محمد کبیر بٹ


مسلمانوں کی پستی و گراوٹ اور ذلت و رسوائی کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان اسباب کو صرف ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ ہے مسلمانوں کا قرآن مجید سے اعراض    ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اب اگر اس پستی اور ذلت سے نجات کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے تو وہی ہے جس کی نشان دہی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے فرما دی تھی: اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھَذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنْ (مسلم)،بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کے ذریعے کچھ لوگوں کو عزت اور سربلندی عطا فرمائے گا اور کچھ کو پستی اور ذلت سے دوچار کردے گا۔ جن افراد اور قوموں نے قرآن عظیم کو سیکھا ، سمجھا اور اس پر عمل کیا، اللہ نے ان کو سربلند و سرفراز فرمایا اور جنھوں نے اس سے رُوگردانی کی وہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوئے اور ہوں گے۔ اس حقیقت کو ربِ جلیل و قدیر نے اس وقت دوٹوک انداز میں حضرتِ انسان کے سامنے واضح کر دیا تھا جب ہمارے جدِ امجد سیدنا آدمؑ کو جنت سے زمین پر بھیجا تھا ۔

اس مضمون کو سورئہ بقرہ اور سورۂ اعراف میں بھی بیان کیا گیا ہے، جب رب کریم نے اس حقیقت کو دو اور دو چار کی طرح کھول کر واضح کر دیا کہ زمین میں انسان جس رب کا خلیفہ اور نائب مقرر کیا گیا ہے جب تک وہ اپنے مالکِ حقیقی کی ہدایات پر عمل پیرا رہے گا وہ دنیا میں بھی عزت اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور آخرت میں بھی اپنے مالک کی رضا حاصل کر کے جنت کا وارث قرار پائے گا ۔لیکن اگر وہ مالکِ حقیقی کی رہنمائی سے منحرف ہو کر گمراہی کے خود ساختہ راستوں پر چل پڑے گاتو ساری وسعتوں کے باوجود دنیا اس کے لیے تنگ کر دی جائے گی۔ اس کی زندگی مشکلات اور مسائل، بدامنی اور بے سکونی کی زندگی ہو گی اور مرنے کے بعد اسے حقیقی ذلت اور عذابِ جہنم سے دوچار ہونا پڑے گا۔افسوس کہ امت ِ مسلمہ کے رہنماؤں کو اتنے واضح او رروشن دلائل میں بھی نجات کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

ایمان اور تقویٰ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی کا وعدہ فرمایا ہے ۔اللہ کی کتاب اور اس کی ہدایات پر عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والا تقویٰ جس کی برکت سے آج ہمارا معاشرہ محروم ہو چکا ہے اور ہم رزق کی برکت سے محروم ہو چکے ہیں۔اللہ کے ان وعدوں کی سچائی تاریخ کے آئینے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔اللہ نے بنی اسرائیل کو موسٰی ؑ کی قیادت میں فرعون سے نجات دی،سرزمینِ مصر اور شام میں ان کو اقتدار، رزق کی فراوانی اور امن وسکون کے علاوہ من وسلویٰ بھی عطا کیے۔اَ. نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(البقرہ۲:۴۷)  کا فرمان جاری کرکے  ان کو فضیلت کے منصب ِ جلیلہ کی مسند پر بٹھادیا۔ لیکن تورات اور انجیل میں نازل کردہ ہدایات سے انحراف کے نتیجے میں ان پر ذلت ورسوائی کا کوڑا یوں برسایا: وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ  ق وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِط (البقرہ۲:۶۱) ’’ان پر ذلت و مسکینی (رُسوائی کے ساتھ رزق کی تنگی اور معاشی بدحالی) مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِرگئے‘‘۔ کہاں من وسلویٰ کے مزے اور سلطنت و حکومت کی عزت اور فضیلت کا مقام اور کہاں مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ، پستی اور گراوٹ کی انتہا! کیا قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت میں ہمارے لیے کوئی سبق نہیں!

