ڈاکٹر ارشاد الرحمٰن


۵؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو ’الجزیرہ‘ نے اپنی ویب سائٹ پر غزہ میں اسرائیلی فوج کی درندگی، قتل و غارت اور ظلم و سفاکی سے ہونے والی تباہی و بربادی کو اعداد و شمار کی صورت میں شائع کیا ہے۔ یہ رپورٹ غزہ کے سرکاری میڈیا کی طرف سے جاری کی گئی ہے، جو بے گناہ شہریوں اور نہتے عوام پر اسرائیل کے اندھے اور بے حدوحساب بارود برسانے کی المناک صورتِ حال کو بیان کرتی ہے۔ سرکاری میڈیا کے دفتر نے بتایا ہے کہ ۶۷ ہزار سے زائد افراد شہادت سے سرفراز ہوئے۔ یہ اُن لوگوں کی تعداد ہے جن کو ہسپتالوں تک پہنچایا گیا اور ان کا ہسپتال کے ریکارڈ میں اندراج موجود ہے، جب کہ ۱۰ ہزار افراد کا اَتا پتا نہیں۔ ان میں سے کئی ملبے تلے دب گئے اور کئی نامعلوم صورتِ حال سے دوچار ہوئے۔ 

اس رپورٹ کے مطابق ۲۰ ہزار سے زائد بچّے شہید ہوئے، جن میں ایک ہزار ابھی دودھ پیتے بچّے تھے اور ۵ سو کے قریب وہ شیرخوار تھے جو پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ناموافق حالات سے دوچار ہونے کی بنا پر انتقال کر گئے۔ اس رپورٹ کے مطابق اندراج میں موجود شہید عورتوں کی تعداد ۱۰ ہزار سے زائد ہے۔ 

اس سرکاری بیان کے مطابق مکانوں، دکانوں اور مارکیٹوں ، پلازوں کی تخریب و تباہی کے تخمینے کا گراف ۹۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تمام تباہی راکٹوں، میزائلوں، گولہ و بارود اور ڈرون ٹکنالوجی سے برسائی گئی آگ کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی جنگی جنون نے ان دو برسوں میں دو لاکھ ٹن بارود غزہ کی بے گناہ آبادی پر برسایا ہے۔ یہاں اس رپورٹ کی تفصیل درج کی جارہی ہے: 

آبادیاتی اعداد و شمار 

۲۵ لاکھ کے قریب غزہ کے رہائشی انسان قتل و غارت، نسل کشی اور جبری قحط و بھوک کا شکار ہوئے۔ اجتماعی نسل کشی اور تباہی کا یہ اسرائیلی عمل ۷۳۰ دن (دو برس) تک مسلسل جاری رہا۔ ۹۰فی صد عمارتیں مکمل طور پر تباہ و برباد کردی گئیں۔ غزہ کے ۸۰ فی صد رقبے پر غاصب نے اپنا کنٹرول حاصل کرلیا تھا جہاں بے دریغ طریقے سے بارود برسایا، شہریوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا اور ظلم و عدوان کا کھلا مظاہرہ کیا۔  

