سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


تقویٰ ہے کیا چیز؟ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔

حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو‘ عبدیت کا شعور ہو‘ خدا کے سامنے اپنی ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس ہو‘ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے‘ اور ان انسانوںکے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضاے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔

یہ احساس وشعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے‘اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے‘ اس کی   دینی حس تیز ہوجاتی ہے‘ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اُس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار‘ مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور   حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اُٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔

یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرۂ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِفکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی   ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرلے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمایش کی جاسکتی ہو‘وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو   سکھادی گئی ہیں‘ ان کی پابندی انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے مگر اس کے ساتھ زندگی کے     دوسرے پہلوئوں میں وہ اخلاق‘ وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِعمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار‘ ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے‘ یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں   مچھر چھانے جارہے ہیں اور اُونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں…

میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع‘ لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں‘ میں ان کا استحفاف کرنا چاہتا ہوں‘ یا انھیں غیرضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔  دراصل جو کچھ میںآپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت ِتقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر…

پہلی چیز دیر طلب اور صبرآزما ہے‘ بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدّت کے بعد برگ و بار لاتی ہے‘ جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے‘ جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں‘ وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۴۳-۲۴۸)

ہرحال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجیے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنایئے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے‘ اور دنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان‘ تھوڑے سے اختیارات‘ اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آباد کار بننے کے لیے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں‘ اور عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں‘ اور ایک شان دار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں‘ باغی اور خودمختار بن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اربابٌ من دون اللّٰہ کی؟ اور خدا کی دنیا کو خدائی معیارکے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کش مکش اور مقابلہ کرتے ہیں‘ یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں؟

جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا وہ دراصل اسی امر میں تھا‘ اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لیے بنی نوع انسان کے افراد کا جو انتخاب ہوگا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہوگا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تخت شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر‘ اور کس کی آزمایش ایک سلطنت عظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں‘ اور برے ہوں تو یہ خائب و خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہمیں اپنی نگاہ جمائے رکھنی چاہیے یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ بھی دے کر ہمیں آزمایاگیا ہو اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ ا ور اس کی مرضات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کے لیے رکھی ہے۔

حضرات! یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں ہے بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی سخت کوشش کرنی پڑتی ہے‘ ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر‘ دنیا کو مقصود بناکر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیرمحسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور اس کے اچھے برے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیاں اور شیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے‘ اور جس کے اچھے اور برے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔

آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے‘ بشرطیکہ وہ زندہ ہو مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے‘ عزیز واقارب‘ دوست آشنا اور سوسائٹی کے عام لوگ‘ سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تواس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی‘ اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ غفلت نے دل کے اس گوشے کو سن نہ کر دیا ہو۔ مگر اپنی دنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کے لیے لذت بن جاتا ہے‘ ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو‘ مگر اسے اندازفکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بناکر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو‘ مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔

فکرآخرت کی تربیت کے ذرائع

آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں: ایک فکری طریقہ‘ اور دوسرا عملی طریقہ۔

فکری طریقہ: یہ ہے کہ آپ صرف اٰمَنْتُ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں‘ بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالَم دنیا کے      اس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی     ایسا نہیںہے جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں  عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو‘ بلکہ بہت سے مقامات پر یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور بس اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کو بالالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کاخیال مسلّط ہوجائے اور وہ ہروقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالَم ہے جس کی اسے دنیا کی اس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔

اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے جس میں بار بار‘ زندگی بعدالموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐؐ کے صحابہ کرامؓ کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔

پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مدد زیارت قبور سے ملتی ہے جس کی واحد غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لیے وہ مزارات سب سے کم مفید ہیں جنھیں آج بگڑے ہوئے لوگوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے مراکز بنا رکھا ہے۔ ان کے بجاے آپ گورِ غریباں کی زیارت کرکے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یاپھر بادشاہوں کے ان عالی شان مقبروں کو دیکھ کر جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب قاعدے سکھانے والا نہیں ہے۔

عملی طریقہ:اس کے بعدعملی طریقے کو لیجیے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی میں‘ اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں‘ اپنے حلقۂ احباب اورحلقۂ تعارف میں‘ اپنے شہر اور اپنے ملک کے معاملات میں‘ اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں‘ غرض ہر طرف ہرآن قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا۔ ایسے ہرموقعے پر پوری کوشش کیجیے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں‘ تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجیے‘ خواہ کتنے ہی دُور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہیے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی‘ اور کتنی بار آپ آخرت کی طرف کھنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِآخرت نے کتنا نشوونما پایا‘ اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کو چھوڑ کر ایسے صالح لوگوں سے ربط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے  بغیر کسی صفت کو گھٹاسکے یا بڑھا سکے‘ یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کرسکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔(ہدایات ، اسلامک پبلی کیشنز‘۳-کورٹ سٹریٹ‘ لوئرمال‘ لاہور۔ ص۱۶-۲۱)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جس نے میرے کسی دوست (ولی) سے دشمنی کی‘ میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ مجھے اپنے بندے کی محبوب ترین چیز اس کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے اور نوافل کے ذریعے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام انجام دیتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے گا تو میں اس کو دوں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ مجھے کوئی کام کرتے ہوئے ذرہ برابر تردد نہیں ہوتا سوائے مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو اور میں اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا‘‘۔(بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ پہلی بات فرمائی گئی ہے۔ ولی یا دوست سے کیا مراد ہے؟ یہ سمجھ لیجیے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیے کہ ولی کے معنی کسی صاحبِ کرامت ہستی کے ہوتے ہیں۔ ولی بس وہ ہے کہ جو آپ کے دل کی بات آپ کو بتا دے اور ہوا میں اڑے۔ اس کا کوئی کام فطری طریقے سے ہوتا ہی نہ ہو۔ ہر وقت اس سے کرامتیں صادر ہوتی رہیں۔ ولی کے یہ معنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید کو آپ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلص مومن جو اللہ تعالیٰ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرتا ہے اور صالح زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ خدا کا ولی ہے۔ ہر صالح آدمی جو اخلاص کے ساتھ مومن ہے اور پاک زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ ولی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کہ جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے‘ میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے کا مطلب یہ ہے کہ میرے دوست کا دشمن میرا دشمن ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ محض میرے دوست کا دشمن نہیں ہے بلکہ میرے ساتھ دشمنی ہے۔

اللہ کے ولی کے ساتھ دشمنی کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ایک شکل یہ کہ ایک آدمی اس کے دین اور اس کی فلاح اور اس کی پاکیزگی کی وجہ سے اس کا دشمن ہے۔ اس وجہ سے اس کا دشمن ہے کہ یہ  کم بخت سچا مومن کیوں ہے۔ یہ صالح زندگی کیوں بسر کرتا ہے اور تقویٰ سے کیوں کام لیتا ہے۔ یہ میری خاطر جھوٹی شہادت دینے کیوں نہیں جا رہا۔ یہ میری خاطر بے ایمانی کیوں نہیں کرتا۔ یہ میری سازشوں میں کیوں شریک نہیں ہوتا۔ جس جس طرح سے میں اپنا ایمان بیچتا ہوں یہ بھی کیوں نہیں بیچتا۔ ایک تو دشمنی اس بنا پر ہے‘ یعنی اس کے ایمان‘ اس کی فلاح اور تقویٰ کی بنا پر اس سے دشمنی۔ دشمنی کی دوسری شکل اس کے ساتھ یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی اغراض کے لیے کسی مومن کو تکلیف دینا چاہتا ہو اور اس کے حقوق مارنا چاہتا ہو‘ اس وجہ سے اس کا دشمن ہوگیا ہو۔ دونوں شکلوں میں جو شخص بھی اللہ کے کسی دوست‘ یعنی ایک سچے اور صالح مسلمان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو وہ دشمنی صرف اس شخص کے ساتھ ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دشمنی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ اصولی اور سیدھی بات ہے کہ اگر آپ کسی کے واقعی مخلص دوست ہیں تو جو آپ کے دوست کا دشمن ہے‘ اس سے آپ کی بھی دشمنی ہوگی۔

پھر فرمایا مجھے اگر کوئی چیز محبوب ہے تو میرے بندے کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر میرے ساتھ تقرب کا ذریعہ اور کوئی نہیں‘ یعنی بندہ میرے ساتھ تقرب حاصل کرنے کے لیے جتنے نیک کام کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ کام ہیں کہ جو میں نے اس پر فرض کر دیے ہیں۔ اب یہاں بعض لوگ غلطی سے فرض کو محض فرض نماز کے معنی میں لے لیتے ہیں حالانکہ فرض نماز بھی ان فرائض میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان پر عاید کیے ہیں۔ روزہ بھی فرض ہے‘ زکوٰۃ بھی فرض ہے‘ حج بھی فرض ہے۔ (تفہیم الحدیث، کتاب الدعوات‘ جلدہفتم‘ ص ۵۲۱-۵۲۲)

ان چاروں ارکانِ اسلام سے پہلے اسلام کے پہلے رکن‘ کلمۂ شہادت کا زبان سے ادا کرنا اور عملاً اس کے تقاضے پورے کرنا سب سے اہم فرض ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا اور بھاری تقاضا یہ ہے کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر ہم ایمان لائے ہیں۔

یہ گواہی دو طرح سے دینا ہوگی۔ ایک قولی جس کی صورت یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کرائیں جو خدا نے انسانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکرواعتقاد میں‘ اخلاق و سیرت میں‘ تمدن و معاشرت میں‘ کسب معاش اور لین دین میں‘ قانون اور نظمِ عدالت میں‘ سیاست‘ تدبیرِمملکت‘ بین الاقوامی تعلقات میں اور انسانی معاملات کے تمام پہلوئوں میں اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں اور اس کا حق ہونا ثابت کردیں۔

دوسرے‘ عملی گواہی یاشہادت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کرلے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں اور دنیا ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پالے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہوجاتی ہے۔ (شہادتِ حق، ص ۶-۷)

اس طرح ہر وہ چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ‘ تم یہ کرو‘ وہ فرض ہے اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان پر فرض کردیا ہے ان سے بڑھ کر اس سے قریب ہونے کا اور کوئی ذریعہ نہیں‘ یعنی آپ نوافل چاہے کتنے ہی ادا کرتے رہیں لیکن فرائض سے اگر آپ غافل ہیں تو اللہ سے قرب کا امکان نہیں۔ گویاپہلی چیز فرائض کی ادایگی ہے۔ اگر بندہ فرائض ہی ادا نہ کر رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ سے نوافل کے ذریعے تقرب کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب فرائض ہیں۔ ظاہر بات ہے اگر فرائض سب سے اہم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو فرض ہی کیوں کرتا‘ اور جو بندہ فرض ادا نہیں کر رہا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر حقیقت میں بندگی موجود نہیں ہے‘ اور اگر صرف نوافل ادا کر رہا ہے تو وہ اپنی مرضی کا بندہ ہے۔ اگر خدا کا بندہ ہوتا تو جس چیز کو اس نے فرض کیا ہے اس کو سب سے پہلے ادا کرتا۔