ہماری اپنی تاریخ کا درخشاں دور بھی اسی حقیقت کی گواہی دے رہا ہے کہ  ع   وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔ عرب کے صحرا نشین اور چرواہے جو کسی تہذیب سے آشنا نہیں تھے  لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے ۔وقت کی تہذیب یافتہ قومیں، روم وفارس ان کو جاہل،دقیانوس اور گنوار قرار دیتی تھیں۔ محمد عربیؐکی بعثت اور نزول قرآن کے ذریعے رحمت الٰہی کی ایسی پھوار ان پر پڑی کہ عرب کی بنجر زمین میں ہر طرف انسانیت کی رہبری اور رہنمائی کرنے والے نفوسِ قدسیہ کی ہری بھری کھیتیاں لہلہانے لگیں۔وہ بدو جن کو اونٹ چرانے کا ڈھنگ بھی نہ آتا تھا قرآنی ہدایات نے ان کو انسانیت کی گلہ بانی کا ہنر سکھا دیا۔

یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ الکتاب ہے  ع  ایں کتابے نیست چیزے دیگر است۔ یہ ایسا پارس پتھر ہے جس سے مس ہونے والی ہر چیز دنیا کی خاص چیزوں میں شمار ہونے لگتی ہے۔یہ قرآن جس ہستی پر نازل ہوا وہ امام الانبیاؐ اور خیر البشر کے مقامِ بلند پر فائز ہیں ۔یہ قرآن جس ماہ میں نازل ہوا وہ سیّد الشہور(مہینوں کا سردار)اور با برکت مہینہ قرار پایا۔جس رات قرآن کریم کا نزول ہوا وہ رات لیلۃ القدر کا اعزاز پاکر ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہو گئی۔جن شہروں میں قرآن کریم نازل ہوا، وہ حرمین شریفین کے مقدس اعزاز سے نوازے گئے۔ جن حجروں میں قرآن کریم کی بابرکت آیات کا نزول ہواوہ حجرے امت کی رہبری اور رہنمائی کا سر چشمہ بن گئے۔ جس فرشتے کو قرآن امام الابنیاؐ تک پہنچانے کا شرف حاصل ہواوہ روح الامین اور فرشتوں کے سردار ہوگئے۔ جس عربی مبین میں قرآن کا نزول ہوا، وہ ہمیشہ کے لیے دنیا کی زندہ زبان بن گئی بلکہ اہلِ جنت کی زبان بھی یہی ہو گی۔جس قوم کی طرف الہدیٰ کا پیغام بھیجا گیا، وہ گمنام بدوؤں اور چرواہوں سے دنیا کی رہبری اور رہنمائی کے عظیم منصب پر فائز ہوگئی۔اس قرآن کے سیکھنے اور سکھانے والے کو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کا عظیم انسان قرار دیا،اور جو اس کتاب کو پڑھ کر اس پر عمل کرے    اس کے والدین کو قیامت کے دن خلعتِ فاخرہ اورسورج سے زیادہ روشن تاج کی بشارت دی گئی۔  قرآن کی تلاوت کرنے والے کو اپنے رب سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ہاں! جس امت کی طرف یہ قرآن بھیجا گیا وہ امتِ وسط اور خیر ِامت قرار پائی۔