شہداء، لاپتا افراد اور قتل عام 

مجموعی طور پر ۸۶ ہزار سے زائد افراد شہادت، لاپتا او ر قتل عام کا شکار ہوئے۔ شہداء کی ۶۷ہزار تعداد تو صرف وہ ہے جن کا ہسپتالوں میں اندراج ہوسکا۔ لاپتا افراد کی تعداد ساڑھے۹ہزار سے زائد ہے۔ ان میں وہ شہداء بھی شامل ہیں جو ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، یا ان کا کوئی اتاپتا نہیں۔ ۲۰ہزار سے زائد شہداء تو بچّے ہیں اور ان میں ۱۹ہزار سے زائد بچّے وہ ہیں جو ہسپتالوں کے ریکارڈ میں آئے ہیں۔ ساڑھے ۱۲ہزار سے زائد عورتیں شہید ہوئی ہیں۔ ان میں بھی ۱۰ہزار سے زائد کا اندراج موجود ہے۔ ۹ہزار سے زائد مائیں شہید ہوئیں۔ ۲۲ہزار سے زائد باپ شہادت کا رُتبہ پاگئے۔ ایک ہزار سے زائد اُن شہید بچوں کی تعداد ہے جن کی عمر ابھی ایک برس سےکم تھی۔ ۳۵ ہزار کے قریب بچّے پیدائش کے بعد شہید ہوگئے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد، طبّی عملے کے افراد کو غاصب فوج نے قتل کردیا اور انھوں نے شہادت پائی۔ ڈیڑھ سو کے قریب شہری دفاع کے افراد تہہ تیغ کیے گئے۔ ڈھائی سو سے زائد صحافی شہید ہوئے۔ ۲سو سے زائد بلدیاتی ملازمین کو شہید کردیا گیا جن میں چار بلدیات کے صدور تھے۔ ۸سو کے قریب پولیس کے سپاہی اور امدادی سامان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو شہید کیا گیا۔ ۹سو افراد ہلال احمر کی تنظیموں کے شہید کیے گئے، ۳ہزار کے قریب گھرانے اور خاندان بالکل ختم کر دیے گئے جن کا اندراج شہری ریکارڈ سے ختم کردیا گیا ہے۔ یہ ساڑھے۸ہزار شہداء میں سے ہیں۔ ۶ ہزار سے زائد وہ خاندان ہیں جومکمل طور پر ختم ہوگئے اور ان کا صرف ایک ایک فرد زندہ بچا۔ یہ تعداد ۱۳ ہزار کے قریب شہداء میں سے ہے۔ شہداء میں ۵۵ فی صد سے زائد تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ۵ سو کے قریب شہداء کی وہ تعداد ہے جو بھوک اور ناکارہ غذا کے سبب شہید ہوگئے۔ ان میں بھی ڈیڑھ سو سے زائد بچّے ہیں۔ اسی طرح فضائی ذرائع سے گرائی گئی امداد کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۲۴ کے قریب ہے۔ ۴۰ فی صد سے زائد لوگ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر جان سے گزر گئے کیونکہ انھیں مناسب اور ضروری غذا اور علاج کی سہولت نہ مل سکی۔ ۱۲ہزار سے زائد حاملہ خواتین ناقص غذا اور صحت کی سہولت کی عدم دستیابی کے باعث اسقاطِ حمل کا شکار ہوئیں۔ ۲۵۰ کے قریب شہری سردی کی شدت کے سبب خیموں میں دم توڑ گئے۔ان میں بھی زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ 

زخمی، گرفتاریاں اور انسانی صورتِ حال 

اس دو برس کی بمباری، ڈرون گردی اور میزائل حملوں سے زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد پونے دو لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۹ہزار سے زائد زخمی وہ ہیں جن کو بحالی میں ایک طویل مدت درکار ہوگی۔ ۵ہزار کے قریب زخمیوں کے اعضاء کاٹ دیے گئے ہیں جن میں ۱۸ فی صد تعداد بچوں کی ہے۔ ۱۲ سو فالج کے کیس ، اتنے ہی بینائی کی کمی کے کیس ریکارڈ ہوئے ہیں۔ ۴سو سے زائد صحافی زخمی ہیں۔ ۷ہزار کے قریب شہری گرفتار ہوئے۔۴سو کے قریب تو میڈیکل عملے کے لوگوں کی تعداد ہے جو گرفتار ہوئے۔ ایک سو کے قریب صحافی اور شہری دفاع سے متعلقہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۱ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں اور ۵۶ ہزار سے زائد بچّے یتیم ہوئے۔ ان میں دونوں ماں باپ یا ایک کی شہادت کی صورت میں یتیم ہونے والے بچّے شامل ہیں۔ ۲۰لاکھ سے زائدافراد جبری نقل مکانی کے نتیجے میں متعدی امراض کا شکار ہوگئے۔ ۷۰ہزار سے زائد افراد یرقان کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ 

صحت کے شعبے کی صورتِ حال 

۴۰ کے قریب ہسپتال حملہ آوروں نے تو بالکل تباہ کر دیے یا انھیں کام کے قابل نہیں چھوڑا۔ ایک سو کے قریب مراکز صحت ملیامیٹ کر دیے یا برباد کر دیے یا انھیں کام کے قابل نہیں رہنے دیا۔ ۲سوکے قریب ایمبولینسوں کو ظالموں نے نشانہ بنایا۔ صحت کی دیکھ بھال کی خدمات، سہولیات، گاڑیوں اور سپلائی چینوں پر ۸سو کے قریب حملے کیے گئے۔ ۶۰ سے زائد سرکاری فائربریگیڈاور شہری دفاع کے شعبے کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 

