ظفر سیّد


جنرل محمد ایوب خان [م:۲۰؍اپریل ۱۹۷۴ء] اپنی آپ بیتی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی میں لکھتے ہیں:

'میں ۵؍اکتوبر کو کراچی پہنچا ۔ یحییٰ، حمید اور دو ایک افسر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ میں سیدھا جنرل اسکندر مرزا [م: ۱۳نومبر ۱۹۶۹ء]سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے تھے۔ سوچ میں ڈوبے ہوئے، چہرے پر ملال اور مایوسی ٹپکتی ہوئی۔میں نے ان سے پوچھا:کیا آپ نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے؟

’’ہاں‘‘۔ انھوں نے کہا۔

’’کیا آپ کے خیال میں یہ مطلقاً ضروری ہے؟‘‘

’’ہاں، یہ مطلقاً ضروری ہے‘‘ انھوں نے مضبوط ارادے کے ساتھ کہا۔

میں اس کو بدقسمتی سمجھتا تھا کہ وقت کی نزاکت ہمیں ایسا سخت قدم اُٹھانے پر مجبور کردے، اور پھر خود کو اس کارروائی میں شریک دیکھنا بھی تو کوئی خوش گوار بات نہ تھی… مگر ملک بچانے کا یہ آخری موقع تھا۔ (ص ۱۱۷)

اس گفتگو کے دو دن بعد ۷ اور ۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (میجر جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی کمانڈر اِن چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

چونکہ یہ پہلی پہلی کوشش تھی، اس لیے اس اولین مارشل لا میں ’میرے عزیز ہم وطنو!‘ ' وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی تو خیر ابھی آیا ہی نہیں تھا) پر کوئی تقریر نہیں ہوئی۔ بس ٹائپ رائٹر پر لکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اور سفارت خانوں کو بھیج دیا گیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیو پاکستان اور ٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے لیے بھیج دیے گئے۔

مبصرین کی اکثریت کے مطابق یہی وہ 'ناگزیر ' فیصلہ تھا جس نے ملک پر ایسی سیاہ رات طاری کر دی جس کے کالے سائے آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔

اسکندر مرزا کے تحریر کردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والے عشروں میں بار بار تقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، مگر کہانی وہی پرانی رہی۔

مثال کے طور پر دیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:

’ پچھلے دو سال میں گہری تشویش کے ساتھ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ اقتدار کے لیے بے تحاشا رسہ کشی جاری ہے۔ بدعنوانیاں ہیں، سادہ، نیک و محب ِ وطن اور محنتی عوام سے بے شرمی کے ساتھ ناجائز فائدہ اُٹھایا جارہا ہے، شائستگی کا فقدان ہے، اور اسلام کو سیاسی مقاصد کا آلۂ کار بنایا جارہا ہے…

سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اتنی پست ہوگئی ہے کہ مجھے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں رہا کہ انتخابات ملک کے موجودہ داخلی انتشار کو سدھار سکتے ہیں، یا ان کے ذریعے ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت بنائی جاسکتی ہے، جو ان بے شمار پیچیدہ مسائل کو حل کرسکے، جو ہمیں درپیش ہیں۔ آسمان سے نئے لوگ اُتر کر نہ آئیں گے۔ وہی گروہ جس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے، انتخابات کو محض اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا بلکہ یہ لوگ بڑے انتقامی جذبے کے ساتھ دوبارہ برسرِاقتدار آئیں گے تو انھی طریقوں کو استعمال کریں گے، جنھوں نے جمہوریت کو ایک ڈھونگ، ایک الم ناک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ (ص ۳۹۶، ۳۹۷)

بعد میں آنے والے مارشل لاز میں یہی سکرپٹ سرقہ ہوہو کر استعمال ہوتا رہا۔

اسکندر مرزا کے بقول ’’جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے‘‘، لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون [م:۱۹۷۰ء] کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا، اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کو راکٹ میں بٹھا کر خلا میں روانہ کر دیں۔

اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ مارشل لا کے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن نے اپنی حکومت کو جو خفیہ مراسلہ بھیجا، اس میں درج تھا کہ ’’صدرِ پاکستان نے انھیں بتایا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر موجود ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے‘‘۔ سر الیگزینڈر نے اسی مراسلے میں لکھا کہ’’ 'ناپسندیدہ عناصر سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی ہیں، جو اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے ووٹ نہ دیں گے‘‘۔

 اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب [م:۱۹۸۶ء]کی زبانی مل جاتی ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی شہاب نامہ ' میں لکھتے ہیں:

 ۲۲ ستمبر۱۹۵۸ء کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا۔ 'ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’’تم نے اس Trash [کوڑا کرکٹ]کو پڑھا ہے؟‘‘ 'جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے، اس کے متعلق ان کی زبان سے Trash کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ص ۴۸۳)

۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا وہ آئین پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے انھی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔ لیکن ایک اڑچن یہ تھی کہ اس آئین کے تحت صدر کا عہدہ وزیر اعظم سے برتر قرار دیا گیا تھا اور اس میں ۵۸- دو بی قسم کی کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدر، وزیر اعظم کو کسی بھی وقت یک بینی دو گوش نکال باہر کر سکتے تھے۔

اسکندر مرزا نے شق کی شمشیرِ برہنہ کا وہ بےدریغ استعمال کیا کہ اس کے مقابلے پر ۵۸ دو بی کند چھری دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے جن وزرائے اعظم کا شکار کیا ان کی فہرست دیکھیے:

  • محمد علی بوگرہ: ۱۷؍ اپریل تا ۱۲؍ اگست ۱۹۵۵ء (یہ استعفیٰ آئین منظور ہونے سے پہلے لیا)
  • چودھری محمد علی: ۱۲؍ اگست ۱۹۵۵ء تا ۱۲ستمبر ۱۹۵۶ء
  • حسین شہید سہروردی:۱۲؍اکتوبر ۱۹۵۶ء تا ۱۷ستمبر ۱۹۵۷ء
    • آئی آئی چندریگر:۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۷ء تا ۱۶ دسمبر ۱۹۵۷ء
    • ملک فیروز خان نون:۱۶دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء

اس میوزیکل چیئر کے بارے میں جواہر لال نہرو سے منسوب یہ فقرہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ’’میں تو اتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل لیتے ہیں‘‘۔

اسکندر مرزا کی محلاتی سازشوں کی ایک جھلک ایک بار پھر شہاب نامہ  میں دیکھیے:

 ’’اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنے تین روز ہوئے تھے کہ شام کے پانچ بجے مجھے گھر پر مسٹر [حسین شہید]سہروردی [م: ۱۹۶۳ء]نے ٹیلی فون کر کے پوچھا:’’پرائم منسٹر کے طور پر میرا حلف لینے کے لیے کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے؟‘‘

یہ سوال سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا، کیوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ میں نے یہی بات ان کو بتائی تو مسٹر سہروردی غصّے سے بولے، '’’تم کس طرح کے نکمّے سیکریٹری ہو؟ فیصلہ ہو چکا ہے، اب صرف تفصیلات کا انتظار ہے۔ فوراً گورنر جنرل کے پاس جاؤ اور حلف اُٹھانے کی تاریخ اور وقت معلوم کرکے مجھے خبر دو۔ میں انتظار کروں گا‘‘۔

مجبوراً میں اسکندر مرزا صاحب کے پاس گیا۔ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے۔ موقع پا کر میں انھیں کمرے سے باہر لے گیا اور انھیں مسٹر سہروردی والی بات بتائی۔ یہ سن کر وہ خوب ہنسے اور اندر جا کر اپنے دوستوں سے بولے، ’’تم نے کچھ سنا؟ سہروردی، وزیر اعظم کا حلف لینے کا وقت پوچھ رہا ہے‘‘۔

اس پر سب نے تاش کے پتے زور زور سے میز پر مارے اور بڑے اونچے فرمائشی قہقہے بلند کیے۔ کچھ دیر اچھی خاصی ہڑبونگ جاری رہی۔ اس کے بعد گورنر جنرل نے مجھے کہا، ’’میری طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ تم سہروردی کو بتا دو کہ حلف برداری کی تقریب پرسوں منعقد ہو گی، اور چودھری محمد علی وزیرِ اعظم کا حلف اٹھائیں گے‘‘۔

