مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۱۹

جب معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور معاشری اشاریے (indicators) یہ پتا دے رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو اس کے اسباب کا پتا لگانا ایک معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اخلاقی امراض، یعنی معیشت میں دھوکا اور فریب، سیاست میں آمریت وکنبہ پروری اور بے ایمانی ، معاشرت میں حقوق کی پامالی اور رشتوں کا احترام ختم کر دینے اور ثقافت میں رنگ رلیوں اور عریانیت کو ’آرٹ‘ اور’فن‘قرار دے دینے کا بنیادی سبب کیاہے؟   کیا یہ اُس دورِ غلامی کا نتیجہ ہے جس سے مسلمان مغربی سامراج کے تسلط کے دورسےگزرے ہیں، یا یہ فلاح اور کامیابی کے معیارات کوگڈ مڈ کرنے کا نتیجہ ہے، یا مقصدِ حیات کے شعور کا صحیح ادراک نہ ہونے کی بنا پر ہے؟ کیا یہ خرابی اچانک رونما ہو گئی ہے، یا مسلم ملت گذشتہ دو سوسال میں جن آزمایشوں سے گزری ہے، اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے ؟ 
قرآن کریم نے اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ 
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی ، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے ۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی ، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics  (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی روایت میں قرآن کریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاکؐ کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔

مغرب کا ترقی کا معیار

 ہم جس مادی دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ترقی اور عروج کا پیمانہ: بیرون ملک میں محفوظ سرمایہ ، کاروبار میں خواتین کے قائدانہ کردار، مختصر خاندان، ذاتی مکان اور کار اور مغربی تعلیم کے حصول کو قرار دیا جاتا ہے ۔چنانچہ ایک ملک یا قوم کے ترقی یافتہ ، کم ترقی یافتہ ، یا عدم ترقی یافتہ ہونے کا فیصلہ ’انسانی ترقی‘ کے انھی خودساختہ معیارات پر کیا جاتا ہے۔
ترقی اور استحکام کو ناپنے کے یہ پیمانے سامراجی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جنھیں سرمایہ دارانہ فکر کے علَم برداروں نے اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں ایجاد کیا اور خود کو غالب تہذیب قرار دیتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو جانچنے کے لیےانھی ’مقدس پیمانوں‘کو معیار قرار دیا۔ ان کی بنیاد پر اقوام عالم کی درجہ بندی کرنے کے ساتھ اقوام عالم کو یہ بات باور کروا دی کہ وہ انھی پیمانوں کی روشنی میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر بن سکتی ہیں۔ اسی معیار کے پیش نظر ان ممالک کی تعلیم ، معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کو قدیم، غیر ترقی یافتہ قرار دے کر انھیں اس دوڑ میں لگا دیا گیا کہ وہ خود کو مغرب کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلا ہوسکیں۔
مغربی فکر کی نمایندگی کرتے ہوئے معروف امریکی تجزیہ کار سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اس حقیقت کا سادہ الفاظ میں یوں اظہار کیا:

To be successful you must be like us, our way is the only way "The argument is that the religious values, moral assumptions and social structures of these (non-western)  societies are at best alien and sometimes hostile to the values and practices of industrialism"(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, London, 1997, p73).

کامیابی کے لیے آپ کو لازماً ہمیں پسند کرنا ہوگا۔ ہمارا راستہ ہی صرف واحد راستہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ان (غیرمغربی اقوام) کی مذہبی اقدار، اخلاقی تصورات اور سماجی ڈھانچے، ہمارے سماجی و معاشی اور صنعتی نظام کی اقدار و روایات (انڈسٹریل ازم) کے لیے صرف نامانوس ہی نہیں بلکہ بسااوقات دشمنی پر مبنی ہیں۔

گویا ترقی کے لیے صنعتی انقلاب کے بعد لادینی اور سرمایہ دارانہ مادیت جس کو یورپ نے اختیار کیا، ان کو اپنائے بغیر کوئی غیر یورپی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

اسلام کا ترقی کا پیمانہ

اس کے مقابلے میں اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔   جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں تو ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی، اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں جنھیں کوئی فرد بھی جو دو آنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا ۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا،اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاؤس اور آزادی کے علامتی مینارزمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی ما دی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اور تباہی کو نہیں روک سکی۔
ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نےجس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میںتعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رُونما ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کے فرق کو سمجھتے ہوئے صرف حلال روزی کو اختیار کرنا اور خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا ،انفرادی سطح پر اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرنا___ یہ تصورِاسلامی، اسلامی ثقافت میں ایسی روایت بن گیا کہ کہ دورِ زوال کے کئی حکمران اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔ ایسے فرماں روا مثالی اسلامی نظام حکومت سے انحراف کرچکے تھے اور خلافت کے بجاے بادشاہت جیسی حکمرانی کے مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کر کے جو رقم ملتی، اسے اپنی ذات پر خرچ کرتے۔ گو ان کے سیاسی معاملات مکمل طور پر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی زندگی دوسرے اربابِ اقتدار سے بڑی مختلف تھی۔برعظیم میں اورنگ زیب عالم گیر اور دور عثمانی کے کئی بادشاہ اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔
دورِ حاضر کے معاشی نظام اور معاشی ترقی کا بڑا انحصار سودی لین دین پر ہے ۔وہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت ، فرد ہو یا ادارہ اپنے کارو بار کے آغاز کے لیے کسی بنک سے قرض لینے کو ایک بنیادی ضرورت سمجھ کر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر ساری عمر سود کی مقررہ شرح ادا کرنے کے لیے بھاری نفع پر اشیا فروخت کر کے ایک جانب سود کی اقساط ادا کرتا ہے ساتھ ہی صارفین کو اضافی نرخ پر اشیا فراہم کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے ۔
بظاہر مادہ پرستی پر مبنی نظام پھلتا پھولتا نظر آتا ہے لیکن ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بھونچال نے یہ بات ثابت کردی کہ سرمایہ دارانہ نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور اشتراکیت کے بعد اب اس کی مکمل تباہی کی باری ہے ۔ ۲۰۰۸ء میں دنیا کے ۱۰۰ سے اُوپر معاشی مراکز میں اس نظام کے خلاف اسی نظام کے پروردہ افراد نے مظاہرے کیے اور عالمی منڈی میں بینکوں ، تعمیراتی کمپنیوں اور معاشی اداروں نے اپنے کنگال ہونے کے کاغذات داخل کر کے اس نظام کے ناکام ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیے ۔
مادیت اور ذاتی افادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلام جو نظام تجویز کرتا ہے وہ اخلاق کے اعلیٰ اصولوں، صدق شعاری ، امانت و دیانت ، پاس داریِ عہد ،اشیا کی معیاری ضمانت  (Quality Assurance)اور عدم استحصال کو معاشی پالیسی کے ستون قرار دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ترقی کے لیے خاندان کی اخلاقیات کو بنیاد قرار دیتا ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہردو سطحوں پر یہ نظام خود انحصاری کا علَم بردار ہے۔قرآن کریم انبیاے کرامؑ کے معاشی معاملات میں خود انحصاری اختیار کرنے کی مثالیں دے کر سمجھاتا ہے کہ صیحح رویہ کون سا ہے؟حضرت نوح ؑ کا  کشتی سازی (Ship Building) کی صنعت کو نقطۂ کمال تک پہنچانا اور حضرت داؤدؑ کا فولاد سے زِرَہ ، تلوار، ڈھال اور دیگر آلات کا تیار کرنا خود انحصاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں ۔
قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دہانی کراتا ہے کہ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی کا اگر کوئی درست طریقہ ہے تو وہ صرف قرآنی اخلاق اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔چنانچہ ماضی کی اقوام نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ تباہی کے گڑھے میں جاگریں۔

اخلاقی انحطاط کا سبب

آج مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان جن زمینی مسائل کا شکار ہے،ان میں سر فہرست مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔برقی ابلاغ عامہ نے معاشرے کے اخلاقی ناسوروں کو ضرورت سے زیادہ   بے نقاب کر کے اخلاقی گراوٹ کے احساس کو اور زیادہ شدید کر دیا ہے۔ملک میں چلنے والے ہر ٹی وی چینل پر اگر کوئی خبرسرخی بنتی ہے تو وہ اخلاقی دیوالیے اور زوال ہی کی کسی شکل کو ظاہر کرتی ہے ۔ مختلف اوقات میں بچوں اور خواتین کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات کو ’نشر فحش‘کا فریضہ سمجھ کر ابلاغی ادارے سنسنی اور مبالغے کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے پاکستان اخلاقی خرابیوں میں ’سربراہی‘ کا مقام رکھتا ہو۔
 اسی طرح اگرملک میں طلاق کے رجحان کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم امریکا کو جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طلاق زدہ ملک ہے ، کچھ عرصے میں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ معاشی بدعنوانی، کرپشن کی خبریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد معاملگی اور کرپشن میں شاید  ہم ہی سرفہرست ہیں ۔ تعلیم میں دیکھا جائے تو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بدمعالگی عروج پر نظر آتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار کیے بغیر کہ واقعتاً یہ مسائل معاشرے میں پائے جاتے ہیں، مگر ابلاغ عامہ جس تباہ کن انداز میں انھیں پیش کر کے قوم میں مایوسی اور خود فراری کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اسے قومی اور ملکی مفاد کے منافی اور طاغوتی فکر کی ایک سازش سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صبح سے شام تک بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ، خواتین کے عدم احترام، اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اشتہارات میں خواتین کے جنسی استحصال، تعلیم میں معیار کی گراوٹ ، سیاست میں اصول فراموشی، معیشت میں حلال کی جگہ حرام کی پذیرائی اور معاشرت میں ہندووانہ اور مغربی رسموں اور رواج کو شعوری طور پر متعارف کرانے میں ایک ٹی وی چینل دوسرے سے بازی لے جانے میں لگا ہے، تو وہ سوچتا ہے کہ شاید ہم زوال کے اُس درجے پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور ہروقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ پورا نظام دھڑام سے گرنے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ ذہنی اور نفسیاتی تاثر ہے جو ہمارا ابلاغ عامہ اوراس ابلاغ عامہ کی پرورش اور اسے غذا فراہم کرنے والے پس پردہ افراد اور ادارے چاہتے ہیں کہ قوم مایوس ، دل برداشتہ اور نااُمید ہو۔ اسے یہ بات سمجھائی جائے کہ مغرب میں قانون کا احترام ہے ، انسانی حقوق ہیں ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات ہے، اس لیے اپنے ’مذہب‘ اور روایات کو چھوڑ کر ہمارے لیے راہِ نجات مغربی لادینی معاشرت و سیاست ، معیشت کو اختیار کرنے ہی میں ہےتاکہ ہم ترقی یافتہ بن سکیں۔ یہ وہ اصل ہدف ہے جو قوم میں مایوسی اور اضمحال پیدا کرنے کے نتیجے میں حاصل کرنا مقصود ہے ۔
قبل اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کی طرف آئیں، اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دن رات مایوسی ، دہشت گردی ،جنسی درندگی کی خبریں سن سن کر ایک احساس یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہ قوم ہے ہی ایسی بدکردار اور بد بخت کہ اسے صرف کوئی جابرانہ اور آمرانہ نظام ہی آکر ٹھیک کر سکتا ہے ۔اس تناظر میں سابقہ آمرانہ ادوار کی طرف بھی اشارے کیے جاتے ہیں کہ جب بھی آمرانہ دور آیا معیشت میں بہتری ہوئی۔ اس لیے آج جو مسائل پائے جاتے ہیں انھیں کوئی آمر ہی ڈنڈے کے زور سے ٹھیک کر سکتا ہے۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اسی قوم کے افراد جب امریکا کے اعلیٰ ترین ہسپتالوں میں یا برطانیہ کے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں، تو مقامی گوری نسل کے افراد سے کہیں زیادہ فنی مہارت اور ایمان داری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس قوم کے کم تعلیم یافتہ معاشی کارکن جب متحدہ عرب امارات میں گاڑی چلاتے ہیں تو مکمل طور پر ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے انجینیر اعلیٰ معیار کی سڑکوں کا جلیبی نما جال بچھانے میں دنیا بھر میں اپنی مہارت کا لوہا منواتے ہیں ۔گویا مسئلہ نہ جین (gene)کا ہے ، نہ قوم کی فطرت کا، بلکہ اس کی تربیت اور نظام زندگی میں بنیادی خرابی کا ہے۔ مزید یہ خود اپنے بارے میں اپنی کم حیثیتی (underestimation) کا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ہی نہیں پورے خطے میں پاکستان ایک بڑی جوہری قوت ہے۔ ملک میں بہ ظاہر بجلی کی کمی کے باوجود اس ملک میں آیندہ ۵۰۰ سال کے لیے کوئلہ کی شکل میں قوت کے ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کا ایک بڑا سرمایہ اس کے ۷۰ فی صد کے قریب نوجوان ہیں جن کی صیحح تعلیم و تربیت نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی طور پر انسانی وسائل کے استعمال سے صنعتی ، سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ مٹی نہ صرف نم ہے بلکہ اس میں مکمل روئیدگی موجود ہے۔ صرف اسے اخلاق کے تریاق سے کامیابی تک لے جانے کی ضرورت ہے ۔

  • معاشی اخلاقیات: قرآن کریم نے تجارت کو نہ صرف حلال قرار دیا ہے اور ناپ تول کے پیمانوں کو ایمان داری سے استعمال کرنے پر زور دیا ہے، بلکہ تجارت کو خصوصاً اور کاشت کاری کو عموماً معاشی فلاح کے فروغ کی ایک بنیاد بتایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ معاشی اخلاقیات پر عمل نہ کیا گیا تو انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایمان دار تاجر کے بارے میں پیش گوئی کی ہے کہ وہ آخرت میں انبیاؑ ، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل ہو گا ۔اسلام نے اس دنیا میں ایسے کردار پیش کیے، جو مکہ سے آئے تو خالی ہاتھ تھے، لیکن مدینہ کے بازار میں جاکر صرف پنیر سے کاروبار کا آغاز کر کے اپنی ایمان داری کے سبب اُس دور کے کروڑ پتی افراد میں شامل ہوگئے ۔ دوسری جانب یہ کتابِ عزیز ان کرداروں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن کی مالی کثرت ان کے خزانوں کی کنجیوں کے بوجھ سے ظاہر ہوتی تھی لیکن وہ دنیا اور آخرت میں اپنی معاشی بدمعاملگی کی بناپر تباہ و برباد کر دیے گئے ۔ ہامان اس رویے کی نمایندگی کرتا ہے۔
  • سیاسی اخلاقیات: سیاسی میدان میں خود نمائی ، مشاورت پر عمل نہ کرنا ، اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھنا بلکہ خود کو انسانوں کا رب سمجھنا، وہ عظیم غلطی ہے جو بڑی بڑی تہذیبوں اور مضبوط اقوام کی تباہی کا سبب بنی۔فرعون اور اس جیسے سیاسی فرماں روا،یونان اور روم و ایران کے ایوانِ اقتدار پر قابض افراد،سب سیاسی شرک اور اللہ کی حاکمیت کا انکار کرنے کے سبب تباہ و برباد ہوئے ۔
  • ثقافتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی تہذیب کو لھو الحدیث(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ق ، اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔ لقمان ۳۱:۶) کی شکل دے دی اور قصہ گو ، رقص اور تماشے کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور مثال بنایا اور انھیں اعلیٰ قومی اعزا ز دیے، جب کہ اہل علم و فکر وتقویٰ کے لیے زمین کو تنگ کردیا___ وہ اقوام اپنی تمام تر مادی قوت کے باوجود صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ وہ شام اور مصر کی تہذیب ہو یا روم و کسریٰ کے تخت ہوں، کوئی قوت ان کو زوال سے نہ روک سکی۔
  • معاشرتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی معاشرت کو ہواے نفس کا تابع بنا دیا اوراللہ کی جانب سے عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو رد کرکے ان کی جگہ وہ طریقے ایجاد کیے جو غیرفطری تھے، اور اس سے پہلے انسانیت میں استعمال نہیں ہوئے تھے ( قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ قومِ لوط کا عمل ان سے پہلےانسانوں میں رائج نہ تھا)، تو نتیجتاً انھیں بربادی سے کوئی نہ روک سکا۔ آج کے دور میں جنسی آزادی کے زیر عنوان ان غیر فطری اعمال کو ’بنیادی انسانی حقوق‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلم معاشروں میں بھی بچوں کی تعلیم میں ان ’حقوق‘ کے ’احترام‘ کو داخل کیا جارہا ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر طریقے جن میں مخلوط تعلیم ،ا بلاغ عامہ کا ہر موقعے پر مخلوط ماحول کو نمایاں کرنا اور معاشرت میں بد اخلاقی کے سبب طلاقوں کا بڑھ جانا، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تہذیب اور ملت کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتےہیں۔ نتیجتاً پورا معاشرہ یکایک اپنی عظیم الشان ظاہری شکل کے باوجود زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

نظامِ زندگی کا مقام

اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کے رویے، طرز عمل اور معاملات ان کے  تصورِ زندگی اور مقصد ِحیات کا عکس ہوتے ہیں ۔اگرایک قوم یہ سمجھتی ہے یا اس کی تعلیم و تہذیب اسے یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی زندگی کا مقصد مسخرا پن (fun)، لذت اندوزی (enjoyment)، پُرسُرور مشغولیت (entertainment ) اورذاتی نفسیاتی انگیخت (self-stimulation )کا حصول ہے، تو پھر معیشت ہو یا معاشرت یا ثقافت، ہر شعبے میں اس کا عکس پایا جاتا ہے۔ معیشت کے میدان میں وہ اشیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں، غیر ضروری بن جاتی ہیں ۔ ساری معیشت وہ سامانِ عیش و عشرت پیدا کرنے میں لگ جاتی ہے جو خود پرستی اور مصنوعی طور پر اپنی ذات کو نمایاں کرنے میں مدد گار ہو۔ آرایشی مصنوعات (cosmetics)،  طرح طرح کے جنسی ترغیب والے عطریات اور غازے نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ مردوں کے لیے، اور جنسی آوارگی کے بہت سے پُرتعیش سامان معیشت کے میدان پر چھا جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی بڑے شاپنگ سنٹر میں کثرت سے وہ دکانیں نظر آتی ہیں جہاں یہ سامان موجود ہوتا ہے۔ اس میں نشہ آور ادویات ، مشروبات ، نیم عریاں لباس ، فحش کتب ، ویڈیو اور آڈیو مواد، حتیٰ کہ موبائل پر تمام خبیث اور فحش مواد کی فراہمی معیشت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
اگر مقصد ِحیات محض دولت کا حصول ہو تو پھر تعلیم گاہوں میں وہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کی بازار میں مانگ ہو اور ہر طالب علم سرمایہ دارانہ نظام کا ایک گرگا بن کر نکلتا ہے، جو انسانوں کا خون چوس کر اپنی ہوس پوری کرنے کو اپنی معاشی فتح سمجھ کر شادیانے بجاتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر مقصدِ حیات ایک ذمہ دارانہ اخلاقی زندگی گزارانا ہو تو معیشت ہو یا سیاست، ثقافت ہو یا معاشرت، ان سب کی اقدار اور بنیادیں بدل جاتی ہیں اور وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں مدینہ اور مکہ کی جھلک نظر آتی ہے۔لیکن ایسا کیوں نہیں ہو پاتا ؟ انسانی ذہن اس طرف کیوں نہیں جاتا؟ وہ کیوں چمک دمک میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور زندگی جیسی قیمتی شے کو مشروب کے ایک پیمانے میں ڈبو کر غرق کر دیتا ہے؟
بات کچھ ایسی مشکل بھی نہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام امراض کے پیدا ہونے اور معاشرے میں فتنہ و فساد ، معیشت میں سودی لعنت ، معاشرت میں ظلم و استحصال ، ثقافت میں عریانیت و لذت پرستی اور سیاست میں فرعونیت کو دور کرنے کا آسان حل تجویز کیا ہے اور وہ ہے توحیدی نظام۔ یعنی زندگی سے تضادات کو ختم کر کے بہت سارے خداؤں کی جگہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ کی بندگی میں آ جانا۔یہ کام محض انسانوں کے اللہ کی بندگی میں آجانے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پورے نظام کو آمریت ، لادینیت اور ثنویت کے بتوں سے نجات دلا کر  اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں لانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

توحیدی نظامِ حیات

شرک محض اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کی جگہ تین یا بہت سے خداؤں کے ماننے کا نام نہیں ہے، بلکہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دینے کا نام ہے۔ ایک خانہ حصول مال کا، ایک خانہ حصولِ اقتدار کا، ایک خانہ تفریح اور لذت کے حصول کا، اور ایک خانہ ہفتے میں ایک دن عبادت یا دن میں چند بار اللہ کو یاد کرلینے کا۔ اس کے مقابلے میں توحید کا مطالبہ ہے کہ انسان زندگی کے    تمام معاملات کو الہامی اخلاقیات کے ضابطے میں لائے ۔ اس کی معیشت حلال اور غیر استحصالی ہو۔ اس کی معاشرت باحیا ہو۔ اس کی ثقافت تعمیری ہو۔ اس کی سیاست عدل و توازن پر مبنی ہو۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟
اس خرابی کا ذمہ دار اس کا زندگی کا تصور ہوتا ہے،یعنی وہ زندگی کو ایک اکائی تصور نہیں، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتاہے۔ایک کو مذہب و اخلاق کا نام دیتا ہے اور باقی زندگی کو دنیا۔ اس طرح زندگی میں ثنویت اور دو رنگی (dualism )  اور لادینیت یا سیکولراز م کو رائج کرتا ہے ۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں جب تک یہ تقسیم رہے گی، وہ ان تمام کمزوریوں کا شکار رہے گا جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔جب تک ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بطور سیاست دان جو وعدے چاہے کر سکتا ہے تاکہ اسے ووٹ ملیں، اور وہ کسی نہ کسی طرح سربراہ مملکت بن جائے، اور ساتھ ہی وہ پابندی سے نماز بھی پڑھتا ہے، تو وہ عملاًایک سیکولر شخص ہے۔ اگرچہ وہ ہرچھے ماہ میں عمرہ کرتا ہو۔ ساتھ ہی اس کا سارا کاروبار سودی قرض پر چل رہا ہو اور وہ تجارتی معاملات میں صرف اپنے مفاد اور منافع کو اپنا ’خدا‘ مانتا ہو۔اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود ایسا شخص صحیح معنوں میں سیکولر ہے۔
اگر ایک استاد اپنی یونی ورسٹی یا کالج یا مدرسے میں جو مضمون پڑھاتا ہے،اس مضمون کی بنیاد عوام کی حاکمیت کے تصور پر ہے یا صرف دولت اور قوت کے حصول پر ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہوکوئی حکمت عملی اختیار کر کے وہ اقتدار پر قابض ہو جائے اور معاشی وسائل پر قبضہ کر لے تو وہ سیکولر تصورِ حیات کی تدریس کر رہا ہے، چاہے وہ پنجگانہ نماز کے ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہو، اور اس نے قرآن کریم کے اجزا بھی حفظ کر رکھے ہوں ۔ چونکہ وہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک رات کی تنہائی میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اظہارِ بندگی اور دوسرے دن کے ہر لمحے میں دولت ، اقتدار ، شہرت کے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا۔جب تک زندگی سے یہ دوعملی یا لا دینیت خارج نہیں ہوتی،  جس کو اسلام نے لا الٰہ الا اللہ کے جامع کلمے سے تعبیر کیا ہے ، اس وقت تک اس شخص نے توحید کو سمجھا، نہ اس کا مزہ چکھا ۔
قرآن ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج (البقرہ ۲:۸۵) ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘ اور تمام انسانوں سے جو اللہ کی حاکمیت کے منوانے کے دعوے دار ہیں، مطالبہ کرتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ اس لیے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنا شیطان کا راستہ ہے، رحمٰن کا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
امام ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے اس جامع تصور کو پیش کیا ہے۔ اس میں اقامت دین کا مطلب وہ کوشش ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہو،اورا س جدو جہدکو کرنے کے لیے وہ افرادِ کار تیار کیے جائیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی شناخت ِ نو (re-branding) کی جگہ اپنی دعوت، اسلام کا مکمل نظام، اور اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو جانے کا عزم رکھتے ہوں۔ جس میں ذاتی زندگی ، معاشی معاملات، سیاسی سرگرمی اور اہداف، ہر چیز توحید کے تحت ہے ۔اس میں خالص سیاسی اور خالص تربیتی اور  دعوتی تقسیم کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی ۔ روایتی علما نے جو دین اور دنیا کی تقسیم کے قائل تھے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور بعض نے اس بنا پر جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔جماعت اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کی دعوت محض انفرادی اصلاح تک محدود نہیں، یہ کام تو صوفیہ اور بہت سے دوسرے اللہ کے بندے انجام دے رہے تھے۔ اس کی دعوت زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے افراد کی تیاری اور تنظیم کی تھی اور ہے، جو اسلام کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر نافذ کر چکے ہوں۔   اس کی قوت عددی یا پارلیمنٹ کی نشستوں میں نہیں تھی بلکہ افرادِ کار کے علم ، تقویٰ اور فراستِ دینی میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ دعوتی سعی و جہد، تزکیہ اور سیرت سازی کی مساعی ہے۔ اجتماعی اور سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد ایک دوسرے سے مربوط اور کُلی تبدیلی کے مختلف پہلو اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کاذریعہ ہیں۔
جب تعلیم کی بنیاد سیکولر ازم پر ہو جیسا کہ آج عملی طور پر ہو رہا ہے،تو پھر مسلم دنیا کے مدارس وہ دینی ہوں یا دنیوی، دونوں نظام دین و دنیا کی علیحدگی کے اصول کو عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں، اور ثنویت اور دو رنگی کی وجہ سے معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔  وہ اسلام کے توحیدی تصور سے دورغیر شعوری طور پر قریب المیعاد سیاسی کامیابی کے حصول پر توجہ کے سبب طاغوتی جال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیکولر ازم کے زیر سایہ  جو نظام بھی کام کرے گاوہ آج نہیں تو کل انسانی ذہن کو الحاد کی طرف لے کر جائے گا ۔ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والا ایک شخص جو کل تک ایک چھوٹی دکان کا مالک تھا، آج   ایک بڑے کاروبار کا مالک ہے، تو زندگی کی تقسیم کے زیر اثر یہ سوچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اصل زندگی تو دولت اور قوت والی ہی ہے ۔ اس طرح شیطان اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کا اظہار اس نے جنت سے نکالے جانے سے قبل کیا تھا کہ وہ انسانوں کو لبھائے گا ، للچائے گا ، بہکائے گا، اور گمراہی میں مبتلا کر کے ایسے کلمات تک کہنے پر آمادہ کر دیتاہے کہ: اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  (النزعٰت ۷۹: ۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں‘‘۔

