سعادت محمود


قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اعزاز کا ذکر کیا گیا ہے کہ اُن کی اُس اولاد کو بھی ، جو اپنے عمل کے لحاظ سے اگرچہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو گی جو اُن کے آبا کو اُن کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا کے ساتھ ملا دی جائے گی(الطور ۵۲:۱۷-۲۸)۔ انھی آیات میں اس اعزاز کے پانے والوں کی ایک صفت جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ بہت ہی قابلِ توجہ ہے: ’’یہ(جنت میں پہنچ جانے والے) لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے)حالات پوچھیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم پہلے(دنیا میں) اپنے گھر والوں میں(اللہ سے) ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔(الطور۵۲:۲۵-۲۶)

سورئہ حا قہ میں ارشاد فرمایا : ’’اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: لودیکھو! پڑھو میرا اعمال نامہ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘ (۶۹: ۱۹-۲۰)۔ اس کے برعکس جس کو اُس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ یا پیٹھ پیچھے دیا جائے گا، اُس کے بارے میں فرمایا: ’’وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اُس نے سمجھا تھا کہ اُسے کبھی (اپنے رب کی طرف) پلٹنا ہی نہیں ہے۔پلٹنا کیسے نہ تھا۔ اُس کا رب اُس کے (کرتوت) دیکھ رہا تھا‘‘۔(انشقاق ۸۴: ۱۳-۱۵)

ان آیات میں بڑی وضاحت سے دو کردا رسامنے آتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں میں مگن ہو کر اللہ سے غافل نہیں ہو جاتے تھے بلکہ اس ماحول میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے اور انھیں یہ احساس رہتا تھا کہ انھیں ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂِ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اُن کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے گھروالوں میں مگن ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے تھے۔ انھیں یہ احساس نہیں رہتا تھا کہ اُنھیں ایک دن اپنے رب کے پاس حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے اور فرمایا:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔(المنٰفقون ۶۳:۹)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ     غفور و رحیم ہے۔ (التغابن ۶۴: ۱۴)

احادیث میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اور اعزاز کا ذکر ہے۔ مسلم میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی طویل روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کے اوپر پُل (صراط) رکھا جائے گا اور شفاعت شروع ہو گی۔اور لوگ کہیں گے: اے اللہ! ہمیں بچا، اے اللہ!ہمیں بچا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ پُل کیسا ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ ایک پھسلنے کا مقام ہوگا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے ملکِ نجد میں ایک کانٹا ہوتا ہے جس کو سعدان (ٹیڑھے منہ والا)کہتے ہیں۔اہلِ ایمان اُس پر سے پار ہوں گے۔بعض پلک جھپکنے میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی طرح، بعض تیز گھوڑوں کی طرح اور بعض اُونٹ کی طرح۔کچھ لوگ پُل (صراط)سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو خراشیں آئیں گی لیکن وہ بھی پار ہو جائیں گے۔ (ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک آدمی پُل صراط کو گھسٹ کر عبور کرے گا)اور کچھ لوگ جہنم میں گرجائیں گے‘‘۔

تصور کریں اُن کی خوشی کا جو پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی پُل صراط سے صحیح سلامت گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اہلِ ایمان جب اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ پائیں گے توقسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی اپنے حق کے لیے اتنا جھگڑنے والا نہیں ہے جتنا وہ اپنے اُن بھائیوں کے لیے جو جہنم میں گر چکے ہوں گے،اللہ سے جھگڑنے والے ہوں گے۔وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ)کہے گا اچھا جاؤ اور ہراُس شخص کو نارِجہنم سے باہر نکال کے لے آؤ جس کو تم جانتے ہو‘‘۔

کیا آپ اُن کی خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں ، جنھیں پتا چلے گا کہ وہ جہنم میں گر جانے والے اپنے جاننے والوں کو نکال سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان جھگڑنے والوں میں شامل کردے اور اپنے اُن جاننے والوں کو جو جہنم میں گر چکے ہوں نکالنے کی توفیق دے۔آمین !

آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’اللہ آگ کو گنہگاروں کے چہروں کو جلانے سے روک دے گا (تاکہ اہل ایمان انھیں پہچان سکیں)اور مومنین بہت سے آدمیوں کو جہنم سے نکال لیں گے‘‘۔(مسلم)

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اہلِ ایمان اتنے نازک موقعے پر بھی اپنے جاننے والوں کو یاد رکھیں گے اور اُن کے لیے اللہ سے دُعا کریں گے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی دُعا قبول کرتے ہوئے اُنھیں یہ اعزاز بخشے گا کہ وہ جسے جانتے ہوں اُسے جہنم سے نکال لیں۔

تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ اہلِ خانہ بھی اہلِ ایمان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائیں گے (دیکھیے: مضمون ’اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں‘ بحوالہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۴ء)۔  اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں اس منظر کے دوسرے رُخ کا بھی ذکر کیا ہے:

’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری اولاد۔ اُس روز اللہ تمھارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور و ہی تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۳)

کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔(فاطر۳۵:۱۸)

ان آیات میں تو صرف اتنا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی سخت کیفیت کا ذکر ہے: ’’آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘۔(عبس۸۰:۲۳-۲۷)

پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ نہ صرف ایک دوسرے سے دُور بھاگیں گے بلکہ اپنی نجات کے بدلے ان سب قریبی رشتہ داروں کو فدیہ میں دینے کو تیار ہوں گے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے: ’’جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اُون جیسے ہو جائیں گے۔ اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو،اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اُسے (عذاب سے) نجات دلا دے‘‘۔ (المعارج ۷۰: ۸-۱۴)

اسی تناظر میں ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں: ’’اُس روز مُنافق مردوں اور مُنافق عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم بھی تمھارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر اُن سے کہا جائے گا پیچھے پلٹ جاؤ اور اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ پھر اُن کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہی رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہی عذاب۔ وہ مومنوں سے  پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم (دنیا میں) تمھارے ساتھ نہ(رہتے) تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا، موقع پرستی کی، شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی توقعات تمھیں فریب دیتی رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز(شیطان)تمھیں اللہ کے معاملے میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنھوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمھارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمھاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے‘‘۔(الحدید ۵۷: ۱۳-۱۵)

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورئہ تحریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تُند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔(التحریم۶۶:۶)

پھر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد بھی اپنے آپ کو آگ سے بچانے کا سامان نہیں کیا ہو گا اُن سے کہا جائے گا: ’’اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘۔(التحریم۶۶:۷)

اس کے بعد ان اہلِ ایمان کو جو ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، کہا جارہا ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: ’’اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ  سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔ (التحریم۶۶:۶-۹)

اسی طرح سورئہ حدید میں منافق مردوں اور منافق عورتوں کو متنبہ کرنے کے بعد اہلِ ایمان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اگر تم اب تک غفلت میں پڑے رہے ہو تو اب بھی وقت ہے کہ خوابِ غفلت سے جاگو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ۔یہ بہت ہی قابلِ غور ، قابلِ توجہ اور فکر کرنے والی آیت ہے ۔ خطاب کفار اور منافقین سے نہیں اہلِ ایمان سے ہے:

کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ  تم عقل سے کام لو۔ (الحدید ۵۷: ۱۶-۱۷)

اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ہمارے رب نے اپنے کلام پاک میں بہت سے مناظر کا نقشہ کھینچا ہے ۔اُن میں سے ایک دل کش اور خوب صورت منظر، اہل خانہ کے ساتھ جنت  میں داخلے کا ہے۔کیا میں نے اور آپ نے کبھی ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کے اس خوب صورت منظر کا  تصور کر نے کی کوشش کی ہے!

اللہ سُبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’(عقل رکھنے  والے لوگ) اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے  جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے۔

(اُن کے لیے) دائمی (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) رہایش کے باغات ہوں گے۔وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہوں گے وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ: ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر (دین پر استقامت)سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس (جنت)کے مستحق ہوئے ہو___ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!‘‘ ( الرعد ۱۳: ۲۰- ۲۴)

درجِ بالا آیت کی روشنی میں تصور کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہمارے نیک اعمال کی وجہ سے یہ اعزاز بخشے کہ ہمیں اور ہمارے تمام اہلِ خانہ کو  جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچا دے۔

ہم سوچیں کہ کیاہم نے کبھی ،  اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرّتوں سے ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کے اس مقام کو پانے کی تمناکی ہے!

