ارشد احمد بیگ


قیادت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تو اپنی جگہ لیکن قیادت کا اصل مفہوم ایسی صلاحیت ہے جس سے دو سروںپر اثر انداز ہوا جاسکے، اور جس سے افرادِکار میں تحرک ، فعالیت اور جذبۂ عمل پیدا کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ معیار کے مطابق طے شدہ اہداف کا حصول ممکن ہوسکے۔

قیادت کی صفات کیا ہیں اور ایک اچھا قائد کیسا ہوتا ہے؟ اس مضمون میں ایک قائد، ناظم  یا امیر کے لیے چند عملی پہلوئوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تاکہ مؤثر قیادت سامنے آسکے۔

 جذبہ و دانش

تحریکوں کی کامیابی کے لیے جذبہ(passion) اوردانش(wisdom) دونوں کی اہمیت ہے۔ نہ تو محض جذبے سے سرشار ہجوم فائدہ مند ہے اور نہ محض مجلس ہاے دانش سے ہی انقلابات کشید ہوتے ہیں۔افرادِ کار میں جذبہ بیدار کرنا اور برقرار رکھنا قائد کی اولین ذمہ داری ہے۔    اسی طرح اہلِ دانش سے استفادہ کرنا بھی اہل قیادت کا کام ہے۔ جذبہ و دانش میں خلیج کی تحریک کو بڑے نقصانات ہیں۔قیادت کو چاہیے کہ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے حکمت ِ عملی بنائے۔ بصیرت، حکمت، پختہ سوچ، عمدہ تجزیہ،اصابت راے، اگر قوت ِ عمل میں نہ ڈھلے تو سرگرمیاں ہوں گی مگر ثمرآور نہ ہو سکیںگی،جوش و جذبہ تو ہوگا مگر مؤثر نہ ہو سکے گا،تحرک تو ہوگا مگر پیش قدمی نہ ہوگی۔

بعض اوقات تنظیمی درک رکھنے والے افراد خود کو میدانِ عمل کے دانش ور سمجھنے لگتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے افراد خود کو تنظیمی حرکیات کے ماہر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہر دو گروہوں کی اپنی حد ِ استعداد ہے، دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور دونوں طرح کے افراد مطلوب ہیں۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیت ،تفکر و تدبر اور قوتِ عمل کے امتزاج سے کام کا معیار اور رفتار مثالی ہوسکتی ہے۔ذمہ داریوں پر فائز افراد تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور سوچنے سمجھنے والے افراد تحریک کا دماغ۔قیادت کو چاہیے کہ دونوں طرح کے افراد کو مرکزی دھارے کا حصہ بنائے اور ان کے درمیان نفسیاتی بُعد اور دُوری ختم کرے۔

مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور متخصصین کا فورم ضلعی یا بالائی سطح پر قائم ہوسکتاہے۔ یہ فورم شوریٰ کے ساتھ سہ ماہی بنیادوں پر نشستیں رکھ سکتا ہے۔ اس طرح تنظیمی قوت کو اگر تحقیق وتخصص سے تقویت ملے گی تو کام کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔

 مشیر اور مشاورت

دنیاوی و دینی امور میں فیصلہ سازی کے لیے مشیروں کے اہمیت مسلمہ ہے۔ سیرتِ نبویؐ، خلافت ِ راشدہ،آثارِ صحابہؓ اور اسلاف کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ مشیران کے انتخاب کی کتنی اہمیت ہے۔دنیاوی لحاظ سے بھی ایک مثالی انتظام کاری میں صائب الراے،بیدار مغز،با صلاحیت اور اعلیٰ استعداد رکھنے والے افراد کی مشاورت میں شرکت کو کامیابی کا زینہ سمجھا جاتاہے۔

حضرت عمرؓ نے اپنی شوریٰ میں کیسے کیسے جلیل القدر اصحاب جمع کیے تھے! وہ ان سے اختلاف بھی کرتے ، بہترین تجزیاتی صلاحیت کی مدد سے صورت حال کا جائزہ لیتے،اصابت ِ راے اور پختہ فکر کی بدولت ٹھوس اور مدلل راے کا اظہار کرتے۔مسلمانوں کی حکمران تاریخ میں اچھے اور بُرے مصاحبین اور مشیروں کا بڑا حصہ ہے۔اداروں،تنظیموں اور حکومتوںکے عروج و زوال میں مشیروں کا کردار سب پر واضح ہے۔ اچھے بُرے ،ہر دو طرح کے افراد تاریخ کا حصہ ہیں۔ جی حضوری اور خوشامدی طرزِ مشاورت کسی بھی تنظیم یا ادارے کے لیے زہر ِ قاتل ہے۔رفتہ رفتہ اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی راے سے ہٹ کر کسی دوسری رائے کو سننے کا حوصلہ نہیں رہتابلکہ اس سے  بڑھ کر یہ کہ اختلاف ِ راے رکھنے والا فرد مطعون و مذموم قرار پاتا ہے،لہٰذا مشیروں کی تلاش میں  اس امر پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ مشاورت کے فورم میں اس طرح کی فضا کو پروان چڑھایا جائے جہاں آزادانہ اظہارِ رائے کا ماحول ہو اور مختلف زاویوں سے کسی بھی معاملے پر کھل کر بحث کی جاسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذمہ داران اس بات کا بھی اہتمام کرسکتے ہیں کہ متعین فورم کے علاوہ بھی غیر رسمی مشاورتی فورم تشکیل دیں جو یقینا فیصلہ سازی کا فورم نہیں ہوگا بلکہ یہاں مختلف استعداد و مہارت رکھنے والے کے اجتماع سے گتھیوں کے سلجھنے کے امکانات روشن ہوں گے۔

منصوبہ و جائزہ

منصوبہ(planning)اور جائزے(evaluation)کی اصطلاحات اور ان کے معنی و مفہوم سے ہم واقف ہیں۔سال کے آغاز میں منصوبہ بنانا اور آخر میں جائزے کا عمل تحریکی زندگی میں معمول کی بات ہے۔یہاں توجہ طلب دو باتیں ہیں۔سال کے آغا ز میں منصوبہ بندی کے لیے بالعموم گذشتہ سال یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے منصوبۂ عمل کی روشنی میں مستقبل کے لیے نیامنصوبۂ عمل تیار ہو جاتا ہے۔عشروں پر محیط ہماری روایات ،کارکنوں کی دی ہوئی تجاویز، دانش وروں سے کچھ ملاقاتیں،سینیر حضرات سے نشستوں وغیرہ سے اس نئے منصوبۂ عمل میں ’نیا پن ‘شامل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قیادت کو سائنسی انداز میں منصوبۂ عمل کی سرگرمی کو انجام دینا چاہیے۔منصوبہ تو اپنی جگہ مگر منصوبے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ اس سوال کا جواب تلاش کیا جا نا چاہیے۔ہماری ٹیم ،افرادِ کار یا انسانی وسائل کی کیفیت کیا ہے؟ ان کی استعداد، صلاحیت اور مہارتیں کیا اور کون سی ہیں؟ان میں کمی اور خامیاں کیا ہیں؟سماجی حقائق کیا کہتے ہیں؟ماحول کی مکمل جانچ کیسے کی جائے گی؟ گذشتہ جائزے میں بہتری کا خاکہ کیا تجویز کیا گیا تھا؟، اسی طرح سیاسی حرکیات ،تنظیمی قوت،سماجی شعور،اور اپنے وژن اور مشن کی روشنی میں جملہ وسائل، یعنی انسانی، مالی،مادی اور اطلاعاتی وسائل کے مکمل آڈٹ کے بعد مستقبل کے لیے منصوبۂ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔دور بین اور دور اندیش قیادت کو یہ کام بہر صورت کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں جائزے کے عمل کا جائزہ بھی لیاجانا چاہیے۔ ’ جائزے کا جائزہ‘ لے کر ہم مروجہ کمزوریوں کو جان سکیں گے اور مؤثر طریقے سے اس اہم کام کو انجام دے سکیں گے۔یاد رکھنا چاہیے کہ سال کے آغاز میں منصوبے سے شروع ہونے والا چکر، جائزے پرمکمل نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اگلی منصوبہ بندی کے لیے پہلی سیڑھی ہے۔ گویا جائزہ’ پہلے مرحلے سے پہلے ‘کا عمل ہے۔

 توازن ِ زندگی

زندگی میں توازن کی اہمیت سے ہم خوب واقف ہیں۔توازن فطرت کا دوسرا نام ہے۔دین اسلام چونکہ دین ِ فطرت ہے، اس لیے یہ ایک متوازن نظام زندگی ہے۔ نبی کریم ؐ کی زندگی کا کمال تھا کہ آپؐ زندگی کے تمام پہلوئوں میں توازن قائم رکھتے۔آپؐ بیک وقت ایک مہربان باپ،محبت کرنے والے شوہر تھے۔ایک بہترین منتظم، بے مثال قائد اور نڈر سپہ سالار تھے۔جہاں ِ قوتِ ارادی اور مضبوطی شخصیت سے جھلکتی وہاں تواضع،حلم اور نرمی سے بھی مالا مال تھے۔ گویا اسلامی تحریک کے ایک قائد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ توازن میں ہی حُسن ہے۔کیا ہم بحیثیت باپ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں؟بچوں کی تربیت پر کتنی توجہ ہے؟۔میاں بیوی کے حقوق کا معاملہ کیا ہے؟والدین کے حقوق کی ادایگی کی کیا کیفیت ہے؟ان تمام معاملات میں غفلت و لاپروائی کوفریضۂ اقامت ِ دین کے راستے میں قربانی تصور کرناایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ خانگی معاملات پر بھی توجہ دے اور اسے درست رکھے۔قائد کو اپنی ذات سے بننے والے خاندانی نظام کی فکر کرنی چاہیے اور اسے بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچانا چاہیے۔ مزید یہ کہ خاندانی نظام کی تعمیر اور اس کو مستحکم کرنا،گویا خاندان کی حفاظت ،تعمیر اور استحکامِ قیادت کے لیے ضروری ہے۔ اللہ کے دین کے کام کا مطلب کیا ہے؟۔اس کی کلیت اور جامعیت کیا ہے؟اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔

تحصیلِ علم کی جستجو

قیادت کے اہم فرائض میں تعلیم و تذکیر بھی شامل ہے۔تعلیم بغیر آموزش (learning) کے ممکن نہیں ۔منتظم بہت ہوتے ہیں اور اچھے منتظمین کی بھی کمی نہیں۔لیکن ایسا قائد یا منتظم جو افراد کی کردار سازی کرے،مطلوب قائد وہی ہے۔جو انھیں اخلاق و آداب سکھلائے،زندگی کے رموز سے آگاہی دے،اخلاقِ حسنہ نکھارے اور اخلاقِ رذیلہ کی کانٹ چھانٹ کرے۔گویا تعلیم و تذکیر قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔قائد قوت ِ علم سے جتنا مالا مال ہوگا اس کی قیادت میں اتناہی اعتبار اور وزن ہوگا۔علم ایک بے مثل قوت ہے ۔یہ دو افراد کے درمیان فرق کو واضح کر دیتا ہے۔

قائد کو علم میں اضافے کے لیے شعوری کوشش کرنی چاہیے ۔مطالعۂ کتب، سنجیدہ علمی مجالس، مثبت گروہی مباحث،ذہنی نشوونما کے لیے مؤثر نسخے ہیں۔ اس میں قرآنِ مجید کا مطالعہ سرفہرست ہے۔  تفہیم القرآن کے ساتھ ساتھ معروف تفاسیر کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح احادیث کے بنیادی ذخیرے سے آگہی، فقہ میں عمومی نوعیت کی معلومات ناگزیر ہیں۔گویا ان علومِ عالیہ کے خزانے سے مالامال قیادت مرجعِ خلائق بن سکتی ہے۔اسی طرح سماجی علوم ،سیاسی تحریکوں کا مطالعہ، انقلاباتِ عالم سے واقفیت،قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے آگہی قیادت کی اہلیت، استعداد اور قوت میں اضافہ کرے گی۔ اسی طرح قیادت اپنی ذمہ داریوں کے دوران سیرت ِ نبویؐ کا از سر ِ نو مطالعہ کرے،جذب کرے،ماہیت ِ قلب(transformation) کے لیے خود کو آمادہ اور تیار کرے۔سیرت کا مطالعہ در اصل کسوٹی ہے،جس سے اپنی شخصیت کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ روے زمین پر گزرنے والے عرصۂ حیات میں خلافت ِ راشدہ کا زریں دور بے مثل اور یکتا ہے۔ اس دور کا مطالعہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ انتظامیات اور گڈ گورننس کے باب میں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبد العزیز ؒکی حکمت ِ عملی،فیصلے، طریقۂ کار،انتظامی امور،مالی ڈسپلن اور انسانی تعلقات کا مطالعہ قیادت کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کی مؤثر شخصیات کی سوانح کا مطالعہ یقینا ہماری سوچ کو وسیع اور کشادہ کرے گا۔ بزنس میں کامیاب تجربے جاننے سے قائدانہ صلاحیت میں گونا گوں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ فلسفہ،معاشیات،عمرانیات،اور ابلاغیات جیسے علوم کی بنیادی معلومات و استعداد قیادت کو بہترین اور مثالی قیادت میں تبدیل کرے گی۔

زمینی حقائق اور تنظیمی مصروفیات کے پیشِ نظر تحصیلِ علم کے اہداف بظاہر ممکن نظر نہیں آتے۔ اس سلسلے میں چند عملی اقدام کیے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلے تو خود ایک فرد میں اس ہدف کا حاصل کرنے کا شعور ،جذبہ اور عزم ہونا چاہیے۔ شورائوں اور مشاورتی فورم میں اس طرف توجہ دلائی جائے اور آموزش کے اہداف مقرر کیے جائیں۔ہر فرد کے لیے مطالعے کے لیے وقت نکالنا شاید مشکل ہو، لہٰذا رجحان و صلاحیت کے اعتبار سے چند افراد کو یہ کام دیا جا سکتا ہے جو تیاری کر کے حاصل مطالعہ پیش کرنے کا اہتمام کریں۔دفاتر میں یا علیحدہ سے لرننگ ریسورس سینٹر کے قیام کو بھی ترجیح دی جائے۔ضلع کی سطح پر ان امور کی انجام دہی کے لیے فورم بنا یا جا سکتا ہے جو ذمہ داران کے لیے سہولت و خدمت فراہم کرے ۔ صوبائی سطح پر اس عمل کی رہنمائی کا معقول بندوبست کیا جائے۔

سادہ طرزِزندگی

تصنع سے پاک سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنا عمومی طور پر تو سب کے لیے اور خصوصی طور پر ان کے لیے ضروری ہے جن کو لوگ اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ دنیا کے عظیم انسانوں نے معمول کی زندگی گزاری۔وہ معاشرے میں چھپی ہوئی تہوں سے واقف ہوتے ہیں اور ان کی قیادت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ اگر واقفیت ہی نہ ہو تو قیادت چہ معنی؟ہوائوں میں اڑنے والوں کو زمینی حقائق سے کیا علاقہ؟زمین اور بر سرِ زمین معاملات کا وہی اِدراک کر سکتے ہیں جو اپنے آپ کو زمین ہی پر رکھتے ہیں۔اگر اپنی شخصیت کے اوپر ہی غلاف در غلاف کا معاملہ ہو جائے تو سماجی حرکیات سے آگاہی تو ایک طرف، فرد خود اپنی شخصیت کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں اجنبی بننے کے بجاے اس کا حصہ بننا چاہیے اور اس کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو ان تمام مراحل سے گزارنے کے لیے تیار ہو۔

کام کا تصور ِ کلیت

ہرادارے اور تنظیم کے مختلف منصوبے ہوتے ہیں۔بعض اوقات مختلف زاویوں سے کام ہوتا ہے۔ انتظامی طور پر درجنوں شعبہ جات سے انھیں تقویت ملتی ہے۔ تحریک میں مختلف افراد کو   ان کے میلان اور استعداد کے مطابق شعبہ جات اور مختلف منصوبے تفویض کیے جاتے ہیں۔تنظیم کو چلانے والے،سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ،بلدیات سے متعلق افراد ،تعلیم سے وابستہ افراد،  شعبہ خدمت میں مصروف رجالِ کار و دیگر یہ سب تحریک کے گلدستے کے پھول ہیں، ان سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اگر سیاسی امور کو انجام دینے والے دیگر افراد یا کام کو کم تر درجہ دیں، یا شعبۂ تعلیم میں مصروف لوگ اپنے آپ ہی کو نقیب ِ انقلاب سمجھیں، یا خدمت کے شعبے سے وابستہ افراد اسی کام کو ہی تبدیلی کا ذریعہ سمجھیں اور تنظیم کو چلانے والے بقیہ سب کو بے وقعت جانیں، تو تحریک کو قوت و استحکام نہیں مل سکتا ۔تبدیلی کے کام کی جامعیت اور وسعت جاننے کی ضرورت ہے،’’میں ایک بڑے کل کا محض ایک جزو ہوں‘‘اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لہٰذا تبدیلی کے لیے مکمل تصور کا ادراک ضروری ہے۔ قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کے افراد، مختلف النوع منصوبوں اور معاون شعبہ جات کو یکساں اہمیت دے اور تبدیلی کے لیے ہر ایک کی اہمیت کو محسوس کرے۔

 تصورِ امانت

کیا یہ بات اہم نہیں ہے کہ اخلاقِ حسنہ کے مجسم پیکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے نبوت کے لیے مبعوث کیا تو وہ نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کے لقب سے معروف تھے۔ امانت کے تصور کی وسعت کیا ہے؟قیادت کو اس ضمن میں خود بھی اور اپنی ٹیم میں بھی احساس پیدا کرنا چاہیے۔وسائل ہمارے پاس امانت ہیں۔ قائد کے پاس انسانی ،مالی اور مادی وسائل ہوتے ہیں اور وہ انھیں تصرف میں لاتا ہے۔ مجلس اور فورم کے فیصلے اور گفتگو بھی امانت ہے۔ اسی طرح اختیارات بھی امانت ہیں۔ چنانچہ قیادت کا اُجلاپن اس میں ہے کہ وہ انسانی وسائل کا درست استعمال کرے، اپنے پیچھے چلنے والوں کی فکر کرے ،مالی لحاظ سے سادگی اور میانہ روی کا مظاہرہ کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت کو برقرار رکھے اور اسی طرح ذاتی و تنظیمی حوالے سے مادی وسائل کے استعمال میں فرق ملحوظ رکھے۔ یہ سب اعلیٰ اوصاف ہیں،بہترین قدریں ہیں اور دین میں مطلوب ہیں۔

اھلیت

اہلیت پر افرادِ کار کا تقرر دراصل نصف کامیابی ہے۔بظاہر اس معمولی عمل کی اہمیت  قرآنی تعلیمات میں واضح ہے،احادیث ِ نبویؐ میں اس کی تاکید ہے،سیرت ِ نبویؐ میں عملی مثالیں ہیں اور خلافتِ راشدہ میں اس کی توثیق ہے۔ امانتوں کو اہل افراد کے سپرد کرنے کی کس قدر تاکید ہے، اور نااہلوں کو مناصب پر فائز کردینے پر کیسی وعید ہے، اسے ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ کام کی اہلیت و استعداد نہ رکھنے کے باوجود کسی کو ذمہ داری سونپ دینا در اصل ظلم ہے۔فقہ کی کتابیں کھولیے:’’ ایک چیز گویا اپنی جگہ سے ہٹا دی گئی‘‘۔نقصان اس فرد کا بھی کہ کام نتیجہ خیز نہ ہو تو تاثر خراب اور تنظیم کا بھی کہ کام مطلوبہ رفتار اور معیار کا نہ ہواور وسائل کا زیاں ہو جائے۔

اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والی اجتماعیت روے زمین پر اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اسلامی تحریک کی ہر سطح کی قیادت،انتہائی مخلص،باصلاحیت اور درد دل رکھنے والے بہترین افراد پر مشتمل ہے۔ وطنِ عزیزکی دیگر دینی و سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتی ہیں۔     ایسی وفاشعار قیادت اور ایسے ایثار کیش کارکنان کو دجالیت کے اس پُرفتن دور میں اور مادیت کے اس طوفان میں بہت بڑا چیلنج درپیش ہے،انفرادی حیثیت میں تہذیب ِ نفس اور اجتماعی حیثیت میں اصلاح معاشرہ۔چیلنج ایسا کہ زُہد و رُشد بھی متاثر نہ ہو اور تبدیلی کا خواب بھی دھندلا نہ ہو۔

 

مضمون نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں سینیر ریسرچ فیلو ہیں

سب سے پہلے اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت و معاشیات کے تصورات کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (المنافقون ۶۳:۷) زمین اورآسمان کے سارے کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) زمین اورآسمانوں کی ملکیت، بادشاہت، حکمرانی، تسلط ، تصرف اور فرماں روائی سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ (النور۲۴:۳۳) مال سب کا سب اللہ کا ہے۔ حدیث کی معروف کتاب موطا امام مالک میں حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ المال مال اللّٰہ یعنی مال تو اللہ کا ہے۔ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود ۱۱:۶) رزق کا ذمہ بھی اللہ نے اپنے اُوپر لیا ہے۔ زمین پر ایسا کوئی   جان دار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وَلَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ (البقرہ ۲:۳۶) ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خاص مدت کے لیے انسان کا گھر اور ٹھکانہ ہے۔

قیامت تک انسان کو یہاں پر رہنا ہے چنانچہ اسباب معیشت بھی مطلوب ہیں: وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ (الحجر ۱۵:۲۰)’’اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمھارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو‘‘۔ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ (الذاریات ۵۱:۲۲) ’’یہ جو رزق ہے یہ زمین کے اندر بھی ہے، سمندر کے اندر بھی اور آسمان کے اندر بھی رزق کی فراوانی رکھ دی گئی‘‘۔ یہ تصور غلط ہے کہ رزق ختم ہو رہا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) جو رزق زمین اور آسمان میں موجود ہے کیا انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس حوالے سے بھی رہنمائی کردی گئی کہ زمین اور آسمان بھی، لیل و نہار اور بروبحر بھی انسان کے لیے مسخر کر دیے گئے۔ الغرض جس کا رزق ہے اور جس نے اس رزق کو اپنے ذمہ لیا ہے اس نے اس کے حصول، بڑھوتری اور فراوانی کو کچھ قاعدوں اور ضابطوں سے جوڑ دیا ہے۔ رزق محدود نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی ترقی میں عورت کا موجودہ کردار اخلاقی ضابطوں سے بغاوت ہے اور اس سے کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

موجودہ معاشیات دراصل مغربی معاشیات ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشیات کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوا اور اس کا بانی ایڈم اسمتھ ہے ۔ ۱۷۷۶ء میں ایڈم اسمتھ کی معروف کتاب The Wealth of Nation منظر عام پر آئی اور اس نے بلاشبہ دنیا پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ چنانچہ آج مغربی معاشیات کے تحت معاشیات: l دولت کا علم ہے،ایڈم اسمتھ lمادی خوشحالی کا نام،الفریڈ مارشل lخواہشات کی کثرت کو کہتے ہیں،پروفیسر رابنس۔

گویا کہ مغربی معاشیات میں، معیشت کا تصور مادیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں معاشی ترقی سے مراد دنیاوی اور مادی حوالوں سے انسانی کامیابی کا حصول ہے۔ آج کی معاشی ترقی کا تصور سیکولر تصورِ جہاں میں جکڑا ہوا ہے۔ سیکولرازم خود ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد ایک طرز فکر کا نام ہے۔ جدید روشن خیالی کی اصطلاحِ دل پذیر بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔ جس میں نفس کی خواہشات کا حصول ہے، خواہ وہ فی نفسہ اخلاقی ضابطوں سے باہر ہو اور چاہے اخلاقی ضابطوں کو توڑ کر اس کا حصول ممکن بنایا گیا ہو۔

اس طرزِ فکر میں معاشی ترقی کو جانچنے کا ایک معیار جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) ہے۔   ایک خاص حسابی فارمولوں کی مدد سے اسے وضع کرتے ہیں توفی کس آمدنی (per capita) نکل آتا ہے۔ یہ ایک الگ اصطلاح ہوگئی۔ اسی طرح قوام متحدہ نے انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ اسے ’انسانی ترقی کا پیمانہ‘ کہتے ہیں۔

اس لفظ ’ترقی‘ کے مقابلے میں اسلام ’فلاح‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں شامل ہیں۔ اسلام مادی آسایش کی نفی نہیں کرتا۔ وہ دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ ایک متوازن طرزِ حیات اور اجتماعی نظامِ عدل کی تشکیل میں اسے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ مقرر کرتا ہے، یعنی انسانی فلاح، مقاصد شریعت میں سے ہے۔ گویا الٰہامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی ضابطے متعین کیے جائیں اور ان اخلاقی ضابطوں کے تحت معاشی سرگرمیاں سر انجام دی جائیں، تو مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں کا حصول ممکن ہے۔ یہی اصل اور مطلوب ترقی ہے۔

یہاں پر قرآن مجید کا ایک اہم کلیہ اور قاعدہ پیش خدمت ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)، یعنی جو کوئی ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا، بغاوت کرے گا، ضابطوں کو توڑے گا اس کی معیشت تنگ کردی جائے گی۔ ترقی، آسودگی، رزق کی کمی ہوجائے گی۔ یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اس ضابطے سے رو گردانی کرکے عورت کے موجودہ کردار کو متعین کیا گیا ہے۔ اس کردار کے ساتھ کیا یورپ میں آسودگی آئی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ معاشرے میں اخلاقی بحران کیوں آرہا ہے؟ قدریں کیوں پامال اور بے حیائی کیوں عام ہورہی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کے اس کردار کو جو وہ معاشی جدوجہد کے عنوان سے کر رہی ہے اور اگر اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹ رہے ہیں تو کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

عورت کے نئے کردار کے تعین میں تھامس مالتھس کے نظریات کا بھی عمل دخل ہے۔ مالتھس نے تحدید آبادی کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے عقلی دلائل کی بنیاد پر، شماریات اور ریاضی کے فارمولوں کے تحت آبادی کے بڑھنے کو انسانیت کے لیے زبردست خطرہ قرار دیا۔ اس نے دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان بنا ڈالا کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ہم غور کریں تو یہ اللہ کی رزاقیت سے انکار کا نظریہ تھا۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک، کنجیوں کا مالک، میراث کا مالک تو اللہ ہے۔ اس نے رزق کا معاملہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ اسباب معیشت لا محدود ہیں لیکن تھامس مالتھس کا نظریہ اس کے برعکس تھا، جس نے ایک زبردست اخلاقی بحران کو جنم دیا۔ آبادی کو کم کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیے گئے اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹے اور معاشرے میں انتشار پیدا ہوا۔ معروف مصنفہ الزبتھ لیاگن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں یورپ اور امریکا کی ترقی، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مرہون منت ہے۔ اُس وقت شرح پیدایش آج کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہی تجزیہ فرانس اور جاپان کے مطالعاتِ آبادی کے اداروں نے بھی پیش کیا۔ یہاں تک کہ سی آئی اے نے اپنی رپورٹوں میں Youth Deficit (جواں عمروں کی کمی )کی اصطلاح استعمال کی۔ ان رپورٹوں کے مطابق ۱۵سے ۲۴سال کی عمر کے افراد کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ امریکا اور یورپ میں اس عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔یہ سمجھا گیا کہ معاشی ترقی کے لیے آبادی کم کیجیے۔ اس سوچ نے عورت کے کردار کی تعریف نو کی۔ اب عورت کے اس کردارِ حیات کا بچوں کی پیدایش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل کر دیا گیا۔

  • عورت کا کردار: دو باتیں سمجھ لیجیے۔ ایک تو یہ کہ معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ کردار پس پردہ ہے ۔ معاشی ترقی میں عورت کی شرکت اور اس سے بڑھ کر اس کے حصے کا مطلب یہ لیا گیا کہ عورت گھر سے باہر نکلے اور ملازمت کرے۔ گویا عورت کی ملازمت معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھی گئی۔ خود امریکا میں مردوں کی ملازمت کی شرح ۷۵ فی صد سے گھٹ کر ۵۵/۶۰ فی صد ہو رہی ہے اور عورتوں کی شرح ملازمت بڑھ کر ۵۰ فی صد سے زیادہ ہو رہی ہے۔ گویا جس مالی ذمہ داری سے اسلام نے عورت کو بری الذمہ رکھا تھا، مغرب نے اس بوجھ کو عورت پر لاد دیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہاں بھی میاں بیوی یا جو بھی پارٹنرز ہیں ، آٹھ دس گھنٹوں کی ملازمت کے بعد جب گھر پہنچتے ہیں تو گھریلو امور کی جتنی کچھ بھی انجام دہی کرنی ہو، وہ اسی عورت سے توقع کی جاتی ہے، جو خود بھی کئی گھنٹوں کی تھکا دینے والی ملازمت کرکے گھر لوٹتی ہے۔