مسائل کا حل: اسلامی نظامِ حکومت

آج جو اخلاقی زوال ، بے راہ روی، گمراہی، جنسی جرائم ، قتل و غارت ، چوری اور ذخیرہ اندوزی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی شکل میں ہمیں نظر آ رہا ہے، اسے دُور کرنے کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو ہادی اعظمؐ اور محسن انسانیتؐ نے اُس دورِ جاہلیت میں استعمال کی جو آج کے دورِجاہلیت سے مختلف نہ تھا۔ اُس بگڑے معاشرے کی فکری تطہیر اور عمل کے تزکیے کے لیے توحید کاصحیح شعور پیش کرنا لازم کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح آج الکتاب سے وابستگی اور براہِ راست اس کی ہدایات کو سمجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کا چیلنج درپیش ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ان صالح افراد کو تلاش کرنا ہے، جو معاشرے میں اگرچہ موجود ہیں اور وہ ہدایت کو تلاش بھی کررہےہیں، لیکن ہم ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ آگے بڑھ کر ہمیں ان کو منظم کرنا ہو گا۔    ان کے ایسے حلقے قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ قرآن و سنت کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کا ذریعہ بن سکیں اور اس طرح عملی شکل میں اس کے نمونے بن سکیں۔ نیز اس تنظیم کے افراد کے ذریعے معروف کو قائم کرنے اور منکر، بدی اور برائی کو دُور کرنے کے لیے غیر حکومتی بنیادوں پر ایسے ماڈل نظامِ عدل و احسان کو قائم کرنا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات و ہدایات کو ایک محدودپیمانے پر معیشت، معاشرت ، سیاست ،ثقافت اورتعلیم کے میدان میں، غرض زندگی کے تمام اہم شعبوں میں، اپنی اپنی جگہ عملی طور پر ایک چھوٹی ریاست کی شکل میں قائم کرکے دکھا دیں۔ 
دین کی یہ اقامت معاشرتی سطح پر وہ نمونہ پیش کرے گی جو تحریک اسلامی ملکی سطح پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کی نصرت اورامداد کا وعدہ رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ وہ ان افراد کی استعانت کرے گا جو اس کے راستے میں نکلیں گے اوراللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اپنی ذاتی زندگی میں، گھر اور خاندان میں ، معاشرے اور معیشت میں ،ثقافت و تعلیم میں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کی مدد فرشتوں سے کرے گا ۔
اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو معاشرے کے صالح عنصر کو منظم کرنا ہوگا اور ایسا نظامِ تربیت تیار کرنا ہو گا جو فکری اور عملی لحاظ سے ہر گاؤں اور قریے میں ایسے افراد معاشرے کے سامنے پیش کر سکے ، جنھوں نے تمام حاکمیتوں کی نفی کرکے صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو اپنی فکر ، اپنے خاندان ، اپنے کاروبار ، اپنی سیاست اور اپنی دعوتی زندگی میں رائج کر دیا ہو۔ اصل سرمایہ وہ اخلاقی رویہ ہے جو غیر نمایشی ہو ،خلوصِ نیت پر مبنی ہو، اور جسےصلے کی طلب نہ ہو۔   انبیاے کرامؑ کا کہنا صرف یہ تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور ان سے کوئی اجر نہیں مانگتے۔ ربِّ کریم اس طرز عمل سے خوش ہو کر انھیں زمین میں اپنا وارث بناتا ہے اور اس طرح وہ اخلاقی انقلاب برپا ہوتا ہے جو معاشرے کو مثالی نمونہ بنا دیتا ہے ۔یہ جدوجہد بالآخر اسلامی نظامِ حکومت کے قیام پر منتج ہوکر رہتی ہے۔
معاشرے میں صالح افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا ایسا کام جس میں صلے کی خواہش نہ ہو، صرف ربّ کی رضا مقصود ہو ، کامیابی کی ضمانت ہے۔خدمت خلق کسی منفعت کے حصول کے لیے کرنا، تمام اُخروی اجر کو ضائع کر دینا ہے۔ یہی وہ دعوت کی کامیابی کا راز ہے    جسے ایک عام نظر نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ ایک عام نظر قریبی فاصلوں اور منزلوں کو حقیقی سمجھتی ہے۔ ایک دُور رس تحریکی نگاہ اُخروی کامیابی کے پیش نظر فوری مفاد کو نظر انداز کر کے استقامت ،صبر اور حکمت دینی کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا تن من دھن ، فکر و صلاحیت، اپنا ہر سانس اور ہرقطرۂ خون دعوت کی آبیاری میں لگا دیتی ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی ہے۔ دنیا میں صرف رب کریم کی عنایت و فضل سے اگر اختیار و اقتدار ملے تو وہ صرف اُس کی میراث ہے اور وہی اس میراث کو دینے والا ہے ۔اُسی کو علم ہے کہ وہ کتنے عرصے میں میراث اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ اسلامی انقلابی دعوت وقت کے پیمانوں سے آزاد ہے۔اس کا سارا تعلق اخلاص نیت اور بےلوث جدوجہد سےہے ۔ یہ اللہ کی رضا کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتی ہے، اور جب یہ کام استقامت سے کیا جاتا ہے تو بالآخر زمامِ کار اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہتا ہے۔

قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی سادہ اور عام فہم لفظوں میں ہرفرد کے لیے بالکل عام ہے۔  وہ سب کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے اور اپنے خالق ومالک کی طرف پلٹ کر آنے کی بار بار دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس کتابِ عظیم کے لیے ’ذکر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشادہے:

  • اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۸۷ (ص۳۸:۸۷) یہ تو بس تمام دنیا کے لیے یاددہانی ہے۔
  • وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۵۲ۧ (القلم۶۸:۵۲) یہ تو سارے جہاں والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔
  • اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۲۷ۙ لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَ۝۲۸ۭ (التکویر ۸۱:۲۷-۲۸) یہ تو سارے جہاں والوں کے لیے ایک نصیحت ہے تم میں سے ہراس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو۔
  • فَاَيْنَ تَذْہَبُوْنَ۝۲۶ۭ  اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۲۷ۙ (التکویر ۸۱:۲۶-۲۷) پس تم کہاں بھاگے جا رہے ہو، یہ (قرآن) تو ساری دنیا کے لوگوں کے لیے نصیحت اور یاددہانی ہے۔
  • وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰہُ ۝۰ۭ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۝۵۰ۧ (الانبیاء۲۱:۵۰) اور یہ بابرکت ذکر ہم نے (تمھارے لیے ) نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو ؟
  • قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ۝۹۰ۧ (الانعام ۶:۹۰)  کہہ دو میں اس (دعوت دین )پر تم لوگوں سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے ۔

ایک جگہ اس کتاب کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے: وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۝۱ۭ  (ص۳۸:۱)۔ ’ذکر ‘و ’ذکریٰ‘ کا مفہوم تقریباً وہی ہے ، جو موعظت یا نصیحت کا ہے۔ اس کے مفہوم میں: ’’نصیحت یا اچھی بات بتانا ، یاد دلانا یا یاد دہانی کراتے رہنا، سب کچھ شامل ہے‘‘۔ 
بلاشبہہ قرآن کریم سراپا یاد دہانی ہے، ہدایات ربانی کی اور احکام الٰہی کی۔ اس لحاظ سے قرآن کتابِ ذکر بھی ہے: 

  • یہ کتاب انسان کو بار بار یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے بندے ہونے کا تقاضا کیا ہے؟
  • اس کے فرائض کیا ہیں؟ 
  • اس پر دوسروں کے کون کون سے حقوق عائد ہوتے ہیں؟ 
  • وہ انسان کو با خبر کرتی رہتی ہے کہ عقیدہ کیسے درست کیا جائے؟ عبادت کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
  • اخلاقی زندگی کی تعمیر کیسے ہو، لوگوں کے ساتھ تعلقات ومعاملات میں کیا طرزِ عمل اپنایا جائے؟ 

ان آیات سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ قرآن کی نصیحت اور یاد دہانی بالکل عام فہم اور دل میں اُتر جانے والی ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس کے مخاطب معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگ ہیں: خواہ وہ مومن ہوں یا غیر مومن ، قرآن کو ماننے والے ہوں یا اس کے منکر ،  عوام ہوں یا خواص۔ اس کی نصیحت میں سب کے لیے بھلائی ہے اور اس کی یاد دہانی میں ہر ایک کے لیے خیر کا پہلو ہے۔ اس لیے سب کو اس کی طرف بلایا جا رہا ہے اور ہر ایک سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس سے فیض حاصل کرے۔ اس نعمت کی ناقدری پر بازپُرس بھی ہو گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے سب کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے: 
وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ (الزخرف۴۳:۴۴) اوریہ تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یاد دہانی ہے اور عنقریب تم سب سے پُرسش ہوگی۔ 
قرآن کریم ایک اور اعتبار سے ’کتابِ ذکر‘ ہے، اگرچہ اس پہلو پر کم توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ اس میں ہر شخص کا ذکر موجود ہے۔ اس میں ہر ایک کے حالات کا بیان ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: 
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ (الانبیاء ۲۱:۱۰) لوگو! ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں تمھارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
اس آیت میں لوگوں کو مخاطب کر کے واضح کیا گیا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے،  جس میں ہر شخص اپنا تذکرہ پڑھ سکتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے احوال واوصاف معلوم کر سکتا ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا پتا لگا سکتا ہے۔ اس کے آئینے میں وہ اپنے عمل وکردار کی تصویر کا مشاہدہ کرسکتا ہے کہ عقائد وعبادات سے متعلق وہ قرآنی ہدایات پر کہاں تک دھیان دے رہا ہے؟  وہ جان سکتا ہے کہ اخلاق کے اعتبار سے وہ کس مقام پر ہے؟ اسے وہ قرآن سے دریافت کر سکتا ہے کہ معاملات میں صفائی ودیانت داری کے لحاظ سے وہ کس درجے میں ہے؟ وہ بخوبی پتا لگاسکتا ہے کہ حقوقِ انسانی کی ادایگی میں اس کی کیا تصویر بنتی ہے؟ وہ دیکھ سکتا ہے کہ معاشرے میں اس کا اپنا کیا مقام ہے ، اللہ کے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے؟ یہ سب درجات اور کیفیات وہ اس کتابِ ہدایت کے ذریعے سمجھ سکتا ہے۔ 
غرض یہ کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور ایسا صاف وشفاف آئینہ ہے کہ اس میں افراد بھی اپنے خدوخال دیکھ سکتے ہیں اور قومیں بھی اپنی تصویر ملاحظہ کر سکتی ہیں۔ اس لیے کہ  قرآن میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ عبادات کی بجا آوری کا صحیح طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں سے تعلق قائم رکھنے کے اصول وضوابط واضح کیے گئے ہیں۔ حُسن اخلاق کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مالی معاملات میں صفائی ودیانت داری کی ہدایات دی گئی ہیں۔ سیاست و حکومت کے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ وناپسندیدہ اعمال کی نشان دہی کی گئی ہے۔ صاحبِ ایمان ، فرماں بردار، صالح ، متقی اور باکردار لوگوں کو ملنے والے اجروثواب اور انعام واکرام کی خوش خبری دی گئی ہے۔ نافرمان، سرکش وبدکردار قوموں کے انجام ِ بد سے خبر دار کیا گیا ہے۔ 

  • ہمارا تذکرہ : قرآن میں ہمارا تذکرہ کہاں کہاں ہے اور کس انداز میں ملتا ہے؟ اسے چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے:
  • سورۂ احزاب کی آیت ۳۵ میں اہل اسلام کے ۸ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اوروہ ہیں: اللہ کی اطاعت وفرماں برداری، سچائی ،صبر کرنا، اللہ کا کثرت سے ذکر کرنا۔ اس آیت کو سمجھ کر پڑھنے پر ہر شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس پوری آیت میں اس کا ذکر ہے۔
  • سورۂ نساء کی آیت ۳۶ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ: اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،والدین ، رشتہ داروں، یتامیٰ ، مساکین، قرابت دار یا اجنبی پڑوسی، ہم نشین وعام مسافر اور اپنے مملوک کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ بے شک اللہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جب اس آیت کا مفہوم کسی کے سامنے آئے گا تو اسے اپنی عملی زندگی کی روشنی میں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ اس آیت کے کس حصے میں اس کا ذکر ہے، اور وہ اُن مطالبات کو کہاں تک پورا کر رہا ہے؟ 
  • سورۂ حجرات آیات ۱۱۔۱۲ میں اللہ کی یہ ہدایات ملتی ہیں:کسی کا مذاق نہ اڑائو، کسی پر عیب نہ لگائو ، کسی کو بُرے لقب سے نہ یاد کرو، کسی کے بارے میں قیاس آرائیوں سے پرہیز کرو، کسی کی ٹوہ میں نہ لگے رہو اور کسی کی غیبت نہ کرو۔ جب یہ ہدایات کسی کی نظر سے گزریں گی تو اسے یہ اندازہ کرنے میں ذرا سی بھی دشواری نہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے جن خرابیوں وبرائیوں سے منع فرمایا ہے، ان میں سے کن سے وہ پاک اور محفوظ ہے اور کن سے وہ بچ نہیں سکا بلکہ ملوث ہے۔ 
  • اسی طریقے سے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ما ل وزر کے حصول ، ان کے استعمال وخرچ اور لین دین کے معاملات سے متعلق یہ احکام ملتے ہیں: lایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو (البقرہ ۲:۱۸۸) lحلال وپاک چیزیں کھائو (البقرہ۲:۱۶۸) lمال ودولت کے حصول میں ناجائز ذرائع سے اجتناب کرو (البقرہ ۲:۲۷۵،المائدہ ۵:۹۰) lمال و دولت ملنے پر نہ اترائو (الحدید :۲۳) lاپنے مال ودولت میں سے اقرباء، یتامیٰ ، مساکین ، مسافر ومحرومین کے حقوق ادا کرو (بنی اسرائیل۱۷:۲۶، الذاریات۵۱:۱۹) lسائل کو نہ جھڑکو، یعنی اس کی  عزتِ نفس کا خیال رکھو (الضحٰی ۹۳:۱۰) lتنگ دست مقروض کو قرض کی ادایگی کے لیے مہلت دو (البقرہ۲:۱۹۵،المنافقون ۶۳: ۱۰، التغابن ۶۴:۱۶) lصدقہ وخیرات کرکے احسان نہ جتائو اور نہ ستائو (البقرہ ۲:۲۶۳ -۲۶۴) lمال خرچ کرنے میں ریا ونمود سے پرہیز کرو (البقرہ۲:۲۶۴، النساء۴:۳۸) lبخل و فضول خرچی سے اپنے کو دُور رکھو (اعراف ۷:۳۱، بنی اسرائیل ۱۷: ۲۶-۲۷،۲۹) lامانتیں، اہلِ امانت کے حوالے کر دو (النساء ۴:۵۸، الانفال ۸:۲۷) lٹھیک ٹھیک اور انصاف کے ساتھ ناپو اور تولو  (الانعام ۶:۱۵۲، بنی اسرائیل ۱۷:۳۵، الرحمٰن ۵۵:۹) lلین دین یا مالی معاملات میں جو وعدہ یا قول و قرار کرو، اسے پورا کرو۔ (المائدہ۵:۱، بنی اسرائیل۱۷:۳۴)

جب بھی یہ احکامِ الٰہی کسی کے سامنے آئیں گے، تو اسے اپنے بارے میں بڑی آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ مالی معاملات میں اس کا ریکارڈکتنا صاف ہے اور یہ کہ ان میں سے کس کس حکم پر عمل کا حق وہ ادا کر رہا ہے؟ 
قرآن نے مختلف مقامات پر مومنین اور صادقین یا عاملین بالقرآن کے کردار اور اخلاق کی تصویر کشی کی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ وہ ایمان ویقین پر جمے رہتے ہیں، اللہ کی عبادت میں مخلص وسنجیدہ ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کی پاسبانی اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ 
سورۂ فرقان کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے ان محبوب بندوں کے خصائص بیان کیے گئے ہیں:

رحمٰن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے     منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضورسجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے  ہم کو بچا لے۔اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔  جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلاّ یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو....(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہوجائے، تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جنھیں اگر ان کے ربّ کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔(الفرقان ۲۵: ۶۳-۶۴، ۷۲-۷۴)

جب بھی کوئی شخص ان آیات کو سمجھ کر پڑھے گا تو اسے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان آیات میں کہاں کہاں اس کا ذکر ہے، یعنی ان میں بیان کیے گئے کن کن اوصاف پر وہ پورا اتر رہا ہے اور کن آیات میں اس کا ذکر نہیں ملتا؟ گویا اللہ کے محبوب بندوں کے کن اوصاف سے اس کی ذات عاری ہے؟ قرآن میں اپنا ذکر تلاش کرنا یا اس طرح کا جائزہ لینا ہر شخص کو اپنے بارے میں احتساب کا موقع عنایت کرتا ہے، جو لازمی طور پر اس کے کردار واخلاق کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت ۱۰ کے حوالے سے قرآن کریم کے کتابِ ذکر ہونے کی حیثیت سے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا ہے:

 ہمارے اسلاف اپنے اخلاق واوصاف اور اپنے اندرون کو بخوبی جانتے تھے۔ ہر چیز ان کے سامنے روشن وعیاں ہوتی تھی۔ وہ اسی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اسی کتاب میں اپنے چہرے ڈھونڈتے اور اپنے اخلاق واطوار کی سچی اور صحیح تصویر تلاش کرتے تھے اور بہت آسانی سے خود کو پہچان لیتے تھے۔ اگر ذکر ِ خیر ہوتا تو خدا کا شکر ادا کرتے اور کچھ اور ہوتا تو استغفار کرتے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے تھے۔ (سید ابوالحسن علی ندوی، قرآنی افادات  [ترتیب :ر۔حقانی ندوی] ، رائے بریلی ، ص ۵۶۲)

مختصر یہ کہ قرآن مجید انسان کو بار بار اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق یاد دلاتا ہے ۔ یہ ایک صاف وشفاف آئینہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے کردار واعمال کی تصویر دیکھ سکتا ہے ۔ یہ کتاب سب کے لیے بالخصوص اس کے پیغام کو قبول کرنے والوں کے لیے موجبِ رحمت ہے ۔ اس کے  علم کی اشاعت وجہِ سعادت ہے اور اس کی ہدایات وتعلیمات پر عمل کرنا ذریعۂ نجات وفلاح ہے۔ 
ان خصوصیات کی وجہ سے قرآن کریم بلاشبہہ اللہ ربّ العزت کی سب سے بڑی نعمت ہے جو رحمتہ للعالمین وختم المرسلین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے انسان کو مرحمت ہوئی۔ اس کی قدردانی کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں اس کو رہنما بنایا جائے، ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی میں در پیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ قرآن کریم سے خود تذکیر حاصل کرنا اور دوسروں کو اس کی نصیحت ، ہدایات وتعلیمات یاد دلانا ہر حال میں نفع بخش ہے، جیسا کہ خود قرآن میں اس کی تاکید ملتی ہے: 
وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۵ (الذاریات۵۱ :۵۵) اور یاد دہانی کرتے رہو بے شک یاد دہانی کرنا مومنین کو نفع بخشتا ہے ۔
اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو اور ہم سب اس کتابِ عزیز کے سچے عاشق اور مخلص خادم بن جائیں۔
 

قربانی کی بحث کے سلسلے میں چند مزید باتیں عرض کرنی ہیں۔ پہلے یہ بتایاجاچکا ہے کہ:

  • قرآنِ مجید کی رُو سے قربانی ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔
  • قرآن واضح طور پر یہ بھی بتاتا ہے کہ الٰہی شریعتوں کے نظامِ عبادت میں کن وجوہ سے اس طریقِ عبادت کو شامل کیا گیا ہے۔
  • قرآن پچھلی اُمتوں کی طرح اُمت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا حکم دیتا ہے۔
  • مگر قرآن میں اس کا ایک حکمِ عام دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے رسولِ برحق پر چھوڑ دی کہ آپ اس پر عمل درآمد کی ایک شکل متعین کردیں۔

اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے، اور اس کا ثبوت کیا ہےکہ یہ شکل حضوؐر ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے؟

قربانی: سنتِ رسولؐ

اوّلاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے، اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربان کردے، بلکہ آپ نے تمام اُمت کے لیے تین دن مقرر فرمادیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کردیں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کاحکم دیا گیا۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی، تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کی گئیں، تاکہ انھیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینہ مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ 
اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اُس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے، جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں، اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے، جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

یومِ عید کا تعین

ثانیاً، اس کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ایک یومِ عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں۔ پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں۔ یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (انعام ۶:۱۶۲)  اے نبیؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۝۲ۭ (الکوثر ۱۰۸:۲) پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔

پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے ۔ ہر معاشرہ فطری طور پر  یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں، جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہروقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہرگھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں اور غریب ہمسایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں۔ یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ اور لہو ولعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے، جو خدا پرستی اور اُلفت و محبت اور ہمدردی و مواسات کی پاکیزہ روح سے لبریز ہو۔

سنتِ ابراہیمیؑ پر عمل

ثالثاً، اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا، جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے زیادہ زرّیں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا۔ یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی کرنا چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی کی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعے کی یادگار بھی بن گئی، جو ایمانی زندگی کے اِس منتہاے مقصود، اُس کے اس آئیڈیل اور مثلِ اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
قربانی کا حکم بجالانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اِس خاص تاریخ کا انتخاب ’بیک کرشمہ دوکار‘ کا مصداق ہے۔ 
ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔  آپ سے پوچھا گیا: مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیُّ،یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ (مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس واقعے کے بعد ہرسال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضوؐر نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے، اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اُس روز کریں، جس روز حضرت ابراہیمؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے ۔ اپنی تاریخ کےیادگار واقعات کا ’یوم‘ دنیا کی ہرقوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اُس دن کا انتخاب کرتا ہے، جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔

حج کی توسیع

رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بُری طرح کھل رہی تھی کہ کفّار نے اُن پر حرم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایامِ حج کو مدینے ہی میں ان کے لیے ایامِ عید بنا دیا۔ آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ۹ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے، جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہرنماز کے بعد اللہُ اَکْبَرُ  اللہُ اَکْبَرُ  ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاللہُ اَکْبَرُ   اللہُ اَکْبَرُ  وَلِلہِ الْحَمْدُ  کا ورد شروع کریں اور ۱۳ذی الحج تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایامِ تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز ۱۰ ذی الحج کو، جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانۂ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔
یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلّی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کر دیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریکِ حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اس کو تمام دنیاے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنا دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسکِ حج ادا کر رہے ہوتے ہیں، اسی زمانے میں ساری دنیاے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریک ِ حال ہوتے ہیں  ۔ ہرمسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے۔ وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کر رہا ہوتا ہے۔

قربانی کی روح

خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےسکھایا، وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کا دوگانۂ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:

اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، لَا شَرِيْكَ لَہٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِـمِيْنَ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا  سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔

ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں، جن کی بنیاد پر قرآنِ مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں: 

  • اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتائوں کے لیے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس، ہم صرف خداے وحدہٗ لاشریک کے لیے قربانی کی عبادت بجا لارہے ہیں۔
  • ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں سے فائدہ اُٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔
  • ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں ہیں ، بلکہ یہ اللہ کے جانور ہیں جن پر اس نے ہم کو تصرف کا اختیار بخشا ہے، اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور گزران رہے ہیں۔
  • یہ اظہار بھی ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لیے نماز ادا کرکے آئے ہیں اور اب خالصتاً اسی کے لیے قربانی کے فرمان کی تعمیل کررہے ہیں۔ 
  • پھر، ان سب سے بڑھ کر ، ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہدوپیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور ہماری قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا اور جینا بھی صرف اسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے۔ اور یہ عہدوپیمان اُس تاریخی دن میں کیا جاتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب کیا ہے۔

یہ پانچ نکات جو اُوپر عرض کیے گئے ہیں، انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبی کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت ایسی نمایاں نظر آئے گی کہ اگر اس قربانی کے سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی کوئی اور شہادت موجود نہ ہوتی، تب بھی اُس کے اِس طریقے کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لیے کافی تھی کہ اس کو اسی خدا کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے، جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔ 
قرآنِ مجید میں قربانی کے متعلق جو کچھ اور جتنا کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا، اس کوپڑھ کر کوئی غیر نبی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم اور دانش مند ہی کیوں نہ ہوتا، اس سے زیادہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کرتا کہ مسلمان وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کی عبادت بجا لاتے رہیں۔
وہ کبھی ان ارشادات سے یہ منشا نہ پاسکتا کہ ساری دنیاے اسلام کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر کیا جائے، اس دن کو ’یوم العید‘ قرار دیا جائے، وہ دن حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کا دن ہونا چاہیے۔ وہ دن اور اس کے سابق و لاحق ایام زمانۂ حج کے بھی مطابق ہونے چاہییں، اور یہ قربانی ایسے طریقے سے ادا کی جانی چاہیے کہ اس سے اسلام کی پوری روح تازہ ہوجائے۔ یہ منشا ایک نبی کے سوا اور کون پاسکتا تھا؟ اس منشا کو پانا اُس نبی کے سوا اور کس کا کام ہوسکتا تھا، جس پر خدا نے اپنا قرآن نازل فرمایا تھا؟
مگر اس کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی اِس اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور اتنی مضبوط ہیں کہ بجز ایک ہٹ دھرم آدمی کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

