سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


انسانی تاریخ سے مثالیں دینے کے بعد سورۂ ذاریات کے آخر میں آخرت کے حق میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، اور غوروفکر اور تدبر کی دعوت دی جارہی ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۴۷) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

عربی زبان میں ید کے معنی صرف ہاتھ کے نہیں ہوتے بلکہ یہ لفظ طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں معاملہ فلاں شخص کے ہاتھ میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی مٹھی میں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اختیار اور طاقت میں ہے۔

وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍکا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی طاقت سے پیدا کیا ہے۔ وَّ اِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ’’اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔ موسِعون کے کئی معنی ہیں۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ یہ کام کرسکیں۔ دوسرے معنی موسِع کے وسیع کرنے اور پھیلانے والے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کا یہ مطلب ہوسکتا تھا کہ ہم وسیع ذرائع رکھنے والے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اس کا ایک اور تصور بھی پیدا ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات صرف یہی نہیں کہ ایک حالت پر جم کر رہ گئی ہے بلکہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ پہلے نظریے کے مطابق اس کے اندر وسعت کا مفہوم تھا۔ اگر قدیم زمانے کا نظریہ اپنی جگہ صحیح ہو تو بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اس آسمان کو بنایا ہے، اس کو تخلیق کیا ہے، اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔

یہاں اس کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کا نظام درہم برہم کرنے کے بعد دوبارہ اس کو نہیں بنا سکے گا ، اور انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ ان کو پیدا نہیں کرسکے گا، انسانی جسم جب زمین میں بوسیدہ ہوکر ،اس کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا تو اس کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر نہیں ہے، جو شخص یہ خیال رکھتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ کائنات کا نظام کس طرح بنا ہے؟ کس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اسے بناسکے؟ اور جس نے اسے بنایا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ انسان کو پیدا کرسکے۔ اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ دوبارہ اس نظام کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے ایک دوسرا نظام بنادے۔

بَنَیْنٰھَاسے مراد صرف ایک عالم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پورا عالمِ بالا ہے جو ہماری زمین کے اُوپر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم بالا سے مراد پوری کائنات ہے۔ چنانچہ جس کائنات کو ہم نے بنایا ہے ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔ ہم یہ طاقت رکھتے تھے کہ اس کو بنایا اور ہم یہ طاقت رکھتے ہیں کہ پھر اسے بنائیں۔

وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ o(۵۱ :۴۸) زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔

یعنی زمین کو بچھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ زمین جس طرح سے بنائی گئی ہے، جس طرح سے اس کے اُوپر ایسے مادوں کی سطح جمائی گئی ہے جس کی بدولت اس میں نباتات پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح اس زمین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس پر انسان اور حیوانات وجود میں آسکیں۔ پھر یہاں ہوا کا انتظام کیا گیا ہے، درجۂ حرارت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا ہے، جس طرح نظامِ شمسی میں، اسے سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، جس طرح اس زمین پر جگہ جگہ پہاڑ   پیدا کیے گئے ہیں، جگہ جگہ میدان بنائے گئے ہیں اور دریا جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سارا نظام اگر آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ کیسے اسے بنایا گیا ہے اور اس کرئہ خاکی کو کس طرح اس قابل بنایا گیا ہے کہ اس کے اُوپر زندگی وجود میں آسکے تو اسے اندازہ ہوگا کہ کتنے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر جو موجودات ہیں، اس نے ان کو پیدا کیا اور انھیں باقی رکھنے کا انتظام کیا ہے۔ جتنی مخلوقات زمین میں آتی جاتی ہیں ان کے رزق کا سامان زمین سے نکلتا چلا آتا ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی ہے اس کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ اور جسم میں رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرکے وہ سروسامان پیدا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمدن اور تہذیب کو ترقی دے سکے۔

آدمی میں خدا نے اگر یہ صلاحیت پیدا کی تھی کہ وہ کسی وقت جاکر موٹر بنا دے تو اس نے زمین کے اندر پٹرول بھی مہیا کر رکھا تھا۔ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنایا ہے اگر آدمی اس کو دیکھے تو اسے واقعی معلوم ہوگا کہ بڑا ہی عظیم الشان حکیم تھا اور بڑی ہی زبردست قدرت رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا تھا جس نے اس زمین کو بچھایا اور اس قابل بنایا کہ اس میں مختلف مخلوقات پیدا ہوسکیں۔

اس کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمق یہ سمجھتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان زمین بنائی ہے اور عالم بالا میں اتنی عظیم الشان کائنات بنائی ہے وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا،  اس سے زیادہ تنگ دماغ کا آدمی اور کون ہوسکتا ہے، الا یہ کہ وہ ضد میں مبتلا ہو یا یہ کہ اس کی عقل اتنی تنگ ہو کہ وہ یہ تصور نہ کرسکے کہ جس خدا نے اتنا کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرسکتا ہے۔

وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo(۵۱ :۴۹) اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کی پوری کائنات میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ ہر طرف آدمی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں زوجیت کا قانون عمل پیرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کے مقابلے میں ایک دوسری چیز ایسی رکھی جائے کہ ان کا جوڑ بنے اور ان کے ملنے سے نتائج پیدا ہوں۔

انسانوں میں عورت اور مرد کا جوڑا بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت نسلِ انسانی چل رہی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا گیا ہے جس سے ان کی نسلیں چل رہی ہیں اور ہرنوع کو باقی رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نباتات میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے بنائے ہیں، جن کے ملنے سے ان کی پیداوار ہوتی ہے۔ مختلف عناصر میں ایک دوسرے کا جوڑ ہے اور ان کے ملنے سے ہنگامۂ وجود نظر آرہا ہے۔ یہ سب مختلف عناصر کے ملنے سے ہے۔ بعض عناصر (elements) کے ملنے سے اور جوڑ لگنے سے ہی نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض عناصر آپس میں نہیں ملتے تو نئی چیزیں نہیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نیگٹیو اور پازیٹو ایک دوسرے کا جوڑ ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اس پوری کائنات کو اگرآدمی دیکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ اس قادرِ مطلق اور حکیم نے اس کائنات میں نئی نئی چیزوں کے بننے میں اور بے شمار اشیا کے وجود میں آنے کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ قانون زوجیت ہے۔ مختلف چیزوں کو ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے جن کے ملنے سے نئی نئی صورتیں وجود میں آتی ہیں، نئے نئے انتظام پیدا ہوتے ہیں۔

لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس بات پر غور کرو تو تمھیں خود معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ موجودہ زندگی کا بھی کوئی جوڑ ہونا چاہیے۔ دنیا کی یہ موجودہ زندگی ایک جنس ہے۔ اگر اس کا دوسرا جنس آخرت نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہوکر رہ جائے۔ تمھیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ قانونِ زوجیت خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ایک آخرت ہو، ورنہ خود یہ دنیا بے نتیجہ رہ جائے گی۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo(۵۱ :۵۰) پس دوڑو  اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔

یہ تمام دلائل بیان کرنے کے بعد اب فرمایا ہے کہ پس اللہ کی طرف آئو۔ مطلب یہ ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوتا ہے تو اللہ سے بے نیاز اور اللہ کا باغی بنتا ہے۔ آدمی آخرت کا انکار بھی اس بنا پر کرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا اور جب آخرت کا انکار کرتاہے تو پھر اللہ کا مطیع نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔

انسان کو جو چیز آخرت کا انکار کرنے پر آمادہ کرنے والی ہے، وہ کیا ہے؟

اگر ایک انسان محض عقل کا بندہ ہو اور اس کے ساتھ خواہش لگی ہوئی نہ ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی یا نہیں ہوگی۔ لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تووہ عقل کی بنا پر نہیں کہتا۔ دنیا کا کوئی فلسفہ اسے یہ نہیں بتاتا۔ کوئی سائنس اسے یہ نہیں بتاتی کہ آخرت نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہوگی تو وہ اس کی کوئی عقلی یا سائنسی دلیل نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آدمی یہاں تک جاسکتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آخرت ہوگی۔

اب جب وہ یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہوگی تو دراصل اس کا جی نہیں چاہتا کہ آخرت کے ہونے سے اس پر جو اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کو وہ قبول کرے۔ پھر اخلاقی پابندیوں کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس قانون کو مانے جو اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس قانون کو ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو مانے۔ اس وجہ سے انسان خدا کی بندگی نہیں کرنا چاہتا اور اس کا مطیع بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور جب وہ آخرت کا انکار کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک حالت پر نہیں ٹھیرتا۔ پھر وہ مسلسل گرتا ہے اور جتنا بھی گرتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔

فَفِرُّوْٓا اِِلَی اللّٰہِ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo، پس دوڑو اللہ کی طرف، میں تمھارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ ’’دوڑواللہ کی طرف‘‘ تو یہ بات خود اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آخرت کو ماننے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے آپ آجاتی ہے، اور آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ ہی انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کیا جا رہا ہے۔ رسولؐ اللہ فرما رہے ہیں کہ:دوڑو اللہ کی طرف۔ میں تو اللہ کی طرف سے تمھارے لیے صاف صاف متنبہ کرنے والا ہوں، یعنی ڈرو اس وقت سے جب وہ آئے۔ قبل اس کے کہ وہ آخرت برپا ہوجائے اور مرنے کے بعد تم جاکر دیکھو کہ جن چیزوں کا تم انکار کرتے تھے وہ یہاں سامنے موجود ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرلو۔

وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ ط اِِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo (۵۱:۵۱) اور نہ بنائو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمھارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

دنیا میں انسان کی طرف سے اللہ کے ساتھ جو بڑی گمراہی رہی ہے، وہ شرک ہے، دہریت نہیں۔ دنیا میں دہریے پہلے بھی براے نام رہے ہیں، آج بھی براے نام ہیں۔ دنیا میں موجودہ زمانے میں دہریوں کی جو بڑی سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس وقت بھی دہریے ایک فی ہزار بھی ہوں گے۔ اصل بُرائی جس میں انسان مبتلا رہا ہے        وہ دوسرے الٰہ ہیں۔ کہیں دوسرے انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں زندہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا، کہیں مُردہ انسانوں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں تاروں کو الٰہ بنایا گیا ہے، کہیں دریائوں کو الٰہ بنایا گیا ہے،  غرض یہ کہ انسان نے اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بنائے۔ یہی اصل گمراہی ہے۔

اس چیز کا تعلق بھی آخرت کے انکار سے بڑا گہراہے۔ آخرت کا منکر کوئی ایسا سہارا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی دوسری ہستیاں ہوں، تاکہ اگر آخرت ہو جیساکہ انبیاے کرام ؑ اس بات سے برابر مطلع کرتے رہے ہیں، تو وہ اس سے بچ سکے۔ جب سے انسان دنیا میں پایا جاتا ہے، انبیا ؑ بھی آتے رہے ہیں اور انبیا ؑ خبردار کرتے رہے ہیں کہ تمھیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں واقعی دوسری زندگی ہوئی اور وہاں جواب دہی کرنی پڑی تو کیا کریں گے؟ یہ چیز اس بات کا جواز بنتی رہی کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی بنائے جائیں جو انسان کا سہارا بنیں۔ ان کی بندگی کی جائے اور وہ انھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں۔ گویا آخرت کا انکار اس چیز کا ایک بہت بڑا سبب رہا ہے، واحد سبب نہیں ہے، دوسر ے اسباب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ مت بنائو، میں اللہ کی طرف سے تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔

 کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ  اَوْ مَجْنُوْنٌ o(۵۱ :۵۲)  یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔

اسی طرح (یونہی) کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اس کے پس منظر میں کوئی چیز ہے۔ یعنی پس منظر میں لوگ رسولؐ اللہ کو کبھی ساحر یا جادوگر کہتے تھے اور کبھی مجنون۔کبھی یہ کہتے تھے کہ ان کے اُوپر  کسی جِنّ کا سایہ ہے، یہ دیوانے ہوگئے ہیں (معاذاللہ)اور اس وجہ سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کوئی پختہ دماغ شخصیت ہو اور وہ یہ کہے کہ تمھیں مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بعید از عقل آدمی ہی کھڑے ہوکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ فلاں آستانہ جہاں سے ہماری آج تک مرادیں بَر آتی ہیں وہاں کچھ نہیں ہے، اور سارے کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس چیز کا نتیجہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، یا اگر یہ بات نہیں ہے کہ تم جان بوجھ کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا رہے ہو تو  تم دیوانے ہو۔

کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح سے باتیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہر زمانے میں اسی طرح سے ہوتا رہا ہے۔ جو نبی بھی آیا اور اس نے لوگوں کو آکر اس بات سے متنبہ کیا کہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں۔ کوئی ہستی تمھاری قسمت بنانے اور بگاڑنے والی نہیں ہے۔ کوئی دوسری ہستی تمھاری دُعائیں سننے والی اور ان کو قبول کرنے والی نہیں ہے۔ اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، یا یہ دیوانہ ہے۔

اسی طرح جب اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آکر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ’’تمھیں مرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے جانا ہے اور جواب دہی کرنی ہے‘‘ تو جس طرح آج یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ رہے ہیں اسی طرح سے پچھلے انبیا ؑ کو بھی کہتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔

اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o(۵۱ :۵۳) کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتا کرلیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔

اس ایک فقرے میں ایک پوری کی پوری داستان بیان کردی گئی ہے۔ ایک طویل استدلال ہے جو ایک ذرا سے فقرے میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں کچھ طے کیا ہے کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیں گے؟

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں جن انسانوں نے خدا کے رسولوں کے مقابلے میں گمراہی اختیار کی ہے اور اس پر اصرار کیا ہے، وہ ہر زمانے میں ایک ہی طرح سے دلائل کیوں دیتے رہے؟ ہر زمانے میں لوگ ایک ہی طرح سے بات کیوں کرتے رہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اگلوں اور پچھلوں کی کوئی کانفرنس ہوئی ہو اور جس میں یہ طے ہوا ہو کہ جو نبی ؑ بھی آئے گا تو ہم یہ جواب دیں گے۔ نہیں، یہ بات نہیں ہے۔

ظاہر بات ہے کہ فرعون کی قوم اور قریش نے ایک وقت میں جمع ہوکر یہ طے نہیں کیا تھا کہ فرعون کی قوم بھی کہے کہ موسٰی ؑ ساحر ہیں اور قریش کے لوگ بھی کہیں کہ محمدؐ ساحر ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔آپس میں مل کر یہ طے نہیں کیا گیا تھا کہ انبیا ؑ کو یہ جواب دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ مشابہت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ صدیوں پہ صدیاں گزرتی جاتی ہیں، ہزاروں برس گزرتے جاتے ہیں، قوم پر قوم ایسی آتی ہے کہ جس کے سامنے نبی آکر وہی ایک بات کہتا ہے اور وہ اس کے سامنے جواب میں وہی ایک رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍo وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(۵۱ : ۵۳-۵۵) نہیں،بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبیؐ، ان سے رُخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

ابتدا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سردارِ قریش اور ایک ایک گروہ کے پاس جاتے تھے اور جاکر ان کو نصیحت کرتے تھے۔ خاص طور پر آپؐ کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو سمجھاکر درست کیا جائے تاکہ پوری قوم درست ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے منہ پھیرلو تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمھارے اُوپر اب یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کہ یہ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ تم نے ان کو نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی کی۔ نہیں، تم نے حق بات پہنچانے میں اور اپنی بات سمجھانے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ ہمیں تمھاری طرف سے کوئی ملامت نہیں ہے۔انھوں نے سرکشی کا جو فیصلہ کیا ہے، تمھارے اُوپر اس کی کوئی ملامت نہیں ہے۔

وَّذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ،البتہ نصیحت کرو کیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کلمۂ نصیحت سنانا چھوڑ دو، البتہ خاص طور پر اِن لوگوں کو نصیحت کرنے کی اب حاجت نہیں ہے۔ تم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ ایک ایک آدمی تک جاکر اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اب تمھارے اُوپر کوئی ملامت نہیں۔ اب عام نصیحت اور عام دعوت تم پھیلاتے چلے جائو۔ جو ایمان لانے والا ہے، اس کے لیے یہ نافع ہوگی۔ یعنی خاص طور پر بڑے بڑے آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کرنا، ایسی حالت میں، جب کہ دعوتِ عام پہنچ چکی ہو، قطعاً غیرضروری ہے۔ دعوت کے آغاز میں خاص خاص لوگوں کو مخاطب کر کے کہ چونکہ وہ قوم کے سردار ہیں، قوم کے بڑے ہیں، ان کے پاس طاقت اور اقتدار ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہیں، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا درست ہے۔ کیوںکہ اگر وہ سمجھ جائیں تو پوری قوم سدھر جائے گی۔ لیکن  اگر دعوت عام پھیل چکی ہو، عام طور پر معلوم ہوچکا ہو کہ نبیؐ کیا چاہتے ہیں، خدا کے رسولؐ کاہے کے لیے آئے ہیں، خدا کی کتاب کیا تعلیم دیتی ہے اور یہ ساری باتیں پھیل چکی ہوں اور لوگوں کو معلوم ہوچکا ہو، تو اس کے بعد خاص خاص لوگوں کو مخاطب کرنے کی اب حاجت نہیں رہتی۔

اب دعوتِ عام آدمی پھیلاتا چلا جائے۔ اب تم دعوتِ عام پھیلائو کیوں کہ یہ تذکیر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ دعوتِ عام میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون آدمی ایمان لانے والا ہے اور کون ایمان نہیں لانے والا۔ ان میں جو آدمی ایمان لانے والا ہوگا اس کے لیے یہ تذکیر نافع ہوگی، اور جو آدمی ان میں ایمان لانے والا نہیں ہوگا وہ اپنی گمراہی میں پڑا رہے گا۔ دعوتِ عام پھیلانے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اگر وہ گمراہی میں پڑا ہوا ہو۔ اس وجہ سے کہ  اس نے دعوت پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے اور ادا کرتا چلا جا رہا ہے۔

بندگی کی دعوت

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (۵۱ :۵۶) میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔

یہاں خاص طور پر جنوں اور انسانوں کا ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کے اصل معنی تو ہیں بندگی اور اطاعت کے، اور یہ عبادت پوری کائنات کر رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کر رہی ہے۔ سورج، چاند، زمین، آسمان، پتھر اور درخت، غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی بندگی نہ کر رہی ہو۔ اللہ کی بندگی سے باہر جانے والی کوئی چیز اس کائنات میں پائی ہی نہیں جاتی۔ اب خاص طور پر یہ فرمایا گیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد سفلی اور پیدایشی عبادت نہیں ہے، بلکہ اختیاری عبادت ہے۔

جِنّ اور انسان دو مخلوقات ایسی ہیں، کم از کم اس زمین کی حد تک پوری کائنات کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں، جنھیں یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ تمھیں اس کی آزادی ہے کہ اللہ کی بندگی کرنا چاہو تو کرو اور اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو کرو۔ باقی کسی اور مخلوق کو یہ آزادی اور اختیار حاصل ہی نہیں ہے۔ کوئی دریا، پہاڑ اور درخت کافر نہیں ہوسکتا۔ کافر یا انسان ہوسکتا ہے یا جِنّ۔ اس لیے کہ انھیں یہ آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ جہاں تک ان کے اپنے دائرۂ اختیار کا تعلق ہے وہ اللہ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں اور نافرمانی کرنا چاہیں تو نافرمانی کریں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ پیدا تو ہم کریں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی۔ ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم اُن کو رزق دیں اور یہ شکر بجا لائیں دوسروں کا۔ ان کو ہم نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان کے سارے وجود کی پرورش تو ہم کر رہے ہیں، ان کو وجود میں بھی ہم لائیں اور یہ بندگی کریں دوسروں کی اور جاکر ماتھا رگڑیں دوسروں کے سامنے، اور اطاعت کریں دوسروں کی اور قانون مانیں دوسروں کا۔ ہم نے انھیں اس لیے پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس لیے پیدا کیا تھا کہ یہ ہمارے بندے ہیں اور ہماری ہی بندگی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے انھیں اختیار دیا ہے اور یہ اختیار ان کی آزمایش کے لیے ہے۔ یہ ان کے امتحان کے لیے ہے کہ جہاں ہم ان کو اختیارات دیتے ہیں وہاں یہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں یا دوسری ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ اختیار تو انھیں آزمایش کے لیے دیا گیا ہے۔لیکن اس اختیار کا یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ہماری بندگی چھوڑ کر دوسروں کی بندگی اختیار کرلیں۔ ان کو اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے دوسروں کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔

مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ o اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo(۵۱ :۵۷-۵۸) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

یہ بندگی اور اطاعت کا مطالبہ اس لیے نہیں ہے کہ اگر یہ عبادت نہیں کریں گے تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ بھوکا مرجائے گا، یا اللہ تعالیٰ کی خدائی نہیں چل سکے گی۔ اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کسی رزق یا کسی سہارے کی حاجت ہے۔ رزق دینے والے تو ہم ہیں۔

اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo، اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، وہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے، کسی کا محتاج نہیں۔

یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے، انھیں اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ یعنی ان کا خدا کی مخلوق ہونا خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس خدا کی عبادت کریں جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں ہماری عبادت کرنی چاہیے ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی عبادت کرنے کے ہم محتاج ہیں، ہماری خدائی ان کے عبادت کرنے پر موقوف ہے، یا یہ کہ یہ ہمیں رزق عطا کریں گے تو ہم جئیں گے۔

اس میں ایک لطیف تعریض (چوٹ) مشرکین کے معبودوں پر بھی ہے۔ مشرکین کے جتنے معبود ہیں ان کی خدائی ان کے بندوں کی عبادت کی بدولت چلتی ہے۔ جن انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے، ان کی بندگی کیسے چل رہی ہے؟ ایک فوج ظفر موج ان کی اطاعت کر رہی ہے۔  پولیس ان کی اطاعت کر رہی ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کی بدولت ان کی خدائی چل رہی ہے۔ عام لوگ انھیں ٹیکس دے رہے ہیں جن کی بدولت ان کو روپیہ ملتا ہے۔ اگر یہ سب لوگ ان کی اطاعت نہ کریں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کسی آمر کی آمریت نہیں چل سکتی، کسی بادشاہ کی بادشاہی نہیں چل سکتی۔ کسی ایسے طاقت ور شخص کے بارے میں جس کے متعلق آدمی سوچتا ہے کہ یہ بڑا زورآور ہے، اگر وہ قوتیں جن کے بل بوتے پر وہ اپنی خدائی چلا رہا ہے وہی قوتیں  اس کے خلاف ہوجائیں تو وہی صاحب خاک اور خون میں لوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح سے مُردہ معبود ہیں۔ ان کے مجاورین اور معتقدین دنیا میں چل پھر کر اور دنیا میں دوڑدھوپ کرکے لوگوں کو یہ یقین نہ دلاتے پھریں کہ یہاں سے مرادیں بَر آتی ہیں، یہاں سے بیٹا ملتا ہے، روزگار ملتا ہے، تو کوئی ان کی بندگی کرنے والا نہ ہو۔ اگر لوگ وہاں منّتیں اور نذرانے نہ چڑھانے جائیں تو کوئی ان کا مقبرہ تعمیر کرنے والا نہ ملے۔ جن کے پیچھے دوڑنے والا کوئی نہیں ہے، وہ بھی زمین میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خدائی اُن کی بدولت چل رہی ہے جو ان کے بندے بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں چل رہی۔ اگر اس طرح خدائی چلنے والی ہوتی تو ہرمرنے والا اپنی خدائی چلا رہا ہوتا۔