تعلیم اور تعلیمی ادارے 

غزہ کی ۹۵ فی صد اسکول عمارات کو سخت نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ۹۵ فی صد سے زائد اسکولوں کی عمارتیں نئے سرے سے تعمیر ہوں گی یا اُن کا بڑا حصہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ ۷سو کے قریب اسکول عمارتوں کو براہِ راست نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ یہ مدارس کی مجموعی تعداد کا ۸۰ فی صد ہے۔ ۲سو کے قریب اسکول، یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ ۴سو کے قریب اسکول،یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ ساڑھے ۱۳ ہزار سے زائد طلبہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔ ۸ لاکھ کے قریب طلبہ کو سفاک دشمن نے تعلیم سے محروم کردیا۔ ۸سو سے زائد اساتذہ اور تعلیمی و تربیتی شعبوں کے افراد اس جنگ میں اسرائیلی ظلم سے شہید ہوگئے۔ اسی طرح ۲ سو کے قریب علما، دانش ور اور محقق اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید ہوئے۔ 

عبادت گاہوں اورقبرستانوں کی صورت حال 

ساڑھے ۸سو کے قریب مساجد کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ ۲سو کے قریب مساجد  جزوی طور پر منہدم ہوئیں۔ تین گرجوں کو بھی ایک سے زائد مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ ۶۰ میں سے ۴۰قبرستانوں کو بلڈوز کر دیا گیا۔ اڑھائی ہزار کے قریب فوت شدگان اور شہداء کی لاشیں قبروں سے غائب کردی گئیں۔ سات اجتماعی قبریں ہسپتالوں کے اندر ہی بنائی گئیں۔ ۵ سو سے زائد افراد کو سفاک دشمن نے قتل کیا اور پھر ان کی لاشیں اجتماعی قبروں سے بھی نکال کر لے گئے۔ 

مکانات، جبری نقل مکانی اور پناہ گزین کیمپ 

قابض و جابر اور غاصب ظالم نے پونے تین لاکھ رہائشی یونٹس مکمل طور پر تباہ کر دیے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب رہائشی یونٹس کو شدید نقصان پہنچایا جو رہائش کے قابل نہیں رہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد رہائشی یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا۔ تین لاکھ کے قریب فلسطینی خاندان بے گھر ہوئے۔ سوا لاکھ سے زائد خیموں کو مکمل طور پر ناکارہ کر دیا گیا جو استعمال کے قابل نہ رہے۔ ۲۰لاکھ کے قریب شہری جبری نقل مکانی کے باعث بے گھر ہوئے۔ سو کے قریب پناہ گاہوں اور جبری نقل مکانی کے نتیجے میں قائم ہونے والے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ 

امداد و علاج کی روک تھام اور مسلط کردہ بھوک  

۲۲۰ دن تک غزہ کی پٹی کی تمام گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند رکھا گیا۔ سوا لاکھ انسانی امداد اور ایندھن وغیرہ کے ٹرکوں کو غزہ میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ فلسطینی شہریوں کو بھوک سے مارنے کی پالیسی کے تحت ۵۰ کے قریب کھانے کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح امداد اور خوراک کی تقسیم کے ۶۰ سے زائد مراکز کو بھی اسی پالیسی کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ امدادی کاموں میں حصہ لینے والے ساڑھے ۵سو افراد کو شہید کردیا گیا۔ ۱۲۸ مرتبہ امدادی قافلوں اور انسانی وفود کو نشانہ بنایا گیا۔ اڑھائی ہزار سے زائد شہید اور ۱۹سو سے زائد زخمی موت کے جال میں گم ہوگئے۔ ان کو ’اسرائیلی امریکی امدادی مراکز‘ کہا جاتا ہے اور ’مستحقین امداد کے متلاشی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ساڑھے ۶لاکھ بچّے غذائی قلّت، بھوک اور خوراک کی کمی کے باعث موت کے خطرے سے دوچار تھے۔ ۴۰ ہزار شیرخوار (ایک سال سے کم عمر) دودھ کی نایابی کے سبب موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ دودھ کے اڑھائی لاکھ پیکٹ اسرائیلی فوج نے غزہ کے معصوموں تک پہنچنے سے روکے رکھے۔ 

