ارشاد الرحمن


۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔  یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔

ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔

ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی  کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو  بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔

صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔  صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔

سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت  صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔

صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں   التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔

اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی  کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں  مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد    علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔

صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند  کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں   پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے  ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے  عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔

موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔

مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو    اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔

صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔

ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔  ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔

صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔

ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔

اِنقلابِ مصر کا سفر ابھی جاری ہے۔ سیاسی استبداد اور جمہوری قوت کے درمیان برپا معرکہ نئی سے نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ صاف بتاتا ہے کہ انھیں یہ عوامی انقلاب کسی صورت برداشت نہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہرحربہ آزما دیکھیں۔

 صدارتی انتخاب کے دوران میڈیا کا اسلامی قوتوں کے خلاف زہر اُگلنا اور اُن کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے شرم ناک ہتھکنڈے استعمال کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ فوج عدلیہ کی اور عدلیہ فوج کی معاون و مددگار ہے اور دونوں مل کر حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دورِاستبداد کو واپس لوٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مبارک کے کارندے اور ایجنٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہرجگہ اور ہرفورم پر جھوٹے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان جھوٹے نعروں میں ایک نعرہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ اور عدلیہ کے احکام کا نفاذ ہے۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا ہدف محض پارلیمنٹ کی تحلیل اور صدر کا محاصرہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس انقلاب کو مکمل طور پر ناکام کرکے حسنی مبارک کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں نظام وہی ہو، مگر چہروں کی تبدیلی کے ذریعے فریب اور مکاری کو حق ثابت کیا جاسکے۔ ان عناصر کی کوششوں سے یوں لگتا ہے کہ انھیں اسلام پسندوں کی ’جنت‘ سے زیادہ مبارک کی ’جہنم ‘پسند ہے۔ انھیں عدلیہ کے احکام کے احترام کی آڑ میں پوری قوم کو مسل کر رکھ دینا، قطعاً  بُرا محسوس نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے انھی احکام نے تو کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کا خون     کیا ہے۔ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کے منتخب صدر کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ   آزادیِ راے کی آڑ میں ہرنقص اور کمزوری صدر کے سر تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔

اس انقلاب نے تمام فرقوں اور مستقبل کے دشمنوں کو ایک کیمپ میں یک جا کردیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ مفاد اسلامی قوت کا راستہ روکنا اور اسے منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ اس پارلیمنٹ اور صدر کو بھرپور عوامی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ انھیں تو صرف اسلامی قوت کی لہر کو روکنا ہے اور اس قوت میں بھی سب سے زیادہ انھیں اخوان المسلمون سے خطرہ ہے۔

اس صورت حال میں ماضی کے حکمران ٹولے میں شامل بعض اہم شخصیات کا باہم متحد ہوجانا اُن کی ’مبارک دوستی‘ کی مثال ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک ’تیسری قوت‘ کے نام سے میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اس تیسری قوت کی رہنمائی کل تک منتشر رہنے والے لبرل افراد، نجیب ساویرس، سیکولر شناخت رکھنے والا رفعت سعید، اسامہ غزالی حرب، محمدابوحامد جو لبنان میں صہیونیت کے ایجنٹ سمیرجعجع کا شاگرد ہے، کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں لبرل امریکی سعدالدین ابراہیم اور حمدین صباحی بھی شامل ہیں جنھوں نے ناصر کے استبداد کو عوام پر مسلط کیے رکھا۔ حمدین صباحی کے علاوہ یہ سب لوگ صدارتی انتخاب میں احمد شفیق کے حمایتی تھے جو حسنی مبارک کا نمایندہ تھا۔

حسنی مبارک کے دو بیٹوں علا اور جمال کے خلاف قومی خزانے کی لُوٹ مار کے جرم میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت میں ماہرقانون دان ڈاکٹر یحیٰ الجمل کا موجود ہونا معنی خیز تھا۔ یہ یحیٰ الجمل جمال عبدالناصر کے روحانی فرزندوں میں شامل ہوتا ہے۔ باقیاتِ ناصر کی صورت میں اسی گروہ نے عسکری مجلس کے لیے دستوری مسوّدہ تیار کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مرسی کے اختیارات سے اُن کو محروم کرنے کا حکم ہے۔ یحییٰ الجمل کا اس مقدمے میں کویل فریدالدیب کے پہلو میں بیٹھنا حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں معروف مصنف حسنین ہیکل کے صاحب زادے حسن محمد بھی مبارک کے بیٹوں کے ساتھ مقدمے میں ملوث کیے گئے ہیں۔

یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں معاملات ایسے ہیں جن میں وہ تمام قوتیں   یک جا اور متحد دکھائی دیتی ہیں جو کل تک حسنی مبارک کا نمک کھایا کرتی تھیں۔ آج انھیں اسلام سے اس قدر خوف محسوس ہورہا ہے کہ یہ اسلام پسندوں کو ہرقیمت پر منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام ذرائع، وسائل، مہارتیں اور دبائو میڈیا، عدلیہ، سیاست اور معیشت میں دستوری عدالت کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جب کہ یہ فیصلہ بذاتِ خود ایک مختلف فیہ فیصلہ ہے۔ آج یہ لوگ خود کو مہذب اور جمہوری باور کرا رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں، جب کہ قانون ان سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ حسنی مبارک کی ۳۰سالہ ظالمانہ حکمرانی میں کہاں تھے؟ اُس دوران میں بے شمار عدالتی فیصلے ایسے تھے جو بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر رہے تھے مگر حکومت نے اُن کو پائوں تلے روند کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت تو اِن لوگوں کی کوئی آواز قانون اور دستور کی حکمرانی کے سلسلے میں سنائی نہ دی۔ لیکن آج اُن کا یہ ’حق‘ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کریں جو کل نہیں تھا، لہٰذا وہ کیوں خاموش رہیں۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ حسنی مبارک آج بھی اس معرکے کی قیادت کر رہا ہے اور اس میں شامل ہر فرد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ یہ جنگ موت و حیات کی جنگ ہے۔ نوشتۂ دیوار یہ بتاتا ہے کہ باطل کے یہ حواری اور حمایتی بالآخر موت کے گھاٹ اُتر کررہیں گے کیوں کہ مصری قوم کو اپنی شناخت، اپنے حقِ انتخاب و اختیار کے حصول سے پیچھے ہٹنا ہرگز قبول نہیں ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی بھی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے کہ مصر اپنی شناخت کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس کی قوم اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار سکے۔

صدر جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مُرسی کے انتخاب پر اسرائیل کے صدر بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل مصر میں جاری جمہوری سفر کو اہم سمجھتا ہے اور اس کے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کا یہ بیان ڈپلومیٹک تھا۔ وہ اسرائیل کو پہنچنے والے اس زخم اور ڈاکٹر مُرسی کے انتخاب کے خلاف دیے گئے منفی بیانات سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ صدرِ مصر کے انتخاب سے دو روز قبل اسرائیل کے ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ اسرائیل امن و آزادی کو جمہوریت پر ترجیح دیتا ہے۔