دیکھیے مرد گھر سے نکلے اور ملازمت اختیار کرے تو کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو اصل میں ہمہ جہت مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ مغرب، خاتون خانہ کو Stay at home Ladies کا عنوان دیتا ہے۔ اس طرح وہ برسرِروزگار عورت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی خواہ وہ گھر میں کتنا ہی کام کرتی ہو اور گھر والوں کی خدمت میں چاہے کتنا ہی مصروف رہتی ہو، لیکن اس کا معاشی ترقی میں کوئی کردار تصور نہیں کیا جاتا۔ بظاہر اقتصادی ترقی اور معاشی سرگرمیوں میں اس کا براہ راست کردار نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک عورت اپنے شوہر، بھائی، بیٹوں اور والد کو اس طرح سہولت و آرام فراہم کرے کہ گھر کے یہ مرد ملکی معاشی ترقی میں احسن انداز میں کام کرتے ہیں تو کیا یہ کردار معاشی ترقی میں شمار نہیں ہونا چاہیے۔اگر ایک خاتون سلائی جانتی اور پکوان سے واقف ہے، بجٹ کے حساب سے گھر کو چلانے کی استعداد رکھتی ہے، اس طرح وہ گھر میں آسودگی اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہے اس لیے اگر گھر میں ترقی ہو رہی ہے تو کیا معاشرہ ترقی نہیں کرے گا۔ یہ تصویر کا ایک ایسا رخ ہے جس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔

اب تین اہم اصطلاحات پر غور کیجیے جنھوں نے خواتین کے نئے کردار کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی فکرو نظر رکھنے والے بعض افراد انھی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔اصطلاحات کی بھی اپنی نفسیات ہیں۔اِ ن کا ایک خاص پس منظر ہوتاہے۔اِن کے معانی ومفہوم علیحدہ سے متعین کرنا بعض اوقات مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا ہے: lحقوق نسواں (Women Rights) lمساواتِ مرد و زن(Gender Equality) lآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب، تعلیم اور اس کے اطلاق میں اقوام متحدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ سارے ملکوں میں اور سارے ہی معاشروں میں ایک ہی دین (Uni Religion) نافذ ہو جائے اور ایسی سماجی تشکیل کی جائے اور ان اصطلاحات کا مفہوم ویسے ہی طے کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ نے بیان کیا ہے۔

چند مثالیں پیش خدمت ہیں: lحقوقِ نسواں ، ملازمت کا حق اور مواقع...... (سیڈاکنونشن۱۹۷۹ئ): زندگی کے تمام میدانوں میں خواتین کے مردوں کے ساتھ یکساں حقوق کی ضمانت، جن میں تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ lحقوقِ نسواں ...... (ویاناکانفرنس ۱۹۹۳ئ): خواتین کے انسانی حقوق۔ lجنسی معاملات ...... (قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ئ): ہر دو اصناف کے صنفی تعلقات، جن میں عورتوں اور مردوں کو اپنی جنسی زندگی کی تنظیم کا آزادانہ حق حاصل ہو، اور اس ضمن میں عورت کو طرزِزندگی کی تبدیلی میں کلیدی کردار حاصل ہو۔

  • معاشی آزادی، خود مختاری ، معاشی ترقی ...... (بیجنگ اعلامیہ): عورتوں کی معاشی خود اختیاری اور معاشی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے، عورتوں کے لیے ملازمت کے تمام مواقع فراہم کرنا۔

اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان تجاویزاور سفارشات اور اصطلاحات کے پیچھے بہت سے افراد اور تنظیمیں مخلص بھی ہوں اور خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ خواتین کی بہبود کے لیے کام کررہی ہوں۔ لیکن اس ضمن میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی فلاح کے لیے جس راستے کا انتخاب انھوں نے کیا ہے وہ بجاے خود بگاڑ کا راستہ ہے، اور اب تک کے حقائق اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الہامی تعلیمات کے بغیر ان کی کوئی تشریح ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی ماڈل قابل عمل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی قانون، آئین، ملک، نظریہ مرد اور عورت (میاں بیوی) کے درمیان انصاف اورعدل پر مبنی تعلقات، حقوق و فرائض اور توازن کو بیان نہیں کرسکتا۔

مذکورہ بالا تین اصطلاحات میں سے یہاں پر صرف مرد اور عورت کی برابری (Gender Equality)کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ تصور کیا گیا کہ عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے، وہی کام کرے اور ویسا ہی کام کریں جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔ مرد وزن کی برابری کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ:

  • ٹریفک وارڈن بن جائیں اور ٹریفک کے روانی کو کنٹرول کریں(پچھلے دنوں اسلام آباد میں دیکھاکہ ۴۳، ۴۴ڈگری گرمی کی شدت میں خواتین ٹریفک وارڈن کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دیتی رہی ہیں۔ سخت دھوپ میں وہ بیچاری خو د ہی ہلکان ہورہی تھیں۔ کجا یہ کہ ٹریفک کی روانی کو قابو میں کرتیں)۔ l جہاز اڑائیں lپیٹرول پمپ پر فیول بھریں lفاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ملازمت کریں lمساج ہائوس یا مراکزِ مالش میں خدمات فراہم کریں lمزار قائد پر کیڈٹ کے فرائض انجام دیں اور گھنٹوں ساکت و جامد کھڑی رہیں۔

سوال یہ ہے کہ عورت کے اس کردار سے کون سی معاشی ترقی ہو رہی ہے؟ حقیقی زندگی کی ایک اور عملی مثال پیش خدمت ہے۔ تپتی ہوئی دھوپ میں ۲۵ افراد بجلی کا بل جمع کرانے قطار میں کھڑے ہیں۔ ہانپتی کانپتی ایک خاتون آتی ہیں۔ مرد وزن کی برابری کے قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ ۲۶ویں نمبر پر چپ چاپ قطار میں لگ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس برابری کے نام پر عورت کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ جو کام اس کے بس میں نہیں، جس کی وہ مکلف نہیں ہے، جس کے لیے اس کی حیاتیاتی اور جسمانی ساخت ہی موزوں نہیں ہے، ایسے کاموں کو اس کے ذمے لگا دینا سراسر ظلم ہے۔ شیطان نے ایسا غافل کر دیا کہ یہ اپنے استحصال سے خود بھی واقف نہیں ہے۔

استحصال کی ایک اور چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پوری دنیا میں مردوں کے لیے جوتوں کے نت نئے ڈیزائن ان کے آرام اور سہولت کو دیکھتے ہوئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ڈرائیونگ کے لیے علیحدہ جوتا، ساحل سمندر پہ چہل قدمی کے لیے الگ سلیپر، دفاتر میں پہننے کے لیے علیحدہ ڈیزائن، اگر بلڈ پریشر ہے تو علیحدہ جوتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کام کے لیے باقاعدہ آرتھوپیڈک ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پیروں کی ساخت اور ہڈیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے جوتوں کے ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ آرام اور سہولت مہیا کی جا سکے۔ کن کو؟ صرف مردوں کو۔ اسی حوالے سے عورتوں کے آرام وسہولت کا کیا معاملہ ہے؟ یہ عورتوں کے سینڈل کون اور کس مقصد کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں؟

اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پس پردہ طے کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ فیشن کی چکاچوند، دنیا میں ماند پڑ جائے گی۔ بیوٹی فی کیشن کی رنگین دنیا پھیکی ہو جائے گی۔ ۱۰؍ ارب ڈالر کی یہ آرایش حُسن کی صنعت جس کا غالب حصہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کی جیب میں چلا جاتا ہے، سرد ہو جائے گی۔ اگر معاشی ترقی میں عورت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام انجام دینے کا بیڑا اٹھائے تو یہ شیطان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہوگا۔ اس میں ایک اہم بات نوٹ کرلیجیے کہ خاتون کی گھر واپسی بہت مشکل ہوگی۔ اس معاشی دوڑ میں عورت آگے جاتے جاتے اپنے غلط کاموں کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جائز کے بعد اسفل سے اسفل کردار لیکن خوش نما انداز میں اور دل فریب اصطلاحات کے پردوں میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ پہلے جسم فروش (prostitutes) اور فاحشہ کی اصطلاح عام تھی،  ایک بُری اور گندی اصطلاح، جس میں فرد کا کردار بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر اقوام متحدہ نے   اپنی چھتری تلے اس اصطلاح کو اعزاز بخشا اور اسے ’سیکس ورکر‘ یا جنسی کارکن کا نیا عنوان دیا۔   اب جس طرح ایک خاتون محنت مزدوری کرتی ہے اور اپنا پیٹ پالتی ہے، کہا گیا کہ اسی طرح یہ بھی محنت مزدوری کرتی ہے، یہ بھی ورکر ہے۔ بس سیکس ورکر ہے تو کیا ہوا؟

مختلف کمپنیاں اپنی اشتہاری مہمات کے لیے عورتوں اور اپنی ملازم خواتین سے وہ کام لیتی ہیں کہ درندے بھی شرما جائیں۔ اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْــلًاo (الفرقان ۲۵:۴۴) ، ’’یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ مگر یہ سب انھوں نے کیوںکیا؟ اس لیے کہ یہ بقا کی اور مارکیٹ کی جنگ ہے، ملازمت کا مسئلہ ہے، مارکیٹنگ مقابلے کا طریق کار ہے۔ اسی لیے عرض ہے کہ گھر واپسی تو کیا ہوگی،ملازمت کی مجبوری اور تشخص کی بحالی کے نام پر ان حدوں تک اس عورت کو لے جایا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ، بلکہ اس کے ساتھ عورت کو یوں گلیمرائز یا بناسنوار کر پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ عورت کے بجاے ایک کھلونا معلوم ہوتی ہے۔