بنیادی ڈھانچہ اور عوامی سہولیات کی تباہی 

۷سو سے زائد پانی کے مرکزی کنوئیں اسرائیل نے تباہ کردیے اور انھیں ناکارہ بنادیا۔ میٹھے پانی کے ۱۳۴ منصوبوں کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا اور اس کے دوران ساڑھے  ۹ہزار کے قریب شہادتیں ہوئیںجن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ ۵ہزار سے زائد کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا۔ سوا دو لاکھ سے زائد بجلی میٹر اسرائیلی تباہی کا نشانہ بن کر ختم ہوگئے۔ ۲ہزار ارب کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی کی مقدار سے غزہ کی پٹی کو محروم رکھا گیا۔ ۷لاکھ میٹر پانی کے پائپ، نیٹ ورک کو اسرائیل نے تباہ کردیا۔ ۳۰ لاکھ میٹر سڑکوں کے نیٹ ورکس کو برباد کر دیا گیا۔ اڑھائی سو کے قریب سرکاری عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ۳سو کے قریب پارکس، کھیل کے گرائونڈ اور اسپورٹس ہال تباہ کر دیے گئے۔ ۲سو سے زائد قومی و ثقافتی ورثے کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ 

زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی گیری کے شعبوں کی بربادی 

۹۴ فی صد زرعی اراضی کو اسرائیلی فوج نے تباہ کردیا ہے جو اصل میں ایک لاکھ ۷۸ہزار دونم ہے۔ ایک ہزار سے زائد زرعی کنوئوں کو ناکارہ بنا دیا گیا۔ ۷سو کے قریب گائے، بھیڑبکری اور مرغی فارموں کو جنونی اسرائیلیوں نے برباد کردیا۔ سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والی اراضی ۹۳ دونم سے کم ہوکر صرف۴ ہزار دونم رہ گئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے زیرانتظام ۸۴ فی صد زرعی سہولیات تباہ کردی گئی ہیں۔ سبزیوں کی سالانہ پیداوار ساڑھے ۴۵ لاکھ ٹن سے کم ہوکر صرف ۲۸ہزار ٹن رہ گئی ہے۔ ماہی گیری کے علاقوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ شعبہ سوفی صد متاثر ہوا ہے۔ 

پانچ اہم شعبہ ہائـے حیات کے نقصانات 

اجتماعی نسل کشی کے باعث ۷۰؍ارب ڈالر ابتدائی نقصان ہے۔ ۵؍ ارب ڈالر صحت کے شعبے،۴؍ارب ڈالر تعلیمی شعبے، ۳؍ارب ڈالر کے قریب ہائوسنگ سیکٹر، ایک ارب ڈالر مذہبی اُمور کے شعبے، ساڑھے ۴؍ارب ڈالر کے قریب زرعی شعبے، ۴؍ ارب ڈالر گھریلو سامان کے ضمن میں، ۳؍ارب ڈالر مواصلات اور انٹرنیٹ کے شعبے میں، ۲؍ارب ڈالر کے قریب نقل و حمل اور مواصلات کے شعبے میں، ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب بجلی کے شعبے اور ۶؍ارب ڈالر شہری سہولیات اور بلدیاتی کاموں کے شعبے میں نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 