وہاں سے میں سیدھا مسٹر سہروردی صاحب کے ہاں پہنچا اور ان کو یہ خبر سنائی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ اس نئی صورتِ حال پر وہ بڑے جھلائے اور میرے سامنے انھوں نے بس اتنا کہا، ’’اچھا، پھر وہی محلاتی سازش‘‘۔(ص ۴۶۸)

لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے، آخر کار صدرِ مملکت کی محلاتی سازشیں خود انھی پر بھاری پڑگئیں۔ اسکندر مرزا نے نہ صرف سفارش کر کے جونیئر افسر ایوب خان کو آرمی چیف لگوایا تھا بلکہ مارشل لا سے صرف تین مہینے پہلے ان کی مدتِ ملازمت میں دو سال کی توسیع بھی کی تھی۔ انھی ایوب خان نے مارشل لا کے ۲۰ دن کے اندر اندر اسکندر مرزا کو جہاز میں لدوا کر خلا تو نہیں، البتہ پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ بھجوا دیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہ سکرپٹ بھی پاکستان میں اتنا چلا ہے کہ گھس پٹ گیا ہے کہ جو جس آرمی چیف کو لگاتا ہے وہی اس کے قدموں تلے سے قالین کھینچ لیتا ہے۔

تو کون تھے یہ مبینہ بازنطینی محلاتی سازش ساز اسکندر مرزا، جنھوں نے پاکستانی وزارتِ عظمیٰ کو دھوتی بنا کر رکھ دیا تھا؟

ان کے تعارف میں سب سے پہلے جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکندر مرزا، نواب آف بنگال میر جعفر [م: ۱۷۶۵ء]کے پڑپوتے ہیں۔ وہی میر جعفر، جنھوں نے ۱۷۵۷ء میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے حکمران سراج الدولہ [م:۲جولائی ۱۷۵۷ء]کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں   ؎

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن

انھی اسکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا نے ایک کتاب لکھی ہے: From Plassey to Pakistan (پلاسی سے پاکستان)، جس میں انھوں نے حیرت انگیز طور پر کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔

ہمایوں مرزا صاحب نے سراج الدولہ کو ’بدمزاج اور بےرحم‘ ٹھیراتے ہوئے لارڈ رابرٹ کلائیو [م: ۱۷۷۴ء]کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار خود انھی کو قرار دیا تو دوسری طرف یہ عجیب و غریب مماثلت ڈھونڈی ہے کہ جن لوگوں نے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا تھا (مراد اپنے جدِ امجد میر جعفر سے ہے) انھی کے ساتھ نوجوان حکمران نے بےوفائی کی۔

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس جنگ کے تقریباً ٹھیک دو سو سال بعد بنگال کی تاریخ کراچی میں دہرائی گئی اور میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے جس ایوب خان کو پروان چڑھایا تھا، اسی نے اپنے محسن کے سر سے تاجِ صدارت نوچ لیا۔

اسکندر مرزا، برصغیر کے پہلے فوجی افسر تھے، جنھوں نے برطانیہ کی مشہورِ زمانہ سینڈہرسٹ میں واقع امپیریل ملٹری اکیڈمی سے تربیت پائی، لیکن ملک لوٹنے کے بعد سول لائن کو ترجیح دی، اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں پولیٹیکل افسر بھرتی ہو گئے۔