احادیث سے استدلال

اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں، جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضوؐر نے عیدالاضحی کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اس کو سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا:

  • حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
  • حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: رسولؐ اللہ نے مجھ کو وصیت کی تھی کہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔(ابوداؤد، ترمذی)
  • حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ: اِنَّ اَوَّلُ مَا نَبْدَأُبِہٖ فِیْ یَوْمِنَا ھٰذَا اَنْ نُصَلِّیَ ثُمَّ نَرْجِــعُ فَنَنْحَرُ فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا(بخاری، کتاب الجمعہ، ابواب العیدین، حدیث:۹۳۹) ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس، جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا، اس نے ہماری سنت پالی‘‘۔ 
  • حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اَلْاَضْحٰی یَوْمٌ یُضَحِّیْ النَّاسُ(ترمذی) ’’الاضحی وہ دن ہے، جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں‘‘۔
  • حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یَذْبَحْ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَـا (مسنداحمد ، ابن ماجہ)’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘۔
  • حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَـمَلًا اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ ھِرَاقَۃِ دَمٍ  (ترمذی ، ابن ماجہ)’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے‘‘۔
  • حضرت بُریدۃؓ کہتے ہیں کہ: ’’عیدالاضحی کے دن حضوؐر عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے‘‘۔ (مسنداحمد)
  • حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدالاضحی کی نماز پڑھی۔ پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپؐ نے اسے ذبح فرمایا‘‘۔ (مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی)
  • امام زین العابدین، حضرت ابورافع سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’حضوؐر عیدالاضحی کے لیے   دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام اُمت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے‘‘۔ (مسند  احمد)
  • حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابوداؤد)
  • حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی‘‘ (بخاری، مسلم)۔اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی)
  • براء بن عازب، جندب بن سفیان البجلی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں کہ: ’’حضوؐر نے فرمایا کہ جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت ِ مسلمین پر عمل کیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد )
  • حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہم کو قربانی کے دن نماز پڑھائی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضوؐر سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے‘‘۔ (مسلم، مسند احمد)

یہ روایات اور بکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں ہے، جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت ِ رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقعے پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازماً صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔

فقہاے اُمت کی شہادت

دوسری اہم شہادت عہد ِ نبوت سے قریب زمانے کے فقہاے اُمت کی ہے، جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں، اور کسی ایک فقیہہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ ان فقہا سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ سب کے سب بلاتحقیق ایک فعل کو سنت مان بیٹھتے، اور وہ ایسے زمانے میں تھے جب یہ تحقیق کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے کہ یہ کام جو مسلمان کر رہے ہیں، یہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ سنت ہی ہے یا کسی اور کی رائج کردہ بدعت؟
مثلاً: امام ابوحنیفہؒ کو دیکھیے، وہ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدایش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان صرف ۷۰سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے زمانے میں بعض طویل العمر صحابہ موجود تھے، اور ایسے لوگ تو ہزاروں کی تعداد میں جگہ جگہ پائے جاتے تھے جنھوں نے خلفاے راشدین کا زمانہ دیکھا تھا اور صحابہ کرامؓ کی صحبت پائی تھی۔ پھر کوفہ جو امام صاحب کا وطن تھا، کئی سال تک حضرت علیؓ کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ امام صاحب کی پیدایش اور حضرت علیؓ کی شہادت کے درمیان صرف ۴۰سال کا زمانہ گزرا تھا۔ اس شہر میں ان لوگوں کا شمار نہ کیا جاسکتا تھا جو خلیفۂ رابع کا عہد دیکھ چکے تھے۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ  کو یہ تحقیق کرنے میں کوئی مشکل پیش آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طریقہ کب سے اور کیسے شروع ہوا ہے اور کس نے اسے جاری کیا ہے؟
اسی طرح امام مالکؒ کی مثال لیجیے۔وہ ۹۳ہجری میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ساری عمر گزاری۔ اس شہر میں سیکڑوں خاندان ایسے موجود تھے، جن کے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں نے خلافت ِ راشدہ کا عہد دیکھا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی گودوں میں پرورش پائی تھی، اور جن کے اپنے بزرگ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ کیا کوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اتنی قلیل مدت میں عہد نبویؐ کی روایات گم کرچکے تھے، اور وہاں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی کس نے رائج کی ہے؟
یہی حال پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کا ہے۔ وہ سب عہد ِ نبوت سے اتنے قریب زمانے میں تھے کہ ان کے لیے سنت اور بدعت کی تحقیق کرنا کوئی بڑا مشکل کام نہ تھا، اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوسکتے تھے کہ جو چیز سنت نہ ہو اسے سنت سمجھ بیٹھیں۔

اُمت کا متواتر عمل

تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی، اسی روز سے وہ مسلمانوں میں عملاً رائج ہوگئی اور  اس وقت سے آج تک تمام دنیا میں پوری مسلم اُمت ہرسال مسلسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہرنسل نے پہلی نسل سے اس کو سنت ِ اسلام کے طور پر لیا ہے اور بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔
یہ ایک عالم گیر عمل ہے، جو ایک ہی طرح دنیا کے ہر اُس گوشے میں ہوتا رہا ہے، جہاں کوئی مسلمان پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے، جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ہی تواتر ہے، جس تواتر سے ہم کو قرآن پہنچا ہے اور یہ خبر پہنچی ہے کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی فتنہ پرداز اس تواتر کو بھی اگر مشکوک ٹھیرا دے تو پھر اسلام میں کیا چیز شک سے محفوظ رہ جاتی ہے۔
اس معاملے کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا ہو جس میں قربانی اور اس کی عید رائج نہ رہی ہو، پھر کسی قدیم نوشتے میں اس کا حکم لکھا ہوا مل گیا ہو اور کچھ ملّائوں نے اُٹھ کر لوگوں سے کہا ہو کہ: ’دیکھو فلاں جگہ ہم کو یہ لکھا ملا ہے، لہٰذا اے مسلمانو! آئو ہم عیدالاضحی منایا کریں اور اس میں جانوروں کی قربانی دیا کریں‘۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تاریخ میں کہیں اس کا سراغ ملتا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اور کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے؟ پھر کسی مُلّا کی کبھی مسلمانوں میں یہ حیثیت نہیں رہی ہے کہ وہ کسی پرانے نوشتے سے ایک حکم نکال کر دکھائے اور تمام دنیا کے مسلمان بالاتفاق اور بے چون و چرا اس کی بات مان کر اس کی پیروی شروع کردیں اور کوئی یہ نوٹ تک نہ کرے کہ یہ طریقہ پہلے ہم میں رائج نہ تھا، فلاں مُلّاصاحب کے کہنے سے  اب حال ہی میں اس پر عمل شروع ہوا ہے۔
یہ تین قسم کی شہادتیں ایک دوسری سے پوری طرح مطابقت کر رہی ہیں۔ حدیث کی کثیرالتعداد مستند و معتبر روایات، اُمت کے تمام معتمدعلیہ فقہا کی تحقیقات، اور پوری اُمت کا مسلسل و متواتر عمل، تینوں سے ایک ہی بات ثابت ہورہی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مقرر کیا ہوا ہے؟
اب اگر اس کے مقابلے میں کسی شخص کے پاس کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کی شہادت بھی ایسی ہے، جس سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ یہ حضوؐر کا مقرر کیا ہوا نہیں ہے، تو وہ اسے سامنے لائے اور ہمیں بتائے کہ اسے کب، کس مُلّا نے، کہاں گھڑا اور کیسے تمام دنیا کے مسلمان اتنا بڑا دھوکا کھاگئے کہ اسے سنت ِ رسولؐ مان لیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہنی انحطاط اور اخلاقی تنزل کی اس سے زیادہ شرمناک تصویر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے درمیان جو شخص چاہتا ہے اُٹھ کر ہمارے دین کے بالکل ثابت شدہ، مسلّم اور متفق علیہ حقائق کو، بلکہ اس کی بنیادوں تک کو بے تکلف چیلنج کردیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں، حالاکہ اس کے پاس اس کے اپنے مجرد دعوے کے سوا نہ کوئی دلیل ہوتی ہے، نہ شہادت۔

روپے کے ضیاع کا الزام

لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر باربار پیش کی جاتی ہے کہ: ’قربانی پر ہرسال لاکھوں روپیہ ’ضائع‘ ہوتا ہے۔ اسے جانوروں کی قربانی کے بجاے  رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے ‘۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے:

  • اوّل یہ کہ جس چیز کا قرآن اور سنت سے حکمِ خدا و رسولؐ ہونا ثابت ہو، اُس کے بارے میں کوئی مسلمان___ اگر واقعی وہ مسلمان ہے ___ یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس پر مال یا وقت یا محنت صرف کرنا اسے ضائع کرنا ہے۔ ایسی بات جو شخص سوچتا ہے، وہ اِن سب سے زیادہ قیمتی چیز ، یعنی اپنا ایمان ضائع کرتا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عام اور قومی ترقی کے کاموں کی بھی ایک قیمت ہے، مگر ان سے بدرجہا زیادہ قیمت اس کی نگاہ میں اس بات کی ہے کہ مسلمان شرک سے ہرطرح محفوظ ہوں، توحید پر ان کا عقیدہ ہرلحاظ سے، خیال اور عمل میں مستحکم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی عبادت و بندگی بجالانے کی عادت ان کی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑے رہے، اور وہ اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے مستعد رہیں۔ان مقاصد کے لیے جن کاموں کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ضروری قرار دیا ہے،  ان میں سے ایک یہ قربانی بھی ہے۔ اس پر مال کا صَرف رفاہِ عام اور قومی ترقی کے ہرکام سے بہت زیادہ قیمتی کام پر صَرف ہے۔ اسے ضیاع صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جس کی قدریں اسلام کی قدروں سے اصلاً مختلف ہوچکی ہیں۔
  • تیسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عبادت کی جو شکل مقرر کر دی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی، اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحق نے خود ہی دو یا تین مبادل صورتیں تجویز کرکے، ہمیں ان میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا ہو۔ ہمارا فرض ہرحکم کو اسی صورت میں بجا لانا ہے،جو شارع نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ ہم خودمختار بن کر اس کا بدل آپ ہی آپ تجویز نہیں کرسکتے۔ نماز کے بجاے اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کردے تو وہ ایک وقت کی نماز کا بدل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کے بجاے آپ خواہ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی کرڈالیں، وہ عیدالاضحی کے تین دنوں میں جان بوجھ کر قربانی نہ کرنے کا معاوضہ ہرگز نہ بن سکے گی، بلکہ اگر یہ حرکت اس نظریے کی بناپر کی جائے کہ اس عبادت کے لیے ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ صورت سے بہتر صورت تجویز کی ہے تو یہ نیکی کیسی، ایک بدترین معصیت ہوگی۔

قومی تہواروں کی اہمیت

پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’ضیاع‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی اجتماعی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپے صرف نہ کرتی ہو۔ اِن چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے ان کو ناپے اور روپے کے وزن سے ان کو تولے۔
آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہرسال جو بے شمار دولت ساری دنیاے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے، یہ روپے کا ضیاع ہے ۔ وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلاتامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوںمیں تقسیم شدہ مسیحی ملّت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ہے، تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔
ہندوئوں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اُس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندروحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہوکر ایک قوم نہ بن سکیں۔
یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ہے، جو دنیا کی مختلف قومیں وقتاً فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ہے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتاہے۔ مگر کوئی قوم بھی یہ حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ:’ بس ہسپتال اور مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے۔ اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں‘۔ حالانکہ دُنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ہے، جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ہے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہرطرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ہے، جتنی ہماری عیدیں ہیں اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ہے جیسا ہمارے پاس ہے۔ اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کرچکے ہیں؟
اور یہ قربانی پر روپیہ ’ضائع‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ہے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ہے جوان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ہے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کردیجیے، کیونکہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہورہا ہے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ہے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ہے، اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔ اب کچھ لوگوں نے یہ محسوس کرکے کہ یہ ضائع ہونے کی بات چلتی نظر نہیں آتی، یہ افسانہ تراشا ہے کہ بقرعید میں بہت سا گوشت سڑ کر پِھک جاتا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اس ملک میں ایک مدت سے جی رہے ہیں، ہم کو تو کبھی سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ وہ بتائیں انھیں کہاں ان کا دیدار میسر ہوا ہے؟

’شرعی حیلوں‘ کی حقیقت

حال میں ایک صاحب نے کچھ ’شرعی‘ سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ  قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہوجائے اور حکومت اسے محدود کرکے حدِّ مقرر سے زائد قربانیوں کا روپیہ خیراتی کاموں میں صرف کرنے کا انتظام کردے۔ ان سہاروں کی نوعیت بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
وہ کہتے ہیں کہ ’’قربانی صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے، باقی ائمہ دین اسے صرف سنت مانتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ اسے صرف امام اعظمؒ واجب قرار دیتے ہیں، اور یہ بھی غلط کہ باقی ائمہ اسے سنت اس معنی میں مانتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جن ائمہ نے اسے واجب قرار دیا ہے، ان میں امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ  بھی شامل ہیں، اور امام شافعیؒ وغیرہ جنھوں نے اسے سنت مانا ہے، وہ سب اسے ’سنتِ  موکدہ‘ کہتے ہیں جس کا ترک جائز نہیں۔
ان کا بیان ہے کہ: شارع کا منشا قربانی کو محدود کرنا تھا کیونکہ حضوؐر نے قربانی کا حکم صرف ذی استطاعت لوگوں کو دیا ہے اور حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ: عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً (ہرگھر کے لوگوں پر ہرسال ایک قربانی بقرعید کی اور ایک رجب کی لازم ہے)۔ حالانکہ ترمذی کے بقول یہ حدیث غریب اور ضعیف السند ہے اور ابوداؤد نے صراحت کی ہے کہ رجب کی قربانی کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرما دیا تھا۔
تاہم، اس بحث کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ شارع نے ایک چیز کو لازم کرتے ہوئے اگر اس کی ایک کم سے کم حد مقرر کی ہو، تو کیا واقعی اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع اس پر عمل کو محدودکرنا چاہتا ہے؟ نماز صرف پانچ وقت کی چند رکعتیں فرض ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع نماز کو محدود رکھنا چاہتاہے اور فرض رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اسے پسند نہیں؟ روزے صرف رمضان کے فرض ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کو محدود کرنا ہی مقصود ہے اور زائد روزے ناپسندیدہ ہیں؟ زکوٰۃ کی ایک محدود مقدار صرف صاحب ِ نصاب پر لازم کی گئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کو محدود کرنا پیش نظر ہے اور غیر صاحب ِ نصاب اگر راہِ خدا میں مال صرف کرے یا صاحب ِ نصاب زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرے تو یہ ناپسندیدہ بات ہوگی؟
وہ قرآن سے بعض نظیریں پیش کرتے ہیں کہ حج کی بعض رعایات سے فائدہ اُٹھانے والوں اور بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کرنے والوں پر جو قربانی لازم کی گئی ہے، اس کا بدل روزوں کی شکل میں یا مالی اِنفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ بقرعید کی قربانی کا بدل بھی اسی طرح تجویز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال اصولاً غلط ہے۔ وہاں شارع نے دو تین متبادل صورتیں ایک واجب سے سبکدوش ہونے کے لیے خود تجویز کی ہیں۔ یہاں آپ شارع کی ایک ہی مقرر کردہ شکلِ عبادت کا بدل تجویز فرما رہے ہیں۔ 
یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا اسی طرح آپ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور دوسرے فرائض و واجبات کے بدل بھی آپ ہی آپ تجویز کرلینے کے لیے آزاد ہیں؟
پھر وہ ہدایہ کی ایک عبارت سے یہ بالکل غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ: ’قربانی کے دنوں میں اگرچہ قربانی ہی کرنا افضل ہے، مگر اس کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کردینا بھی جائز ہے، حالانکہ کوئی فقیہہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بقرعید کے ایام میں جانور کی قیمت کا صدقہ قربانی کا بدل ہوسکتا ہے۔ صاحب ِ ہدایہ غریب کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی وقت ان کے الفاظ اَلتَضْحِیَۃُ فِیْھَا اَفْضَلُ مِنَ التَّصَدُّقِ بِثَمَنِ الْاُضْحِیَۃِ کا مطلب یہ نکالا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست ہے تو وہ دس بار اس پر توبہ کرتے۔ آخر فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ ہی تو نہیں ہے، دوسری بے شمار کتابیں بھی دنیا میں موجود ہیں اور قریب قریب سب ہی میں بالفاظِ صریح یہ بات لکھی گئی ہے کہ اِن دنوں میں کوئی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔
ایک دل چسپ استدلال ان کا یہ بھی ہے کہ: ’اب لوگوں کے اندر خلوص و تقویٰ کم ہے اور اس کے بجاے فخر اور ریا اور نام و نمود کی خاطر لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘۔ گویا جب یہی لوگ قربانی کے بجاے قومی فنڈ میں___ اور وہ بھی سرکاری فنڈ میں___  بڑھ چڑھ کر چندے دیں گے تو اس وقت یہ کام غایت درجہ خلوص و تقویٰ کے ساتھ ہوگا۔ اس کے بعد بعید نہیں کہ ہرمسجد پر ایک محتسب خلوص پیما آلات لیے ہوئے موجود رہے اور اس سے ناپ ناپ کر ہر ’ریاکار‘ نمازی کو حکم دے کہ نوافل اور سنتیں چھوڑ کر ان کے بدلے قومی فنڈ میں روپیہ داخل کرو۔
اِن کمزور سہاروں پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے کہ قربانی کو محدود کر دینا شریعت کے منشا کے مطابق ہے۔ [اگست ۱۹۵۹ء]

محترم رفقا! آپ جانتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام دنیا میں ایک خاص مشن لے کر تشریف لائے تھے۔ ان کے مشن کی تفصیلات ہمیں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک میں ملتی ہیں۔ کوئی بھی شخص جو انبیاے سابقہ ؑ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہے، اس کے لیے آں حضورؐ کی زندگی کو رہنما بنائے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ تحریک اسلامی بھی اسی کام کو لے کر اُٹھی ہے، جس کی تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات میں پائی جاتی ہیں۔

ایک دُعا، جو قبول ہوئی !

سیّدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد بارگاہِ الٰہی میں دُعا فرمائی تھی:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۹)، یعنی اے ہمارے رب، ان کے درمیان سے ایک رسول اُٹھا جو ان کے سامنے تیرے احکام پیش کرے۔ انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دُعا قبول فرمائی اورجس نبی کو مبعوث فرمایا، وہ آں حضوؐر تھے۔ فرمایا: ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۲ۙ(الجمعہ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمّیوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا، جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور پھر ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔گویا آں حضوؐر کی بعثت کے مقاصد بعینہٖ وہی تھے، جس کے لیے سیّدنا ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ نے دُعا فرمائی تھی اور یہ مقاصد چار تھے:

۱- اللہ کی کتاب کو من و عن اس کے بندوں تک پہنچانا،

۲- اس کتاب کے مطابق تعلیم دینا،

۳- ان میں حکمت و دانائی اور فہم و فراست کا شعور پیدا کرنا،

۴- ان کا تزکیہ کرنا۔

  • تزکیہ اور اقامتِ دین:’تزکیہ‘ کے معنی ہیں کسی کام کے لیے راستہ بنانا، اس کی نشوونما کرنا، راستے سے رکاوٹیں دُور کرنا ، راستے کو ہموار اور سہل بنانا۔ زمین سے جھاڑ جھنکار صاف کرکے گھاس، سرکنڈے اور جھاڑیاں اکھیڑ کر، اس میں ہل چلا کر اور اسے پانی دے کر بیج بونے کے لیے تیار کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ زمین کا تزکیہ ہوگیا۔ اسی طرح کسی شخص کی طبیعت میں سے بُرائی اور گمراہی اور ایسی عادات کو دُور کردیا جائے، جو اسے نیکی سے روکتی ہیں اور پھر مثبت طور پر اسے اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکیوں کو قبول کرنے کے قابل ہوجائے، تو کہا جائے گا کہ اس شخص کا تزکیہ ہوگیا۔ نبیؐ کے متعلق جو دُعا سیّدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے کی، وہ اسی غرض کے لیے تھی کہ اس قوم کا تزکیہ ہوجائے۔ گویا بُرائیوں کو مٹانے اور بھلائیوں کو فروغ دینے کا نام ہی تزکیہ ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسے ہی کہتے ہیں۔

تزکیے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ افراد کلیتاً اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جائیں۔ دو افرادمل کر خاندان کی بنیاد رکھیں، تب بھی اس پر عمل کیا جائے اور پھر پورے کنبے، خاندان، قوم اور ریاست میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔ تجارت، عدالت، تعلیم، زراعت، معیشت، سیاست، قانون سازی، غرض یہ کہ تمام شعبوں میں معاملات اسی کی روشنی میں طے کیے جائیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے یہی وہ مقصد اورمشن ہے جس کے لیے نبیؐ اور آپؐ سے پہلے دیگر انبیا علیہم السلام مختلف وقتوں میں دنیا میں تشریف لائے۔
جب فرد سے لے کر قوم تک کا تزکیہ ہوجائے، یعنی بُرائیاں رخصت ہوجائیں اور بھلائیاں رائج ہوجائیں، تب ہم کہیں گے کہ دین قائم ہوگیا۔ اس لحاظ سے ’تزکیہ‘ اور ’اقامت ِ دین‘ ہم معنی الفاظ ہیں اور اس کا نام ’اصلاحِ معاشرہ‘ ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور اصلاحِ معاشرہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

  • اصلاحِ معاشرہ:جماعت اسلامی انھی مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے ۔ جماعت کےاجتماعات میں درس، تقریریں، لٹریچر، اخبارات، مذاکرات اور سوالات و جوابات___ یہ سب چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم دینے، دین کی بصیرت اور حکمت و دانائی پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ جماعت چاہتی ہے کہ ساری طاقت کو سمیٹ کر نیکی پھیلانے اور بُرائی مٹانے میں صرف کیا جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس دعوت کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ پھر جماعت ہمیشہ اپنی اجتماعی طاقت سے عوام اور اقتدار کو غلط راستوں پر جانے سے روکنے کی کوشش کرتی رہی ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ ایسا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا گیا اور جس موقع پر جو کچھ بھی ہوسکا، کیا گیا۔

ہم اور ہمارے تمام ذرائع، زندگی کے ہرمیدان میں راست روی اختیار کرنے کی تعلیم دینے کے لیے وقف ہیں۔ ہمارا بنیادی کام پوری قوم اور پورے معاشرے سے متعلق ہے۔اگر ہم بھلائی کا فروغ اور بُرائی کا سدباب چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے آپ کو پوری طرح نظم جماعت کے حوالے کر دینا ہوگا۔ اصلاح چاہنے والے لوگ اگر نظم جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو گویا وہ اس جدوجہد سے دُور ہیں، جس کا وجود اصلاحِ معاشرہ کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو لوگ جماعت اسلامی سے باہر ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے دُور ہیں، لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ کوئی جہاں بھی ہے اسے حقیقی بھلائی کی جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر آپ نبیؐ کے طریقے کو برحق مانتے ہیں اور نیکیوں کو پھیلانے اور بُرائی کومٹانے کے خواہاں ہیں تو پھر عملاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کیجیے اور عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دیجیے۔
پس، اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جماعت اسلامی کا بنیادی کام اصلاحِ معاشرہ ہے، یعنی لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلانا، انھیں بھلائیاں اختیار کرنے اور بُرائیاں چھوڑ دینے کی دعوت دینا۔ انفرادی سطح پر اس کا نام تزکیہ ہے اور اجتماعی و معاشرتی سطح پر اسی کو اقامت ِ دین کی جدوجہد کہتے ہیں۔ یہ کام ہمیں اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے، آمین!
[میانوالی میں جماعت اسلامی کی ضلعی تربیت گاہ سے خطاب، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ہفت روزہ آئین، لاہور، ۹مارچ ۱۹۶۶ء]