جنگ بندی کے بعد کی صورتِ حال 

۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو دو برس کی بے رحم اسرائیلی حملوں سے غزہ کی خوفناک تباہی کے بعد امریکا اور چند اسلامی ممالک کی مشاورت کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا جس کے پہلے مرحلے میں دونوں اطراف کے جنگی قیدیوں کی واپسی طے پائی۔ غزہ میں امداد و خوراک کی بندش کو کھولنے پر اتفاق ہوا۔ غزہ کی بحالی کے لیے کاوشوں کی بات کی گئی۔ مگر اسرائیل اور وزیراعظم اسرائیل نے ہٹ دھرم طبیعت اور سرشت کی اپنی تاریخی روایات پر قائم رہتے ہوئے معاہدے کی ان شرائط اور نکات کی ذرا پروانہ کی۔ غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جنگی کارروائیاں اور حملے مزید قبضے کی کوششیں اور غزہ پر مکمل قبضے کی دھمکیاں، زیتون کے درختوں کی تباہی جیسے پرانے ہتھکنڈوں سے ہاتھ نہ روکا۔ غزہ سے رابطے کی سات کراسنگ میں سے صرف دو کرم ابوسالم اور کیہوویم سے امدادی ٹرکوں کے گزرنے کی اجازت دی۔ باقی پانچ گزرگاہوں کو حسب سابق بند رکھا ہوا ہے۔ رفح کراسنگ جو غزہ کے لیے زیادہ قابلِ رسائی گزرگاہ ہے، اس کو نہ کھولنے کا بار بار اعلان کیا۔ غزہ کی مقامی انتظامیہ کی اطلاعات کے مطابق ۱۸ہزار امدادی ٹرکوں میں صرف۱۸ سو ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ملی جن میں سے صرف ساڑھے ۶ سو ٹرک، ۱۲ اور ۱۳؍اکتوبر کو داخل ہوسکے۔ یہ بھی اقوام متحدہ کے مطالبے پر ممکن ہوسکا۔ اس دوران فلسطینیوں کو مارنے، ان پر میزائل پھینکنے کا عمل جاری رہا۔ ادھر اسرائیلی اسمبلی ’کینسٹ‘ میں غزہ پر مکمل قبضے کی قرارداد بھی منظور کرالی گئی۔ امریکی صدر اور اس کے نمائندے کہتے ہیں کہ ایسا نہ ہوگا مگراس کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس دوران اسرائیل آبادکاری میں توسیع اور قبضہ گیری میں مسلسل پیش قدمی کرتا رہا۔ اب تو باقاعدہ پیلی لکیر کھینچی جارہی ہے جہاں تک اسرائیل کے قبضے کی حدود ہوں گی۔ اس میں رفح کا بہت سا رقبہ بغیر حدود کے اپنے اندر شامل کر رہا ہے۔ اسرائیل نے اس لائن پر ساڑھے ۳میٹر اُونچی کنکریٹ کی دیواربنانا شروع کر دی ہے۔ ۱۰؍اکتوبر کے بعد سے اب تک ایک سو سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید کیے گئے اور اڑھائی سو کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ 

اسرائیل کا مذہبی عقیدہ اور جنگی جنون 

غزہ کی اس خوفناک تباہی کے پیچھے کیا ذہنیت اور عقیدہ کام کرتا ہے؟ اس کومعروف مصری عالم اور محقق و مصنف پروفیسر محمد عمارہ (۱۹۳۱ء-۲۰۲۰ء)نے یوں بیان کیا ہے:اسرائیل کی ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک تمام جنگوں میں ایک مظاہرہ خاص طور پر ہوتا رہا کہ وہ اپنے جنگی اہداف کو نشانہ بنانے کے دوران صرف انھی اہداف تک محدود نہیں رہتا بلکہ قتل و غارت اور تباہی و بربادی سے بلاامتیاز کام لیتا ہے۔ کسی بچے پر ترس کھاتا ہے، نہ کسی عورت کا لحاظ رکھتا ہے۔ کسی مجاہد اور شہری میں کوئی فرق نہیں کرتا، کسی جنگجو اور غیر جنگجو کو نہیں چھوڑتا۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں اس کی فوج نے سیکڑوں فلسطینی دیہات تباہ کیے، نہ مسجدوں کو چھوڑا نہ گھروں اور قبرستانوں کو۔ بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور پُرامن شہریوں تک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ۱۹۷۸ء میں تو اس نے قیدیوں کے بھی قتل سے دریغ نہ کیا۔ ساحل پر موجود شہروں کو تباہ کر دیا، شہری آبادی کو نشانہ بنا کر مٹا دیا۔ اسرائیل نے اس تباہ کن ذہنیت کا غزہ اور لبنان کے خلاف ہر لڑائی میں مظاہرہ کیا۔ اس ہمہ گیر تباہی میں اسکول، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اسکولوں کو بھی نہ چھوڑا۔ مساجد اور ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، حتیٰ کہ ایمبولینسیں بھی اس کے حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔صہیونیت کا یہ مسلسل اور عجیب و غریب مظاہرہ جس میں جنگی قواعد و ضوابط کا ذرا لحاظ نہیں رکھا جاتا، اس کا سبب کیا ہے؟ تجزیہ نگار، صحافی اور سیاست دان اس کو ’اجتماعی سزا‘ کا نام دیتے ہیں جو بین الاقوامی قانون جنیوا معاہدے کی روح سے جرم ہے لیکن کوئی تجزیہ کار، صحافی یا سیاست دان اس طرف متوجہ نہیں ہوتا کہ اس کا سبب ایک دینی حکم کی بجا آوری ہے جس کا متن تلمود میں موجود ہے۔ یہودی علما ’حاخامات‘ نے عہد نامۂ قدیم میں اس کو درج کیا ہے اور یہودی علما اس حکم کی تعلیم صہیونی فوج کی یونٹوں میں دیتے ہیں۔ فوج کا یہ جنگی عقیدہ عربوں کی نسل کشی اور ان کا خاتمہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک موجودہ عرب قدیم عمالقہ کا نمونہ ہے جن کے بارے میں کتاب مقدس کے سفر الخروج کے باب ۱۴:۱۷ میں کہا گیا ہے: 

