سیّد اسعد گیلانی


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخِ انسانیت کی ۲۳سالہ قلیل ترین مدت میں جو عظیم الشان انقلاب برپا کیا وہ اپنی نوعیت ، کیفیت، جدوجہد اور نتائج کے اعتبار سے اتنا حیران کن ہے کہ اس کی نظیر تاریخِ عالم میں کہیں موجود نہیں ہے۔ جب ہم اس انقلاب کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے ہیں تو حقیقتاً اس کے سوا کسی دوسرے انقلاب پر لفظ انقلاب کا اطلاق ہی درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ اب تک انسانیت کی تاریخ صرف ایک ہی حقیقی انقلاب سے آشنا ہے تو یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہے اور نہ اس کا انکار آسان ہے۔ اس لیے کہ اب تک دنیا میں انقلاب کا مفہوم صرف اسی قدر سمجھا جاتا ہے کہ انسانوں پر غالب اور مسلّط، پہلے اقتدار کو بے دخل کر کے  ایک دوسرا اقتدار ان پر مسلّط کردیا جائے۔ یہ کام جس قدر اچانک ہو اور اس میں جس قدر زیادہ خون خرابہ ہو اسی قدر بڑا انقلاب سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالاں کہ فساد فی الارض ،ہلاکت ِ انسانی، ضیاع جان و مال و عزت و آبرو، انسانی بستیوں کی بربادی اور ظالموں کے ایک گروہ کے بعد ظالموں کے ہی کسی دوسرے گروہ کے مسلط ہوجانے سے انسانیت کی قسمت میں وہ کون سا تغیر واقع ہوجاتا ہے جس کی بناپر اسے انقلاب کہا جاسکے۔

البتہ ایک ایسی جدوجہد جس کے نتیجے میں پرانا، بداخلاق اور بدکردار انسان یکسر ایک نئے پابند ِ اخلاق انسان کا رُوپ دھار لے۔ قدیم رسموں اور عصبیتوں کا مارا ہوا اور اخلاقی خرابیوں میں ملوث انسانی معاشرہ سارے بوجھ اُتار کر سیدھا سادا خداپرست ،شریف اور پابند ِ اخلاق معاشرہ بن جائے جس میں خدا ترسی، ہمدردی، اخوت، مساوات، مسئولیت، آخرت کی جواب دہی، نیکی اور خیرخواہی کی قدریں جاگزیں ہوجائیں۔ ظام اور جابر حکام کی بجائے خدا ترس اور نیک حاکم کا ٹھنڈا سایہ انسانوں کو میسر آجائے اور جانب دارانہ، سنگدلانہ اور متعصبانہ قوانین کے بجاے مساواتِ انسانی پر مبنی غیر جانب دارانہ ، خداترسانہ اور رحمدلانہ قوانین انسانوں میں رائج ہوجائیں___ تو اس کو حقیقی طور پر انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ پھر جب یہ بات معلوم ہو کہ یہ کام صرف ۲۳برسوں کی مختصر مدت میں ہوگیا تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر جب مزید یہ پتا چلے کہ یہ سب کچھ پُرامن طور پر بلاخون خرابے کے ہوا اور ۲۷غزوات اور ۵۴سرایا میں صرف چند سو انسان دوطرفہ کام آئے تو انسانی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ اس ساری انقلابی جدوجہد کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ یہ بات کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ اگر تاریخ انسانی میں کوئی حقیقی انقلاب برپا ہوا ہے تو فقط یہی انقلاب ہے باقی جو کچھ ہے وہ ساری کش مکش اقتدار اور خون خرابی کی داستان ہے....