پھر فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعے سے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ نوافل کو بھی لوگ غلطی سے صرف نفل نمازوں کے معنی میں لیتے ہیں اور عام طور پر نوافل سے قرب کا مفہوم بھی یہ لیا جاتا ہے کہ نفل نمازیں پڑھ کر قرب حاصل کرنا۔ حالانکہ نوافل اصل میں ان تمام نیکیوں کو کہتے ہیں جوفرض سے زائد ہیں اور جنھیںبندہ اپنی رضامندی اور رضا و رغبت سے ازخود کرے‘ مثلاً زکوٰۃ۔ زکوٰۃ جو آپ پر فرض ہے اگر وہ آپ باقاعدگی سے نکال دیتے ہیں‘ گویا آپ نے فرض ادا کردیا۔ اس کے بعد اگر دین کے کام کے لیے کوئی ضرورت پیش آجائے یا کوئی مصیبت زدہ بندہ سامنے آجائے‘ کوئی رشتے دار یا محلے کا آدمی غریب اور حاجت مند ہو اور اس وقت بھی اگر آپ اپنا روپیہ نکال کر دے دیں تو یہ نوافل ہیں۔ فرض ‘یعنی زکوٰۃ ادا کرچکنے کے بعد آپ جو بھی خیرات کریں گے‘ سب نوافل ہیں۔ اسی طرح فرض روزے رمضان میں رکھ لیے اس کے بعد جو روزے بھی آپ رکھیں گے‘ سب نوافل ہیں۔ تو فرمایا کہ فرض تو وہ چیز ہے جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اسی لیے میں نے اس کو فرض کیا۔ اس کے بعد بندہ جب اپنی رضا و رغبت سے فرض سے زائد نیکی کرتا ہے تو جتنی زیادہ وہ یہ نیکی کرتا جاتا ہے اتنا ہی مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔

پھر فرمایا کہ جب میں اپنے بندے سے محبت کرنے لگتا ہوں تو نوبت یہ آجاتی ہے کہ میں ہی اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اور میں ہی اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ سارے کام انجام دیتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے صوفیا ’فنا فی اللہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اتنا گہرا اور اتنا قوی جذبہ آدمی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جن جن چیزوں کو بھی اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ان کو وہ بغیر اس کے کہ فرض ہوں اپنے دل کی رضا و رغبت سے انجام دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ایسا گہرا اور قریبی ہوجاتا ہے کہ اب اللہ ہی اس کی سماعت اور اللہ ہی اس کی بینائی بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے بعد اس کے کان وہی چیزیں سنتے ہیںجو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ سنیں۔ کوئی ایسی چیز جو اسے ناپسند ہے اس کے کان وہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسے گانا ناپسند ہے تو وہ گانا سننے نہیں جائے گا۔ اسے گالیاں ناپسند ہیں تو وہ گالیاں رغبت سے نہیں سنے گا۔ اگر گالی کان میں پڑ بھی جائے تو اس کے دل میں اس سے اس قدر شدید نفرت پیدا ہوگی کہ یہ کیا میرے کان میں پڑ رہا ہے۔ اسی طرح بندہ وہی سننا پسند کرے گا جو اللہ کو پسند ہے اور جو چیز اللہ کو ناپسند ہے اس کو وہ سننا پسند نہیں کرے گا۔ اسی طرح فرمایا کہ میں اس کی بینائی بن جائوں گا‘ یعنی میری نگاہوں سے وہ ہر چیز دیکھے گا۔ اللہ کی نگاہ میں اگر کوئی چیز بری ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ بری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی چیز اچھی ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ اچھی ہوگی۔ جس آدمی کو وہ چیز مرغوب ہے جو اللہ کو ناپسند ہے‘اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ سے ضد ہے۔ جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ اسے ناپسند کرتاہے۔ جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اسے وہ پسند کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نگاہ اور اللہ کی نگاہ یکساں نہیں ہے۔ اسی طرح ہاتھ اور پائوں بننے کا معاملہ ہے کہ یہ وہی کریں گے اور اسی راہ پر چلیں گے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی۔

اس کے بعد فرمایا کہ بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں اس کو دوں گا‘ وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ پھر فرمایا کہ اور کوئی کام کرتے ہوئے مجھے تردد نہیں ہوتا مگر مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو‘ مگر موت دیے بغیر چارہ نہیں چونکہ اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ مومن کے لیے ہمیشہ کی زندگی آخرت میں ہے اور وہاں اس کا جانا ضروری ہے۔ اس وجہ سے موت تو میں اسے دیتا ہوں‘ مگر مجھے اپنے مومن بندے کی یہ تکلیف پسند نہیں ہے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی محبت کی انتہا ہے جو ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کے ذرائع کیا ہیں اور  قریب ہونے کے ذرائع‘ یعنی فرائض اور نوافل کے ذریعے کس طرح قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔

(تفہیم الحدیث، ج ۷‘ ص ۵۲۲-۵۲۴۔اخذ و ترتیب: اسامہ مراد)

دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں‘ جس طرح مبداِ فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب‘ جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے‘ اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ بخار کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو  قربان کرنا پڑتا ہے‘ اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے‘ اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے‘ تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔    یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت بخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں‘ اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔

یہ سنت اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں‘ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے‘ اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے‘ بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے‘ اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔ بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں‘ ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں‘ ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجاّر کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں‘ اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش‘ کتنی پریشانیوں‘ کتنی ٹھوکروں‘ اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟ غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے‘ ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں‘ ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔

دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے‘ لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ  سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے‘ قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے‘ اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں‘ یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں‘ لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں‘ ان دل چسپیوں‘ ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں‘ بلکہ حق ہے‘ اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے‘ اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔

یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

لَنْ تَنَالُوا الْبِـرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)

یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان‘ مال‘ اولاد‘ رشتہ دار‘دوست‘وطن‘ قوم‘عزت‘ شہرت‘ ہر دلعزیزی‘ لذت و مسرت‘ عیش و آرام‘ عقائد و افکار‘ حریتِ خیال و آزادیِ عمل‘ غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے‘ اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنکے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو‘ تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔ حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو‘ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ۲:۱۶۵)جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت‘ حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو‘وہی بت ہے‘ صنم ہے‘ بناے شرک و کفر ہے‘ نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔

غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے‘ انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام‘ لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے‘ اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ، (الاعراف ۷:۳)

جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔

یہ ’اسلام‘ یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے‘ اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں‘ خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں‘ فرائض و طاعات ہیں‘ حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں‘ مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو‘ لذتوں کا خون کرو‘ فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات‘ اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے‘ فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے‘ اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔

جیساکہ عرض کیا گیا‘ یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے‘ یہ پورا اسلام نہیں ہے‘ بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں‘ روزہ رکھیں‘ بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں‘ معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں‘ بلکہ اسلام کی اصلی روح یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو‘ مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں‘ رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں‘ اور دوسری طرف باطل ہو‘ اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو‘ لطف و مسرت ہو‘ اور ہر طرح کے فائدے ہوں‘ تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے‘ اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶)

ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے‘ اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔

اگر کسی وقت خود اپنے باپ بھائی‘ اہلِ خاندان اور دوست‘ حق کے دشمن ہوجائیں تو مسلمان وہی ہے جو حق کے لیے ان سب کو چھوڑ دے اور کسی سے تعلق نہ رکھے:

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ-(المجادلہ ۵۸:۲۲)

 ُ تو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے‘ چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔

اگر کسی وقت قوم اور وطن کی حق سے دشمنی ہوجائے تو مسلمان وہی ہے جو حق کی خاطر قوم سے قطع تعلق کرلے اور وطن کو خیرباد کہہ دے‘ ورنہ اس کو منافق کہا جائے گا خواہ وہ کیسا ہی نمازی پرہیزگار ہو:

فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ - (النسائ۴:۸۹)

تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔

اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلافِ جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے‘ اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں  ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی‘ اس کا دعویِ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا    عابد و زاہد کیوں نہ ہو۔

وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَo وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)

جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی‘ اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔

غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو‘ جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال‘ یا اولاد‘ یا ملک و قوم‘ یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو‘ اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔

قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دہرایا گیا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں‘ سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ‘ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے‘ بیوی ہلاک ہوتی ہے‘ مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے‘ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ (یوسف ۱۲:۳۳)۔ فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے  ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o رَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم  پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍط اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا  (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔ اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے‘ رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا (الکہف ۱۸:۱۴) ’’اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار عزیز اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں‘‘۔

ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں‘ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ (الزخرف۴۳:۲۶) قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا‘ قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ‘اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ  تعلق نہیں ‘ ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی تاوقتیکہ تم خداے واحد پر ایمان نہ لائو، کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللّٰہِ  وَحْدَہٓٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔ یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا‘ ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں‘ مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ عشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا‘ بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔ اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں‘ تب   بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی‘ اِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱) اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس    کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے‘ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔

عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل‘ جانور پر چھری چلانا‘ اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے‘ بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  محبوب حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے‘ ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں‘ ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔ بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا‘ بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی‘ اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو‘ ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے۔

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

(’اشارات‘، ترجمان القرآن‘جلد ۳‘ عدد ۶‘ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ‘ فروری ۱۹۳۴ئ‘ ص ۲-۱۰)

حالیہ زلزلے کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ اللہ کی جانب سے گناہوں پر پکڑ اور گرفت ہے‘ تو بہت سے نیک نفس لوگوں نے یہ کہا کہ متاثرہ علاقے کے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا کیا قصور ہے؟ کیسے کیسے بے گناہ لوگ کن کن مصیبتوں میں گرفتار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا نظام حکمت اور تدبر سے چلارہا ہے۔ گناہ گار علاقے تو ملک میں اس سے زیادہ دوسرے ہیں‘ وہ کیوں بچا دیے گئے؟ اسی نوعیت کے سوال پر سید مودودیؒ نے جو جواب دیا تھا وہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔ سائل نے اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیا تھا۔ (ادارہ)

آپ جن الجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ میں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غوروفکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلی سوالات نہیں ہیں بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں‘ اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیرضروری ہیں‘ کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا‘ اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت‘ مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال۔

لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں‘ ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدایش‘ ان کا وجود‘ ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ غیرحکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم و بے خبر ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار و احوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے‘ مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب‘ تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و احوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہو رہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امرواقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے‘ یا نہیں سمجھ سکتے‘ ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟

آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے‘ یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو‘ ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنا دیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا‘ اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا‘ یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے‘ جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’انسان‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بناپر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطاکرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے جو مقامِ انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں‘ لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اٹھ کر مقامِ الوہیت پر نہ پہنچ جائیں‘ اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی‘ کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں‘ پتھریا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہرسوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے‘ کیوں کہ آپ انسان ہیں‘ خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’جھول‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔(رسائل و مسائل‘ ج ۴‘ ص ۲۲-۲۵)

اقبال کے کارنامے کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

  • مغربی تھذیب پر ضرب کاری: سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے‘ مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا اور کیا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہلِ علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے‘ لیکن مغربی علوم‘ مغربی فلسفے‘ مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ اس سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور اس سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے۔ اس لیے جب اقبال نے مغربیت‘ مغربی مادہ پرستی‘ مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی‘ تو مسلمانوں پر مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے میں اکیلے اقبال کا کارنامہ سب سے بڑھ کر ہے…

اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو۔ انھوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہرزمانے میں یکساں قابلِ عمل ہیں…

  • وطنی قومیّت کی تردید: اس کے ساتھ علامہ اقبال نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ انھوں نے وطنی قومیت اور قوم پرستی پر ایک شدید ضرب لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انھوں نے قوم پرستی‘ نیشنلزم اور وطنی قومیت پر بروقت ضربِ کاری نہ لگائی ہوتی تو آگے چل کر مسلمانوں کو کانگرس میں جذب کرنے کے لیے جو تحریک اٹھی تھی اس سے مسلمانوں کا بچ جانا محال تھا… اگر اقبال نے یہ تعلیم بروقت نہ دی ہوتی تو بعد میں کانگرس نے رابطہ عوام (mass contact) کی جو تحریک شروع کی تھی اور جس میں علما اور اشتراکی حضرات بھی شریک تھے‘ وہ تحریک مسلمانوں کو ہندوئوں کے اندر اس طرح سے گھلا دیتی جیسے نمک پانی کے اندر گھل جاتا ہے۔ لیکن اقبال نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ قومیت‘ وطن اور زبان سے نہیں بنتی ہے بلکہ قومیت دین اور عقیدے سے بنتی ہے۔اس نے مسلمانوں میں اس شعور کو بیدار کیا کہ تم ایک عقیدہ اور  ایک تہذیب رکھنے والی قوم ہو‘ تمھاری قومیت ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی تہذیب اور عقیدہ و مسلک تم سے الگ ہے۔
  • وحدتِ ملّی کا احساس: اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس بھی اُبھارا کہ تمام دنیا میں ملتِ اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس کو ایک وحدت ہونا چاہیے۔ اس طرح انھوں نے بیک وقت دو کام کیے___ باہر کی دنیا میں مسلمان جس طرح قوم پرستی میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے سے کٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے‘ اور جس طرح ترکوں اور عربوں کے درمیان ایک المناک کش مکش برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں شرق اوسط پر جو تباہی آئی اور تمام ممالکِ اسلامیہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے‘ وہ سب اس قوم پرستی کا نتیجہ تھا جس کی تبلیغ و اشاعت عیسائیوں نے عربوں اور ترکوں کے درمیان کی تھی۔ ایک طرف تو اقبال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم ایک ملتِ واحدہ ہو‘ اور جس قوم پرستی میں تم مبتلا ہو یہ ایک بالکل غلط اور مہلک تصور ہے ‘ دوسری طرف انھوں نے ہندی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ تم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قوم اور ایک ملت ہو۔ تمھارا کسی دوسری قوم میں جذب ہونا سراسر ایک باطل نظریہ ہے۔ اگر اقبال نے بروقت یہ اقدام نہ کیا ہوتا اور اسلامی قومیت کے صحیح تصور کی تبلیغ کرکے مسلمانوں کے اندر اپنی اسلامی قومیت کا احساس پیدا نہ کر دیا ہوتا تو آج اس پاکستان کا کہیں وجود نہ ہوتا…
  • دین و سیاست کے باطل تصور کی بیخ کنی: اقبال نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ دین اور سیاست کی علیحدگی اور دین و دنیا کی تفریق کا جو تصور مغرب سے آکر مسلمانوں میں پھیل رہا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اہلِ دین کو سیاست سے کیا تعلق اور دین کو سیاست میں گھسیٹنے کا کیا کام‘ اقبال نے اس باطل تصور کا ٹھیک وقت پر مقابلہ کیا۔ اس نے دین بے سیاست کی بھی برملا مذمت کی اور سیاستِ بے دین کو بھی علانیہ مذموم قرار دیا۔ سیاستِ بے دین کے متعلق اقبال کا ایک مصرع ایسا ہے کہ اس موضوع پر تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف___ ان کا کہنا ہے کہ  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

… اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہوچکا تھا کہ اہلِ دین کا کام تو بس اللہ اللہ کرنا ہے یا مسجدوں اور مدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھنا ہے‘ ان کا سیاست سے بھلا کیا تعلق___ اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کر دیا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے وہ سب ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ اقبال کہتا ہے کہ  ع

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

… اس کے ساتھ اقبالؒ نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمھاری مصیبتوں اور مسائل کا اگر کوئی حل ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو۔ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں قائداعظمؒ کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔

یہ وہ کارنامہ تھا جو اقبال نے اپنی زندگی میں انجام دیا…

  • اقبال اور عدلِ اجتماعی: سوشلزم یا کسی دوسرے غیر اسلامی نظریہ و فکر کے برعکس اقبالؒ نے تو بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تصور دیا کہ محض سیاسی آزادی یا اقتصادی بہبود ہی تمھارا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کی حفاظت تمھارا اصل مقصد ہے۔ اس نے بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی تھی کہ ہمارا عقیدہ‘ ہماری تہذیب‘ ہماری روایات اور ہماری    اخلاقی اقدار ہی ہمارے لیے اصل چیزیں ہیں۔ محض روٹی یا زمین کا ٹکڑا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ایک مسلمان جئے یا مرے۔ اقبال نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کوایک وطن صرف اس لیے چاہیے کہ وہ وہاں اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرسکیں۔ ان کی ۱۹۳۰ء کی تقریر سے جس میں انھوں نے پاکستان کی اصطلاح استعمال کیے بغیر پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا‘ یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں اگر کوئی چیز اہم تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح اسلام اور اہلِ اسلام کو سربلندی نصیب ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان میں ہندوئوں کے ساتھ رہ کر مسلمان اپنی تہذیب پر قائم نہیں رہ سکتے۔ اس لیے انھوں نے صرف مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ایک الگ اور آزاد مملکت کے حصول کا تصور پیش کیا___ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد محض کسی ایسے لفظ یا اصطلاح کی بنیاد پر جو انھوں نے اتفاقاً کسی موقع پر کسی دوسرے سیاق و سباق (context) میں‘ کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی ہو‘ اس کی طرف کسی خاص نظریے کو منسوب کرنا صریح بددیانتی بھی ہے اور مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینا بھی ہے۔

آخری بات: اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے‘ تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں [اور اب ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں یہ حملے جاری ہیں]‘ لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے___؟ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کو کھو دیا تو گویا تاریخِ انسانی میں یہ بات ثابت کردیں گے کہ ایک بیوقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں‘اَن گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جایدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا‘ مگر وطن حاصل کرنے کے بعد ۲۳ برس کی مدت کے اندر ہی اندر اس کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا)۔ اگر آج آپ نے اشتراکیت یا وطنی قومیت کے نظریے یا کسی اور باطل ازم کو اختیار کیا تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہوجائے گی‘ بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہوجائے گا‘ اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برعظیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا خاتمہ ہوگیا۔

اس وجہ سے یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان‘ مرد اور عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘    سب اس بات کے لیے متحد ہوجائیں کہ وہ یہاں اسلام کا نظام ہی غالب کریں گے اور اُن لوگوں کی کوششوں کو قطعی طور پر ناکام بنا دیں گے جو مسلمانوں کو اسلام کے عقیدے اور نظامِ حق سے  منحرف کرنا چاہتے ہیں‘ اور اس طرح ان کو فتنوں میں مبتلا کر کے تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ (انتخاب از خطاب بموقع یومِ اقبالؒ، ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ئ‘ پنجاب یونی ورسٹی ہال‘ لاہور)

(شخصیات‘ البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘لاہور‘ ص ۲۳۲-۲۴۴)

یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳: ۱-۴)

اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

یہ ابتدائی دورکی سورتوں میں سے ہے۔ دوسرارکوع خاص طور پر معلوم ہوتاہے کہ مدینہ طیبہ کا ہے‘جوآخرمیں نازل ہوا۔پہلا رکوع ابتدائی دورکا ہے جس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت فرمائی جارہی تھی۔لیکن ایسے ابتدائی دورکا نہیں ہے کہ کفارسے کش مکش شروع نہ ہوئی ہو۔ ایک وہ دورتھاکہ جب کفار سے کش مکش شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علانیہ تبلیغ نہیں فرماتے تھے‘ بلکہ الگ الگ لوگوں سے فرداً فرداً مل کربات کرکے فضیلت اورمعنی بتاتے تھے۔اس زمانے میں کش مکش میں شدت اختیارنہیں ہوئی تھی۔

جب آپؐ نے علانیہ تبلیغ کرنا شروع کی‘اس زمانے میں کش مکش شروع ہوئی۔اس   کش مکش کے زمانے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی جائے۔ اس کارِعظیم کے لیے آپؐ کوتیار کیاجائے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے پیارے اندازسے حضوؐرکو خطاب کیا: یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ۔

عربی زبان میں اوڑھ لپٹ کربیٹھ جانے یا لیٹ جانے کو مزمل کہتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر خطاب کرنے کے دومفہوم ہوسکتے ہیں۔ایک مفہوم یہ ہوسکتاہے کہ اے شخص جواطمینان سے پاؤں پھیلائے پڑاہے‘اب تیرے اُوپر بہت بڑے کام کا بارہے۔دوسرامفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ   اے شخص جوبہت غمگین اور اُداس ہے‘اُٹھ کریہ کام کر۔ گویا ایک آدمی جس کے اُوپر کارِعظیم کابار ڈال دیاگیا ہے وہ اب پریشان ہے کہ میں ِاس بارکوکیسے اٹھاؤں اور یہ فریضۂ عظیم کیسے انجام دوں؟اس پریشانی میں آپؐ لیٹے تھے‘ یا آپؐ آرام فرما رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خطاب کیاکہ میاں اَب تمھارے آرام کرنے کا زمانہ گیا‘اَب تمھارے اُوپر ایک عظیم الشان کام کابار ہے ۔ اُٹھواوراَب یہ مشقت کرو۔

اس کے بعد فرمایاکہ:

قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (۷۳: ۲-۵)

رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

آدھی آدھی رات کھڑے رہوسے مراد تہجد کی نمازہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ وہ بارِ عظیم جوتمھارے اُوپرڈالا گیا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے تمھیں جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اس تہجد کی نمازسے حاصل ہوگی ۔یہ وہ چیز ہے جوتمھیں تیار کرے گی ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آدھی آدھی رات کھڑے رہویاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیادہ ۔

رسولؐ اللہ کا تہجد میں یہ طریقہ رہا کہ جب تک آپؐ کے جسم میں کافی طاقت تھی اُس وقت آپؐ بغیر درمیان میں بیٹھے ہوئے آٹھ رکعتیں مسلسل پڑھتے تھے۔ اس کے بعد بیٹھ کر آدھا تشہد پڑھتے تھے‘ پھر کھڑے ہوکرایک رکعت اُس میں اضافہ فرماتے تھے‘ اور نویں رکعت پڑھنے کے بعدآپؐ پھر بیٹھ کرپوراتشہدپڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔پھر دورکعتیں اور پڑھتے تھے۔اس طرح کہ ۱۱رکعتیں آپؐ تہجد میں پڑھتے تھے۔ آپؐ کی ہر رکعت طویل ہوتی تھی کیونکہ قرآنِ مجید میں آپؐ کو ترتیل کا سبق دیا گیا ہے۔