مسلمانو! خدارا اس کتا ب کو پہچانو، اس کی قدرومنزلت کا احساس دلوں میں پیدا کرو، اور دنیا کی ٹھیکریاں جمع کرنے کے بجاے قرآن کے ذریعے ہیرے جواہرات تلاش کرو۔ ذرا اس فرمانِ الٰہی کو غور سے سنو: ’’لوگو، تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اِس پر تو لوگوں کی خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ (یونس۱۰: ۵۷-۵۸)۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ دنیا بھر کی دولت سے بہتر اور افضل ہے۔ لیکن ہم کتنے بد قسمت ہیں جو اس چشمۂ صافی اورآب حیات سے فیض یاب ہونے کے بجاے غفلت برت رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم کچھ یوں ہے جس کو قرآن جیسی دولت عطا ہوئی پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیداہوا کہ کسی دوسرے کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی ہے تو اس نے قرآن کی قدرو منزلت کو نہ پہچانا۔ مسلمانو! یہ ہے اصل دولت جسے چھوڑ کر تم کوٹھیاں ،کاریں ،اور پلاٹ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، جو سب فناہونے والی چیزیں ہیں۔ قرآن ہمیں فنا سے بقا کی طرف بلاتاہے ۔ یہ قرآن ہماری ختم ہوجانے والی صلاحیتوں اور مال و اسباب کو اپنی ہدایت کے ذریعے جنت کی ابدی اور لازوال نعمتوں میں بدل دیتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال ۸:۲۴)، یعنی اے ایمان والو! اللہ اور اس کا رسولؐ جب تمھیں بلائیں تو ان کی اس دعوت کو قبول کرو جس میں تمھارے لیے زندگی کا سامان ہے۔

دراصل مسلمان کی حیثیت سے عزت کے مقام کو حاصل کرنے اور دنیا کی نعمتوں سے حقیقی فا ئدہ اٹھانے کا مستحق وہ گروہ ہے جو قرآن کو اپنا رہبر اور رہنما بنا لے۔ آج یہود و نصاریٰ کو اپنا رہبر بناکر مسلمان امامت عالم کے منصب ِجلیلہ پہ فائز ہونے کے باوجود پستی اور گراوٹ سے دوچار ہیں، اس سے نجات کا راستہ وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالک نے فرمائی تھی: لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّابِمَا صَلُحَ بِہٖ أَوَّلُھَا، اس اُمت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی چیزسے ہوگی جس سے اس کے ابتدائی دور کی اصلاح ہوئی تھی۔ نبی رحمتؐ نے عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کے سامنے جو اصلاحی پروگرام پیش کیا تھا، اسی کو القرآن، الہدیٰ اور الکتاب کہا جاتا ہے۔

قر آن کی ہدایات سے اعراض کر کے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنا یا ترقی کرنا اور دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہونا ناممکن ہے  ع  ایں خیال است و محال است وجنوں! ہم روزانہ  اللہ کے سامنے دست بستہ ہو کر دن اور رات کے اوقات میں بار بار یہ دعا کرتے ہیں: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ’’اے ہمارے رب!ہمیں صراط مستقیم دکھا ۔وہ سیدھی راہ جو گمراہی کی تمام پگڈنڈیوں کے درمیان سے نکلتی ہے اور دنیا سے ہوتی ہوئی سیدھی جنت تک پہنچتی ہے۔ کبھی ہم نے اس پر غور بھی کیا کہ اللہ نے قرآن میں اس دعا کا جواب کیا دیا ہے ۔اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹)، یعنی یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔ اور ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں اس کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔  یہ دراصل اس دعا کا جواب ہے کہ اے ایمان والو!صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہو تو اس قرآن کا دامن تھام لو۔اس سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرو، تمھیں صراط مستقیم مل جائے گی۔ سورئہ انعام میں اس بات کو مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے: ’’اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے۔    سو اس دین کا اتباع کرو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ راہیں تمھیں اللہ کی راہ (صراطِ مستقیم)سے ہٹادیں گی۔ اس (راہ پر چلنے)کا اللہ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین حق اور الہدیٰ کے پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا،مسلمانوں کو اس دین ِ حنیف پر مضبوطی سے قائم رہنے کی تاکید جابجا کی گئی ہے۔ اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشورٰی ۴۲:۱۳)’’دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو‘‘۔ آج مسلمان کتاب ہدایت سے اعراض کے نتیجے میں صراط مستقیم سے بھٹک کر گمراہی اور پستی میں گرتے چلے جارہے ہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ لا (الحدید۵۷:۱۶) ’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں ، اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں‘‘۔ دلوں کی سختی کو قرآن کی آیات ہی نرمی میں بدل سکتی ہیںبشرطیکہ ہم قرآن کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات میں غور وتدبر کریں۔ ان کا فہم حاصل کریں اور ان احکامات پر عمل کریں۔

