سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


سوال : (مجلس میں ایک صاحب کہنے لگے) مولانا! اسلام کے پاس بے شک ایک ’تھیوری‘ (نظریہ) تو موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پر Practice (عمل درآمد) بھی ہوسکتی ہے؟

جواب :جناب، آپ مطالعہ فرمایئے تو آپ کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ اسلام کے پاس جو Theory(نظریۂ حیات) ہے، اس سے زیادہ قابلِ عمل نظریہ آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔ جو نظریہ Practicable (قابلِ عمل) نہ ہو وہ تو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہوتا ہے۔ کروڑوں انسان اسے چودہ سو سال تک سینوں سے لگائے نہیں رکھ سکتے۔ اگر اسلام کو کوئی قابلِ عمل نہیں سمجھتا تو یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے، جو بصیرت کے نُور سے خالی ہیں۔ فرد کی اس کمزوری سے اس نظریئے کی ابدی صداقتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔

’قرآن و سنت کا مطالعہ ڈوب کر کیجیے۔ اس مطالعے اور غوروفکر سے آپ کو اسلام کی روح دکھائی دینے لگے گی۔ قرآن کی آیات پہ غور کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ فرمایئے اور اسلام کے اوّلین معاشرے میں صحابہ کرامؓ کی پاک باز زندگیوں کا مطالعہ کیجیے۔  آپ خود بخود اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اسلام کے پاس اس کا اپنا ضابطۂ اخلاق ہے، جو بے مثال ہے۔ ایک بے نظیر سیاسی نظام ہے اور ایک لاجواب معاشی نظام ہے۔ اس کے دامن میں ہرزمانے کے ہرمسئلے کا بہترین حل موجود ہے۔ اسلام نے جو کچھ پیش کیا، حضور علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اس پر عمل فرمایا۔ پھر آپؐ نے ایک بہترین اور مثالی معاشرہ انھی نظریات پر تعمیر فرماکر اس بات کا عملی ثبوت مہیا فرما دیا کہ اسلام محض نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی درجے کا عملی دین ہے۔

اسلام کی عالم گیر اور ابدی صداقتوں کی مثال سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے جب باجماعت نماز ادا کی جارہی ہو، اسے دیکھیے۔ اخوت، اتحاد اور یگانگت کا کیسا شان دار مظاہرہ ہوتا ہے۔ خدا آپ کو حج پر جانے کی توفیق بخشے تو وہاں پہ دیکھیے، جہاں مسلمانوں کی ’کل عالمی برادری‘ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کتنے مختلف ملکوں کے انسان وہاں یکجا ہوتے ہیں۔ کتنے مختلف رنگ ہیں، کتنی مختلف زبانیں ہیں مگر نہ زبان و نسل کا کوئی تنازعہ ہے، نہ قامت و رنگ کا کوئی امتیاز…سب ایک ہی جذبۂ توحید سے سرشار ہیں۔ شاہ و گدا ایک ہی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ کیا نسلی امتیاز کے خلاف اس سے بہتر ضابطہ دُنیا کا کوئی اور نظام پیش کرسکتا ہے؟


لیڈرشپ کی تیاری

سوال : مسلم ممالک میں لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟

جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی، اس کو زندگی کے ہرشعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے تو اس طرح فطری ارتقا کے نتیجے میں مسلم ممالک میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلم ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعماری قوتوں کی پشت پناہی اور مسلسل سرپرستی کی بدولت، یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ قابض طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا تو آخرکار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے ہرملک میں آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔ (ہفت روزہ آئین، اور ایشیا

اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دُعامانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے، مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں،اُنھی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کردے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ ’’حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بَر لائیں گے تو بَر آئے گی‘‘۔

یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے، جب کہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو، اور عین اس کی موجودگی میں اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جارہی ہوں۔

پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اُس وقت پہنچ جاتی ہے، جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جارہی ہو، خود بار بار اُس کو سمجھائے کہ مَیں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو اُن کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجو د یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ ’’میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا‘‘۔

اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ’’مجھے پکارو، تمھاری دُعائوں کا جواب دینے والا میں ہوں، انھیں قبول کرنا میرا کام ہے‘‘۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۱، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۲۹، ۳۰)

سوال : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی کام میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ملتا ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی مطمئن رکھے؟