ایسے ہی دوسرے معبود ہیں جو انسان نے بنا رکھے ہیں۔ کوئی معبود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان نے بنا رکھا ہو اور اس کی خداوندی اپنے عبادت گزاروں کے بغیر نہ چل رہی ہو۔ یہاں بہت سے مندر ہیں جو ہندوئوں کے چھوڑ جانے سے ویران پڑے ہیں۔ اب وہاں کون سی کرامت ہے اور کون ہے جو وہاں گھنٹیاں بجاتا ہے۔ جب تک وہاں گھنٹیاں بجانے والے تھے اس وقت تک ان کی خداوندی چل رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میری خداوندی تمھارے چلانے سے نہیں چلتی۔ دوسروں کی خداوندی تمھارے چڑھاوے چڑھانے، نذرانے دینے اور ان کی بندگی کرنے سے چلتی ہے۔ لیکن مَیں وہ خدا ہوں جو رزق دینے والا ہے۔ میں خود اپنی طاقت کے بل پر حکومت کر رہا ہوں۔ میری خدائی تمھارے رزق دینے سے نہیں چل رہی۔ یہ تمھارے نذرانے چڑھانے کی محتاج نہیں ہے۔

یہ سب کچھ فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا جا رہا ہے:

فَاِِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ اَصْحٰبِھِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِo (۵۱ :۵۹) پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا انھی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں۔

یہاں ظلم سے مراد دوسرے انسانوں پر ظلم کرنا نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھا دیا جائے پھر نہ سمجھیں تو اس کے معنی ہیں کہ وہ حقیقت پر ظلم کر رہے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کوئی آدمی متنبہ کرنے والا اور حقیقت بتانے والا ہو، اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ تو ساحر اور مجنون ہے، تو یہ ظلم ہے۔ جو لوگ یہ ظلم کرتے ہیں  وہ اپنے خدا کے حق میں دوسروں کی خدائی مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کرکے فاسق بن رہے ہیں۔ یہ سمجھانے والے کی بات نہیں مانتے، اُلٹا اسے ملامت کرتے ہیں، اس کے اُوپر الزامات رکھتے ہیں، تہمتیں دھرتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس طرح کا ظلم کرنے والوں کے نصیب میں عذاب کا حصہ ہے جس طرح کہ ان سے پہلے ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب کا حصہ تھا۔ یہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں یہ اپنے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی خدائی کو مانتے ہیں۔ یہ آخرت کا انکار کر کے فاسق بن رہے ہیں۔

ذنوب کا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں بڑے ڈول کے لیے ذنوب بولا جاتا ہے۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ یہ اس طرح پیدا ہوا کہ جب کوئی قافلہ کسی مقام پر جاکر اُترتا ہے جہاں پانی یا کوئی کنواں ہو تو اس جگہ قافلے کے پانی دینے والے سقّے ہوتے تھے جو ڈول لے کر ہر ایک کے حصے کا پانی نکالتے جاتے تھے کہ یہ ڈول فلاں کے حصے کا ہے اور یہ ڈول فلاں کے حصے کا۔ اس طرح سے ڈول نکالتے جاتے تھے اور لوگوں کو دیتے جاتے تھے۔

یہاں ذنوبکا لفظ ڈول کے لیے استعمال ہوا ہے کہ ان کے حصے کا بھی ڈول ہے جیساکہ ان سے پہلے والوں کے حصے کا ڈول تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں کو عذاب مل چکا، اِن کے عذاب کا حصہ بھی محفوظ ہے جو انھیں ملنے والا ہے۔ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنَ، ’’یہ جلدی نہ کریں‘‘ یعنی قریش کے لوگ نبی کریم ؐ کو باربار کہتے تھے کہ تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ تو فرمایا گیا کہ جلدی نہ کرو، تمھارا حصہ بھی تیار ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o(۵۱ :۶۰) آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انھیں خوف دلایا جارہا ہے۔

یعنی اگر اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے، اس دنیا میں پکڑ نہ بھی ہو، تب بھی وہ دن تو آنا ہے جس میں یقینا ہر ایک کی پکڑ ہوگی۔ یہاں سے بچ بھی نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کامیاب ہوگیاکہ سب مزے بھی کیے، ظلم و ستم بھی کیا اور یہاں سے اطمینان سے بخیریت بھی گزر گیا۔ نہیں، ایک دن ضرور ایسا آنا ہے جب اس کے معاوضے میں ہر اس شخص کو جس نے کفر کا رویہ اختیار کیا اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

 سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ارشاد ہوئی ہے اور آخرت کے حق میں اس میں مسلسل دلائل دیے گئے ہیں۔ پہلی دلیل ہوائوں کے نظم اور بارش کی تقسیم کی دی گئی ہے کہ کائنات کا یہ نظام حکیمانہ ہے، الل ٹپ نہیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ آخرت کے بارے میں محض گمان پر فیصلہ کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ فیصلہ علم اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے جو انبیا ؑلے کر آئے ہیں۔ تیسری دلیل یہ دی گئی کہ فاسق و فاجر اور متقی کا انجام ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے، یہ عقل کا تقاضا ہے ۔ پھر نفسِ انسانی کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا کہ خود اس میں آخرت کی نشانیاں ہیں۔

انسانی تاریخ سے استدلال

اب اس کے بعد آخرت پر ایک اور استدلال اس قصے سے شروع کیا جارہا ہے اور وہ ہے انسانی تاریخ۔

اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں تم مسلسل دیکھتے ہو کہ جزا اور سزا کا قانون اس زندگی کے اندر بھی نافذ ہے، اگرچہ اس زندگی میں پوری سزا نہیں ملتی۔ اس دنیا میں جو آدمی سزا کا مستحق ہو، بسااوقات اسے سزا مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کے اُوپر انسانوں کو بھی اختیارات دیے گئے ہیں۔بحیثیت مجموعی اگر اس بات کو دیکھیں تو انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ قانونِ مکافات اس زندگی میں بھی کارفرما ہے۔ جہاں تک انسانی غلطیوں کا تعلق ہے اور جہاں انسان کا اختیار چلتا ہے اس جگہ بُرائی کا نتیجہ بظاہر تھوڑی دیر کے لیے عارضی طور پر اچھا ہوتا نظر آتا ہے، او ر بھلائی کا نتیجہ عارضی طور پر بُرا ہوتا نظرآتا ہے۔لیکن جہاں تک بحیثیت مجموعی قدرتی عوامل کا تعلق ہے جو عالمِ بالا سے انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان کے اندر تم دیکھو گے کہ جزا اور سزا کا قانون انسانی زندگی میں نافذ چلا آرہا ہے۔ یہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ کائنات کی سلطنت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ بُرے اعمال کی کوئی سزا نہ ہو اور بھلے اعمال کی کوئی جزا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو جو طاقت چلا رہی ہے اس کا مزاج یہی ہے کہ پورے عدل کے ساتھ جزا اور سزا نافذ کی جائے۔ اس ضمن میں یہاں انسانی تاریخ سے کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:

ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ o اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ o فَرَاغَ اِِلٰٓی اَھْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍo(الذٰریٰت۵۱ :۲۴-۲۶) اے نبیؐ، ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمھیں پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے ہاں آئے تو کہا: ’’آپ کو سلام ہے۔ اس نے کہا: آپ لوگوں کو بھی سلام ہے___ کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں‘‘۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک (بھنا ہوا) موٹا تازہ بچھڑا لاکر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔

 یعنی ان کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے یہ محسوس کیا کہ ان سے کبھی پہلے ملاقات نہیں ہوئی۔ بالکل اجنبی سے لوگ ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑاان کے لیے لے آئے۔

حضرت ابراہیم ؑ چونکہ بڑے مہمان نواز تھے اور ہر طرف سے ان کے پاس لوگ آتے رہتے تھے، ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کچھ ایسا انتظام ہو کہ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان تیار رہتا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بیان اس طرح کیا گیاہے کہ وہ گئے اور لے آئے۔ درحقیقت وہاں صورت یہ ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم ؑ گھر والوں کے پاس گئے ہوں گے اور کہا ہوگا کہ کچھ مہمان آگئے ہیں، ان کے لیے کچھ جلدی سے تیار کیا جائے اور جس وقت تیار ہوگیا تو آپ ؑ لے کر آگئے۔ دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں۔

قرآنِ مجید کا اندازِ بیان یہ ہے کہ تفصیلات کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ تفصیلات کو ہر آدمی اپنے ذہن میں سوچ لیتا ہے۔ واقعات کے صرف اہم اور بنیادی اجزا کو بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔

فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْھِمْ قَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ o (۵۱:۲۷)  حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے آگے وہ بچھڑا بڑھایا اور ان سے کہا کہ آپ کھاتے کیوں نہیں ہیں؟

 اس سے خود بخود یہ بات نکلی کہ جب انھوں نے بچھڑے کو آگے بڑھایا تو وہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھارہے تھے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟

فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ط(۵۱:۲۸) پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا۔

بدوی اور صحرائی علاقوں میں ہمیشہ یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر آئے اور وہ اس کے آگے کھانا بڑھائے اور وہ کھانا کھالے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوستانہ طریقے سے اور اچھی نیت سے آیا ہے اور اس کے دل میں بُرائی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے آگے  کھانا بڑھائیں اور وہ نہ کھائیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کسی بُرے ارادے اور دشمنی کے ارادے سے آئے ہیں۔ بدوی اور صحرائی قوموں کے اندر اتنے بنیادی اخلاق موجود ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا کھانا کھانے کے بعد پھر اس پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جہاں ابتدائی انسانی شرافت بھی باقی نہیں رہی ہے وہاں اس بات کا امکان ہے کہ مہمان کھانا بھی کھائے اور لُوٹ کر بھی لے جائے، بلکہ آپ کے ہاں مہینوں مہمان بھی رہے اور پھر آپ کے گھر پر ہاتھ صاف کرجائے۔

 چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ یہ دیکھ کر کہ یہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا رہے، ان سے ڈر گئے۔ ان کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ آپ اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی اور میں آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ اب، جب کہ وہ کھانا نہیں کھا رہے تھے تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا۔

قَالُوْا لاَ تَخَفْ ط وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo(۵۱:۲۸) انھوں نے کہا: ڈریے نہیں، اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کا مژدہ سنایا۔

اب یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ فرشتے تھے اور انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ بات کہ انھوں نے ان کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدایش کی بشارت دی، یہ خود بخود اس بات کا پتا دے دیتی ہے کہ درمیان میں کیا بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں، ہم اس وجہ سے آئے ہیں ۔ ہم فرشتے ہیں اور ہمارا کام کھانا کھانا نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ذی علم لڑکے کی بشارت دی۔ اس سے مراد حضرت اسحاق ؑ ہیں اور ان کی بشارت دی گئی تھی۔ اس سے پہلے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوچکے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غلام حلیم، یعنی بُردبار لڑکا اور حضرت اسحاق ؑ کی تعریف میں فرمایا: غلام علیم، یعنی علم والا۔ اس کے بعد فرشتوں نے جس دوسری بات کی بشارت دی اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌo (۵۱:۲۹) یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی: بوڑھی، بانجھ!

یہ بوڑھی اور بانجھ اہلیہ، حضرت سارہؑ تھیں، حضرت ہاجرہ ؑ نہیں تھیں۔ حضرت ہاجرہ ؑ کے بانجھ ہونے کا کوئی ذکر کہیں نہیں آیا۔ ان کے ہاں اس سے پہلے اولاد پیدا ہوچکی تھی اور حضرت اسماعیل ؑ ان سے بڑے تھے، لہٰذا بانجھ ہونے کا خیال اگر ہوسکتا تھا تو حضرت سارہ ؑ کو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر تقریباً ۱۰۰ سال تھی او ر حضرت سارہؑ کی عمر تقریباً ۹۶سال تھی۔ توریت میں اس کی تصریح ہے کہ اس وقت ان کی کتنی عمر تھی۔انھوں نے کہا کہ اتنی بڑی عمر میں جس کی آج تک اولاد نہیں ہوئی، جوانی گزر گئی، بڑھاپا آگیا اور بڑھاپے کا بھی آخری زمانہ آگیا۔ اب اسے خبر دی جارہی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔

قَالُوْا کَذٰلِکِ لا  قَالَ رَبُّکِ ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُo (۵۱:۳۰) انھوں نے کہا: یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔

فرشتوں نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا:تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے: وہ حکیم  اور علیم ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور دانا ہے۔ اس کی حکمت اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد دیناچاہے اور نہ دے سکے، اور علیم ہے، اس لیے اسے معلوم ہے کہ تیرے ہاں اولاد ہوگی۔

ان کا کہنا کہ تیرے رب نے یہی فرمایا ہے اور وہ علیم اور حکیم ہے، لہٰذا تمھارے بوڑھے ہونے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمھارے ہاں اولاد ہوگی۔ اللہ نے یہی فرمایا ہے اور وہ حکمت رکھنے والا اور علم والا ہے۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر مہربان ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں خدمت کرتے ہیں، جان لڑاتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے خاص قانون پر عمل کرتا ہے۔ دنیا میں جو عام قانون اور فطری قانون (natural law) چل رہا ہے  اس کے اندر اتنی تبدیلی کردیتا ہے کہ بعض اوقات ان کو ایسی حالت میں اولاد کا انعام دیا جاتا ہے کہ جب ان کی بیوی بوڑھی اور بانجھ ہوچکی تھی اور وہ خود بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی بشارت دی اور اولاد سے نوازا۔

قومِ لوط پر عذاب

اس کے بعد وہی فرشتے جو حضرت ابراہیم ؑ کے پاس یہ خوش خبری لے کر آئے تھے اور جن کے ذریعے انھیں یہ انعام دیا گیا تھا، انھی فرشتوں کو آگے ایک اور مہم پر بھیجا جا رہا ہے۔

قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَo(۵۱:۳۱) ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اے فرستادگانِ الٰہی، کیا مہم آپ کو درپیش ہے؟‘‘

حضرت ابراہیم ؑ نے اس مہم کا فرشتوں سے سوال اس لیے کیا کہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے اور یہ اسی وقت انسانی شکل میں آتے ہیںجب کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آنے والا ہو۔ ورنہ فرشتے غیرمحسوس طور پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ علانیہ آئیں اور انسانی شکل میں آئیں اور دوسرے مقامات پر اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئے بھی ایک غیرمعمولی شان کے ساتھ تھے، یعنی بہت ہی خوب صورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھ کر   حضرت ابراہیم ؑ نے بھانپ لیا کہ کوئی بہت بڑا معاملہ ہے جس کے لیے یہ آئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پوچھا کہ وہ مہم کیا ہے جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں؟ یعنی لڑکے کی بشارت دینا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے لڑکوں کی صورت میں آنا ضروری ہو۔ وہ تو وحی کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا جاسکتا تھا لیکن جب وہ مسافر بن کر اور خوب صورت لڑکوں کی صورت میں صحرا میں چلتے ہوئے آپ ؑ کے مکان تک پہنچے، تب حضرت ابراہیم ؑ کو محسوس ہوا کہ یہ کوئی بڑا معاملہ ہے۔

قَالُوْٓا اِِنَّآ اُرْسِلْنَـآ اِِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ o لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ o مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَo (۵۱:۳۲-۳۴) انھوں نے کہا: ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں جو آپ ؑ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں‘‘۔

مجرمین سے یہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مراد ہے۔ یہاں ان کے نام کی تصریح نہیں ہے لیکن قصہ وہی ہے جو قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہاں اس قوم کا نام نہیں لیا گیا صرف قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت گردونواح میں اس سے بُری قوم اور کوئی نہیں تھی۔ اس کے لیے لفظ قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ اس سے مراد قومِ لوط ؑ ہے۔ ان فرشتوں نے کہا کہ ہمیں قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ،یعنی حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ان کے جرائم کا حال آپ سب جانتے ہیں اور قرآنِ مجید میں اس کا حال مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسا دیں جو پکی ہوئی مٹی کے ہیں۔ اس پکی ہوئی مٹی کے پتھر ان کے مقدر کیے ہیں کہ ان پر برسائے جائیں۔ اس علاقے میں آتش فشانی کے پتھر بہت کثرت سے ہیں۔

مسومۃ، یعنی ان لوگوں کے لیے نشان زدہ پتھر تھے جیسے اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ دانے دانے پر مہر ہے۔ اسی طرح ایک ایک پتھر پر یہ نشان لگا دیا گیا تھا کہ یہ فلاں بدمعاش پر گرے، اور یہ فلاں ظالم پر ۔ گویا ایک ایک پتھر نشان زدہ تھا، یعنی جس جس کے حصے میں جو پتھر تھا وہ  اسے لگے۔

فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ o(۵۱:۳۵-۳۶)  پھر ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو اس بستی میں مومن تھے، اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

وہ بستی چونکہ خیر سے خالی ہوچکی تھی۔ اس پورے علاقے میں جس میں قومِ لوط ؑ آباد تھی، اس میں ایک گھر کے سوا کوئی گھر مسلم نہیں تھا۔ اس گھر کا بھی جو حال تھا، قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر آیا ہے کہ خود حضرت لوطؑ کی بیوی اپنی قوم سے ملی ہوئی تھی۔ گویا کہ وہ گھر بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ اس عورت کو بھی الگ کر دیا گیا،اس لیے کہ وہ بھی عذاب پانے والوں میں شامل تھی۔ صرف اہلِ ایمان کو بچایا گیا جو حضرت لوطؑ کے گھر میں تھے اور باقی پوری قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

وَتَرَکْنَا فِیْھَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ o(۵۱:۳۷)  اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔

اس نشانی سے مراد بحیرہ مُردار(Dead Sea)ہے  جو آج بھی اُردن کے قریب موجود ہے۔ دنیا میں اگر کوئی سمندر سب سے زیادہ گہرائی میں ہے، تقریباً سطح سمندر سے ۱۴۰۰ فٹ نیچے تو وہ بحیرہ مُردار ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ بھاری پانی اگر کسی سمندر کا ہے تو وہ بھی یہی ہے۔  اس کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہے کہ اس کے اندر کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اتنا بھاری پانی ہے کہ آدمی گرجائے تو ڈوب نہیں سکتا۔ قومِ لوطؑ کے بڑے بڑے شہر آج بھی اسی کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس سمندر میں اب بھی کچھ مہمات بھیجی جارہی ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا ان شہروں کے کچھ آثار باقی ہیں؟ ان کے علاوہ ان کے جو شہر اُردن کی ریاست میں واقع ہوں گے، ان کا بھی پتا چلایا جاسکے۔

اب وہاں آتش فشانی پہاڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں خود بھی اس علاقے میں گیا ہوں اور جن دوسرے لوگوں نے اس علاقے کو دیکھا ہے ان کا بھی کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ویران علاقہ شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ ہرطرف تباہی ہی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ آج تک وہ علاقہ بسا نہیں۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ دو چیزیں نمایاں ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے راستے میں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اُوپر اللہ کی طرف سے کس طرح کے انعام ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فسق و فجور اور نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے تو ان کے اُوپر تباہی نازل کی گئی اور آج تک ان کے آثارِ قدیمہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔ گویا زمین کے اُوپر مستقل نشانیاں موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور جزا و سزا کا قانون جو اس دنیا میں نافذ ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آج آپ گناہ کریں اور کل آپ کو سزا مل جائے، یا جس وقت آپ گناہ کریں اور اسی وقت آپ کو سزا مل جائے، یا ایک قوم جس وقت گناہ کرے اسی وقت وہ پوری کی پوری تباہ کردی جائے۔  ہر ایک انسان کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، ہر قوم کو مہلت دیتا ہے۔ افراد کی مہلت کچھ اور ہے اور قوموں کی مہلت کچھ اور۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قوم اللہ کی مقرر کردہ حدود سے مسلسل تجاوز کرتی چلی جائے اور کسی بھی مرحلے پر جاکر وہ تباہ نہ کردی جائے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے کہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والی قومیں کسی نہ کسی مرحلے پر تباہ نہ کردی گئی ہوں۔

قومِ لوط ؑ کے ذکر میں یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو فیصلے کا وقت ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی ظالم کے اُوپر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے تو پھر وہاں اخلاق کے اعتبار سے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قومِ لوطؑ کے اندر جو ایمان رکھنے والے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی طور پر بچالیا۔ اس فیصلے کے وقت تباہ صرف ان لوگوں کو کیا گیا جو حق کو جھٹلانے والے تھے۔

فرعون اور لشکرِ فرعون کی تباھی

وَفِیْ مُوْسٰٓی اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۳۸-۴۰) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) موسٰی ؑ کے قصے میں۔ جب ہم نے اُسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا: یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔ آخرکار ہم نے اُسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا۔

تاریخ سے یہ دوسری دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی دی گئی ہے۔ یہاں چونکہ تاریخی واقعات کی طرف مسلسل اشارہ کرنا مقصود ہے، لہٰذا تفصیل بیان نہیں کی جارہی، صرف اشارے کر کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ قصہ قرآنِ مجید میں پوری تفصیل سے آچکا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور قومِ لوط ؑ کے واقعے میں تمھارے لیے نشانی تھی، اسی طرح حضرت موسٰی ؑ کے واقعے میں بھی تمھارے لیے نشانی ہے۔

اِِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ o (۵۱:۳۸)ہم نے اس کو سلطانِ مبین کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا۔

سلطان کا لفظ قرآنِ مجید میں مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں سند، کھلی دلیل (open authority) کے معنوں میں آیا ہے۔ یہ ایسی صریح دلیل تھی کہ جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ محسوس کرلیتا کہ یہ مامور من اللہ ہیں اور اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہے۔

حضرت موسٰی علیہ السلام جب فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں تو قرآنِ مجید خود بتاتا ہے کہ اس سے پہلے وہ فرعون کے گھر میں پرورش پاچکے تھے اور ایک آدمی کو قتل کر کے فرار ہوگئے تھے۔ اگرچہ انھوں نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا ان کے ہاتھوں سے قتل ہوگیا تھا۔ لیکن فرعون کو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور انھوں نے فرعون کی اپنی قوم کے آدمی کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد وہ فرار ہوگئے تھے۔ ۱۰ سال تک مدین کے علاقے میں رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائو۔ ایک ایسا آدمی جس کے اُوپر قتل کا الزام ہو، پولیس جس کی تلاش میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ فرعون کے پاس چلے جائو، اور اسے اللہ تعالیٰ صرف ایک لاٹھی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سیدھے فرعون کے پاس چلے جائو۔