 حضرت فضیل بن عیاض ؒ ایک صوفی بزرگ تھے۔ ابتداً وہ ایک ڈاکو تھے۔ درج بالا آیت مبارکہ سن کر ان کی چیخ نکل گئی اور اللہ کے ذکر سے ان کا دل پگھل گیا ۔ فضیل نے قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا مقصد حیات بنا لیا۔ وہ ڈاکو اور رہزن سے رہبر اور رہنما بن گئے۔ ہم بھی بحیثیت ِ قوم (کچھ استثناکے ساتھ )اللہ کے باغی اور نافرمان، خائن اور بددیانت ،جھوٹے اور مکار بن چکے ہیں۔ پس اے قوم اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرلو، تمھیں کھویا ہوا مقام پھر مل جائے گا۔

قابلِ رشک زندگیاں کن لوگو ں کی ہیں؟ اللہ کے حبیبؐکی زبانِ مبارک  سے سنیے! فرمایا: ’’رشک جائز نہیں مگر دو طرح کے آدمیوں پر ۔ایک وہ جسے اللہ نے قرآن (کا علم) دیا وہ دن رات کے اوقات میں قرآن پڑھتا اور پڑھاتا ،سیکھتا اور سکھاتا ہے۔ اور وہ آدمی جس کو اللہ نے مال دیا وہ دن اور رات کے اوقات میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ یہ ہیں قابل رشک لوگ، لیکن ہمیں رشک آتا ہے لمبی کاروں، اُونچی کوٹھیوں ،زرق برق لباس اور پُرتعیش زندگیوں پر۔

مسلمانو! یہ ہے وہ گوہرِ نایاب ،یہ ہے وہ خزانہ جس پر ہم کنڈلی مار کر ناگ کی طرح بیٹھے ہیں۔اسے ریشمی جزدان میں رکھتے ہیں۔لڑکیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔قریب المرگ کے سامنے اسے پڑھتے ہیں تاکہ دم نکلنے میں آسانی ہو۔عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھاتے وقت اسے سر پر اُٹھاتے ہیں۔پریشانی کے وقت اس سے فال نکلواتے ہیں۔قرآن کے ساتھ یہ ظلم کرنے والے کوئی اور نہیں خود اس کو اللہ کا کلام ماننے والے ہم مسلمان ہی ہیں۔ماہر القادری نے ہمارے حال کی کتنی خوب صورت منظر کشی کی ہے۔ اپنی مشہورنظم ’قرآن کی فریاد‘میں کہتے ہیں:؎ 

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں

 تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

  یہ میری عقیدت کے دعوے ،قانون پہ راضی غیروں کے

  یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

قرآن انقلاب کی کتا ب تھی، ہم نے اسے ثواب کی کتاب بنا دیا۔یہ اعمال اور سیرت و کردار کو بنانے اور سنوارنے کی کتاب تھی، ہم نے اسے وظیفوں کی کتاب بنا دیا ہے۔یہ سمجھنے اور عمل کرنے کی کتاب تھی، ہم نے اسے صرف بے سمجھے بوجھے پڑھنے کی کتاب بنا دیا ہے۔یہ زندوں کا دستور تھا ، ہم نے اسے مُردوں کا منشور بنا دیا۔یہ تسخیرِ کائنات کا درس دینے آئی تھی،ہم نے اسے مدرسوں کا نصاب بنادیا۔یہ مُردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی ،ہم نے اسے مُردوں کو بخشوانے پر لگا دیا۔