جواب :اگرکوئی شخص دین کا کام کرتا ہے اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے، تو اس کا ایسے سوالات اُٹھانا غلط ہے۔ نیکی، اللہ سے اجر پانے کی اُمید پر کرنی چاہیے نہ کہ کسی کریڈٹ کے لیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کوئی کام دُنیاوی اغراض کے لیے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کے کرتی ہے۔جماعت کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اگر کوئی شخص کریڈٹ کا سوال اُٹھاتا ہے تو وہ گویا ہماری پوزیشن یہ بناتا ہے کہ ایک فریق تو کریڈٹ دینے والا ہے اور دوسرا کریڈٹ پانے والا۔ حالانکہ جماعت ہرگز اس بات کی مدعی نہیں ہے کہ اس کے کسی کو کریڈٹ دینے سے اسے کریڈٹ حاصل ہوگا اور نہ دینے سے نہیں ہوگا۔

مزیدبرآں اگر کوئی شخص کسی دینی فریضے کی ادائیگی میں ملک کی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ تعاون کرتا ہے، تو اسے بجا طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو جانتا ہے کہ کون یہاں کس نیت سے کام کر رہا ہے اور وہی صحیح اجر دینے والا ہے۔ (آئین، ۲۹مئی ۱۹۷۰ء)

وہی ہے جو آسمان سے تمھارے لیے رزق نازل کرتا ہے۔

’رزق‘ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دُنیا میں ملتے ہیں، اُن سب کا مدار آخرکار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کرکے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمھاری سمجھ میں آجائے کہ نظامِ کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جارہا ہے، وہی حقیقت ہے۔

یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا تھا، جب کہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و بُرودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے، جب کہ وہی اَزلی و ابدی خدا اس کو جاری رکھے اور اس انتظام کو قائم کرنے والا لازماً ایک حکیم و رحیم پروردگار ہی ہوسکتا ہے، جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا، اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔

اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اُس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی کا شریک ٹھیرائے۔ (’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۶، اگست ۱۹۶۴ء، ص۲۱-۲۲)

سوال :  جب انسان کی تخلیق میں ہی چھچھورا پن ہے تو وہ سلیم الطبع کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب :انسان کے اندر چھچھورا پن تو کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ یہ منجملہ انھی اوصاف کے ہے جو اس کی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسان سے انھی عادات و خصائل کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہیں۔

اب انسان کی آزمایش دراصل اس بات میں ہے کہ وہ اپنے فطری اوصاف میں سے کن اوصاف کو اُبھارے اور کن اوصاف کی حوصلہ شکنی کرے۔ اپنے اندر بھلائیاں پرورش کرنے کا جو طریقہ اللہ کی شریعت نے بتایا ہے، اگر اس کے مطابق انسان چلتا رہے تو اس کے نفس کی خرابیاں کم ہوتی جائیں گی اور اس کے اندر اعلیٰ صفات تقویت پکڑ لیں گی۔

انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں ماحول مؤثر کردارادا کرتا ہے۔ اگر خدا شناس اور پاکیزہ ماحول اسے میسر آجائے تو ہلکی سی جدوجہد بھی اس کے اندر بہترین اوصاف کو پرورش دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر خدا نا شناس اور غیراخلاقی ماحول اسے ملے تو بُرے اوصاف کے پھلنے پھولنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور اعلیٰ صفات کو پرورش کرنے میں اسے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شرک اور دوسرے گناہ

سوال :  شرک بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوگا۔ کیا اس سے خودبخود یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دوسرے جرم و گناہ بغیر توبہ کیے معاف ہوسکتے ہیں، جیسے چوری، ڈکیتی، زنا اور فساد فی الارض وغیرہ ؟

جواب :شرک سے اگر کوئی شخص باز نہ آئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے___ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے بس ہے بلکہ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ’میں سارے گناہوں کو بخش دوں گا، لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا‘۔ یہ گناہ ایسا ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے۔ رہے دوسرے گناہ تو ظاہر ہے کہ ان کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے کہ یہ یہ گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ یہ گناہ معاف نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بلاتخصیص یہ اعلان فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کسی کو کیا اختیار ہے کہ ان میں درجہ بندی کرتا پھرے۔

جاننا اور ماننا

سوال : آپ نے فرمایا ہے کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہیں، لیکن مانتے نہیں ہیں‘‘۔ کیا صورتِ حال یہ نہیں ہے کہ جو مانتے نہیں ہیں وہ دراصل جانتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ جان جاتے تو ضرور مان لیتے؟

جواب :دراصل جاننے اور ماننے میں ایک لطیف فرق ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گےکہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کا منکر ہے، لیکن جب آپ اس سے بات کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منکر نہیں ہے، وہ ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرتا ہے، جو اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن وہ اسے صاحب ِ ارادہ، صاحب ِ تدبیر و تنظیم اور صاحب ِ قانون و شریعت تسلیم نہیں کرتا۔ وہ خدا کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، کہ وہی اس کی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا اور وہی اسے راہِ ہدایت دکھانے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص یہ بات تو جانتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسے مانتا نہیں ہے۔ بس جاننے اور ماننے میں یہی بنیادی فرق ہے۔(۱۹۶۸ء، درس قرآن کے بعد)

لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے، اور اس نعمت کا ملنا اُس کے مقبو لِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت یا دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جس کو جو کچھ بھی دیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش کے طور پر دیا جارہا ہے۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔

اسی طرح یہ دُنیوی نعمتیں مقبولِ بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ دُنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں، جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور بہت سے بُرے آدمی، جن کی قبیح حرکات سے ایک دُنیا واقف ہے، عیش کر رہے ہیں۔

اب کیا کوئی صاحب ِ عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بناسکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے؟(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۵، جولائی ۱۹۶۴ء، ص۱۷-۱۸)

دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے، ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں، جس طرح مبداء فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب، جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے، اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

بخار [بخارات] کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے، اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں، جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے، تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت ِبخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں، اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔

یہ سنتُ اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں، وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳ (الفتح  ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے، اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے، بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے، اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔

بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں، ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں، ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں، اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجَّار کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے، اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش، کتنی پریشانیوں، کتنی ٹھوکروں، اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟

غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے، ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں، ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔

نفس کی قربانی

دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں، اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے، اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ  سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے، قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے، اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں، یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں، لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں، ان دل چسپیوں، ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں، بلکہ حق ہے، اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے، اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔

یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)، یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ  کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان، مال، اولاد، رشتہ دار،دوست،وطن، قوم،عزت، شہرت، ہردلعزیزی، لذت و مسرت، عیش و آرام، عقائد و افکار، حریتِ خیال و آزادیِ عمل، غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے، اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو، تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔

حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو، وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ۲:۱۶۵)۔جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت، حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو،وہی بت ہے، صنم ہے، بنائے شرک و کفر ہے، نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔

غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے، انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام، لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں، بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے، اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۝۰ۭ (الاعراف ۷:۳)جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔

یہ ’اسلام‘ ،یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے، اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں، خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں، فرائض و طاعات ہیں، حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں، مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو، لذتوں کا خون کرو، فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات، اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے، فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے، اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔

اسلام __ حق پر فدا ہوجانے کا نام !

جیساکہ عرض کیا گیا، یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے، یہ پورا اسلام نہیں ہے،بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں، معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں، بلکہ اسلام کی اصلی روح   یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو، مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں، رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں، اور دوسری طرف باطل ہو، اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو، لطف و مسرت ہو، اور ہر طرح کے فائدے ہوں، تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے، اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶) ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے، اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔

اگر کسی وقت خود اپنے باپ، بھائی، اہلِ خاندان اور دوست، حق کے دشمن ہوجائیں تو مسلمان وہی ہے جو حق کے لیے ان سب کو چھوڑ دے اور کسی سے تعلق نہ رکھے:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۲) تُو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے، چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔

اگر کسی وقت قوم اور وطن کی حق سے دشمنی ہوجائے تو مسلمان وہی ہے جو حق کی خاطر قوم سے قطع تعلق کرلے اور وطن کو خیرباد کہہ دے، ورنہ اس کو منافق کہا جائے گا خواہ وہ کیسا ہی نمازی و پرہیزگار ہو:

فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝۰ۭ (النساء۴:۸۹) تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔

اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے، اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں  ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی، اس کا دعویٰ ٔ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا    عابد و زاہد کیوں نہ ہو:

وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِـاِذْنِ اللہِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۶۶ۙ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا ۝۰ۚۖ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی، اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔

غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو، جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال، یا اولاد، یا ملک و قوم، یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو، اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔

انبیا ؑ و صالحین کی قربانی

قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا ؑ اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دُہرایا گیا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں، سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ، رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا۝۲۶ (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے، بیوی ہلاک ہوتی ہے، مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔

حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے، رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِـمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ  اِلَیْہِ ج (یوسف ۱۲:۳۳)۔

فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے  ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۲۱ۙ رَبِّ مُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۱۲۲ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۝۰ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۷۲ۭ   (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔

اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے، رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا (الکہف ۱۸:۱۴)۔اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار، عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں۔