پاکستان بننے کے بعد لیاقت علی خان نے انھیں وزیر دفاع مقرر کیا ۔ جب گورنر جنرل غلام محمد [م:۱۹۵۶ء]نے بوجہ خرابیِ صحت استعفیٰ دے دیا، تو ان کی جگہ اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔تاریخ کا حصہ یہ بھی ہے کہ سات اکتوبر کو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ آئین معطل کر کے اور اسمبلی تحلیل کر کے انھوں نے درحقیقت وہی شاخ کاٹ ڈالی ہے، جس پر ان کا قیام تھا۔ چنانچہ اسکندر مرزا نے ۷ ؍اور ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء کے درمیانی ۲۰ دن بڑے مصروف گزارے۔ اس دوران انھوں نے پہلے تو فوج کے اندر ایوب مخالف دھڑوں کو شہ دے کر ایوب خان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو ۲۴؍اکتوبر کو ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے الگ کر کے وزیر اعظم بنا ڈالا۔  لیکن ایوب خان کو برابر اسکندر مرزا کی 'محلاتی سازشوں کی اطلاعات ملتی رہیں۔ جس رزق  سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ' میں وہ لکھتے ہیں:

’ہمیں اطلاع ملی کہ ان کی بیوی (بیگم ناہید مرزا) ہروقت ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ ’’تم نے سخت غلطی کی۔ خیر وہ تو جو ہوا سو ہوا، اب تمھیں چاہیے کہ ایوب خاں کو ختم کردو‘‘(ص ۱۲۱)۔ اسکندر مرزا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر وہ فوج اور اس کے سربراہوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے تو فوج سب سے پہلے خود انھی کا کام تمام کردے گی۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور کہا: ’’آپ کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے سنا ہے کہ آپ فوجی افسروں کی گرفتاری کے احکام دیتے رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے تردید کرنے کی کوشش کی، ’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے، اس میں ذرہ برابر سچ نہیں‘‘۔ میں نے انھیں تنبیہہ کی، ’’دیکھیے یہ عیاری اورچال بازی ختم کیجیے، ہوشیار رہیے، آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسی شرارتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ (ص ۱۲۳)

کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے بھی بھانپ لیا کہ اگر آئین نہیں ہے تو پھر صدر کا عہدہ چہ معنی دارد؟ آئینی شاخ نہیں تو پھر صدارتی آشیانہ کیسا؟

۲۷؍ اکتوبر کی رات جرنل برکی، جنرل اعظم خاں اور جنرل خالد شیخ، اسکندر مرزا کے گھر پہنچ گئے۔ ملازموں نے بہتیرا کہا کہ ’’صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں‘‘، لیکن جرنیل اتنی آسانی سے کہاں ٹلتے ہیں۔ انھوں نے شب خوابی کے چوغے ہی میں صدر سے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لے لیے اور کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیں، آپ کو ابھی اسی وقت ایوانِ صدر سے نکلنا ہو گا۔

اسکندر مرزا نے اپنے عہدے کے بارے کچھ بحث کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی بیگم ایک بار پھر زیادہ معاملہ فہم ثابت ہوئیں اور انھوں نے صرف اتنا پوچھا، ’’مگر میری بلیوں کا کیا ہوگا؟‘‘

منگول افواج نے ۱۳ دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئیں تو ۱۰ فروری ۱۲۵۸ء کو فصیلِ شہر کے دروازے کھل گئے۔ ۳۷ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزرا اور امرا کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہلاکو [م:۱۲۶۵ء ]نے خلیفہ کے سوا تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔

اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مؤرخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے: ’’وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضب ناک بھیڑیے، بھیڑوں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔ '

دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرشید [م: ۸۰۹ء] اور مامون الرشید [م:۸۳۳ء]کے قائم کردہ دارالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دل کشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلات، سرسبز باغات، پُررونق بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پُرتعیش حماموں کا شہر تھا۔ اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مؤرخین کا اندازہ  دو لاکھ سے زیادہ ہے، جو تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔

تواریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ: بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران جب عظیم الشان شاہی محل کو آگ لگائی گئی تو اس میں استعمال ہونے والے آبنوس اور صندل کی قیمتی لکڑی کی خوشبو آس پاس کے علاقے کی فضاؤں میں پھیلی بدبو میں مدغم ہو گئی ہو گی۔