مسلمانو!رُک جاؤ، لوٹ آؤ اس کتاب کی طرف۔ہر مسلمان اس کتاب کوسمجھ کر پڑھنے کا دل سے عہد کرے۔پھر اس کی آیات میں اپنی استطاعت کے مطابق غور و تدبر کرے، اس کے  معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے،جو سمجھتا جائے اس پر عمل کرتا جائے۔ اس کے نتیجے میں زندگیوں میں اعمالِ صالحہ کی بہار آنی شروع ہو جائے گی۔معاشرے اور گھروں کا منظر بدلناشروع ہو جائے گا۔ قرآن کے دامن میں چھپی مومنین صالحین کی تصویریں گلیوں،با زاروں میں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں گی۔پھر ہمارے ملک اور معاشرے میں بھی امن و آشتی کا سماں قائم ہو جائے گا۔ ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے بجاے ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خوا ہ بن جائیں گے۔  شرط یہ ہے کہ ہم اپنے دین اور اللہ کی کتاب کو سمجھنے کے لیے آج ہی سے محنت شروع کردیں۔   اللہ کے حبیبؐنے فرمایا: اس وقت تمھارا کیا حال ہو گا جب تم بیل کی دُم تھام لو گے، یعنی دنیا کے کاروبار میں لگ جاؤ گے (دنیا داری میں مگن ہو جاؤ گے)اور اپنے دین کے لیے محنت کرنا چھوڑ دو گے۔جب ایسا ہو گا تو تم پر ذلت و محکومی مسلط کردی جائے گی۔جس سے تمھیں اس وقت تک نجات نہ ملے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ پلٹ آؤ۔

ذلت اور محکومی آج ہمارے گلے کا ہار بن چکی ہے۔مخبرِصادقؐنے چودہ صدیاں قبل ہمیں نورِ نبوت کی روشنی میں اس بدترین غلامی کی خبر دے دی تھی ۔آج بھی اگر ہم ہوش کے ناخن لیں، یہود ونصاریٰ کی تقلید سے بچیں، قرآن کو اپنا رہبر اور رہنما بنا لیں، اس کی روشن آیات سے رہنمائی حاصل کریں، پھر پورے عزم و جزم کے ساتھ اس راستے پر چل پڑیں، تو ہم اپنی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرسکتے ہیں۔شاعرِ مشرق کہتے ہیں    ؎

بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات

درِ ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات

(اگر تجھے دوام و ثبات مطلوب ہے تو قرآن سے خوشہ چینی کر ۔میں نے دیکھا ہے کہ اس میں آبِ حیات ہے)۔

ہاں، وہی آبِ حیات جس کو عرب کے بادیہ نشینوں نے نوش فرمایا تو اُن کی زندگیاں پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن گئیں۔

اے مسلم حکمرانو! اے اُمتِ مسلمہ کے دانش ورو!اے قرآن کے وارث علماے کرام! خدارا! اپنی قوم کی رہنمائی کا حق ادا کرو۔ اس قوم کو پھر سے قرآن کا آبِ حیات پلاؤ۔ ان غلاموں کو پھر آزادی کا سبق پڑھاؤ۔ ہاں، وہ سبق جس کے لیے صحابہ کرامؓ اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے‘‘۔ حضرت ربعیؓ بن عامر سے جب رُستم نے پوچھا تھا تم ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے  اس قدر جرأت مندکیسے ہو گئے کہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہو؟اسلام کے اس سفیر نے فرمایا تھا: ہم آئے نہیں، ہم بھیجے گئے ہیں۔ جن لوگوں کو ماؤں نے آزاد جنا تھا تم نے ان کو اپنی غلامی کے طوق پہنا رکھے ہیں۔ ہم ان کو اس ذلت اور غلامی سے نجات دلانے آئے ہیں۔تم نے لوگوں کو دنیا کی تنگنائیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ہم ان کو آخرت کی وسعتوں میں لے جانا چاہتے ہیں۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کچھ لوگوں کو اپنے مقربین میں شامل کرلیتا ہے۔ وہ جو قرآن کو اپنا لیتے ہیں وہ اللہ کے مقربین اور خاص بندے بن جاتے ہیں‘‘(احمد ، نسائی)۔کون ہیں جو قرآن کو اپنا لیتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے کلام کو پڑھنے پڑھانے، سمجھنے سمجھانے،سیکھنے سکھانے، عمل کرنے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ (اللّٰھم اجعلنا منھم)۔ آج مسلمان شرک اور بدعات کے ساتھ جہالت کے جن اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، قرآن کا دامن تھام کر ہی ان اندھیروں سے نکل سکتے ہیں اور روشنی کا راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے دلیلِ روشن آگئی ہے۔ اور ہم نے تمھاری طرف واضح روشنی نازل کر دی ہے۔پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس نورِمبین (قرآنِ حکیم)کو مضبوط پکڑ لیا انھیں تو وہ اللہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں داخل فرمائے گا۔اور انھیں اپنی طرف آنے کے لیے صراط مستقیم دکھائے گا‘‘(النساء ۴:۱۷۴-۱۷۵)۔ رحمتِ للعالمینؐ نے فرمایا:’’ یقینا اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔پس اسے مضبوطی سے تھام لو، تم ہمیشہ کے لیے گمراہی اور ہلاکت سے بچ جاؤ گے‘‘۔