 ہمارے حلقوں میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ: ’’آج دنیا کو گلوبل ویلج (عالمی گائوں) کہا جاتا ہے۔ اس میں دوسری اسلامی تحریکوں سے ہمارے تعلق کو کس طرح استوار ہونا چاہیے؟‘‘
’جماعت اسلامی‘ کے نام سے چند دوسرے ملکوں میں بھی تحریک اسلامی کام کررہی ہے۔ ہرملک کے اپنے قواعد و ضوابط، قوانین اور آئین ہے۔ اُن ممالک میں انھی ضابطوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی تحریک وہاں پر جدوجہد کر رہی ہے اور حالات کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے کسی بھی دوسرے ملک میں ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے جو کام ہو رہا ہے، قانونی اور دستوری طور پر ہمسایہ ملک سے اس کا کوئی باہمی ربط و تعلق نہیں ہے۔ 
تاہم، سب کے لیے قرآن و سنت، علوم اسلامیہ کا اثاثہ اور اسلامی تاریخ ایک مشترک وسیلہ ضرور ہے۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علاقوں میں، مختلف موضوعات پر یہ مختلف تحریکیں جو لٹریچر تیار کر رہی ہیں ، وہ لٹریچر بھی کسی نہ کسی درجے میں کم و بیش تمام تحریکوں کے لیے مفید ہے۔ البتہ، ان کے ہاں فکری اور علمی سوالات پر جو بحث کی جاتی ہے وہ ہرجگہ کے کارکنوں کی سوچ اور درپیش چیلنج کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو اگر یادداشت کی بنیاد پر تازہ کروں تو یہ کہوں گا کہ آج سے ۴۰  ،۴۵ سال پہلے ہم جب کبھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے، تو وہاں سب لوگ یاددہانی کے طور پر ایک جملہ آپس میں دُہراتے تھے: Think globally but act locally۔   مراد یہ کہ آپ کی فکر آفاقی، عالم گیر اور عالمی ہونی چاہیے اور آپ کا عمل مقامی اور اپنے دائرے میں ہونا چاہیے۔
ساری دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ ان حالات کے پس منظر اور پیش منظر پر آپ کی نظر اور گرفت ہونی چاہیے۔ پھر اسی طرح معاملات کو عالمی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارا مقصد پوری انسانیت کے لیے ہے، پوری دنیا اور سارے جہان کے لیے ہے، اور اسی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر آفاقی سوچ میں گزربسر کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ ظاہر ہے کہ  عمل کی دنیا میں آپ جس دائرے میں بستے اور رہتے ہیں، جہاں اور جس دائرے کے اندر آ پ کی ذمہ داریاں ہیں، ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے ہی سے آپ اس آفاقی فکر کو تقویت پہنچا سکتے ہیں اور اس عالمی اور آفاقی سوچ کو مضبوط کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مصر میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو آپ اس کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں۔ تیونس اور الجیریا میں اگر کچھ ہو رہا ہے تو وہ اگرچہ آپ کے حلقے میں شامل نہیں ہے، لیکن آپ اسی طرح فکرمند ہوکر اس پر گفتگو کرتے ہیں، جیسے آپ کے اپنے علاقے کی تنظیم ہو۔ اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ایک ایمان، محبت اور درد کا اٹوٹ رشتہ ہے، جو ایک اُمت ہونے کا ثبوت ہے۔
آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اندر طاغوت کی فرماں روائی کے حوالے سے اور اسلامی تحریکوں کے جذبوں اور اقدامات اور آزمایش و کش مکش کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے واقفیت پیدا کرنا، اس کے تجزیے کی صلاحیت پیدا کرنا، یہ ہم سب کی  ذمہ داری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ ہمارا مطالعہ اَپ ڈیٹ ہوتا رہے۔ آپ کے رسائل خصوصاً ترجمان القرآن میں ایسی چیزیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مربی حضرات بھی گاہے   ان موضوعات پر اظہارِخیال کرتے اور آپ کو سوچنے کے لیے متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ 
اس کے ساتھ مطالعے کی وسعت میں یہ بات شامل ہے کہ جو کچھ چاروں طرف چھپ رہاہے، اس سے بھی آپ کو واقف اور آگاہ ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان میں دینی جماعتوں، اور دینی شخصیتوں کے جتنے رسائل اور جرائد چھپتے ہیں، ان میں سے بیش تر آپ کی   نظر سے گزرنے چاہییں تاکہ ان کی سوچ معلوم ہو، اور آپ جان سکیں کہ اس معاشرے میں مذہبی لوگ کیا سوچ رکھتے ہیں؟ حالات کا کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ حالات کی دلدل سے نکلنے کے لیے کون سا پروگرام اپنے سامنے پاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ آپ کے کام اور آپ کے رویوں پر بھی اس میں جگہ جگہ تبصرہ ہوتا ہے۔یہ مطالعہ اور دوسروں کی تنقید و تبصرہ، آپ کی آفاقی فکر اور عالم گیر سوچ کو تقویت پہنچانے اور درست سمت دینے کا ذریعہ بنے گا۔
اگرچہ آپ اپنے ملک اور اپنے تنظیمی وجود میں الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن آپ کی سوچ عالمی اور آفاقی اس لیے ہونی چاہیے کہ مسلمان علاقے، رنگ، نسل کی پہچان رکھنے کے باوجود گلوبل، اور عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ ہم پاکستان میں بستے ہیں، بہت سی حدود و قیود اور قانونی پابندیوں کو تسلیم کرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم پاکستان میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ لیکن فکری اور ذہنی طور پر اور علمی اور عملی طور پر ہم عالمی اسلامی تحریک کے کارکن ہیں۔ 
مسلمان اپنے وجود میں ایک اکائی ہیں۔ اس کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے، اس کا غم ہمارا غم ہے۔ اس عالمی اسلامی تحریک کی خوشیاں ہماری خوشیاں ہیں، اس کی کامیابیاں ہماری کامیابیاں ہیں۔ اگر کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں تو وہ ہمارے جذبوں کو مہمیز دینے کا عنوان بنتی ہیں۔ اگر کہیں ناکامی یا اُلجھن پیدا ہوتی ہے تو اس میں ہمارے لیے سوچنے اور تجزیہ کرنے کا سامان ہوتا ہے۔
ہمارا یہ قافلہ ایمان کی بنیاد پر اکٹھا ہوا ہے اور منزل کے شعور کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں کی مخصوص صورتِ حال میں، الگ الگ انداز سے رواں دواں ہے، لیکن جذبے کی آنچ ایک ہے۔ کامرانی کے حصول کی اُمنگ ایک ہے اور دُکھ درد کا رشتہ بھی ایک ہے۔ ان سب کا سرچشمہ قرآنِ کریم اور سنت پاکؐ اور سیرت ِ رسولؐ کریم ہے۔ ہمیں یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ   ہم ان سرچشموں سے کس قدر جڑے ہوئے ہیں یا کس قدر دُور ہیں؟ اگر دین کے ان سرچشموں سے ہم وابستہ ہیں تو یقینا اسی طرح دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں سے بھی ربط میں ہیں۔

ان سطور میں، مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں اور بیٹوں سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کرر ہا ہوں۔

لختِ جگر بیٹیو! آج جس دورِ فتن سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، اُس کے چاروں طرف بدی، بُرائی، بے حیائی، بے شرمی، اختلاط مرد و زن، شراب نوشی، منشیات، رقص و سُرود، خرافات اورفضولیات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیدا کرنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ تاہم، ان میں سب سے بڑا عامل (factor) ہمارے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کو بھلا کر، اس کے نسخوں کو الماریوں کی زینت بنادیا گیا ہے۔  ایک زمانہ تھا کہ گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے گھروں سے تلاوتِ قرآن کی آوازیں سنی جاتی تھیں۔ آج اس کے بجاے ایسے فلمی گانوں کے بول کانوں سے ٹکراتے ہیں کہ شرم و حیا کے جامے تارتار ہوجاتے ہیں۔

گھروں میں بڑوں، یعنی والدین کی لاپروائی اور بچوں کے حوالے سے بے اعتنائی بھی خرابی اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔ والدین پر جس طرح اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے، لباس اور علاج و معالجے کی ذمہ داری ہے، بالکل اُسی طرح ، بلکہ اس سے بڑھ کر بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی عزت و آبرو، عفت و عصمت، شرم و حیا اور اخلاق و کردار کی حفاظت کرنا بھی فرض ہے۔ مگر مادہ پرستی کے اس دور میں وہ اس اہم اور بنیادی ضرورت کو پورا کرنے سے   کنی کتراتے ہیں۔ والدین کو سوچ لینا چاہیے کہ جس طرح وہ لڑکیوں کی دنیا بنانے اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، اُسی طرح لڑکیوں کی آخرت کی زندگی میں جہنم کی آگ سے بھی بچانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ جیساکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔(التحریم ۶۶:۶)

’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اُس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے، جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں، تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔

بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملے میں جواب دہ ہے۔ حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘۔جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، مجاہدؒ، امام محمد الباقرؒ، اور سُدِّیؒ کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۲۹-۳۰)

بچوں کے والدین اور سرپرست اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو اپنی اولاد کے بارے میں لاپروائی اور بے اعتنائی نہیں برتیں گے اور ان کو کھلی چھوٹ نہیں دیں گے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہیں بے روک ٹوک کریں۔ اپنی عزت اور آبرو کا خیال نہ کریں۔ بے پردہ گھومیں پھریں۔ منشیات کے عادی بن جائیں۔ موبائل فون کا غلط استعمال کریں۔ انٹرنیٹ اور فیس بُک پر غیرمحرم اوراوباش نوجوانوں کے ساتھ روابط قائم کریں۔ ساتر لباس کے بجاے چُست اور نیم عریاں لباس کا استعمال کریں۔ نمازوں کی پابندی نہ کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ قرآن پاک کے معانی سمجھنے کی کوشش نہ کریں ۔ کوئی معتبر اور مستند تفسیر کا سہارا لے کر قرآن پاک کے حیات بخش پیغام سے رہنمائی حاصل نہ کریں۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ نہ کریں اور اپنی سیرت اور کردار میں باحیا اور باکردار خواتین کی سیرت کے خدوخال اپنے اندر پیدا نہ کریں۔ دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سب کچھ والدین اور سرپرستوں کی نگاہوں کے سامنے ہو اور وہ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کے مصداق دیکھتے رہیں اور ٹوکنے اور روکنے کی کوشش نہ کریں تو قرآنِ پاک کی اس تنبیہ کا ان پر ہی اطلاق ہوگا۔

لختِ جگر بیٹیو! ہم اپنے ہی ہاتھوں بھارت کے فوجی قبضے میں جاچکے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ہمارے لیڈروں نے نہایت کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنجہانی ہری سنگھ کی متنازعہ اور مشکوک دستاویز الحاق کی تائید کرکے بھارت کی فوجوں کی یہاں آنے کی حمایت کی۔ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے ہم اسی فوجی قبضے میں ہیں۔ بھارت ایک طرف فوج کے بل بوتے پر ہمارے تمام ذرائع    اور وسائل پر قبضہ جما رہا ہے۔ دوسری طرف ہم پر اپنی مشرکانہ تہذیب بزورِ بازو مسلط کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت خاص طور پر ہماری تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوں، کالجوں اور مدارس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مخلوط تعلیم ہماری اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کے خلاف ہے۔ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم بھی ضروری ہے مگر اس تعلیم میں لڑکیوں کی عزت، عصمت اور شرم و حیا کا بھرپور تحفظ ہونا چاہیے۔ مخلوط نظامِ تعلیم میں ان مقدس اقدار کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکتا۔

نظامِ تعلیم بھی انسانی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔ تعلیم ہماری نئی نسل کو مادہ پرست اور دنیا پرست بناتی اور بُرائیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں کلچراور ثقافت کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کروائے جاتے ہیں، جن میں دینی اور اسلامی اقدار سے ہم کو دور لے جایا جارہا ہے۔ بھارت اپنی مخصوص تہذیب اور طرزِ زندگی کوان پروگراموں کے ذریعے ہم پر مسلط کر رہا ہے۔ تعلیم گاہوں میں کردار سازی کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ منصوبہ بند طریقے پر جو ان لڑکوں اور لڑکیوں کو شراب اور منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس تہذیبی یلغار کے مقابلے میں ہمارے مقامی افسران اور ذمہ داران مزاحمت کرسکتے تھے، مگر وہ اپنی کرسیوں،اپنے عہدوں اور منصبوں کے غلام بن چکے ہیں اور اُنھی کی معاونت، تابع داری اور غلامانہ ذہنیت کے سہارے یہ سب اخلاق باختہ پروگرام انجام دیے جارہے ہیں۔

ان حالات میں،مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں سے دردمندانہ اپیل کروں گا کہ آپ قرآن پاک پڑھ کر، سمجھ کر اس کی رہنمائی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں، کیونکہ آپ ہی کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے۔ اگر آپ نے اپنے اندر اسلامی کردار اور سیرت پیدا نہیں کی تو ہماری آنے والی نسل مشرکانہ تہذیب کا شکار ہوجائے گی، اور اسلام کے حیات بخش نظام سے محروم ہوکر دُنیوی ذلّت و خواری اور آخرت کے ابدی عذاب سے دوچار ہوجائے گی۔

میں آپ کو علامہ محمد اقبالؒ کی ایک رُباعی کی وساطت سے خاتونِ ملّت کے کردار کی طرف متوجہ کرکے، ایک بار پھر دردمندانہ اور دل سوزی کے ساتھ نصیحت کروں گا کہ اپنی عزت، سیرت اور اسلامی کردار کی ہرحال میں حفاظت کریں اور اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر اپنی دُنیا اور آخرت آباد و شاداب کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ علامہ اقبال آپ کو نصیحت کرتے ہیں:

زِشامِ مابروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہلِ نظر را
تو میدانی کہ سوزِ قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را

[قرآن پاک کی تلاوت سے اہلِ نظر کو متاثر کرکے ،ہماری شام کو سحر سے بدل دے۔ تو جانتی ہے کہ تیرے سوزِ قرأت نے عمرؓ کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔]
اے خاتونِ ملّت! تو اپنے کردار اور اسلامی سیرت کے ذریعے ملّت کو اس تاریکی سے نکال کر صبحِ آزادی اور اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف لانے کے لیے اپنا منصبی فریضہ انجام دے۔ اس مقصد کے لیے تم قرآن پڑھ کر ، سمجھ کر، عملاً پھیلا کر اور غالب کرنے کی کوشش کرکے اہلِ نظر پیدا کرو، کیوں کہ تو اگر اپنا ماضی یاد کرے گی تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ تیری سوزِ قرأت سے اسی طرح نسلوں کی تقدیر بدل جائے گی، جس طرح عمر بن خطابؓ کی بہن کی تلاوت سے ان کی تقدیر بدل گئی تھی۔

یہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جب عمربن الخطاب برہنہ تلوار لےکر رسولِ رحمت    صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں ایک صحابی سے اُن کاسامنا ہوا۔ اُنھوں نے کہا:’’ عمر! یہ چمکتی تلوار لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عمر نے جواب دیا: ’’اس دین کے بدلنے والے محمد کو قتل کردوں گا‘‘۔

اُس صحابی نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر جائو‘‘۔ عمر غصّے سے بے تاب ہوکر اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں اُن کی بہن قرآن پاک سے سورئہ طٰہٰ کی تلاوت کر رہی تھیں۔ عمر کے آنے کی خبر سن کر وہ سہم گئیں اور قرآنِ پاک کے اَوراق چھپانے لگیں۔ عمر نے بڑے گرج دار لہجے میں پوچھا: کیا پڑھ رہی تھی؟ فاطمہ نے کہا: ’’قرآن پڑھ رہی تھی‘‘۔  عمر نے اُن کو بے تحاشا پیٹنا شروع کر دیا۔ فاطمہ کے شوہر اُن کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ ان کو  بھی عمرنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔ تھک ہار کر عمر نے فاطمہ سے کہا: ’’اچھا، مجھے وہ سنائو جو تم پڑھ رہی تھی‘‘۔فاطمہ نے کہا: ’’میں وہ اوراق تمھارے ہاتھ میں نہیں دوں گی جو مَیں پڑھ رہی تھی۔ جب تک تم نہادھوکر اپنے آپ کو پاک و صاف نہیں کرو گے‘‘۔ عمرؓ نے اپنے آپ کو پاک و صاف کیا۔ پھر فاطمہ نے سورئہ طٰہٰ کی آیات تلاوت کیں۔ اس سے عمرؓ کی دنیا ہی بدل گئی۔

رسولؐ اللہ اپنے پاک باز ساتھیوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ کسی نے پریشان ہوکر آپؐ سے کہا: عمر ہاتھ میں ننگی تلوار لیے آرہے ہیں۔ اس مجلس میں حضرت حمزہؓ بھی تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مومنانہ اور مجاہدانہ انداز میں برملا کہا کہ: اگر نیک نیت سے آیا ہے تو مرحبا، اگر بدنیتی سے آیا ہے تو یہ تلوار اس کا فیصلہ کرے گی۔مگر عمر بن خطاب کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا قبول ہوچکی تھی، جو آپؐ نے ربِ کریم کی بارگاہ میں کی تھی کہ دو عمروں میں سے ایک کو اسلام لانے کی توفیق عطا کر۔ ابوجہل کا نام بھی عمر تھا اور دوسرے عمر بن خطاب تھے۔یہ دُعا دوسرے عمر کے حق میں قبول ہوئی اور انھوں نے خدمت ِ اقدس میں اس روز حاضر ہوکر کلمۂ شہادت پڑھ کے اسلام کے حیات بخش پیغام کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

جوانانِ ملّت! آپ ہمارا مستقبل اور اصل سرمایہ ہیں۔ آپ غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے جاچکے ہیں، اُن سے آزادی حاصل کرنا، آپ ہی کی ہمت، حوصلے، عزم اور اخلاص کا مرہونِ منت ہے۔ آپ اپنے اندر وہ سیرت وکردار پیدا کریں ،جو آپ کو بے تیغ لڑنے کا حوصلہ اور ولولہ عطا کرے۔ سامراجی طاقتوں اور استعماری قوتوں نے خاص طور پر آپ کو نشانہ بنانے کے لیے دُور رس نتائج کی حامل ایک پالیسی وضع اور طریق کار اختیار کیا ہے۔ اس سنگین ترین صورتِ حال کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ آپ محسن ملّت اسلامیہ علامہ محمد اقبالؒ کی نصیحت پر پوری یکسوئی اور سلیمِ قلب کے ساتھ پیروی کریں:

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!

طوفان سے تو ہم دوچارہوچکے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔  علامہ اقبال مرحوم نے اس طوفان کو سخت ترین موت سے تعبیر کیاہے:

موت ہے اِک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

اس سخت ترین موت سے نجات پانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ کتاب خواں ہی نہیں بننا ہے، بلکہ صاحب ِ کتاب بننے کی طرف بڑھنا ہے۔ صاحب ِ کتاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت اس بھرپور احساس سے کی جائے کہ یہ کتاب مجھ پر ہی نازل ہورہی ہے ۔ مجھے کہہ رہی ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے؟ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا؟ تمھارے لیے حلال کیا ہے اور حرام کیا؟ تمھارا خالق اور مالک کون ہے؟ تمھارا حاکم اور مقتدرِاعلیٰ کون ہے؟ تمھارا معبود اور پروردگار کون ہے؟ تمھیں کس کی عبادت اور بندگی کرنا ہے؟ تمھیں کس کا خو ف اور ڈر ہونا چاہیے؟ تمھاری قوتیں اور صلاحیتیں کس کے لیے وقف ہونی چاہییں؟ تم نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر کس کے ساتھ اپنی جان و مال کا سودا کیا ہے؟ تمھارے لیے عدل و انصاف کا نظام اور ضابطہ کیا ہے؟ تمھیں انسانیت کا احترام کرنا کون سکھاتا ہے؟ تمھارے لیے صلح اور جنگ کے ضوابط کون ترتیب دے رہا ہے؟

جب آپ قرآن یہ جان کر اور مان کر پڑھیں گے کہ یہ مجھ ہی سے مخاطب ہے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ تم کو پانی کے ایک حقیر قطرے سے اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اُسی نے تمھاری پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت اور شفقت پیدا کی ہے۔ اُسی نے تمھاری زندگی کے لیے ہوا، پانی، زمین پیدا کی ہے۔ تمھارے لیے رزق کا انتظام کیا ہے۔ قرآن آپ کو بتائے گا کہ تمھاری زندگی کے لیے تمھارا جوڑا پیدا کیا ہے، اور اس طرح دونوں صنفوں کے لیے سکون و طمانیت کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا گیا ہے۔ مودت اور محبت کا سامان فراہم کیا ہے۔ تم بیمار ہوتے ہو تو شفا وہی بخشتا ہے۔ قرآن آپ کوبتائے گا کہ جب سب کچھ اللہ ہی تم کو دیتا ہے تو تم دوسروں کی بندگی کیوں کرتے ہو؟ وہی تو تمھارا احکم الحاکمین ہے۔ تم دوسروں کی سرداری اور حاکمیت کیوں تسلیم کرتے ہو؟ یہ توتمھارے اللہ پر ایمان رکھنے کے منافی ہے۔ اس طرح تمھاری زندگی میں دو رنگی اور نفاق پیدا ہوجاتا ہے۔ قرآن اپنے پڑھنے والے کو بتاتا ہے کہ حق کو قبول کرلینے اور سمجھ لینے کے بعد باطل کی پرستش اور اطاعت کرنے کا تمھارے پاس کیا جواز ہے؟

قرآن پاک کو جب آپ اس ایمان و یقین کے ساتھ پڑھیں گے کہ یہ آپ پر ہی نازل ہو رہا ہے تو آپ جان لیں گے کہ قرآن آپ کو بہت بڑی نعمت اور دولت سے سرفراز فرما رہا ہے۔ قرآن کریم ایک بہت بڑی حکمت اور ایمانی قوت ہے۔ قرآن، آپ میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت کا یقین، اُس کی قوت و سطوت کا راسخ احساس اور ناقابلِ شکست اعتماد پیدا کرتا ہے کہ اسے پاکر آپ بہت طاقت ور بن جاتے ہیں۔ جہاں ایمانی قوت ہو، وہاں دنیا کی ساری طاقتیں پرکاہ کے برابر لگتی ہیں اور کوئی فرعونیت اور نمرودیت مسلمان کو زیردست اور محکوم نہیں بنا سکتی۔ اگر ایمانی قوت نہ ہو تو اسلحہ اور ایٹم بم بھی آپ میں جرأت اور ہمت پیدا نہیں کرسکتے۔

نائن الیون کے سانحے کےبعد امریکا نے پوری دنیا کو چیلنج دیا کہ: ’’ہمارے ساتھ رہو، ورنہ ہم تم کو پتھر کےزمانے میں پھینک دیں گے‘‘۔ پاکستان میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کے پاس ایٹم بم ، میزائل اور فوج بھی تھی۔ ۱۸کروڑ عوام بھی ساتھ تھے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت، پاکستان کی بہی خواہ اور ہمدرد تھی۔ برادر ملک ایران بھی پشت پر تھا، مگر اُس وقت کے فوجی صدر میں ایمانی قوت و بصیرت نہیں تھی کہ وہ جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر کے امریکا کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دیتے اور عملاً ہتھیار ڈالنے کی سی ذہنیت کا شکار نہ ہوتے۔

اس بات کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اس وقت ہوا تھا کہ جب ان کے ساتھ دہلی میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھارت سے مرعبویت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں، مگر کچھ حاصل نہیں کرسکے۔ بھارت بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک اور طاقتیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ہمیں اب اس کے ساتھ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر مسئلہ حل کرلینا چاہیے‘‘۔ جواباً میں نے ان سے کہا کہ: ’’ہمارا موقف مبنی برصداقت ہے۔ ہمیں مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اللہ بزرگ و برتر کی ذاتِ اَقدس پر بھروسا کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ: ’’میرے ساتھ بش اور ٹونی بلیر ہیں‘۔ بش امریکا کا صدر تھا اور ٹونی بلیربرطانیہ کا وزیراعظم تھا۔ صدافسوس کہ انھوں نے اللہ غالب، اور بزرگ و برتر کا نام نہیں لیا۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ بُش رہا نہ کوئی بلیر رہا اور نہ مُش رہا: فاعتبروا یااولٰی الابصار!

پھر پاکستان کے صدر مشرف صاحب نے بزدلی اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کی سرزمین، ہوائی اڈے اور اپنی انٹیلی جنس معلومات فراہم کرکے، افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ اس کے بعد ان خونیں مناظر نے پوری ملت اسلامیہ کے دلوں کو ہلا دینے والا باب رقم کیا ۔ یہ سب کچھ ایمانی قوت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ میں نےجنرل مشرف صاحب سے یہ بھی کہا کہ: ’’اپنوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ مگر وہ طاقت کے نشے میں چُور یا کم ہمتی کے زیراثر کوئی بات سننے کے روادار نہ تھے۔

جوانانِ عزیز!یہ سب کچھ قرآنِ پاک سے دُوری اور اُس سے ایمانی قوت حاصل کرنے سے وہ محرومی ہے کہ جس کا خمیازہ پوری ملت اور خاص طور پر ہم مظلوموں اور محکوموں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ایمانی قوت کو ’زورِ دُروں‘ سے تعبیر کر کے جوانوں کو ان الفاظ میں مخاطب کیا ہے:

یہ آب جُو کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک
مری نگاہ میں ناخُوب ہے یہ نظارہ
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز
بلند زورِ درُوں سے ہُوا ہے فوارہ!

۴۰سال کے دوران ایک بار پھر وطن عزیز پاکستان آنا ہوا، لوگوں کا رویہ اور ملک کے حالات دیکھے تو دل غم سے بھر گیا، آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ گئے۔ اللہ، ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ہم تو منزل کی مخالف سمت رواں دواں ہیں۔ خود کو ’بدلنے‘ کے لیے تیار نہیں، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ حالات جلد سدھر جائیں گے اور دنیا کے فیصلے ہماری مرضی سے ہوں گے۔ یہ سادہ لوحی ہے یا محض خودفریبی!