امامِ انسانیت حضرت ابراہیم ؑ کا اسوہ

ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں، اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ۝۲۶ (الزخرف۴۳:۲۶)۔ قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا، قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ،اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ  تعلق نہیں ، ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی، تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو، كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ۶۰:۴)۔

یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا، ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں، مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ ٔعشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔

اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں، تب بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی، اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۱(الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱)، اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا، اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے،  قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ  فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ  وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ (الممتحنہ۶۰:۴)۔

عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل، جانور پر چھری چلانا، اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے، بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اُس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  محبوبِ حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے، ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں، ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔

 بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا، بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی، اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو، ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے:

لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ (الحج ۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۳۴ء)

سوال: کیا حج کے موقع پر پردہ ضروری نہیں ہے؟

جواب: دراصل احرام کی حالت میں چہرے کو اس طرح نہیں ڈھانپنا چاہیے کہ کپڑا جِلد کو چھوتا رہے۔ بہت سی خواتین نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ چہرے کے آگے پنکھا رکھ لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جاتا ہے۔ بعض گھونگھٹ اس طرح نکال لیتی ہیں کہ چہرہ چھپ جائے اور کپڑا منہ سے نہ لگے۔ خود اَزواجِ مطہراتؓ جب حج کو جاتی تھیں، تو جہاں مرد نہیں ہوتے تھے وہ چہرہ کھول دیتی تھیں، جہاں مرد ہوتے وہاں چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ مزیدبرآں بعض موقعے ایسے بھی ہوتے ہیں جب یہ اہتمام نہیں کیا جاتا، مثلاً طواف کے دوران اگر منہ کھلا رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہاں مہلت نہیں ملتی کہ لوگ عورتوں کو دیکھتے رہیں۔

سوال: کیا شرعاً اس دلیل میں وزن ہے کہ دونوں جنسوں(Genders) کے مل کر پڑھنے سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور معیارِ تعلیم بلند ہوتا ہے؟

جواب: مخلوط تعلیم سے دونوں جنسوں میں تعلیمی مسابقت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ غیرتعلیمی اور غیراخلاقی موانست و ملامست کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جوعلم و اخلاق کے لیے سمِ قاتل ہے۔

سوال: چونکہ مسلم خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے، تو کیا اس سے مخلوط جدوجہد کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے؟ اس لیے کیا تعلیم بالخصوص فنی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم دی جاسکتی ہے؟

جواب: یہ بات غلط ہے کہ مسلمان خواتین نے قرنِ اوّل میں مردوں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ کچھ عورتیں بعض اوقات ساتھ ہوجاتی تھیں اور اپنے محرم مردوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتی تھیں۔ ان میں سے بعض نے ناگزیر حالات میں حرب و ضرب میں بھی حصہ لیا ہے، مگر یہ سب استثنائی صورتیں ہیں اور حالاتِ جنگ پر، عام شہری زندگی کے دوران میں تعلیمی مشاغل کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔(تصریحات)

اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔

مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔

حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔

یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔

نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔

ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔

  • یک رُخا پن:مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا یک رُخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہرچیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرے رُخ کو نہیں دیکھتا۔ ہرمعاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیروقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی بُرائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتاہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے اور کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے، اور کامیابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہرقسم کے ذرائع وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔
  • انتہا پسندی:یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رُک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہاپسندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلاف رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے ، اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہرمخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہناکر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روزبروز اسے دوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔

  • اجتماعی بـے اعتدالی:ایک آدمی یہ رَوش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا، اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج جمع ہوجائیں، تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن، ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے، اور اس کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے، جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔

جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔

قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

اِیَّاکُمْ  وَالْغُلُوَّ  فَاِنَّمَا ھَلَکَ  مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ  بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔

ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ  بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:

  • یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا  وَبَشِّـرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا (مسلم) سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلائو۔
  • اِنَّمَا  بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ  وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِرِّیْنَ (بخاری) تم سہولت دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔
  • مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ بَیْنَ اَمْرَیْنِ قَـــطُّ  اِلَّا أَخَذَ  اَیْسَرَھُمَا  مَالَمْ  یَکُنْ  اِثْـمًا (بخاری و مسلم) کبھی ایسا نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دومعاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو اور آپؐ نے ان میں سے آسان ترین کو نہ اختیار کیا ہو، اِلا یہ کہ وہ گناہ ہو۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ (بخاری و مسلم) اللہ نرم خو ہے۔ ہرمعاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے۔
  • مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحَرْمُ الْخَیْرَ (مسلم) جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے بالکل محروم ہوگیا۔
  • اِنَّ اللہَ رَفِیْقٌ یُـحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِی عَلٰی مَا سِوَاہُ (مسلم) اللہ نرم خُو ہے اور نرم خُو آدمی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا۔

ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔

  • تنگ دلی:مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے ’تنگ دلی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اسے قرآن میں ’شحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے، جو اس سے بچ گیا: وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۶ (التغابن ۶۴:۱۶)، اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۝۰ۭ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۲۸ ( النساء ۴:۱۲۸)۔ [نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہوجاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آئو اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمھارے اس طرزِعمل سے بے خبر نہ ہوگا۔]

اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر]  جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔

اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔

کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔

خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔

جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)

عام انسان اور رسول میں فرق

سوال: ایمان بالغیب کے حوالے سے عام انسان اور رسول میں کیا فرق ہے؟

جواب: ایمان بالغیب کے لحاظ سے عام انسان اور رسول میں یہ فرق ہے کہ عام انسانوں کو اللہ تعالیٰ وہ علم نہیں دیتا جو رسول کو دیتا ہے۔ اس وجہ سے عام انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ رسول پر ایمان لائیں، اور جو علم رسول انھیں دیتا ہے اسے تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کریں۔ ایمان بالغیب عام انسانوں کے لیے اور رسولوں کے لیے علم بالشہادۃ ہوتا ہے۔(آئین، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۶ء)

                          


                       

والدہ کی خدمت اور شادی

سوال: بوڑھی والدہ کی خدمت کے خیال سے اگر شادی نہ کی جائے تو شریعہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: شادی کرنا فرض تو نہیں ہے، ہاں سنت ہے، اور ایک بڑی اہم سنت ہے۔ اگر شادی نہ کی جائے تو اس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی دائروں میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں تو ان کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے۔ لیکن محض اس بنیاد پر شادی نہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ شادی کرنے کے بعد آپ اپنی والدہ کی خدمت اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

سوال: ایک ملازم روزہ رکھتا ہے، مگر اس کا مسلمان مالک بلاعُذر شرعی روزہ نہیں رکھتا۔ کیا ملازم کا اپنے مالک کے لیے کھانا پکانا اور کھلانا درست ہے؟

جواب: ملازم اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ روزہ ترک کرنے اور ملازم سے کھانا پکوانے کا گناہ مالک کے ذمے ہے۔افسوس کہ ایسے مسلمان آقائوں اور مشرکین و کفّار آقائوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا۔ البتہ ملازم ایسے آقا کو توجہ ضرور دلائے کہ وہ روزہ رکھے۔

روزہ اور نماز

سوال: بعض لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ایسی صورت میں روزے کا اجر انھیں مل جائے گا؟

جواب: میرے علم میں ایسے آدمی کے روزے کا کوئی اجر نہیں ہے، جو نماز ترک کردے اور روزے رکھے۔


’انذار اور ’خشیت‘

سوال: ’انذار‘ اور’خشیت‘ میں کیا فرق ہے؟

جواب: ’انذار‘ کے معنی ہیں ڈرانا اور ’خشیت‘ کے معنی ڈرنا۔ لیکن ڈرانا، دہشت زدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنبیہ [وارننگ] کے لیے ہے۔ ’خشیت الٰہی‘ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی عظمت و جلال سے متاثر اور مرعوب ہوکر اس کی رضا طلب کی جائے۔

سوال : برادری کے نام پر ووٹ طلب کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟قطع نظر اس کے کہ اُمیدوار بھلا ہو یا بُرا؟

جواب:اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگر برادری کے نام پر ووٹ دینا یا لینا جائز ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے جو لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، وہ آپؐ کے رشتے دار ہی تو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے برادری کے نام پر تعاون کی اپیل کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کا کیا سوال، آپؐ نے ان کے خلاف تلوارکھینچنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

جماعت اسلامی سے قطع نظر، ووٹ دینے والے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ جسے وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اسلام کے اصولوں کا پابند بھی ہے یا نہیں؟ اور وہ کامیاب ہونے کے بعد خدا کے دین کی خدمت کرےگا یا اپنے نفس کی خدمت میں لگ جائے گا؟ کیا اس کی ظاہری زندگی اس کے دعوئوں کی شہادت دے رہی ہے؟ جو آدمی اس کا اہل نظر آئے، ووٹ دینے والے کو چاہیے کہ وہ اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، اور جو آدمی اس کا اہل نہ ہو تو خواہ وہ ووٹر کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسلام اس کے حق میں رائے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام، دوستی اور برادری کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ حق اور باطل کی بنیاد پر دوٹوک فیصلہ دیتا ہے۔(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۵؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)