آج ہم گمراہ ہو کر ہلاکت کے جس گڑھے میں گر چکے ہیں اس کا سبب قرآن کی تعلیمات سے رُوگردانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟

حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرمؐسے سُنا ہے: ’’عنقریب ایک فتنہ برپا ہوگا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہو گا؟آپؐ نے فرمایا:کتابُ اللہ۔ اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں اور بعد میں آنے والے لوگوں کی خبر ہے۔تمھارے درمیان فیصلہ کرنے والی ہے اور اس کا فیصلہ قولِ فیصل ہے،مذاق نہیں۔کسی متکبر نے اگر اس کو چھوڑ دیا تو اللہ اس کو ہلاک کر دے گا۔اور جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہدایت طلب کی وہ گمراہ ہو جائے گا۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور یہ ذکرِ حکیم ہے (نصیحت و حکمت)۔یہ سیدھی راہ ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس سے صرف وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اس سے زبانیں خلط ملط نہیں ہوتیں۔علما اس سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔بار بار دہرانے سے یہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔یہ وہ کتاب ہے کہ جب جنوں نے اس کو سن لیا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، حتیٰ کہ پکار اُٹھے: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْٰانًا عَجَبًا o (الجن ۷۲:۱)،کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ جس نے اس سے بات کی اُس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر دیا جائے گا۔    جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا، اور جس نے اس کی طرف لوگوں کو بلایا اس نے سیدھے راستے کی طرف بلایا‘‘۔(مشکٰوۃ)

 حضرت علیؓ کے دور میں جب آپؓ کے ایک ساتھی حارث اعور نے ان سے لوگوں کے باہمی اختلافات اور تنازعات کا ذکر کیا تو آپؓ نے فرمایا ایسے فتنوں سے نکلنے کا واحد راستہ اللہ کی کتاب ہے۔آج ہم بھی طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہیں۔ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔ قبائلی عصبیتیں ہوں یارنگ و نسل کے جھگڑے،شرک اور بدعات کے مسائل ہوں یا مذہبی اختلافات، سیاسی اور معاشرتی تنازعات ہوں یا اخلاقی پستی اور ٖگراوٹ، حکم ہے: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ (النساء۴:۵۹)، یعنی ہر لڑائی اور جھگڑے اور ہراختلافات کا حل اللہ کی کتاب اور رسولؐکی سنت میں تلاش کرو۔ آپؐنے فرمایا:    یہ کتاب تمھارے درمیان فیصلے کرنے والی ہے اور اس کے فیصلے ہی عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو چھوڑ کرجو فیصلے کسی دوسرے قانون کے مطابق کیے جاتے ہیں وہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔اور ایسے فیصلے کرنے والے قرآن کی رو سے یا تو کافر ہیں یا ظالم ، یا فاسق و فاجر جیساکہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر مسلم حکمران اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہ کریں تو اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے میں پھوٹ ڈال دیتا ہے اور وہ آپس میں کُشت و خون کرنے لگتے ہیں۔(بیہقی ، ابن ماجہ)