  • اثـرات: آزادی اور مرد وزن کی برابری کے عنوان سے جب یہ عورت مجبوراً یا شوقیہ معاشی ترقی کی دوڑ میں گھر سے باہر نکلی تو اخلاقی نظام منہدم ہوا۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں ہاتھ میں بیگ اٹھائے، رات کے اوقات میں سپر اسٹورز کے دورے کریں گی، ڈاکٹروں سے ملاقاتیں ہوں گی، میڈیکل اسٹور اور فارمیسی میں دوائوں کے آرڈر حاصل کریں گی، اور رات گئے گھر واپس ہوںگی۔ کیا اس سے اخلاقی بحران نہیں پیدا ہو رہا؟ پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ ایک معروف فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں ویٹرس کی حیثیت میں جاب کرتی ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اور وہ ایک پسماندہ علاقے میں رہتی ہے۔ اب یہ لڑکی جینز اور شرٹ پہنے چھوٹے سے محلے کے کچے سے مکان سے نکل کر جاب پر جاتی ہے۔ جہاں سر سے دوپٹہ سرک جائے تو گھر کے بڑے توجہ دلاتے تھے، جہاں حجاب اختیار کرنے کی تہذیب سکھائی جاتی تھی، وہاں پر اب یہ مناظر عام ہیں۔ اس طرح کے لباس کا تصور ان کے خاندان کے بزرگوں نے خواب و خیال میں نہ کیا ہوگا۔ لیکن اب رفتہ رفتہ اس تبدیلی کو قبول کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے اور پُرفریب جاب کے خوش نما اسٹیٹس کے ساتھ نوجوان لڑکیاں معاشی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگر یہ کام خواہ مجبوراً انجام دیے جارہے ہوں اور مہنگائی نے یہ راستہ دکھایا ہو، یہ سوال کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے یہاں زیربحث نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کا تعلق بھی اخلاقی ضابطوں کو توڑنے سے ہے۔

ضمناً ایک بات یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔ میری نظر میں تعلیم پہلے نیشنلائز سے پرائیویٹائز ہوئی، پھر یہ کمرشلائز ہوگئی۔ اب یہ سیکولرائز سے گلیمرائز ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹس اور ڈگریوں کے نام پر ہو رہا ہے۔ مخلوط تعلیم کے درجنوں ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اگر آپ ۱۹۹۷ء سے اب تک پچھلے دس بارہ سال میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی قیام کی رفتار اور ان کے اثرات کا جائزہ لیں تو بگاڑ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دورانِ تعلیم ہی طالبات کو معاشی کردار ادا کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں سنہری پیکیجز پیش کر رہی ہیں، مگر لڑکوں پر ایسی عنایات کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ

  • عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ ملازمت میں آئیں، مخلوط تعلیم اور مخلوط ملازمت عام ہوئی تو فیشن کا کاروبار بڑھا۔ اس سے گھر کی معیشت پر بوجھ بڑھا اور معاشرے میں مصنوعی مسابقت کا رجحان بڑھا۔ l خواتین جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوئیں۔ lخوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سبب نفسیاتی مسائل سامنے آئے۔

عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کی درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں: دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد ۵۱ فی صد ہے۔ ان میں سے ۶۶ فی صد ملازمت کرتی ہیں، مگر ۱۰ فی صد آمدن حاصل کرتی ہیں، لیکن ایک فی صد سے بھی     کم جایداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا ۲۱ویں عالمی کانفرنس ۲۰۰۱ئ)

  • مثالی خواتین کا مثالی کردار: قرآن و سنت میں چار خواتین کا تذکرہ علیحدہ شان سے بیان ہوا ہے:

 حضرت مریمؑ بنت عمران: وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۴۲)’’اور آپ کو چن لیا گیا دنیا کی تمام قوموں کی عورتوں میں‘‘۔ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد : حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترے اور فرمایا کہ اللہ نے خدیجہؓ کو اپنا سلام بھیجا ہے‘‘۔

  • آسیہؑ بنت مزاحم: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ (التحریم ۶۶:۱۱)’’اور اللہ مثال دیتا ہے ایمان لانے والوں کو فرعون کی بیوی (آسیہؑ) کی‘‘۔ m حضرت فاطمہؓ بنت محمدؐ: ’’جنت میں عورتوں کی سردار‘‘۔

ان چاروں خواتین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ معاشی ترقی میں ان روشن مثالوں میں سے کس کا، کتنا اور کیا کردار تھا؟ ان کے کون کون سے معاشی کارنامے تھے جن کی بنیاد پر ان کو مثالی قرار دیا گیا ہے؟ اگر ہم ان چاروں خواتین سے وابستہ مردوں کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کس طرح مردوں کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں۔ماں ، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے ان کا کردارکیساتھا۔ اِن اللہ کے بندوں نے اس الہامی نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی، جہاں پر عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ سے علیحدہ رکھا گیا۔

یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کچھ افراد حضرت خدیجہؓ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ: ’’یہ عظیم خاتون اور ام المومنین بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں‘‘۔ یہاں دو باتیں ان حضرات کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا اپنا کاروبار تھا۔

 اسلام نے خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنا ذاتی بزنس نہ کر سکتی ہوں۔ لیکن حضرت خدیجہؓ بذات خود اپنی کاروباری مصروفیات میں گلی کوچوں، گائوں و شہر میں نہیں نکلتی تھیں، بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سیرت کی کتب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعد و ضوابط نظر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں دین اسلام بحیثیت نظریۂ حیات، غالب عنصر کے  طور پر موجود ہو تو خواتین کا معاشی ترقی میں حصہ لینا اور ساتھ دینا، اخلاقی ضابطوں میں ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن جہاں شیطان کا راج ہو، فحاشی کے ڈیرے ہوں، ارزل و اسفل کردارعام ہوں، وہاں عورت کو معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے حضرت خدیجہؓ کی مثال لانا کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔

بہ ظاہر ہم جسے خوش حالی اور ترقی سمجھتے ہیں وہ سراسر دھوکا اور سراب ہے۔ سورۂ قریش  ایک خوش حال معاشرے کی پہچان بیان کرتی ہے: رزق کی فراوانی اور امن و سکون۔ عورت کے  اس موجودہ اور انجینئرڈ کردار سے ، جو معاشی ترقی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کبھی بھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ کبھی نہیں ۔ اگر اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود ہو تو سامنے آنی چاہیے۔


مقالہ نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن، کراچی کے  سیمی نار منعقدہ ۱۲ جون ۲۰۱۰ء میں پڑھا گیا۔

انسانی وسائل کی ترقی(Human Resource Development) آج کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم میںتو یہ موضوع ان کے مضامین کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر ہو یا مشنری ادارے‘ یہ کام وہاں باقاعدہ اور منظم انداز میں ہوتا ہے۔ ادارے کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے انسانی وسائل کو ایک خاص ڈھب میں ڈھالنا اور ترقی دینا اب مستقل نوعیت کا فن بن چکا ہے۔ بڑے اداروں میں اس کے شعبہ جات قائم کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی متعین مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قائم کوئی منظم یا تحریک اپنے کارکنوں اور قائدین کے لیے تربیتی نظام عنوان سے دراصل ایچ آر ڈی کا کام ہی کرتی ہے۔

ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (HRD) کی تعریف و تشریح معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین‘ مثال کے طور پر ماہرین معاشیات‘ماہرین تعلیم‘ ماہرین نفسیات‘ صنعت کار‘ منتظمین وغیرہ اپنے اپنے انداز اور پیرایے میں کرتے ہیں۔ انسانی وسائل کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے:

انسانی وسائل سے مراد کسی تنظیم کے مالی و مادی وسائل کے بالمقابل وہ افراد ہیں جو اس تنظیم کو چلاتے ہیں۔ اس سے مراد تنظیم کی کارکردگی ہے جو افراد اور وسائل سے متعلق ہے جیسے جائزہ‘ تربیت‘ معاوضے‘ بھرتی وغیرہ۔ انسانی وسیلہ تنظیم کا واحد فرد یا ملازم ہے۔

ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعریف یہ کی جاتی ہے:

انسانی وسائل کی ترقی ملازموں کو ان کی ذاتی اور تنظیمی صلاحیتوں‘ قابلیتوں‘ مہارتوں اور معلومات کی ترقی میں مدد دینے کا نظام ہے۔ یہ ملازمین کی تربیت‘ جانشینوں کے لیے منصوبہ بندی‘ کلیدی ملازم کی نشان دہی‘ تعلیم میں مدد وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔

ایچ آر ڈی کا بنیادی ہدف درج ذیل سطور سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا مرکزی نکتہ‘ اعلیٰ درجے کے کارکن تیار کرنا ہے تاکہ تنظیم اور ملازمین گاہکوں کی خدمت کے حوالے سے اپنے کام کے مقاصد کو حاصل کریں۔

جہاں تک ہیومن ڈویلپمنٹ کا موضوع ہے‘ اس ضمن میں اقوام متحدہ کا جاری کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس ایک مستند درجہ رکھتا ہے۔ اس میں تعلیم، معیار زندگی، اوسط عمر اور صحت مند زندگی وغیرہ شامل ہیں۔کئی ادارے ہیومن ڈویلپمنٹ کے عنوان کے تحت ناخواندگی ختم کرنے میں مصروف ہیں اور کچھ آگہی و شعور بیدار کرنے میں۔

اسی طرح ہیومن ریسورس منیجر یا اس شعبے سے متعلق جو ذمہ داریاں اور کام مطلوب ہیں ان میںافراد کی بھرتی، کارکردگی، ترغیب و آمادگی، تعلیم و تربیت، مسائل، صلاحیت کی نشوونما وغیرہ بھی اِس میںشامل ہیں۔

ان تعریفوں سے جو نمایاں نکات سامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: 

  • افراد کار کی ذاتی نشوونما 
  • افراد کار کی تربیت 
  • افراد کار کے مستقبل کی منصوبہ بندی 
  • استعداد میں اضافہ
  • اداروں کی ترقی