اس سے پہلے کہ ہم مدینہ کی عظیم الشان اسلامی ریاست کے قیام کی تدابیر اور اسلامی نظام کے اجرا کی حکمتوں اور مختلف جہتوں پر بحث کریں خود اسلامی ریاست کی بعض خصوصیات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ اندازہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ صرف چند برسوں میں ایسا حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دینا کتنی زبردست جدوجہد، بصیرت، تدبر، حکمت، دانش اور بے نظیر رہنمائی اور قیادت کا نتیجہ ہے۔ یہ انقلاب انسانی تاریخ میں اب تک منفرد واقعہ ہے جیسے کہ انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا نے لکھا ہے: ’’یہ وہ کامیابی ہے جو آپ سے قبل کسی دور میں بھی کسی دینی معلّم کو حاصل نہ ہوسکی تھی‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کی نظیر بنی نوع انسان زمین پر آج تک پیش نہیں کرسکے ہیں۔ ایک فرد فی قوم اُٹھ کر اپنی بات کہتا ہے۔ پوری قوم مزاحمت کرتی ہے اور ۲۳سال کی قلیل مدت میں اس کے پیش کردہ نظریے کے عین مطابق افراد ڈھل جاتے ہیں۔ معاشرہ بدل جاتا ہے۔ قوانین کا اجراء ہوجاتا ہے۔ تصوراتِ اخلاق و کردار اور معیشت و معاشرت و سیاست و تہذیب و تمدن   سب بدل جاتے ہیں۔ اس انقلاب سے ۲۵سال پہلے کا انسان یکبارگی قبرمیں سے اُٹھ کر اگر واپس اس سرزمین میں آتاتو اس بدلےہوئے ماحول کو دیکھ کر کبھی باور نہ کرسکتا کہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ عالمِ بیداری میں ایسا عظیم الشان تغیر انسانی زندگی میں دیکھ رہا تھا اور وہ واقعی اس سرزمین میں واپس آیا تھا جس سے وہ رخصت ہوا تھا۔

یہ اسلامی ریاست جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور اپنی زبردست جاںگسل جدوجہد سے قائم کی، ایک اصولی اور نظریاتی ریاست تھی۔ یہاں اس کی بیش بہا خصوصیات میں سے چند ایک کا ذکر نہایت ضروری ہے۔