رب نے موسیٰ سے کہا : یہ بات کتاب میں بطور یادداشت لکھ اور یشوع کو بھی سنادے ، کیونکہ میں عمالیق کا نام آسمان کے نیچے سے مٹا ڈالوں گا۔ 

 فوج جو انسانوں اور مکانوں کو نیست و نابود کر دیتی ہے، بستیوں اور شہروں کو ملبے کے ڈھیر بنا دیتی ہے دراصل وہ یہ تعلیم کتاب مقدس کے باب ۱۳: ۱۲ ، ۱۵ - ۱۷ سے پاتی ہے جو اس کے رب کی زبان سے اس کی پسندیدہ قوم کے لیے آیا ہے: 

اگر تو ان شہروں میں سے کسی کے بارے میں، جو تیرا رب تجھے عطا کرے کہ تو ان میں رہے، کوئی بات سنے تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار کی دھار سے کاٹ کر رکھ دے اور ہرجانور چوپایا جو اس شہر میں ہے اسے بھی تلوار سے ختم کر دے۔ اس شہر کے تمام ساز و سامان کو ایک میدان میں اکٹھا کر اور آگ لگا کر اس شہر اور اس کے سارے سامان کو جلا کر رکھ دے تاکہ یہ شہر ایک ٹیلا بن کر رہ جائے ، دوبارہ تعمیر نہ ہو سکے۔ 

یہ تو ان شہروں کی سزا ہے جو پُرامن ہیں، لڑائی میں حصہ نہیں لیتے، نہ اسرائیل کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ اس متن میں ’کوئی بات‘ کا مطلب ہے کہ وہ اپنی سرزمین اسرائیل کے لیے چھوڑنے اور خالی کرنے سے انکار کریں۔اسرائیل جب اپنی تمام جنگوں میں تشدد و ہلاکت کی انتہا تک جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ کوئی شفقت کرتا ہے، نہ عورتوں پر ترس کھاتا ہے اور نہ کسی معاہدے اور پیمان کا پاس رکھتا ہے، تو وہ اسی جنگی عقیدے کا نفاذ عمل میں لاتا ہے جو اس کی فوج اپنی مقدس مذہبی کتب سے اپنے علما سے سیکھتی ہے۔ یہ عقیدہ انھیں دیگر تمام قوموں کو ختم کر ڈالنے بلکہ کسی ترس اور عہد کا لحاظ رکھے بغیر تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس عقیدے کے مطابق وہی مقدس قوم ہیں اور ہر قوم پر فوقیت رکھتے ہیں۔ سفر التثنیہ میں ہی ہے: 

جب خداوند تیرا خدا ان سات قوموں کو، جو تجھ سے بڑی اور طاقت ور ہیں، تیرے سامنے سے ہٹا دے اور تو انھیں شکست دے تو انھیں مکمل طور پر تباہ کر دینا۔ ان کے ساتھ کوئی عہد نہ کرنا اور نہ ہی ان پر رحم کرنا۔ ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرنا۔ کیونکہ تو ایک مقدس قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے تجھے زمین کی تمام قوموں میں سے چُن لیا ہے تاکہ تو اس کی خاص قوم ہو۔ تو تمام قوموں سے زیادہ بابرکت ہو گا اور تو ان سب قوموں کو تباہ کر دے گا، اور تو ان پر رحم نہ کرنا۔ 

اسی طرح صہیونی جب مقبوضہ زمین سے باقی عربوں کے نکل جانے کی بات کرتے ہیں تاکہ یہودی اپنی خالص یہودی ریاست وہاں قائم کر سکیں، تو یہ بھی ان کا دینی عقیدہ ہے۔ سفر العدد  ۳۳:۵۰-۵۱، ۵۵- ۵۶ میں یہ آتا ہے: 