ترتیل سے مراد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن مجیدکی ایک ایک آیت کوآپؐ  بڑے غور سے پڑھا کریں۔یہاں تک بھی آتاہے کہ ‘مثلاً اگر کوئی عذاب کی آیت آگئی ہے توآپؐ اس کے اُوپر ٹھیر گئے اور اللہ سے استغفار کیا اور رحم کی درخواست کی۔کوئی غوروفکر کی دعوت دینے والی آیت آئی تو اس کے اُوپر ٹھیر گئے اورغوروفکر کیا۔ اس طرح آپؐ  کی جوتلاوت ہوتی تھی وہ اس نوعیت کی نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ہم آج کرتے ہیں‘ رواں دواں پڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ بلکہ ٹھیر ٹھیرکر‘ ایک ایک آیت کے اُوپر‘ ایک ایک لفظ کے اُوپر غور کرتے اورپڑھتے تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا مضمون آتا ہے اس کے مطابق اس کے جواب میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح سے آپؐ  کی ۱۱ رکعتوں میں کئی گھنٹے گزر جاتے تھے۔بعد میں جب آپؐ  کے اندرطاقت کم ہوگئی توآپؐ نے دورکعتیں کم کردیں‘یعنی جب بڑھاپاآگیا تو آپؐ نے نورکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔

یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم نماز ٹھیر ٹھیر کرپڑھو‘ آدھی رات یاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیا دہ ۔ اور قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھو‘یعنی آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ کو اداکرو۔حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر آہستہ آہستہ قرآن پڑھتے تھے کہ اگر کوئی چاہتاتوایک ایک حرف کو گن سکتاتھا۔اتنا آہستہ پڑھتے تھے آپؐ۔ کہا گیا کہ ایک بڑے بھاری کلام کا بوجھ تمھارے اُوپرڈالاگیاہے۔ اس کوسنبھالنے کے لیے یہ تربیت درکار ہے کہ تم رات کوتہجدپڑھو۔

اب یہ بھاری کلام ایسا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپراس کانزول ہوتا تھاتوآپؐ  فرماتے ہیں کہ مجھے ایسے معلوم ہوتاہے کہ جیسے میری جان نکل جائے گی۔ایک صحابیؓ فرماتے ہیںکہ آپؐ  میرے زانو پرزانو رکھ کربیٹھے ہوئے تھے کہ اس حالت میں وحی آئی تومجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرازانوٹوٹ جائے گا۔ایک اور روایت میں یہ آتاہے کہ آپؐ  ایک اونٹنی پر سوار تھے کہ اس حالت میں آپؐ  کے اُوپرقرآنِ مجید کا نزول شروع ہواتواونٹنی بوجھ کے مارے بیٹھ گئی اورتڑپنے لگی۔ یہ نزول وحی کی کیفیت ہوتی تھی۔ اس لیے فرمایا کہ یہ بھاری کلام جو تمھا رے اُوپر نازل کیا جا رہا ہے‘ اس کوسہارنے کے لیے تمھارے اندرجس روحانی قوت کی ضرورت ہے وہ اس چیزکے ساتھ آئے گی ۔

بھاری کلام وہ اِس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ ایک ایساکلام تھاکہ اس کے نازل ہونے کے بعدساری دنیا سے آپؐ  کی لڑائی ہو گئی اور وہ دشمنی کے لیے کھڑی ہوگئی۔ آپؐ  قرآن کے نزول کے وقت سے لے کرآخری سانس تک عمر بھر کی ایک جدوجہدمیں مشغول رہے۔ہر طرف جاہلیت کادوردورہ تھا۔ گردوپیش کی تمام طاقتیں سب کی سب آپؐ  کے اُوپرٹوٹ پڑیں۔ گویا یہ ایک بھاری کلام تھا جو اپنے ساتھ بڑی بھاری ذمہ داریاں لے کر آیا تھا۔ان کو نبھانے کے لیے جس طاقت کی ضرورت تھی اس کے لیے تہجد پڑھنے کی تاکید فرمائی گئی۔

اب مزیدوجہ بتائی جاتی ہے کہ یہ تہجد کی نماز تمھارے لیے کیوں ضروری ہے۔

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا o (۷۳: ۶)

درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

راتوں کو اُٹھنا یہ بہت زیادہ مؤثر ہے اس با رے میں کہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیداہو جائے۔ اس لیے جو آدمی اپنی نیند توڑ کر رات کو اُٹھتا ہے ‘بالکل اپنی خلوت میں ‘جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے‘ اُٹھ کر نمازپڑھتاہے‘اوراپنے خداسے دیر تک خطاب کرتارہتاہے‘تویہ بغیرخلوص کے ممکن نہیں۔جب تک آدمی بالکل مخلص نہ ہوجائے‘ جب تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا انتہائی مخلصانہ تعلق نہ ہو‘اس وقت تک یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آدمی باجماعت نماز میں اور پانچ وقت کی نماز میں ریاکاری کر سکتا ہے‘ نمایش کی خاطر کرسکتاہے ‘اس غرض کے لیے کرسکتاہے کہ میرا شمار صالحین میں کیاجائے اور میرالوگوں کے اندر اثرقائم ہو جائے۔ لیکن تہجد کی نماز جورات کواُٹھ کر پڑھی جائے‘  بغیر اِخلاص کے ممکن نہیں۔

اس لیے فرمایاکہ یہ راتوں کو اُ ٹھنا اس بارے میں سب سے زیا دہ مؤثر ہے کہ آدمی کے دل اور اُس کی زبان کے درمیان مطابقت پیدا ہو۔آدمی کا ظاہراورباطن یکساں ہوجائے۔ اگرایک آدمی یہ عمل کرتاہے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا‘ ظاہر بات ہے کہ یہ اخلاص کی بنیاد پر ہوگا۔کیونکہ وہ روز اخلاص کی تربیت (training) لے رہا ہے۔اگر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق اخلاص کے ساتھ نہ ہوتووہ رات کو کیسے اُٹھے۔ رات کواُٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق کوروزتازہ کرتا رہتاہے‘اس لیے اِس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہتاکہ وہ اللہ کے راستے میں دعوت دینے کے لیے ریا کاری کرے یااپنی کسی ذاتی غرض کے لیے‘کسی اپنے دنیوی مقصد کی خاطریہ کام کرے۔ اس طرح آدمی کاظاہر اورباطن یکساں ہوتاچلاجاتاہے۔ اس کے قول اور عمل میں مطابقت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کی نیت درست ہوتی چلی جاتی ہے۔

وَّاَقْوَمُ قِیْلًا

اورآدمی کے قول کو زیادہ راست کردینے والا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس حالت میں جو آدمی دعوت الی اللہ کاکام کرے گاتووہ کامل راست بازی کے ساتھ کرے گا۔ اس آدمی میں کمال درجے کی راست بازی پیداہوجائے گی‘ جورات کو اُٹھ کر اپنے آپ کو اخلاص کی ٹریننگ دیتاہے۔

اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o (۷۳: ۷)

دن کے اوقات میں تو تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ دن کے وقت تمھیں اس طرح کی خلوت کی نماز کا موقع مل جاتا۔یہ بھی آدمی کر سکتاہے کہ دن کو اپنے حجرے کے دروازے بندکرے اوردروازے بندکرکے خاموشی کے ساتھ نمازپڑھتا رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ دن کوتمھارے لیے ایک دوسری مشغولیت ہے جو تمھارا پورا پورا دن لے لینے والی ہے‘یعنی تبلیغ کی‘دعوت کی ‘اللہ کے راستے کی طرف بلانے کی۔ لہٰذا تم رات کو ٹریننگ لواور دن کو پوراوقت اس کام پرصرف کروکہ اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ۔ تمھارا دن کا وقت اس ٹریننگ کے لیے نہیں ہے۔

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (۷۳: ۸)

اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اُسی کے ہو رہو۔

تبتل اس بات کو کہتے ہیں کہ آدمی سب سے اپنا تعلق توڑ کرایک طرف کا ہوجائے۔ حضرت فاطمہؓ کے لیے بتول کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اپنے سارے تعلقات ختم کرو‘ایک اللہ کے ساتھ اپناتعلق جوڑو۔اس کے بعد اَب جو خلق کے ساتھ تعلق ہوگا وہ اللہ کے واسطے سے ہوگا‘براہِ راست نہیں ہوگا۔بیوی سے تعلق ہے تواللہ کی خاطرہے‘اولاد سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘دوستوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘محلے والوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطرہے‘حتیٰ کہ دشمنوں سے جوتعلق ہے تووہ بھی اللہ کی خاطرہے۔اگر محبت ہے تو اللہ کے لیے اور دشمنی ہے تواللہ کے لیے۔ کسی قسم کی کوئی ذاتی آلایش اس کے ساتھ نہیں ہے۔یہ معنی ہیں  تبتلکے۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدمی سب کچھ چھوڑکر گوشہ نشین ہوجائے۔ تبتـل اس چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی تارک الدنیاہو کرجنگل میں جابیٹھے یاپہاڑوں پرچڑھ جائے ۔ تبتـل اس کا نام ہے کہ آدمی اِسی معاشرے میں رہے ‘انھی لوگوں میں رہ کرکام کرے‘اپنی روزی کمائے ‘ دنیاکے تمام تعلقات رکھے‘ اور ان تعلقات کو رکھتے ہوئے سب سے کٹ کراللہ کا ہوجائے ۔یہ بہت بڑاکام ہے آدمی کے لیے۔تارکِ الدنیا ہوکر‘بے نیاز ہو کرجنگل میں بیٹھ جانا بڑا آسان ہے۔ لیکن معاشرے کے اندر رہتے ہوئے پھر تبتل کرنا‘ یہ بہت عظیم الشان کام ہے۔یہ ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ اس چیز کی تعلیم اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں نہیںہے۔

دوسرے مذاہب نے جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ اگر خداکے ہوناچاہتے ہوتوخلق سے تعلق توڑواورجاکرپہاڑوں کے پہلومیں بیٹھ جاؤ۔جنگلوں میں بیٹھ جاؤاوروہاں بیٹھ کرتپسیّا کرو۔ اسلام نے یہ سکھایاہے کہ نہیں‘ تمھاراکام جنگلوں میں نہیں ہے ‘تمھاراکام انسانوں کے درمیان ہے۔تم یہاں انسانوں سے تمام تعلقات رکھ کر سارے معاملات چلا سکتے ہو‘ جس طرح سے کوئی دنیادار چلاسکتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھتبتـل اختیار کرو‘ سب  سے کٹ کر اسی کے ہوجاؤ۔

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا o (۷۳: ۱۹)

وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنالو۔

وکیل اُس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے اُوپراعتمادکرکے آپ اپنے معاملات اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ہم اپنی زبان میں بھی وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جس پر ہم یہ اعتماد کرتے ہیں کہ ہمارامقدمہ یہ خود لڑے گا۔ اپنا مقدمہ اس کے حوالے کر کے آپ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہما رے سرسے یہ بلاٹل جائے گی ۔یہاں اسی معنی میں وکیل کا لفظ استعمال کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپناوکیل بنالو‘ جب کہ تم نے اتنا بڑا جھگڑادنیا میں چھیڑ دیاکہ شرک کے خلاف تم تبلیغ کرنے کھڑے ہوگئے‘ تمام معبودوں کی تم نے تردید کردی‘تمام جاہلانہ رسموں کی تم مخالفت کرتے ہو‘ غرض یہ کہ دنیا میں جوکچھ خداکے قانون کے خلاف ہو رہاہے ‘ اُن سب سے تم نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔اب یہ جنگ مول لینے کے بعد اگرتم اپنی طاقت پر بھروسا کروتو  اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا بھر سے جھگڑامول لے رہاہو اوربھروسا اس کا اپنی طاقت پر ہو۔ اسی طرح کسی دوسری انسانی طاقت کے بل بوتے پر یاکسی دوسرے بندے کی طاقت کے بل بوتے پراگر یہ جھگڑا مول لے گا توتب بھی نادانی کرے گا۔اس لیے کہ کوئی ایسا طاقت ور نہیں ہے کہ آدمی کو تمام دنیا سے جو اس نے لڑائی مول لے رکھی ہے اورہرمیدان میں لے رکھی ہے___ عقیدے کے میدان میں بھی اور عمل کے میدان میں بھی‘ معاشرت‘ سیاست‘ تمدن اور معیشت غرض ہرچیز کے میدان میں___ اس انسان کا ساتھ دے اور اسے کامیاب کرے۔ کون سی جما عت ایسی ہو سکتی ہے جو اتنی طاقت ورہوکہ جو اس دنیا بھر سے لڑائی میں اُس کے ساتھ ہو اور مقابلہ کرسکے۔اس وجہ سے فرمایاکہ جو رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ہے‘جس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے ‘اس کواپنا وکیل بناؤ۔پھر یہ لڑائی مول لواوراس کے اُوپر بھروسا کروکہ وہ تمھاراخالق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو بالکل اکیلے تھے ۔دنیا بھر میں ایک ہی کی اقلیت سے یہ کام شروع ہوا ہے۔ایک بندئہ خدا تمام دنیا کے مقابلے میں کھڑاہوگیا‘ اور اس کے لیے تیارہوگیاکہ کوئی نہیں مانے گا تب بھی میں یہ کام کروں گااور اگر کوئی ساتھ نہیں دے گاتب بھی میں یہ کام کروں گا۔مجھے ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔یہ ہمت انسان کے اندر اس کے بغیرپیدا ہی نہیں ہوسکتی کہ اس کا خداپر بھروسا نہ ہو۔اپنی طاقت کے بل بوتے پر آدمی یہ کام نہیں کرسکتا۔ کسی بندے کی‘ کسی انسان کی یاکسی غیرانسان کی طاقت کے بل بوتے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے فرمایاکہ جو مشرق اورمغرب کا مالک ہے اسی پر بھروسا کرو۔

مشرق ومغرب سے مراد محض مشرق اور مغرب نہیں ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب کا مالک تو ہماری مراد ساری دنیا کامالک ہے۔کیونکہ ساری دنیا مشرق اور مغرب کے درمیان میں ہے۔ لہٰذا جو ساری دنیا کا مالک ہے اور جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے سواکوئی پرستش کے قابل نہیں ہے ۔ظاہر بات ہے کہ اگر اس کے سواکوئی پرستش کرنے کے قابل نہیں ہے تواِس وجہ سے نہیں ہے کہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔انسان کبھی اتنا بے وقوف نہیں رہاہے کہ کسی کی پرستش بغیر یہ سمجھے ہوئے کرے کہ اس کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے۔اگر کوئی آدمی یہ سمجھے کہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے توکبھی اُس کی پرستش نہیں کرتا۔اگر کوئی شخص کسی کے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ بیمار ہو گیاہوں تو کوئی مجھے اچھا کرنے والانہیں ہے‘ اگر اولاد نہیں ہے تو کوئی مجھے اولاد دینے والا نہیں ہے‘ اگر روزگار نہیں ہے تو مجھے روزگار دلوانے والانہیں ہے ‘توظاہر بات ہے کہ اس کی پرستش کیسے کرنے جائے گا۔پرستش تب کرنے جائے گاجب یہ سمجھ کر جائے گاکہ مجھے بیماری سے تندرست کرنے والایہ ہے‘ رزق دینے والایہ ہے‘ مجھے روزگار دلوانے والایہ ہے‘ مجھے اولاد دلوانے والایہ ہے‘دنیا میں کامیابیاں دلوانے والایہ ہے‘ یاآخرت میں نجات دلوانے والایہ ہے۔ اسی لیے  فرمایاکہ اس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اور اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ چونکہ سارے اختیارات کا مالک وہ ہے ‘مشرق ومغرب کامالک وہ ہے‘ اِس وجہ سے اِس کو اپناوکیل بناؤ‘یعنی اسی کے سپرداپنے سارے معاملات کردو۔

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (۷۳: ۱۰)

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہوجائو۔

ھجرِ جمیل کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی نے آپ کوگالی دی ‘آپ یہ سمجھ کرکہ میں بے بس ہوں ‘کمزور ہوں‘مقابلہ کیاکروں‘ غم کاگھونٹ پی کر اورخوب اچھی طرح دل میں رو کر‘  آپ خاموش ہوگئے ۔اس کانام ھجرِ جمیلنہیں ہے۔اس کانام بے بسی ہے۔ ھجرِ جمیل یہ ہے کہ ایک آدمی اِتنا شریف ہو کہ اگر کوئی اُس کو گالی دے تووہ اس کی ذرابرابرپروا نہ کرے اور اس گالی کے باوجود اس کے دل میں نیت یہی رہے کہ موقع ملے گا تو اس کو درست کرنے کی کوشش کروں گا۔ اِس وقت یہ غصے میں ہے‘اس وقت اس سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ کوئی اور وقت آئے گاتو اس کی اصلاح کے لیے کوشش کروں گا۔اس غرض کے لیے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا‘یہ ھجرِ جمیل ہے۔اس کے خلاف دل میں میل تک نہ آئے‘اس کے خلاف دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔ یہ سمجھے کہ جیسے ایک بیمار تھا جس نے غصے اور تکلیف کی حالت میں مجھے گالی دے دی۔ فرض کیجیے کہ کوئی بیمار ہواور بیماری کے دورے کی حالت میں طبیب کو گالی دے توکوئی عقل مندطبیب غصے میں نہیں آئے گا اور اس سے نفرت پیدا نہیں ہوگی۔وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ کم بخت نے گالی دی ہے ‘اچھا !موقع ملے گا تو اسے زہردے کرمار دوں گا۔ اسے کبھی یہ خیال نہیں آئے گا۔ اگر اس کو کوئی خیال آئے گا تو یہ کہ اس پر سخت دورہ ہے اور وہ اس کے اور زیادہ علاج کی فکر کرے گا۔ لہٰذا ھجرِ جمیل اس چیز کانام ہے کہ آدمی کے دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔اس کے بجاے وہ کمالِ شرافت اورکمالِ خیر خواہی کی بنیاد پر اس کو نظرانداز کردے۔

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘ ان پر صبر کرو)‘یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی نازل شدہ سورہ ہے جب لوگوں نے آپؐ کے اُوپر باتیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ قرآنِ مجید کے نزول کا زمانہ سمجھنے کے لیے خود قرآن میںکوئی اندرونی شہادت ایسی موجود ہوتی ہے جویہ بتا دیتی ہے کہ یہ کس دور کی نازل شدہ ہے۔ یہاں یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر طرح طرح کی باتیں بنائی جانے لگی تھیں۔کوئی گالیاں دے رہا تھا‘کوئی اعتراضات کر رہا تھا‘ کوئی الزامات اوربہتان چسپاں کررہا تھا‘کوئی طرح طرح سے نبی پاک ؐ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرتا تھا‘ کوئی طرح طرح کی تہمتیں جوڑ کرلوگوں کوبدگمان کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسی لیے توفرمایا گیاکہ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ، جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘اُن کے اُوپر صبر کرو۔

صبر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے گھر بیٹھ جائے ۔صبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کیے جاؤ جس کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں اور پھر کسی سے جھگڑامت کرو۔ کسی سے مت اُلجھو۔جو باتیں وہ بناتے ہیں اُن کو نظر انداز کر دو اوراپناکام کیے جاؤ۔ صبر کے معنی محض برداشت کر لینے بھی نہیں ہیں۔صبر کے معنی یہ ہیں کہ جوکام آپ کو کرنا ہے وہ کام آپ کیے جائیں اور اس کے اُوپرآپ ٹھیریں نہیں۔صبر کے آخری معنی اپنے آپ کو روک لینے او رٹھیرانے کے ہیں۔ گویا اس کام کے اُوپر ڈٹے رہو ‘اس کے اُوپر جمے رہو‘ اوروہ سب باتیں برداشت کرو جو یہ لوگ آپ کے اُوپر بناتے ہیں۔

یہاں پھرآپ دیکھیے کہ تہجد کے ذریعے نبی پاکؐ کی تربیت کا جو انتظام کیا گیا تھا‘اس میں ایک چیز تو یہ پیشِ نظر تھی کہ کامل اخلاص پیدا ہوجائے اورکلام میں راست بازی پیدا ہوجائے اور آدمی کاظاہروباطن یکساں ہو جائے۔دوسری مصلحت یہ بیان کی گئی کہ تمھارے اُوپرایک ثقیل کلام کا بار ڈالاجانے والا ہے‘بہت بھاری کلام کا بارڈالاجانے والاہے‘اس کو سہارنے کی طاقت تمھارے اندر اس سے پیدا ہوگی۔ تیسری جو ضرورت تھی وہ یہ تھی کہ تمھارے اُوپرجو باتیں چھاپی جا رہی ہیں اس کے لیے صبرِ جمیل کی جو ضرورت ہے‘ یہ طاقت تمھارے اندرتہجد کی نماز سے پیدا ہوگی۔ تہجد کی نماز تمھارے اندر یہ صلاحیت اوریہ طاقت پیداکرے گی کہ تمھیں گالیاں دی جا رہی ہیں‘ تمھارے اُوپرالزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے ‘لیکن تم صبر کے ساتھ اپنا وہ کام کیے جائو جو تمھارے سپرد   کیا گیاہے۔دل میں میل نہیں آتا‘دل کے اندر کوئی غصہ اور کوئی نفرت پیدانہیں ہوتی اور اس کے ساتھ آدمی اصلاحِ قلب کے لیے برابر کام کیے چلا جاتا ہے۔ یہ طاقت اس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی کہ آدمی اخلاص الی اللہ اور اخلاص فی الدین اپنے اندر پیداکرے۔ یہ چیز بھی تہجدکی نماز سے پیدا  ہوتی ہے۔

وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا o (۷۳: ۱۱)

اِن جھٹلانے والے خوش حال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور انھیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا معاملہ میرے سپردکر دو میں ان سے نمٹ لوں گا۔فرمایا:  اس کو وکیل بنا لو‘ اور فرمایاکہ تم صبر جمیل کرواور ان کوباتیں کرنے دو‘اس کے بعد فرمایاکہ ان کوچھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا‘ اِن کا معاملہ میرے حوالے کرو ۔ گویا تم میرے بھروسے کے اُوپر اپناکام کیے چلے جاؤاور اطمینان رکھو کہ میں ان سے نمٹ لوں گا‘تمھیں فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

مکذبین کی صفت یہ بیان کی کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کوہم نے نعمت دی۔ بجاے اس کے کہ ان کے اندر کوئی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتااور وہ اپنے خدا کے سامنے جھکنے والے ہوجاتے ‘ ان کا دماغ خراب ہوگیاہے۔ یہ بھول گئے ہیں‘ نمک حرام بن گئے ہیں اور اپنے رب کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا جو اس طرح سے کھاتے پیتے لوگ ہیں اور نعمتیں پانے کی وجہ سے جھٹلارہے ہیں اِن کو اور مجھے چھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا۔