  1. اس ریاست کی بنیاد ایک ایسے معاہدے پر رکھی گئی تھی جو پہلے ایک شخص اور ایک شہر کے باشندوں کے درمیان طے پایا تھا اور انھوں نے برضا و رغبت اسے سارے معاملات کا سربراہ اور ذمہ دار تجویز کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت (عقبہ) کی تھی۔ اگر کوئی معاہدئہ عمرانی نامی شے کسی جگہ واقع ہوئی تھی تو وہ یہی معاہدہ تھا جس کے تحت ایک جگہ کے باشندوں نے اپنی آزاد مرضی سے حضوؐر کو اپنا سربراہ تجویز کیا۔ گویا یہ ریاست خالص عوامی رضامندی اور معاہدے پر قائم کی گئی تھی۔
  2. اس ریاست کی ایک اور خصوصیت اس کا ایک تحریری دستور تھا۔ یہ ایک خالص دستوری اور آئینی ریاست تھی جس میں اس کے باشندوں کے حقوق و فرائض کی واضح تعین و تقسیم کی گئی تھی۔ غالباً یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جو مدینہ کی ریاست کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔
  3. یہ ایک اصولی اور نظریاتی ریاست تھی کیوںکہ اس کی بنیاد نسل، علاقہ، زبان، قبیلہ یا معاشی اور سیاسی مفادات کے کسی اشتراک پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ چند اصولوں کی حفاظت اور ان کے اجرا کے لیے یہ ریاست وجود میں آئی تھی۔
  4. اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک جامع تصورِ زندگی پر قائم ریاست تھی جو انسان کی زندگی کے تمام شعبوں کو منظم کرتی اور انھیں ایک سمت بندگیِ رب کی طرف موڑتی تھی۔ وہ عبادات سے معاملات تک انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط تھی۔
  5. دنیا میں پہلی بار دین و سیاست کے حسین امتزاج پر مبنی یہ ریاست قائم ہوئی تھی۔ رسول ہی اس ریاست کا سربراہ تھا۔ وہی فوجوں کا کمانڈر تھا اور وہی نمازوں کا امام تھا۔ وہی عمّال کا نگران تھا اور وہی الٰہی تعلیمات پہنچانے کا ذمہ دار تھا۔ محراب و منبر اور دربار و دفتر کے اس امتزاج و اجتماع نے انسانی زندگی کی تقسیم کو ختم کر کے اسے ایک حسین اور متوازن وحدت میں بدل دیا تھا جس سے انسان کے بے شمار بوجھ اُتر گئے تھے۔
  6. یہ ایک جمہوری اور شورائی ریاست تھی جس میں سارے کام مشورے سے طے ہوتے تھے۔ چوں کہ خدائی حکم یہی تھا کہ سارے کام مشورے سے طے کیے جائیں: وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ’’ان سے معاملات میں مشورہ کرو‘‘ اور وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ’’ان کے امور آپس میں مشورے سے طے ہوتے ہیں‘‘کے مطابق صلح وجنگ، داخلی اور خارجی معاملات سب کے سب مشورے سے طے پاتے تھے اور ساری پالیسیاں باہمی مشورے سے ہی مرتب ہوتی تھیں۔ حُریت ِ فکر، مساواتِ انسانی، عدلِ اجتماعی اور جمہوریت، ان الفاظ کی روح کے مطابق ان کا پورا پورا اہتمام تھا۔ہرقسم کی غلامی سے آزادی کا منشور وہ انقلابی کلمہ تھا جو اس ریاست کے بنیادی نظریہ کا ترجمان تھا۔ مساواتِ انسانی، وحدتِ انسانیت اور اخوت پر قائم تھی۔ قانون سے بالاتر خود سربراہِ مملکت کی ذات بھی نہ تھی۔
  7. یہ ایک فلاحی اور خادمِ خلق ریاست تھی جس کے ذمے خدمت ِ انسانیت اورکفالت ِ رعایا تھی۔ اس ریاست میں کوئی گداگر نہ تھا۔ اس کے سربراہ کا اعلان تھا کہ جو مقروض فوت ہوجائے اس کا قرض ریاست کے ذمے ہے اور جو وراثت چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کی ہے۔ روزگار کی ضمانت اور معاشی کفالت کا اہتمام ریاست کے ذمے تھا۔
  8. یہ ریاست اپنے اجتماعی اُمور میں خدا کے سامنے جواب دہ تھی اور اس کی تمام پالیسیاں اور قانون سازی خدا کی اُتاری ہوئی ہدایات کے مطابق طے پاتی تھیں۔ اس ریاست کا فردفرد اس امر سے سرشار تھا کہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ تھا اور اسی احساس کے تحت پوری ریاست کے باشندوں میں ذہنی مطابقت اور جذباتی ہم آہنگی موجود تھی۔ درحقیقت یہ کوئی غیرمسئول ریاست نہ تھی بلکہ اس کی حیثیت خدا کے سامنے ایک ایسے جواب دہ ادارے کی تھی جو خدا کی نیابت کرتا تھا۔ اسی لیے اسے خلافت سے تعبیر کیا گیا تھا۔
  9. اس ریاست کا تصورِ حاکمیت دنیا کی تمام ریاستوں سے مختلف تھا۔ اس کی حاکمیت نہ عوام کی تھی، نہ سربراہِ مملکت کی،نہ کسی خاندان کی اور نہ کسی ادارے کی بلکہ اس کی حاکمیت کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ سے تھا۔ وہ اس کا حقیقی اور مستقل حاکمِ اعلیٰ تھا جو ازل سے اَبد تک حی و قیوم اور علیم و خبیر ہے اور جو ہرلمحہ اپنے بندوں کا نگران اور کفیل ہے، اور جو اپنی مخلوق کا تنہا واحد حاکم ہے، باقی سب اس کے محکوم ہیں۔ اس نظریے نے ریاستوں کے نظریۂ حاکمیت میں انقلابی تبدیلی کردی۔ اس سے ایک ایسی بے لاگ مساوات اور ایک ایسا بے لوث انصاف قائم ہوگیا جس کی نظیر کسی دور اور کسی معاشرے میں ممکن نہ تھی۔
  10. اس ریاست کی ایک مستقل کتابِ ہدایت تھی جو خود قانون اور ماخذ ِ قانون تھی اور ہرنزاع میں آخری اتھارٹی شمار ہوتی تھی۔ اس نوعیت کی ریاست کے لیے تاقیامت یہ کتابِ ہدایت تھی جسے قرآن کہا گیا تھا اور جس کا ایک ایک لفظ حاکمِ اعلیٰ کا فرمایا ہوا اور ناقابلِ تغیر تھا ۔ وہ اس ریاست کی مستقل گائیڈبک، بنیادی قانون اور دستور تھی۔
  11. اس ریاست کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد خدا کے باغیوں کی سرکوبی تھا، نیز طاغوت کی مکمل نفی کرکے، دنیا کے تمام باغی انسانوں، ریاستوں، اداروں اور گروہوں کو خدا کی بندگی کی طرف لانا اور ایمان باللہ کو زمین کے آخری کناروں تک پہنچانا اس ریاست کا مقصد ِ اوّلین تھا۔ اس طرح یہ ریاست ایک عالم گیر دعوتِ انقلاب کی داعی ریاست تھی اور اس کا قیام تمام دنیا کے طاغوتوں اور خدا کے نافرمانوں کے لیے ایک مستقل چیلنج تھا۔
  12. یہ ریاست ایک تعلیمی اور تربیتی ادارہ تھی جو اپنے باشندوں کو ایک مخصوص اخلاقی سانچے میں ڈھالنے کا اہتمام کرتی تھی۔ اس کا تصورِ انسان و کائنات اس کی تعلیم کے ہرگوشے میں پیوست تھا اور اس تصور کی روشنی میں وہ اپنے تمام باشندوں کو تعلیم دیتی اور ان کے کردار کے مطابق ڈھالتی تھی جس سے خدا ترس اخلاقی کردار وجود میں آتے تھے۔ یہ ریاست مادی اشیا سے زیادہ انسانوں پر توجہ دیتی تھی اور اس کے نزدیک ہرشے سے زیادہ انسان کی قدروقیمت تھی۔ اس کے نزدیک ایک انسان کا ناحق قتل ساری مخلوق کے قتل کے مترادف تھا۔
  13. اس ریاست میں عمّال کے بارے میں صالح کی شرط لازم تھی۔ غیرصالح کردار کے لیے اس ریاست میں روٹی کپڑے اور مکان کا انتظام تو ضرور موجود تھا،لیکن اس کے لیے  اعلیٰ مدارج اور اُونچے مناصب کے حصول کا کوئی سوال نہ تھا۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ کے اصول کے تحت نیک اور صالح افراد ہی اس ریاست کے کَل پرزے بن سکتے تھے۔ اس میں مال و نسب کی اہمیت نہیں شرافت اور اخلاق کی اہمیت تھی۔