۴- اور خداوند نے موآب کے میدانوں میں یردن کے کنارے یریحو کے مقابل موسٰی سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو: تم یردن پار کر کے ملک کنعان میں جاؤ گے، اور تم اس ملک کے تمام باشندوں کو اپنے سامنے سے نکال دو گے، اور اس ملک کو اپنا بنا لو گے اور اس میں بس جاؤ گے۔ لیکن اگر تم اس ملک کے باشندوں کو اپنے سامنے سے نہ نکالو گے، تو جو لوگ تم میں سے باقی رہ جائیں گے وہ تمھاری آنکھوں میں کانٹے اور تمھاری پسلیوں میں خار بن جائیں گے، اور وہ اس ملک میں جہاں تم رہتے ہو تمھیں تنگ کریں گے۔ 

ان متون سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں اور عربوں پر بے دردی کے ساتھ مسلط کی گئی اسرائیل کی جنگ ان کا محض سیاسی تصادم نہیں بلکہ ایک دینی فریضے اور حکم کی تکمیل ہے جس کا ہمیں احساس ہی نہیں ہے۔ 

معصوم شہریوں کو قتل کرنا فرض ہـے 

اسرائیلی فوج کے یونٹوں میں جو یہودی علما تعینات ہوتے ہیں، ان کو عسکری رینک دیے جاتے ہیں جن کی ڈیوٹی فوجیوں کو مذکورہ عقیدے کی تعلیم دینا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم و تشدد اور تباہی و بربادی کے ذریعے وہ اس عقیدے پر عمل کرتے ہیں۔ یہ یہودی علما کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں جن کو بڑی تعداد میں طبع کر کے فوج میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ علماء جنگی عقیدے سے متعلق سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ تلمود میں اس سوچ کو ’اسلحہ کی صفائی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوج نے وسطی علاقے میں جو کہ اس کی مقبوضہ زمین کے مغربی کنارے پر واقع ہے، ایک حاخام برگیڈیئر فیضان زیمبل کا فتویٰ شائع کیا۔ اس میں اس حاخام نے معصوم فلسطینی شہریوں کے قتل کو فرض قرار دیا کیونکہ یہودی قانون ’ہلاکات‘ [ہلاخات]کی روشنی میں یہ ایک دینی ذمہ داری ہے۔اسرائیلی کاتب ’اسرائیل شاحاک‘ نے اس فتوے کو اپنی کتاب ’یہودی مذہب اور غیر یہودیوں کے بارے میں اس کا موقف‘ میں شامل کیا ہے۔ شاحاک اس کتاب میں لکھتا ہے: جنگ کے دوران افواج کا شہریوں سے آمنا سامنا ہو جانے کی صورت میں یا سخت جارحانہ حملے یا مدافعانہ حملے کی صورت میں ہماری افواج کے پاس شہریوں کو تکلیف پہنچانے کی کوئی دلیل نہیں ہے، تاہم انھیں قتل کرنے کا امکان موجود ہے کیونکہ انھیں قتل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ یہودی قانون ’ہلاکات‘ تو معصوم شہریوں کو قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 

حاخام شمعون وائزر، تو اسرائیلی فوجی موشی جو ۱۹۶۰ء میں مقبوضہ فلسطین میں خدمات انجام دے رہا تھا کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے جس میں موشی پوچھتا ہے کہ کیا ہم عربوں کے ساتھ عمالقہ جیسا معاملہ کریں یعنی ان کو قتل کر دیں تاکہ ان کا ذکر زمین سے ختم ہوجائے جیسا کہ سفرالتثنیہ ۲۵:۱۹ میں آیا ہے: ’’تاکہ تم آسمان کے نیچے عمالقہ کا ذکر ہی ختم کر دو‘‘۔ ہم اس پر عمل کریں یا عادلانہ قوانین جنگ کا اطلاق کریں جن کے مطابق صرف محارب (جنگجو) کو قتل کیا جاتا ہے اور کیا ہتھیار ڈال دینے والے عربی کو پانی پیش کرنا میرے لیے جائز ہے؟ 