یہ وہ مقام ہے جس کے لیے فرشتے بھی ہمارے لیے دُعا کرتے ہیں۔

 سورئہ مومن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعاے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔  اے ہمارے رب اور داخل کر، اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے)۔ تو بلاشبہہ قادر ِمطلق اور حکیم ہے ۔ بچا دے اُن کو بُرائیوں سے۔ جس کو تو نے قیامت کے دن بُرائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا،یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔(۴۰: ۷-۹)

اس آیت کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھتے ہیں:    یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں (اور قیامت تک حضوؐر اور ان کے صحابہ ؓکے نقشِ قدم پر چلنے والوں)کی تسلّی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفّارِ مکّہ کی زبان درازیوں اور چیرہ دستیوں اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامِل فرشتے اور عرش کے گردوپیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ    سلطنت ِ خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار، وہ ملائکۂ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرماںرواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ،تمھارے ساتھ گہری دل چسپی و ہمدردی رکھتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد۴، ص ۳۹۴)

درجِ بالا دونوں آیات میں اہلِ ایما ن کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے اُن کے لیے جنت کا وعدہ اور اور فرشتوں کی دُعا کا ذکر ہے، جو ان میں سے صالح ہوں ۔ لیکن سورۃ الطور میں مزید رعایت دی گئی ہے۔اور فرمایا گیا ہے کہ اگر اُن کی اولاد کسی نہ کسی درجۂِ ایمان میں بھی اپنے آبا کے نقشِ قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو اپنے عمل کے لحاظ سے خواہ وہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو ان کے آبا کو ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا کے ساتھ ملا دی جائے گی۔یقینا یہ اہلِ ایمان کے لیے ایک بہت بڑا  اعزا زہے ۔

 ارشادِ رب کریم ہے: متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے، لُطف لے رہے ہوں گے جو اُن کا رب اُنھیں دے گا، اور اُن کا رب اُنھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا۔ (اُن سے کہا جائے گا)کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوب صورت آنکھوں والی حوریں اُن سے بیاہ دیں گے۔

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں اُن کے نقشِ قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ہم اُن کو ہر طرح کے پھل اور گوشت،  جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے۔وہ ایک دوسرے سے جامِ شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری۔اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو اُنھی (کی خدمت) کے لیے مخصوص ہوں گے، ایسے خوب صورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ یہ  کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں (اللہ سے)ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جُھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ہم  پچھلی زندگی میں اُسی سے دعائیں مانگتے تھے، وہ واقعی بڑا ہی مُحسن اور رحیم ہے‘‘۔(الطور ۱۷:۲۸)

کیاہم نے کبھی ،اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرّتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لُطف اندوز ہو نے کایہ مقام حاصل کرنے کی کوشش اور اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟

آیت ۱۷میں جنت میں داخلے کے ساتھ دوزخ  کے عذاب  سے بچائے جانے کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے:’’کسی شخص کے داخلِ جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجاے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اور یہ ارشاد کہ ’’اللہ نے ان کو عذابِ دوزخ سے بچا لیا‘‘در اصل اشارہ ہے اِس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے اُن کو نظر انداز نہ فرمائے، اور سخت محاسبے پر اُتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اُس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۶۷)

آیت۱۹میں فرمایا: ’’کھاؤ اور پیو مزے سے‘‘ اس ’مزے‘کی تشریح بھی صاحبِ تفہیم القرآن نے کی ہے:’’یہاں’مزے سے‘کا لفظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اُس کے ختم ہوجانے یا اُس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہو گا۔ اُس کے لیے انسان کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ عین اُس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہو گا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جائے گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہو گا کہ کچھ طلب کرتے ہوئے شرمائے بلکہ سب کچھ اُس کے اپنے گُذشتہ اعمال کا صلہ اور اُس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمر ہو گا۔ اُس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہو گا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف لذّت حاصل کرنے کے لیے ہوگا۔  اور آدمی جتنی لذّت بھی اُس سے اُٹھانا چاہے، اُٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوئِ ہضم  لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہوگی۔ اس لیے دنیا میں ’مزے‘ سے کھانے پینے کا جو مفہوم ہے، جنت میں ’مزے‘سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدرجہا  زیادہ وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۶۸)

یہاں اُس حدیث کا ذکر بے محل نہ ہو گا جو حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضوؐرنے بیان فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: میں نے اپنے نیک اور صالح بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کررکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے اُن کا ذکر سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اُن کا خیال ہی آیا ہے۔ اگر تم چاہو تو قرآن کی آیت پڑھو:’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیا چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر  نہیں ہے‘‘۔ (السجدہ ۳۲: ۱۷)

آئیے !ہم اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو دوزخ  کے عذاب سے بچا کر انھیں جنت کے اعلیٰ مقام تک لے جانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں، اور اُس کے لیے کوشش اور جدو جہد شروع کر دیں۔