یہ وہ عظیم الشان ریاست تھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کی مدت میں قائم کر کے ایک حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ جو اپنی نوعیت میں منفرد اور ممتاز تھی اور جس کی مثال نہ اس سے پہلے دنیا میں کوئی ریاست قائم ہوئی تھی اور نہ اس کے بعد ایسی ریاست قائم ہوسکی، جب کہ ایسی ریاست کا قیام اُمت مسلمہ کا فرض ہے۔ اور اس کے قیام کے بغیر مسلمان اپنے مالک کے سارے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے اور اس کے بغیر ان کی مسلمانی اَدھوری رہ جاتی ہے۔

یہ کارنامہ سرانجام دینے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں مختلف حکمتوں سے کام لیا۔ اس میں حکمت تبلیغ و دعوت بھی شامل ہے۔ حکمت ِ تنظیم و اجتماع ہے۔ حکمت ِ اخلاق و کردار ہے، حکمت ِ ہجرت اور ترکِ وطن ہے ، حکمت ِ اَزدواج ہے، حکمت ِ جنگ اور جہاد ہے اور حکمت ِ تدبیر و سیاست ہے۔ ان ساری حکمتوں نے اپنی اپنی پوری کامیابی اور عمدگی سے کام کیا ہے تب جاکر وہ عظیم الشان ریاست وجود میں آئی جو درحقیقت حضرت عیسٰی ؑ کے الفاظ میں زمین پر آسمانی بادشاہت تھی۔

دنیا کے انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپاکردہ انقلاب کو دیکھا جائے تو منصف مزاج انسان یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس قدر جامع، کلّی، ہمہ گیر اور ظاہر و باطن میں غالب و نافذ حضوؐر کا نافذ کردہ انقلاب ہے اس کے مقابلے میں دوسرے انقلابات قطعاً نامکمل اور ادھورے ہیں۔ دوسرے انقلابات تو بس زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر ایک گروہ کے ہاتھ سے دوسرے گروہ کے ہاتھ میں انتقالِ اقتدار کے عمل کا نام ہے۔