ان تمام اہداف کامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ فرد اپنی ذات کی نشوونما اس لیے اور اس طرح کرے کہ اس سے اداروں کے لیے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکے۔ ان اہداف کا تعلق، مفاد عامہ سے ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ جیسے جیسے مادیّت کے رجحانات بڑھ رہے ہیں اور مسابقت کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے مال و دولت کے حصول میں اخلاقیات کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اسکیم وضع کی جاتی ہے‘ اس میں اصل ہدف ایک ایسے فرد کی تیاری ہے جو ادارے کے لیے اس طرح سودمند ثابت ہوکہ اس کے کاروباری پھیلائو کا ذریعہ بنے۔ چنانچہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل مدعا منافع کی زیادہ سے زیادہ تکثیر (maximization of profit) ہی بن کررہ جاتا ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں،مارکیٹنگ باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اور اخلاقی اقدار سے عاری (بالعموم) یہ سائنس، کاروباری پھیلائو اور مالی منفعت کے لیے ہر قسم کے تشہیری حربے استعمال کرتی ہے۔ ان تشہیری مہمات سے طلب کی ایک نفسیاتی اور مصنوعی فضا پیدا ہوتی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہو کر رہتا ہے۔ اسی طرح ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے تربیتی نصاب میں یافرد کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے عمل میں اگر فرد کی صرف ان کوششوں کو قابل قدر سمجھا جائے جو ادارے کے لیے مالی منفعت کا باعث بنتی ہو، تو یہ اگرچہ موجودہ کاروباری فلسفے کے تناظر میں بالکل درست ہو گا، لیکن ہمارے نقطۂ نظر سے یہ رویہ نادرست اور بعیداز انصاف ہوگا۔

ایک اھم نکتہ

ہم سمجھتے ہیں کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی ایچ آر ڈی کی یہ اصطلاح اپنے اندر ایک خاص معنی رکھتی ہے۔ اصطلاحات میں الفاظ کے چناؤ کی بھی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ جب ہم انسانی وسائل کی ترقی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ تو دراصل ہم ’انسان‘ کو ایک وسیلہ یا ذریعہ (resource) سمجھتے ہیں ،جس کی نشوونما خاص مقاصدکے حصول کے لیے کی جائے گی ۔ گویا اصل چیز وہ مقاصد ہیں جن کے لیے ’انسان‘کو بروے کار لانا ہے۔ بظاہر اس نظریے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن جب یہ اصطلاح کاروباری دنیا میں استعمال ہوتی ہے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہاں پر انسان کی شناخت بحیثیت ’انسان‘ ّ(اور وہ بھی اشرف المخلوقات) نہیں ہوتی بلکہ کاروباری مقاصد کے حصول میں مددگار محض ایک ذریعے اور وسیلے (resource and means) کے ہوتی ہے۔

ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر یہ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے تو انسان کے اشرف مقام کو مدِنظر رکھ کر نشوونما ، ترقی اور بڑھوتری عمل میں لائی جائے ۔ گویا کہ اگر یہ وسیلہ ہے تو لازمی طور پر اس کا مقصد اس وسیلے سے زیادہ اشرف ، افضل اور برتر ہونا چاہیے۔

اس مضمون میں ہم ہیومن ریسورس اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک مختلف حیثیت میں بیان کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک شخص بحیثیت انسان جو کسی بھی مقام پر اور کسی بھی شعبے میں  کام کر رہا ہے، اس کی نشوونما، ترقی اور بڑھوتری کے اصول ایک جیسے ہو تے ہیں۔گویا انسانی وسیلے کی تعریف اور وظائف اور کردار کو بحیثیت انسان (ایک مخلوق ) سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ انسان کی استعداد اور کمزوریاں، خواہشات اور جذبات اور فطرت اور جبلتیں ہمارے سامنے آجائیں اور انسان کو کسی مقصد کے لیے تیار کرنا، ترقی دینا، نشو ونما دینا اور بڑھانا آسان اور ممکن ہو سکے۔    اس طرح وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی حیثیت میں اپنا کردار مؤثر طور پر   ادا کرسکے گا۔

آئیے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔یہ زاویہ اسلامی زاویہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح کسی مشین کو اپ گریڈ کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے     اس مشین کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے لہٰذا انسان کی نشوونما اور ترقی کو سمجھنے کے لیے ہم ’انسان‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ:

  •  انسان اللہ کی تمام مخلوقات میں اشرف اور افضل ترین ہے۔ (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ - التین ۹۵: ۴)
  •  انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔ (وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ - الحجر۱۵: ۲۹)
  •  انسان روز محشر اللہ کے حضور اپنے تمام اعمال کے لیے‘ جواب دہ ہے۔ (لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ - الانبیاء ۲۱: ۲۳)
  •  انسان کو اختیار اور عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ (اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o الدھر  ۷۶:۳)
  • انسان کو خلافت ارضی سے نوازا گیا ہے گویا وہ یہاں پر اللہ کا خلیفہ (Vicegerent) ہے۔ (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً - البقرہ ۲: ۳۰)
  • انسان کو سمع، بصر اور فواد کی نعمتیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ (اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا - بنی اسرائیل ۱۷: ۳۶)
  •        انسان کو تسخیر کائنات کے لیے امکانی صلاحیت (potential) دی گئی۔ (وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا - البقرہ ۲: ۳۱)
  • انسان کو اس potential کے درست استعمال کے لیے الہامی ہدایت دی گئی ہے۔ (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی - البقرہ ۲: ۳۸)

مندرجہ بالا تمام حقائق کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی نشوونما، بڑھوتری اور ترقی کے لیے   درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھنا لازمی ہوگا۔

                ۱-  انسان کی جسمانی احتیاجات

                ۲-  انسان کی روحانی آسودگی

                ۳-  انسان کی نشوونما ان تمام زاویوں سے کہ وہ اپنے مفوّضہ امور کو احسن طریقے سے انجام دے سکے۔

                ۴-  ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے الہامی ہدایت کی روشنی میں اپنی عقلِ سلیم اور تجربے سے راہوں کو متعین کرسکے۔

شخصیت کا ارتقا

دین اسلام نے ترقی و نشو ونما کے لیے اورفرد و معاشرے کی فلاح و کامیابی کے لیے انسان کی شخصیت میںایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسمانی احتیاجات کی تسکین اور مادی حوالوں سے اٹھان کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ارتقا کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔اسی طرح     اسلام بنیادی انسانی اخلاقیات، جن کے بغیر شایددنیاوی ترقی ممکن نہیں ہے، کو درجۂ کمال تک دیکھنا چاہتا ہے۔ساتھ ہی وہ ایمانیات وعقائد کی درستی کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔ انسان میں دونوں صلاحیتیں بھی ودیعت کی گئی ہیں،یعنی مثبت اور منفی جو آزادی اور انتخاب کے لیے ضروری ہیں۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی‘‘۔ لہٰذا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں فردکی تیاری، شخصیت سازی اور کردار کی اٹھان میں یہ عوامل بھی مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔

اس مقام پر ہم قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ (ہیومن )کا مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ ۶۴ مرتبہ آیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مقامات میں تواتر کے ساتھ جو مضامین انسان کے حوالے سے ملتے ہیں‘ ان میں انسان کی منفی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔مثلاً یہ کہ انسان:

  • بڑا ہی ناشکرا ہے۔
  • سخت مایوس ہو جاتا ہے۔
  • فخر کرتا ہے۔
  • بے انصافی کرتا ہے۔
  • جلد بازہے۔
  • نعمت پاکر اینٹھنے والاہے۔
  • مصیبت میں مایوس ہونے والا ہے۔
  • جھگڑالو ہے۔
  • منکرحق ہے۔
  • ظالم ہے۔
  • جاہل ہے۔
  • دل شکستہ ہوجاتا ہے۔
  • نعمت پاکر منہ پھیرلیتا ہے۔
  • آفت میں لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے۔
  • کھلا احسان فراموش ہے۔
  • تھڑدلاہے۔
  • خوش حالی میں بخل کرتاہے۔
  • مصیبت میں گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔٭

گویا انسانی شخصیت کے ارتقا کی جب بھی کوئی اسکیم وضع کی جائے گی‘ درج بالا منفی رجحانات کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرمیاں اور فعالیتیں متعین کی جائیں گی۔ چونکہ انسان مخلوق ہے اور اس کا خالق اللہ ہے‘ لہٰذا شخصیت سازی کے لیے وہی(خالق) سب سے بہتر طریقے کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا کوئی بھی نصاب جو ان منفی رجحانات کو بڑھانے کا باعث ہو، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سے اس کا واسطہ نہیں ہو سکتا اور نہ وہ معاشرے میں خوشگوار اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا وضع کردہ خاکہ یک چشمی ہے اور شخصیت کے تمام پہلو ئوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہیومن ڈویلپمنٹ میں انسانی ترقی کا جو اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے‘ ان کے مطابق وہ ممالک جو اس حوالے سے سر فہرست ہیں، مقام حیرت ہے کہ وہاں خودکشی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔OCED ممالک، جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، میں بھی یہ شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہاں بے سکونی کا یہ عالم ہے کہ ماہرین نفسیات کی پریکٹس انتہائی کامیاب اور نہایت مہنگی ہے۔

تزکیہ کا ایک پھلو

ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل آیات کا مطالعہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ان آیات میں رب العالمین نے نبی کریمؐ کا مقصدِ بعثت ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ مضمون چار مقامات پر آیا ہے:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے رب! ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے کامیابی کے اصل معیار اورمیزان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل کام اور اس کی درست ترتیب یہی ہے۔ تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا مدعا بھی یہی تزکیہ ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف تزکیے کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی نشوونما دراصل تزکیہ ہی ہے۔ تزکیے کے جو معانی اور مفہوم آئے ہیں وہ یوں ہیں:

  • زندگیوں کو سنوارنا
  • پاک صاف کرنا
  • بلند کرنا
  • غلط افکار و تصورات سے پاک کرنا
  • بے جا خواہشات سے پاک کرنا
  • ظاہری و باطنی نجاست سے پاک کرنا وغیرہ وغیرہ۔