بلاشبہہ ماضی کے برعکس، الحمدللہ، مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کروڑوں افراد صبح و شام اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر حیرت انگیز مشاہدہ یہ ہے کہ ان نمازوں کا،  چلتی پھرتی زندگیوں اور معاشرے پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مسجد سے قدم باہر رکھتے ہی لین دین ہو، کاروبار ہو، ملازمت ہو، یا تعلقات، جھوٹ، فریب، حق تلفی، دھوکا اور ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیسی نماز ہے جو زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لارہی؟ قرآن تو نماز کی یہ خصوصیت بیان کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۝۰ۭ (عنکبوت ۲۹:۴۵)۔ لفظ اِنَّ  تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے، جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس کی نماز اسے فحش اور منکرات سے نہیں روکتی، اس کی نماز ہی نہیں ہے۔

چار عشرے گزرے کہ جب روزنامہ ملّت لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے برطانیہ جانا ہوا۔ محترم معظم علی صاحب اُس وقت سمندرپار پاکستانیوں کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق کے مشیر تھے۔ وہ پی پی آئی اورملّت لندن کے بھی چیئرمین تھے۔ اسلامی بنکاری کو متعارف کرانے کے لیے ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ مجھے لندن آنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے: میں نے چار افراد سے مشورہ کیا اور چاروں نے ہی تمھارا نام لیا۔ ان محبان میں پروفیسر خورشیداحمد اور محمد صلاح الدین شہید شامل تھے۔ ملّت کے بعد روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پاکستان اور بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹی سے گہرا رشتہ اور مضبوط ربط رہا۔

پاکستان آکر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ پیسے کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ اُونچی اُونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ اندرونِ ملک ہوائی سفر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ٹکٹ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ریسٹورنٹ بھرے ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار اور ٹریفک سگنلز پر مانگنے والوں کی بھیڑ۔

پاکستان بننے کے بعد ۷۲برسوں میں نااہل اور خائن ہرشعبے میں آگے بڑھتے گئے۔ یوں تو دنیابھر میں جو چیز سب سے کم ہے وہ سچائی اور امانت ہے۔ اس کے بالمقابل جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ لیکن پاکستان میں ان کا تناسب کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے، جب کہ آقا علیہ السلام نے ان دو بُرائیوں سے بچنے کی یہ کہہ کر سخت تاکید فرمائی ہے کہ: ’’مومن کے اندر سب عادت ہوسکتی ہیں، مگر جھوٹ اور خیانت نہیں ہوسکتی‘‘۔ جھوٹ اور خیانت نے پاکستان کے پورے سماجی، اخلاقی اور ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سارا سیاسی نظام انھی دو خباثت پر چل رہا ہے۔ نااہلوں کو حکمرانی کی امانت سونپی جاتی رہی ہے اور وہ جھوٹ و مکاری سے ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔

بے شک قوم کی بدحالی کے ذمہ دار حکمران ہیں، لیکن میں اس کی ذمہ داری قوم کو دیتا ہوں۔ جیسے لوگ ہوتے ہیں  ویسے ہی ان پر حکمران آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے ہوں اور ان پر اچھے حکمران آجائیں، یا لوگ تو اچھے ہوں اور ان پر بُرے حکمران آجائیں۔
قوم کی اچھائی یا بُرائی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟

اس کے لیے سب سے موزوں پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی کتنے فی صد آبادی ’اکل حلال‘ پر قانع ہے؟ ’اکل حلال‘ صرف یہ نہیں ہے کہ سور نہیں کھاتا، یا شراب نہیں پیتا بلکہ اس کے تصور میں وہ سارے پہلو شامل ہیں جن کی اسلام تلقین کرتا ہے، مثلاًاگر ملازم ہے تو رشوت نہیں لیتا، اپنے اوقاتِ کار میں ڈنڈی نہیں مارتا۔ اپنا کام وقت پر پورا کرتا ہے۔ دفتر کے جن اُمور کا وہ رازداں ہے ،اسے دوسروں سے بیان نہیں کرتا۔ دفتر کی چیزیں ذاتی استعمال کے لیے گھر نہیں لے جاتا۔ اگر تاجر ہے تو اچھے مال کے ساتھ خراب مال ملا کر نہیں بیچتا، جھوٹی قسمیں نہیں کھاتا، ٹیکس چھپانے کے لیے دُہرے حساب کھاتے نہیں رکھتا۔ناجائز منافع نہیں لیتا، ملازمین پر زیادتی نہیں کرتا۔ اگر سیاست دان ہے تو وہ اقتدار میں آنے کے لیے یا اقتدار میں آکر عوام سے جھوٹ نہیں بولتا۔ قومی منصوبوں پر ذاتی فوائد حاصل نہیں کرتا۔ اپنی عیاشیوں یا بدانتظامیوں کا ایندھن بنانے کے لیے عوام پر ناجائز ٹیکس نہیں لگاتا، ظلم نہیں کرتا۔ مظلوموں کی دادرسی میں کوتاہی نہیں کرتا اور لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں مَیں نے سیاست دانوں، دانش وروں، صحافیوں، دوستوں اور کئی سرکاری ملازمین سے یہ سوال کیا کہ: ’’پاکستان میں کتنے فی صد لوگ حلال کھا رہے ہیں؟ تو پہلا جواب ہوتا تھا زیادہ نہیں ۲۰، ۲۵ فی صد لوگ ہوں گے۔ جب میں ’اکل حلال‘ کا مفہوم بیان کرتا تو وہ کہتے کہ: ایسے ۵ ، ۱۰ فی صد بھی نہیں ہوں گے‘‘۔ کسی نے کہا: ’’۲ فی صدبھی نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا جواب سن کر دل کو دھچکا لگا۔ ان کا جواب تھا: ’’صفر اعشاریہ صفر ایک فی صد‘‘۔ہوسکتا ہے کہ اپنے یا چند اور محکموں مثلاً پولیس کے معاملے میں ان کا جواب درست ہو،لیکن پورے ملک کی آبادی پر اس کا انطباق درست نہیں ہوگا۔تمام تر خرابیوں کے باوجود اس ملک میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں، لیکن آٹے میں نمک کے برابر، اور یہ نمک آٹے کو ذائقہ دے رہا ہے۔

ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ نظامِ تعلیم مغرب کے ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے، جو اپنی اقدار سے ناآشنا، اپنے ماضی سے کٹے ہوئے، قرآن و حدیث سے نابلد، بلکہ دینی ہدایات پر شرمسار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو سب سے بڑا اثاثہ بن سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی اداروں سے عموماً ڈگری یافتہ جُہل نکل رہا ہے۔ تعلیم، حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن کسی حکومت نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ پورے ملک کا نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے، مگر یہاں تو تقسیم در تقسیم کا منظرچھایا ہوا ہے۔   ان متحارب اور متضاد طبقوں کو جوڑ کر ایک مضبوط اور باوقار قوم کیسے بن سکتی ہے؟

اسلام عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، جب کہ پاکستان میں عدل کے بجاے ظلم کا نظام رائج ہے۔ ججوں کے افعال، کردار اور اعمال و معاملات کی جو کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ اچھوں کے ساتھ بددیانت، خائن، جھوٹے، نااہل اور نالائق لوگ بھی ججوں کے منصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔ ججوں کے انتخاب کے طریقۂ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ابھی تک فوری اور سستے انصاف کی منزل سے بہت دُور ہیں۔

پولیس ظلم،ناانصافی، رشوت ستانی اور لُوٹ مار کی علامت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ پولیس میں دیانت دار، محنتی اور فرض شناس اہل کار اور افسر بھی موجود ہیں، لیکن عام طور پر تاثر یہی سننے میں آیا ہے کہ پولیس مجرموں کو تحفظ دیتی ہے بلکہ جرائم کے فروغ کا سبب ہے۔ پولیس کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ ظالم، مظلوم کی تو صرف دنیا بگاڑتا ہے جو چند روزہ ہے، لیکن اپنی آخرت بھی بگاڑ لیتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔حکمرانوں کو اور وردی والوں کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلواروں کی نہیں، محبت اور عمل کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور کراچی میں ایک نیا کلچر جنم لے چکا ہے۔ ان بڑے اور چند چھوٹے شہروں میں بھی بزنس مین اور سیاست دان سرکاریا افسروں سے کام نکلوانے، صحافیوں سے اپنی پبلسٹی کرانے، وزیروں اور اہم شخصیات سے اپنے روابط بڑھانے کے لیے   ناچ گانے کی محفلوں اور شباب و شراب کے حربوں سے کام نکلواتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ   دنیا کی محبت دل کا اندھیرا ہے، اور سنت کی پیروی اور دین سے محبت، ابدی زندگی کا نُور ہے۔ جائز کمائی انسان خود کھاتا ہے اور ناجائز کمائی انسان کو کھا جاتی ہے۔ تمام گناہوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔

پاکستان میں پہلے روز سے بیوروکریسی کی حکومت رہی ہے۔ صرف ایک زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کی اس حکمرانی کو حدود میں رکھا تھا، لیکن اس میں بھی براہِ راست بھرتی کا نظام رائج کر کے انھوں نے بیوروکریسی کو ملک کے بجاے حکمران جماعت کا غلام بنا دیا، جسے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک بیوروکریسی کی عیاشیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ عوامی حقوق کا کسی کوپاس نہیں ہے۔

شہروں میں گندگیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ پانی اور بجلی کے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور حکمران عوام کے پیسوں سے شان دار کاروں میں گھوم رہے ہیں۔
ہرآنے والی حکومت پہلے سے زیادہ نالائق ثابت ہوتی ہے۔ پہلی وجہ سیاسی جماعتوں کا موروثی بن جانا ہے۔ دوسری وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ مغرب میں جس طرح حکمران جماعت کابینہ تشکیل دیتی ہے، اسی طرح اپوزیشن جماعت شیڈو کابینہ بناتی ہے۔ شیڈو کابینہ کے ارکان اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح کابینہ کے ارکان کام کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی ہرپالیسی ، ڈائرکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں، متبادل پالیسی پیش کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن جو بھی کسی منصوبے کے لیے پالیسی کا اعلان کرتی ہے تو نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائے گی؟ نیا ٹیکس لگایا جائے گا؟ یا کسی اور ادارے میں کٹوتی کرکے رقم لائی جائے گی۔

پاکستان میں آج تک میں نے یہ مشق نہیں دیکھی، جس کی بناپر کرپشن آسان ہوجاتی ہے۔ آج حکومت اور نیب بڑی سرگرمی دکھا رہی ہے کہ ’قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پکڑیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کو کیوں نہیں روکا گیا؟ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیوں نہیں ہے؟ ایسے معاہدے کیوں کرائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالتوں سے بھاری جرمانے ہوتے ہیں؟ منصوبوں کے اخراجات کئی گنا اچانک بڑھ جاتے ہیں۔

مغربی اقوام کی خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ خود ظلم برداشت نہیں کرتیں، ظالم کے خلاف متحد ہوجاتی ہیں۔ ظالم کا دست و بازو نہیں بنتیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ دوسری اقوام پر حکمرانی کر رہی ہوں تو ظلم کی انتہا کردیتی ہیں۔ ہندستان اور افریقہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں___ طوفان آجائے، جنگ چھڑ جائے،غرض کوئی آفت آجائے وہ فوراً منظم ہوجاتی ہیں۔

ہم اخلاقی پستی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیںجہاں بعثت کے وقت عرب بدو بھی نہیں پہنچے تھے۔ ان میں غیرت تھی، حمیت تھی، جھوٹ کو نہایت بُرا سمجھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بُرائی بچیوں کو زندہ دفن کرنا تھا۔ آج ہم جعلی ادویات اور کھانے میں ملاوٹ کے ذریعے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سب کو مار رہے ہیں، حالانکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

دوسری طرف پاکستا نی نہایت باصلاحیت ہیں۔ معمولی سی تربیت سے وہ کٹھن سے کٹھن کام بآسانی انجام دے لیتے ہیں۔بدقسمتی سے حکمرانوں کو شعورہی نہیں ہے کہ وہ قوم کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟
ا س ملک پر اللہ کا فضل اور آقا علیہ السلام کا کرم ہے کہ اس میں اصلاح کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لوگوں کو اگر مجبور نہ کیا جائے تو اکثریت بُرائی سے بچنے کو ترجیح دے گی اور ’اکل حلال‘ پر قانع ہوگی۔ سمجھنا اور عام کرنا چاہیے کہ ناپاک ، ناجائز اور حرام ذرائع سے کمائے گئے پیسوں سے بنائے گئے کپڑوں میں نہ نماز قبول ہوتی ہے، نہ روزہ اور نہ زکوٰۃ و حج۔

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قوم ان سیاست دانوں کا اتباع ترک کردے، جنھیں شیطان بھی چھوڑ چکا ہے۔ شیطان تین قسم کے لوگوں کا پیچھا نہیں کرتا:۱- جو اپنی تعریف آپ کرتا ہو،۲- جو اپنے چھوٹے سے کام کو بڑا کرکے دکھائے ، اور۳- جو گناہ کر کے بھول جائے

چاروں طرف پہاڑوں سے گھرے ازبکستان [آبادی: ایک کروڑ ۸۴ لاکھ اور رقبہ ۲۷ لاکھ ۲۴ہزار ۹۰۰ مربع کلومیٹر] کے درو دیوار خاصی حد تک کشمیر سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سفر سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا سے زیادہ وسطی ایشیا کے قریب ہے۔ فن تعمیر، رہن سہن، خوراک، غرض ہر چیز میں کشمیر کی پرچھائیں نظر آتی ہیں۔ تاشقند اور سمر قند کے درمیان ۴۵۰کلومیٹر طویل شاہراہ پر سڑک کے دونوں اطراف درختوں کی ایستادہ قطاریں سرینگر، بارہمولہ، مظفر آباد روڈ کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

ایرانی نژاد میر سیّد علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]نے بھی اسی خطے کو وطن بنایا۔ وہ  سات سو مبلغوں اور ہنرمندوں کے قافلے کے ساتھ وادیِ کشمیر میں تشریف لائے، جو جنوبی ایشیا کا خطہ ہے۔یہاں پر بڑی تعداد میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن سیّدعلی ہمدانیؒ کی تبلیغ سے اسلام کی پناہ میں آگئے۔ ان کی آخری آرام گاہ تاجکستان کے شہر کلوب میں ہے۔ پھر بخارا کے نواح میں سلسلۂ نقشبندیہ کے بانی محمد بہاؤالدین نقشبندیؒ [۱۳۲۷ء- ۱۳۹۰ء]کا مزار ہے۔ سمر قند اور بخارا میں خانقاہوں کی کثر ت ہے، جن کی حالت اس وقت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ کسی زمانے میں تلاشِ حق کے مسافروں، صوفیوں اور درویشوں کی پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایک معمر ازبک تیمور تیلیفوف کے مطابق: ’’انیسویں صدی تک یہ خانقاہیں ، ان درویشوں سے آباد رہتی تھیں، جو ترکی اور جنوبی ایشیا سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے ازبکستان کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ درویشوں کی آمد ایک طرح سے جشن کا سا ماحول بنادیتی تھی اور ان کو کھانا وغیرہ پہنچانے کے لیے مقامی آبادی میں مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ اشتراکی روس کے استبدادی اور سامراجی دور میں خانقاہوں پر تالے لگائے گئے۔ سرحدیں بند ہوگئیں، لوگوں کا آنا جانا بند کردیاگیا ۔ اس طرح تمدن و تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ٹوٹ گئے۔

سکندر اعظم [م:۳۲۳ ق م]اور چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء]کے گھوڑوں کی ٹاپیں، امیرتیمور[۱۴۰۵ء] کی جلالی نگاہیں، محمد شیبانی خان [م: ۱۵۱۰ء]اور مغل شاہزادے ظہیرالدین بابر [م:۱۵۳۰ء]کی معرکہ آرائیاں اور پھر گذشتہ صدی عیسوی کے چوتھے  عشرے میں اشتراکی روسی فوج کی بمباری، ازبکستان کی تاریخ کے سنگ ِ میل ہیں۔ یہ ملک ایک طرح سے قدیم اور وسطی دور کی شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ اناطولیہ (ترکی)اور بحر روم سے چین اور دوسری طرف جنوبی ایشیا سے یورپ و افریقہ کو ملانے والی شاہراہیں سمر قند کے ریگستانی چوراہے پر بغل گیر ہو جاتی تھیں۔ موجودہ ازبک صدر شوکت مرزیوف کے مطابق: ’’ازبکستان، چین کے ’بلٹ روڑ پروجیکٹ ‘ کے مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنے گا‘‘۔ ازبکستان ترکی کی قیادت میں ترک کونسل کا ممبر بھی بننے والا ہے۔ ترک نسل کے ملکوں پر مشتمل اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان اور ترکی شامل ہیں، جو مشترکہ تہذیب، وراثت، شناخت اورکلچرکی پاسداری کے لیے یک جا ہوئے ہیں۔

ازبکستان کی فرغانہ وادی سے ہی نوجوان سردار ظہیر الدین بابر نے پامیر اور ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرکے پہلے کابل اور پھر درۂ خیبر کو عبور کرکے ۱۵۲۶ء میں دہلی پر قبضہ کرکے مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے قبل بابر کا پایۂ تخت سمر قند ہی تھا، مگر ازبک سردار شیبانی خان نے اس کو شکست دے کر کابل کی طرف بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بابر کے جد امجد امیر تیمور کو ازبکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ تاشقند کی ایک خوب صورت سبز گنبد والی عمارت میں امیر تیمور میوزیم ہے۔ یہاں امیر تیمور سے متعلق پانچ ہزار نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں جس دوسرے مقام پر بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، وہ خوست امام چوک کے پاس لائبریری میوزم ہے۔ یہاں وہ قرآن شریف کا نسخہ محفوظ ہے، جس کی حضرت عثمان غنیؓ شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔ ہرن کی کھال پر تحریر قرآن شریف کے اس نادر نسخے کے اوراق پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔

میں شیشے میں بند اس نسخے کو دیکھنے میں محو تھا ، کہ میوزم کے ایک ملازم عظمت اکمتوف نے پوچھاکہ: ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا، تو اس نے دوسرا سوال داغا، کہ: ’کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو؟‘ پھر خود ہی ازبک لہجے میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںپوچھا کہ: ’کیا تم حنفی ہو؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’میں حضرت عثمان غنیؓ کے مسلک سے ہوں‘۔ وہ شاید ابھی جواب تول ہی رہا تھا، کہ میں نے پوچھا کہ: ’حضرت عثمانؓ کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آخر زچ ہوکر پوچھا کہ: ’تم کس ملک سے تعلق رکھتے ہو، ہندستان یا پاکستان؟‘ میں نے کہا: ’کشمیر سے ہوں‘۔ وہ پھر بغلیں جھانک کر کشمیر کے محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ افسوس کہ پچھلی ایک صدی میں جس طرح سرحدوں نے روابط کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، اس سے یہ ازبک شخص کشمیر کے نام سے ہی واقف نہیں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ: ’’قرآن شریف کا یہ نسخہ امیر تیمور، سمرقند لے کر آگیا تھا۔ لیکن ۱۸۶۸ء میں روسیوں نے اس کو ماسکو منتقل کیا۔ پھر ۱۹۲۴ء میں لینن نے ترکستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ نسخہ تاشقند بھیج دیا‘‘۔ اس میوزیم میں اور بھی نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔

تاشقند میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ،۱۹۶۵ءکی جنگ ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند معاہدے پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اسی شہر میں صدر پاکستان ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ پانچ ماہ بعد وہ وزارت سے الگ ہوگئے، اور دسمبر ۱۹۶۷ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بنالی اور چند برسوں میں وزیراعظم بن گئے۔

جہاں تاشقند میں اشتراکی حکمرانی کے آثار ابھی تک نظر آتے ہیں، وہاں سمر قند میں    ان آثار کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے ان قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو محفوظ بنانے، ان کی روایتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت رقم خرچ کی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کے دوران ایک پہاڑی پر موجود قلعے کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ نے کہا کہ: ’’یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ اس ۲۶۵۰سالہ قدیم شہر کا اصل نام افراسیاب تھا‘‘۔ مسلم دنیا کے موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور ان کے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔

سمرقند کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرے کے تہہ خانے میں ہیں، مگر اس کے دروازے پر سخت پہرا ہے۔ گائیڈ نے بتایا: ’’۱۹۴۱ء میں کمیونسٹ حکومت نے اس مقبرے کی کھدائی کرکے امیر تیمور کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کو بہت روکا، مگر وہ باز نہ آئے، اور باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے کمیونسٹ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور وہ روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد روسی آمر اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزاز کے ساتھ مقبرے میں دفن کرکے تہہ خانے کو سیل کردیا۔ اس کے ایک ماہ بعدہی کمیونسٹ فوجوں نے وولگو گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں نسل پرست جرمنوں کی کمر توڑ دی، اور پھر جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی‘‘۔

سمر قند،الجبرا کے موجد محمد ابن موسیٰ خوارزمی [م: ۸۵۰ء]اور مشہور سائنس دان بوعلی سینا [م: ۱۰۳۷ء] کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے جس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مزارِ تیمور سے کچھ دُور، جو ریگستانی چوراہا ہے، وہ قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ جہاں پر نہ صرف اشیا کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں، امیر تیمور کے روحانی پیشوا  شیخ برہان الدین اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی  آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرے تک جانے کے لیے تقریباً ۴۰سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اسی گائیڈ نے بتایا: ’’سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت اس کے پایہ گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہییں‘‘۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا اور ہرسیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار کرنا بھی دماغی ورزش اور منفرد مصروفیت ہے۔

سمر قند کے نواح میں تقریباً ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالی شان روضہ  فنِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، عجائب گھر، لائبریری اور یونی ورسٹی ہے۔ امام بخاریؒ نے احادیث جمع کرکے اور ان کو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشتراکی دورِ حکومت میں یہ روضہ بند کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں جب انڈونیشیا کے صدر [۶۷-۱۹۴۵ء] احمدسوکارنو [م:۱۹۷۰ء] ماسکو کے دورے پر آئے، تو انھوں نے امام بخاریؒ کے روضے پر جانے کو خواہش ظاہر کی۔ فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران ، روٖضے پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو اشتراکی حکام نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی مقر رکی۔ ۱۹۹۸ء میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصے میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا پانی شفا بخش ہے۔

ہوٹل سے تاشقند ایرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے بڑی عمر کے ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ: ’’اشتراکی دور حکومت کی زندگی کیسی تھی؟‘‘ تو اس نے کہا: ـ’’کہ ایک آہنی خول تھا،  ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی، چاہے تحریر ، تقریر یا آپس میں ذاتی سطح پر گفتگو ہی کیوں نہ ہو۔ قطار میں کھڑے ہوکر زندگی گزارنا ہی زندگی کا مستقل حصہ تھا۔ راشن لینے سے لے کر ہر چیز حاصل کرنے کے لیے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ بلاشبہہ اس زمانے میں بھونکنے، یعنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تو پابندی تھی، مگر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا،   نہ کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف ۱۰۰روبل میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا، مگر اس وقت سو روبل بچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب میرے پاس لاکھوں روبل ہیں، مگر میں ماسکو کا ہوائی ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس اور غم نہیں، کیوں کہ اب ہم آزاد تو ہیں۔ میں دل کھول کر آپ سے بات کرسکتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوؤں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے‘‘۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میں پہلے مارشل لا نافذ ہوتے و قت حکومتی پابندیوں کی مناسبت سے قدرت اللہ شہاب اور قرۃ العین حیدر کے درمیان مکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی نے بڑے کرب سے کہا تھا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ [شہاب نامہ، ص۵۱۳]۔ ازبک بزرگ ڈرائیور کے دہرائے ہوئے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہے تھے: ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔‘

مئی ۲۰۱۴ءکو جب پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف ،نئی دہلی کے صدارتی محل میں، بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں مَیں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ: ’’چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانیؒ کی ۷۰۰سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان بھی اس کا حصہ بن جائیں‘‘۔ اگلے دن دونوں وزراے اعظم کی ملاقات طے تھی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سے کشمیر کا وسط ایشیا کے ساتھ رشتہ استوار ہوجاتا۔ اس طرح اعتماد سازی کے طور پر عوامی سطح پر اچھے اثرات نمایاں ہوتے۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ گفتگو میں میاں صاحب کے توجہ دینے کا دورانیہ نہایت ہی   کم ہے اور انھیں ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اس کے محرکات گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاست دان موقع و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات حاصل کرنے میں پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہونے والے میر سید علی ہمدانی ؒنے وسط ایشیا کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے انھوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ اقبال نے کہا ہے:

تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
 دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است

[میرا بدن ، کشمیر کی جنّت میں کیاری کا ایک پھول ہے، دل حریم حجاز سے آباد ہے اور میری نوا، شیراز سے اثر لیتی ہے۔ پیامِ مشرق]

 مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی
 برہمن زادۂ رمز آشنائے روم وتبریز است

[مجھے دیکھ کہ، ہندستان میں تجھے میرے سوا کوئی اور ایسا برہمن زادہ نہیں ملے گا، جو مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کی رمز طریقت و تصوف سے باخبر ہو۔ زبورِعجم]

میر سید علی ہمدانیؒ تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انھوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پر آج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے ’اسلامی مراکز تعلیم و تربیت‘ تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنھیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے:

 سیّد السادات ، سالار عجم
 دست او معمار تقدیر اُمم

[(سیّد علی ہمدانیؒ) عجم کے سردار اور سیّدوں کے قائد ہیں کہ جنھوں نے یہاں بسنے والی اُمتوں کی تقدیر بنا ڈالی۔ جاوید نامہ]

مجھے یقین تھا، چونکہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کو سفارتی سطح پر راستے نکالنے کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیوںکہ چند ماہ قبل تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے خونیں پس منظر کے باعث کئی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چونکہ صوفی بزرگ سید ہمدانیؒ کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، اس لیے بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اس میں کشمیر کو شامل کرنا ، بین الاقوامی دانش وروں کی وادیِ کشمیر میں آمدورفت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ دونوں ممالک وسط ایشیا کے ساتھ صوفی بزرگ کی اس عظیم شخصیت کو علامت کے طور پر نمایاں کر سکتے تھے۔ 

