیا تھا___ حالانکہ اس وقت کشمیریوں کی بینائی چھیننے پر مبنی طرزعمل نے کچھ زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کی تھی۔ صدافسوس کہ آج اس وقت بھی بھارتی سول سوسائٹی یا انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے بمشکل ہی اس امر کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے کہ نابینا کرنے کے عمل کو ایک گھنائونے جرم کے طور پربیان کیا جائے۔ اس کے برعکس کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر بھارت کی کچھ میڈیا تنظیمیں بہت خوشی محسوس کرتی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ہزاروں بھارتی نوجوان، سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتوں ، انھیں زخمی کرنے اور پھر نابینا کرنے کی کارروائیوں پر جشن مناتے ہیں۔

کشمیر کے ایک مرکزی ہسپتال کے ماہرامراض چشم نے جولائی میں انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’’پہلی بار بے ترتیب تیزدھار کونوں پر مشتمل چیزوں کو استعمال کیا جا رہاہے، جو جس وقت آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں‘‘۔بے ترتیب تیز دھار کونے؟میں نے یہ سمجھا تھا کہ ربڑیا پلاسٹک کی گولیوں کے مانند مظاہرین پر چلائی گئی دھاتی گولیاں،یا قرص نما چیزیں ہیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ کوئی مختلف قسم کی گولیاں ہیں اور۲۰۱۶ء سے بھارتی فورسز دندانے دار گولیاں استعمال کر رہی ہیں، جو گوشت اور آنکھوں کو، بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں اور جن کے متعلق  ڈـاکٹر کہتے ہیں کہ ’’زخمی بدن سے انھیں نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ بھارت یہاں تک کیسے پہنچا کہ اپنے زیرتسلط علاقے کے ہزاروں مکینوں کو نابینا کردے؟ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ اقوام متحدہ کا ایک رکن،ایسی فسطائیت میں ملوث ہو؟ درحقیقت اقوام متحدہ طاقت ور ملکوں کی لونڈی کے رُوپ میں ایسا ادارہ ہے، جو کم زور ملکوں پر پابندیاں لگاتی اور طاقت ور یا بڑے ملکوں کا پٹہ کھلا رکھتی ہے۔

یہ قطعی بات ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کی نظر میں کشمیری ان کی محکوم رعایا ہیں، برابر کے  شہری نہیں ہیں، کیو نکہ کشمیریوں نے بھارتی راج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اگر وہ اس کے شہری ہیں تو وہ ان پر اس قسم کی گولیوں کی بوچھاڑ نہیں کر سکتے جو اندھا بنادے۔ اس وقت بھارتی حکومت، کشمیری بچوں کی بینائی چھین کر فیصلہ کن انداز میں اعلان کر رہی ہے:’’تمھیں ہرقیمت پر سرجھکانا ہوگا،اور اگر تم انکار کر وگے،ہمارا غضب اور قہر تم پر نازل ہوتا رہے گا، کیونکہ ہم ایک بڑی منڈی ہیں‘‘۔
 نوبیل انعام یافتہ بھارتی ماہرمعیشت،امرتاسین نے اس صورتِ حال پر کہا تھا:’’کشمیری احتجاجی مظاہرین پر پیلٹ گنوں کا استعمال اور شدید ظلم وستم،بھارتی جمہوریت پر کلنک کا ٹیکہ ہے‘‘۔
بھارت کے ظالمانہ طرزِ حکمرانی کی تائید کرنے والوں کی بڑی تعداد کے باوجود بھارت میں کچھ ایسے لوگ، صحافی، دردِ دل رکھنے والے طالب علم، حتیٰ کہ کچھ سیاست دان بھی موجود ہیں، جنھوں نے اس روش کی مخالفت کی ہے، بھارتی وحشیانہ کارروائی کے متعلق مضامین میں حکومت سے استدعا کی ہے کہ اس ظلم وستم کا سلسلہ بند کیا جائے،کشمیریوں کے ساتھ شفقت پر مبنی سلوک کیا جائے اور بات چیت کی جائے۔لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اس جنگجویانہ پاگل پن اور ووٹوں کی بھوک میں مبتلا ہے۔ اگست میں سرینگر میں بھارتی افواج نے اے ٹی ایم پر تعینات ایک اکیس سالہ محافظ کو مختصر فاصلے سے ۳۰۰ دھاتی گولیاں مارکر شہید کر دیا۔

اس سے قبل کہ یہ سب کچھ فراموش کر دیا جائے،اور ظلم کی داستانیں تہہ در تہہ ظلم کے پہاڑ بنتے جائیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان زخمیوں میں سے کچھ نہ کچھ مظلوموں کی آنکھوں کا آپریشن ہو، اور وہ کم از کم ایک آنکھ کی بینائی دوبارہ حاصل کر لیں۔دنیا بھر میں آنکھوں کے سرجنوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج منتظر ہے۔ لیکن اسی قوت کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو روکنے کے لیے بھی عالمی سطح پر ڈاکٹروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ موت اور خون کی اس لہر کے نتیجے میں کشمیر میں بظاہر خاموشی چھا جائے ___ لوگ خریداری کریں، بچوں کی شادیاں کریں،کرفیو کی پابندی کے بغیر عید منائیں اور اپنی مرجھائی ہوئی سرزمین پر سیاحوں کو خوش آمدید بھی کہیں۔لیکن آزادی پسندوں کی یہ نئی نسل،پرورش پاتے ہوئے کب نابینا ہوئی، اور کس روز ہوگی،کب اسے زخمی کیا جائے گا؟ ہمارے گنہ گار ضمیر کے لیے ہروقت پھن پھیلائے یہ سوال موجود رہے گا۔ یہ نابینا بچے ساری زندگی یقینااس ملک کو یاد رکھیں گے، جس نے ان کے ساتھ یہ درندگی کی۔ (The Guardian،لندن،انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)