ہم اس کی مثال یوں لیتے ہیں کہ ایک پودا جو ایک مالی کی نگرانی میں بڑھ رہا ہو اور ایک خودرو جھاڑی یا درخت جو جنگل میں اُگ جائے، دونوں کی کیفیات میں فرق ہوگا۔ مالی کی زیرنگرانی بڑھنے والے پودے میں تراش خراش، صفائی ستھرائی اور نکھار ہوگا۔ مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی اور مزید پروان چڑھنے کے لیے چھوڑ دی جائیں گی جب کہ نامطلوب ٹہنیاں، شاخیں، پتے، کانٹے، ڈالیاں وغیرہ کاٹ دی جائیں گی۔ بس یہی تزکیہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اس طرح کی جائے کہ اس سے نامطلوب اوصاف کم ہوتے جائیں اور مطلوب پروان چڑھیں، اخلاق رذیلہ کو ختم کیا جائے اور اخلاق حسنہ کو پروان چڑھایا جائے۔یہی انسانی وسائل کی ترقی کی اصل روح ہونی چاہیے۔

انسان کے ارتقائی میدان میں اس کی فکرو تصور، نیت و ارادہ، سوچ و تخلیق، حواس خمسہ کے استعمالات، جسم و روح، لباس و پوشاک، علوم و فنون، جسمانی افعال، حفظ و خیال، تعلقات، معاملات، جذبات اور مہارتیں وغیرہ سب ہی کچھ شامل ہیں۔ چنانچہ ہم ان کو درج ذیل  مختلف عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔

جسمانی پھلو (physical dimension)

انسان کی جسمانی نشو و نما (physical development) ایک ہمہ گیر تصور ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہری خدوخال سے نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کے پاس کسی کام کو احسن انداز میں کرنے کے لیے جسمانی قوت، صلاحیت، توانائی، امنگیں اور نفسیاتی لگن بھی ہو۔ جسمانی نشو و نما میں صحت مند جسم اور ذہن کو فوکس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں عالمی ادارہ صحت کی پیش کردہ تعریف میں بھی یہ وسعت نظر آتی ہے۔

"Health is a state of complete physical, mental and social well-being and not merely the absence of disease or infirimity".

صحت محض بیماری یا معذوری کے عدم وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک مکمل جسمانی ، ذہنی اور سماجی اچھی کیفیت کا نام ہے۔

جسمانی ضعف (معذوری کے علاوہ) کو دین اسلام نا پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ وہ سخت کوشی، جفا کشی اور محنت کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ سستی، کاہلی اور سہل پسندی کو نامطلوب قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول کریمؐ نے اپنے عہد اور ماحول کے مروجہ جسمانی تفریحی اشغال کی طرف توجہ دلائی ، فرمایا: ’’تیر اندازی، گھڑ سواری اور تیراکی سیکھو‘‘۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے ارشادات میں گھوڑے پر چھلانگ لگا کر بیٹھنا، ننگی پیٹھ پر سواری، دھوپ کو برداشت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک فرد کی اس انداز میں نشوونما کہ وہ مطلوبہ کام کو کرنے کی اپنے اندر جسمانی لحاظ سے مکمل اہلیت پائے، انسانی وسائل کی ترقی کا ایک اہم پہلو ہے۔

اخلاقی پھلو (moral dimension)

اخلاقی نشوونما (moral development) کی تشریح سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی نشوونما اور اخلاقی نشوونما میں فرق ہے۔ اخلاقی نشو ونما کا تصور اچھائی اور برائی کے ان آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جس کی تمیز بالعموم ہر انسان کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سچ بولنا یا جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی، ایمان داری، صفائی ستھرائی، قطار بنانا وغیرہ وغیرہ۔ گویا اخلاقی نشوونما میں ان عمومی قواعد و ضوابط اور اوامر و نواہی پر توجہ دی جاتی ہے جن کو ایک سلیم الفطرت شخص سمجھتا ہے۔ اخلاقی نشوونما کسی بھی معاشرے میں‘ خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ بالعموم یکساں ہی ہوگی۔ البتہ دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔

اوّل یہ کہ دین اسلام میں نظامِ اقدار مستقل (permanent) اور مطلق (absolute) ہے‘ جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہے‘ جب کہ بعض دوسرے نقطہ ہاے نظر میں یہ ایک اضافی تصور ہے جو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ بدل سکتا ہے۔ دوم یہ کہ بعض مروجہ اصطلاحات کی فی زمانہ تشریحات اسلام کے مطابق ناقص اور ادھوری ہیں۔ مثال کے طور پر صفائی ستھرائی۔ اسلام اس حوالے سے اس سے بڑھ کر پاکیزگی کا اعلیٰ تصور پیش کرتا ہے جس میں صفائی ستھرائی طہارت و نظافت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے اخلاقی نشوونما پر جتنا زور دیا ہے‘ اس کا   اندازہ صرف اس بات پر لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں مکارمِ اخلاق کی  تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘(انما بعثت لاتم مکارم الاخلاق)۔ آپؐ نے اوامر و نواہی (Do's & Don'ts) کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جو کسی بھی فرد، گھر، ادارے، معاشرے، قوم اور ملکوں کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ یورپی معاشروں میں جو ادارے    ترقی کی راہ پر گامزن ہیں‘ ان میں یہ اخلاقی صفات من حیث القوم یا اداروں کے اجتماعی اخلاق کے طور پر موجود ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں اخلاقِ حسنہ اور اخلاق رذیلہ کی فہرست مرتب کرنی چاہیے تاکہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں ان پہلوئوں پر کما حقہ زور دیا جاسکے۔

سماجی پھلو (social dimension)

انسان کے لیے تنہائی میں زندگی گزارنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ معاشرتی گروہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایک بڑے کُل کا جزو ہے۔ اس کی انفرادیت ہے لیکن اس کی یہ انفرادیت کسی نظام کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا اس کے مزاج میںجُڑکر رہنے کا اندرونی اور پیوستہ داعیہ ہوتا ہے۔ باہمی تعلقات، بات چیت، گھلنا ملنا اور لڑنا جھگڑنا یہ سب اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ چونکہ وہ کسی جنگل میں نہیں بستا لہٰذا ان سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ فرد کی سماجی نشوونما  کس نہج پر ہوتی ہے اور اس کی ذات میں دوسروں کے لیے کتنی گنجایش ہے‘ اور وہ دوسروں سے مطابقت کے لیے کس درجہ آمادہ ہے۔ باہمی معاملات میں اس کے مزاج میں بے زاری ہے یا جوش۔ ایک انسان کی سماجی نشوونما درست نہج پر ہو تو وہ ہر قسم کے لوگوں سے مثبت اور متوازن انداز میں معاملات کر سکتا ہے۔ بہت سارے افراد بہت گھلنے ملنے والے ہوتے ہیں اور بہت سارے   کم آمیز۔ اہم معاملہ یہ ہے کہ افراد سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ گویا صرف زیادہ افراد سے تعلقات ہی اہم نہیں ہیں‘ بلکہ ان کی کیفیات بھی اہم ہیں۔ یعنی تعلقات کی وسعت اور ان کی بہتر نوعیت دونوں مطلوب ہیں۔

اسلام نے ہر ایک سے اچھے انداز اور حسن خلق سے پیش آنے کی تاکید کی ہے۔ گویا گھر میں باضابطہ، ذمہ دارانہ اورنمایاں کردار ادا کرنا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا، رشتوں کو جوڑنا، آجروں سے خیر خواہانہ تعلقات، راہ چلتے لوگوں کے حقوق، مریضوں سے رابطے، قرض خواہوں کی فکر، معذوروں کی مدد، چھوٹوں پر شفقت، بزرگوں کا احترام یہ سب ہماری بنیادی تعلیمات ہیں جو سماجی نشو ونما کے نصاب کا حصہ ہونا چاہییں۔

روحانی پھلو (spiritual dimension)

روحانی نشو و نما اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مخلوق کواپنے خالق کا شعور اور احساس ہو۔ اللہ کی معرفت کا حصول ہی روحانی نشوونما کا اہم مقصد ہے۔ ایک انسان بعض اخلاقی صفات میں اعلیٰ درجے کے کردار کا مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن اللہ کی معرفت اور اس کا دھیان نہ ہو تو یہ کردار ناپایدار بھی ہو سکتا ہے اور اگر پایدار بھی ہو تو اس کا فائدہ صرف دنیا میں ہوگا۔ اسی لیے فرد میں ہر لمحہ اللہ کا دھیان پیدا کرنا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کااہم کام ہے۔

چونکہ انسان، جسم اور روح کا مرکب ہے لہٰذا جسمانی احتیاجات کی تسکین کے ساتھ ہی اسے روحانی بالیدگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ روحانی نشوونما انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لہٰذا وہ اس کے لیے نت نئے تجربات کرتا ہے۔ چونکہ وہ خود ساختہ اور انسانی ذہن کی تخلیق ہوتے ہیں لہٰذا غیر انسانی ہی کہلاتے ہیں مثلاً یہ نظریہ کہ اپنے آپ کو تکلیف دہ عمل سے گزار کر روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے‘ چنانچہ اپنے اُوپر کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو وغیرہ چھوڑ دینا، ایک ٹانگ پر گھنٹوں کھڑے رہنا، پانی کا استعمال ترک کر دینا، صفائی ستھرائی سے اجتناب برتنا‘ اپنی کھالوں میں آنکڑے لگا کر ہوا میں معلق ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو غیر منطقی انداز میں ذہنی قوت کے عنوان سے سکون کی متلاشی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ اہم معاملہ ہے جس سے انسان کو مفر نہیں ہے۔ چنانچہ صرف وہی طریقہ قابل قبول اور انسانی نفسیات کے مطابق ہے جو الہامی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ روحانی نشوونما کے سارے طریقے ادھورے اور ناقص ہیں اور مزید فکری انتشار کا باعث ہیں۔