ذرا مہلت دے دو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اپنے پاس سے ان کو کوئی مہلت دو‘بلکہ مراد یہ ہے کہ ذرا انتظار کرواس بات کاکہ ان کے ساتھ میں کیا معاملہ کرتاہوں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بے چین مت ہوکہ اِن کو جلدی سزادے دی جائے ۔بسااوقات آدمی پریشان ہوجاتا ہے ‘ جب دیکھتا ہے کہ چہارسو بندوں پر ظلم ڈھایا جارہاہے ‘خداکے بندوں کو ستایاجارہاہے محض اس لیے کہ خداکے دین کاکام کرنے والے ہیں ۔پھانسیوں پر ان کوچڑھایاجاتاہے‘ جیلوں میں ان کو ٹھونسا جاتا ہے ‘ طرح طرح کی مار ان کو دی جاتی ہے‘مگر اس ظالم کا کچھ نہیں بگڑ رہا‘تو بڑا بڑا نیک آدمی‘بڑا بڑا خداپرست آدمی ‘ بڑابڑاصابرآدمی بھی ایک مرتبہ تو پریشان ہوجاتا ہے کہ یااللہ یہ کیامعاملہ ہے ؟یہ کیا ہورہا ہے؟حضرت موسٰی ؑ تک نے یہ کہہ دیاکہ یااللہ فرعون کو برابرنعمتیں ملی چلی جا رہی ہیں‘اس کا زور بڑھتاہی چلاجا رہا ہے‘ اس کو دنیا کی زینتیں دی چلی جا رہی ہیں‘ حالانکہ یہ دنیا پر ظلم ڈھارہاہے۔ چونکہ اس طرح کی صورتِ حال کو دیکھ کر انسان بے صبرا ہوجاتاہے تو فرمایا کہ َمَہِّلْھُمْ قَلِیْلًا ، ذرا اِن کو مہلت تودوتم‘بے چین مت ہواس بات کے لیے کہ یہ ظلم ڈھارہاہے تو جلدی سے اس کوختم کردیا جائے۔اب اس مہلت میں جو اللہ تعالیٰ دیتاہے‘ بے شمار مصلحتیں ہوتی ہیں جن کوکوئی نہیں جانتا۔

اب دیکھیے‘ مثال کے طور اگر اس ابتدائی زمانے میں‘ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھارہے تھے اور آپؐ کے خلاف طرح طرح کا جھوٹا پروپیگنڈاکر رہے تھے‘اگر اسی زمانے میں عذاب نازل ہوجاتا تو یہ خالدبن ولید کہاں سے آتے؟یہ بڑے بڑے مجاہدین جو اُسی شہر سے پیداہوئے ہیں‘ وہ کہاں سے آتے اگر اسی وقت عذاب نازل کردیاجاتا؟ اگر مسلمانوں نے تمام  ظلم وستم کے مقابلے میں صبر نہ دکھایاہوتا‘اس کے مقابلے میں ڈٹے نہ رہتے ‘ہر قسم کی تکلیف کا مقابلہ نہ کرتے‘خداپرستی پر قائم نہ رہتے تو ان کے اندر وہ زبردست روحانی طاقت کہاںسے پیداہوتی جس سے انھوں نے دنیا بھرکو فتح کیا۔وہ عزم کیسے پیدا ہو سکتاتھا؟اسی طرح سے اگر کفار کو ظلم کاموقع نہ دیاجاتااورمسلمانوں کو اس کے مقابلے میں صبراورصبرِ جمیل کا موقع نہ دیا جاتا تو سارا عرب کیسے قائل ہوجاتاکہ یہ گروہ واقعی دنیاکا نہایت نیک گروہ ہے‘ اور ساراعرب کیسے اس کا حامی ہوتا چلاجاتا؟لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بے شمارمصلحتیں ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ کسی گروہ کوجوظالم ہے‘ دنیامیںبرائی پھیلانے والاہے‘ اس کومہلت دیتا ہے۔لیکن ان مصلحتوں کو آدمی سمجھ نہیں سکتا۔جس وقت وہ کام ہورہاہوتاہے اُس وقت آدمی کی سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آگے چل کر اس سے کیا خیر پیدا ہونے والی ہے؟آدمی یہ سمجھتاہے کہ یہ تو شرہی شرہورہاہے۔حالانکہ شر اس کائنات میں جہاں کہیں بھی ہے‘ کسی خیر کی خاطرہے‘ بجاے خود شر کی خاطر نہیں۔

اِنَّ لَدَیْنَـآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا o وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابَا اَلِیْمًا o یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّھِیْلًا o (۷۳: ۱۲-۱۴)

ہمارے پاس (ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ یہ اُس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جارہے ہیں۔

یعنی وہ سزاجس کے لیے ہم کہہ رہے ہیں وہ سزاہما رے پاس تیارہے۔ ایساہوجائے گا جسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جا رہے ہیں۔ ایسے مواقعوں پر بالعموم قرآن مجید نے دنیوی عذاب کا کہیں ذکر ہی نہیں کیاہے۔کثرت سے ایسے مقامات ہیں کہ جہاں ظالموں کے ظلم کے مقابلے میں صبر کا مشورہ دیاگیاہے اور بتایا گیاہے کہ عالمِ آخرت میں اِن کے لیے ہما رے ہاں یہ سزاموجود ہے۔بعض مقامات پر دنیوی عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ‘بعض مواقع پر خبر دی گئی ہے کہ ان کے اُوپر اب دنیا میں عذاب ہوگا‘لیکن ایسے مواقع کم ہیں۔زیا دہ تر مواقع وہ ہیں کہ جہاں یہ بتایاگیاہے کہ اِن ظالموں کے ظلم پرصبر کرو اور اِن کے لیے آخرت میں قیامت کے روزہمارے ہاں یہ سزاتیارہے۔

اِس کی مصلحت پرغورکیجیے کہ یہ بات کہی کیوں گئی ہے؟یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ہرظالم کے اُوپراس دنیاہی میں عذاب آجائے۔تاریخ بھی بتاتی ہے ‘یہ انسانی مشاہدہ بھی ہے کہ ہر ظالم پر دنیامیں ہمیشہ عذاب نہیں آسکتا۔اگر دنیامیں کسی ظالم قوم پرکبھی عذاب آیابھی ہے تواُن لوگوں پر آیا ہے جو اس وقت موجود تھے ۔اس گھڑی سے ایک منٹ پہلے جوآدمی مرچکا تھا اُس پر کبھی کوئی عذاب نہیں آیا۔اس لیے اصل عذاب وہ ہے جوظالموں کو آخرت ہی میں دیا جائے۔

دوسری مصلحت اس میںیہ ہے کہ آدمی اس غرض کے لیے بیٹھ کر بے چین نہ ہوکہ جو لوگ ہم پر ظلم کررہے ہیں ‘اُن پر دنیا میں عذاب آئے گا۔ اور اس بھروسے کے اُوپر کہ دنیا میں اُن پر عذاب آئے گا‘ ان کو مہلت نہ دیں اور صبر نہ کریں اور نہ یہ ہی سمجھیں کہ یہ جیتے جی ساری عمربھی ظلم کرتے رہے توتب بھی کچھ نہیں بگڑتا‘ آخرکارآخرت میں ان کی شامت آنی ہے۔ مسلمان کو جس صبر کی تلقین کی گئی ہے اس میں نیکی کااَجر بھی اصل وہ ہے جو آخرت میں ملے گانہ کہ وہ جودنیا میں ملے گا۔اتنا صبر مسلمان میں ہونا چاہیے کہ عمر بھروہ نیکی کرتارہے‘ چاہے اُس نیکی کانتیجہ اُس کے حق میں اِس دنیامیں ‘عمربھر برانکلتا رہے‘اُس نیکی کی وجہ سے عمر بھر ستایاجاتا رہے ‘عمرقید اس کو دے دی جائے یاکوئی بھی ظلم وستم اُس کے اُوپر کیا جائے‘ تب بھی وہ اس یقین کے اُوپرصبر کر سکے کہ بہرحال آخرت میں میرا اجریقینی ہے۔جب تک کوئی شخص آخرت تک کے لیے صبر کرنے پر تیار نہ ہو‘ وہ اس دین کے راستے پر نہیں چل سکتا۔

اسی طرح سے ظالموں کو سزا دینے کے معاملے میں بھی قرآن جس چیز کا اطمینان دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ چاہے اس دنیا میں وہ پھلتے پھولتے رہیں ‘مگر آخرت میں اُن کی شامت آکر رہے گی۔ بہت سے ظالم ایسے ہیں کہ جو مرتے وقت تک ظلم کرتے رہتے ہیں‘ مثلاً اسٹالن آخر وقت تک اس کا اعتبارقائم رہااورمرتے مرتے وہ ڈکٹیٹر بنارہا‘ اور مرتے مرتے وہ خلقِ خداپرظلم ڈھاتارہا‘ اس دنیا میں اس کی کوئی شامت نہیں آئی۔اگر کوئی شخص اسی دنیا کے اُوپر انحصار کرنے والاہواور آخرت کا قائل نہ ہوتو وہ یہ سمجھے گاکہ یہ سارانظامِ کائنات ظلم کے لیے بناہے کہ ایک شخص عمربھر ظلم کرتا رہااورمزے سے ٹانگیں پھیلاکرمر گیا‘ اوراس بات کی کوئی سزااُسے دنیامیں نہیں ملی۔ دنیا کو ایک عادل خداکی مملکت ہونے کا یقین اُسی آدمی کو ہوسکتا ہے جس کویہ یقین ہوکہ اس دنیاسے اگرظالم گزر بھی گیا توآخرت میں اُس کی شامت آنی ہے۔لہٰذا ایک مسلمان کویہاں جو صبر کی تلقین کی گئی ہے‘ یہ وہ صبر ہے کہ جو دنیا کے اندر آخرت تک انتظارکرسکتاہو۔ دنیا کے لیے بے چین نہ ہوکہ دنیاہی میں اس کو اجر بھی مل جائے اور دنیاہی میں ظالم کو بھی سزا مل جائے۔(جاری)

(کیسٹ سے تدوین:  امجدعباسی)

اُمت وسط ہونے کی حیثیت سے فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق اُمت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے جو جماعت دعوتِ دین اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے اُٹھے‘ اسے کن ناگزیر صفات سے متصف ہونا چاہیے؟ (ادارہ)

صبر کا وسیع مفھوم

سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے‘ صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے‘ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو‘ تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال انگیز جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے‘ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے‘ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔

پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں مصابرت کا بھی ہے‘ یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں‘ اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے اصبروا کے ساتھ وصابروا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کیاتناسب ہے؟ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ [جنگ عظیم دوم] کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں‘ شہروں اور ریلوے سٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر و تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پہیوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بم بار طیاروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اُڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صدی کے تناسب پر نہ پہنچ جائے ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

جذبۂ ایثار

دوسری چیز جو مجاہدہ کا لازمہ ہے ‘ ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار‘ محنتوں کا ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورت واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص بیس‘ پچاس‘ سو اورہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بیکار ہوجاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کریہاں محض بقدر ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمایئے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے اور اس راہ میں پتہ مار کر کام نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بَل پر نہیں چل سکتی۔

جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اُسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جیسی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پائوں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پائوں اور دوسرے اعضا کس کام کے ہوسکتے ہیں‘ اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے اعلیٰ درجے کے جنرل چاہییں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترقیوں کے دل دادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جوزیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کرسکیں۔ اس ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدین عالم جو روزانہ کروڑوں روپیہ اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں‘ ہم سے کبھی شکست کھاسکتے ہیں تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔

دل کی لگن

مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا‘ یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے‘ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پاکر بھڑکتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کر دیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے‘ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر ایسا مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔

جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے‘ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیش تر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں‘حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اُتر گئی ہے اور اس نے نہاں خانۂ روح پر قبضہ جما لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اُوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہوچکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس وقت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہوگیا۔ بخلاف اس کے پھر تو ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے کو بیمار پاکر کیا کرتا ہے۔

خدانخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی و موت کے سوال کو بالکلیہ کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اس کے حال پر چھوڑ بیٹھیں کہ کوئی تیماردار نہیں‘ کوئی دوا لانے والا نہیں‘ کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ خود سب کچھ بنیں گے کیونکہ بچہ کسی دوسرے کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔ سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ بھی سکتا ہے مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا۔ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو اس کو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نااہلی‘ یا غلط روی یا بے توجہی کو بہانہ بناکر آپ اسے مر جانے دیں اور اپنے دوسرے مشاغل میں جاکر منہمک ہوجائیں۔ یہ سب باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم از کم اتنے قلبی لگائو کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں توا نجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور یہ ایسی بری پسپائی ہوگی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کرسکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔

منظم اور پیھم سعی

چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے۔ جو قدم اٹھایا جائے‘ ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہوکے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی‘ جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی  نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات پچیس پچیس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے اور  اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔ (رُوداد جماعت اسلامی‘ دوم‘     ص ۳۲-۳۶)

آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی    اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے‘ کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے‘ اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے‘ اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔

[۵۸] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اقدار کے تسلط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے‘ افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہو سکی۔ ہماری درسگاہیں‘ ہمارے دفاتر‘ ہمارے بازار‘ ہماری سوسائٹی‘ ہمارے گھر‘ حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں‘ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں‘ خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلَّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ شائستگی‘ ہر شے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔

سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی راہنما اور قوموں کی اِمام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقّلِد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے‘ تمام دُنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلِّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح‘ شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگرجب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی راہنمائی سے استعفا دے دیا۔ دُوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیںدنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔

اب اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی‘ وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان کے لیے  یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اصولوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پرسوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔

اگر ہم دوبارہ دُنیا کے راہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکِّر اور محقق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں‘ ایک نئی حکمتِ طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ حصہ اوّل‘ ص ۲۴۲-۲۴۶)

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَـآئُ مُتَشٰکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍط ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاط  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِج بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹: ۲۹)

اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟___ الحمدللہ‘ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کواس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں‘ اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو‘ اور وہ مالک بھی ایسے بدمزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو‘ اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا نہ کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو‘ اس کی زندگی لا محالہ سخت ضِیق میں ہوگی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے  غورو تامل کی حاجت نہیںہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خدائوں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقائوں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقائوں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں ۔    پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقائوں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتاہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انھیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں‘ خاندان میں‘ برادری میں‘ قوم اور ملک کے معاشرے میں‘ مذہبی پیشوائوں میں‘ حکمرانوں اور قانون سازوں میں‘ کاروبار اور معیشت کے دائروں میں‘ اور دنیا کے تمدّن پرغلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہروقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرۂ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتاہے۔ کوئی نکو بناتا ہے۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے۔ کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اِس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اُتار پھینکے ۔

توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔

ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خداے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گردوپیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے‘ لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آجائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکامِ الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے  پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔وہ خاندان‘ برداری ‘ قوم‘ حکومت‘ مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی کسی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں‘ بلکہ لازماً پہنچیںگی لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں‘ اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجالائوں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑجائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوانہ ہوگا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خدائوں کے آگے سرجھکا کر اپنی جان بچالی۔

دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اِسی توحید کی نبیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق ‘ تمدّن‘ تہذیب ‘ تعلیم‘ مذہب ‘ قانون‘ رسم ورواج‘ سیاست‘ معیشت ‘ غرض ہر شعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خدا وندِعالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعے سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ‘ قانون اسی کو جرم قرار دے‘ حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے‘ تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے‘ منبر ومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو‘ معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ‘ قانون اس کی حمایت کرے‘ انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں‘ تعلیم وتربیت کا    پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے‘ منبر ومحراب  اسی کی تلقین کریں‘ معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم رواج اُس پر قائم کر دے‘ اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی وروحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں‘ کیونکہ اس میں بندگی ٔ رب اور بندگی ٔ غیرکے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو‘ بہر حال   وہ توحید ہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات ومشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرناہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امتِ مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو‘ یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیا علیہم السلام کی سعی وجہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے‘ اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذو قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے…

[مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں]، یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقائوں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خدائوں کی بندگی کا فرق جب سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج۴‘ ص۳۶۹-۳۷۲)

اس کتاب [قرآن حکیم] کا لانے والا‘ ذاتی طور پر کس قسم کے اخلاق کا انسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں‘ قرآن مجید نے دوسری رائج الوقت کتابوں کی طرح‘ اپنے لانے والے کی تعریف کے پُل نہیں باندھے ہیں‘ نہ آپؐ کی تعریف کو ایک مستقل موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ البتہ آمدِ سخن میں محض اشارتاً‘ آنحضرتؐ کی اخلاقی خصوصیات ظاہر کی ہیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وجودِ مسعودؐ میں کمالِ انسانیت کے بہترین خصائص موجود تھے۔

۱- اعلٰی اخلاق:  وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘اخلاق کے نہایت بلند مقام پر تھا:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم۶۸:۴)

اور اے محمدؐ! یقینا تم اخلاق کے بڑے درجے پر ہو۔

۲-  عزمِ راسخ :وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ ایک ایسا راسخ العزم‘ مستقیم الارادہ اور اللہ پر ہر حال میں بھروسا رکھنے والا انسان تھا کہ جس وقت اس کی ساری قوم‘ اسے مٹا دینے پر آمادہ ہوگئی تھی اور وہ صرف ایک مددگار کے ساتھ‘ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تھا‘ اُس سخت مصیبت کے وقت بھی اُس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عزم پر قائم رہا۔

اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا - (التوبہ ۹:۴۰)

یاد کرو جب کہ کافروں نے اس کو نکال دیا تھا‘ جب کہ وہ غار میں صرف ایک آدمی کے ساتھ تھا‘ جب کہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

۳-  فراخ حوصلہ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ ایک نہایت فراخ حوصلہ اور فیاض انسان تھا جس نے اپنے بدترین دشمنوں کے لیے بھی بخشش کی دُعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ کو اسے اپنا  یہ قطعی فیصلہ سنا دینا پڑا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بخشے گا:

اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ - (التوبہ ۹:۸۰)

چاہے تم ان کے لیے معافی مانگو چاہے نہ مانگو‘ اگر تم ستّربار بھی ان کے لیے معافی مانگو گے‘ تب بھی اللہ ان کو معاف نہ کرے گا۔

۴- نـرم خُـو: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کا مزاج نہایت نرم تھا۔ وہ کبھی کسی کے ساتھ درشتی سے پیش نہیں آتا تھا اور اسی لیے دنیا اس کی گرویدہ ہوگئی تھی:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ - (اٰل عمران ۳:۱۵۹)

یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے ساتھ نرم ہو‘ ورنہ اگر تم زبان کے تیز اور دل کے سخت ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چَھٹ کر الگ ہوجاتے۔

۵- دعوت کی تڑپ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ بندگانِ خدا کو راہِ راست پر لانے کی سچی تڑپ‘ دل میں رکھتا تھا اور ان کے گمراہی پر اصرار کرنے سے‘ اُس کی روح کو صدمہ پہنچتا تھا‘ حتیٰ کہ وہ اُن کے غم میں گھلا جاتا تھا:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا - (الکھف۱۸:۶)

اے محمدؐ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم اُن کے پیچھے‘ رنج و غم میں اپنی جان کھو دو گے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔

۶-  بہلائی کا حریص:  وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کو اپنی اُمت سے بے حد محبت تھی‘ وہ ان کی بھلائی کا حریص تھا‘ اُن کے نقصان میں پڑنے سے کُڑھتا تھا‘ اور ان کے حق میں سراپا شفقت و رحمت تھا:

لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹:۱۲۸)

تمھارے پاس خود تم ہی میں سے ایک ایسا رسول آیا ہے جسے ہر وہ چیز شاق گزرتی ہے جو تمھیں نقصان پہنچانے والی ہو‘ جو تمھاری فلاح کا حریص ہے اور اہلِ ایمان کے ساتھ نہایت شفیق و رحیم ہے۔

۷-  رحمتِ عالم: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا‘ صرف اپنی قوم ہی کے لیے نہیں‘ بلکہ تمام عالم کے لیے اللہ کی رحمت تھا:

وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ - (الانبیاء  ۲۱:۱۰۷)

اے محمدؐ! ہم نے تو تم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۸-  زھد و عبادت: وہ بتاتا ہے کہ اس کالانے والا راتوں کو گھنٹوں ‘اللہ کی عبادت کرتا اور خدا کی یاد میں کھڑا رہتا تھا:

اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ - (المزمل۷۳:۲۰)

اے محمدؐ! تمھارا رب جانتا ہے کہ تم رات کو تقریباً دو تہائی حصے تک‘ اور کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی حصے تک نماز میں کھڑے رہتے ہو۔

۹-  صدق و ثبات: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا ایک سچا انسان تھا‘ نہ کبھی اپنی زندگی میں راہِ حق سے بھٹکا‘ نہ فاسد خیالات سے متاثر ہوا اور نہ کبھی اُس نے ایک لفظ خواہشِ نفس کی پیروی میں حق کے خلاف زبان سے نکالا:

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی - (النجم۵۳:۲-۳)

لوگو! تمھارا صاحب نہ کبھی سیدھی راہ سے بھٹکا اور نہ صحیح خیالات سے بہکا اور نہ وہ خواہشِ نفس سے بولتا ہے۔

۱۰-  اسوۂ کامل: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کی ذات ‘تمام عالم کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ تھی اور اس کی پوری زندگی کمالِ اخلاق کا صحیح معیار تھی:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ - (الاحزاب۳۳:۲۱)

تمھارے لیے رسولؐ اللہ کی ذات میں ایک اچھا نمونہ ہے۔

قرآن مجید کا تتبّع کرنے سے‘ صاحبِ قرآن کی بعض اور خصوصیات پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن اس مضمون میں تفصیل کی گنجایش نہیں۔ جو کوئی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ بخلاف دوسری موجود الوقت مذہبی کتابوں کے‘ یہ کتاب اپنے لانے والے کو جس رنگ میں پیش کرتی ہے وہ کس قدر صاف‘ واضح اور آلودگی سے پاک ہے۔ اس میں نہ اُلوہیّت کا کوئی شائبہ ہے‘ نہ تعریف و ثنا میں مبالغہ ہے‘ نہ غیر معمولی قوتیںآپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں‘ نہ آپ کو خدا کے کاروبار میں شریک و سہیم بنایا گیا ہے‘اور نہ آپ کو ایسی کمزوریوں سے متہم کیا گیا ہے جو ایک ہادی اور داعی الی الحق کی شان سے گری ہوئی ہوں۔ اگر اسلامی لٹریچر کی دوسری تمام کتابیں‘ دنیا سے ناپید ہوجائیں اور صرف قرآن مجید ہی باقی رہ جائے‘ تب بھی رسول ؐاکرم کی شخصیت کے متعلق کسی غلط فہمی‘ کسی شک و شبہہ اور کسی لغزشِ عقیدت کی گنجایش نہیں نکل سکتی۔ ہم اچھی طرح معلوم کرسکتے ہیں کہ اس کتاب کا لانے والا ایک کامل انسان تھا‘ بہترین اخلاق سے متصف تھا‘ انبیاے سابقین کی تصدیق کرتا تھا‘ کسی نئے مذہب کا بانی نہ تھا اور کسی فوق البشر حیثیت کا مدعی نہ تھا۔ اس کی دعوت‘ تمام عالم کے لیے تھی‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے چند مقرر خدمات پر مامور کیا گیا تھا اور جب اس نے خدمات کو پوری طرح انجام دے دیا‘ تو نبوت کا سلسلہ اس کی ذات پر ختم ہوگیا۔ (تفہیمات‘ حصہ دوم‘ ص ۳۵-۳۸)

 

 

ایک انتباہ!