اگر کوئی انسان ۲۳سال پہلے عرب سے باہر چلا گیا ہوتا اور ۲۳سال بعد یکایک وہ مکہ، مدینہ اور ان علاقوں میں لوٹتا جہاں حضوؐر نے انقلاب برپا فرما دیا تھا، تو اسے اپنی آنکھوں پر اعتماد کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس کے لیے یہ باور کرنا دشوار ہوجاتا کہ وہ اسی علاقے اور انھی لوگوں کے درمیان واپس آیا ہے جنھیں چھوڑ کر وہ گیا تھا۔ اس مختصر عرصے میں جو زبردست تبدیلی فرد فرد کے اخلاق، اعمال ، گفتار، رفتار ، کردار اور معاملات میں آگئی تھی، اسے صرف معجزاتی قلب ِ ماہیت ہی کہا جاسکتا ہے۔ عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے، گلیاں، بازار، مجالس اور کاروبار ہرچیز ہی یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ان کے لہجے، ان کے معمولات، ان کی دل چسپیاں، ان کے ذوق و شوق اور مصروفیات سبھی کچھ بدل گیا تھا۔ مسجد کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آگیا تھا جو ہرمحلے اور ہربستی میں موجود تھا اور جس میں لوگ علمِ دین حاصل کرتے تھے۔ خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کے چرچے، قرأتِ قرآن کی مجالس، علمی مشاغل کے مباحثے، جنگ و جدل کے بجاے جہاد فی سبیل اللہ کی باتیں، گپ بازی کے بجاے اوراد و وظائف، تضیعِ اوقات کے بجاے پانچ وقت کی نمازیں اور   ان کے ساتھ وضو اور پاکیزہ مجالس کا اہتمام، جمعہ کو ہفتہ وار اجتماعات اور ملکی اور ملّی مسائل پر    کھلے مباحثے۔ ناپ تول میں عدل، اوزان میں انصاف، باہمی انسانوں میں برابری اور مساوات، نہ نسل کا فخر اور نہ قبیلے کا زعم، نہ زبان کی برتری کے دعوے اور نہ رنگ کی سفیدی کا غرور۔ سارے انسان خدا کی مخلوق، ساری خدائی خدا کا قبیلہ، سارے انسان خدا کے بندے اور ان سب کا تنہا وہی ایک معبود جس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔

غلط بیانی اور جھوٹ کے بجاے ہر طرف صداقت شعاری کا سکّہ رواں، وعدے کی پابندی، لین دین کا کھراپن، خدا ترسی اور خدا خوفی کی کیفیت، نہ فحش باتیں اور نہ فحش کاری کے اڈے، نہ بے پردگی اور نہ بے حیائی، نہ مجالس میں بیہودہ گوئی اور نہ ایران و توران کی بے ہودہ داستانیں اور یاوہ گویاں، نہ باپ دادا پر فخر کے قصے اور نہ اپنی بڑائی کی ڈینگیں۔ سب سے بڑا نام صرف اللہ کا اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی پیروی کا اہتمام ہی سب سے اعلیٰ طرزِعمل قرار پایا۔

ہر طرف نظم و ضبط کا اہتمام، عدالتیں موجود لیکن جرائم نابود۔ اور اگر کسی سے کوئی خطا ہوجائے تو متعلقہ فریق سے معافی حاصل کرنے میں سبقت یا عدالت کے سامنے خود اعترافِ خطا۔ عدالتیں سب کے لیے مساوی، خلیفہ سے لے کر عام انسان تک سب برابر، کسی کے درمیان کوئی امتیاز موجود نہیں۔