اس صورت حال میں کشمیر کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنے کا عمل ایک نئی جہت دے سکتا تھا۔معروف اسکالر اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق واحد کے بقول: ’’وسط ایشیا کے دورے کے دوران میں قائل ہو گیا تھاکہ کشمیر، جنوبی ایشیا کے بجاے وسط ایشیا کے زیادہ قریب ہے۔ کھانے پینے کی عادتیں، کلچر ، آرٹ، فن تعمیر، غرض قدم قدم پر وسط ایشیا میں کشمیر ہی کی جھلک نظر آتی تھی۔ ایک عشرہ قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطے کو دنیا کی ’خوب صورت ترین جیل‘ قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا، مگر اس کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لیے۔ اشتراکی روسی اقتدار میں تاجکستان، کشمیریوں سے دُور ہوگیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒکی آرام گاہ تک ان کی رسائی بند ہوگئی۔ بعد میں کاشغر  تک آنا جانا بھی بند ہوگیا ، جہاں سے کشمیری قالین اور شالوں کے لیے خام مال فراہم ہوتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد ایسا قہر ڈھایا گیا، کہ لائن آف کنٹرول نے زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچ ڈالی۔ بلاشبہہ پچھلی چار صدیوں سے ہی اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہ گزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان میں طمانیت کا کچھ احساس تھا۔ لیکن لائن آف کنٹرول نے وہ سبھی روابط منقطع کر دیے۔
اس سامراجی جبر واستبداد سے شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں تقسیم شدہ خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرا بندی اور بھارتی فوجی ارتکاز نے خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ prison mindset یا اسیرانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس ذہنیت کے شکار لوگوں کا حکمران کے ساتھ رشتہ وہی ہوتا ہے، جو ایک قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور دانش وررں سے میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ: ’’اگر آپ کشمیر کی سڑکوں پر سونا بھی بچھا دیں، مگر اس اسیرانہ ذہنیت کا علاج     نہ کریں، تو شاید ہی کبھی حالات بہتر ہوں‘‘۔ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ: ’’اگر بھارت کو آزادی کے نعرے کا توڑ کرنا ہے تو اسے ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے، جہاں عوام نفسیاتی طور پر کشادگی محسوس کریں‘‘۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات معمول پر آجائیں، تو دونوں ممالک کو وادیِ کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ روابط کو بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ قازقستان سے بذریعہ کشمیر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی فائلوں میں پڑا ہوا ہے، جس کو میز پر لانے کی ضرورت ہے۔

آج خلیجی ممالک میں توانائی اور ایندھن کے ذرائع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، جب کہ  وسط ایشیائی ممالک توانائی کے حصول کے متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ازبکستان میں دنیا کے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور یہ بجلی برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس صدی کے اواخر تک پانی کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے تاجکستان ایک طاقت ور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تب تک پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہوں گے، اور سبھی کو تاجکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط کو استوار کرنا سبھی کے مفاد میں ہے اور اگر ان روابط کے لیے کشمیر کو ذریعہ بنایا جائے، تو یہ خطے کے لیے ایک صدر دروازہ ثابت ہوگا۔

۱۹۴۷ء میں بھارت کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی۔ وہاں مسلمان لگ بھگ ۲۰ کروڑ سے زیادہ آباداور ان کی آبادی ۱۵فی صد ہے۔ پاکستان کے حصے میں محض ۲ فی صد غیر مسلم ہیں۔ پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی اسلام بحیثیت’نظام‘ نافذ نہیں ہو سکا ۔ بھارت جو دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے، وہاں ہزاروں بارسیکولر ازام اور جمہوریت کے ٹکڑے کیے جاچکے ہیں۔ سیکولرازم کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود ہندستان نے اسے نمایش کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر ہر چھوٹی بڑی اقلیت کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کی آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، تاہم عملاً سب قول اور فعل کا تضاد ہے۔

اگست ۱۹۴۷ء میں کانگریس کی جانب سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھارتی آئین کو سیکولرازم کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا، لیکن موجودہ وزیر اعظم کی قیادت میں بننے والی حکومت نے آئین کو ’ہندوتوا‘ کی خوف ناک چادر میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔جس کی جڑیں اس قدر مضبوط کی جا رہی ہیں کہ اب وہاں کی اقلیتیں خوف کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ’ہندوتوا‘ کا نظریہ موجودہ ’بی جے پی‘ حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک کام کیا، جس دوران سیکڑوں فسادات رُونما ہوئے، اقلیتوں سے وابستہ لوگوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، بے شمار مظالم کا نشانہ بنایا گیا، جس کی ایک تازہ مثال تبریزانصاری کی دردناک موت بھی ہے۔

بھارت میں اقلیتوں سے وابستہ نوجوانوں کو اپنے شکنجے میں لے کر بے رحمی کے ساتھ پیٹنا، مارنا، اپاہج بنادینا اور جیلوں میں ڈال دینا عام ہوتا جارہا ہے ۔ دراصل بھارت میں منظم طور پر،  ایک دردناک ’ہجومی قتل‘ (Mob Killing) کے ذریعے ایک ماحول اس مقولے کے مصداق بنایا جاتا ہے کہ: ’’مارنے سے پہلے بُرا نام دو‘‘۔ اس طرح نہتے مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواز گھڑا جا رہا ہے ۔ کسی مخالف کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پہلے گھنائونے الزامات لگائے جاتے ہیں، جیسے بھارت کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف کیا گیا اور انھیں دہشت گردی کے ساتھ جوڑ ا گیا۔ اسی طرح تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ اخلاق کو یہ کہہ کر ہجوم نے موت کے گھاٹ اُتار دیا کہ اس گھر میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا شک پایا گیاتھا، جب کہ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ مقتول کے گھر میں گائے کا کوئی گوشت نہیں تھا۔ اسی طرح پہلو خان کو یکم اپریل ۲۰۱۷ء کو گائورکھشا کے نام پر قتل کر ڈالاگیا۔ ٹرک ڈارئیور  زاہد احمد بٹ اور معصوم حافظ جنید کے دردناک قتل کے واقعات بھی اسی ایجنڈے کی توسیع ہے۔

جھاڑکھنڈ میں ۲۲ سالہ تبریز انصاری کو چوری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ  کیا چوری کی سزا بھارت میں قتل ہے؟ تبریز کو بڑی بے دردی کے ساتھ مارمار کر نیم مُردہ حالت میں پولیس کے حوالے کر دیا گیا،جب کہ زرخرید پولیس نے بھی اس نوجوان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد، ہسپتا ل پہنچانے کے بجاے تھانے کی ایک کال کوٹھری میں ڈال دیا۔ جب اس کی حالت  زیادہ بگڑ گئی تو پولیس نے اسے ہسپتال پہنچایا،جہاں ڈاکٹروں نے کسی جانچ پڑتال کے بغیر ہی اسے پولیس کے حوالے کیا ، جس کے بعد یہ مظلوم نوجوان پانچ دن تک موت و حیات کی کش مکش میں تڑپ تڑپ کر انتقال کر گیا۔

دی وائر (The Wire)نیوز کے مطابق تبریز کے لواحقین میںمسرور احمد کا کہنا ہے: ’’جب ہم تبریز کو ملنے تھانے پہنچے تو ہم نے ان کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر پولیس افسر نامی بپن بہاری سنگھ سے کہا کہ تبریز کو جلد ہی ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے ‘‘۔ لیکن پولیس افسر نے غضب ناک ہو کر جواب میں کہا کہ: ’’ یہاں سے بھاگ جائو ورنہ تمھارے بھی ہاتھ پائوں تو ڑکر جیل میں ڈال دیں گے ‘‘۔ 

غرض گائے ،جے شری رام ،وندے ماترم ،بھارت ماتا کی جے کے نام پر آج ہندستان میں مسلمان کو قتل کرنا آسان کام ہے، جہاں محض ایک آدھ الزام لگا کر کسی نہتے معصوم کو ہجوم کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس جیسے قتل کو اب عام زبان میںMob Lynching(ہجومی تشدد ) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی اصطلاحات سے مقتدرہ فسطائی حکمرانوں کو تنقید سے بچنے کا موقع ملتا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کو ماب لینچنگ (ہجومی تشدد) نہیں بلکہ اس کو Mobalize Lynching (متحرک تشدد) اور Political Lynching (سیاسی تشدد)کہا جانا چاہیے۔ کیوں کہ ابھی تک اس طرح کے ہجومی قاتلوں کو عبرتناک سزا نہیں ملی ہے۔ اگر کسی کو وقتی طور گرفتار کر بھی لیاجاتا ہے تو چند ماہ کے بعد ان کی رہائی کے انتظامات کر کے پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔

بھارتی ہجومی قاتلوں کو بچانے کی مثالیں بے شمار ہیں۔ پہلو خان کے چار قاتلوں کو سرکاری نوکریوں سے نوازا گیا، اور پرگیا سنگھ ٹھاکرجیسی مجرمہ اور قاتلہ بلکہ گجرات میں ہزاروںبے گناہ انسانوں کی قاتل، آج مسند اقتدار پر براجمان ہے ۔ان سارے کربناک مظالم کے خلاف کبھی کبھی بھارت میں مسلمانوں کی کمزور سی آوازیں سُننے کو ملتی ہیں، لیکن وہ ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اگر پہنچ پاتی ہیں تو حاکم وقت گھما پھرا کر اُلٹا الزام مقتولین پر ہی دھرتے ہیں ۔بھارتی آئین کی دفعہ۱۹ عوام کو اظہارِ آزادی راے کا حق دیتی ہے ۔لیکن اب اس احتجاج کا حق بھی چھیناجا رہا ہے۔ حکومت ِوقت کے خلاف تنقید کرنا اب ملک دشمنی میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کے مظلومانہ قتل کے بعد الٹا مقتولین ہی کو گناہ گار کہہ کر دیش ورودھی ،انٹی نیشنل اور پاکستانی ایجنٹ کے القابا ت سے نوازا جاتا ہے۔ The Milli Gazette  میں شائع شدہ مضمون کے مطابق بہت سے بھگوا دہشت گرد بابری مسجد کی شہادت کو غلط نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بابری مسجدکو گرانا بھارت میں مساجد گرانے کی شروعات تھی، اصل کام تو اب شروع ہونے والا ہے‘‘ ۔گویا بھارت میں یہ طبقہ ایک ایجنڈے کے تحت اس طرح کے حالا ت خراب کرکے ہندو مسلم بھائی چارے کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ان سارے مظالم کے ردعمل میں بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چند سلیم الفطرت غیرمسلموں کی نحیف آوازیں بھی اُٹھتی ہیں۔تبریز انصاری کے دردناک واقعے کے بعد ہندستان میں بہت سارے غیر مسلموں، جن میں صحافی، وکلا اور طلبہ نے بھر پور احتجاج کیا۔مسلمانوں نے بھی بھائی چارے ،اخوت اور یکتائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندستان کے مختلف شہروں میں زور دار احتجاج کیے، جن میں خاص طور پر مہاراشٹر کے شہر مالیگائوںکا ااحتجاج ہے، جس میں مسلمانوں نے ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔ واضح رہے یہ وہی جگہ ہے جہاں انگریزوں نے ۹۷سال پہلے مجاہدین آزادی کو پھانسی دی تھی۔ آج اسی یادگار جگہ پر مسلمان بڑی تعدادمیں تبریز انصاری کے لیے انصاف کی خاطردُہایاں دیتے نظر آئے۔ بھارتی ہندستان کے زعفرانی میڈیا کو ہزاروں اور لاکھوں کا یہ احتجاج نظر نہ آئے ، لیکن دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح سے جمہوریت کی دعوے داری کرنے والے ملک میں نہتوں کا بے دردانہ طریقے سے قتل کیا جاتا ہے ۔

جس ملک میں اس طرح کی پیچیدہ صورتِ حال ہو تو وہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی ،مسلک اور جماعت پرستی سے باہر نکل کر، ایک قوم بنتے ہوئے ان سارے مظالم کا حکمت سے مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا، اور اُن مسلمانوں کو بھی ہوش کے نا خن لینے ہوں گے جو شعوری یا غیر شعوری طور ’ہندوتوا‘ ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ اسی دین فطرت کی طرف لوٹیںجو امن ،بھائی چارہ ہمدردی و غم خواری کا درس دیتا ہے ۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارت کی تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بڑی ہی حکمت اور بہادری سے استعمال میں لاکراس ظلم کے خلاف بیداری کی مہمات چلانا چاہییں،تاکہ ہمیں کسی اور تبریز کی مظلومانا شہادت کو نہ دیکھنا پڑے۔

گذشتہ  جون میں امریکا کے سفر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز سے طویل نشست ہوئی۔ اس دورا ن بہت سے مسائل پر تفصیلی گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ ان احباب میں  عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن ڈاکٹر خالد اعوان صاحب بھی شامل تھے۔ وہ الحمدللہ، تفسیر وحدیث اور اسلام کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، نیز عہدحاضر میں قرآن وحدیث کی تطبیق (application)کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ ان مجلسوں میں زیرِ بحث امور کے دوران میں پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور کردہ بعنوان Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 [ماوراے صنف (تحفظ حقوق) قانون ۲۰۱۸ء] بھی زیرِ بحث آیا۔

پہلے یہ قانون ایک بل کی شکل میں ۷مارچ ۲۰۱۸ءکو سینیٹ آف پاکستان نے منظور کیا تھا، جسے چار سینیٹروں: روبینہ خالد (پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا)، روبینہ عرفان (مسلم لیگ، ق، بلوچستان)، کلثوم پروین (مسلم لیگ، ن، بلوچستان) اور سینیٹر مسٹر کریم احمد خواجہ (پیپلزپارٹی، سندھ) نے پیش کیا تھا۔ہرقانون کی طرح بظاہر یہ بل بھی ’تحفظِ حقوق‘ کے نام پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے پیچھے (Lesbians, Gays, Bisexual and Transgender) LGBT نامی عالمی تنظیم کا ایجنڈا ہے۔

یاد رہے کہ فضا بنانے کے لیے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے زیراثر این جی اوز نے چند سال پہلے ’تنظیم اتحادِ امت‘ کے زیر انتظام بعض علما سے یہ فتویٰ حاصل کیا تھا: ’’ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ کہ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں، عام عورتیں اور ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں ، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں۔ اور ایسے خواجہ سرا کہ جن میں مردوزن دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں، انھیں شریعت میں خُنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے، ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں ہے۔[پھر یہ کہ] خواجہ سرائوں کا جایداد میں حصہ مقرر ہے‘‘۔{ FR 644 } ہمیں حُسنِ ظن ہے کہ ان مفتیانِ کرام نے مذکورہ اُمور کو نہ تو پوری معنویت کے ساتھ پڑھا اور سمجھا ہوگا، اور نہ انھیں اس کے محرکات اور مابعد اثرات کا اندازہ ہوگا۔ ایک بڑی واضح سی بات ہے کہ جس شخص میں مردانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ مرد ہے اور جس میں زنانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ عورت ہے، اس پر خواجہ سرا کا اطلاق بے معنی ہے۔تاہم مرد خصوصیات اور عورت خصوصیات والے ماوراے صنف الگ الگ لوگ بھی ہوتے ہیں۔

امریکا میں مذکورہ بالا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے بقول: ’’ہم جنس پسندوں کے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ پر مذکورہ بالا فتوے کو اپنی ’فتح‘ سے تعبیر کیا اور کہا: ’’مسلم علما نے ’ماوراے صنف افراد‘ (Transgenders) کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں ‘‘۔ لندن کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے لکھا:’’پاکستان میں ’ماوراے صنف افراد‘ کا اب تک آپس میں شادی کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہاں عملِ قومِ لوط کے مرتکب افراد کو باہم شادی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ‘‘ ۔{ FR 648 } یعنی ٹیلی گراف نے ’ہیجڑہ ‘کا ترجمہ ’Transgender‘کر کے فتویٰ کو عملِ قومِ لوط کے ہر قسم کے عمل کے جواز اور اجازت پر محمول کردیا۔ یاد رہے LGBT  آرگنائزیشن کے نام میں  Lesbian=Lسے مراد ہم جنس زدہ مَساحقہ عورتیں ہیں اور Gays=Gسے مراد ہم جنس زدہ مرد ہیں، Bisexual=Bسے مراد جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق رکھیں، اور Transgender=T سے  مراد خواجہ سرا ہیں۔ عام طور پر LGBT سے ’ہم جنس پسند‘ مراد لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کے لیے دواور اصطلاحیں بھی استعمال ہوتی ہیں:

ایک’ زنخا‘ یا ’اُختہ‘ کو انگریزی میں Eunuchکہتے ہیں۔ یہ لوگ مردانہ جنسی اعضا کے ساتھ پیدا ہوئے ،مگر بلوغت سے پہلے جنسی اعضا کو خصی کردیا، یا کٹوا ڈالتے ہیں۔

اور Hermaphroditeپیدایشی طور پر جدا صفات کا حامل ہوتا ہے، جس میں دونوں اصناف کی مرکب علامات پائی جاتی ہیں، اور یہ بہت نایاب قسم ہے۔

جب کہ ’ماوراے صنف‘ (Transgender)کا مطلب ہے: ’’وہ افراد جو پیدایشی طور پر جنسی اعضایا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش میں ،ان جیسی عادات واطوار اور لباس اختیارکرلیتے ہیں اور پھر تبدیلی کے لیے ڈاکٹروں کی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں تو ڈاکٹر، مرد کو عورت کے اور عورت کو مرد کے ہارمونز بھی کچھ عرصے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔  کچھ مزید آگے بڑھ کر پلاسٹک سرجری سے نسوانی ساخت تک بناتے ہیں۔ اسی طرح مردانہ ہارمونز کے ذریعے عورت کی جسمانی ساخت وخصوصیات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ اس سے نہ تومرد میں عورت کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بچّے پیداہونے لگیںاورنہ عورت میں مرد کی سی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مگر آج مغرب میں حیرت انگیز طور پر یہ شغل رواج پارہا ہے۔

اسی فعل کو قرآن کریم نے ’تغییرِ خَلق‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب ازراہِ تکبر وحسد ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ کرتے ہوئے فرمایا:

  • تو جنت سے نکل جا، بے شک تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے۔ (الحجر۱۵: ۳۴-۳۵) l شیطان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک معیّن حصہ ضرور لوں گا، ان کولازماً گمراہ کروں گا، ان کو ضرور (جھوٹی) آرزوئوں کے جال میں پھنسائوں گا، انھیں ضرورحکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور انھیں لازماًحکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑ دیں گے۔ (النساء۴:۱۱۸-۱۱۹) lاللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، (الروم ۳۰:۳۰)___ پھر اسی بات کو حدیث پاک میں بیان کیا گیا ہے: ’’ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘۔(بخاری:۱۳۵۸ )

قدرتی طور پر کسی کا مُخَنَّث یا ہیجڑا پیدا ہونا اُس فرد کا ذاتی عیب نہیں ہے۔اس بنا پر نہ اُسے حقیر سمجھنا چاہیے اور نہ اُسے ملامت کرنا چاہیے ،کیونکہ ملامت کا جوازاس ناروا فعل پر ہوتا ہے کہ  جس کا ارتکاب کوئی اپنے اختیار سے کرے اور جسے ترک کرنے پر اُسے پوری قدرت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کسی متنفّس کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ،اُس کے لیے  اپنے کیے ہوئے ہر(نیک)عمل کی جزا ہے اورہر (بُرے) عمل کی سزا ہے ،(البقرہ۲:۲۹۶)‘‘۔ لیکن جیساکہ سطورِ بالا میں بیان کیا گیا ہے، آج مغرب میں ’ماوراے صنف‘ (Transgender) اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرتے ہیں۔ جس جنس پر اُن کی تخلیق ہوئی ہے ،مصنوعی طریقوں سے اُسے بدل دیتے ہیں۔

قومِ لوط کے بارے میں فرمایا: ’’اورلوط کویاد کروجب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہوجو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو ،بلکہ تم (حیوانوں) کی حد سے (بھی)تجاوز کرنے والے ہو‘‘(الاعراف ۷:۸۰-۸۱)۔پھر فرمایا:(۱) ’’اور ہم نے  اُن پر پتھر برسائے ،سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا‘‘ (الاعراف ۷:۸۴)‘‘۔ (۲)’’پس جب ہماراعذاب آپہنچا تو ہم نے اس بستی کا اوپر والا حصہ نیچے والا بنادیا اور ہم نے ان کے اوپر لگاتار پتھر کے کنکر برسائے جوآپ کے ربّ کی طرف سے (اپنے ہدف کے لیے) نشان زَد ہ تھے اور یہ سزا ظالموں سے کچھ دور نہ تھی‘‘ (ہود۱۱:۸۲-۸۳)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’مجھے اپنی امت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے ،وہ قومِ لوط کا عمل ہے‘‘۔ (سنن ترمذی:۱۴۵۷)

اس لیے پُرجوش مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ کسی جدید مسئلے پر فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے نتائج، اثرات اور بنیادوں پر ضرور غور فرمائیں یا اپنے اکابر سے مشاورت کرلیا کریں۔ جن باتوں کے فروغ کے پسِ پردہ این جی اوز کارفرما ہوں اور وہ اتنی مؤثر ہوں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے تساہُل اور شہرت پسندی کے سبب پارلیمنٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہوں ،تو یقینا اُن کے پیچھے عالمی ایجنڈا اور دُور رس ودیرپا مقاصد ہوتے ہیں۔پھر وہ معاملات کی تشریح اپنے مقاصد کے تحت کرتے ہیں اور ایسا کرتے وقت کسی قسم کی لفظی ہیرپھیر سے گریز نہیں کرتے۔ اسی لیے جب ایک لفظ یا اصطلاح، متعدد یا متضاد معانی کی حامل ہو تو اس کے بارے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ 
سینیٹ نے ’ماوراے صنف‘ (ٹرانس جینڈر)کے حقوق کے بارے میں بل پاس کیا۔  پھر مئی ۲۰۱۸ء میں اسے قومی اسمبلی نے منظور کرکے صدرِ پاکستان ممنون حسین صاحب کو بھیج دیا، جنھوں نے ۱۸مئی ۲۰۱۸ء کو دستخط کر کے ایکٹ (قانون) بنا دیا۔ مغرب میں ایل جی بی ٹی گروپ اس قانون کو اپنے من پسند موقف کی تائید میں استعمال کررہا ہے۔

’تحفظِ حقوقِ ماوراے صنف قانون‘ میں شرارت موجود ہے۔ دفعہ ۳میں کہا گیا ہے: ’’(۱)ایک’ماوراے صنف ہستی‘کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اُسے اس کے اپنے خیال یا گمان یا زعم (Self Perceived) کے مطابق خواجہ سرا تسلیم کیا جائے ‘‘۔ یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدایشی طور پر مردانہ خصوصیات کاحامل تھا یا زنانہ علامات کا؟ وہ اپنے بارے میں جیساگمان کرے یا وہ جیسا  بننا چاہے ، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھرذیلی سیکشن ۲میں کہا گیا ہے کہ ’نادرا‘ [قومی رجسٹریشن اتھارٹی] سمیت تمام سرکاری محکموں کو ’’اس کے اپنے دعوے کے مطابق اُسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہو گا،اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اُسے ’نادرا‘ سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘۔ اس دفعہ کے سقم کو دُور کرنے کے لیے کسی کی غیر واضح صنف کے تعین کو باقاعدہ طبی معائنے سے مشروط کر کے ہی شناختی کارڈ کا اجرا ہونا چاہیے۔

اس قانون کی یہ شق مغرب میں ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔ ’تحفظِ حقوقِ ماورا صنف قانون‘ کے نام پر یہی وہ کھڑکی ہے ،جہاں سے نقب لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں غالب یقین ہے کہ جن سینیٹروں نے یہ بل سینیٹ میں پیش کیا تھا، انھیں بھی اس کے نتائج   اور بنیادوں میں نصب بارود (Dynamite)کا علم نہیں ہوگا۔ ’عالَم غیب‘ سے ان کے ہاتھ میں ایک چیز تھمادی گئی اور انھوں نے سینیٹ میں قانون سازی کے لیے تحریک پیش کردی۔

اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدایش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں ،انھی کے مطابق ان کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے ،لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقاکے  طور پر کسی کی جنس میں تغیر آگیا ہے ،تو اس کا فیصلہ طبی معائنے سے ہونا چاہیے ،نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے۔ جیساکہ اس قانون میں کہا گیا ہے اور یہی عالمی سطح پر ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پذیرائی مل رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات، ہماری تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار میں بھی اس کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے پُرامن طریقے سے ان چیزوں کے بارے میں معاشرے کو بیدار کرنا اور انھیں روکنا ہرمسلمان اور پاکستانی کی ذمے داری ہے، خاص طور پر ارکانِ پارلیمنٹ پر اس کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ اپنی پارٹی کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور یا پھر وہ قانونی مسوّدوں کے اسرار ورُموز کو جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اسی لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ،تاکہ ہرمسوّدۂ قانون کا گہرا جائزہ لیا جائے۔ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے زیربحث قانون کے اثرات کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اگر کوئی مسودۂ قانون فنی امور سے متعلق ہے ،تو اس شعبے میں خصوصی مہارت رکھنے والوں کو بلاکر پارلیمنٹ کی کمیٹی رہنمائی حاصل کرے۔

اس قانون میں ایک اور تضاد یہ بھی ہے کہ دفعہ ۴ذیلی دفعہ ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ہرطرح کے سامان ،رہایش گاہ ، خدمات ، سہولتوں، فوائد ،استحقاق یا مواقع جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں ، ’ماوراے صنف‘ کے لیے اُن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ‘‘، جب کہ دفعہ ۶کی ذیلی دفعہ  ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ماوراے صنف‘ کے لیے خصوصی جیل خانے ، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں ‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells (حفاظتی حراستی مراکز) تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہونے چاہییں، لیکن عام پبلک مقامات تک اُن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہونی چاہیے ، مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ بیت الخلا اور غسل خانے میں بھی جاسکتا ہے، وغیرہ۔ الغرض، ایک طرف مردوزن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ ہے۔

یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے اور اس کے سرپرست رسائی اورتحویل میں لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں، تو عدالت اُسے ’دارالامان ‘بھیج دیتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو نومسلم ہندو لڑکیوں کو اُن کے ہندو ماں باپ کی تحویل میں دیا ، ایسے اذیت ناک ریاستی تضادات ناقابلِ فہم ہیں۔