اس حالت میں وہ لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا تعارف کراتے ہیں کہ میں موسٰی ؑ ہوں اور بھرے دربار میں فرعون کو ہمت نہیں پڑتی اور نہ کسی سپاہی یا درباری کو ہمت پڑتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ سلطان مبین یا کھلی ہوئی علامت نہیں تھی تو اور کیا تھی۔ یہی چیز تھی جس نے فرعون کے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور اس کو ایسا مرعوب کیا کہ وہ ان کو گرفتار کرنے کا حکم نہ دے سکا کہ تم تو قتل کر کے فرار ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اس لاٹھی سے اژدھا بنا کر دکھایا، اور یدِبیضا دکھایا، جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج زمین پر اُتر آیا ہو۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مسلسل معجزات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ وہ پہلے مطلع کر دیتے ہیں کہ تمھارے ملک میں قحط آئے گا اور پھر ان کے ایک اشارے پر قحط آگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک کے اندر ٹڈی دَل آئیں گے اور ایک اشارے پر ٹڈ ی دَل پورے ملک میں نکل آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمھارے ملک میں مینڈکوں کا طوفان آئے گا اور ایک اشارے پر سارے ملک میں مینڈک نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ مسلسل معجزات دکھاتے چلے گئے اور اس کے بعد کوئی گنجایش یہ ماننے میں نہیں رہی کہ یہ مامور من اللہ کے سوا کوئی اور ہیں۔ خود قرآنِ مجید میں یہ فرمایا گیا کہ جب پوری قوم پر مینڈکوں، خون اور ٹڈی دَل کا عذاب  آتا تھا تو خود فرعون اور اس کے دربار کے لوگ حضرت موسٰی ؑسے درخواست کرتے تھے کہ اس عذاب کو ہمارے اُوپر سے ٹلوائو، یہ ٹل جائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ مامور من اللہ ہیں جن کی بدولت اور جن کے کہنے سے یہ عذاب آرہا ہے۔ قرآن میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کا انکارکیا درآں حالیکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ یہ شخص یقینا مامور من اللہ ہے اور یہ کام اللہ کی قدرت کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر باوجود اس کے چونکہ انھیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر ہم ان کی بات مان لیں گے تو پھر ہماری بادشاہی نہیں رہ سکتی۔ خدا کی بادشاہی ماننا پڑے گی اور رسول ؑ کو خدا کا نمایندہ ماننا پڑے گا۔ چونکہ بادشاہی کا انھیں چسکا لگا ہوا تھا، اس لیے وہ اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ اس طرح حضرت موسٰی ؑ سلطان مبین لے کر پہنچے۔

فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o (۵۱:۳۹) تو وہ اپنے بل بوتے پر   اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنون ہے۔

رکن کہتے ہیں سہارے کو، یعنی جس چیز کو وہ اپنا سہارا سمجھتا تھا۔ اس کا لشکر، سلطنت، درباری، اعلی موالی، یہ سب سروسامان جو اسے حاصل تھا، یہی اس کے بھروسے کی طاقت تھی جس پر اس کا ایمان تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اس رکن ، اپنے اس سہارے اور اپنے بل بوتے پر اَڑ بیٹھا، اور  منہ موڑ لیا۔ اس نے اطاعت کی روش اختیار کرنے کے بجاے انحراف کی روش اختیار کی اور کہا کہ یا تم تائب ہوجائو یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کرشمے دکھا رہے ہو،  یہ تو سحر کی بنا پر ہے، اس سے تائب ہو۔ اور تمھاری یہ ہمت کہ مجھ جیسے فرماں روا کے مقابلے میں  کھڑے ہو۔ یہ ہمت ایک مجنون کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کا دماغ ٹھیک ہو اور     وہ ’اعلیٰ حضرت‘ کے سامنے کھڑا ہوجائے اور ان کو دعوت دے کہ تم میری اطاعت کرو، یہ کسی مجنون اور پاگل کے سوا کسی دوسرے کی بات نہیں ہوسکتی۔

 فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِیْ الْیَمِّ وَھُوَ مُلِیْمٌo(۵۱:۴۰)آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر   رہ گیا۔

قرآنِ مجید میں اس سے پہلے بھی یہ بات اس قصے میں گزر چکی ہے۔ سب اس بات کو جانتے ہیں اور یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں بھی جو لوگ حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لائے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سمندر کے اسی راستے سے گزار دیا۔ پھر وہی سمندر پھٹا، اس میں سے راستہ بنا اور اس راستے میں سے بنی اسرائیل کی اور ان کے ساتھ جو مصری مسلمان فوج تھی وہ ساری کی ساری اس سے گزری اور پانی دونوں طرف ٹھیرا رہا جب تک کہ یہ اس میں سے گزر نہ گئے۔ جب وہ گزر گئے اور فرعون اپنے پورے لشکروں کے ساتھ اسی راستے پر اُتر آیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اور یک لخت وہ پانی جڑ گیا اور وہ پورے کا پورا لشکر اس میں غرق ہوگیا۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور بنی اسرائیل کی بدولت اس زمانے میں بھی عرب کا بچہ بچہ اسے جانتا تھا اور ساری دنیا اس واقعے سے واقف تھی۔

اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ جب فرعون اور اس کی سلطنت کے اکابر نے مسلسل یہ روش اختیار کی۔قرآنِ مجید کے اشارات سے بھی معلوم ہوتا ہے اور بائبل اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہ حضرت موسٰی ؑنے مسلسل ۳۰ سال مصر میں تبلیغ کی ہے۔ فرعون مسلسل ۳۰سال تک مزاحمت کرتا رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حجت پوری کر دی۔ تمام نشانیاں اسے دکھا دیں جن کے دیکھنے کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس امر میں کسی شک کی گنجایش نہیں رہی کہ فرعون جان بوجھ کر خدا کے مقابلے میں شرارت کر رہا ہے۔ اس کے بعد جب فیصلہ کیا گیا تو اس طرح کیا گیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا گیا۔ جو ایمان لانے والے تھے ان سب کو بچاکر الگ نکال دیا، اور جو ایمان سے خالی تھے انھیں اسی جگہ غرق کر دیا جہاں سے اہلِ ایمان کو نکالا گیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے جسے یہاں پیش کیا گیا ہے۔

قومِ عاد کی تباھی

وَفِی عَادٍ اِِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَo مَا تَذَرُ مِنْ شَیْئٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ o(۵۱:۴۱-۴۲) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔

اب تیسری قوم، قومِ عاد کا ذکر کیا جا رہا ہے۔یہاں مختصراً اشارے کیے گئے ہیں، تفصیل نہیں بیان کی گئی ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات یاد دلانا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں۔ عاد کی قوم سے متعلق تفصیلات قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہیں اور ان کی تاریخ بیان ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر عذاب کس طرح آیا؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے اُوپر ایک ہوا بھیجی جو عَقِیْم تھی۔ اس کے لفظی معنی ہیں جو بانجھ تھی۔ یہ ایسی ہوا تھی جس میں کوئی خیر نہیں تھی۔ یہ بارش لانے والی ہوا نہیں تھی۔ کسی آدمی کی تندرستی کے لیے ہوا نہیں تھی۔ زراعت کے لیے کوئی مفید ہوا نہیں تھی۔ گویا یہ کسی بھی طرح سے مفید ہوا نہیں تھی۔یہ بے فیض ہوا تھی جو کوئی مفید نتیجہ پیدا کرنے والی نہ تھی۔

مزیدبرآں اس ہوا کی حالت یہ تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی، اس کو بوسیدہ کرگئی۔  جن لوگوں کو صحرائی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ بعض اوقات صحرا میں ایسی لُو چلتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آدمی لُو سے مر جاتا ہے بلکہ مرنے کے بعد اس کا جسم دیکھتے ہی دیکھتے گل سڑ جاتا ہے۔ اس طرح کی لُو راجستھان کے صحرائوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایسی  خوف ناک ہوا تھی کہ جس چیز کے اُوپر سے بھی گزری نباتات و حیوانات اور انسانوں کو اس نے نہ صرف ہلاک کر دیا بلکہ ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے کہ سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل یہ ہوا چلتی رہی اور اس میں لوگ اس طرح سے گر کر مرے کہ جیسے کھجور کے تنے گرے پڑے ہوں۔

قومِ ثمود کی تباھی

یہاں قومِ ثمود کا بطور نمونہ ذکر کیا گیا ہے:

وَفِیْ ثَمُوْدَ اِِذْ قِیْلَ لَھُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ o فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ فَاَخَذَتْھُمُ الصّٰعِقَۃُ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ o فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo (۵۱:۴۳-۴۵) اور (تمھارے لیے نشانی ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو۔ مگر اس تنبیہ پر بھی انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخرکار  ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا، پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔

ان کا قصہ بھی قرآنِ مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے آیا ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بھی تمھاری تاریخ کا حصہ ہے۔ ثمود کا علاقہ حجاز کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً دو اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھیں نبی ؑ کے ذریعے سے متنبہ کیا گیا تھا کہ تمھارے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر اس وقت تک تم سنبھل گئے تو بچ جائو گے اور اگر اس وقت تک نہ سنبھلے تو تمھارے اُوپر عذاب نازل ہوجائے گا۔ ان کے لیے دن مقرر کر دیے گئے تھے کہ ان کے اندر درست ہوجائو اور اگر مزے کرنے ہیں تو مزے کرلو۔ اس کے بعد تمھارا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ وقت ختم ہوتے ہی، ان کے اُوپر عظیم الشان خطرناک زلزلہ آگیا۔ میں خود اس علاقے میں گیا ہوں اور وہاں واضح واضح نشانیاں اور علامات ملتی ہیں کہ اس پورے علاقے کو زلزلے نے تباہ کیا ہے۔ پورے پورے پہاڑ کھِیلکھِیل ہوکر رہ گئے۔ ان پر یک لخت وہ زلزلہ آیا۔ یہاں صاعقہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بجلی کا کڑکا نہیں ہے بلکہ ایسے عذاب کو کہتے ہیں جو اچانک کسی پر آجائے۔ ان پر عذاب اچانک اس حالت میں آپڑا کہ  وہ اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے عذاب نے انھیں آلیا۔

 فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَo(۵۱:۴۵)پھر نہ اُن میں اُٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچائو کرسکتے تھے۔

یعنی جو جہاں گرا تھا وہ گر کر رہ گیا اور پھر اُٹھنے کی مہلت نہ ملی اور ان میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنا بچائو کرلیتے۔ جب خدا کا عذاب آتا ہے تو انسانی ذرائع ناکام ہوجاتے ہیں۔ خدا کی طرف سے جب کسی کو مارپڑے تو اس کی ساری تدبیریں ناکام رہ جاتی ہیں اور اس کا کوئی زور باقی نہیں رہتاکہ وہ اپنے بچائو کے لیے کچھ کرسکے۔مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی مدافعت کے لیے کچھ کرسکے۔ قومِ عاد کی تباہی میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ ان میں کوئی یارا یا بل بوتا نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچاسکیں۔

قومِ نوح کی ھلاکت

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ o(۵۱:۴۶) اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح ؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیوںکہ وہ فاسق لوگ تھے۔

یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ ان پر کیا گزری اس لیے کہ ہر ایک جانتا ہے۔ ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ دنیا میں بچہ بچہ اس قصے کو جانتا ہے۔ فرمایا گیا کہ نوح کی قوم کی صورت میں تمھارے لیے مثال موجود ہے۔ وہ ایک فاسق قوم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی تباہی کی وجہ اس کا فسق تھا۔ فسق عربی زبان میں نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اطاعت سے نکل جانا فسق ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے نکل چکے تھے۔ انھوں نے نافرمانی اختیار کی اور آخرکار تباہ و برباد ہوگئے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۱۵-۱۶) البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے۔

یہ سورئہ ذاریات کے پہلے رکوع کی آیات ہیں۔ سورئہ ذاریات منکرینِ آخرت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور آخرت کے متعلق جو ان کے شبہات اور اعتراضات تھے اور اس کے انکار پر وہ اصرار کر رہے تھے، اس کے اُوپر استدلال بھی کیا گیا ہے اور ان کو تنبیہہ بھی کی گئی ہے۔

اس سے پہلے جو آیات گزر چکی ہیں ان کے اندر سب سے پہلے ہوائوں کے انتظام کو بطورِ دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔ ہوائوں کا چلنا اور ان سے بارشوں کا آنا اور بارشوں کا ایک قاعدے کے مطابق اور ایک تنظیم کے ساتھ زمین کے مختلف حصوں پر تقسیم ہونا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایک حکیمانہ نظام ہے۔ یہ حکمت اور دانائی پر مبنی ہے، کسی بچے کا کھیل نہیں ہے۔ جب یہ حکیمانہ نظام ہے تو اس کے متعلق کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اس زمین پر انسان کو پیدا کرنے کے بعد، اس کو طرح طرح کے اختیارات دینے کے بعد، اس کے اندر اخلاقی حس پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو مرنے کے بعد خاک میں ملا دے گا اور معدوم کردے گا اور پھر کبھی اس کو اُٹھا کر یہ نہ پوچھے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں کیا کام کیا اور  کس طرح کیا، درست نہیں۔ اگر یہ کسی بچے کا کھلونا ہوتا تو وہ اس سے کچھ دیر کھیلنے اور اس سے دل بہلانے کے بعد پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے توڑ ڈالتا اور پھر پلٹ کر نہ دیکھتا۔

درحقیقت اس کائنات کا نظام کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس میں ہزارہا برس سے حق اور باطل کی کش مکش چل رہی ہے۔ ہزارہا آدمیوں نے حق کا ساتھ دیا اور لاکھوں آدمیوں نے باطل کو سربلند کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔ لوگوں نے حق اور باطل کی اس کش مکش میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم سہے اور لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے ظلم کیے۔ یہ سب کچھ برپا ہونے کے بعد آخرکار دونوں کا ہی ایک جیسا انجام ہوجائے، ظلم کرنے والے سے کبھی نہ پوچھا جائے کہ تم نے کیوں ظلم کیا تھا اور مظلوم کی کبھی کوئی داد رسی نہ کی جائے، یہ حکمت اور انصاف کے خلاف ہے۔

استدلال یہ تھا کہ اس کائنات کا نظام ایک حکیمانہ نظام ہے اور اس کے اندر کسی شخص کا یہ تصور کرنا کہ یہ یونہی ختم کردیا جائے گا، بغیر اس کے کہ اس میں انصاف ہو، اس میں کوئی عدالت ہو، جس میں اعمال کی بازپُرس ہو، یہ ایک احمقانہ خیال ہے۔

اس کے بعد دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ محض گمان اور اٹکل سے یوں ہی الل ٹپ فیصلے کر دینا کہ اس کائنات میں انسان کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ایک غلط بات ہے۔ اتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہو اور اس چیز کو انسان محض اپنے گمان سے حل کردے درآں حالیکہ اس کے بارے میں انسان کے گمان مختلف بھی ہیں۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ تناسخ ہوگا۔ کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ مرکر یوں ہی مٹی ہوجائیں گے۔ کوئی گمان کرتا ہے کہ مرکر اُٹھیں گے تو سہی لیکن کچھ لوگ سفارش کرکے اپنے متوسلین کو اور ان لوگوں کو جنھیں وہ نذرانے دیتے ہیں ان کے گناہ معاف کروا لیں گے۔ اس طرح آخرت کے متعلق لوگ مختلف گمان کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارے گمان تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ صحیح چیز یہ ہے کہ یہ اعتقاد علم پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ محض قیاس اور گمان پر۔

تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ تمھارے گمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم بار بار چیلنج کے انداز میں پوچھتے ہو کہ کہاں ہے وہ آخرت اور وہ کیو ں نہیں آتی؟ وہ آخرت آئے گی اور آکر رہے گی اور جب وہ آئے گی تو تم آگ پر تپائے جائو گے۔ جن لوگوں نے بھی آخرت کا انکار کیا اور اپنے آپ کو غیرذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھا اور دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح رہ رہے ہیں، آخرکار ان کا جو انجام ہونا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ وہی چیز تو ہے نا جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے اور جس کو تم جھٹلاتے تھے۔

اس سلسلے میں مزید یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آخرت کا انکار کرکے شتربے مہار کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آخرت کا اقرار کرکے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں میں سے کوئی بھی شخص آخرت کا انکاری نہیں ہوتا۔ آخرت کا اقرار کر کے ہی آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے، لہٰذا جن لوگوں نے آخرت کا اقرار کر کے تقویٰ اختیار کیا وہ اُس وقت اللہ کی جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جنت عربی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، یعنی وہ وہاں باغوں میں ہوں گے۔ گویا ایک طرف آخرت کا انکار کرنے والے ہوں گے جنھیں وہاں آگ پر تپایا جائے گا، اور دوسری طرف آخرت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o (۵۱ :۱۶) جوکچھ ان کا رب انھیں دے گا وہ خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے قبل نیکوکار تھے۔

گویا یہ لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے نیک تھے۔ انھوں نے نیکوکاری اختیار کی تھی۔ اس لیے یہ لوگ جنت کے مستحق ٹھیرے ہیں۔

اب ان کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں کہ ان کی نیکی کیا تھی:

کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (۵۱:۱۷-۱۹) وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔

یہ ایسے لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے، اللہ تعالیٰ سے درگزر اور مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں سائل اور مسکین کا حق تھا۔

ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ پر نیک کاموں کی فہرست بناکر یک جا پیش نہیں کی گئی۔ نیکی کس کو کہتے ہیں؟ یہ پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔  بدی کسے کہتے ہیں؟یہ بھی قرآن کے اول سے لے کر آخر تک لکھا ہوا ہے۔ مختلف مقامات پرجہاں کسی چیز کا کوئی بیان آتا ہے کہ نیک کون ہے اور بد کون، تو وہاں ایک دو نمونے کی چیزیں لے کر  چند صفات بیان کردی جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں نیکی کے تمام کاموں کی فہرست موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ نمونے کی چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اصولی بات کی جاسکتی ہو۔ اسی طرح سے بدی ہے۔ مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ بدی کی مختلف چیزوں کی مذمت فرماتے ہیں۔ کسی ایک جگہ ان تمام صفات کو بیان نہیں کردیا گیا ہے جو بُری ہیں۔ موقع محل کے لحاظ سے ایک دو چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن سے آدمی سمجھ سکتا ہے کہ بُرائی کیا ہے؟

یہاں بھی احسان اور تقویٰ کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ جنت میں جائیں گے وہ ان کا تقویٰ اور احسان ہے۔

تقویٰ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بُرائی سے اس بنا پر ڈرے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ناپسندہے۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے وہ بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

احسان اس چیز کا نام ہے کہ آدمی بہتر سے بہتر رویہ اختیارکرنے کی کوشش کرے۔

آگے چل کر ان لوگوں کی بطورِ نمونہ دو صفات پیش کی گئی ہیں جن کے اندر تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرتے ہیں۔ یہاں بطورِ نمونہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا کیا کام پسند ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس دنیا میں انسان کے تعلقات کو اگر آپ تقسیم کریں تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک یہ کہ آدمی کا خدا سے کیسا تعلق ہے اور دوسرے یہ کہ بندوں سے آدمی کا کیسا تعلق ہے۔

یہاں پہلی چیز یہ بتائی گئی کہ خدا سے ان کا کیا تعلق ہے۔ خدا سے ان کا تعلق یہ ہے کہ   وہ رات کو کم سوتے ہیں اور رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔   اگر ایک شخص استغفراللہ، استغفراللہ پڑھ رہا ہو تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ وہ ریاکاری کررہا ہو اور اس میں خلوص نہ ہو۔ رات کے آخری حصے میں اگر کوئی شخص استغفار کرتا ہے تو اس وقت وہ اور اس کا رب ہوتا ہے اور درمیان میں کوئی اور نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر کوئی آدمی استغفار کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ خلوص کی بنا پر یہ کر رہا ہے ۔ اس کے دل کو لگی ہوئی ہے۔ وہ ریاکاری نہیں کررہا۔ اپنے رب سے پُرخلوص تعلق کی وجہ سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رات کے آخری حصے میں جب کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان یہ تعلق اس کے خلوص کا نتیجہ ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ وہ استغفار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جو دنیا میں ظلم کرتا ہے، زیادتیاں کرتا ہے، حرام خوریاں کرتا ہے، لوگوں کے حقوق مارتا ہے لیکن پھر بھی اس کو استغفار کا خیال نہیں آتا۔ اللہ سے معافی مانگنے کا خیال تک اس کے دل میں نہیں آتا۔

دوسرا آدمی وہ ہے جو تقویٰ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ اس میں میرے رب کی ناراضی ہوگی، اس سے وہ پرہیز کرتا ہے۔ جن جن بھلائیوں کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ اس کے رب کو پسند ہیں، ان کو وہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ استغفار کرتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میرے رب کا میرے اُوپر جو حق تھا مَیں اس کو پوری طرح ادا نہیں کرسکا۔ اس کو یہ غلط فہمی نہیں ہوتی کہ میں نے اپنے رب کے سارے حقوق ادا کر دیے ہیں۔ میں تمام بُرائیوں سے بچ گیا ہوں اور کبھی مجھ سے کوئی بُرائی سرزد نہیں ہوئی۔ ساری نیکیاں اور بھلائیاں میں نے کرلی ہیں اور کوئی نیکی اور بھلائی مجھ سے نہیں چھوٹی۔  اس غلط فہمی میں وہ کبھی مبتلا نہیں ہوتا۔ سارے نیک عمل جو وہ کرسکتا ہے ان کو کرنے کے بعد اور ساری وہ بُرائیاں جن کو وہ کرسکتا ہے ان سے بچنے کے بعد بھی وہ اپنے رب سے درگزر ہی کی درخواست کرتا ہے، اور معافی ہی مانگتا ہے۔ یہ پہلی صفت ہے کہ خدا کے ساتھ اس بندے کا کیا تعلق ہے۔

دوسری صفت بھی بطورِ نمونہ لی گئی ہے کہ بندوں کے ساتھ اس کا کیسا تعلق ہے:

وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o(۵۱:۱۹) ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کا۔

یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ ایک وہ آدمی ہے جس پر دوسرے لوگوں کے قانونی حقوق عائد ہوتے ہیں اور وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ شرعاً اس پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ ان کو ادا کرتا ہے۔ یہ بھی نیکی ہے ۔ لیکن اس سے آگے بڑے درجے کی نیکی یہ ہے کہ بظاہر کسی کا کوئی حق آپ پر نہیں آرہا۔ کسی قانون میں نہیں لکھا ہے کہ ایک آدمی آپ سے مدد مانگنے کے لیے آئے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کریں۔کسی قانون میں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلاں آدمی اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ جا کر اس کو پہنچائیں۔ کوئی فریضہ آپ پر اس طرح کا عائد نہیں ہوتا لیکن باوجود اس کے ایک آدمی ان لوگوں کے حق کو محسوس کرتاہے کہ جن کا حق اس پر ازروے قانون عائد نہیں کیا گیا۔ اس کے اُوپر کوئی فریضہ عائد نہیں ہے لیکن وہ اپنی جگہ یہ احساس رکھتا ہے کہ جو بندہ مدد کا محتاج ہے اور میرے پاس آکر اپنی حاجت ظاہر کرتا ہے، مجھ سے درخواست کرتا ہے کہ میں مدد کا محتاج ہوں،اس آدمی کا حق وہ اپنے اندر خود محسوس کرتا ہے۔ آپ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے درآں حالیکہ قانون نے وہ حق آپ پر عائد نہیں کیا۔ یہ ایک اخلاقی حق ہے لیکن ازروے قانون آپ پر لازم نہیں ہے۔

اسی طرح اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک آدمی آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں حاجت مند ہوں اور میری مدد کیجیے۔ ایک دوسرا شخص ہے کہ جس کے علم میں ہے کہ یہ شخص اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ اس کے گھر آج کھانے کو نہیں ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکے۔ غرض کسی نہ کسی طرح آپ کے علم میں یہ بات آجائے کہ ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنے کے ذرائع سے محروم رہ گیا ہے۔ محروم اسی آدمی کو کہیں گے جو مدد مانگنے کے لیے مجبور ہے لیکن مدد مانگنے کے لیے نہیں آتا، اور جو آکر مدد مانگے وہ سائل ہے۔ جب آپ محسوس کریں کہ میرے پاس جو مال ہے اس میں اس کا بھی حق ہے۔ یہ صرف میرا مال ہی نہیں ہے کہ مَیں نے اسے کمایا ہے ۔ میرے بال بچوں کا ہی حق نہیں ہے کہ وہ میرے بال بچے ہیں۔ نہیں، بلکہ اس میں اس آدمی کا بھی حق ہے جو اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اور ان حقوق کو   وہ محسوس کر کے ادا کردے۔اللہ کے بندوں کے ساتھ جو بہترین تعلق آپ محسوس کرسکتے ہیں وہ  اس کے اندر آگیا۔

ظاہر بات ہے کہ جو آدمی بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرتا ہو، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ بندوں کے حقوق کو اس طرح سے محسوس کرے اور پھر انھیں ستائے بھی۔ ان کے ساتھ شرارتیں بھی کرے، ان پر طنز بھی کرے اور ان کے ساتھ زیادتیاں بھی کرے اور ان کے حقوق بھی مارے۔ اس کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ بندوں کے ساتھ بہترین تعلق کی جو صورت ہوسکتی ہے، یہاں اس کا ایک نمونہ بیان کر دیا گیا ہے جس سے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس کا خدا کے بندوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔

خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ یہ تعلق رکھنے والے ہی محسن اور متقی ہیں اور اس طرح کے لوگ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھتے ہیں اور دنیا میں اس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا ان کو کسی کے سامنے جاکر اپنا حساب نہیں دینا ہے، وہ آگ کے اُوپر تپائے جائیں گے۔

یہ جنت کے حق میں تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔ ایک استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کا نظام حکیمانہ ہے۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ تمھارے لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ تم اتنے بڑے اہم معاملے کا فیصلہ اٹکل پچو اور محض اپنے قیاسات و گمان کی بنیاد پر کرلو۔ تیسرا استدلال یہ ہے کہ    خود اخلاق کا تقاضا کیا ہے۔ انسان کے اندر جو اخلاقی حس رکھی گئی ہے کہ یہ نیکی ہے اور یہ بدی، تو کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز نہ کرسکے اور کون سا آدمی ایسا ہے جو نیکی اور بدی کو مکینیکل سمجھتا ہے۔

ایک آدمی کو اگر گدھا لات مار دیتا ہے تو اس کو کبھی غصہ اس حیثیت میں نہیں آتا کہ اس گدھے نے جان بوجھ کر مجھے لات ماری ہے۔ ایک آدمی دوسرے کو لات مار دیتا ہے تو اس کو فوراً غصہ آجاتا ہے اور وہ اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ سوچے سمجھے افعال اور بے سوچے سمجھے افعال کے درمیان فرق کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ گدھے کے عمل میں نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، لیکن انسان کے عمل میں نیکی اور بدی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا سا بچہ کسی کو گالی دے دیتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ اپنی اس گالی کے لیے ذمہ دار ہے۔ بڑا آدمی اگر گالی دے تو دوسرا شخص لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کر رہا ہے۔ ایک ایک آدمی اس فرق کو محسوس کر رہا ہے۔

دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو اس بات کو محسوس نہ کر رہا ہو کہ نیکی کس کو کہتے ہیں اور بدی کس کو کہتے ہیں، اور نیکی اور بدی میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو اور اس کی پوری زندگی میں نیکی اور بدی کا امتیاز پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کوئی جواب دہی نہ کرنی پڑے تو اس کے کیا معنی! انسان میں اخلاقی حِس کا پیدا ہونا خود بخود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی کہیں نہ کہیں جواب دہی ہونی چاہیے، اور وہ جواب دہی اس دنیا میں نہیں ہوسکتی۔

اس دنیا میں جواب دہی اس طرح ہوتی ہے کہ جو جوتے مارتے ہیں وہ بعض اوقات قوموں کے حکمران بن جاتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ان کے آگے سلامیاں پیش کی جاتی ہیں، ان کی تعریفوں کے لیے گیت گائے جاتے ہیں درآں حالیکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں لازماً ٹھیک ٹھیک انصاف ہو۔یہ تیسری نوعیت کا استدلال ہے۔

آخرت پر عقلی استدلال

وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنo (۵۱:۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے ، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟

قرآنِ مجید حقیقت کی تلاش کا جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے ایک تاریک کمرے میں بیٹھ کر منطقی دلیلوں اور قیاسات کی بنا پر راے قائم کرے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ کوئی آخرت ہے یا نہیں اور اس دنیا میں میری کیا حیثیت ہے؟ انسان کی کوئی جواب دہی ہے یا نہیں؟ اور ان کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کرے۔

قرآن جو راستہ بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اہم معاملات کے متعلق آدمی کو کوئی عقیدہ علم کے بغیر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو علم ہونا چاہیے نہ کہ قیاس اور گمان ہو۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور یہ علم بغیر وحی کے کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ غیب کی جو حقیقتیں آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ان کے متعلق براہِ راست جاننے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آپ صرف ان چیزوں کو جان سکتے ہیں جنھیں آنکھوں سے دیکھ سکیں،  جن کی آواز اپنے کانوں سے سنیں، یا چھو کر دیکھ لیں، یا جسے آپ اپنی ناک سے سونگھ کر دیکھ لیں، یا زبان سے چکھ کر دیکھ لیں۔ ان کے متعلق تو آپ کسی نہ کسی حد تک  ایک فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آپ کو اپنے تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوا۔ جو چیزیں آپ کی حس سے ماورا ہیں، جو کسی بھی طرح آپ کے مشاہدے میں نہیں آسکتیں، لامحالہ ان کے بارے میں کسی ایسے ذریعے ہی سے علم حاصل ہوسکتا ہے جس کو حقیقت کا براہِ راست علم ہو، اور حقیقت کا براہِ راست علم سواے خدا کے کسی کو نہیں۔

اسی طرح جو چیز آگے آنے والی ہے، یعنی آخرت، اس کے متعلق آپ کے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آخرت آئے گی یا نہیں آئے گی؟ اگر آپ قیاسات کی بنا پر راے قائم کریں گے تو وہ اٹکل پچو بات کریں گے۔ وہ ایسا ہی ہے کہ آدمی اندھیرے میں چلے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہاں ٹھوکر کھائے گا۔ آخرت کے متعلق بھی جاننے کا ذریعہ سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی بتائے کہ تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور آخرت ہوگی اور ایسا اور ایسا ہوگا، او ر کوئی ذریعہ اس چیز کے جاننے کا نہیں ہے۔ بس وہی ایک ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی ؑ کو علم دیتا ہے۔ اب انسان کے پاس اس حقیقت کو جاننے کا اور اپنا یہ اطمینان کرنے کا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں اور جو معلومات وہ دے رہا ہے ان کے متعلق آپ آنکھیں کھول کر چاروں طرف اس کائنات کو دیکھیں اور پھر خود اپنے وجود کو بھی دیکھیں، اور اس کے بعد یہ سوچیں کہ جو حقیقتیں نبی بتا رہا ہے، کیا واقعی وہ حقیقت ہیں اور دل کو لگتی ہیں؟ کیا واقعی وہ معقول ہیں؟ اس کائنات اور میرے اپنے وجود میں کچھ نشانیاں ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ نبی جو خبر دے رہا ہے وہی بات زیادہ صحیح ہے۔ یہ آپ کے پاس ایک ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ حقیقت کا راستہ ہی دوسرا بتاتا ہے اور وہ قیاس کا راستہ نہیں بتاتا۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے حقیقت کے علم تک پہنچ جائیں گے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ سائنٹی فک معلومات کے ذریعے سے جانچ سکتے ہیں کہ نبی جو اطلاع آپ کو دے رہے ہیں، وہ زیادہ معقول ہے، یا جو دوسرے مختلف قیاسات قائم کر رکھے ہیں وہ زیادہ معقول ہیں؟

ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ نبی یہ کہتے ہیں کہ خدا ہے۔ کائنات کو دیکھیے۔ ایک عظیم الشان کائنات سے لے کر کرئہ زمین تک دیکھیے اور راے قائم کیجیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے بغیر قائم ہوسکتا ہے، یا یہ سب کچھ قائم کرنے کے لیے خدا درکار ہے؟ اگر ایک آدمی اندھے تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو وہ کہے گا کہ کائنات کا یہ explaination کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے یہ نہایت نامعقول ہے، اور یہ explaination کہ ایک حکیم قادرِ مطلق نے اس کو بنایا ہے اور وہ اس کو چلا رہا ہے، یہ زیادہ معقول ہے۔

اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے۔ انبیا ؑ خبر دیتے ہیں کہ آخرت ہوگی، تم کو مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جواب دہی کرنی ہے، اور تمھارے اعمال جیسے ہوں گے اس کے لحاظ سے تمھارا مستقبل بنے گا۔ دوسری طرف ایک آدمی کہتا ہے کہ نہیں، کوئی آخرت نہیں ہوگی، مرکر مٹی ہوجانا ہے،   بالکل معدوم ہوجانا ہے۔ کائنات کو دیکھیے اور خود اپنے وجود کو دیکھیے اور اس کے بعد راے قائم کیجیے کہ ان دونوں میں سے کون سی بات زیادہ معقول ہے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور خود تمھارے اپنے نفس میں نشانیاں ہیں۔ کیا تم کو نظر نہیں آتیں؟ لیکن یہ نشانیاں کن لوگوں کے لیے ہیں، لِّلْمُوْقِنِیْنَ، جو یقین لانے کو تیار ہوں۔ایک آدمی جو قسم کھا کر بیٹھ گیا ہے کہ مجھ کو نہیں ماننا، اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس حال میں ہوگا کہ جیسے اسے کچھ نظر  نہیں آیا۔ لیکن جو آدمی یقین لانے کے لیے تیار ہے اور اس نے اپنے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں کرلیے ہیں، اس کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔

زمین میں جس طرف بھی آپ نگاہ اُٹھا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ پورا نظام سراسر حکیمانہ ہے۔ اس نظام میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی آدمی کو اس زمین کے اُوپر وسیع اختیارات دے دیے گئے ہوں، بے شمار ذرائع اس کے قبضے میں دے دیے گئے ہوں، من مانی کرنے کے مواقع اس کو دے دیے گئے ہوں، جانوروں پر، انسانوں پر، تمام موجودات پر مختلف طرح کی چیزوں پر اس کو قدرت عطا کر دی گئی ہو، لیکن اس سے یہ نہ پوچھا جائے کہ تو نے ان ساری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا ہے؟ جو اختیارات تجھ کو دیے گئے تھے تو نے ان کو کیسے استعمال کیا؟ اس زمین کے نظام پر جو آدمی بھی غور کرے گا وہ ضرور محسوس کرے گا کہ اس کو کسی اندھے راجا نے نہیں بنایا ہے۔ یہ کوئی چوپٹ راج یا اندھیر نگری نہیں ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان زمین اور    اس کے بے شمارے ذرائع اور اس کے اندر تصرف کے اختیارات کسی کو دے دیے جائیں اور پھر پلٹ کر اسے پوچھا ہی نہ جائے کہ تو نے اس سب کا کیا کیا؟ ایسا کوئی اندھا راجا ہی کرسکتا ہے جو پلٹ کر پوچھے ہی نہ کہ تم نے کیا کیا؟ اگر آپ اپنے نوکر کو پانچ روپے دیتے ہیں تو اس سے بھی حساب لیتے ہیں کہ تو نے انھیں کہاں خرچ کیا۔ اس زمین پر انسان کو بے شمار اختیارات دے دیے جائیں، وسائل دے دیے جائیں اور پھر اس سے پلٹ کر نہ پوچھا جائے کہ تم نے ان چیزوں پر کیسے تصرف کیا اور انھیں کیسے استعمال کیا، تو یہ اندھیر نگری اور اندھا راج نہ ہوا تو اور کیا ہے؟ اسی طرح فرمایا گیا:

وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط(۵۱:۲۱) تمھارے اپنے نفس کے اندر نشانیاں ہیں۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمھارے اپنے نفس کے اندر نیکی اور بدی کا امتیاز موجود ہے۔ تمھارے اپنے نفس کے اندر یہ تصور موجود ہے کہ مختارانہ فعل کو ن سا ہے اور غیرمختارانہ فعل  کون سا ہے۔ آدمی اگر پلک جھپکاتا ہے تو وہ غیرمختارانہ فعل ہے اور اگر وہ کسی کو آنکھ مارتا ہے تو یہ مختارانہ فعل ہے۔ دونوں میں فرق ہے اور ہر آدمی اس فرق کو جانتا ہے۔ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو ان دونوں چیزوں میں امتیاز نہ کرسکتا ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے نفس میں یہ حِس موجود ہے۔ جب تمھارے نفس میں یہ حِس موجود ہے تو یہ خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمھارے اختیاری افعال اور غیراختیاری افعال کے درمیان کسی وقت فرق کیا جائے اور جو اختیاری افعال ہیں ان کے متعلق تم سے پوچھا جائے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ اگر تم نے اپنے اختیارات سے نیکی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم کو تمام نیکیوں کا بدلہ نہ ملے۔ جن لوگوں نے ساری عمر حق پھیلانے کے لیے کام کیا ہو، ساری عمر خلقِ خدا کے ساتھ بھلائی کی ہو، جن لوگوں نے لوگوں کو ایسی روشنی دکھائی ہو کہ صدیوں تک خلقِ خدا ان سے فائدہ اُٹھاتی رہے، کیا وہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کو اس کا بھرپور انعام دیا جائے؟ کیا دنیا میں سبھی اس طرح کے لوگوں کو ان کا انعام ملا ہے؟ اگر انعام ملا بھی تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی تمام نیکیوں کا پورا پورا انعام تھا؟

اگر وہ اس کا پورا پورا انعام نہیں پاسکے اور نہیں پاسکتے۔ اس دنیا میں اس کا امکان نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی نے دنیا میں حق کی روشنی پھیلائی ہے اور دوہزار برس یا چار ہزار برس تک لاکھوں اور کروڑوں انسان اس کا فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نیکی کا پورا پورا اجر اس کو مل جائے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کا کوئی امکان نہیں ہے، تو لامحالہ ایک وقت ایسا ہونا چاہیے کہ جب اس آدمی کو اس کی اس طرح کی نیکیوں کا بھرپور اجر مل سکے۔

اسی طرح اگر کسی نے اس دنیا کے اندر بدی کے بیج بوئے اور ہزارہا برس تک خلقِ خدا کے اندر وہ بدی کے بیج اپنے کانٹے بکھیرتے رہے، تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ اس کو اس دنیا میں اس کی پوری سزا مل سکے۔ اوّل تو بہت سے لوگ سزا پائے بغیر ہی چلے گئے۔ انھوں نے جو کچھ بُرے کام دنیا میں کیے لیکن ان کو اس کا کوئی نقصان نہ پہنچا۔ اسٹالن مرتے مر گیا اور دنیا کے اندر ظلم و ستم کرتا رہا، بتایئے اس کو کیا سزا ملی؟ آخر وقت تک اس کی ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔ لامحالہ اس طرح کا وقت ہونا چاہیے جب اس طرح کے لوگوں کی بھرپور گرفت ہو ، جنھوں نے لاکھوں انسانوں پر ظلم ڈھایا ہو اور جن کے مظالم کے اثرات و نتائج نہ معلوم کتنی صدیوں تک خلقِ خدا بھگتے گی اور کروڑوں آدمی اس سے متاثر ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت کی نشانیاں تو تمھارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ جس طرف زمین میں نگاہ اُٹھا کر دیکھیں آخرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر تم اپنے نفس پر غور کرو گے تو اسی طرح آخرت کی نشانیاں پائو گے۔ لیکن تم کو اس لیے نہیں سوجھتا کہ تم آخرت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ آخرت پر ایمان لانے کے لیے اس پر یقین لانا ضروری ہے۔

آخرت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے انسان خواہ کتنی ہی حجتیں کرلے،درحقیقت آخرت پر ایمان لانے کے لیے انسان صرف اس لیے تیار نہیں ہوتا ہے کہ اگر آخرت کو مان لے گا تو پھر دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح نہیں رہ سکے گا۔ اس کی یہ آزادی کہ جس کھیت میں چاہے منہ مارے، اور جہاں چاہے دوڑتا پھرے، اور جو کچھ چاہے کرتا پھرے، یہ آزادی، آخرت پر یقین رکھ کر کوئی شخص برت ہی نہیں سکتا۔ آدمی اپنی اس آزادی کی خاطر اور اپنے آپ کو اخلاقی بندھنوں میں پھنسانے سے بچانے کے لیے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جو آدمی یہ یقین لانے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے لیے کوئی نشانیاں نہیں ہیں۔ وہ صرف اس وقت مانے گا جب آخرت میں فرشتے اس کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ اس سے پہلے وہ ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوگا۔

وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ o فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۲-۲۳) آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔

یعنی جس طرح تمھارا بولنا یہ امر واقعہ اور حقیقت ہے کہ تم بول رہے ہو۔ اسی طرح یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ آخرت ہونی ہے اور یہ یقینا حق ہے۔ آسمان اور زمین کے رب کی قسم کھا کر کہا گیا ہے کہ یہ امرِ حق ہے۔ کیا چیز امرِ حق ہے؟ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، یعنی آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ چیز ، یعنی آخرت بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آسمان میں کہیں رزق رکھا ہوا ہے اور وہ لاکر پھینک دیا جائے گا، اور آسمان میں کہیں آخرت رُکی پڑی ہوئی ہے اور یک دم اسے کھول دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی نے جب کبھی خدا سے دُعا مانگنی ہوتی ہے تو ہمیشہ اُوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ جب کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوران میں کوئی اشارہ کرتا ہے تو آسمان کی طرف کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کی فطرت میں یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو عالمِ بالا میں محسوس کرتا ہے۔ اسی چیز کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ عالمِ بالا ہی میں تمھارا رزق مقدر ہے اور عالمِ بالا ہی میں آخرت کا آنا بھی مقدر ہے۔

پہلی چیز رزق کا بیان اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں اگر آپ غور کرکے دیکھیں  گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ لازماً اس کی اپنی کوششوں اور تدبیروں کا نتیجہ نہیں ہے۔

ایک شخص ایک رئیس کے ہاں پیدا ہوگیا۔ اس رئیس کے ہاں اسے جو عیش و آرام حاصل ہوا اور جو وراثت ملی، یہ بجز اس کے کہ کسی نے اس کو وہاں پیدا کر دیا تھا اور اس وجہ سے اسے یہ سب کچھ ملا، ورنہ ایسا نہیں ہے کہ وہ خود اپنی کوشش سے آیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ    ماں باپ کچھ خاص بچوں کو چھانٹ کر لے آئے ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اور شخص کسی نفس کو چھانٹ کر وہاں پیدا کردے۔ معلوم ہوا کہ نہ وہ شخص خود اپنے انتخاب سے اس گھر میں آیا تھا  اور نہ اس کے ماں باپ اسے چھانٹ کر لائے تھے، اور نہ کسی ڈاکٹر نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ اس شخص کے ہاں فلاں شخص نے پیدا ہونا ہے۔

اسی طرح سے انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جائے، اور ہروقت انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کے لیے کوششیں کرتے اور اس کے لیے اپنا پورا سر مار لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آپ کی کوششوں کے بغیر ہی ایک ایسی چیز آپ کو حاصل ہوجاتی ہے جو آپ کے لیے مفید ہوتی ہے۔

معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے جو فیصلہ کرنے والی ہے اور وہ فیصلہ بھی بڑی باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور الل ٹپ نہیں ہو رہا۔ وہ فیصلہ کسی حکیمانہ طریقے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح جب انسان غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگاکہ رزق کی تقسیم بڑے حکیمانہ طریقے سے ہو رہی ہے۔ جس طرح سے تمھاری قسمت کا فیصلہ اس دنیا کی زندگی میں ہو رہا ہے اور کوئی حکیم اور قادرِمطلق کر رہا ہے، اُسی حکیم اور قادرِ مطلق کا یہ فیصلہ ہے کہ تمھارے اُوپر آخرت بھی آئے۔

فَوَ رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۳) آسمان اور زمین کے رب کی قسم وہ آکر رہے گی اور وہ امرحق ہے۔

رَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ کی قسم کھا کر کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کائنات کے خدا کے متعلق  تم اگر کوئی صحیح تصور قائم کرو گے تو لامحالہ تمھارا دل یہ گواہی دے گا کہ وہ اندھا راجا نہیں ہے اور   اس کی نگری چوپٹ نگری نہیں ہے۔ اس کے اندر لازماً یہ ضروری ہے کہ آخرت ہو اور اس کے اندر حساب کتاب ہو۔ (جاری)(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، مرتب: امجد عباسی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَالذّٰارِیٰتِ ذَرْوًا o فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا o فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا o فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا o اِِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذٰریٰت۵۱ :۱-۶) قسم ہے ان ہوائوں کی جو گرد اُڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھانے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں، حق  یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے، وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔

یہ سورئہ ذاریات ہے۔ اس کا اصل موضوع تنبیہہ اور آخرت کا برپا ہونا ہے۔ اس میں قسم کھاکر یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، یعنی مرکر دوبارہ اُٹھنا، اللہ تعالیٰ کے حضور میں سب انسانوں کا جمع ہونا اور جمع ہوکر اپنا حساب دینا، یہ سچا وعدہ ہے۔ یوم الدین، یعنی جزاوسزا کا دن واقع ہونے والا ہے۔

یہاں جس بات پر ان ہوائوں کی قسم کھائی گئی ہے جو بارش کا موسم آنے پر چلتی ہیں وہ یہ ہے کہ آخرت کا وقت آنے والا ہے اور یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ابتدا میں پراگندا ہوائیں چلتی ہیں اور خاک اُڑاتی ہیں۔ اس کے بعد پھر اپنے اُوپر بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، یعنی پانی سے لدے ہوئے بادل۔ پھر ان کو لے کر چلتی ہیں۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (۵۱:۴) پھر ایک بڑے کام کی تقسیم کرنے والی ہیں۔ یہاں ’امر‘ سے مراد بارش ہے۔

ان دونوں چیزوں، یعنی ہوائوں اور بارش میں کیا مناسبت ہے؟

دراصل اس کی مناسبت یہ ہے کہ ہوائوں کا یہ انتظام اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ     اس کائنات اور دنیا کا یہ نظام نہ الل ٹپ بن گیا ہے اور نہ الل ٹپ چل رہا ہے کہ کوئی اندھی بہری طاقتیں ہزاروں لاکھوں سال سے اس نظام کو چلائے جارہی ہیں، بلکہ یہ ایک منظم کائنات ہے جس کی پشت پر ایک قانون بڑی باقاعدگی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں یہ قانون بنایا ہے کہ زمین گردش کرتی ہوئی ایک خاص حصے میں داخل ہوتی ہے تو اس پر گرمی کا موسم آجاتا ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں۔ جس وقت یہ بخارات بڑی تعداد میں عالمِ بالا میں جمع ہوجاتے ہیں تو اس وقت خاص قسم کی ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ ہوائیں ان بخارات کو بادلوں میں بدل دیتی ہیں اور پھر ان بھاری بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔سمندروں کے اُوپر سے اور مختلف خطوں کے اُوپر سے باقاعدگی سے گزرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہوائوں کے گزرنے کا قانون مقرر کر رکھا ہے اور ہرعلاقے سے وہ اسی حساب سے گزرتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ’’پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں‘‘۔ ایسا نہیں ہوتا، مثلاً کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے وہاں دو دن بارش ہوجائے اور کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے اور وہاں ایک دن بارش ہوجائے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ پورے روے زمین پر بارش کے زمانے میں بارش ہوتی ہے۔ بالعموم جس ملک میں جس موسم میں بارش ہوتی ہے، اس زمانے میں وہاں بارش ہوتی ہے اور اس کی اوسط قائم رہتی ہے۔ اس میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن ایک معمول قائم رہتا ہے۔

یہ ساری چیزیں اس بات کی متقاضی ہیں اور لازم ہے کہ اس کائنات میں ایک قدرت کے ساتھ ایک نظم قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنی زمین پر رہنے والوں اور اپنی زمین کے مختلف حالات کے لحاظ سے نظم قائم کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکیمانہ نظام ہے اور ایسا نظام نہیں ہے جس کو اندھی بہری قوتیں چلاتی ہوں۔ا گر اندھی بہری قوتیں اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو یہ نظام اس باقاعدگی کے ساتھ اور اتنی حکمتوں کے ساتھ قائم نہ رہتا۔

اب، جب کہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے تو پھر پورے نظام کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ  اللہ تعالیٰ اس زمین کے اُوپر انسان کو پیدا کرکے، اس کو عقل دے، تمیز دے، اختیارات دے، اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر اس کو قدرتیں عطا فرمائے یا وہ اپنے حاکمانہ اختیار کو استعمال کرے، اور یہ سب کچھ دینے کے بعد اس سے کچھ نہ پوچھے کہ جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے اس کا تو نے کیا کیا ہے؟ اس میں اخلاقی حِس پیدا کرے، نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ نیکی کا نتیجہ اچھا ہونا چاہیے اور بدی کا نتیجہ بُرا ۔ اس کے ہاتھوں سے اس دنیا میں نیکی بھی ہو اور بدی بھی، وہ ظلم بھی کرے اور انصاف بھی۔ یہ سارے مختلف کام وہ زمین پر کرتا رہے اور اس کے بعد مرکر یہیں مٹی ہوجائے اور نہ کسی نیکی کا کوئی نتیجہ نکلے اور نہ کسی بدی کا کوئی نتیجہ۔ نہ کسی ظالم سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ اور نہ کسی مُنصف کو اس کے انصاف پر انعام دیا جائے۔ اس چیز کی توقع کسی حکیمانہ نظام میں نہیں ہوسکتی بلکہ ایک اندھے بہرے نظام سے ہی ہوسکتی ہے۔

اگر یہ اندھا بہرا نظام ہے تو اس میں انسان کو بھی پیدا کیا گیا ہے جس کو اتنا کچھ دیا گیا ہے اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ یہ کہتا ہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلارہی ہیں۔ دوسری طرف ان اندھی بہری طاقتوں میں یہ بات بھی ہے کہ وہ اخلاقی حِس بھی انسان میں پیدا کرتی ہیں اور نیکی اور بدی کی تمیز بھی۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی انسان کہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلا رہی ہیں اور وہ اتنا ضدی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے خود یہ محسوس ہوگا کہ جو طاقتیں زمین کو چلا رہی ہیں، گرمی اور سردی اور تپش کا قانون اور مختلف طاقتیں جو زمین میں کارفرما نظر آرہی ہیں، ان میں سے کسی میں بھی کوئی اخلاقی حس نہیں ہے۔ کسی کے اندر نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کے اندر نیک اور بد کی تمیز نہیں پیدا ہوسکتی۔ یہ کوئی حکیم ہی ہے جس نے انسان کے اندر یہ اخلاقی حس پیدا کی ہے، جو مادی طاقتوں کے اندر کسی میں موجود نہیں ہے۔ نہ ہائیڈروجن میں ہے، نہ آکسیجن میں اور نہ پانی اور ہوا میں۔ اس نے صرف انسان میں ہی یہ اخلاقی حس اور نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کی ہے۔

یہ ایک حکیمانہ نظام ہے اور کسی بھی حکیمانہ نظام میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ  کسی کو اختیارات دیے جائیں اور اس سے پوچھا نہ جائے کہ اس نے ان اختیارات کو کیسے استعمال کیا؟ کسی کو طاقتیں عطا کی جائیں اور یہ دیکھا نہ جائے کہ اس نے ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا؟ نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کردی جائے اور پھر نیکی اور بدی کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہوائوں کا جو نظام تمھیں نظر آرہا ہے، یہ بتا رہا ہے کہ قیامت کے آنے کا جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی تم کو جو خبر دی جارہی ہے، یہ یقینا سچی ہے۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیکھے گا وہ یہ باور کرے گا کہ فی الواقع یہ چیز ہونے والی ہے اور یہ کائنات الل ٹپ نہیں چل رہی ہے۔

وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ o اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ o یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ o (۵۱:۷-۹) قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی، (آخرت کے بارے میں) تمھاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔

حُبُک کے دو معنی ہیں۔ اس کے معنی راستے کے بھی ہیں اور متفرق شکلوں کے بھی۔  جس طرح ریگستانی علاقوں میں کثرت سے ہوائیں چلنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے ریت کے تودے ٹوٹ پھوٹ کر لہروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ایسے ہی بعض اوقات آسمان پر بادل کٹے پھٹے ہوکر دُور دُور تک جہاں تک نگاہ جاتی ہے، نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے اس آسمان کی جس میں راستے بنے ہوئے ہیں یا کٹے پھٹے بادل نظر آرہے ہیں، تم اپنے احوال میں مختلف ہو۔

یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ، ان مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے، دھوکا کھانے والا شخص یعنی جس آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہو اور جس آدمی کا مزاج ہی ایسا ہو کہ وہ دھوکے ہی کو پسند کرتا ہو، اور جو دوسروں کو دھوکا دینے والا ہو اور اسی کی بات سنتا اور قبول کرتا ہو، جو دھوکا دیتا ہے ، وہی شخص مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے۔

یہاں آسمان پر مختلف بادلوں کی اور آسمان پر تاروں کے درمیان مختلف فاصلوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک تارے اور دوسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر دوسرے اور تیسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور لامحالہ ان کے درمیان کتنے راستے ہوتے ہیں۔ آسمان پر متفرق طور پر جس طرح تارے بکھرے ہوئے ہیں اور متفرق طور پر آسمان میں یہ بادل بکھرے ہوئے ہیں، اسی طرح سے تمھارے احوال بھی مختلف ہیں۔

احوال سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں آخرت کے بارے میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے یہ تصور قائم کرلیا ہے کہ کوئی آخرت نہیں ہونی ہے۔ انسان کو مر کر مٹی ہو جانا ہے اور کسی کے سامنے جواب نہیں دینا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان پہلے بھی اس دنیا میں بار بار جنم لیتا رہا ہے اور آیندہ بھی باربار جنم لیتا رہے گا۔ جیسے اس کے اعمال ہوتے ہیں مرنے کے بعد وہ دوبارہ ان کے مطابق جنم لیتا رہے گا۔ کسی جنم میں وہ کتا بن کر اُٹھتا ہے، کسی جنم میں بیوی یا لڑکی   بن کر اُٹھتا ہے۔کسی جنم میں حیوان بن کر اُٹھتا ہے اور کسی جنم میں چوہا بن کر اُٹھتا ہے۔ کوئی شخص جو تناسخ کا قائل ہے وہ اس طرح سے سوچتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ تو ہوگا لیکن اللہ کے کچھ ایسے پیارے بندے ہیں خواہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں لیکن وہ ہمیں بخشوا لیں گے کہ یہ تو ہمارے خاص بندے ہیں۔ کوئی دوسرا گناہ کرکے آئے تو وہ پکڑا جائے گا اور سزا کا مستحق ٹھیرے گا لیکن یہ بچ جائیں گے۔ اس طرح آخرت کے بارے میں لوگوں نے مختلف تصورات قائم کر رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے آخرت کے بارے میں جو مختلف احوال، عقیدے اور تصورات قائم کر رکھے ہیں، ان سے وہی شخص دھوکا کھاتا ہے جو دھوکا کھانا ہی چاہتا ہے۔

آدمی دھوکا اسی وقت کھاتا ہے جب آدمی کی طبیعت کا میلان اس طرف ہوتا ہے۔ جب اس سے اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو وہ دھوکا کھاتا ہے۔ ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہونا ہے، کوئی آخرت نہیں ہونی، کوئی جواب طلبی نہیں ہونی۔ اس بات کو وہی شخص تسلیم کرتا ہے جس کا یہ دل چاہتا ہے کہ میں زمین میں جو چاہوں کروں، جس ڈگر پر چاہوں چلوں، جس کھیت میں چاہوں منہ مارتا پھروں، جس کے ساتھ جو چاہوں ظلم کروں اور مجھ سے کسی قسم کی جواب دہی نہ ہو اور کوئی جزا و سزا نہ ہو۔ اگر جزا و سزا کو وہ مان لے تو اس کی یہ آزادی ختم ہوجائے گی۔

جزا و سزا کے ماننے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جس کا ہے اس کا ہوجائے۔ اگر اس کے دل میں یہ سوچ راسخ ہوجائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کرسکوں گا یا نہیں،  یا جو کچھ کر رہا ہوں اس کا خمیازہ آخرت میں جا بھگتوں گا، تو یہ سب کچھ پھر اس طرح ہو نہیں سکتا۔ اس وجہ سے اس کا یہ جی چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرے کہ وہ یہ سب کچھ دنیا میں کرتا رہے۔ جس کا چاہے حق مارے، جس سے جی چاہے زیادتی کرے، اور جس طرح چاہے اپنی خواہشات پوری کرے اور ان اعمال کا کوئی نتیجہ اسے نہ بھگتنا پڑے۔ اس وجہ سے وہ دھوکا کھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔

اسی طرح سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے جرائم کا کوئی نتیجہ نہ بھگتوں وہ اگر آخرت کو مانتا بھی ہے تو اس کے ساتھ شفاعت کا عقیدہ بھی اختیار کرتا ہے۔ شفاعت کا اسلامی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ تم اطمینان سے جو چاہے جرائم کرو اور کوئی صاحب تمھیں آخرت میں بخشوانے کی ذمہ داری لے لیں کہ تمھیں بخشوانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ بس تم ہمارا نذرانہ دیتے رہو اور ہم تمھیں   خدا سے معافی دلوا دیں گے۔ یہ عقیدہ لازماً ایسا ہی شخص قبول کرتا ہے اور جاکر نذرانے دیتا ہے۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ میں دنیا میں چوریاں کروں، بدمعاشیاں کروں، بدکرداریاں کروں، ظلم و ستم کروں اور کوئی صاحب ایسے ہوں جو مجھے وہاں بخشوا دیں، اور وہاں کسی قسم کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔

حقیقت میں نہ کوئی بے وقوفی سے دھوکا کھاتا ہے اور نہ سادہ لوحی سے، جو دھوکا دیتا ہے اور جو دھوکا کھاتا ہے، دھوکا دینے والے اور دھوکا کھانے والے کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب آخرت کا رونا روتے ہیں اور دل میں اس کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک صاحب جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں اور پھر اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ یااللہ مجھے آیندہ کے لیے بچانے کا انتظام کر۔ لازماً اس طرح کی باتوں پر دھوکا وہی لوگ کھاتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوں، جرم کرنا چاہتے ہیں اور جرم کر کے اس کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح سے تناسخ کا عقیدہ وہی شخص اختیار کرتا ہے جس کا اس دنیا سے جانے کو کسی طرح بھی دل نہیں چاہتا۔ دوبارہ اسی دنیا میں آئے اور کسی طرح رہ لے۔ وہ اس دنیا کو کسی طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ اس لیے وہ یہ عقیدہ اختیار کرتا ہے کہ اگر بُرے کام کرو گے تو اس دنیا میں ضرور آئو گے خواہ کتا بن کر آئو۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمھارے ان مختلف احوال میں دھوکا وہی شخص کھا سکتا ہے جو دھوکا کھانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوچ سمجھ سے کام لے، اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو وہ کبھی  نہ تناسخ کے عقیدے کو مان سکتا ہے اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ تم دنیا میں جرائم کرو اور کوئی ہستی وہاں تمھیں بچا لے۔

قُتِلَ الْخَرّٰصُونَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ o (۵۱:۱۰-۱۱) مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں۔

خرص عربی زبان میں قیاس، اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی شخص اگر ایک باغ ٹھیکے پر لینا چاہتا ہے تو وہ باغ میں جاکر ایک نگاہ ڈال کر اندازہ کرے گا کہ اس باغ میں کتنا پھل ہے، اور جو شخص ٹھیکے پر دینا چاہتا ہے وہ بھی اندازہ کرے گا کہ اس میں کتنا پھل ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان ایک فیصلہ ہوتا ہے۔ گویا اس سے مراد کسی چیز کے بارے میں بغیر علم کے محض قیاس کی بنا پر اندازہ لگانا یا اندازے سے حکم لگانا ہے۔ جو شخص باغ کے پھل کا اندازہ لگاتا ہے وہ اسے گنتا اور تولتا نہیں ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ آندھی آنے پر کتنا پھل ٹوٹ جائے گا اور یہ کہ کتنا پھل پرندے کھا جائیں گے۔ ایک اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باغ اتنا پھل دے جائے گا اور اس کی بنیاد پر وہ سودا کرتا ہے۔

ایسے سودے دنیا کے چھوٹے چھوٹے باغوں اور کھیتوں کے بارے میں تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک شخص ایسے اندازے، تخمینے اور اٹکل پچو سے اتنے بڑے معاملے کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ دنیا کیسے چل رہی ہے؟ اسی تخمینے اور قیاس کی بنا پر وہ یہ بھی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس دنیا میں میری حیثیت کیا ہے؟ میں کسی کا بندہ ہوں یا نہیں یا شتر بے مہار ہوں جو اس دنیا میں اتفاقاً آگیا ہے اور چُھوٹا پھر رہا ہے۔ مجھے کسی کو جواب دینا ہے یا نہیں؟ جس کے سامنے جواب دینا ہے کیا وہ رشوت خوار تو نہیں یا اس کے کوئی ایسے چہیتے تو نہیں ہیں جو اسے بخشوا لیں گے؟ اس طرح کے اتنے بڑے اور دین کے بنیادی معاملات کو اگر کوئی شخص اٹکل پچو سے طے کرے اور ان کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار کرلے اور اس عقیدے پر ایمان رکھے اور لوگوں کو دعوت دے کہ وہ اس کی تصدیق کریں اور اس بات کو مانیں، تو یہ حقیقت میں تباہی کا راستہ ہے۔

اگر ایک باغ کے بارے میں اس نے اندازہ کیا اور اس کے بعد آندھی آئی اور اس کا پھل تباہ ہوگیا تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ ایسا تباہ کن نہ ہوگا کہ وہ تباہ و برباد ہوجائے۔ لیکن جو شخص اس کائنات کے بارے میں محض تخمینے اور قیاس کی بنا پر کوئی فیصلہ کرڈالے اور وہ فیصلہ غلط نکلے تو اس آدمی کا کیا حشر ہوگا؟ یا کسی شخص نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا نہیں ہے، مرنا نہیں ہے، حساب کتاب نہیں دینا ہے۔ اس کے بعد جب وہ مر کر دوسری زندگی یا دوسرے مرحلے میں داخل ہوا اور یکایک اسے جاکر معلوم ہوا کہ خدا بھی ہے، اس کے فرشتے بھی ہیں اور اسے حساب کتاب بھی دینا ہے اور مرنے کے بعد دوسری زندگی بھی ہے۔ دنیا میں اسے جو وقت عمل کے لیے ملا تھا وہ سارا وقت اس نے اپنے اندازے سے ضائع کردیا۔ اب اس سے بڑھ کر تباہی اور بربادی کا سودا اور کیا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ اٹکل پچو لگانے والے مارے گئے اور تباہ ہوگئے، یعنی اپنے ہاتھوں انھوں نے اپنے آپ کو جس خطرے میں ڈال دیا اس سے ان کا سارا کیا کرایا تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کا پوری عمر کا سرمایہ تباہ ہوگیا۔ اس نے پوری عمر جن کاموں پر محنت کی، یہاں آکر معلوم ہوا کہ ان سب کے نتیجے میں ازلی جہنم کی سزا ہوگئی ہے۔ جن چیزوں پر اس نے عمربھر کا سرمایہ لگایا وہ سارے کا سارا یہاں آکر ختم ہوگیا۔

اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے کے معاملے میں محض قیاسات پر بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔ قیاسات پر بنیاد رکھنے والا غلطی کرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد علم پر ہونی چاہیے۔ آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔

اس کے لیے قرآنِ مجید نے جو راستہ بتایا ہے اسے اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نبی ؐ کے ذریعے سے حقیقت کا علم براہِ راست عطا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام کیا ہے؟ کس نے بنایا ہے؟ اس نظام میں تم کس حیثیت سے آئے ہو؟ تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمھاری زندگی کا مآل اور انجام کیا ہے؟ تمھارے لیے دنیا میں کام کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟ وہ کیا قانون ہے جس پر چلنا چاہیے؟ کن راہوں پر تمھیں چلنا چاہیے؟ کون سے ضابطے ہیں جن کی پابندی تمھیں کرنی چاہیے؟ کن افعال کا کیا نتیجہ تم دیکھنے والے ہو؟ یہ ساری چیزیں حقیقت کے مطابق امرِواقعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے سواکوئی صحیح علم رکھنے والا نہیں ہے، اس کے سوا اس حقیقت کو جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ انبیا ؑکے ذریعے اس حقیقت کو اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔

آپ کو عقل دی گئی ہے، آپ کو حواس دیے گئے ہیں۔ آپ آنکھیں رکھتے ہیں دیکھنے کے لیے۔ آپ کان رکھتے ہیں سننے کے لیے۔ آپ حواس رکھتے ہیں محسوس کرنے کے لیے۔ یہ ساری دنیا اور کائنات آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا دن رات آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کے آثار آپ کو نظر آرہے ہیں۔ آپ کے پاس عقل ہے۔ان آثار کا اندازہ لگا کر اور مرتب کر کے آپ منطقی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ صلاحیت آپ کو دی گئی ہے اور دوسری طرف انبیا ؑکے ذریعے علم دیا گیا ہے۔ آپ کو جو حواس دیے گئے ہیں اور جو ذرائع معلومات دیے گئے ہیں وہ   براہِ راست حقیقت تک تو نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن آپ کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ جب نبی ؑ کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے تو آپ اپنے مشاہدے اور حواس سے کام لے کر اسے جانچ اور پرکھ سکیں۔ آپ کے سامنے جو زیادہ سے زیادہ اقوال آتے ہیں انھیں آپ پرکھ سکیں کہ ان میں سے کون سا زیادہ معقول ہے، مثلاً یہ کہ ایک قول یہ آتا ہے کہ خدا نہیں ہے، یا یہ قول آتا ہے کہ بہت سے خدا ہیں، یا نبی ؐکا یہ قول آتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔

اب آپ اس کائنات پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ کیا اس بات کی کوئی شہادت ملتی ہے کہ اس کائنات کو بہت سے خدا چلا رہے ہیں؟ اب جو شخص عقل سے کام لے گا اور کائنات کا مشاہدہ کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نبی ؑ جو خبر دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے، وہی بات درست ہے۔ اس کائنات کے بہت سے خدا نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح ایک قول آپ کے کان میں یہ پڑتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔  دوسرے الفاظ میں یہ کائنات کا عظیم الشان نظام خود بخود قائم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی عقل سے کام لے اور کائنات کا جو مشاہدہ اسے حاصل ہو رہا ہو اور اس سے جو معلومات اسے مل رہی ہیں اگر وہ اپنی عقل کے مطابق انھیں مرتب کرے، اس کا دل یہ گواہی دے گا بشرطیکہ وہ تعصب میں مبتلا نہ ہو کہ  اتنا عظیم الشان نظام جو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں برس سے چل رہا ہے، وہ نہ بغیر خدا کے بن سکتا ہے اور نہ بغیر خدا کے چل سکتا ہے۔ یقینا انبیا ؑ کی یہ بات صحیح ہے کہ اس نظام کا ایک مالک ہے اور وہی خدا ہے اور وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔

ایسا ہی معاملہ آخرت کا ہے۔ آدمی براہِ راست اپنے تجربے اور مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنا ہے اور خدا کے ہاں جواب دہی کرنی ہے۔ صرف انبیا ؑ کے ذریعے ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے۔یہ علمی طور پر معلوم ہوتا ہے محض قیاس نہیں، کہ یقینا مرنے کے بعد اُٹھنا ہے۔ نبی ؑ آکر ہمیں خبردیتا ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے۔ اب ہم اپنی عقل اور مشاہدے سے کام لیں اور اس بات کو جانچ کر دیکھیں کہ جو مختلف اقوال ہمارے سامنے آرہے ہیں، کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد بار بار اس دنیا میں آنا ہے، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانا ہے، لیکن کچھ سفارشیں کرنے والے ایسے ہیں جو ہمارے بُرے اعمال کے نتیجے سے ہمیں بچالیں گے۔ پھر نبیؐ کا یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد حساب دینا ہے اور اس کے مطابق ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ ہوگا، اور جیسا عمل کرو گے ویسا نتیجہ ہوگا۔ جب آپ اپنی عقل سے کام لے کر ان مختلف اقوال کو جانچیں گے تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انبیا ؑ کا قول ہی صرف معقول ہے۔ نہ یہ بات معقول ہوسکتی ہے کہ انسان دنیا میں ۶۰، ۷۰، ۸۰ برس زندہ رہے اور ہر طرف ظلم و ستم کرتارہے اور کبھی اس کو جاکر کوئی جواب دہی نہ کرنا ہوگی۔

اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان بار بار اس دنیا میں آکر پھر عمل کرے۔ ایک ہی زندگی کے عمل کے نتائج سے انسان فارغ نہیں ہوسکتا کہ دوسری زندگی اور دوسرا عمل شروع ہوجائے۔ لامحالہ اس کا فیصلہ تب ہی ممکن ہوگا کہ اس کا حساب کتاب بند کیا جائے۔ جب یہ بند ہوگا تو تب ہی اس کی جانچ پڑتال ہوگی اور اس کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک عمل کے ختم ہونے سے قبل دوسرا شروع ہوجائے اور دوسرے کے ختم ہونے سے قبل تیسرا شروع ہوجائے۔ اس سے یقینا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت ہونی چاہیے۔ یہی ایک زندگی ہے جس کا موت کے بعد حساب کتاب ہونا ہے اور بار بار کی زندگی نہیں ہوسکتی۔

عقل خود گواہی دے دے گی کہ یہ بات سراسر انصاف کے خلاف ہے کہ ایک آدمی چوری کرے اور اسے کوئی سزا نہ دی جائے اور دوسرا آدمی چوری کرے اور اسے سزا دے دی جائے۔ ایک چور کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ اللہ میاں کے کچھ چہیتے کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ یہ میرا متوسِّل ہے ، اور مجھے نذرانے دیتا رہا ہے، لہٰذا اسے نہ پکڑا جائے۔ دوسرا آدمی کسی کو رشوت دے کر نہیں آیا، اس لیے اسے پکڑ لیا جائے اور اسے سزا دے دی جائے۔ انسان کی عقل خود کہہ دیتی ہے کہ یہ بالکل انصاف کے خلاف ہے۔ اگر یہ کائنات کسی حکیم نے بنائی ہے تو اسے ضرور عادل اور منصف ہی ہونا چاہیے، اور اس کے ہاں یہ بے انصافی نہیں چلنی چاہیے کہ لوگوں سے رشوتیں لی جائیں اور سفارشیں سنی جائیں اور اس کی بنا پر ایک گناہ گار چھوڑا جائے اور دوسرے گناہ گار کو پکڑا جائے۔

اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خراصون ، یعنی جو لوگ محض اٹکل پچو کی بنیاد پر اور اپنے قیاس اور گمان کی بنیاد پر اتنے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ مارے گئے اور یہ تباہی کا راستہ ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ نبیؐ کے ذریعے سے جو علم آتا ہے اسے اپنی عقل کے ذریعے سے جانچو، پرکھو اور دیکھو اور اس کے بعد جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جو شخص اپنے آپ کو نبیؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے وہ فی الواقع بالکل معقول بات کہہ رہا ہے اور اس کی اپنی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس کا کام بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ آدمی واقعی نبی ہونا چاہیے، لہٰذا اس کی نبوت کو مانو اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرو۔

یَسئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ o (۵۱:۱۲) آخر وہ روزِ جزا کب آئے گا؟

اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ روزِ جزا کے متعلق کفار بھی پوچھا کرتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ دن کب آئے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آخرت کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ایمان داری سے یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی، کس سنہ میں، کس ماہ اور  کس روز اور کس وقت برپا ہوگی؟ اور ان کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ نے تاریخ ان کو بتا دی، مثلاً سنہ پانچ ہزار میں، ستمبر کے مہینے میں ہفتے کے روز، صبح ساڑھے آٹھ بجے قیامت برپا ہوگی، تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان کی غرض نہیں تھی۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں سنہ اور فلاں مہینے میں قیامت برپا ہوگی تو کسی کے پاس جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ فی الواقع ایسا ہوگا؟

ایمان لانے کے لیے یہ سوال کرنا اور نہ کرنا یکساں اور لاحاصل ہے۔ کسی کو ماننا ہے تو دلیل سے مانے، تاریخ پوچھنے کے کیا معنی؟ درحقیقت جو لوگ تاریخ پوچھتے تھے وہ چیلنج کے انداز میں پوچھتے تھے، نہ کہ ایمان لانے کے لیے۔ وہ مذاق اُڑانے کے لیے اور چیلنج کے طور پر پوچھا کرتے تھے کہ جناب آپ جو فرما رہے ہیں کہ ہم کسی وقت دوبارہ اُٹھیں گے اور اپنے خدا کو حساب دیں گے، ذرا بتایئے تو سہی کہ وہ دن کب آئے گا؟ ہم آپ کو جھٹلا رہے ہیں، پتھر مار رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، اذیتیں دے رہے ہیں، اگر ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی تو وہ عذاب کیوں نہیں آجاتا اور کیوں نہیں ہمیں پکڑ لیتا؟ گویا کہ وہ قیامت کو ایسی حالت میں، جب کہ وہ قیامت کو نہیں مان رہے ہیں، رسولؐ کو جھٹلا رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی پکڑ نہیں ہورہی ہے، ان کو جواب دہی نہیں کرنی پڑ رہی ہے، کوئی پولیس نہیں آتی جو انھیں گرفتار کر کے اللہ کے حضور میں لے جائے، اس بات کو وہ اس بات کی دلیل بنانا چاہتے تھے کہ تم بالکل غلط خبر دے رہے ہو کہ کوئی قیامت ہوگی، آخرت ہوگی، جواب دہی کرنا ہوگی اور جزا و سزا ہوگی۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے اس سوال کا جواب اس انداز میں دیا گیا ہے کہ بعض اوقات آدمی حیران ہو کر سوچتا ہے کہ کوئی شخص علم حاصل کرنے کے لیے پوچھ رہا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اسے کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ قیامت کب آئے گی؟ چونکہ وہ علم حاصل کرنے اور ایمان لانے کے لیے نہیں پوچھ رہے تھے اور ایمان لانے کے لیے اور علم حاصل کرنے کے لیے یہ سوال کرنا بالکل بے معنی تھا، وہ تو چیلنج کے انداز میں اور مذاق کے طور پر پوچھتے تھے۔ اب ان کے سوال کا جواب دیکھیے۔اللہ تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہیں:

یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ o ذُوْقُوْا فِتْنَتَکُمْ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ o(۵۱:۱۳-۱۴) وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔

اب بجاے اس کے کہ تم یہ بات سن کر اپنے اعمال، اپنے اخلاق اور کردار کو درست کرتے، بلکہ یہ دھمکی لگانا شروع کر دی کہ ہماری شامت کا وہ وقت آجائے، تو لو وہ تمھاری شامت کا وقت آگیا۔ تم جلدی کر رہے تھے کہ وہ دن آئے جب تمھاری خبر لی جائے، تو لو وہ دن آگیا جب تمھاری خبر لی جائے گی۔ یہ جواب اس لیے دیا گیا کہ وہ مذاق اُڑانے کے لیے پوچھ رہے تھے۔ اس لیے ان سے کہا جا رہا ہے کہ جس چیز کا تم مطالبہ کر رہے تھے، لو اب وہ آگئی ہے اور اب اس کا مزا چکھو![جاری]۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: امجد عباسی)

انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ان سب کی بنیادی علّت انسان کا اپنے آپ کو خودمختار (independent) اور غیرذمّہ دار (irresponsible) سمجھنا، بالفاظِ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے، یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحب ِ امر تسلیم کرے، خواہ وہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اُوپری اصلاح، انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دُور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دُور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔   لہٰذا، اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اِسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خودمختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ  ُ تو جس دنیا میں رہتا ہے، وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے، اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے ، نہ تو اُس کے حدودِ سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اِس اَمٹ اور اَٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خودمختاری کا زَعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اُوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اُس کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔

دوسری طرف اُس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اِس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختارِکار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے  ُتو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان،  کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ’ہزہائینس‘ نہیں ہے، ’ہائینس‘ صرف ایک ہی کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ’ہزہولی نس‘ نہیں ہے، ’ہولی نس‘ ساری کی ساری اُسی ایک کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ’ہزلارڈشپ‘ نہیں ہے، ’لارڈشپ‘ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز (Law Giver) نہیں ہے، قانون اُسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی اَن داتا، کوئی ولی و کارساز، کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بند ے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا،  ُتو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اُسی ایک کا غلام، مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔

یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت اُدھڑ کر ازسرِنو ایک نئے نقشے پر بنتی ہے اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم ؑ سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اِسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہِ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی [ایسا] راستہ اختیار نہ کیا کہ پہلے کچھ سیاسی یا سوشل طرز کا کام کر کے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اِس مقام تک لے آئیں۔ یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اُٹھا، اور اُس نے لا الٰہ الا اللہ کا اعلان کر دیا۔ اِس سے کم کسی چیز پر ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر نہ ٹھیری۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار ہی یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اِس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں۔ جو لوگ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اِس بنیاد پر تعمیرجدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اِس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لا الٰہ الا اللہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اِسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اِسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں اور اِسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اُٹھیں۔ لہٰذا ،اسلامی تحریک کو چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز اِسی دعوتِ توحید سے کیا جائے۔

توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے، جیساکہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں۔    اِس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خودمختاری، یا غیراللہ کی حاکمیت و اُلوہیت کی بنیاد پر بناہو، جڑ بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذن کو اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اِس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکا ررہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اِس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اِس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو مَیں نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودو اختیارات (jurisdiction) مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات مَیں نہیں مانتا، ایک اللہ کے سوا میں سب کا باغی اور سب سے منحرف ہوں، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درند ے ہی درندے ہیں۔

یہی صورت اُس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اِس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اِس کو دبانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ، ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو   اپنے باپ دادا کے مورثی طریقے کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے، اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔( تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۲)

ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذ ِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت،انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپناضابطۂ حیات بناکر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے۔

  • امامت میں تغیر کی ضرورت: اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندئہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے، اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النھار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
  • امامت میں انقلاب کیسے؟ یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الٰہی غیرمومن اور غیرصالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں، تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔

پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار، ص ۱۵-۱۷)

  • صالح گروہ کی تنظیم: ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زُہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا کے کاروبار اُن بُرے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے آتا ہے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے بھی آراستہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت اور قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔

ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اُسی وقت تک چرچُگ لینے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا گروہ تیار ہوجائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، مالیات، علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رُونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی اس بات کا یقین بھی ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رُونما ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی ہوجائے.... (رُوداد جماعت اسلامی، حصہ دوم،ص ۵۲-۵۳)

  • صالح عنصر کو منظم کرنا:اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے....

ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھاکر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا....

اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میںبے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۵-۳۷)

  •  منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
  •  تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
  •  جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو  رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
  •  اسلامی شعور کی بیداری: [پھر] جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں [مزاحمتی] تحریک کا سامنا کرنا ہوگا۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۳-۲۵)
  • انتخابی حکمتِ عملی: جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کامیاب کرالینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کامیابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی بُرے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہوسکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔

تیسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو، بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اُٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اُٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں ....

حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہوجائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجایش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجایش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کر کے آپ ’اصول پرستی‘کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۵۶-۱۵۸)۔ (ترتیب: امجد عباسی)

حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کر کے دیکھو،اس میں تمھارے لیے کتنے منافع ہیں۔ میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گنا سکوں، تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو مَیں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ مگر یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں بھی سن لو!

تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھاکر ایک صاف سیدھا راستہ بنادیتا ہے، بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خودبخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیںہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے، اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خداپرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے ، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی۔ کیوںکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اُسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچّہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انھیں کنکرپتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟

میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر سنا ہی ہوگا کہ    ؎

خر عیسیٰ اگر بمکّہ رود

چُوں باز بآید ہنوز خر باشد

یعنی گدھا خواہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں جو ان عبادتوں میں بھرا ہوا ہے، بلکہ جن کے دماغ میں اِن عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو، وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اُتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں۔ ہرعبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کردی گئی ہے ویسی ہی بناکر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل روح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔

تم دیکھتے ہو کہ ہرسال ہزارہا زائرین مرکز اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کر کے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجاے اس کے کہ دین کی بزرگی کا سکّہ غیرپر جمے، خود اپنوں کی نگاہوں میں بھی    وہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو۔

 حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔ کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھینچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں، ملک ملک اور شہرشہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں، وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ ہرسال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا۔ ہزاروں غیرمسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا اور لاکھوں غیرمسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے۔(’حقیقت ِ حج‘، خطبات، ص ۳۱۲-۳۱۵)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ o مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیْبِنِ o ادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ o  (قٓ ۵۰:۳۱-۳۴) اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا: ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘۔ وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہوگا۔

  •  تقویٰ: [اہلِ جنت کی صفات میں سے پہلی صفت تقویٰ ہے۔] اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جونہی کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اُسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پائوں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہوا وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخولِ جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو، بلکہ اِدھر فیصلہ ہوا اور اُدھر متقی جنت میں داخل ہوگیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہے بلکہ خود جنت ہی اُٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالمِ آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اِس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دُوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔
  •   رجوع الی اللّٰہ: اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کرلیا ہو، جو ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اُس چیز کو اختیار کرلے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہِ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اُٹھے اور توبہ کرکے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اُس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔
  •  اللّٰہ سے تعلق کی نگھداشت: اصل میں لفظ حفیظ  استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں: ’حفاظت کرنے والا‘۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اس کے فرائض اور اس کی حُرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو اُن حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اُس پر عائد ہوتے ہیں، جو اُس عہدوپیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لاکر اُس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کرکے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہروقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔
  • بے دیکہے خدا سے ڈرنا: یعنی باوجود اس کے کہ رحمن اُس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کرسکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زورآور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اُس اَن دیکھے رحمن کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنابلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اِس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت ِ رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔

اس کے علاوہ اِس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خشیت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے۔ خوف کا لفظ بالعموم اُس ڈر کے لیے استعمال ہوتاہے جو کسی کی طاقت کے مقابلے میں اپنی کمزوری کے احساس کی بناپر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اُس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجاے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خوف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اُس پر ہروقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔

  •  دلِ گرویدہ: اصل الفاظ ہیں قلب ِ مُنیب لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رُخ کرنے اور باربار اُسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رُخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی ہلائیں جلائیں، وہ ہِرپھر کر پھر قطب ہی کی سمت میں آجاتی ہے۔ پس قلب ِ مُنیب سے مراد ایسا دل ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو اَحوال بھی اُس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اِسی مفہوم کو ہم نے دلِ گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اُس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اُسی کا ہوکر رہ جائے۔

[ایسے لوگوں سے کہا جائے گا: ’’داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘]۔ اصل الفاظ ہیں: اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ۔سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرقسم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہوکر اس جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آئو اس جنت میں اللہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں: ۱-تقویٰ ۲-رجوع الی اللہ ۳-اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت ۴-اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور ۵- قلب مُنیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی مرتے دم تک انابت کی روش پر قائم رہنا۔(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۱۲۲-۱۲۳)

روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیعِ امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہراس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا....

اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلا گیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش، کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے، مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا، اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘۔(بخاری)

جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘ کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالاںکہ خدا کو اس کے خلوے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضوؐر نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(دارمی)....

ضبطِ نفس

انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے اس کے بنیادی مطالبات تین ہیں، اور چوںکہ وہ تمام حیوانات سے اُونچی قسم کا حیوان ہے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا، بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے، اور اس کے اس مطالبے میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقاے نوع کے لیے صنف ِ مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبے میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے، تنوع چاہتا ہے، حُسن چاہتا ہے، آرایش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلے میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رُکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا....

اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجاے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہوجائے۔ یعنی بجاے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، اُلٹا وہ انسان پر سوار ہوکر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے.... اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان، شرالدواب___ تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان___ بن کر رہ جاتا ہے۔

بھلا جس حیوان کوا پنی خواہشات پوری کرنے کے لیے انسان جیسا خادم مل جائے اس کے شر کی بھی کوئی حد ہوسکتی ہے۔ جس بیل کی بھوک کو بحری بیڑا بنانے کی قابلیت میسر آجائے، زمین کی کس چراگاہ میں اتنا بل بوتا ہوتا ہے کہ اس کے معاشی مفاد کی لپیٹ میں آجانے سے بچ جائے؟ جس کتے کی حرص کو ٹینک اور ہوائی جہاز بنانے کی قوت مل جائے، کس بوٹی اور کس ہڈی کا یارا ہے کہ اس کی کچلیوں کی گرفت میں آنے سے انکار کردے؟ جس بھیڑیے کو اپنے جنگل کے بھیڑیوں کی قومیت بنانے کا سلیقہ ہو اور جو پریس اور پروپیگنڈے سے لے کر لمبی مار کی توپوں تک سے کام لے سکتا ہو، زمین میں کہاں اتنی گنجایش ہے کہ اس کے لیے کافی شکار فراہم کرسکے؟ جس بکرے کی شہوت، ناول، ڈراما، تصویر، موسیقی، ایکٹنگ اور حُسن افزائی کے وسائل ایجاد کرسکتی ہو، جس میں بکریوں کی تربیت کے لیے کالج، کلب اور قلمستان تک پیدا کرنے کی لیاقت ہو، اس کی دادعیش کے لیے کون حدوانتہا مقرر کرنے کا ذمہ لے سکتا ہے؟

ان پستیوں میں گرنے سے انسان کو بچانے کے لیے.... ضروری ہے کہ اس حیوان کے ساتھ اس کے تعلق کی جو فطری نوعیت ہے، اس کو عملاً قائم کیا جائے اور مشق و تمرین کے ذریعے سے سوار  کو اتنا چُست کردیا جائے کہ وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھے اور ارادے کی باگیں مضبوطی کے ساتھ تھامے، اور اس پر اتنا قابو یافتہ ہو کہ اس کی خواہشات کے پیچھے خود نہ چلے بلکہ اپنے ارادے کے مطابق اسے سیدھا سیدھا چلائے.... جتنی چیزیں خدا نے اس دنیا میں ہمارے لیے مسخر کی ہیں، ان میں سب سے زیادہ کارآمد چیز یہی حیوانی جسم ہے.... لیکن بہرحال یہ ہماری اور ہمارے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ہم اس کی اور اس کے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے۔ اس کو ہمارے ارادے کا تابع ہوناچاہیے، نہ کہ ہمیں اس کی خواہشات کا تابع۔ اس کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ ایک فرماں روا کی طرح اپنی خواہشات ہم سے پوری کرائے بلکہ اس کا صحیح مرتبہ یہ ہے کہ ایک غلام کی طرح ہمارے سامنے اپنی خواہشات پیش کرے.... روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر یہی اقتدار بخشنا ہے....

حکیمانہ تدبیر

ایک ذرا سی حکیمانہ تدبیر نے روزے کو انفرادی عمل کے بجاے اجتماعی عمل بنا کر اس کے فوائد و منافع کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تدبیر بس اتنی سی ہے کہ روزے رکھنے کے لیے ایک خاص مہینا مقرر کردیا گیا....

اس حکیمانہ تدبیر سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر کسی ذہنی کیفیت کے تحت کوئی کام کر رہا ہو، اور اس کے گردوپیش دوسرے لوگوں میں نہ وہ ذہنی کیفیت ہو اور نہ وہ اس کام میں اس کے شریک ہوں، تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں بالکل اجنبی پائے گا۔ اس کی کیفیت ذہنی صرف اسی کی ذات تک محدود اور صرف اسی کی نفسی قوتوں پر منحصر رہے گی۔ اس کو نشوونما پانے کے لیے ماحول سے کوئی مدد نہیں ملے گی بلکہ ماحول کے مختلف اثرات اس کیفیت کو بڑھانے کے بجاے اُلٹا گھٹا دیں گے۔ لیکن اگر وہی کیفیت پورے ماحول پر طاری ہو، اگر تمام لوگ ایک ہی خیال اور ایک ہی ذہنیت کے ماتحت ایک ہی عمل کر رہے ہوں تو معاملہ برعکس ہوگا۔ اس وقت ایک ایسی اجتماعی فضا بن جائے گی جس میں پوری جماعت پر وہی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہوگی اور ہر فرد کی اندورنی کیفیت ماحول کی خارجی اعانت سے غذا لے کر بے حدوحساب بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک شخص اکیلا برہنہ ہو اور گردوپیش سب لوگ کپڑے پہنے ہوئے ہوں تو وہ کس قدر شرمائے گا؟ بے حیائی کی کتنی بڑی مقدار اس کو برہنہ ہونے کے لیے درکار ہوگی اور پھر بھی ماحول کے اثرات سے اس کی شدید بے حیائی بھی کس قدر باربار شکست کھائے گی؟ لیکن جہاں ایک حمام میں سب ننگے ہوں وہاں شرم بے چاری کو پھٹکنے کا موقع نہ ملے گا، اور ہر شخص کی بے شرمی دوسروں کی بے شرمی سے مدد پاکر افزوں اور افزوں ہوتی چلی جائے گی....