اسرائیل اور حسنی مبارک حکومت کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی نہ تھے، بلکہ حسنی مبارک اسرائیل کا وفادار دوست تھا۔ اس نے اسرائیل کے لیے اپنی وفاداری کا امریکا کو مکمل طور پر یقین دلارکھا تھا لیکن انقلاب کے دوران اس وقت مبارک کو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا  جب اُس نے اپنے اسرائیلی دوست اور اسرائیل کے سابق وزیردفاع بنیامین الیعازر سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ وہ وہائٹ ہائوس کو میرے دفاع اور بقا کے لیے آمادہ کرے، مگر انقلاب نے اس بات کے تمام دروازے بند کردیے تھے اور ہرامکان کا خاتمہ کردیا تھا، لہٰذا مبارک کو بوجھل دل کے ساتھ قصرِصدارت چھوڑنا پڑا۔

احمدشفیق جو صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر مُرسی کے مدمقابل مبارک کا نمایندہ تھا، نیتن یاہو نے اس کے خلاف بیان بازی سے اپنی کابینہ کو منع کر رکھا تھا، مگر اسرائیل ڈاکٹر مُرسی کی صورت میں صدرِ مصر کی موجودگی سے بننے والی اسٹرے ٹیجک حکمت عملی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ایک کے بعد دوسرا بیان اسرائیل کی طرف سے داغا جاتا رہا اور بالآخر نیتن یاہو نے خود ہی کہہ ڈالا کہ وہ احمد شفیق کو ترجیح دیتے ہیں۔

صدارتی انتخاب کے نتائج کے اعلان کا مرحلہ کچھ طویل ہوگیا لیکن حتمی خبر یہی آئی کہ ڈاکٹر محمد مُرسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت کے لیے لازمی ہوگیا کہ وہ جنوبی سرحدوں کے حوالے سے نئی حکمت عملی کی روشنی میں معاملے کو دیکھے اور اس حکمت عملی کے منطقی نکات یہ تھے:

۱- مصر کو علاقے میں قائدانہ کردار کی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ عرب دنیا میں سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے سب سے زیادہ سیاسی اثرات کا حامل ہے۔

۲- ڈاکٹر مُرسی کا ایوانِ صدر میں پہنچنا اسلامی تحریک کے سیاست میں داخلے اور مصری عربی رُخ متعین کرنے کی صورت ِ حال کو بدل دے گا۔

۳- اخوان المسلمون اور فلسطین کی بہت بڑی تحریکِ مزاحمت’حماس‘ کے درمیان تال میل کا موجود ہونا۔

۴- ڈاکٹر مُرسی کا صدرِ مصر منتخب ہونے کا مطلب مصر کا اپنے تاریخی وجود کی طرف واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔

۵- مصری قوم کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو برابری کی سطح پر نہ ماننا اور مسئلۂ فلسطین کی          حمایت و پشت پناہی مستقلاً جاری رکھنا۔

۶- مصری قوم اسرائیل سے اپنا ایک تاریخی حساب بھی چکانا چاہتی ہے جس کی وہ منتظر ہے۔

۷- بغاوت کا انقلاب میں بدل کر کامیاب ہو جانا اور انتخابات کے مرحلے تک پہنچ جانا مصر کو عالمِ عرب کے بعض ممالک کی سیاسی و داخلی معاملات میں پہلے سے زیادہ نمایاں حیثیت عطا کردے گا۔

یہ وہ نکات تھے جو صدر مُرسی کی کامیابی نے اسرائیل کی صہیونی سلطنت کے سامنے لارکھے اور اس نے اِن کے اُوپر عملاً سوچنا شروع کردیا۔اسرائیل کے ادارہ براے مطالعات قومی سلامتی نے ’محمدمُرسی کے انتخاب کی اسٹرے ٹیجک جہات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں جو اہم نکتہ بیان کیا ہے وہ صدر مُرسی کا اسرائیل کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کو بدل دینے کا خدشہ ہے۔  اس معاہدے کی رُو سے مصری فوج سینا کی حدود میں داخل اور فوجی کارروائی نہیںکرسکتی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گا۔ خاص طور پر اس اعتبار سے    کہ وہ مصر و اسرائیل کے درمیان ’امن معاہدے‘ کا نگران ہے، اور وہ تیسرا فریق ہے جس نے اس  ’امن معاہدے‘ پر دستخط کے وقت انورالسادات کے دور میں معاہدے کی پابندی کرانے کا تہیہ کیا تھا۔ یہ جائزہ رپورٹ اسرائیلی حکومت کے اس مطالبے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اُن سیاسی امور سے دُور رہا جائے جن کو صدر مُرسی اُٹھائیں۔ اسرائیل کے خارجی امور کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کی طرف سے اس امن معاہدے کو کسی بھی طرح سے چھیڑے جانے کے ہرعمل کی عالمی سطح پر مخالفت کریں۔

مصر میں ایک کش مکش جاری ہے۔ ایک طرف انقلاب مخالف قوتیں یک جا ہوکر سابقہ نظام کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف عالمی قوتیں اور اسرائیل اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں عالمِ عرب میں اس انقلابی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے خائف ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کا سامنا کس طرح کرتی ہے!

انسان کو زندگی میں بے شمار مصائب و مشکلات اور تکالیف و شدائد سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی تکلیف سے انسان کا دل متاثر ہوتا ہے، کوئی انسان کے بدن کو تکلیف دیتی ہے، کسی سے انسان مالی طور پر خسارے کا شکار ہوتا ہے‘ کسی سے اولاد کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچتی ہے اور کوئی اس کے اہل خانہ و شریک حیات کے بارے میں اس کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ غرض انسان کو ایک نہیں کئی پہلوئوں سے مصائب اور تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں۔ جو شخص ان آزمایشوں پر صبر کرے اور ان کے تقاضوں پر پورا اُترے‘ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں بلند مقام سے نوازتا ہے۔ البتہ آزمایشوں میں ثابت قدم رہنا اور ان میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے سرتسلیم خم رکھنا بلند ہمت لوگوں کا کام ہے۔    قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے امن و امان، صحت و سلامتی، جان و مال اور آل اولاد میں کمی کر کے  اہلِ ایمان کی آزمایش کرنے کا ذکر کیا ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا  قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ قف وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۵-۱۵۷) اورہم ضرو ر تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، انھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔

دوسری جگہ مال و جان کے ساتھ دشمنانِ دین اور مشرکین کی طرف سے زبانی اذیتوں کے پہنچنے کا ذکر یوں کیا گیا:

لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْقف وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۶) مسلمانو، تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔

مذکورہ دونوں آیات کی بہترین تفسیر بھی قرآنِ حکیم ہی کے اندر موجود ہے۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ حکیم نے جس اسلوب میں کیا ہے اس سے یہ بات   واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جان و مال، بیوی بچوں اور رزق اور امن و امان میں کمی کر کے ہر طرح سے آزمایا‘ اور جب آپ ان تمام آزمایشوں میں کامیاب ٹھیرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بلند ہمتی اور صبر و ثبات کو دنیا کے لیے یادگار بنا دیا اور ان کو دنیا کا امام بھی بنایا اور ان کی فردِ واحد کی حیثیت ہی میں ان کو امت قرار دیا۔

جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ آپؐ کو نبوت و رسالت کی گراں بار ذمہ داری سے پہلی بار آگاہ کیا گیا تو اس راہ کی مشکلات کا اندازہ آپؐ کو اسی وقت ہو گیا تھا جب ورقہ بن نوفل نے یہ کہتے ہوئے حسرت و افسوس کا اظہار کیا تھا کہ: ’’کاش! میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی‘‘۔ ورقہ کی یہ بات واقعتا سچ ثابت ہوئی کہ جس روز اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اسی روز سے قوم کی نادانیوں اور ایذائوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپؐ کی راہ روکی گئی، آپؐ کو جھٹلایا گیا، آپؐ کو ٹھٹھہ اور تضحیک سے رسوا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش کی ایذائوں کا ہدف بنے تھے اس وقت آپؐ کے رفقا کو ابھی ان مصیبتوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے اللہ کے معاملے میں اس قدر ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اس قدر نہیں ڈرایا گیا۔ مجھے اللہ کے معاملے میں جس قدر اذیت سے دوچار کیا گیا کسی اور کو نہیں کیا گیا۔ میرے اوپر تیس تیس دن رات ایسے بھی آتے رہے کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی تھی جس کو کوئی جان دار کھا سکے، سواے اس معمولی شے کے جو بلال اپنی بغل میں چھپائے ہوتے‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۴۷۲)

یہ اس ذات کی کیفیت ہے جس کو قرآن نے تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، انسانیت کا محسن بتایا ہے، لوگوں کی ہدایت و نجات کے لیے اپنی جان کو ہلکان کرنے والا کہا ہے۔ اس شخصیت سے روا رکھے جانے والے سلوک کا تذکرہ تو دلوں کے خون کو منجمد کر دیتا ہے مگر عقل و فراست اور زبان و بیان میں امتیازی شان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے اہل مکہ کو دیکھیے کہ وہ انسان بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں جو ان کے نزدیک پاکیزہ ترین اور صادق و امین ہے۔ بات زبانی   ایذارسانی تک محدود رہتی تو تاریخ انسانی کے کاتبوں کے لیے اسے نظر انداز کرنا شاید ممکن ہوجاتا۔ مگر معاملہ عددی قوت کو بروے کار لا کر تلوار زنی اور نیزہ بازی تک پہنچ گیا۔ ۱۳ برس تک قریش مکہ  کی ایذائوں کا ہدف بنے رہنے کے بعد بالآخر جب مظلومانہ جذبات سے بھرے دل کے ساتھ    یہ رحیم و کریم انسان مکہ کو خیرباد کہتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ چلا جاتا ہے تو یہ کش مکش مسلح جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر معاملہ ایذا رسانی، جلائو گھیرائو اور سب وشتم سے آگے بڑھ جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ زندگی اسی کش مکش میں گزرتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش اور دوسری کے بعد تیسری اور پھر یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔

رب کی کبریائی کا پیغام لے کر جو شخص بھی آیا اس کے ساتھ دشمنی روا رکھی گئی۔ انسانی تاریخ کے گذشتہ دور کی شہادت بھی یہی ہے اور ماضی قریب اور عہد رواں کی گواہی بھی یہی ہے۔ تاریخ نے ان کرداروں کی مساعی و مشکلات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ سیکڑوں صفحات پر محیط ہے۔ آج کے داعی اور داعیانہ کرداروں کو بھی بعینہٖ انھی حالات سے سابقہ ہے جو مذکورہ بالا افراد کو تھا۔ یقینا  وہ سب اپنے اپنے وقت کے لیے ایک نمونہ تھے، لیکن ان سب میں بہترین اسوہ وہی ہے جس کو قرآنِ مجید نے بہترین کہا ہے‘ یعنی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ!

ان سطور میں اسی اُسوہ حسنہؐ سے ایسی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو ایک طرف ایک مومن کے لیے روزمرہ معاملات اور مصائب اور پریشانیوں میں نمونہ ہیں‘ تو دوسری طرف ان میں حق و باطل کی کش مکش میں اہل حق کے لیے رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ آیئے دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں مصائب و مشکلات کو کس طرح انگیز کیا اور ان کو اپنی دعوت کے لیے کیسے ممدو معاون بنایا۔

اجر اور انعام کی بشارت

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کے وعدے اور گناہوں پر بخشش کی خوش خبریاں مومنوں کے لیے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے زیادہ سخت آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’انبیا کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی۔ آدمی کی آزمایش اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو آزمایش بھی سخت ہوتی ہے‘ اور اگر دین میں نرم ہو تو اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہی آزمایش بھی ہوتی ہے۔ بندے پر آزمایشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ (ترمذی)

مومن کا یہ ایمان ہے کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و تکالیف بہترین دروس اور مفید تجربات ہیں جو اس کی شخصیت کو آزمایش کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیتے ہیں اور اس کے ایمان کو جلا بخشتے ہیں، اس سے زنگ کو کھرچ ڈالتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ اس مومن کی مثال جس کو کسی آزمایش سے دکھ پہنچے اس لوہے جیسی ہے جس کو آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ اس کے کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے اور اصل لوہا باقی رہ جاتا ہے۔

دعا اور گریہ و زاری

اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور مصیبتوں تکلیفوں سے نکلنے کے لیے دعا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ آپؐ نے دعا کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی عبادت ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ دعا میں غفلت اور تساہل سے آپؐ نے منع فرمایا۔

مصیبتوں اور تکلیفوں کے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص دعائیں کیا کرتے تھے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہو جاتا تو آپؐ آسمان کی طرف چہرہ بلند کر لیتے‘ اور گڑ گڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو  جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپؐ یوں دعا کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ ’’اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد کا طالب ہوں‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، ’’اللہ بزرگ و برتر رب کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں، ساتوں آسمان و زمین کے رب اور عرشِ کریم کے رب، اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں!‘‘(بخاری، مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدائد و مصائب کے مواقع پر دعا کے ذریعے اللہ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرتے تھے۔ طائف سے واپسی پر اور غزوئہ بدر کے موقع پر آپؐ کی دعائیں آج بھی رہنمائی دیتی ہیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو گہرے زخم آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر زخمی ہوئے اور آپؐ کو بھی دشمن کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ بھی اسی غزوے میں آپؐ کو پہنچا۔ اپنے زخموں اور چچا کی شہادت کے صدمے کی شدت سے قریب تھا کہ آپؐ بے ہوش ہو جاتے۔ آپؐ نے اس نازک اور اندوہناک صورتِ حال میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و توصیف بیان فرمائی۔

غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا محاصرہ سخت کردیا تو اللہ کے رسولؐ مشرکین کے خلاف دعا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا فرمائی:

اللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الکِتَابِ، سَرِیْعَ الحِسَابِ أَھْزِمِ الأَحْزَابِ، أَللّٰھُمَّ اَھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھِمْ، اے اللہ، کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے کی قدرت رکھنے والے! ان لشکروں کو شکست سے دوچار کر دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔

دعا عظیم عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ انسانی عقل‘ ذہانت و فطانت کی کتنی ہی بلندیاں کیوں نہ سر کر لے‘ بہرحال وہ متزلزل ہونے سے مبرا نہیں۔ مومن پر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ تفکر و تدبر سے عاجز ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے سامنے دست دعا دراز کر دے۔ پھر ادھر دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آتے اور دعا کے الفاظ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو اُدھر اللہ رب العالمین کی طرف سے قبولیت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔

امید و یقین سے سرشار ھونا

مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ آزمایش و مصائب میں شدت آ جائے، اسلام اور مسلمانوں پر پے درپے حملے ہونے لگیں تو حالات کی اصلاح اور تبدیلی سے مایوسی و ناکامی اس کے دل میں راہ پا جائے۔ راہِ خدا پر چلنے اور لوگوں کو اس طرف بلانے کی جدوجہد جس قدر تکلیف دہ  اور صبر آزما تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی حیثیت سے تو اس کا کامل اِدراک تھا۔ آپؐ نے ہرمشکل موقع پر جس عزم و استقلال اور پامردی و ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپؐ ہی کے  شایانِ شان تھا۔ آپؐ اپنی دعوت کی کامیابی اور اسلام کی سربلندی کا یہ یقین اپنے صحابہؓ کے    دلوں میں جاگزیں کرتے تھے۔ مشرق و مغرب تک ان کا پیغام پہنچ جانے کی نوید سناتے تھے۔ مصائب و مشکلات کا جواں مردی اور جرأت مندی سے مقابلہ کرنے کا درس دیتے تھے۔

ایک موقع پر حضرت خبابؓ بن ارت کو جہاں راہِ دعوت کی سنگینی سے آگاہ فرمایا وہاں کامیابی کا یقین بھی دلایا اور فرمایا:’’تم سے پہلے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ آدمی کو پکڑا جاتا‘ اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر کے اوپر رکھ کر اسے چیر کر دو حصے کردیا جاتا۔ لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ لوہے کی کنگھی سے اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچا جاتا لیکن یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ اللہ کی قسم! اللہ اس معاملے کو مکمل کر کے چھوڑے گا۔ یہاں تک کہ (ایک وقت آئے گا) سوار، صنعا سے چل کر حضرموت آئے گا تو اسے اللہ کے سوا اور اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم تو جلد بازی میں پڑ گئے ہو‘‘۔

غزوۂ خندق کے روز مسلمانوں کو ہر طرف سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کٹھن اور سخت موقع پر بھی اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو خوش خبریاں سنائیں۔ فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ضرور تم سے اس سختی کو دور کر دے گا جو تم دیکھ رہے ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اور اللہ کعبہ کی کنجیاں مجھے دلا دے گا۔ اور کسریٰ اور قیصر کو ہلاک کر دے گا اور پھر تم ان کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے‘‘۔

دعوت دین اور اسلامی تحریک کے کارکنان اور قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نبویؐ منہج و حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں۔ مایوسی، پست ہمتی، بزدلی اور بددلی پھیلانے کے بجاے دلوں کو امید اور یقین سے سرشار کیا جائے۔

عزم و استقلال اور ثابت قدمی

مصائب و مشکلات اور آزمایش کے مراحل میں مومن وسائل کے محدود ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود گھبرایا نہیں کرتا۔ وہ اپنے خدا پر بھروسا کرکے راہِ خدا میں صبرواستقامت دکھاتا ہے۔ حق کی سربلندی کے لیے خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ عزم و استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی کریمؐ کے اسوئہ مبارک میں غزوئہ احد اور غزوئہ حنین کے معرکے اس کی نمایاں مثال ہیں۔

غزوۂ احد میں کفار نے پلٹ کر حملہ کیا تو اس کی شدت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے جواں مرد اور جری مسلمانوں کے لیے بھی میدان میں پائوں جمانا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو صحابہؓ کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے۔ حضوؐر اکرم کی حیاتِ مبارکہ کی آزمایشوں کا یہ نازک ترین موقع تھا کہ اس معرکے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دوصحابی رہ گئے۔ حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؐ کے دفاع میں  اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ آزمایش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر موجود تھے اور بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے‘ حالانکہ اس وقت آواز دے کر بلانا اپنے بارے میں مشرکین کو خبر دینے کے مترادف تھا۔ لیکن آپؐ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسا کیا اور صحابہؓ کو دوبارہ اپنے گرد جمع کیا اور مسلمان بالآخر دشمن کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

کچھ ایسی صورتِ حال غزوۂ حنین میں بھی پیش آئی۔ جونہی مسلمانوں نے طلوعِ فجر سے پہلے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھے دشمن نے اچانک ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ پھر یکدم جتھوں کے جتھے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمان سنبھل نہ سکے۔ ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا۔ پسپائی اور فرار کا عالم یہ تھا کہ ابوسفیان نے یہ دیکھ کر کہا اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہیں رکے گی۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پکارا: لوگو! میری طرف آئو۔ میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپؐ  کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ’’میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔ اس موقع پر بھی آپؐ  کے ساتھ چند صحابہؓ تھے۔ لیکن ثبات و استقلال کا عالم دیدنی تھا۔

مشورہ اور راے لینا

مشاورت اگر شرعی طور پر مطلوب اور لازمی ہے تو مشکل مواقع پر یہ انتہائی لازم ہے۔ مشورے کے ذریعے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ معاملات کا فیصلہ کرنے والی شخصیات اہل عقل و راے کی چیدہ آرا سے آگاہ ہوں اور کوئی ایسی جامع راے قائم کر سکیں جو انھیں غلطی کا ارتکاب کرنے سے بچائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے کہ اہل ایمان سے مشورہ کر لیا کرو: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)’’اور اہم معاملے میں اِن سے مشورہ کر لیا کرو‘‘۔ جس بات کا حکم قرآنِ مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے دیاگیا ہو‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپؐ  اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حق ادا نہ کریں۔ چنانچہ آپؐ  نے ہرمشکل موقع اور دشوار و کٹھن صورتِ حال میں صحابہؓ سے مشورہ کیا اور بعض مواقع پر لوگوں کی متفقہ راے کو اپنی راے پر ترجیح دی۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم اور اختیار صرف انھی امور میں دیا گیا تھا جن کے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو یا وہ خالصتاً دنیاوی امور ہوں۔

اس کی ایک نمایاں مثال غزوئہ بدر ہے۔ مدینہ کے مسلمان کسمپرسی‘ بے سروسامانی اور بہت سے مسائل سے دوچار تھے۔ ایسے میں جنگ کا مسلط ہوجانا‘ جب کہ بڑی تعداد میں لشکر کی آمد تھی‘ زندگی موت کا سوال تھا۔ اس نازک مرحلے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا اور مختلف مراحل پر راے لی۔ مدینہ سے باہر نکل کر دفاع کا فیصلہ کیا۔ میدانِ بدر میں جب آپؐ  نے اسلامی لشکر کو بدر کے قریب ترین چشمے پر ٹھیرایا تو آپؐ  نے حضرت حباب بن منذرؓ کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دی اور فرمایا: تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔ اس کے بعد آپؐ  لشکر سمیت اٹھے اور آدھی رات کے وقت دشمن کے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑائو ڈال دیا۔اسوئہ رسولؐ میں اس حوالے سے بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں۔