اس وقت پوری دنیا کے مسلمان بالعموم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام بالخصوص جس باہمی جنگ و جدال ،جن مسائل اور بد امنی سے دو چار ہیں، یہ کتابُ اللہ اور سنت رسولؐسے رُوگردانی کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے اس خطۂ زمین کو اللہ سے اس عہد کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ یہاں قرآن کو دستور زندگی بنائیں گے، لیکن ۶۵سال سے ہم اس عہد کی خلاف ورزی پر مُصر ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے، جس قوم نے عہد کی خلاف ورزی کی، اس پر دشمن کا تسلط ہو کر رہے گا۔ آج ہمارے دشمن پوری طرح ہم پر حاوی ہو چکے ہیں ۔ہر روز مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اے قوم!اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرلو ورنہ اس سے بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ قرآن مجید نبیصلی اللہ علیہ وسلمکی ہمارے پاس وہ امانت ہے جس سے بے اعتنائی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اس کے رسولؐکی سنت‘‘۔ جس امانت کا بار نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے کندھوں پر ڈالا گیا تھا، آپ ؐنے اس کا حق ادا کر کے اسے اُمت تک پہنچا دیا۔ اب یہ امانت ہم سے یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہم بھی اس کا حق ادا کریں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کا ہمارا رویہ اس کتاب کے ساتھ کیسا ہے؟

ہم سے پہلے بنی اسرائیل کو اللہ کی کتاب کا وارث بنایا گیا تھا۔ جب انھوں نے اس کا حق ادا نہ کیا تو وہ خدا کی لعنت کے مستحق ٹھیرے اور خدا کی رحمت سے دُورپھینک دیے گئے۔ سورۂ جمعہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا پھر انھوں نے اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پربہت ساری کتابیں لاد دی گئی ہیں‘‘۔بنی اسرائیل کا    اللہ نے کیا حشر کیا، قرآن کے صفحات میں ان کی روداد بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ یہ تفصیل اس لیے دی گئی ہے تا کہ ان کی وارث بننے اور ان کے بعد آنے والی اُمت، ان کے حالات سے پوری طرح واقفیت حاصل کرکے اپنے آپ کو ان خرابیوں سے بچاسکے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ کے مقام بلند سے کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ (ذلیل بندر بن جاؤ) کے گڑ ھے میں پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل کے ان عبرت ناک واقعات سے ہم نے کوئی سبق نہیں حاصل کیا ؟ عقل مندوں کے لیے اس میں بڑی عبرت ہے۔ کیا ہم عقل مند بننے کے لیے تیار ہیں؟ قرآن ہمارے پاس موجود ہے جو شِفَائٌ  لِّمَا فِی الصُّدُوْرہے۔ انسانیت کو جتنے روگ لگ سکتے ہیں ان سب کے لیے قرآن میں شفا موجود ہے ۔ ہم اس سے جن بھوت بھگانے کا کام لیتے ہیں، جب کہ انسانیت کے بڑے روگ : شرک ،کفر، نفاق،جھوٹ ،بددیانتی، بدعہدی اور طاغوت کی اطاعت ہیں۔ ٹی بی کے مرض کی طرح آج یہ سارے امراض ہمارے جسم و جان کا روگ بن چکے ہیں ۔ کیا ہم قرآن سے ان امراض کی شفا کا کام لینے کے لیے تیار ہیں؟

قرآن کی تعلیمات نے مسلمانوں کو اخلاق کے جس اعلیٰ مقامِ بلند تک پہنچایا تھا آج   ان اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کیا جا رہا ہے ۔گناہ گار مسلمان کے لیے آخرت میں نجات کا آخری سہارا نبیؐکی شفاعت کی اُمید ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچاکہ ہم شافع محشرؐکے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟آپ ؐاللہ سے ہماری شفاعت فرمائیں گے یاشکایت کریں گے ؟قرآن کی زبانی سنیے!  وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰ )’’اور رسولؐکہیں گے: اے میرے رب یہ میری قوم (اُمت)ہے جنھوں نے قرآن کو چھوڑ دیاتھا‘‘۔