’ماوراے صنف‘ کے لیے وراثت میں حصے کی مناسبت سے قانون کی دفعہ ۷کی ذیلی دفعہ ۳ میں کہا گیا ہے (الف): ’’۱۸ سال کی عمر کو پہنچنے پروراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ب)میں کہا گیا ہے: ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ج)میں کہا گیا ہے: ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تواُسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا، (د)میں کہا گیا ہے : ۱۸سال سے  کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعیُّن میڈیکل افسر طے کرے گا۔

اسلام میں ۱۸ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے۔اس میں عمر کے لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر مُورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی ،تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہوگا۔ نیز صنف کا تعیُّن پیدایش کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے ،اس کا تعلق کسی کے ’’اپنے گمان وخیال یا خواہش‘‘ سے نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے ،توبھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاسکتی۔یعنی کسی فرد کی اپنی خواہش  اور تصور (Self Perception) پر جنس کے تعیُّن کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دے ڈالے ،تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہوجائے گا ،شریعت میں اس کی گنجایش نہیں ہے ۔ اس لیے شریعت کی رُو سے اس قانون میں یہ بہت بڑا تضاد اور بنیادی ابہام ہے۔

یونی ورسٹی آف کیلے فورنیا،لاس اینجلس کے ولیمز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ہے: ’’۷لاکھ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنس وہ نہیں ہے، جو ان کی پیدایش کے وقت تھی ،سو وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں‘‘۔ مگر۲۰۱۵ء کی رپورٹ کے مطابق شاید سمجھنے والے لوگوں کی تعدادکافی زیادہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو ’ٹرانس جینڈر‘ یا ’ماوراے صنف‘ کہا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کو آج کل کے ماہرینِ نفسیات Gender Dysphoria(جنسی احساسِ ملامت) کہتے ہیں۔ 
’جنسی احساسِ ملامت‘ کا مطلب یہ ہے :’’ایک شخص پیدایشی طور پر جس جنسی ساخت پر پیدا ہوا ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے جنسی تشخّص سے مطابقت نہیں رکھتی ۔جو لوگ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں ،وہ ایک خاص قسم کے ’ٹرانس جینڈر‘ ہیں۔ ’جنسی احساسِ ملامت‘ کے نہ صرف نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی (بیالوجیکل) اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جنس تبدیل کروانے کا عمل ایک پیچیدہ مشق ہے، مگر ایک دعوے کے مطابق اس احساس کے متاثرین میں سے تقریباً ۵۰فی صد لوگ جنس تبدیل کروانے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔اس عمل کو تغییرِ خَلقُ اللّٰہ یعنی   اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جوقرآنِ کریم کی رُو سے شیطانی عمل ہے۔

ہم ایک بار پھر یاددہانی کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں نسوانی وضع اختیارکرنے والے مردوں اور مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے:

  • ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور اُن عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور فرمایا: انھیں اپنے گھروں سے نکال دو۔انھوں نے کہا: حضرت عمر نے بھی ایسے ایک شخص کو گھر سے نکال دیا‘‘(بخاری:۵۸۸۶)۔l’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (مسند احمد:۳۱۵۱)۔
  • ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مُخَنَّث لایا گیا جس کے ہاتھ اور پائوں پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘عرض کیا گیا: ’’یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے‘‘۔ آپ نے اُسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہم اسے قتل نہ کردیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا: مجھے مسلمانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے‘‘ (سنن ابوداؤد:۴۹۲۸)۔lحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’ایک خواجہ سرا  حضور کے گھر آیا کرتا تھا۔ ایک بار آپؐ نے اُسے ایک عورت کی جسمانی ساخت پر  گفتگو کرتے ہوئے سناتو فرمایا:اسے گھروں سے نکال دو‘‘ (ابوداؤد: ۴۹۲۹)۔ l’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنانہ لباس پہننے والے مردوں پر اور مردانہ لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد: ۴۰۹۸)

  تجارت اور کاروبار حصولِ رزق کے اہم اسباب میںسے ایک بڑا ذریعہ ہے ۔یہ وہ سبب ہے جس کی اہمیت اور افادیت ہر دور میں یکساںطور پر تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم، ایک وقت تھا کہ جب مسلمان تجارت کے میدان میں ساری قوموں سے نمایاں مقام رکھتے تھے، جس کے بہت سے دینی و دُنیوی فوائد حاصل ہوتے تھے۔ تجارتی اسفار میں دعوتِ دین بھی ان کے پیش نظر رہتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں نے تجارت کے میدان میں بھی شکست کھانا شروع کی۔

تجارت کی اہمیت

قوم کی معاشی روش میں یہ تبدیلی شاید اس وجہ سے واقع ہوئی کہ اس کی نگاہوں کے سامنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہ رہا: عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ  فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ، یعنی ’’ تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں‘‘۔ (احیاء علوم الدین ،امام غزالی ، دار ابن حزم ، بیروت، ۲۰۰۵ء، ص۵۰۴)
آج کی دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تعبیر ہر کسی کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ تجارت کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے او ر بھی ارشاداتِ مبارک موجود ہیں۔ مثلاً:جب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ ’کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ؟) تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاک بازی کے ساتھ ہو‘‘۔ گویا شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر تجارت کی جائے ۔ (مسند احمد، حدیث : ۱۷۷۲۸، بروایت رافع بن خدیجؓ)
آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے پھر اسے فروخت کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے‘‘ (بخاری، حدیث: ۲۳۷۳، بروایت زبیربن عوامؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن)   انبیا،ؑ صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۰۹، بروایت ابو سعید خدریؓ)
ان چند روایات سے تجارت کی فضیلت، روزی کے اسباب میں اس کی اہمیت، اس کے ذریعے حاصل شدہ مال کی پاکیزگی اور تاجروں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام واضح ہوتا ہے۔ باوجود ان سب بشارتوں کے، دیگر شعبوں کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی امت مسلمہ نے رسول اکرمؐ کی رہنمائی کو قبول کرنے میں عملاً کوتاہی برتی۔البتہ حال میںمسلمان ایک بار پھر تجارت کی طرف متوجہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس میں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ وہ شرعی اور اخلاقی ضابطوں سے بے نیاز ہو کر تجارت کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر و ہ نبی کریمؐ کی ہدایات کو اپنی تجارت میں داخل کرلیں،تو ان کی تجارت اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس دنیا میں بھی اس کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آخرت میں بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے انعامات سے مالامال ہوں گے۔ 
اسی مقصد کے پیش نظر اس تحریر میں تجارت کے چند بنیادی اسلامی اصولوں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاید یہ کوشش تجارت کے شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے میںکچھ کام آجائے۔ چونکہ تجارت کا علم بہت ہی دقیق ہے اور کتب حدیث وفقہ میں اس کی بہت سی جزئیات ملتی ہیں اور ان سب کا احاطہ ایک مضمون میںناممکن ہے، اس لیے یہاں صرف تجارت کے عام اصولوںپر اکتفا کیا گیا ہے۔

 تجارت کے علوم کا حصول

 سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے اس سے متعلق علوم کو سیکھنا چاہیے۔ رسول پاک ؐ کے فرمان: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم،یعنی ’’علم (دین) طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۲۴، بروایت انس بن مالکؓ) کی تشریح میں فقہا نے لکھا ہے کہ: ’’آدمی کسب ِمعاش کے لیے جو کوئی پیشہ اختیار کرے، اس کا علم حاصل کرنابھی اس پر فرض ہو جاتا ہے‘‘۔ لہٰذا، اگر کسی نے تجارت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ بیع کے مسائل اور اس کی شرطیں معلوم کرے۔
 امام غزالیؒ لکھتے ہیں: ’’اسی طرح اگرآدمی کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشے کا علم بھی اس پر واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے، جیسے کہ اگر تاجر ہے تو سود کے مسائل کا علم اس پر واجب ہوجاتا ہے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہوجاتا ہے کہ بیع کی جملہ شرائط سے واقف ہو، تاکہ بیع باطل سے    بچ سکے‘‘۔(کیمیاے سعادت،ص ۱۱۵) ۔پھر امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ: ’’بیع کے مسائل جاننا  سب پر فرض ہے، کیونکہ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑسکتا ہے، کوئی شخص اس سے بری نہیں ہوسکتا (حوالہ سابق، ص ۲۵۹)۔ انھوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں لکھا کہ: جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہیں بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لیے بھیجتے، اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے بازار میں نہیں ہونا چاہیے، یعنی تجارت نہیں کرنی چاہیے کہ لاعلمی میںحرام اور سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۵) 
امام ترمذیؒ نے حضرت عمرفاروقؓ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:’’ہمارے بازارمیں خرید و فروخت نہ کرے مگر وہ شخص جس نے دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہو‘‘۔ (سنن ترمذی)
یہاں دین کی سمجھ سے ان کی مراد ہے،معاملات اور بیع و شراء (یعنی خرید و فروخت) کے مسائل سے آگاہ ہونا۔ گویا حضرت عمرؓ کی راے میں صرف ایسے شخص کے لیے تجارت کرنا درست اور جائز ہے، جو معاملات اور بیع و شراء کے مسائل سے پوری طرح واقف ہو، کیونکہ جو شخص ان سے واقف نہیں ہوگا، وہ کاروبار میں بے اصولیاں کرے گا، جو معاشرے میں معاشی بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ اس لیے ہر مسلمان تاجر بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بیع و شراء کے مسائل کو جانے۔

 نیت کی درستی

 تجارت میں نیت کی درستی بہت ضروری ہے:

  • اوّل یہ کہ ا پنی تمام تر محنت، مشقت اور جدوجہد کے باوجودصرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے کہ رزاقِ مطلق اسی کی ذات ہے اور کسب وتجارت صرف ایک ظاہری وسیلے کے درجے کی چیز ہے اور اس کے پردے میںاللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ لہٰذا، اپنے پیشہ و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے۔ یہ شرک خفی ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ ،علامہ قطب الدین دہلوی، تدوین جدید: مولانا عبداللہ جاوید،مطبوعہ ادارہ اسلامیات، دیوبند، ۱۹۸۶ء، جلد۳، ص ۴۲۸)
  • دوم یہ کہ یہ نیت کرے کہ تجارت اس لیے کرتا ہوںتاکہ خود کی اوراہل وعیال کی معاشی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوجائیں، لوگوں کی محتاجی نہ رہے اور اس قدر فراغت میسر آجائے کہ دل جمعی کے ساتھ اللہ عزوجل کی عبادت کرسکوں۔ علما نے اس قدر کمانے کو فرض لکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے: طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ، یعنی حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے۔(الجَامِعُ لِشُعَبِ الأِیْمَانِ لِلبَیْہَقِي، حدیث: ۸۳۶۷، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ آپؐ کا ارشاد ہے: جو شخص   خود کو سوال سے بچانے، اپنے اہل و عیال (کی کفالت) کے لیے سعی کرنے اور اپنے پڑوسی پر شفقت و مہربانی کرنے کے لیے دنیا کو حلال اور جائز طریقے پر طلب کرتا ہے، وہ (بروز قیامت ) اللہ جل شانہٗ سے اس حال میںملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔ اور جو شخص کثرت مال اور ریاکاری (تفاخر) کی نیت سے حلال دنیا طلب کرتا ہے، تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ (بروایت ابوہریرہؓ)

امام غزالیؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ان لوگوں کی نگاہ ایک طاقت ور اور مضبوط جسم والے نوجوان پر پڑی، جو صبح سویرے ہی طلب معاش کے لیے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف تھا۔ بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کہ افسوس ہے اس پر، کاش! اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں صرف ہوتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو! کیوں کہ اگر وہ محنت و کوشش اس لیے کررہا ہے کہ خود کو سوال کرنے سے بچائے اور لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر وہ اس لیے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے ضعیف والدین یا کمزور و ناتواں اولاد کو لوگوں سے بے نیاز کر دے اور ان کی کفایت کرے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر وہ دوسروں پر دھونس جمانے اور کثرت مال کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہا ہے تو (یقیناً) وہ شیطان کی راہ میں ہے۔ (احیاء علوم الدین للغزالی، ص۵۰۳) 

اسی مضمون کی روایت کو حافظ سلیمان بن احمد طبرانی نے معاجم ثلاثہ میں کعب بن عجرہؓ سے، امام بیہقیؒ نے سنن الکبریٰ میں انس بن مالکؓ سے، اور امام ابن ابی الدنیاؓ نے کتاب العیال میں ابی المخارقؓ سے نقل کیا ہے۔ اختصار کے لیے صرف امام طبرانیؒ کی روایت نقل کی جاتی ہے: ایک صاحب کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا تو صحابہ کرامؓ اس کے جسم کی ساخت اور چُستی کو دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے یارسولؐ اللہ! کاش! کہ یہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ہوتا۔ رسول ؐاللہ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کی تگ و دو میں نکلا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کی کوشش میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنی ذات کو سوال و محتاجی سے بچانے کی سعی میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر اپنے گھر والوں( کی کفایت) کے لیے محنت کی خاطر نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر فخر اور ہوسِ مال کے لیے نکلا ہے تو طاغوت کی راہ میں ہے‘‘۔(المعجم الصغیر ، ج۲، ص۶۰)
مذکورہ احادیث سے جہاں کسب ِمعیشت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت سے زیادہ اس نیت سے کمانا، تاکہ عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور فقرا و مساکین کی خبرگیری کروں گا، نیز زائد مال اللہ تعالیٰ کے دین کو زندہ کرنے میں لگائوں گا، مستحب اور مندوب ہے۔ البتہ صرف مال و دولت جمع کرکے فخرو تکبر کے اظہار کے لیے زیادہ کمانا حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، ص ۴۲۶)

  • سوم یہ کہ اپنی تجارت سے حصول منفعت کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً، خدمت اور حاجت روائی کی نیت رکھے، تو اس کی تجارت عبادت کی ایک صورت بن جائے گی۔ کیونکہ کسی بھی جگہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل سے جڑی اشیا کی فراہمی کے لیے تجارت ایک ناگزیر عمل ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نظامِ زندگی کے درہم برہم ہوجانے اور انسانوں کے مصیبت میں مبتلا ہوجانے کا شدید خدشہ ہے ۔ مثلاً:اگر کسی جگہ دوا کی دکان نہ ہوتو لوگ کسی کے بیمار ہوجانے پر دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔ اگر کسی جگہ کپڑے کی تجارت نہ ہو تو لوگ کسی میت کے کفن یا دیگر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے پریشان ہوں گے۔ اسی طرح شہروں میں اگرغلہ اور دیگر اشیاے خوردنی کی تجارت نہ ہو تو لوگوں کے لیے روپیہ پیسہ ہوتے ہوئے بھوکوں مرنے کی نوبت آسکتی ہے۔ انھی مثالوں پر دیگر کاروبار اور پیشوں کو قیاس کیا جاسکتاہے۔ اسی لیے علما نے ہر جائز پیشے کو فرضِ کفایہ قرار دیا ہے اور ان میں تگ و دو کی ترغیب بھی دی ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق تو بعض محدثین نے حدیث رسولؐ: اِخْتِلَافُ اُمَّتِيْ رَحْمَۃٌ، یعنی ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے کہ مختلف صنعتوں اور پیشوں کے معاملے میں ان کی پسند کا مختلف ہونا رحمت ہے کیونکہ اگر سب لوگ ایک ہی پیشے کی طرف متوجہ ہوجائیںیا ایک ہی طرح کی تجارت اختیار کرلیں تو باقی پیشے اور باقی تجارتیں سب معطل ہوکر رہ جائیں گی اور انسانیت پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔ (احیاء علوم الدین ، ص ۵۲۸ - ۵۲۹)

 اس لیے اپنی صنعت و تجارت میں ان فرائض کفایہ میں سے ایک کو قائم کرنے ، انسانیت کو مصیبت و پریشانی سے بچانے اور راحت و آرام پہنچانے کی نیت کرنی چاہیے۔

  • چہارم، نیت یہ کرے، کہ تجارت اس لیے کر رہا ہوںتاکہ اس شعبے میںاللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے احکام اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عملاً زندہ کروں۔ 
  • پنجم، نیت یہ بھی کرے ،کہ بازار میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں گا اور ایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہ دے۔ 

ان نیتوں کے ساتھ ایک بندہ مومن تجارت کے لیے بازار میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوگی اور اس کی تجارت بھی عبادت کی ایک صورت بن جائے گی۔

 صبح سویرے تجارت کے لیے نکلنا

 تجارت کے لیے صبح سویرے نکلنا اور اپنی دکان علی الصبح کھولنا بہتر ہے ،کیوںکہ اس وقت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ اس لیے ایسا کرنے سے اموالِ تجارت میں بھی برکت کی قوی امید ہے۔ 
حضرت صخر غامدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰھُمَّ! بَارِکْ لِأُمَّتِي فِي بُکُورِھَا(ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث:۲۲۵۳)یعنی ’’اے اللہ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے ‘‘ ۔ آپؐ کو جب بھی کوئی سریہ ( فوجی دستہ) یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصے میںروانہ فرمایا کرتے تھے۔ (عمارہ بن حدیدؒ نے کہا کہ) صخر غامدیؓ ایک تاجر تھے۔ وہ اپنی تجارتی کارندوں کو دن کے اول حصے میں روانہ کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ مال دار ہوگئے اور ان کی دولت بہت بڑھ گئی تھی۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۱۲)
عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے با رے میں بھی اسی قسم کی روایت ہے کہ جب انھوں نے بنی قینقاع کے بازار میں تجارت شروع کی تھی، تو ان کا معمول یہی تھا کہ وہ بازار صبح سویرے جاکر تجارت کے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے (بخاری، حدیث: ۳۷۸۰)۔ پھر وہ بہت ہی مال دار ہوگئے تھے اور عرب کے بڑے تجار میں ان کا شمار ہوتا تھا۔افسوس کی بات یہ کہ آج ہم غیروں کی طرح رات گئے تک لہو و لعب میں مشغول رہتے ہیں اور صبح کو نماز اور ذکر و تلاوت سے غافل ہوکر سوتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ صبح کی نماز اور اوراد و وظائف سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کی طرف نکلیں، گو اس وقت کاروبار نہ ہو جب بھی اس برکت کو حاصل کرنے کی نیت سے اپنے کام پر ضرور جانا چاہیے۔

حرام اشیا کی خرید و فروخت سے اجتناب

 ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خود کو حلال اشیا کی تجارت تک ہی محدود رکھے، حرام کی طرف قدم نہ بڑھائے ،گو مالی منفعت اس میں زیادہ نظر آئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال، جب کہ آپؐ مکہ ہی میں تھے ، یہ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ حَرَّمَ بَیْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَۃِ، وَالْخِنْزِیْرِ، وَالْأَصْنَامِ، (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۴۲) یعنی ’’بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ نے شراب، مُردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ 
 اس حدیث پر معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جن اشیا کی تجارت کو یہاں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ سب اسلام میں حرام ہیں۔ لہٰذا، اس کا اطلاق ان اشیا کی تجارت پر بھی ہوگا، جن کا نام یہاں تو نہیں لیا گیا، لیکن جن کی حرمت نصوص سے ثابت ہے اور جن کے حرام ہونے پر علماے امت کا اتفاق ہے، مثلاً تمام نشہ آور اشیا، آلات غنا و مزامیر ، حرام و معصیت کے دھندوں میں استعمال ہونے والے سامان، فحش لٹریچر اور باطل نظریات پر مبنی کتابیں، عریانیت و فحاشی کو فروغ دینے والی فلمیں اور ویڈیوز اور موسیقی کے البم وغیرہ۔ ان تمام بے ہودہ اشیا کو قرآن کریم نے لَھْوَ الْحَدِیْث سے تعبیر کیا ہے، اور ان کی خرید و فروخت اور استعمال کی سخت مذمت کی ہے، کیوںکہ یہ چیزیں انسان کو دین اور فکرِ آخرت سے غافل کردیتی ہیں ، نیز اس کے اخلاق و کردار کو بھی بُری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اِس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔(لقمٰن۳۱:۶)

بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (النور۲۴:۱۹)

افسوس یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسی اشیا اور ایسے اسباب و محرکات کا ایک سیلاب سا اُمڈ آیاہے، جو مذکورہ برائیوں کو فروغ دے رہا ہے اور لوگ ان میں ان کے ممکنہ نتائج اور مضمرات سے بے پروا ہوکر ملوث ہورہے ہیں، بلکہ انھیں ہنسی مذاق اور تفریح کے طور پر لیتے ہیں لیکن وہی باتیں ان کے دنیوی و اخروی خسارے کا سبب بن رہی ہیں ۔ 
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’حرام ہے تم پر مُردار جانور اور خون‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ اس لیے اس کی تجارت بھی درست نہیں گرچہ اضطرار کی حالت میں، یعنی کسی کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہیں بلکہ قیمت دے کر لینا بھی جائز ہے،تاہم خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ قیمت لیے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر کسی کی جان بچانے کے لیے خون ہبہ کرے۔ ان شاء اللہ وہ سورۃ المائدۃ (آیت ۳۲) میں دی گئی اس بشارت کا مستحق گردانا جائے گا کہ جس شخص نے کسی کی جان بچالی تو یہ ایسا ہے گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ خون کا عطیہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اگر خون کا عطیہ دینے والوں کو سہولت فراہم نہیں کی جائے گی تو لوگ اپنے اخراجات پر کسی کو خون دینے جانے کے لیے متردد ہوں گے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے: اِنَّ اللّٰہَ اِذَا حَرَّمَ عَلٰی قَوْمٍ أَکْلَ شَیْئٍ حَرَّمَ عَلَیْھِمْ ثَمَنَہُ،یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کیا ہے، تو ان پر اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۰۴۳، بروایت عبداللہ بن عباسؓ)۔ اس اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو تمام طرح کی حرام اشیا کی تجارت سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور تمام طریقے کی تبلیغی و اصلاحی جدوجہد کا مقصدیہ ہے کہ ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آجائے، جہاں برائیاں مفقود ہوںاور نیکیوںکا غلبہ ہوجائے ، کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر شخص سکون و عافیت کی زندگی گزار سکے۔ 
اس اصول کا اطلاق تجارت کے میدان میں بھی ہوتا ہے۔ ایک تاجر کو یہ غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کی تجارت بلاواسطہ یا بالواسطہ گناہ کے فروغ میں مددگار تو نہیں ہورہی ہے، اور اگر اسے یہ یقین ہو کہ خریدار مجھ سے خریدی ہوئی چیز کا استعمال حرام مقاصد کے لیے کرے گا، تو اس کا  اس خریدارکے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا گرچہ حلال اشیا کا ہی ہو۔ مثلاً انگور بیچنے والے کو اگر یہ یقین ہوجائے کہ خریدار اس کا استعمال شراب بنانے کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ اس کا تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
 حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انگور کو اس کے توڑنے کے زمانے میںروک لیا تاکہ اسے شراب بناکر فروخت کرے، تو وہ جانتے بوجھتے آتشِ دوزخ میں جاگھسا‘‘۔ (بُلُوغُ الْمَرَام ، ابن حجر العسقلانیؒ، کتاب البیوع، حدیث: ۷۴۹)
اسی طرح فتنے کے زمانے میں جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو انھیں ہتھیار وںکا فروخت کرنا درست نہیں،کیوں کہ ان کا استعمال کسی مسلمان کے خلاف ہونے کا قوی امکان ہے اور یہ گناہ میں تعاون کی ایک شکل ہے۔ امام بخاریؒ نے عمران بن حصینؓ کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ وہ فتنے کے دور میںہتھیاروں کی فروخت کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: وَکَرِہَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ بَیْعَہُ فِي الْفِتْنَۃِ، یعنی ’’عمران بن حصینؓ نے فتنے کے زمانے میں اسلحے کی فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۰)
حرام کاروبار کے لیے جگہ فراہم کرنے یا فروخت کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر یہ علم ہوجائے کہ خریدار اس جگہ کا استعمال غلط اور حرام مقاصد کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ معاہدۂ بیع کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر معاہدے کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہوسکی اور آگے چل کر اس نے اس جگہ کا غلط استعمال شروع کردیا تو فروخت کرنے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا۔ دوسرے معاملات کو بھی ان مثالوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔

ملکیت اور قبضے کے بغیر بیع سے پرہیز

 جو اشیا حلال ہیں، ان کی تجارت میں بھی یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو چیز اپنے قبضے میں نہ ہو، اس کی بیع سے پرہیز کرے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع کیا ہے کہ اس چیز کو بیچوں جو چیز میرے پاس نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، حدیث: ۱۲۳۵)۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حکیم بن حزامؓ نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس موجود نہیںہوتی، تو میں اس سے اس کا معاملہ کرلیتا ہوں۔ پھر اس چیز کو اس کے لیے بازار سے خرید لاتا ہوں (اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں)۔ آپؐ نے (یہ سن کر) فرمایا: لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ،یعنی ’’تم کسی ایسی چیز کی بیع نہ کرو جو تمھارے پاس نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، حدیث: ۴۶۱۳)
سنن نسائی کے اسی باب میں ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ بَیْعٌ فِیـْمَا لَا یَمْلِکُ،یعنی ’’آدمی اس چیز کی بیع نہیں کرسکتا جس کا وہ مالک نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، حدیث: ۴۶۱۲)۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہی اس سلسلے میں ایک روایت ابن ماجہؒ نے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں: لَا یَحِلُّ بَیْعُ  مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، یعنی ’’جو چیز تمھارے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا تیرے لیے حلال (جائز) نہیں ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث: ۲۱۸۸) 
اس حکم کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سامان بازار میں نہ ملے، جس کی قیمت پہلے ہی لے لی گئی ہے۔ اگر مل جائے تو اس کا بھی امکان ہے کہ گاہک سے لی گئی قیمت سے کم یا بہت زیادہ قیمت میں ملے۔ یہ بھی کہ بازار سے خرید لانے کے بعد وہ گاہک کو پسند آئے یا نہ آئے۔ ان سب صورتوں میں تاجر اور گاہک کے مابین اختلاف اور جھگڑے کا قوی امکان ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرما دیا، بلکہ تاجر اگر کوئی سامان خرید بھی چکا ہو، مگر وہ اس کے قبضے میں ابھی تک نہ آیا ہو تو بھی اس کا بیچنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں بھی رسولؐ اللہ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح قبضے میں نہ لے لے ‘‘۔(بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۶)
حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لیے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضے میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر ، طبرانی، جلد۳، حدیث:۳۱۰۸)
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے، جس سے یہ پتاچلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے پر (یعنی وہ چیزجو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا:یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے، حتیٰ کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے، جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتیٰ کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، حدیث: ۳۴۹۹)
 یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں)۔ کیونکہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتائی، جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تو روپے کا روپے کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۲)
 دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کے بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے، تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے، جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضے میںلیے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا، جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعے بازار میں آنے والی اشیا کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (consumer)  تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوںکہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔ 
تاہم، اس مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف راے ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیا کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاے منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں، لیکن عقار، یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاے منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین، خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، حدیث ۴۹۶)
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ یعنی ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلے کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ  اِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۵)
گویا انھوں نے بھی اس مسئلے میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھیرایا اور اسی راے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓکی روایات سے بھی ہوگئی۔رہی یہ بات کہ واضح نصوص، یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ    یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب حضرت زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔ 
اسی خدشے کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلے کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص  نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیا غلے کی مانند ہیں (نیل الاوطار شرح منتقی الأخبار،  کتاب البیوع،ص۹۸۶ )۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز،  گو اس نے اسے خرید لیا ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی کو فروخت نہ کرے ۔

 تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا

 بیع و شراء کے انعقاد کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے۔ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے۔ اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا، جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا، تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی۔ کیوںکہ فرمان الٰہی ہے: 
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۝۰ۣ (النساء۴: ۲۹)اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے: إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ، یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، حدیث: ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے: ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بہ ترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،حدیث: ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
یہ حدیث اس معاملے میں، یعنی بغیر رضا مندی کے کسی بھائی کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں، کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں، تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر لینے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور جبری نہیں، نہ دھوکے اور فریب کے ذریعے اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی ہو تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو، تو اسے بازار کے نرخ (rate) یا مروجہ نرخ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں۔ کیوںکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم نرخ پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء   قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے، وہ یقیناً ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیونکہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے اور دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔

 خریدار کو صحیح مشورہ دینا

 تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکان دار یا تاجر ہی سے مشورہ طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو درست مشورہ دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ، ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، حدیث: ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)۔اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔ جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں، یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے۔ایک شخص نے آپ پر بھروسا کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی رزّاقیت پر بھروسا رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا۔   اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، جو انجامِ کار اس کے لیے ہی مفید ثابت ہوگا۔

 قیمت متعین کرنا ،  غیرمعین نہ رکھنا

 بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع، یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن، یعنی قیمت، دونوں معلوم اور معیّن ہوں۔ نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ فقہا نے بیع کی تعریف ہی یہی بیان کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م: ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: والبیعُ نقلُ مِلکٍ اِلَی الغیر بثمنٍ ،یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری ،ابن حجر العسقلانیؒ ، دمشق،۲۰۱۳ء، جلد ۷، ص ۵)
۲۰ویں صدی کے معروف فقیہ سیّد سابق مصریؒ (م: ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف   فقہ السنۃ میں، بیع کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، ص ۸۹۸)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے، خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کیے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ باہمی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ: ’آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں ‘، جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین یا خریدار کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate)  رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دیں، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے، وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہو،جو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس لیے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔  یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔

 ادھار معاملات کو ضبطِ تحریر  میں لانا

یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے  ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ادائی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں؟ اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ؟ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے، تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک سے، جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے، کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ ہموار نہ ہو۔ 
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ (البقرۃ۲: ۲۸۲) اے ایمان والو! جب تم معینہ میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔

  آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْہُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِہٖ ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنٰٓى اَلَّاتَرْتَـابُوْٓا (البقرۃ۲: ۲۸۲) اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آیندہ شک میں نہیں پڑوگے۔

اس لیے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لیے حق کی ادائی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگی۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جو بسااوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے۔ کبھی کبھی تو مقدمہ بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ معیار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ 
ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدۂ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعادِ معین سے پہلے ادائی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ٹال مٹول ہی کا رویہ اختیار کرے، بلکہ حُسن ادایگی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے۔ اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے، اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سود ہی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔ (جاری)

حج بیت اللہ کے لیے اللہ کے مہمان پوری شان اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دَر پر حاضری دیتے ہیں۔ بلاشبہہ بیت اللہ کی سعادت عظیم سعادت ہے۔ مسلم، عاقل، بالغ اور استطاعت رکھنے والے مرد و خواتین پر اس کی فرضیت مسلّم ہے، البتہ خواتین کے لیے محرم کی موجودگی بھی شرط ہے۔
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیب عموماً اس کی تیاری کے لیے سازوسامان، احرام اور سفر سے متعلق اُمور کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں، جن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیادی اہمیت کے حامل اُمور کی طرف توجہ مبذول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ذیل میں ان اُمور کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

نیت کا استحضار

نیت قصد القلب، یعنی دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ نیت عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور قربت حاصل کرنے کا نام ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں جابجا نیت کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔ حدیث النیات میں بھی متوجہ کیا گیا کہ اعمال کی قبولیت عنداللہ کا دارومدار نیت کی درستی پر ہے۔ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی صراحت ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کی نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔(بخاری، بدء الوحی، حدیث: ۱، عن عمر بن خطابؓ)
گویا کہ نیت کا بنیادی مقصد عادت اور عبادت میں تمیز کرنا ہے۔ اسی طرح نیت کے  پیش نظر ایک عبادت کو دوسری عبادت سے ممتاز بھی کیا جاتا ہے۔ آج دین سے دُوری کے اس عالم میں عبادات بھی روایت بن گئی ہیں، پھر رسم و رواج کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ چنانچہ ان اہم عبادات اور فریضہ کی ادایگی کے لیے جاتے وقت صرف رضاے الٰہی کی نیت کی جائے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا جائے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے کی سعی کی جائے۔

ریا سے اجتناب

 شیطان نے اولادِ آدم ؑ کو گمراہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۝۱۷(اعراف ۷:۱۷) پھر مَیں آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔

یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ شیطان کبھی بھی تمام انسانوں کی گمراہی کے لیے یکساں اسلوب اختیار نہیں کرتا بلکہ ہرفرد کو اس کی مرغوباتِ نفس اور گمراہی کے اسباب کے مطابق ہی گمراہ کرتا ہے۔ بھیس بدل بدل کر اور نئے رُوپ میں آکر گمراہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی شیطان نیکوکاروں کو ان کی عبادت پر غرور کرنے، اوروں کو حقیر سمجھنے اور دکھاوے کے ذریعے گمراہ کردیتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: میں تمھاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ’ریا‘ ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’ریاکاری‘۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریاکاروں سے اللہ فرمائے گا ان لوگوں کے پاس جائو جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ (مسنداحمد، حدیث:۲۳۶۳۰)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:جب الحزن  سے اللہ کی پناہ مانگو۔
صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! جب الحزن  کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ جہنّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو نیکی محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ان احادیث میں ہمارے لیے وعید ہے خصوصاً جب سے موبائل فون اور کیمرے کا استعمال بڑھا ہے، عمرہ و حج کے مناسک کی ادایگی کے دوران بھی کئی حاجی صاحبان ان کا استعمال کرتے ہیں جس سے پرہیز ضروری ہے۔

حقوق العباد کی ادایگی

اس سفرِ مقدس سے پہلے اس بات کا التزام کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کی حق تلفی کی گئی ہو ان کے حق کی ادایگی کی جائے اور ان سے معافی تلافی کرلی جائے تاکہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول و منظور ہوسکے۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمے کسی کے معاملات ہوں یا قرضہ و میراث کی ادایگی باقی ہو تو تمام تر حسابات بے باک کرلیے جائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہؓ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ (صحابہؓ نے اپنی دانست کے مطابق فرمایا) ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، دنیا کا سازوسامان نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری مراد اس وقت وہ مفلس نہیں۔ میری مراد  وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اپنے اعمال میں نمازیں، روزے، عبادات لے کر آئے، لیکن لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی نیکیاں لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں اور لوگوں کے گناہ  اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ حقیقی مفلس وہ شخص ہوگا (ترمذی، ابن ماجہ)۔ چنانچہ ہمیں حقوق العباد کی ادایگی کرکے اپنے اعمال کے اجروثواب کی حفاظت کرنی چاہیے۔

حلال کا اہتمام

رزقِ حلال کے بغیر نہ کوئی دُعا قبول ہوتی ہے اور نہ عبادت کو شرفِ قبولیت ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے اس شخص کا تذکرہ فرمایا جو دُوردراز کا سفر کرکے جائے۔ اس کے بال پراگندہ، منتشر، تھکاوٹ کے آثار غالب ہوں اور وہ اخلاص و عاجزی کا پیکر بن کر بارگاہِ الٰہی میں خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر ہاتھ اُٹھائے اور دُعائیں مانگے۔ لیکن آپؐ نے فرمایا: اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی غذائیت حرام۔ پس اس کی دُعا کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟(مسلم)
لہٰذا، حرام مال کی آمیزش سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، وگرنہ عبادات کا اجروثواب کبھی حاصل نہ ہوگا۔ عبادت مکمل توجہ کے ساتھ ہو۔ ہر عبادت میں خشوع و خضوع اور عجزوانکسار مطلوب ہے۔ اور پھر حج بیت اللہ کی عبادات تو فقر ، عجز اور درویشی کا ایسا کامل اظہار ہیں کہ جس میں    سب ایک ہی طرح کے لباس، یعنی احرام میں ملبوس ہوں۔ وہ لباس سلا ہوا نہ ہو۔ مردوں کے سر پر کوئی چادر ٹوپی وغیرہ نہ ہو۔ سب کی صدا  لبیک اللھم لبیک ہو۔ بلاشبہہ یہ عجز و انکسار کا کامل نمونہ اور توجہ و انابت کا مکمل مظہر ہے۔ لہٰذا، عبادت کی طرف توجہ اور خشوع و خضوع کا اظہار مقصود ہے۔

مناسکِ حج کی تربیت 

حج کی تعلیمات ، مناسک اور احکام و آداب کو سیکھنے کے لیے مستند کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ مذہبی اُمور اور بعض پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر تربیتی پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان میں شرکت کی جائے اور بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اگر شرعی اُمور کی سمجھ نہ آئے اور بعض وضاحت طلب اُمور ہوں تو علما سے رجوع کر کے علمی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے مختلف اداروں کی ویڈیوز بھی دستیاب ہیں جن سے استفادہ مفید ہوتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ احرام کی پابندیاں ، مکروہات اور مفسداتِ حج، دم واجب ہونے کی صورتیں جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ اُمور پہلے سے سمجھ لیے جائیں تو دورانِ حج آسانی رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر دورانِ حج تفصیلی نہ سہی، سرسری طور پر معلّمین سے رہنمائی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔

دیگر فقہی احکام کی معلومات

عام طور پر اور حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حرم میں تقریباً ہرنماز کے بعد نمازِ جنازہ    ادا کی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ کا طریقہ سیکھ لیں اور اپنے دیگر ہم سفر ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ حرمین میں فجر کی اذان سے قبل تہجد کی اذان دی جاتی ہے، جس کے بعد لوگ جوق در جوق مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت کی عبادات کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ عموماً خواتین کو باجماعت نماز کے طریقے کی آگاہی نہیں ہوتی ۔انھیں اس بارے میں پہلے سے معلومات دینی چاہییں تاکہ کامل یکسوئی سے وہ عبادت کریں۔ کبھی امامِ حر م جہری نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کرکے     اللہ اکبر کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی آگاہی اور علم ضروری ہے۔

جہات الاسلام، مدیر: ڈاکٹر محمد عبداللہ ۔ ناشر: کلیہ علوم اسلامیہ،پنجاب یونی ورسٹی، قائداعظم کیمپس، لاہور۔ صفحات:۶۸۰+۷۸۔ قیمت: ۸۰۰ روپے، بیرون ملک: ۵۵ڈالر۔
کلیہ علومِ اسلامیہ جامعہ پنجاب کے شش ماہی تحقیقی مجلے جہات الاسلام کا زیرنظر  خصوصی شمارہ ’شمائل و خصائل نبویؐ‘کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے، جو آٹھ عربی اور دو انگریزی مقالوں کے علاوہ چالیس اُردو مضامین پر مشتمل ہے۔ 
سیرت النبیؐ ایک ایسا موضوع جس کی وسعتوں اور پہنائیوں کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ہلکی سی جھلک اس شمارے میں نظر آتی ہے۔ جملہ مضامین کو چھے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض مقالات میں سیرت سے متعلق کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہندوئوں اور سکھوں کے سیرتی ادب کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ مقالہ نگاروں نے ان پہلوئوں پر بھی قلم اُٹھایا ہے، مثلاً: رسولؐ اللہ کا چہرئہ مبارک، چہرے کی تاثراتی کیفیات، رسولؐ اللہ کے بالوں کی کیفیات، رسولؐ اللہ کے مشروبات اور ان کے آداب وغیرہ۔ مگر ایسے مقالات کا مطالعہ بھی معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت روح پرور ہے۔ یہ شمارہ ایک یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ مجلس ادارت کی محنت قابلِ داد ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعلیمات مجدد الف ثانی، تدوین: سیّد زوار حسین شاہ۔ ناشر:زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۸، ناظم آباد-۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت:درج نہیں۔
برصغیر ہند پر بادشاہت کا جبر عروج پر تھا ۔ اس حکمرانی اور استبداد کو مضبوط بنانے کے لیے درباری دانش وروں کی رہنمائی میں، مغل بادشاہ اکبر نے ’دین الٰہی‘ کے نام سے بے دینی اور سیکولر موقع پرستی کا ’متبادل بیانیہ‘ پیش کیا۔ اس کے بیٹے جہانگیر نے ایک قدم آگے بڑھ کر دھونس اور جبر کا جھنڈا گاڑھا۔ یوں وہ ہندستان، جو اسلام کی تبلیغ و ترقی کا میدان تھا، خود مسلمانوں ہی کے درمیان کش مکش کا اسٹیج بن گیا۔ اس گھٹاٹوپ عہد ِ جاہلیت میں جو آواز کلمۂ حق بلند کرتی، حُسنِ کردار اور حُسنِ گفتار کی قوت سے اُٹھی، وہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کی ذات سے منسوب تھی۔
اُن کے مواعظ اور حکمت و دانش سے لبریزخطبات تو فضائوں میں گم ہوگئے، لیکن ان کے مکتوبات مستقل تصانیف کی صورت میں باقی رہ گئے: ’’یہ تمام مکتوبات فارسی میں ہیں، چند خطوط عربی میں بھی تحریر کیے گئے۔ یہ مکتوبات تین حصوں میں شائع ہوتے رہے۔ [ان کے اُردو] تراجم میں حضرت مولانا زوار حسین شاہؒ کا ترجمہ بھی ہے‘‘ (ص۱۴)۔ اسی ترجمے کے ایک بڑے حصے کو مکتوبات کے انتخاب کے طور پر فاضل مترجم نے مرتب کیا ہے، جو اس کتاب کی شکل میں دستیاب ہے۔
یہ مکتوبات: دین و حکمت،شریعت اور طریقت اور تاریخ  کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔ مولانا سیّد زوار حسین شاہ صاحب نے دو سو موضوعات پر حضرت مجددؒ کے افکار و خیالات، جدید ترین کتابی ترتیب کے ساتھ مرتب فرمائے ہیں۔ اس پیش کش پر دین و حکمت کے متلاشی مولانا سیّد عزیزالرحمان صاحب کے شکرگزار ہیں۔(س م خ)


طبی لغت، (جلداوّل، دوم)۔ ڈاکٹر سیّدمحمد اسلم۔ناشر: شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونی ورسٹی، کراچی۔صفحات، بڑی تقطیع: ۱۵۲۶۔ قیمت: ۳۰۰۰ روپے۔
اُردو میں سائنسی موضوعات پر کتابوں کی تحریر و اشاعت کا سلسلہ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوا اور دہلی کالج نے اس میں کچھ اضافہ ہوا۔ جامعہ عثمانیہ (قیام: ۱۹۱۷ء) نے ہزاروں سائنسی و غیرسائنسی اصطلاحات کے اُردو تراجم پر مشتمل کتابیں شائع کیں۔ وقت کے ساتھ نئے تراجم کی ضرورت کا احساس قدرتی تھا۔ چنانچہ جامعہ پنجاب، جامعہ کراچی، اُردو سائنس بورڈ لاہور، انجمن ترقی اُردو کراچی، اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اس سلسلے میں نہایت مفید اضافے کیے۔
مختلف شعبوں کی اصطلاحات کے سلسلے میں انفرادی سطح پر بھی ماہرین نے قابلِ قدر کام کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم (۱۹۳۱ء-۲۰۱۸ء) ماہر امراضِ قلب تھے۔ ان کی ساری تعلیم انگریزی میں ہوئی، مگر اُردو کی محبت میں انھوں نے امراضِ قلب اور صحت عامہ سے متعلق اُردو میں نہایت مفید کتابیں شائع کیں، مثلاً: قلب، احتیاط، غذا،  تندرستی، شیرازۂ دل، ذیابیطس وغیرہ۔
دو ضخیم جلدوں پر مشتمل زیرنظر طبی لغت ڈاکٹر محمد اسلم مرحوم کا ایک بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اس میں طب کے مختلف شعبوں اور مختلف شاخوں کی اصطلاحات کے ساتھ ان کے اُردو تراجم دیے گئے ہیں ۔ اگر اُردو اصطلاح مشکل اور نامانوس ہے تو مترادفات کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً Asthma کی تشریح ۱۰، ۱۲ سطروں میں کی گئی ہے (ص ۱۸۴)۔ Sadness کی وضاحت چھے سطور (ص۱۱۵۲) اور Salvia کی ۱۴سطور ( ص ۱۱۵۳) میں ’سوزشِ جگر‘ پر ایک مفصل مضمون (ص۵۳۷) شامل ہے۔ انھوں نے سابقہ تراجمِ اصطلاحات کے ذخیروں سے فائدہ اُٹھایا ہے اور ان میں اضافے کیے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بجاطور پر اسے اپنی نوعیت اور اپنی صفات کے سبب ایک بے مثال اور لازوال کارنامہ قرار دیا ہے۔ لغت میں طبی علوم وفنون کے علاوہ فزکس، کیمیا، نفسیات، وغیرہ کی اصطلاحیں بھی نظر آتی ہیں۔ادارہ تالیف و تصنیف و ترجمہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے، جس نے ایسی ضخیم لغت شائع کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


ردِ قادیانیت کے ۱۰۰ دلائل، پی عبدالرحمان۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی۔ صفحات:۲۱۳۔ قیمت: بھارتی ۱۰۰روپے ۔
قادیانیت، برطانوی سامراج کا ایک سیاسی حربہ تھا، جسے مذہبی لبادے میں برتا گیا۔ پہلی جنگ ِ عظیم سے قبل جب دُور دُور تک برطانوی راج کے جھنڈے لہرا رہے تھے تب مقبوضہ مسلم دنیا میں برطانوی حاکموں کو مسلمانوں کی جانب سے جہاد اور غلامی سے سرتابی کے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ ان دونوں چیزوں کے توڑ کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک ’نیا بیانیہ‘ ترتیب دیا اور مسلمانوں سے کہنا شروع کیا: ’جہاد کا خیال چھوڑو اور برطانوی راج کی وفاداری کا دم بھرو‘۔
اگرچہ اس جعلی نبوت اور مذہبی و سیاسی ڈھونگ پر بہت سا لٹریچر موجود ہے، تاہم زیرنظر کتاب میں عبدالرحمان صاحب نے نہایت شائستگی اور سلیقے سے ایک سو دلائل مع ثبوت پیش کیے ہیں کہ کس طرح قادیانیت کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ایک الگ گروہ ہے۔ مرتب نے بڑی تعداد میں، مرزا کی اصل کتب کے عکس پیش کرکے کتاب کو مؤثر دستاویز بنا دیا ہے، تاکہ پڑھنے اور دیکھنے والا دیکھ لے کہ قابلِ اعتراض باتیں سیاق و سباق کے ساتھ کس طرح لکھی اور پیش کی گئی تھیں۔ (س م خ)

جہاں آراء حسین  ، کراچی

محترم پروفیسر خورشیداحمد کے ’اشارات‘ اور عبدالغفار عزیز کے مضمون نے شہید صدرمحمد مرسی کی مناسبت سے ان گوشوں پر رہنمائی دی ہے اور مطالعے کے لیے وہ معلومات پیش کی ہیں کہ جن سے دل دُکھ، حسرت اور عزیمت سے بھرگیا۔ کیا ہم مسلمان اتنے بے حس ہیں کہ اپنے بہترین لوگوں کو یوں موت کے گھاٹ اُتار کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے؟ مسلم قیادت پر قابض، ذلت اور ظلم کے ان نشانات کو ختم کرنے کے لیے دعائوں کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور گہرے مطالعے اور مؤثر تحریک و تنظیم کی ضرورت ہے۔


حسین خان  ، ٹوکیو

صدر محمد مرسی شہید کے کارنامے اور شہادت پر جناب پروفیسر خورشیداحمدکے ’اشارات‘ ایک ایسا شان دار تحقیقی مقالہ ہے، جسے محض اُردو خواں قارئین تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔


احمد اصغر عاربی  ، ملتان

’قرآن، سنت اور قربانی‘ پر مولانا مودودی مرحوم کی تحریر، ہمارے معاشرے کی گمراہ دانش وری کو ایک مدلل اور منہ توڑ جواب ہے۔سیّد علی گیلانی اور افتخار گیلانی کی تحریریں جھنجھوڑتی اور راستہ بتاتی ہیں۔


رحیم اللہ خان  ، مردان

صدر مرسی کی مظلومانہ شہادت پر مضامین پڑھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور شرمندگی نے آلیا۔ ظہوراحمد نیازی نے ’بھارتی اسلاموفوبیا‘ کو بے نقاب کیا ہے اور ڈاکٹر رخسانہ جبین نے بڑی محنت سے اقوام متحدہ کے پرچم تلے، عورتوں کے نام پر عورتوں کی دنیا کو تہہ و بالا کرنے کے ’کانفرنسی ڈرامے‘ کی تفصیلات بیان کی ہیں۔


عبدالمجید شیخ  ، حیدر آباد

(جون، جولائی ۲۰۱۹ء) میں ’فقہ و اجتہاد‘ کے تحت ’تکفیر کے شرعی اصولوں پر نظر‘  ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کی تحریر قابلِ قدر تحقیقی کاوش ہے۔ اعتقادی اور عملی کفر و شرک میں فرق کے بیان میں مولانا مودودیؒ کے تفسیری حاشیہ (المائدہ ۵:۴۵-۴۷) کی کمی محسوس ہوئی، جس سے مسئلہ مزید واضح ہوجاتا۔


ذوالقرنین جسرا، خوشاب

میاں طفیل محمد صاحب کی تحریر ’پہلی دستور ساز اسمبلی کا مقدمہ اور جماعت اسلامی‘ معلومات افزا تحفہ ہے۔ ہم نہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں اور نہ جماعت کی کاوشوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ عبدالغفار عزیز نے جون کے ’اشارات‘ میں لارنس آف عریبیہ کی سازشوں اور مسلمان قیادتوں کی حماقتوں کا ورق پڑھا کر   خون کے آنسو رُلایا۔ یہ تحریر عبرت کا وافر سامان رکھتی ہے، جو مسلم دنیا کے قائدین کی نظر سے گزرنی چاہیے۔


خواجہ منظور الحسن ، نارتھ کراچی

ترجمان القرآن بھی حسب سابق اپنی آب وتاب پر ہے۔’موت کی یاد‘ (جون) واقعی تذکیر ہے۔ قرآن و احادیث کا اچھا خاصا انتخاب اس میں درج ہے۔ مفتی عدنان سیّد کاکاخیل کے کیا ہی کہنے۔ فلسطین کے متعلق بعض حقائق کا بالکل پہلی بار علم ہوا۔ دُکھ، صدمہ اور افسوس۔ حتیٰ کہ صفحہ ۷۶ پر پہنچ کر میں ٹپ ٹپ آنسو رو دیا۔  ترجمان القرآن  میں اُردو املاء کی اغلاط کا ہونا شایانِ شان نہیں ۔ مختلف صفحات پر درست الفاظ اس طرح ہونے چاہییں: لکیروں (ص ۱۰)، حج (ص ۵۰)، اسرائیلی علاقوں ’کا‘ رکھ رکھائو (ص ۷۶)۔ سورئہ طلاق (ص ۴۹) کا درست حوالہ (الطلاق ۶۵:۴) ہے۔ اِزدِواجی درست ہے، جب کہ الف پر زبر بالکل غلط ہے۔ 


حافظ اسعد اقبال ڈار  ، بہورچھ بسوہا، گجرات

ترجمان کے مضامین لمبے نہیں ہونے چاہییں، بلکہ دو تین صفحات ہی میں بات مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، تاکہ زیادہ سے زیادہ موضوعات پر، زیادہ سے زیادہ چیزیں قاری کو پڑھنے کے لیے ملیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ روز بروز اُردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اور لوگوں میں مطالعے کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے، اس لیے براہِ کرم جس قدر ممکن ہومشکل الفاظ کو آسان بنا کر پیش کیا کریں۔