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سید مودودی علیہ الرحمہ کے ایک اہم خطاب سے اقتباس۔ یومِ پاکستان پر یہ ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (ادارہ)

اسی شہر لاہور میں جس وقت مسلمانوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم ایک الگ خطۂ زمین حاصل کریں گے۔ اس وقت تمام متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوسکیں یا نہ ہوسکیں‘ لیکن ایک خطۂ زمین ہندستان میں ایسا حاصل کیا جائے جس کے اندر اسلامی تہذیب کو زندہ کیا جائے‘ جس کے اندر اسلامی قوانین جاری ہوں‘ جس میں مسلمان اپنے نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ یہ جذبہ جنوبی ہند کے آخری گوشوں سے لے کر شمالی اور مغربی ہندستان کے انتہائی گوشوں تک تمام مسلمانوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اُن مسلمانوں میں بھی پایا جاتا تھا جن کو کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی پاکستان میں شامل ہوسکیں گے۔ اسی چیز کے نتیجے میں پاکستان بنا۔

اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا‘ اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں‘ پنجابی ہیں‘ بنگالی ہیں‘ گجراتی ہیں‘ پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین میں جینا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آ سکتا تھا‘ بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔

پاکستان کا تخیل ہمارے مسلمان ہونے کے احساس پر مبنی تھا۔ پاکستان کا تخیل ہمارے اس جذبے پر مبنی تھا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یہ عام مسلمانوں کے احساسات تھے۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے ارادے کیا تھے‘ اور ان کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے کھاتے پیتے طبقوں کے احساسات کیا تھے؟ یہ بھی مَیں نہیں جانتا کہ جو لوگ ہمارے ہاں سرکاری ملازمتوں میں اُونچے مناصب پر تھے ان کے کیا خیالات تھے اور اس وقت وہ کیا سوچ رہے تھے‘ لیکن عام مسلمان یہی کچھ سوچ رہا تھا‘ اور اس نے یہی سمجھتے ہوئے اپنی جان و مال لٹائے کہ یہ سب کچھ غلبۂ اسلام کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کو یقین تھاکہ ہندستان کے ہندو ان سے بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے خون کی ندیاں بہائیں گے‘ ان کی آبرو پر ہاتھ ڈالیں گے‘ ان کے مال برباد کریں گے‘ مگر اس کے باوجود انھوں نے اس خطرے کو مول لیا اور اس مملکت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد کیا ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کے لیے خلوص کے ساتھ کام کیا گیا۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہاں اسلام کو مملکت کی بِنا قرار دینے میں پس و پیش شروع کر دی گئی۔ بڑی جدوجہد اور مطالبوں کے بعد اگر قرارداد مقاصد پاس کی بھی گئی تو اس کی بنیاد پر اوّل تو دستور بنانے کے بعد بھی اس قرارداد کو محض ایک دیباچے کے طور پر اس میں شامل کیا گیا۔

اس کے ساتھ جس بات کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ یہ کہ نظامِ تعلیم کو تبدیل کیا جائے۔ طلبہ کے اندر اسلام کا فہم پیدا کیا جائے‘ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے اس ملک کو اسلام کے مطابق چلا سکیں۔ لیکن اس چیز کی طرف بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کی کوئی فکر نہ کی گئی اور نظامِ تعلیم میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ اسی طرح سے نشرواشاعت کے جو ذرائع موجود تھے جن سے لوگوں کی رائے تیار کی جاسکتی تھی‘ جن سے لوگوں کے ذہن اسلام کے مطابق بدلے جاسکتے تھے‘ ضرورت تھی کہ ان سے کام لے کر مسلمانوں کے اندر مسلمان ہونے کا جذبہ زیادہ سے زیادہ شدید کیاجائے۔ اس لیے کہ وہی ہماری مملکت کی بنیاد تھی اور ہے۔ اس کے مضبوط رہنے پر اس مملکت کو مضبوط رہنا ہے‘ اور اس کے کمزور ہونے پر اس مملکت کا کمزور ہونا منحصر ہے۔ لیکن اس چیز کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی‘ بلکہ اس کے بالکل برعکس نشرواشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام سے لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے ہر طرح کے باطل خیالات اور نظریات پھیلائے گئے۔

تعلیم کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ مسلمانوں کے اخلاق کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی۔ کیونکہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد اسلامی فکر کے بعد اسلامی اخلاق ہے۔ اگر اسلامی فکر کے ساتھ اسلامی اخلاق موجود ہو تو ایک نہایت مضبوط و مستحکم مسلم مملکت تیار ہوسکتی ہے۔ لیکن نہ یہاں اسلامی فکر کو مضبوط کیا گیا اور نہ اسلامی اخلاق کو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اخلاق کو خراب کرنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا‘ وہ کیا گیا۔ مسلمانوں میں تقسیم سے قبل ناچ گانے کا وہ زور نہ تھا جو بعد میں ہوا۔ گویّے اور نچیّے تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ہیرو نہ تھے مگر تقسیم کے بعد [ان پیشوں سے وابستہ لوگ] ہمارے ہیرو قرار پائے۔ تقسیم کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان جو ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا تھا وہ ناچنے اور گانے والوں کا ہوا۔ گویا یہ تصور کیا گیا کہ ناچ اور گانے سے یہ مملکت قوی ہوگی ۔مسلمانوں میں شراب نوشی‘ بدکاری اور بے حیائی پھیلانے کے لیے جتنا کام انگریز نے ڈیڑھ سو برس کے اندر نہیں کیا تھا وہ ہمارے ہاں [چند] برس کے اندر کر ڈالا گیا۔ اس طرح سے ہمارے افکار کو اسلام سے منحرف کیا گیا۔ ہمارے اخلاق کو اسلام سے منحرف کیا گیا اور ہمارے اندر سے وہ تمام جڑیں کھودنے کی کوشش کی گئی جن کی بنا پر ہم مسلمان تھے اور مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ جو تعلیم ہمیں دی جارہی تھی وہ لادینیت کی تعلیم تھی۔ اس کے اندر سب کچھ تھا مگر خدا نہ تھا۔ اس میں سب کچھ تھا مگر خدا کا رسولؐ اور خدا کی کتاب نہ تھی۔

لازمی طور پر اس ماحول میں جو ہماری نئی نسلیں اٹھیں‘ مشرقی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا۔ مغربی پاکستان میں تھیں تو ان کے اندر پنجابی‘ سندھی‘ پٹھان اور بلوچی ہونے کا احساس اُبھرنا شروع ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان ہونے کا احساس دبے گا تو اس کے بعد اگر کوئی دوسرا احساس ہوسکتا ہے تو مقامی اور علاقائی قومیتوں کا احساس ہوسکتا ہے‘ اور وہی چیز پیدا ہوئی۔

بنگالی مسلمانوں میں بنگالی زبان‘ بنگالی تہذیب‘ بنگالی ثقافت‘ ساری کی ساری وہ پھیلائی گئی جو ان کو ہندوئوں کے ساتھ جوڑتی تھی‘ مسلمانوں سے الگ کرتی تھی۔ ان کے اسلامی احساسات کو زیادہ سے زیادہ فنا کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اور نتیجے میں ان کے اندر بنگالیت اور بنگالیت کے ساتھ ہندوئیت کے احساسات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخرکار بنگالی مسلمان نوجوان اور ہندو نوجوان کے درمیان کوئی وجہ امتیاز باقی نہ رہی۔ نہ صرف مردوں میں بلکہ عورتوں میں جو عورتیں بھی نئی تعلیم پانے والی تھیں ان میں اور نئی تہذیب اختیار کرنے والی ہندو بنگالی عورت میں بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ وہی ان کی تہذیب‘ وہی ان کے تصورات اور وہی ان کا ناچ گانا....

آپ نے اس کا نتیجہ اب دیکھ لیا کہ آخرکار وہاں وہ تحریک اٹھی جس کے چلانے والے‘ جس کے لیڈر اور جس کے کارکن نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصورات سے خالی تھے‘ نہ صرف یہ کہ اسلام سے منحرف تھے بلکہ ان کے اندر اسلام کے لیے چڑ پیدا ہوئی۔ وہ اسلام کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے… ان کے اندر نفرت مغربی پاکستان کے خلاف اس حد تک پھیلی کہ آخرکار انھوں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے کافروں سے بھی  مدد لینی پڑے لیکن ہم کو مغربی پاکستان سے الگ ہونا ہے۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں آپ کو ایسی ملیں گی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کافروں سے مدد حاصل کی ہو۔ یہاں یہ مثال دیکھی گئی کہ مسلمان‘ بت پرستوں سے اس غرض کے لیے مدد لیتے ہیں کہ مسلمان مملکت سے الگ ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑیں۔ اس طرح سے آخرکار مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔

ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر‘ مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا‘ اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا‘ کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا‘ تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی‘ اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔

اب اس کے بعد صرف مغربی پاکستان رہ گیا ہے جس کو ہندستان کے مقابلے میں تقریباً ایک اور گیارہ کی نسبت ہے‘ پہلے ایک اور پانچ کی نسبت تھی۔ اس خطے کے اندر بھی آپ دیکھیے کہ اسلام سے انحراف کے نتیجے میں کیا صورت پیدا ہوگی۔ اس خطے میں بھی چونکہ اسلامی تعلیم نہیں  دی گئی‘ نہ اسلامی اخلاق پیدا کیے گئے بلکہ اُلٹا اسلامی تصورات کو دبایا گیا اور غیراسلامی تصورات کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا‘ اس لیے یہاں بھی الحاد‘ دہریت‘ سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات پھیلے اور اخلاقی اباحیت کو فروغ حاصل ہوا۔

اس کے نتیجے میں آپ دیکھیے یہاں پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی اور بلوچی ہونے کے احساسات اُبھر رہے ہیں اور مسلمان ہونے کا احساس ختم ہو رہا ہے۔ اب اِس خطے کے ٹکڑے اڑتے نظرآرہے ہیں۔ اُس خطے کو بھی جمع کرکے رکھنے والی اگر کوئی چیز تھی تو وہ اسلام اور مسلمان ہونے کا احساس تھا۔ اگر اِس چیز کی اب فکر نہ کی گئی تو یہ بھی منتشر ہوجائے گا‘ اور پھر منتشر ہوجانے کے بعد اس کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہے گا۔ یہ سب غلام بن جائیں گے اور یہ غلامی اس سے بدتر ہوگی جو تقسیم سے پہلے آپ کی غلامی تھی۔ (مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر‘ مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب‘ ۱۲-۱۷ فروری ۱۹۷۲ئ‘ ص ۶-۱۰)