دکان دار خوفِ خدا سے لرزاں و ترساں، ناجائز نفع اندوزی کا تصور بھی غائب، ناقص مال دینے کا سوال ہی نہیں۔ اگر کسی شے کا نقص گاہک سے پوشیدہ رہ گیا تو اس کے گھر تک پہنچ کر نقص کی وضاحت اور اس کی نسبت سے قیمت میں کمی یا مال کی واپسی۔ بزرگوں میں شفقت اور تعلیم و تربیت کا جذبہ، چھوٹوں میں ادب و احترام اور نصیحت حاصل کرنے کا احساس۔ آجر مزدورسے زیادہ حسّاس کہ اس کا حق اس کے ذمے رہنے نہ پائے اور اجیر آجر سے زیادہ حسّاس کہ اُجرت کے مطابق کام سرانجام پائے۔ سپاہی جہادفی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار اور اس کے لیے دین کی سربلندی کے لیے خدا کی راہ میں لڑنا ، دنیا و مافیہا کی نعمتوں سے بہتر۔ ہمسایے میں یہ احساس زندہ و بیدار کہ اس کا ہمسایہ بھوکا نہ سونے پائے اور اس کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ غرض فرد فرد سر سے پاتک اور ظاہرسے باطن تک اس طرح بدل گیا کہ جیسے پہلے انسانوں کی آبادی وہاں سے منتقل کرکے کوئی دوسری انسانی آبادی وہاں لاکر بسادی گئی ہو۔ ہرانسان احساسِ ذمہ داری، خدا کے سامنے جواب دہی ، حق شناسی اور ادایگی فرض سے سرشار اور پورا معاشرہ اسی کیفیت سے معمور۔

پوری جماعت اس اصول پر عمل پیرا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ،اور جماعت کا فرد فرد ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً کی تصویر، اپنی زندگی کے گوشے گوشے کا نگراں کہ وہ دین سے باہر رہنے نہ پائے۔ شراب کا حکم نازل ہوا تو چند گھنٹے کے اندر پوری مملکت میں ظاہروباطن نافذ اور ساری سلطنت شراب سے ایسی پاک ہوجائے کہ پھر وفادار مسلمان کے لیے شراب کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔پردے کا حکم نازل ہو تو چند گھنٹے کے اندر اندر ہر ہربالغ عورت مستور ہوجائے۔ نبیؐ کی آواز سے بلند تر آواز کرنے کے نتیجے میں اعمال ضائع ہونے کا خطرہ یاد دلایا جائے تو بڑے بڑے بلندآواز صحابہؓ سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے اور جن کی فطری آواز بلند ہو وہ روئیں کہ ہمار ے اعمال ضائع نہ ہوگئے ہوں۔ خلافت کے لیے جوڑتوڑ اور سازش تو دُور کی بات ہے۔ ابوبکرؓ صدیق کو خلیفہ بنا ڈالا گیا تو وہ روتے تھے کہ کاش اس ذمہ داری کے مقابلے میں مَیں پرندہ ہوتا کہ آخرت میں اُمت ِ محمدی کی جواب دہی مجھ پر نہ ہوتی۔ میں گھاس کا تنکاہوتا کہ تنور میں جلایا جاتا اور خدا کے ہاں بازپُرس سے بچ جاتا۔ خلیفہ کو پانی طلب کرنے پر کسی نے شہد پیش کردیا تو اس بات پر روپڑے کہ کہیں دنیا مجھ سے نہ لپٹ جائے۔ امیرالمومنینؓ کو نفس کی بڑائی کا ڈر ہوا تو منبر پر چڑھ گئے اور کہا:’’عمر وہی تو ہے جو اپنی خالہ کی بکریاں مکہ کی وادی میں چرایا کرتا تھا‘‘۔ حضرت علیؓ ڈاڑھی ہاتھ میں لے کر رویا کرتے اور کہتے کہ: ’’اے دنیا!میں تجھے طلاق دے چکا، مجھ سے دُور رہ، تیرا آغاز شیریں اور تیرا انجام حسرت و یاس ہے‘‘۔