اجتماعی روزے کا مہینا قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہرغلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا   نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینا گویا خیروصلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں بُرائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوفِ خدا اور حب ِ خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیزگاری کی کھیتی سرسبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانے میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے۔ ہرشخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کا کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کر رہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوجاتے ہیں، ظلم سے ہاتھ رُک جاتے ہیں، بُرائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے، توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں، نیک بہت نیک ہوجاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہوجاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ ہرسال ایک مہینے کے لیے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے، اس کو اوور ہال کیا جاتا رہے، اس کی کایاپلٹی جائے۔ اور اس میں مجموعی حیثیت سے روحِ اسلامی کو ازسرِنو زندہ کردیا جائے۔

اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان آتاہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں‘‘۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’جب رمضان کی پہلی تاریخ آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جِنّ باندھ دیے جاتے ہیں۔ دوزخ کی طرف جانے کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کی طرف جانے کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔  ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ اس وقت پکارنے والا پکارتا ہے: ’’اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے بُرائی کے خواہش مند ٹھیرجا!‘‘(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص۷۸ تا ۱۰۸)

کوئی تہذیبی و تمدّنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی و تمدّنی حرکت ہی روک سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سیلابوں کا مقابلہ چٹانیں کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک سمیت قریب قریب تمام مسلمان ملک مغرب کے فکری و تہذیبی سیلابوں میں غرق ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب ہم حرکت کا مقابلہ حرکت سے اور سیلاب کا مقابلہ جوابی سیلاب سے کر رہے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ساری کھوئی ہوئی زمین واپس لے سکیں گے۔

  •  سیلاب کا مقابلہ سیلاب سے: ہماری تحریک کسی ایک گوشے یا ایک میدان میں ان ضلالتوں کا مقابلہ نہیں کر رہی ہے بلکہ ہرمیدان میں ہمارا اور ان کا تصادم ہے۔ ہم نے ان کے تمام نظریات اور عملی طریقوں پر تنقید کی ہے اور ان کی کمزوریاں کھول کھول کر سامنے رکھ دی ہیں۔ ہم نے ہرمسئلۂ زندگی کا حل ان کے حل کے جواب میں پیش کیا ہے اور دلائل سے اسے صحیح ثابت کردیا ہے۔ ہم ان کے ادب کے مقابلے میں ایک صالح ادب لائے ہیں، ان کے فلسفے کے مقابلے میں ایک بہتر فلسفہ لائے ہیں، ان کی سیاست کے مقابلے میں ایک زیادہ مضبوط سیاست لائے ہیں، اور ہماری صفوں میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف قال اللّٰہ وقال الرسول جاننے والے ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ قال ہیگل وقال مارکس وقال فرائڈ بھی انھی کے برابر جاننے والے ہیں۔ درس گاہوں میں جہاں ان کی فکر اور تہذیب کی اشاعت کرنے والے موجود ہیں وہیں انھی کی ٹکر کے فکری و تہذیبی مبلغ ہماری طرف سے بھی موجود ہیں۔ حکومت کے ہر شعبے میں ان کا زہر پھیلانے والے اگر اپنا کام کررہے ہیں تو ہمارے تریاق کے حاملین بھی بیکار نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کو نکالنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن اب خدا کے فضل سے ان سب کو چُن چُن کر نکال پھینکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور ان شاء اللہ تجربہ ثابت کردے گا کہ کسی متحرک نظامِ فکروعمل کے متاثرین کو چُن کر چھانٹ پھینکنا صرف ایک بیوقوف ہی ممکن العمل سمجھ سکتا ہے۔ سوسائٹی کے ہرطبقے میں ان کے اثرات کے بالمقابل ہمارے اثرات بھی کم یا زیادہ کارفرما ہیں۔ مزدور اور کسان اور محنت پیشہ عوام جو اَب تک ان کا اجارہ بنے ہوئے تھے بتدریج ان کے اثر سے نکل کر ہمارے اثر میں آتے جارہے ہیں اور ایک طاقت ور راے عام غیر اسلامی افکار و اَخلاق و اَطوار کے خلاف تیار ہوتی جارہی ہے۔ پھر ان سب پر مزید یہ کہ انقلابِ قیادت کے لیے ہماری تحریک کی زد براہِ راست اُس اقتدار پر پڑتی ہے جس کے سہارے یہاں محض فرنگیت ہی نہیں، دوسری تمام چھوٹی بڑی ضلالتیں بھی پرورش پارہی ہیں۔

پھر اسی کش مکش کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس کے دونوں فریق اپنے اپنے نظریات ہی کی نمایندگی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس مخصوص کیرکٹر کی بھی نمایندگی کر رہے ہیں جو ان نظریات کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ ایک طرف اگر اشتراکی اپنے اشتراکی اخلاق اور متفرنجین اپنی فرنگی سیرت کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی بھی خالی خولی تقریریں اور تحریریں اور اجتماعی سرگرمیاں لیے ہوئے سامنے نہیں آگئی ہے بلکہ وہ انفرادی سیرت اور جماعتی اخلاق بھی ساتھ لائی ہے جو اسلام کی اگر مکمل نہیں تو کم از کم صحیح نمایندگی ضرور کرتا ہے۔ اس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچ رہے ہیں وہاں اسلامی خیالات کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اسلامی اطوار کا مظاہرہ پورے فخر کے ساتھ سر اُونچا کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے اور وہ کیفیت دُور ہورہی ہے کہ ماڈرن سوسائٹی میں ایک شخص نماز تک پڑھتے ہوئے شرماتا تھا اور ایک خاتون برقع اُوڑھنے پر  لاکھ معذرتیں کرکے بھی ڈرتی تھی کہ نامعلوم تاریک خیالی کا دھبہ اس کے دامن سے مٹایا    نہیں۔ (جماعت اسلامی، مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۹۰-۹۳)

  •  منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
  •  تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
  •  جواب دھی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو  رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
  •  اسلامی شعور کی بیداری: اس کے بعد جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں ویسی ہی تحریک کا سامنا کرنا ہوگا جس نے بھٹو جیسے جابر کے قدم اُکھاڑ دیے۔
  •  مزدوروں میں شعور: تعلیمِ عوام کی بعض صورتیں خاص بھی ہیں، جن کی خصوصیات کو نگاہ میں رکھنا ہوگا، مثلاً مزدوروں کی یونینیں ہیں۔ مزدوروں میں عام طور پر اس خیال کو پھیلایا جائے کہ تمھارے لیے منصفانہ معاشی نظام سوشلزم [یا سرمایہ داری] نہیں ہے، اسلام ہے۔ تمھاری مشکلات اس کی پیروی سے رفع ہوں گی۔ کوئی انصاف سوشلزم [اور سرمایہ داری] نے مزدوروں کے ساتھ نہ کبھی کیا ہے، نہ آج کر رہا ہے اور نہ آیندہ کرے گا۔

اس طریقے سے مزدور تحریکوں کو رفتہ رفتہ اسلامی تحریکوں میں تبدیل کردیا جائے اور مزدوروں میں یہ شعور پیدا کردیا جائے کہ وہ جانچ پرکھ کر دیکھ لیں کہ ان کے لیڈر مارکس اور لینن کے ماننے والے ہیں یا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ماننے والے۔ پھر یہ فیصلہ انھی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ حشر کے روز مارکس اور لینن کے ساتھ اُٹھنا چاہتے ہیں یا رسولِؐ رب العالمین کے ساتھ۔

  • کسانوں کی رھنمائی: اسی طرح سے، مثلاً کسان اپنے کچھ الگ مسائل رکھتے ہیں۔ ان کا اسلامی حل بھی انھیں سمجھایئے۔ رسولؐ اللہ جب مدینے تشریف لے گئے تھے تو وہاں کے انصار زراعت پیشہ لوگ تھے۔ اسلام سے قبل ان کے ہاں زمین دار اور کسان اور مزارع کے جھگڑے برپا تھے اور دیہات سے غلہ لانے والوں کو شہری تاجر اور دلال بُری طرح لوٹتے تھے۔ حضوؐر وہاں پہنچے تو آپؐ نے انصاف کے ساتھ ان سب خرابیوں کی اصلاح کی اور اس اصلاح کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ انھیں آج بھی کسانوں کو بتاکر آپ مطمئن کرسکتے ہیں کہ ان مسائل کا عادلانہ حل اسلام ہی نے کیا ہے اور وہی کرسکتا ہے۔

یہ کام جتنا جتنا ہوتا جائے گا، آپ دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ انتخابات کے نتائج صحیح ہوتے چلے جائیں گے اور جتنے جتنے دین کو جاننے والے ایمان دار آدمی اکثریت سے منتخب ہوں گے، اتنے ہی ہم خلافت ِ راشدہ کے مثالی نظام کی طرف قدم بڑھاتے چلے جائیں گے۔ (رسول اللّٰہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۷-۲۰)

  •  مشکلات اور رکاوٹوں کی حقیقت: نامساعد حالات میں قرآنِ مجید اور سیرتِ نبویؐ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے عزمِ صمیم کے ساتھ پیہم جدوجہد کرتے چلے جانے سے ہی بالآخر وہ حالات پیدا ہوکر رہیں گے جن کے نتیجے میں اسلامی نظام عملاً قائم ہوگا۔ جہاں تک رُکاوٹوں کا تعلق ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ رکاوٹیں ہماری حقیقی کامیابی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہی رکاوٹیں ہماری تربیت میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ اگر اُن رکاوٹوں کے بغیر ہی ہم اپنے مقصد میں بظاہر کامیاب ہوگئے تو ہمارے پاس اعلیٰ اخلاق کے حامل باصلاحیت اور ایسے تربیت یافتہ کارکنان نہیں ہوں گے جو معاملات کو صحیح اصولوں کے مطابق نبھاسکیں۔ ہمارا کام رکاوٹوں سے بددل ہونا نہیں بلکہ خدا کے بتائے ہوئے راستے پر خلوصِ نیت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا ہے۔ اور ہمارے نزدیک صحیح راستے پر چلتے ہوئے جان دے دینا اس سے بہتر ہے کہ غلط راستے پر چلتے ہوئے اعلیٰ ترین دُنیاوی مناصب پر فائز ہوجائیں۔ اسلامی نظام صرف رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فلسفۂ انقلاب پر عمل کرنے سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور صحابۂ کرامؓ مصائب و اَلم کی بھٹی سے نکلنے کے بعد ہی اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے (تصریحات، ص۲۲۲-۲۲۳)۔(انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)

انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھاکہ اس اقرار و انکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔

اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔

تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بناپر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہرنیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔

اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم [مغرب] ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟

تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔(تفہیم القرآن، دوم، ص ۲۶۶-۲۶۷

سورئہ مدثر بھی سورئہ مزمل کی طرح ابتدائی دور کی سورۃ ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مزمل کے نزول کے بعد جتنی زیادہ سخت کش مکش تھی خود اس سے زیادہ سخت کش مکش سورئہ مدثر کے نزول کے وقت تھی۔ اگرچہ زمانے کا فرق کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت     جب شروع ہوئی ہے اور آپ نے لوگوں کو ہانکے پکارے دین کی طرف بلانا شروع کیا تو ہرروز بُغض و عداوت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے بڑھنے ، ترقی کرنے اور شدت اختیار کرنے میں ہفتے بھی نہیں لگتے۔ ایک دن کچھ سختی ہے اور دوسرے دن کچھ اور۔ اسی زمانے میں سورئہ مزمل نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تربیت کا کورس بتایا گیا کہ ان کی عداوت کا مقابلہ تم کس طرح سے کرو۔ اسی زمانے میں سورئہ مدثر بھی نازل ہوئی۔

احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ راستے سے گزر رہے تھے کہ یکایک آپؐ کی نگاہ کسی چیز کی آہٹ محسوس کر کے آسمان کی طرف اُٹھی۔ آپؐ  فرماتے ہیں کہ وہی جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا وہی آسمان کے اُوپر چھایا ہوا نظر آیا (حضرت جبریل ؑ)۔ اس نظارے کو دیکھ کر مجھ پر اس قدر ہول طاری ہوا کہ میں سیدھا گھر گیا اور میں نے جاکر کہا: مجھے اُوڑھا دو، مجھے اُوڑھا دو۔ اس حالت میں، جب کہ آپ اُوڑھے لپٹے لیٹے ہوئے تھے تو سورئہ مدثر نازل ہوئی۔

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورہ ہے۔ آگے چل کر آپؐ  کا تحمل بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ مناظر جن کو ابتدا میں دیکھ کر آپؐ  پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اب وہ کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ ابتدائی دور میں بالکل نیا نیا تجربہ تھا اور وہ مناظر دیکھنے میں آرہے تھے جو کبھی چشمِ تصور میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں آپ پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰٓاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ o وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o  (المدثر ۷۴:۱-۷) اے اُوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دُور رہو۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

رب کی کبریائی کا اعلان

دثار عربی زبان میں ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو اُوپر سے اُوڑھے جائیں ، جیسے کوئی چادر، لحاف یا کمبل کو اُوڑھ لیا جائے۔اسی طرح شعار ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو جسم سے لگے ہوتے ہیں، جیسے کُرتا پاجامہ آدمی پہنتا ہے۔ مدثر سے مراد یہ ہے کہ آپؐ لحاف یا کمبل اُوڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اے اُوڑھے لپٹے شخص اُٹھو اور ڈرائو اور متنبہ کرو، یعنی تمھارا کام اب اُوڑھ لپٹ کر لیٹنا نہیں ہے بلکہ تمھارے اُوپر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اُٹھو اور خلقِ خدا کو اُس بُرے انجام سے خبردار کرو جس کا انھیں اللہ کی نافرمانی اختیار کرنے، اللہ کے مقابلے میں بغاوت کرنے، اور کفروشرک اختیار کرنے کے نتیجے میں سامنا کرنا ہوگا ،اور جو ان کی غفلت اور خدا سے بغاوت کے نتیجے میں ان پر آنے والا ہے۔ اس انجام سے لوگوں کو خبردار کرو۔ انذار کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو انگریزی زبان میں warning کے ہیں، یعنی متنبہ کرنا۔

وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o (۷۴:۳) اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔

یعنی دنیا میں جتنی ہستیوں کی بڑائی کے اعلانات ہو رہے ہیں، ان کے مقابلے میں لوگ اپنے رب کو بھول گئے ہیں۔ کوئی لات کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی ہبل کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی قیصر کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی کسریٰ کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے۔ ان ساری بڑائیوں کے مقابلے میں تم اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔

دوسرے الفاظ میں تیرے رب کے سوا جن جن کی بڑائیاں بیان کی جارہی ہیں ان سب کی بڑائی کی نفی کرو۔ اور یہ بیان کرو کہ اصل بڑائی میرے رب کی ہے، خواہ ستاروں اور سیاروں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا جنوں اور شیاطین کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا انسانوں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، اور انسانوں میں انبیا ؑ اور اولیا کی بڑائی بیان کی جارہی ہو یا کسی اور کی۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس بات کا اعلان کرو کہ کوئی بڑا نہیں ہے صرف ایک تیرا رب بڑا ہے۔

پاک دامنی کی ھدایت

وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o(۷۴:۴) اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ اپنے کپڑے پاک رکھو لیکن ہم اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص پاک دامن ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے دامن پر کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اخلاق نہایت پاکیزہ ہیں۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ میں دونوں مفہوم شامل ہیں، یعنی اپنے لباس کو بھی پاکیزہ رکھو، اور اپنے اخلاق اور اپنی زندگی کو بھی پاکیزہ رکھو۔ ایک بھی دھبہ تمھارے دامن پر نہیں ہونا چاہیے، بے داغ کردار ہو۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں تھا اور نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک تھی لیکن ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور زیادہ پاکیزگی اختیار کرنی چاہیے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جتنے پاک دامن تم پہلے تھے اس سے زیادہ پاک دامن بن کر رہو، تاکہ کوئی شخص بھی اس بات کی   نشان دہی نہ کرسکے کہ جو شخص اپنے آپ کو رسولؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کی زندگی پر    یہ چھینٹ لگی ہوئی ہے۔ کہیں کوئی انگلی رکھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ اس میں یہ عیب ہے، یہ خرابی اور      یہ کمزوری ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو ہرعیب اور ہرخرابی سے بالاتر کرلو۔

وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o (۷۴:۵) اور گندگی سے دُور رہو۔

اس کے بھی دو معنی ہیں، یعنی اخلاقی گندگی اور ظاہری گندگی۔ اپنے آپ کو ہرقسم کی نجاستوں سے پاک کرو اور اس اخلاقی گندگی سے پاک کرو جو تمھارے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا معاشرہ جو انتہائی گندا ہے، اس معاشرے کے اندر جو شخص اخلاقی اصلاح کرنے کے لیے اُٹھے، اس کا یہ کام ہے کہ وہ ان ساری گندگیوں سے اپنے آپ کو بالکل الگ رکھے جو اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ اگر وہ ان گندگیوں میں سے کسی میں خود مبتلا ہوگیا تو پھر اس کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ اس کی اصلاح وہ اسی صورت میںکرسکتا ہے ، جب کہ وہ ان ساری گندگیوں سے خود بچا ہوا ہو۔ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے  کہ جن بُرائیوں سے تم ہمیں روک رہے ہو، تم خود ان کا ارتکاب کرچکے ہو۔ اسی لیے فرمایا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ کہ ہرقسم کی گندگیوں سے الگ رہو، اپنا دامن ہرطرح کی گندگی سے بچائو۔

جو شخص خدا کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اُٹھے، وہ اگرظاہری اعتبار سے گندگی میں مبتلا ہو تو یہ چیز بھی خلقِ خدا کو اس سے متنفر کرنے والی ہے۔ اس کااخلاقی اثر لوگوں پر قائم نہیں ہوتا جب وہ یہ دیکھتے ہیں یہ شخص ایسا گندا رہتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کی جگہ، اس کے لیٹنے کی جگہ، اس کے رہنے کی جگہ اگر گندی ہو تو ہرشخص کے دل میںاس سے کراہت ہوگی، اور کوئی بھی یہ توقع نہیں کرے گا کہ جو آدمی اتنا گندا رہتا ہے اس سے خود دنیا کو اخلاقی و روحانی طہارت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ظاہری گندگی اور مادی گندگی سے بھی پوری طرح پرہیز کرو۔ دوسری طرف اسی فقرے میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ تمھارے گردوپیش پورے معاشرے میں جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں، اپنا دامن ان سے بچائو اور پوری طرح ان سے پرہیز کرو۔ ظاہر بات ہے جو آدمی اصلاحِ خلق اور معاشرے کو درست کرنے کے لیے اُٹھا ہو، اگر وہ خود بھی ان خرابیوں میں مبتلا ہو جن کے اندر وہ معاشرہ مبتلا ہو، تو وہ ان کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ وہ اسی صورت میں   ان کی اصلاح کرسکتا ہے جب کوئی بھی شخص اس کے بارے میں نشان دہی نہ کرسکے کہ وہ اُن اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہے جن کی اصلاح کے لیے وہ کوشش کر رہا ہے۔ یہاں دونوں قسم کی گندگیاں مراد ہیں کہ ان دونوں سے بچا جائے اور پرہیز کیا جائے۔

صلے کی تمنا

وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o (۷۴:۶) اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔

تَمْنُنْ تَسْتَکْثِر کے معنی ہیں بے حد خدمت کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلقِ خدا کو خبردار کرنے کی خدمت کرنے کے لیے جب تم کھڑے ہو تو تمھارے دل میں یہ خیال نہ رہے کہ تم خلقِ خدا کے اُوپر کوئی احسان کر رہے ہو،اور تمھارے پیش نظر یہ نہ رہے کہ تم احسان کر کے اپنی ذات کے لیے زیادہ فائدے اُٹھائو۔ یہ چیز تمھارے پیش نظر نہیں رہنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یہ خدمت بے غرضانہ انجام دو۔ کسی قسم کا ذاتی فائدہ، کسی قسم کی دنیوی اغراض تمھارے سامنے نہیں ہونی چاہییں، بلکہ یہ خیال بھی نہیں ہونا چاہیے کہ تم کسی پر کوئی احسان کر رہے ہو۔ یہ ایک فرض ہے جو تم پر خدا کی طرف سے عائد کیا گیا ہے۔ اس فرض کو ایک فرض سمجھتے ہوئے تم انجام دو۔     یہ سمجھتے ہوئے انجام نہ دو کہ تم کسی پر احسان کر رہے ہو جس کا تمھیں کوئی بدلہ ان لوگوں کی طرف سے ملنا چاہیے جن کی تم نے یہ خدمت انجام دی۔ یہ وہی بات ہے جو قرآنِ مجید میں جگہ جگہ فرمائی گئی ہے کہ نبی ؑ کا یہ کام ہے کہ وہ کسی سے کوئی اجر طلب نہ کرے۔اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (یونس ۱۰:۷۲)،یعنی میرا اجر تو اللہ کے ذمّے ہے ۔

مراد یہ ہے کہ یہ کام بے غرض ہے۔ کوئی ذاتی غرض اپنی نہ رکھو کہ کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ  یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی جایداد بنانا چاہتے ہیں، یا یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی آیندہ نسلوں کو امیر بناکر چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔ تمھاری کوئی غرض اس چیز کی نشان دہی نہ کرے۔ جتنی دیر تک تم تبلیغ کا یہ کام کر رہے ہو، اللہ کے راستے کی طرف بلارہے ہو، تو کسی کا احسان مت لو۔ اس کام کو بے غرض کرو۔

اللّٰہ کی خاطر صبر

وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (۷۴:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

’’صبر کرو ‘‘ کا لفظ خود اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ یہ بات کن حالات میں فرمائی گئی ہے۔ حالات یہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے جب اُٹھے تو پورا معاشرہ آپ کے مقابلے میں دشمنی پر اُتر آیا۔ ہر طرف آپؐ  کے خلاف الزامات اور تہمتیں تھیں۔ ہر طرف آپؐ  پر گالیوں کی یلغار اور ہر ایک مخالفت کے لیے تیار تھا۔ بہت ہی کم انسان ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے لیے تیار ہوئے ورنہ سارا معاشرہ آپؐ  کا مخالف تھا۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ   ’’اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘ ، یعنی ان حالات کا مقابلہ کسی اور وجہ سے نہیں صرف اس لیے کرو کہ میرے رب نے یہ خدمت میرے سپرد کی ہے اور یہ کام بہرحال مجھے کرنا ہے، نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے۔ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرو اور صبر کرو۔

صورتِ حال یہ تھی کہ جو اللہ کا بندہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا تھا، لوگ اس کے جواب میں اس کو گالیاں دے رہے تھے۔ یہ اللہ کا بندہ لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور لوگ اسے دنیا میں عذاب میں مبتلا کر رہے تھے۔ اسے ہر طرح کی تکلیفیں اور ہر طرح کی اذیتیں دے رہے تھے۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ اللہ کی خاطر صبر کرو۔ جو بھی مشکلات پیش آئیں، جو کچھ سختیاں تمھارے ساتھ ہوں، ان سب کے اُوپر صبر کرو اور ان کو برداشت کرو۔یہ سب کچھ کسی کی خاطر نہیں صرف اللہ کی خاطر برداشت کرو۔ یہ سمجھتے ہوئے برداشت کرو کہ یہ اللہ کی خاطر فرض ہے جو مجھے انجام دینا ہے۔ اس فرض کو انجام دینے میں جو مصیبت بھی میرے اُوپر آئے مجھے اسے اللہ کی خاطر برداشت کرنا ہے۔

اسی آیت سے ہی آگے کے مضمون سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔

جزا و سزا کا قانون

فَاِِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ o فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ o عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ o (۷۴: ۸-۱۰)  جب صُور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔

یہاں فرمایا گیا ہے کہ جس روز ناقور میں پھونکا جائے گا۔ ناقورکا لفظ ’صُور‘ سے بناہے۔ نقر  کہتے ہیں کسی چیز کو کھوکھلا کرکے اس کے اندر جگہ پیدا کرنا۔ ناقور اس چیز کو کہتے ہیں جس کو کھوکھلا کرکے اگر اس میں پھونکا جائے تو اس سے آواز نکلے۔ یہی معنی ’صور‘ کے بھی ہیں۔ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن بڑا سخت ہوگا، اور کافروں کے لیے وہ دن کوئی آسان یا سہل دن نہیں ہوگا۔

اب یہ دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ فرمایا گیاکہ آپؐ  کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے ، اس پر آپؐ  صبر کریں، اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا گیا کہ اگر تم صبر کرو تو ہم ان پر دنیا میں عذاب لے آئیں گے اور ان کو دنیا میں سزا دیں گے۔ فرمایا گیا کہ جس روز صور پھونکا جائے گا وہ دن انکار کرنے والوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔

اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ اگرچہ انبیا ؑ کا انکار کرنے والوں اور ان کی تکذیب کرنے والوں اور ان کو ستانے والوں کے اُوپر دنیا میں بھی عذاب آتے رہے ہیں، اور خودکفارِ مکہ کو بھی قرآنِ مجید میں دھمکیاں دی گئی ہیں کہ تم اگر اس روش سے بازنہیں آئو گے تو وہ دن دیکھو گے جو عاد اور ثمود نے دیکھا ہے۔ لیکن اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہے بلکہ آخرت کا عذاب ہے جس سے کفار کو بھی ڈرایا جاتا ہے اور جس کے متعلق پہلے انبیا ؑ کو بھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ تمھیں یہاں ستا رہے ہیں آخرکار ان کی شامت قیامت کے دن آئے گی۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص کے اُوپر اسی دنیا میں عذاب آجائے۔ فرض کیجیے کہ ایک خاص دن عذاب آنے والا ہے۔ اس دن سے ایک روز پہلے جو لوگ مرگئے ان کے اُوپر کون سا عذاب آیا۔ قومِ عاد پر عذاب آیا، قومِ ثمود پر عذاب آیا اور دوسری قوموں پر عذاب آیا اور ایک خاص تاریخ پر عذاب آیا۔ اس تاریخ پر یا اس عذاب کے نزول سے ایک گھنٹہ پہلے جو لوگ مرگئے ان پر تو کوئی عذاب نہیں آیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظلم و ستم کرنے والوں کے لیے اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہوسکتا کیوںکہ ہر ظالم کی شامت اس دنیا میں نہیں آسکتی۔

یہ تو حقیقت میں ایک گرفتاری ہے۔ دنیا میں جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک آدمی بڑھکیں مارتا پھر رہا تھا تو وہ اس روز گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ کوئی سزا نہیں ہے بلکہ فقط گرفتاری ہے۔ اصل سزا تو اس وقت ملے گی جب وہ عدالت میںپیش کیا جائے گا، اور عدالت سے اس کو سزا سنائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ یہاں صرف گرفتاری سے نہیں ڈرا رہا بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کی شامت اس روز آئے گی جس روز صُور پھونکا جائے گا۔ وہ دن کافروں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ نبیؐ کی زندگی میں نبیؐ کے سامنے ہی عذاب آجائے۔ حضرت عیسٰی ؑ کا یہودیوں نے انکار کیا اور ان کے مقابلے میں اس قدر سخت باغیانہ روش اختیار کی کہ آخرکار اپنی طرف سے انھیں سولی پر چڑھا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اُٹھا لیا اور کوئی دوسرا شخص سولی پر چڑھا دیا گیا لیکن انھوں نے تو اپنی طرف سے حضر ت عیسٰی ؑہی کو سولی پرچڑھا دیا تھا۔ جس وقت وہ مقدمہ چلا رہے تھے اس وقت وہ عذاب نہیں آیا۔ جب وہ صلیب پر چڑھا رہے تھے اس وقت بھی وہ عذاب نہیں آیا۔ ۷۰ء میں جاکر رومیوں نے بیت المقدس فتح کیا اور ہیکل کو مسمار کردیا اور بنی اسرائیل کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا۔ اس کے بعد مزید چندسال لگے اور ۱۳۵ء میں تمام بنی اسرائیل کو فلسطین سے نکال دیا گیا اور حکم دے دیا گیا کہ کوئی یہودی  بیت المقدس کی حدود میں داخل نہیں ہوسکے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی ؑ کی زندگی میں ہی کفار پر عذاب آنا ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ظالم لوگ نبی ؑکو پکڑلیں، گرفتار کرلیں، قتل کرڈالیں لیکن اس کے باوجود نبی ؑ کی زندگی میں عذاب نہیں آسکتا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور موقعے کے لیے عذاب کو اُٹھا رکھا ہو۔

اس وجہ سے نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے لیکن یہ سمجھتے ہوئے نہیں کہ شاید چند سال بعد عذاب میری زندگی میں ہی آجائے۔ نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس دنیا میں کوئی شخص خواہ کچھ کرڈالے لیکن بہرحال آخرت میں اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ کر رہے گا۔ نبی ؑ کو چونکہ اس پر کامل یقین ہوتا ہے کہ آخرت ضرور آنی ہے، اس کے ہاں یہ فلسفہ نہیں ہے کہ اس نے کچھ مقدمات کے زور پر یہ نتیجہ نکالا ہو کہ آخرت آسکتی ہے، یا آخرت آنی چاہیے، بلکہ اسے علم ہے کہ آخرت آئے گی اور اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اس لیے نبی ؑ کے لیے یہ مکمل وجۂ تسلی ہے کہ اس دنیا میں چاہے کوئی شخص اپنے اعمال کا بُرا نتیجہ نہ دیکھے لیکن آخرت میں لازماً دیکھے گا۔

آیاتِ قرآنی سے عناد کا انجام

اب اس کے بعد ایک خاص مخالف کا کیس (مقدمہ) لیا جا رہا ہے:

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا o وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا o وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا o ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ o (۷۴: ۱۱-۱۵) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ بھی ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔

یہ ایک خاص شخص کی طرف اشارہ ہے جو مکہ معظمہ کے بڑے سرداروں میں سے تھا، بلکہ کہاجاتا ہے کہ مکہ معظمہ میں سب سے بڑا ذی وجاہت سردار یہی تھا، یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ۔ یہ بنی مخدوم کا سردار تھا اور بہت بڑا دولت مند تھا۔ بڑا ذی وجاہت آدمی تھا اور مکہ معظمہ میں اس کی عقل مندی اور دانش مندی کی شہرت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے قابل اور اعلیٰ درجے کے بیٹے دیے تھے جن کا پورے معاشرے کے اندر اثر تھا۔ ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ چونکہ بڑا سمجھ ار آدمی تھا، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور کلام، یہ دونوں چیزوں کو دیکھ کر دل میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کلام انسانی نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ یہ شاعری ہے، یہ کہانت ہے، یہ سب کی سب فضول بات ہے۔ یہ کلام نہ شاعری کی نوعیت کا ہے، نہ کہانت کی نوعیت کا۔ اس نے اس بات کو اپنے ایک جلسے میں کہا بھی تھا۔ تمھارا یہ کہنا کہ یہ شاعری ہے، غلط بات ہے۔ کیا ہم نے شعر سنے نہیں ہیں۔ اس کلام کا شاعری سے کیا تعلق۔ کیا ہم نے کاہنوں کی باتیں سنی نہیں ہیں۔ اس کلام کا کاہنوں کی باتوں سے کیا تعلق۔ پھر وہ آپؐ کو بچپن سے جانتا تھا۔ اسی شہر کا رہنے والا بھی تھا، اور خاندانی رشتہ داریاں بھی تھیں۔ اس لیے وہ آپؐ  کی شخصیت سے بھی واقف تھا۔ اس کے دماغ میں کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ حضوؐر شاعری کر رہے ہیں، یا یہ بناوٹی آدمی ہیں (نعوذ باللہ)۔ اس لیے وہ دل میں قائل ہوگیا تھا لیکن اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں اس شخص کو مان لیتا ہوں تو میری سرداری اور وجاہت ختم ہوجاتی ہے۔ قوم جو مجھے بڑا سمجھتی ہے اور میرے گرد جمع ہوگئی ہے، مجھ سے دُور ہوجائے گی اور میرا سارا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o (۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔

مراد یہ ہے کہ اس معاملے کو میرے حوالے کرو، مَیں اس سے نبٹوں گا۔ تمھیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب مَیں اس شخص سے نبٹوں گا۔ اس معنی میں یہ قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے اور اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ چھوڑ دو مجھے مَیں ذرا اس کی خبر لوں۔ اسی مفہوم میں اسے لیا گیا ہے کہ تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا معاملہ میرے سپرد کردو۔

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o (۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔

اس کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس شخص کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔ جس وقت یہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تو کوئی فوج اور جتھہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اس وقت اپنے ساتھ کوئی سازوسامان لے کر نہیں آیا تھا۔ کوئی محلات اور سواریاں لے کر نہیں آیا تھا، بلکہ اکیلا ہاتھ پائوں لیے پیدا ہوا تھا۔

اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا، اس کو پیدا کرنے میں کوئی لات یا ہبل شریک نہیں تھا۔ تنہا مَیں اس کو پیدا کرنے والا تھا۔ کسی اور کا اس کو پیدا کرنے میں ہاتھ نہیں تھا۔ یہ دونوں مفہوم ایک ہی فقرے کے ہیں۔

وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا (۷۴:۱۲) بہت سا مال اس کو دیا۔

مالِ ممدود سے مراد لمبا چوڑا مال ہے۔ یعنی ماں کے پیٹ سے یہ کچھ نہیں لے کرآیا تھا ۔ میں نے اس کو یہ سب کچھ اس دنیا میں دیا۔ میں ہی اس کو اکیلا پیدا کرنے والا تھا اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں تھا۔ میں ہی اس کو مال دینے والا تھا اور کوئی دوسرا اس کو مال دینے میں شریک نہیں تھا۔

وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا o (۷۴:۱۳) اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے۔

یعنی میں نے اس کو ایسے لڑکے دیے جو بڑی بڑی محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہونے والے ہیں، بڑے بڑے اور اہم مواقع پر شریک ہونے والے ہیں،اور جن کی سرداری اس دنیا میں مانی جاتی ہے۔

وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا o (۷۴: ۱۴) اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی۔

تمہید اُردو زبان میں، آگے کی تقریب کرنے اور میدان تیار کرنے کی خاطر جو ابتدائی کلمات بولے جاتے ہیں انھیں تمہید کہتے ہیں۔ عربی زبان میں تمہید کے معنی راستہ صاف کرنے کے اور راستہ تیار کرنے کے ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بڑائی، وجاہت اور ریاست کے مقام پر پہنچنے کے لیے مَیں نے اس کے لیے اسباب فراہم کیے، راستہ تیار کیا ، اور راہ ہموار کی ۔

ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ o (۷۴: ۱۵) پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔

یہاں ’مزید دوں گا‘ اس معنی میں ہے کہ وہ یہ طمع رکھتا ہے کہ میں اس کا انجام بھی ٹھیک اور بخیر کروں گا۔یعنی یہ اُمید رکھتا ہے کہ دنیا تو مَیں نے اس کی ٹھیک بنائی ہے اب آخرت بھی ٹھیک کروں گا۔ ان لوگوں کے نزدیک آخرت یقینی نہیں تھی لیکن چونکہ خبریں سنتے تھے کہ آخرت بھی آنے والی ہے تو کہتے تھے کہ اگر آخرت بھی آئی، قیامت بھی برپا ہوئی اور کوئی دوسرا عالم ہوا تو وہاں بھی ہم اچھے ہی رہیں گے، کیوں کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دولت دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دولت کچھ دیکھ کر ہی دی ہے، اور کسی قابل سمجھا تھا تو دی ہے۔ اس لیے وہاں بھی ہم اچھے ہوں گے۔ ان کا یہ استدلال تھا۔ چونکہ اس زمانے میں مسلمان خستہ حال تھے اور جو خوش حال تھے ان کو بھی خستہ حال بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ ان سے کہتے تھے کہ میاں دیکھ لو کہ دنیا میں خدا کا محبوب کون ہے؟ خدا کے محبوب تو ہم ہیں، اس لیے کہ ہمیں راحتیں نصیب ہیں، دولت نصیب ہے،اعلیٰ درجے کے مکانات اور اعلیٰ درجے کی محفلیں نصیب ہیں۔ کیا خدا کے محبوب تم ہو کہ تمھیں کھانے کو نصیب نہیں ہو رہا اور پہننے کو کپڑے نصیب نہیں ہو رہے، اور رہنے کو گھر نصیب نہیں ہیں۔ یہ ان کا استدلال تھا اور اس وجہ سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اور خدا کے محبوب ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں خوش حال بنایا گیا ہے، اس وجہ سے آخرت میں بھی ہم ہی بھلے رہیں گے، اور وہ لوگ جو دنیا میں خستہ حال ہیں وہ آخرت میں بھی خستہ حال ہوں گے۔

اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ اب وہ طمع رکھتا ہے کہ میںاسے مزید دوں اور آخرت میں بھی اس کی ریاست قائم رہے۔ وہاں بھی اس کو مزید وجاہت اور ریاست نصیب ہو۔

کَلَّا ط اِِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا o (۷۴: ۱۶) ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات کے مقابلے میں عناد رکھتا ہے۔

یعنی آخرت میں اس کے لیے کسی سرداری اور کسی ریاست اور کسی بڑائی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ آخرت میں کسی شخص کو کوئی بڑا مقام صرف اس لیے نہیں مل سکتا کہ دنیا میں اسے بڑا مقام حاصل تھا۔ آخرت میں بڑا مقام صرف اس بنیاد پر مل سکتا ہے کہ اللہ کی آیات کے ساتھ اس نے کیا رویہ اختیار کیا۔ چونکہ اس نے ہماری آیات کے مقابلے میں عناد (دشمنی) کا رویہ اختیار کیا ہے، اس وجہ سے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسے وہاں مزید کوئی بڑائی ملے۔

سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا o (۷۴: ۱۷) میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھوائوں گا۔

یعنی بجاے اس کے کہ یہ وہاں کوئی بڑی دولت حاصل کرے، کوئی بڑی وجاہت یا ریاست یا کوئی بڑائی اسے وہاں نصیب ہو، ہم تو اسے بڑی کٹھن گھاٹی چڑھائیں گے، بڑے سخت راستے سے یہ وہاں گزرے گا۔

قرآن کو جادو قرار دینا

اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ o فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ نَظَرَ o ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ o ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ o فَقَالَ اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ o اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ o (۷۴: ۱۸-۲۵) اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی، تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں، خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا۔ آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔

یہاں اللہ کی آیات کے مقابلے میں اس نے جو عناد اختیار کیا تھا اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ دل میں قائل ہوگیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ جھوٹے نہیں ہیں۔ دل میں جان گیا تھا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔ یہ کلام فی الواقع اس شان کا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام نہیں ہوسکتا۔ مگر اب معاملہ تھا اپنی بڑائی اور ریاست اور وجاہت کا۔ اس کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ اگر اس کو مان لیتا ہوں تو میری ساری بڑائی اور وجاہت جاتی رہتی ہے۔

اب اس کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اس نے غور کیا۔ پھر اٹکل دوڑائی کہ کیا الزام چسپاں کروں؟ کس طرح سے اس کا انکار کروں؟ شاعری کہہ نہیں سکتا، کیوں کہ جانتا ہوں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ کہانت کہہ نہیں سکتا کیوں کہ جانتا ہوں کہ اگر کہانت کہوں گا چاہے لوگ اس پر اعتبار کرلیں لیکن جو سمجھ دار لوگ ہیں وہ کہیں گے کہ کیا نبی ؑ بھی اس طرح کی کہانت کہہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ کہانت کا کلام کس کو معلوم نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نجومی اور فال گیر اِسی طرح کے لگے بندھے فقروں کے ترنم کے ساتھ آوازے لگاتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح کے فقرے عرب میں بھی کاہن کہتے پھرتے تھے۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ کون شخص مانے گا کہ یہ قرآن کاہنوں، فال گیروں اور نجومیوں کے فقروں جیسا کلام ہے۔ اس کے دماغ میں یہ خیال آتا تھا کہ اگر میں اس طرح کی کوئی بات کروں گا تو ظاہر بات ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اتنا سمجھ دار آدمی بھی ایسی باتیں کر رہا ہے۔ اس لیے اب اٹکل دوڑا رہا ہے، سوچ رہا ہے کہ کیا الزام لگائوں؟

فرمایا گیا: قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ، مارا گیا یہ کہ دیکھو اس نے کس طرح سے اٹکل دوڑائی۔  ثُمَّ نَظَرَ ، پھر اس نے سوچا، غور کیا کہ کیا الزام لگائوں۔ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ  ، پھر اس نے منہ بنایا، تیوری چڑھائی۔ جس طرح سے کوئی آدمی کسی ایسی بات کے بارے میں کوئی بات بنانا چاہ رہا ہو جس کے بارے میں اس کا دل خود کہہ رہا ہو کہ یہ غلط بات ہے، تو ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ چہرہ بناتا ہے۔ کچھ غور کرتا ہے، کچھ سوچتا ہے کہ کیا بات بنائوں؟ آخرکار اس کی تیوریاں چڑھتی ہیں، منہ بنتا ہے۔ اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک اندرونی کش مکش میں مبتلا ہے۔ بات سچی ہے اور اسے جھوٹی قرار دے رہا ہے۔ الزام تجویز کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی چسپاں نہیں ہو رہا، کوئی ایسا الزام جو اس پر لگ سکے۔ اس لیے منہ بناتا ہے۔ آخرکار پلٹ گیا اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ بجاے اس کے کہ غوروخوض کرکے اور جب وہ منہ بنا رہا تھا اور تیوریاں چڑھا رہا تھا اس وقت اس کا دل اور اس کا ضمیر اس کو یہ کہتا کہ میاں کیوں حق بات کو جھٹلا رہے ہو، سیدھی طرح مان لو۔ اس کے بجاے     وہ پلٹ گیا اور کس بنا پر پلٹ گیا؟ استکبار کی وجہ سے۔ گھمنڈ اور اپنی بڑائی کی بناپر پلٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو ہے۔

کیوں وہ جادو کہتا تھا؟ اور عرب کے لوگ قرآنِ مجید کے لیے بالعموم جادو کا لفظ استعمال کرتے تھے تو آخر کس بنا پر کرتے تھے؟

وہ کہتے تھے کہ اس کلام کے اندر ایسا جادو ہے کہ اس کو اگر کوئی آدمی سن لے تو اس کے بعد وہ اپنے بال بچے، خاندان برادری، رشتے دار، سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ بیٹا باپ سے منحرف ہوجاتا ہے۔ بیوی شوہر سے منحرف ہوجاتی ہے۔ یہ جادو نہیں تو کیا ہے؟ اس مفہوم میں وہ لوگ اسے جادو کہتے تھے۔ ولید بن مغیرہ کو بھی یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو شاعری کہے۔ اس کو یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو کہانت کہے۔ اب اس نے سوچ بچار کے بعد کہا کہ یہ تو ایک جادو ہے۔

عرب کے سردار بالعموم لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میاںاس کے کلام کو نہ سننا۔ یہ بیٹے کو باپ سے لڑا دیتا ہے، بیوی کو شوہر سے لڑا دیتا ہے، بھائی کو بھائی سے لڑا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کہ آپؐ  قرآن پڑھ رہے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے یا روئی ٹھونس لیتے تھے کہ کانوں میں آواز نہ پڑے۔ اس بات سے ڈرتے تھے۔

اسی معنی میں اس نے یہ بات کہی کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جو اُوپر سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایسے جادوگر پہلے بھی گزرچکے ہیں۔ اس کا اشارہ انبیا ؑ کی طرف تھا کہ پہلے بھی ایسے جادوگر گزرچکے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح کا جادوگر ہے (نعوذباللہ)۔ دوسرے الفاظ میں اس نے اس طرح سے دھوکے بازی کی کہ جس بات کو وہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے بجاے اس کے کہ یہ کہتا کہ یہ خدا کا کلام ہے، اور یہ وہ کلام ہے جو پہلے انبیا ؑ پر بھی آتا رہا ہے، اور یہ وہ کلام ہے جس کی تاثیر پہلے بھی یہ تھی اور اس وقت بھی یہ دیکھی جارہی ہے۔ یہ انسان کو اس کے آپے میں نہیں رہنے دیتا اور انسان اپنی غلط کاری سے باہرآکر ہر طرح کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ بات اس نے نہیں کہی۔ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ یہ جادو ہے اور یہ پہلے سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔

اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ o(۷۴:۲۵) یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔

اس نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے بس ایک انسان کا کلام ہے۔ درآں حالیکہ وہ دل میں مان چکا تھا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے لیکن صرف اپنی بڑائی قائم رکھنے کے لیے اس نے کہا کہ یہ انسان کا کلام ہے۔

جھنم کا کڑا عذاب

سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سَقَرُ o لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُ o لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ o (۷۴: ۲۶-۲۹) عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ کھال جھلس دینے والی۔

اس طرح کے آدمی کا علاج اس دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا میں اس کو خواہ کوئی عذاب دے دیا جائے وہ اس کی سزا نہیں ہوسکتی۔ اس کی سزا جہنم ہے اور وہ جہنم کیا ہے؟ اس جہنم کے بارے میں قرآنِ مجید میں جتنے عذاب بیان کیے گئے ہیں ان کے مقابلے میں یہ عذاب جو ایک فقرے میں بیان کیا گیا ہے سخت کڑا ہے، یعنی یہ کہ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے: لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۳) ’’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گا‘‘۔ اس کے اندر آدمی کی حالت یہ ہوگی کہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔ عذاب اتنا سخت ہوگا کہ باربار موت آئے گی لیکن وہاں چونکہ موت نہیں ہے اس وجہ سے موت نہیں آئے گی مگر جینے کی طرح جیے گا بھی نہیں۔ یہ جہنم کے عذاب کی سختی کی انتہا ہے کہ جو یہاں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے، اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔

لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ o(۷۴:۲۹) آدمی کی کھال کو چاٹ کھائے گی۔

’’یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں سے کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیرضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایاں کرنے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور  جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بدنمائی اُسے سب سے زیادہ کَھلتی ہے۔ اندرونی اعضا میں  خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بدنما ہوجائے، یااس کے جسم کے کھلے حصوں کی جِلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنھیں دیکھ کر ہرشخص اُس سے گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شان دار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہ روش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلاکر کوئلے کی طرح سیاہ کردی جائے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۱۴۸-۱۴۹)۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)