کچھ اسی طرح کا منظر دریائے دجلہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اساطیری دریا کا مٹیالا پانی پہلے چند دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ وہ خون تھا، جو گلیوں سے بہہ بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی اس وجہ سے کہ شہر کے سیکڑوں کتب خانوں میں محفوظ نادر نسخے دریا میں پھینک دیے گئے تھے اور ان کی سیاہی نے گھل گھل کر دریا کی سرخی کو ماند کر دیا۔

ہلاکو خان نے ۲۹ جنوری ۱۲۵۷ء کو بغداد کا محاصرہ کرتے ہی خلیفہ مستعصم کو لکھا: 'لوہے کے سوئے کو مکا مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو۔ اس کی خندقیں پاٹ دو، حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمھیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں۔ '

۳۷ ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی وہ شان و شوکت تو نہیں تھی، جو ان کے عظیم الشان اجداد کے حصے میں آئی تھی، لیکن پھر بھی مسلم دنیا کے بیش تر حصے پر ان کا سکّہ چلتا تھا اور خلیفہ کو زعم تھا کہ اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے لے کر ایران تک کے سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں گے۔

چنانچہ خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: '’’نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ‘‘۔ '

ہلاکو خان اور اس کے سپاہی پچھلے چار عشروں کے دوران اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور تک آ پہنچے تھے اور اس دوران معلوم دنیا کے بڑے حصے کو اپنا مطیع بنا چکے تھے۔ بغداد پر حملے کی تیاریوں کے دوران نہ صرف ہلاکو خان کے بھائی منگوقآن نے تازہ دم دستے بھجوائے تھے بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے، جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔

منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹکنالوجی سے بہرہ ور تھی۔ منگول فوج میں چینی انجینیروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور بارود کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ بغداد کے شہری آتش گیر مادے نفتا سے واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود کے گولوں سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔

اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، لیکن منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی، اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کےمٹکوں میں رکھ دیتے تھے، جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔

ان کی منجنیقوں نے شہر پر آتشی بارش برسانا شروع کر دی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کر دیا۔ بغداد کے باسیوں نے یہ آفت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی محاصرے کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان ادا کرنے اور اپنی سلطنت میں جمعے کے خطبے میں اس کا نام پڑھنے کی شرط پر صلح کی پیش کش کی، لیکن ہلاکو کو فتح سامنے نظر آ رہی تھی، اس نے یہ پیش کش فوراً ہی ٹھکرا دی۔ آخر ۱۰ فروری کا دن آیا جب خلیفہ نے شہر کے دروازے منگولوں کے لیے کھول دیے۔

ہلاکو شروع میں خلیفہ کو یہ باور کرواتا رہا جیسے وہ بغداد میں اس کا مہمان بن کر آیا ہے۔ خلیفہ مستعصم کی ہلاکت [م: ۲۰ فروری ۱۲۵۸ء]کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، تاہم زیادہ قرینِ قیاس نصیر الدین طوسی [م: ۱۲۷۴ء]کا بیان ہے، جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا:’’ 'کھاؤ‘‘۔ '

مستعصم باللہ نے کہا: ’’ہیرے کیسے کھاؤں؟ ‘‘

' ہلاکو نے جواب دیا: ’’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا‘‘۔ '

عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ’’خدا کی یہی مرضی تھی‘‘۔ '

ہلاکو نے کہا: '’’اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں، وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے‘‘۔

بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور [م: ۷۷۵ء] نے ۷۶۲ء میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق ۷۷۵ء سے لے کر ۹۳۲ء تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے ۱۰ لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ہند سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

دارالترجمہ بیت الحکمت میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی نشات ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمیا، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔

بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی دیکھ لیجیے: جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی اور الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور صوفی مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی،(عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف (ائمہ و فقہا)۔

آج سے ۷۶۲ برس قبل بغداد پر چلنے والی اس ناگہانی منگول آندھی نے میسوپوٹیمیا کی ہزاروں سالہ تہذیب کے قدم ایسے اکھاڑے کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کوئی مسلم شہر بھی بغداد کی شان و شوکت کے عشرِ عشیر تک نہیں پہنچ سکا۔

بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب کو تباہ کر کے مغرب کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