غرض وہ انقلاب جو ۲۳سال میں برپا ہوا، جس کے لیے حضور اکرمؐ نے آٹھ سال کی مدت میں ۲۷غزوات کیے۔ گویا تقریباً ہرسال میں تین بار جہاد اور جس کے لیے حضوؐر نے اتنی سی مدت میں ۵۵ جہادی لشکر اپنے ساتھیوں کی سرکردگی میں روانہ کیے۔ جس انقلاب کے دوران حضوؐر ہرلمحہ مستعد اور تیار رہے، جس میں مدنی زندگی کی کش مکشِ جہاد میں ہرچند دن کے بعد ایک مہم لازماً درپیش رہی اور یہ آٹھ سالہ زندگی پوری جنگی کیمپ کی سی زندگی بن کر گزری۔ اخلاق و اعمال و کردار کا، عادات و اطوار کا، ظاہروباطن کا، معمولاتِ زندگی اور پوری انسانی قلب ِ ماہیت کا یہ انقلاب ایسی ہی زندگی میں رُونما ہوا جس میں آٹھ سال کے پورے عرصے میں ہر۳۵دن کے بعد کسی نہ کسی دشمن کی طرف سے کوئی نہ کوئی جنگی مہم درپیش ہوتی تھی۔ دن کو جنگی تیاریاں اور لشکروں کی روانگی اور راتوں کو چوکی پہرے اور مشورے ہوتے تھے۔ ان حالات میں اللہ کی اس زمین پر حضوراکرمؐ نے اللہ تعالیٰ کی خالص تائید اور نصرت سے ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔

انسان سوچتا ہے کہ جس آٹھ سالہ مہماتی زندگی میں تقریباً ہرمہینے میں ایک جنگ درپیش ہوتی ہو اس میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہوگا، لیکن مؤرخین نے حضور اکرمؐ کے ساتھیوں اور فریق مخالف کے اس جنگی انقلاب کا افرادی نقصان کے لحاظ سے جو نقشہ پیش کیا ہے [اس سے یہ ثابت ہوتا ہے] کہ اس حیرت انگیز اسلامی انقلاب میں کل انسان جو کام آئے ہیں وہ صرف ۹۱۸ ہیں.... کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیرخونی انقلاب (bloodless revolution) بھی آج تک دنیا میں کبھی کوئی برپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہروباطن ہی بدل جائے، معاشرہ سر سے پا تک تبدیل ہوجائے اور اس کی قدریں تک بدل جائیں۔ نظامِ مملکت اور نظامِ معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائیں اور ۸۲جنگوں میں صرف ۹۱۸؍افراد کام آئیں۔

اس انقلاب نے انسانی تاریخ پر وہ خوش گوار اثر ڈالا ہے کہ پھر اس کے بعد ہی انسان سمجھ سکا ہے کہ وہ انسان اور اشرف المخلوقات ہے اور زمین پر وہ ایک ذمہ دار مخلوق اور خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کے بعد ہی انسان کو کائنات کی حقیقت سے آگاہی ہوئی ہے اور اس نے کائنات اور اس کی ماہیت اور اس کے مالہ وما علیہ پر غور کرنا اور اسرارِ فطرت کے انکشاف اور علومِ طبعی کے رُموز کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے حضوؐر نے جو نظام قائم فرمایا اس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی انسانی سینوں میں گونجتی ہیں۔ اس کے دیے ہوئے اخلاق،  اس کا عطا کردہ تہذیب و تمدن، اس کی فراہم کردہ اخلاقی قدریں، انسان کے لیے اس کا دیا ہوا  نظامِ زندگی فی الحقیقت ہلاکت خیز، ہتھیاروں کی بہتات کے درمیان اجررحمت کا سایہ ہے۔ یہ نظام لرزاں و ترساں انسانیت کے لیے واحد پناہ گاہ، انسانیت کے لیے فخرومباحات کا واحد ذریعہ، انسان کا زمین پر واحد قیمتی سرمایہ اور شرفِ انسانیت کے ماتھے پر جھومر ہے۔ صرف یہی ایک نظام ہے جو اپنی ساری عملی تفصیلات کے ساتھ اس طرح موجود ہے کہ اسے سرعام پڑے ہوئے خزانے کی طرح ہروقت اُٹھا کر کاروبارِ زندگی میں لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ہردم زندہ، پایندہ اور تابندہ تر ہے اور انسانیت کے جدید ترین مسائل آج بھی اسی طرح حل کرسکتا ہے جس طرح اس نے اپنی آمد پر حل کردیے تھے....اس انقلاب نے انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنایا اور عمل و کردار میں اسے فرشتہ سیرت بنادیا اور یہ کام صرف ۲۳سال کی مدت میں سرانجام پایا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے والی سراپا رحمت ہستی کو اب ہم خاتم النبیینؐ اور رحمۃ للعالمینؐ نہ کہیں تو پھر کیا کہیں! (رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب، ص ۶۵۳-۶۶۰)