ذھنی پھلو (intellectual dimension)

فرد کی ایسی ذہنی نشونما کرنا انتہائی اہم ہے،جس سے اس کے حواس خمسہ کارکردگی کے حوالے سے اپنے درجۂ کمال کو پہنچ جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی نشو ونما کی جانچ و پیمایش بھی چند مخصوص عنوانات کے تحت ہوتی ہے جن کا تعلق فرد کے کردار میں مثبت تبدیلی کے واقع ہونے سے بہت کم ہوتا ہے اور دنیاوی منفعت کے حصول سے زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حافظہ (memory) ، مفروضات (data)، فکر (thought)، معلومات (information)، تصور (concept)، خیال (idea)، بصیرت (insight) اورحکمت (wisdom) کے معانی، مفہوم اور اہمیت جدا جدا اور مسلمہ ہیں۔ مگر ان تمام سے جو مطلوب ہے۔ یعنی فرد صالح، وہ ہم تیار نہیں کر پاتے۔ خلافت ارضی کے لیے درکار صالحیت (character) اور صلاحیت (competence) پر ہماری توجہ بالعموم کم رہتی ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں تو اطلاعات و تصورات کا سیلاب اُمڈا چلا آرہا ہے لیکن تبدیلی کا عمل کیوں نہیںہو رہا ہے، سوچنے کا مقام ہے۔ ذہنی نشو ونما کے ذریعے وہ بصیرت مطلوب ہے جو تجزیاتی عمل اور منطقی استدلال میں، مشاہداتی عمل اور ذہانت میں حقیقت کو پا سکے۔ جو دُعا ہمیں سکھلائی گئی ہے وہ یوں ہے: اللھم واکشف لی وجوہ الحقائق (اے اللہ میرے سامنے ہر معاملے میں حقائق کے سارے پہلو کھول دے)۔ یہی حکمۃ ہے‘اور یہی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا جوہر ہے۔ (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا - البقرہ ۲: ۲۶۹)

ابھی ہم نے مختلف پہلوئوں سے انسانی نشو و نما وترقی کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ یہاں پر مہارات، تصورات اور اقدار کے مثلث کی تشریح و تفہیم بھی مناسب رہے گی۔

ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی پیش کردہ تعریفوں اور فی زمانہ ان پر عمل میں سب سے زیادہ زور مہارتوں کی نشوونما پر ہے۔ یہ مہارتیں بھی صرف ایک خاص جہت پر مرکوز رہتی ہیں۔ یعنی دنیاوی منفعت اور منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا۔ گویا ساری مہارات کا حصول صرف اس لیے ہے کہ اس سے مادیت کو ترقی ملے‘ خواہ اس کے نتیجے میں انسانیت سسکتی اور تڑپتی رہے۔ جہاں تک تصورات کا تعلق ہے‘ یہاں پر بھی ہم صرف ادنیٰ درجے کو حاصل کرتے ہیں، جو صرف چند اصطلاحات کے استعمال اور معلومات کی سطحی تفہیم پر مشتمل ہوتا ہے۔یہاں بھی اصل مدعا اور ہدف مادی منفعت کا اضافہ اور کاروباری پھیلائو ہی رہتا ہے۔مثلث کا ایک نہایت اہم عنوان وہ اقدار (values) ہیں جن پر عمارت قائم ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں مہارتوں کواعلیٰ اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو معاشرے میں ایک بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوگا۔ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں اقدار کا جتنا وزن ہونا چاہیے اور یہ جتنابنیادی ، واضح اور نمایاںہونا چاہیے، وہ ہمارے نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔ اگر کسی بنک کا مینیجر خود ہی ڈکیتی میں ملوث ہو‘ تو یہ مہارتوں کا مسئلہ ہے یا کردار کا۔ پاکستانی قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم کسی کام کو ٹھیک طریقے سے کرنے کے لیے اسے کم از کم  تین مرتبہ انجام دیتے ہیں۔ آخر ہم پہلی ہی بار سڑک کو صحیح کیوں نہیں بناتے؟ کیا ہمارے ہاں صلاحیت کا فقدان ہے؟ مہارتوں میں کمی ہے؟ یا ہمارا کیرکٹر ہم سے کم تر درجے کا کام کرواتا ہے۔ یاد رکھیے کہ مہارتوں اور صلاحیتوں کے حصول کی خواہش بھی اعلیٰ کردار کی رہین منت ہے۔ گویا ایک بار پھراقدار کی اہمیت معلوم ہوئی۔

ہمارے ہاں بد قسمتی سے دینی فکر کے حامل ادارے یا اسلامی مشنری ادارے فرد کی نشو و نما و ترقی کی کوششیں اس طرح انجام دیتے ہیں کہ اس فرد کو اپنے خالق سے جزوی آگہی تو شایدہو جاتی ہے لیکن وہ دنیا میں اپنا مؤثر کردار کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔اس کی وجہ نشوونما وترقی کے    جزوی پہلو پر نظر ہے جس کے ثمرات بھی جزوی نکلتے ہیں اور فرد خلافتِ ارضی کے منصب کے لیے درکار قوت، صلاحیت، ذہانت، استعداد اور مہارتوں سے نابلد رہتا ہے۔ دوسری جانب کاروباری نوعیت کے ادارے صرف اور صرف مالی منفعت اور کاروباری وسعت کو ذہن میں رکھتے ہیں‘ چنانچہ افراد کار کی نشوونما و ترقی اسی کے مطابق کی جاتی ہے جس سے فرد کی دنیا تو شاید سنور جائے لیکن وہ آخرت کی فکر سے بالکل آزاد ہوتا ہے۔ اصل مطلوب متوازن شخصیت کی تیاری ہے جس کے لیے ہمیں شخصیت کی نشوونما و ترقی کے تمام زاویوں پر نگاہ رکھنی ہوگی۔ انسانی نشوونما و ترقی کا یہ تصور  عین دین ہے۔

چند گزارشات

اسلامی تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے اس اہم کام کے ضمن میں آجروں اور متعلقہ ذمہ داروں کے لیے درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں۔ فرد کی ہمہ جہت ترقی و نشو و نما کے لیے یہ نکات پیش نظر رکھے جائیں۔ ہیومن ریسورس منیجر کو چاہیے کہ وہ ان امور پر توجہ دے اور اپنی ٹیم میں ان کو پروان چڑھائے۔ یہ تربیتی نصاب کا حصہ بھی ہوں اور کمپنی پالیسی میں شامل بھی۔نیز ادارے کی  اہم اقدار (core values) میں بھی جگہ پائیں۔ یہ نکات فرد کی ترقی و نشو ونما اور بڑھوتری کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں:

  •  صحیح فکر کی طرف رہنمائی کرنا 
  • عقائد اور تصورات کو اللہ کے لیے خالص کرنا 
  • نیت و ارادے کو درست کرنا 
  •   صحیح اور غلط کی تمیز و تفریق پیدا کرنا 
  •   مشاہداتی صلاحیت کی نشوونما کرنا
  • تجزیاتی صلاحیت کی نشو و نما کرنا 
  • مسائل کا ادراک اور اس کے حل کی استعداد پیدا کرنا
  • حکمت و دانش کے حصول کی تربیت کرنا 
  • اپنے کام کو کما حقہ انجام دینے کی تربیت دینا 
  • حسن ِعمل کی جستجو پیدا کرنا 
  • مخفی صلاحیتوں کو دریافت کرنا 
  • جملہ صلاحیتوں کی نشو ونما کرنا
  • باہمی تعلقات کی بنیاد اخوت پر رکھنا 
  • بے غرض اور مخلصانہ رویوں کی تشکیل کرنا 
  • سلام کا  رواج عام کرنا 
  • خندہ پیشانی اور خوش دلی سے ملنا 
  • بڑوں (عمر اور مرتبہ) سے احترام اور چھوٹوں (عمر و مرتبہ) پر شفقت سے پیش آنا 
  • لہجے میں نرمی اور شایستگی رکھنا 
  • افراد کار کا باہمی ربط و تعلق استوار کرنا 
  • خوشی اور غمی میں شرکت کرنا 
  • کمیونٹی کے کاموں میں شرکت اور خدمت انجام دینا
  • پاک صاف ماحول فراہم کرنا
  • افراد کی صحت و تندرستی کی فکر و توجہ رکھنا 
  • علاج و معالجہ، طعام، بودوباش وغیرہ کا انتظا م کرنا 
  •   ہوا، روشنی و دیگر حفاظتی امور کا بندو بست کرنا 
  • خوف، غصہ، لالچ، طمع اور حسد جیسے جذبات و رجحانات کو مثبت رخ دینا 
  • ذہنی سکون، اطمینان قلب اور فکری   یکسوئی کے حصول کی کوشش کرنا 
  • اختیارات و ذمہ داریوں میں توازن قائم رکھنا 
  • افراد کار میں جذباتی توازن پیدا کرنا 
  • گفتگو، معاملات لین دین میں سچائی اوردیانت کو پروان چڑھانا 
  • اپنے رب کی معرفت کے حصول کی طرف توجہ دینا 
  •   آخرت میں جواب دہی کا احساس پیدا کرنا 
  •   تمام تر معاملات میں اللہ کا دھیان رکھنا۔

ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ، یعنی انسانی وسائل کی ترقی کا مطلوب یہ ہے کہ ایک فرد کی تعلیم وتربیت اور ترقی و نشوونما ایسی ہو کہ وہ دنیا میں ایک کامیاب انسان کے طو ر پر ابھرے اور آخرت میں جنت کا حق دار ٹھیرے۔ چونکہ ہر فرد راعی ہے، اور اسے اپنی رعیت کے بارے میں اللہ کے حضور جواب دینا ہے (کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ)، لہٰذامسلمان مینیجر اور اداروں کو اس سے مفر نہیں ہوسکتا کہ وہ یہ کام کریں۔