حسن ظن رکہنا

دشمنانِ دین کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اہل دین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے، شکوک و شبہات ڈالتے، افواہیں پھیلاتے اور اسلام و مسلمان کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کرتے ہیں۔ دین اور اہل دین کے لیے یہ لمحات بڑے نازک اور خطرناک ہوتے ہیں خصوصاً اسلامی عناصر کے لیے جو مسلمانوں کی بیداری اور اسلام کے احیا کے لیے کام کررہے ہوں۔ احیاے اسلام کی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ہیں جب دشمن اپنے ان عزائم کو مسلمانوں کے خلاف کامیاب بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر دشمن جو طریقہ اختیار کرتا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور رقیق بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی قیادت کے لیے بھی اور   کارکنانِ دعوت کے لیے بھی انتہائی ہوش مندی اور احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

عہد حاضر میں بھی اس کی بے شمار مثالیں ہمارے روزانہ کے مطالعے اور مشاہدے میں آتی ہیں۔ اس معاملے میں دشمن یہاں تک بھی گر سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ذاتیات کو ہدف بنا کر ان کے اخلاق و کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کسے شک ہو سکتا ہے مگر دشمن یہاں بھی وار کر گیا اور آپؐ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگا دی۔ چونکہ یہ افواہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھی، اس لیے قرآنِ حکیم نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اہل ایمان سے یہ کہا کہ جب تمھیں خانۂ نبوت کی پاک دامنی کے بارے میں شک نہیں تھا تو تم نے یہ خبر سنتے ہی فوراً کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے۔

بدگمانی سے اجتناب اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں محتاط گفتگو ہی دراصل کسی اجتماعیت کو مستحکم رکھنے کا باعث ہوتی ہے اور محض افواہوں پر کارروائیاں ہونے لگیں تو بھی یہ شیرازہ متحد نہیں رہ سکتا‘ اور اگر حقیقی خامیوں کو نظرانداز کیا جاتا رہے تب بھی مخلصین کی رفاقت کو تادیر شکوک و شبہات سے بچائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

صبر کا طویل سفر

بعض لوگ صبر کو ایک منفی رویہ سمجھتے ہیں اور کمزوری و بے بسی اور ذلت و خواری کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ صبر نہیں ہے، بلکہ صبر تو قابل تعریف اوصاف اور مثبت رویوں کا نام ہے۔ صبر تو یہ ہے کہ دشمنانِ دین ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی بندوں کی طرف سے بھی ایک داعی جو ذہنی و جسمانی تکلیفیں اٹھائے ان پر بددلی، کم ہمتی اور جزع فزع کا شکار نہ ہو۔ ثابت قدمی اور صبر لازم و ملزم ہیں۔ اگر داعی صبر سے کام لے گا تو وہ ثابت قدم رہے گا۔ صبر کا دامن جونہی اس کے ہاتھ سے چھوٹے گا اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔

اپنے نفس سے جہاد پر بھی صبر کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں سے جہاد پر بھی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشقتوں مصیبتوں کے جھیلنے کے لیے بھی صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ باطل سے ٹکرانے کے لیے بھی صبر ضروری ہے۔ دعوتِ حق کے راستے کی طویل مسافت بھی صبر کی متقاضی ہے۔ اس راہ کے تکلیف دہ نشیب و فراز بھی صبر ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ برس کی داعیانہ زندگی صبر کی ایک دردناک داستان ہے۔ دیکھیے وہ شخص جو اپنی قوم سے صادق و امین کا لقب پا چکا ہو اور قوم اس کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہو‘ وہ جب کائنات کی عظیم ترین صداقت قوم کے سامنے پیش کرے اور قوم اس کو جھٹلا دے تو اس سے بڑی تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے۔

معزز و محترم اور کعبہ کا متولی قبیلہ محض اس بنا پر تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کر دیا جائے کہ اس کے ایک فرد نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ تین برس تک ان لوگوں کو انسانی ضروریات کی اشیا فراہم نہ ہونے دی جائیں اور انھیں    قوتِ لایموت بھی میسر نہ آ سکے۔ کیا اس سے بڑی حق تلفی بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ کعبہ کے حدودِ حرم کے اندر تو جانور بھی محفوظ و مامون ہوں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی آزادانہ عبادت کی اجازت نہ ہو اور ان پر گندی اوجھڑی پھینکی جائے، ان کا گلا دبایا جائے، ان سے بدکلامی کی جائے۔ کیا یہ نہایت تکلیف دہ امر نہیں کہ حقیقی چچا کے بیٹے آپؐ کی بیٹیوں کو اپنے نکاحوں سے خارج کر کے آپؐ کے گھر بھیج دیں اور وجہ صرف آپؐ کی دعوتِ دین ہو۔ کیا دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ نہیں کہ قوم کے معزز و محترم قبیلے کا پاک دامن چشم و چراغ زندگی کا ایک حصہ مکہ میں گزارنے کے بعد اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اور انتہا یہ ہو کہ دوسری جگہ پہنچ کر بھی اس کو سکون سے نہ رہنے دیا جائے بلکہ مسلسل ۱۰ برس جنگوں میں مصروف رکھا جائے۔ طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے اور اس واقعے میں رسولِ رحمتؐ کے منہ سے نکلے الفاظ بھی سب کو یاد ہونے چاہییں کہ ’’نہیں اے اللہ، نہیں! انھیں تباہ نہ کرنا۔ یہ نہیں تو ان کی اولاد میں سے کوئی تیرا نام لیوا ہو گا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مصیبتوں، تکلیفوں اور ابتلائوں آزمایشوں سے لبریز ہے۔ ان تمام لمحات میں صبر آپ کا اوڑھنا بچھونا رہتا ہے اور آپؐ قرآن کے اس بیان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں:

وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْاعَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰیٓ  اَتٰھُمْ نَصْرُنَا وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ (الانعام۶:۳۴) تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انھیں پہنچائی گئیں، انھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انھیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔

دعوت، دعوت، دعوت!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے مخالفین کی طرف سے تحقیر و تضحیک کی ایک کھلی جنگ کا سامنا کیا۔ قتل و تعذیب سے دوچار ہوئے۔ ہجرت کے عمل سے گزرے۔ مال و اسباب سے محروم ہوئے۔ غرض کوئی ایسی تکلیف باقی نہیں رہ گئی تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ عہد حاضر کی میڈیا یلغاروں اور ابلاغی ہتھکنڈوں جیسے حربے خوب آزمائے گئے۔ اسلام اور مسلمانوں کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے مضحکہ خیز استدلال اور اوچھے نقطۂ نظر پیش کیے گئے۔ الزام عائد کرتے وقت عقل و منطق کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھ دیا گیا‘ حتیٰ کہ آپؐ کو جھوٹ بولنے والا، مجنون، پاگل، دیوانہ اور جادوگر کہا گیا (نعوذ باللہ)۔ معاملہ اس ابلاغی مہم جوئی تک ہی رہتا تب بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھا لیکن مخالفین نے عداوت کی آخری حد تک پہنچنے کے لیے آپؐ کو راستے سے ہٹانے کی دھمکی تک دے دی۔