اس آیت مبارکہ کی تشریح میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:آیت میں اگرچہ ذکر صرف کافروں کا ہے، تا ہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ، اس میں تدبر نہ کرنا اس پر عمل نہ کرنا ،اس کی تلاوت نہ کرنا ، اس کی صحیح قرأت کی طرف توجہ نہ کرنا، اس سے اعراض کر کے لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن [ترکِ قرآن] میں داخل ہو سکتی ہیں۔

علامہ حافظ ابنِ کثیر ؒ لکھتے ہیں: اس کی تصدیق نہ کرنا اس کو چھوڑنا ہے ،اس پر تدبر نہ کرنا اور اس کا فہم حاصل نہ کرنا بھی اس کو چھوڑنا ہے،اس کے حلال و حرام کے مطابق عمل نہ کرنا بھی اس کوترک کرنا ہے اور اسے چھوڑ کر شعروشاعری ،موسیقی ،لہو ولعب اوریاوہ گوئی میں مشغول رہنا بھی قرآن کو ترک کرنا ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر)

قرآن کوچھوڑنے والوں کے لیے قیامت کے دن، قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن تمھارے لیے حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے‘‘۔ جن لوگوں نے قرآن کو پڑھا، سیکھا اور سمجھا پھر اس پر عمل کیا، قرآن قیامت کے دن ان کے حق میں سفارش کرے گا اور اُن کے لیے حجت ہو گا۔جنھوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے، نہ اس کو پڑھتے ہیں  نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ اس پر عمل ہی کرتے ہیں، قرآن قیامت کے دن ان کے خلاف شکایت کرے گا اور ان کے خلاف حجت ہو گا۔

کبھی ہم نے سوچا کہ قیامت کے روز اس وقت ہم خدا کے سامنے اس کا کیا جواب دیں گے؟پھر وہاں کون ہماری شفاعت و سفارش کرنے والا ہو گا؟جب ہمیں اوندھے منہ دھکیل کر جہنم کی بے رحم آگ کے حوالے کر دیا جائے گا۔آج ہم قرآن سے آنکھیں موندھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں۔ اُس روز جب ہم حقیقت میں اندھے کر دیے جائیں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا؟

آج کے پُرفتن دور کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی ایک حدیث پیش نظر رہے۔حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سنو!اسلام کی چکی گھوم رہی ہے تو جس طرف قرآن ہو تم بھی اُسی طرف گھوم جانا۔

سنو!قرآن اور اقتدار عنقریب الگ ہو جائیں گے۔ خبردار!تم قرآن کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ آیندہ ایسے حکمران ہوں گے جو تمھارے درمیان فیصلے کریں گے۔ اگر اُن کی بات مانو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے۔اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو تمھیں قتل کرا دیں گے۔ راوی نے سوال کیا تب ہم کیا کریں؟نبی اکرمؐ نے فرمایا:وہی کرو جو حضرت عیسٰی ؑ کے ساتھیوں نے کیا تھا۔وہ لوگ آروں سے چیرے گئے اور سولیوں پر لٹکائے گئے۔اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے جان دے دی جائے۔ (طبرانی)

اس حدیث مبارکہ میں جس دورِ نامسعود کی پیش گوئی کی گئی تھی یہ وہی دور ہے جس سے  ہم گزر رہے ہیں۔مسلمان حکمرانوں نے اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر ظلم و جبر کا کوڑا ہاتھ میں لے رکھاہے۔اپنی اطاعت کرنے والوں کو اقتدار کی کرسی اور دولت کے انبار سے نوازتے ہیں، اور نافرمانی کرنے والوں کو گوانتانامو اور ابوغرائب جیسے عقوبت خانوں کے جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے یہ نافرمان ہی اصل میں اللہ کے فرماں بردار ہیں،اور یہی جنت کے بالاخانوں کے مستحق ٹھیریں گے، ان شاء اللہ! حقیقت یہ ہے کہ نجات قرآن کی طرف پلٹنے اور اس پر ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس کے لیے اُٹھ کھڑا ہونے میں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملت قرآن کی طرف پلٹ آئے!