پھر معاملے کی نزاکت اپنے نقطۂ عروج کو پہنچتی ہے اور آپؐ کے قتل کا عملی منصوبہ مشرکین مکہ کی مجلس میں منظور ہوتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا۔

اس سارے عرصے میں دشمن اپنا کام کرتا ہے اور داعی اپنا۔ دشمن نے اپنے ہتھکنڈے آزمائے اور داعی نے اپنے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور ان مخالفتوں کی پروا کیے بغیر قوم کی مجلسوں میں جا کر اور ایک ایک فرد کو مل کر اپنی دعوت پیش کی۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے: کیا کوئی شخص مجھے سوار کر کے اپنی قوم کے پاس نہیں لے جائے گا؟ (تاکہ میں انھیں دعوت دوں)‘کیونکہ قریش نے مجھے میرے رب کا کلام لوگوںتک پہنچانے سے روک رکھا ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے کی ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے محو سفر رہے اور داعی کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے عزم کو شکستہ نہ ہونے دے اور دعوتِ دین جن قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے ان کو پیش کر کے حمیت فی الدعوۃ کی لاج رکھے۔ یہ بات داعیانِ دین کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہنی چاہیے کہ دعوت اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی جب تک اس کی راہ میں روحوں کو گھلانہ دیا جائے۔ دعوت کی نصرت و تائید کے لیے عزم کی شدت سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ قوتیں صَرف کیے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر دعوت‘ نظریات و خیالات تک محدود ہو گی جو کتابوں میں رقم اور مقررین کی تقریروں میں موجود ہوتی ہے مگر ایسی دعوت کوئی تبدیلی اور انقلاب پیدا نہیں کرسکتی۔ سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے یہ چیز روزِروشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے اپنے جسم و جان سے لے کر دنیاوی سازو سامان تک ہر چیز کو اسلام کے اوپر نچھاور کر دیا جس کے نتیجے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ آج بھی انقلاب کی منزل اسی طریقے سے قریب ہو سکتی ہے!!

 

امکانات سے بھری اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ انسانوں میں کوئی انسان ایسا ہو جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہ ہو‘ وہ کبھی غلطی اور خطا کا ارتکاب نہ کرتا ہو‘ اس سے کبھی گناہ نہ ہوتا ہو۔ خامیوں کوتاہیوں‘ غلطیوں اور خطائوں کے وقوع کو روک دینا انسان کے بس میں نہیں البتہ ان کے وقوع کے امکانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے۔ خطائوں اور برائیوں کے سلسلے کی تاریخ جس قدر مختصر ہوتی ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے اور یہ تاریخ جس قدر طویل ہو چھٹکارا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

خطائوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز انسان کا احساس ہے۔ پھر اس کا ارادہ و عزم اور جوش و جذبہ اس احساس کو عملی قالب میں ڈھالتے ہیں تو انسان کی زندگی گناہوں سے دور اور نیکیوں سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔

احساس سے مراد انفرادی احساس ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو پڑھنے کی کوشش کرے‘ اپنے نفس کی خرابیوں کو پہچانے اور ان کو دور کرنے کا محکم ارادہ کرے۔ تحریک اسلامی کے ایک کارکن کے لیے اس عمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ جب داعی الی اللہ کی حیثیت سے اصلاحِ عوام کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اپنا دامن ان گناہوں سے پاک ہونا چاہیے جن گناہوں کی آلودگی سے وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے اٹھا ہے۔ اسے مضبوط عزم اور ٹھوس کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان‘ علم‘ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہونا چاہیے۔

اس وقت حالات کی دگرگونی کا عالم یہ ہے کہ ہر سمجھ دار اور حسّاس فرد امت اسلامیہ کی دینی و اقتصادی اور سیاسی و اجتماعی زندگی کی بدحالی کا ذکر افسوسناک انداز میں کرتا ہے۔ یقینا یہ احساس ایک اچھے مستقبل کی تمہید ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے اسی طرح کا احساس درکار ہوتا ہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہتری کا یہ عمل کیسے ممکن ہو۔ کوئی پر امن راستہ کون سا ہے جس پر چل کر اصلاحِ امت کی اس منزل تک پہنچا جا سکے؟ اگر صرف ایک جملے میں اس کا جواب دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فرد اپنی اصلاح کر لے تو امت کی بگڑی سنور سکتی ہے‘‘۔ مگر یہ کس طرح ہو؟

محاسبۂ نفس: ضرورت و اھمیت

اصلاحِ نفس کے انداز و طریقے اور اسباب و ذرائع بے شمار ہیں۔ ہم صرف اس ایک ذریعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو اختیار کر لیا جائے تو انسان تزکیہ و تربیت کے دیگر بہت سے ذرائع کی کمی کو از خود پورا کر سکتا ہے۔ یہ ذریعہ’محاسبۂ نفس‘ کا عمل ہے۔

اسلام کا پورا نظام دراصل فرد کی اصلاح کا ضابطہ پیش کرتا ہے۔ شریعت کے احکام کے علاوہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے کہ مسلمان اپنی تربیتِ نفس کی طرف خصوصی توجہ دے۔ لہٰذا فرد کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیا بھلائی کی اور کون سی برائی کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کہاں تک ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے کا مقصد اپنی آیندہ زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے محاسبۂ نفس کا تصور یوں دیا ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے   کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔

امام ابن کثیر کہتے ہیں: ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے پہلے خود ہی  اپنا محاسبہ کر لو اور دیکھو کہ تم نے قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لیے      کیا اعمالِ صالحہ جمع کیے ہیں‘ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تمھارے تمام احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے۔ اس سے تمھاری کوئی شے مخفی نہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر‘ج۴‘ص ۳۶۵)

حدیث رسولؐ سے بھی اس ضمن میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلْقَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ‘ وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَع نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الأَمَانِیَّ (ترمذی:۶۴۵۹) سمجھ دار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مطیع کر لیا اور بعد الموت کے لیے عمل کیا۔ اور بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا اور اللہ سے آرزوئیں کرتا رہا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامشہور قول ہے:’’اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لو‘ اور اپنا وزن کیے جانے سے قبل خود اپنا وزن کر لو۔ یہ تمھارے لیے آسان ہے کہ کل کے حساب سے پہلے آج اپنا محاسبہ کر لو۔ اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جائو‘ جس روز تم کو پیش کیا جائے گا تو تمھاری کوئی چیز مخفی نہیں ہو گی‘‘۔ (امام احمد‘ کتاب الزھد‘ ص ۱۷۷)

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’آدمی اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کو وعظ و نصیحت کرنے والا اس کا اپنا نفس ہوتا ہے اور محاسبۂ نفس اس کی ترجیحات میں شمار ہوتا ہو‘‘۔

امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’غفلت‘ محاسبہ نہ کرنا‘ اصلاح کے کام کو مؤخر کرتے رہنا‘ اور معاملات کو معمولی خیال کرنا‘ یہ سب رویے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکے میں   مبتلا لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور پیش نظر  صورت حال ہی کو دیکھتے اور معافی کے تصور پر انحصار کیے رہتے ہیں۔ وہ محاسبۂ نفس اور انجام پر  نظر رکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب انسان ایسی روش اختیار کرنے لگے تو اس کے لیے ارتکابِ گناہ کے مواقع آسان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے اس کو پیار ہونے لگتا ہے اور ان سے کنارہ کش ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللھفان‘ ج ۱‘ ص ۷۷‘۱۳۲)

ابن قیمؒ محاسبۂ نفس کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آدمی سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج  اس کو کیا خسارہ ہوا اور کیا منافع؟ پھر از سر نو اللہ کے سامنے خالص توبہ کرے اور اس عزم کے  ساتھ سوجائے کہ اب وہ بیدار ہو کر گناہ نہیں کرے گا۔ یہ عمل وہ روزانہ رات کو سوتے وقت انجام دے۔ اگر وہ ایسے عمل پر کسی روز فوت ہو گیا تو وہ توبہ پر فوت ہو گا‘ اور اگر بیدار ہو گا تو عملِ صالح کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بیدار ہو گا۔(کتاب الروح‘ ص ۷۹)

عقیدے کی درستی

انسان کو اپنے جن اعمال و افکار کا جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے ان میں سرفہرست عقیدہ ہے۔ عقیدے کی درستی‘ توحید اور شرک خفی و شرکِ اصغر سے دُوری… عموماً ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب لوگ توجہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ایسے اعتقادات اور اعمال بھی ہیں جو توحید کے منافی ہوتے ہیں یا عقیدۂ توحید کو کمزور کرتے ہیں۔ دراصل توحید کا عقیدہ و تصور ہی انسان کو فرائض کی ادایگی پر آمادہ کرتا ہے‘ مثلاً پانچ وقت کی نماز با جماعت کا اہتمام‘ والدین کے ساتھ اچھا برتائو‘ رشتہ داری کو قائم رکھنا‘ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادایگی‘ پھر تمام چھوٹے بڑے محرمات و منکرات سے دور رہنا اور سنت و نفل اعمال و افعال کو انجام دینا۔ ان تمام صالح امور کی انجام دہی اور ممنوع امور سے اجتناب کے اہتمام پر یقینا انسان کے عقیدے کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ عقیدہ جس قدر قوی و مستحکم ہو گا اعمال کی ادایگی اسی قدر اہتمام سے ہو گی اور عقیدے میں کمزوری ہو گی تو اعمال کی ترتیب‘ ترجیح اور اہمیت بھی متاثر ہو گی۔

وقت کی صحیح قدر

دوسری اہم چیز جس پر ایک فرد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ فرد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’وقت‘ سے کیسے اور کس قدر استفادہ کر رہا ہے۔ دراصل وقت ہی اس کی عمر اور اصل مال ہے اور یہ ضائع ہو گیا تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس اصل سرمایے کو خیر کے کاموں میں صرف کیا ہے یا برائی کے کاموں میں برباد کیا ہے۔ وقت کا استعمال برائی اور بھلائی کے علاوہ بھی ہوتا ہے اور وہ وقت کو بے مقصد اور فضول کاموں میں ضائع کرنا ہے۔ وقت کو اگر برے کام میں ضائع نہیں کیا اور اچھے کام میں بھی استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی وقت کا ضیاع ہی ہے۔ وقت‘ یعنی انسان کی عمر سے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جب تک چارچیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا انسان اپنے قدم ہلا نہیں سکے گا۔ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز ’وقت‘ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں ختم کیا اور جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں کھپایا‘‘۔

محاسبۂ نفس اور توبہ

محاسبۂ نفس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام رویوں‘ روشوں‘ اعمال و افعال اور   افکار و خیالات سے دامن کش ہو جائے‘ جن کا خلافِ شریعت اور منافی ِاخلاق ہونا ثابت ہو۔ کوتاہی اور گناہ کے چھوٹے ہونے کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے غلطی اور گناہ سمجھتے ہوئے اس کو اپنے  عمل کے دائرے سے خارج کر ڈالنے کے لیے کمر ہمت باندھنی چاہیے۔ یہ کام توبہ سے ہوتا ہے۔ غلط اعمال و افکار کا تعلق اگر براہِ راست شریعت سے ہو تو بھی توبہ ہی ان کی تطہیر کرتی ہے اور اگر انسانی رویوں سے ہو تب بھی توبہ ہی ان سے خلاصی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’گناہوں سے توبہ فوراً ضروری ہے۔ اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر گناہ گار عملِ توبہ کو مؤخر کرے گا تو اپنی اس تاخیر میں اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اگر وہ توبہ تاخیر سے کرے گا تو گناہ سے اس کی توبہ کا فرض تو پورا ہو جائے گا مگر تاخیر کی غلطی کی توبہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔ چونکہ یہ کوتاہی گناہگاروں کی عمومی روش ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم اور نامعلوم تمام گناہوں سے توبہ کی جائے‘‘۔ (مدارج السالکین ج۱‘ص ۲۷۲-۲۷۳)

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح گناہگاروں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں سے تائب ہونے کی ضرورت ہے‘ اس طرح مطیع اور فرماںبردار لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس پر توبہ کرنا فرض ہے یا وہ یہ سمجھے کہ اسے توبہ کی ضرورت نہیں‘ وہ شخص دراصل غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کمال کے بھرے میں آ کر اپنے آپ کو بے گناہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا خیال جب تک انسان کے دماغ میں رہے‘ اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شیطان نے اس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر بعض انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔

امام ابن تیمیہؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’انسان ہمیشہ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت پر اس کا شکر کرنے اور گناہ پر معافی مانگنے کی دو حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ دونوں امور     ہمیشہ انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں زندہ رہتا ہے اور    ہمیشہ اسے توبہ و استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کے سردار اور متقیوں کے امام جناب محمد رسولؐ اللہ ہر حالت میں اللہ سے استغفار کرتے رہتے تھے‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہ‘ ج ۱۰‘ ص ۸۸)

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عمومی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے انھیں خالص توبہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم ۶۶:۸)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو‘ خالص توبہ‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ تو غفور رحیم ہے‘‘۔

گناہ کے بعد توبہ مومن کی صفت خاص ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اپنے بندوں کی قابل تعریف صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵) (ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً ً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے‘ اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

انسان سے غلطی اور خطا کا صدور ہر وقت ممکن ہوتا ہے اس سے کوئی انسان مبرا نہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کُلُّکُمْ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون ’’تم میں سے ہر کوئی خطا کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں پر توبہ کر لینے والے بہترین خطا کار ہیں‘‘۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا‘ حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ‘ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبُ لَہُ‘ مَنْ یَسْأُلُنِی فَأُعْطِیْہِ‘ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ (صحیح بخاری) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرما ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کا جواب دوں‘ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں‘ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔

ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے۔ اور دن کوہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ را ت کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے یہاں تک کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہونا شروع ہو جائے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے درِ توبہ قربِ قیامت تک کھلا ہے‘ جو بھی اس کی طرف بڑھے‘ لپکے یا دوڑے اس کو یہ دروازہ   بند نہیں ملے گا۔ وہ رات کو جائے یا دن کی روشنی میں اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ عفو میں چھپالینے کے لیے تیار ہے۔

گناہ کے عام مفہوم کے متعلق یہ غلط فہمی دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ صرف چوری‘ زنا اور غیبت جیسے برے کام ہی نہیں ہوتے بلکہ شریعت کے فرائض کو ادا نہ کرنا‘ یا ان کی ادایگی میں کمی یا کوتاہی کرنا بھی گناہ ہے‘ مثلاً نماز ادا نہ کرنا‘ یا مکمل طور پر ادا نہ کرنا‘ اس کے اوقات میں ادا کرنے سے سستی کرنا‘ جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا‘ خشوع و خضوع سے ادا نہ کرنا۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہ کرنا‘ یا اللہ کی طرف دعوت دینے میں غفلت کرنا‘ یا مسلمانوں کے مسائل و معاملات سے سروکار نہ رکھنا‘ یا ایسے دیگر فرائض جن کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

گہرا ایمان اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھنے والے مسلمان کے نزدیک گناہ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک تو تمام گناہوں پر توبہ فرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام خطائیں اللہ کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ کر کے نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَاِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ کَمَثَلِ قَومٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ‘ فَجَائَ ذَابِعُودٍ‘ وَجَائَ ذَابِعُودٍ، حَتّٰی حَمِلُوا مَا أَنْضَجُوا بِہٖ خُبْزَھُمْ ، وَاِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتٰی یُؤْخَذُ بِھَا صَاحِبُھَا تَھْلْکُہُ (روایت‘ امام احمد بن حنبل ۵/۳۳۱) ’’گناہوں کو معمولی نہ سمجھو‘ گناہوں کو معمولی سمجھنا ایسا ہے جیسے کوئی قوم کسی جگہ پر (دوران سفر) ٹھہری اور کوئی اِدھر سے ایک لکڑی اٹھا لایا اور کوئی اُدھرسے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس قدر لکڑیاں اکٹھی کر لیں جس سے ان کی روٹیاں پک سکیں۔ اور گناہوں کو معمولی سمجھنے کی بنا پر جب کسی انسان کو پکڑا جائے گا تو یہ روش اس کو ہلاک کر ڈالے گی‘‘۔

محاسبۂ نفس اور دعا

جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے اور آیندہ کے لیے اپنی دامن بچانے کا عہد کرتا ہے تو اس کے ذمے ایک فرض عائد ہو جاتا ہے۔ انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اس کو اسی قدر اس کا صلہ ملتا ہے۔ لیکن ایک مؤمن کا معاملہ محض کوشش ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ اس کوشش کو اللہ کی توفیق سے وابستہ کرتا ہے۔ وہ نیکی کرتا ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق بخشی‘ گناہ سے بچتا ہے تو بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ اللہ نے اسے گناہ سے بچا لیا۔

اس تناظر میں دیکھیں تو نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے توفیق ایزدی کا ہونا ہمارے ایمان کا جزو قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس توفیق ایزدی کے حصول کے لیے مومن کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

مسلمان معاشروں کے انفرادی و اجتماعی تمام دائروں میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ فرد کی ذاتی اصلاح اور محاسبۂ نفس میں اس کی ضرورت و اہمیت سے وہی شخص حقیقتاً آگاہ ہو سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ دعا دراصل انسان کا اللہ کے سامنے بے بسی‘ عاجزی اور فقیری کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت اور سطوت و جبروت کا اعتراف ہوتا ہے۔ دعا کی ترغیب خود  اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے:

وقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

دوسری جگہ فرمایا:

اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ بِدَعْوَۃٍ اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ اِیَّاھَا‘ أَوْصَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَھَا‘ مَا لَمْ یَدَعْ بِـاِثْمٍ أَوْقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ(ترمذی) ’’روے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا پوری کر دیتا ہے‘ یا مطلوبہ چیز کے مثل کوئی شر دفع کر دیتا ہے۔ (قبولیت کا یہ حق اسے اس وقت تک حاصل رہتا ہے) جب تک وہ کسی گناہ کے لیے یا رشتے داری توڑنے کے لیے دعا نہ کرے‘‘۔

یہ بات سن کر ایک شخص بولا تب تو ہم بہت زیادہ دعا کیا کریں گے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بہت زیادہ دے سکتا ہے۔

ایک حدیث میں اس شخص کو بے بس کہا گیا ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔ فرمایا: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ (جامع ترمذی) ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ شخص ہے جو دعا نہ کر سکتا ہو‘‘۔

رسول اکرمؐ نے تزکیہ نفس اور دعا کے باہمی تعلق کو صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ یہ تزکیہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے فرمایا: اِنَّ الاِیْمَانَ لَیَخْلُقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلُقُ الثَّوْبُ‘ فَسَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُجَدِّدَ الاِیْمَانَ فِی قُلُوبِکُمْ(طبرانی‘ حدیث حسن) ’’جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کسی کے پیٹ (مراد دل) میں موجود ایمان بھی پرانا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں موجود ایمان کی تجدید کرتا رہے‘‘۔

جو شخص دعا کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے‘ گویا اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے خیر کی توفیق اور  راہ راست کی طرف ہدایت کے لیے اللہ کی نصرت کی خصوصی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ توفیقِ الٰہی مجھے میسر نہ رہی تو میں دنیا و آخرت میں سراسر خسارے میں رہوں گا۔ اس احساس کو جس قدر مضبوط کیا جائے اس کے فوائد اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان کی زندگی میں اسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ جب اسے احساس کی یہ توفیق میسر ہو گی   تو وہ ہر لمحے اپنی دعا کی قبولیت کے لیے اللہ سے پُرامید رہے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الحاح اور    آہ و زاری کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صلاح و سلامتی کے لیے دعا گو رہے گا۔ ہمیشہ اللہ کی عبادت اور ذکر و شکر کی توفیق مانگتا رہے گا۔

یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ رات کی آخری تہائی‘ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت اور حالت سجدہ قبولیت ِدعا کے بہترین اوقات ہیں۔

محاسبۂ نفس کے یہ تمام ذرائع دراصل انسان کی تربیتِ نفس کے ذرائع ہیں‘ اور شریعت کا مقصود نفس کی تربیت ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو الٰہ بنا کر زندگی بھر ان کی پیروی نہ کرے بلکہ نفس کو ایک ضابطے اور قاعدے کا پابند بنا کر محفوظ اور پُرامن راستے پر چلائے‘ جو اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل پر پہنچا دے۔ قرآن مجید نے اس تزکیے کو کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے‘ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴-۱۵) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمّس ۹۱:۹‘۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

اس سفر تربیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: محاسبہ نفس‘ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے اور تزکیہ نفس کامرانیِ نفس کا باعث ہے۔ اس کامیابی کا دوسرا نام خوشنودیِ رب ہے جسے حاصل کرنا مومن کی زندگی کا مقصود و مطلوب ہے۔