اس خط کا جواب دیتے ہوئے حاخام شمعون وائزر، یہودی شریعت ’ہلاکات‘ کا حکم واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمھارے سامنے بعض دانشوروں کے اقوال رکھتا ہوں اور ان کی وضاحت کرتا ہوں: یہودیوں کے علاوہ دیگر مذاہب میں جنگ کے مخصوص قوانین ہیں جس طرح فٹ بال اور باسکٹ بال کے قوانین ہوتے ہیں مگر ہمارے دانش وروں کے مطابق جنگ ہمارے نزدیک کھیل نہیں بلکہ زندگی کی ضرورت ہے اور صرف ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کو نافذ کرنے کی صورت حال کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔ غیر یہودی کو قتل کر دو، اس کا سرقلم کردو۔ یہی ’ہلاکات‘ کے مطابق ’قانون اسلحہ صفائی‘ ہے۔اسرائیلی فوجی موشی نے اس خط کا جواب اپنے ساتھی فوجیوں کو بھی پڑھ کر سنایا تاکہ وہ اپنی شریعت کا وہ قانون جان لیں جس کے مطابق بہترین غیر محارب [غیرجنگجو]،بے گناہ اور معصوم فلسطینی کا قتل لازمی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ وہ غیریہودی ہے، وہ سانپ ہے جس کا سر کچلنا ضروری ہے۔موشی نے حاخام شمون وائزر کو جوابی خط لکھا کہ مجھے آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں نے اس کو یوں سمجھا ہے کہ میرے لیے زمانۂ جنگ میں ان عرب مرد و عورت کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے جو اچانک میری زد میں آجائیں بلکہ میرا یہ فریضہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کر کے رہوں۔ 

نسل پرست قبضہ گیر نوآبادیات 

اسرائیل نو آبادیاتی اور نسلی امتیاز کے استعمار کی آخری نشانی ہے۔ سفید فاموں نے اپنے زوال سے قبل یہ نظام جنوبی افریقہ میں اس نسل پرستی کی بنیاد پر نافذ کیا جس کے مطابق سفید فام تمام نوع انسانی سے برتر مخلوق ہیں۔ ادھر صہیونیت نے سرزمین فلسطین میں اسی نسلی برتری کا امتیاز قائم کرنے کا کھیل کھیلا ہے۔ صہیونیت اس کو اپنا دین بنائے ہوئے ہے کیونکہ یہ عہد نامہ قدیم اور اس کی شرح تلمود کی تعلیمات ہیں۔اسرائیل شاحاک (۱۹۳۳ء-۲۰۰۱ء) اپنی مذکورہ کتاب میں اس نسلی برتری کے عقیدے سے متعلق متعدد مثالیں پیش کرتا ہے۔ ان کے ہاں ’نفس‘ لفظ کا مطلب یہودی ہے وہ اس میں غیر یہودیوں اور کتوں کو بالکل شامل نہیں کرتے۔ آرتھوڈوکس یہودی اپنی نوخیز عمری ہی سے مقدس تعلیمات میں یہ عقیدہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ غیر یہودی کتوں کے برابر ہیں اور ان کو اچھا سمجھنا گناہ ہے۔ 

’کتاب تربیت‘ جس پر حکومت اسرائیل نے ایک بڑی رقم خرچ کر کے طبع کرایا ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور یہ اسرائیل کی قومی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کے آغاز ہی میں لکھا ہے: غیر یہودی غلام کو تاحیات غلام رکھنا واجب ہے اور یہودی غلام کو آزاد کردینا واجب ہے۔ اس لیے کہ یہودی کائنات کے افضل ترین انسان ہیں۔ وہ اس لیے پیدا کیے گئے تاکہ خالق کو پہچانیں اور اس کی عبادت بجا لائیں۔ بندوں کو غلام بنانا ان کا حق ہے اور جب ان کے پاس دیگر قوموں کا فرد غلام نہ ہو تو پھر وہ اپنی ہی قوم کے فرد کو غلام بنانے پر مجبور ہوں گے، جو اپنے ربّ کی خدمت نہ کرپائیں گے۔ یہی اس آیت کا مقصد ہے: 

تم اپنے بھائیوں کو جو سب رب کی عبادت کے لیے تیار ہو رہے ہیں دُور نہیں کرو گے۔(سفراللاویین ۲۵-۲۶) 

ان کی کتاب مقدس (عہد نامہ قدیم) کی وصیت یہ ہے کہ تم کسی ایسی شے کو زندہ نہ چھوڑو جو سانس لیتی ہو(سفر التثنیہ۶۰، ۶۱)،تو یہ آیت اسرائیلی افواج کے لیے ایسا تربیتی لیکچر بن جاتی ہے جو مقبوضہ فلسطین کے علاقے میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، جس لیکچر میں کہا جاتا ہے کہ فلسطینی عمالقہ کی مانند ہیں اور عمالقہ کا ذکر آسمان کے نیچے سے مٹا ڈالو(سفرالتثنیہ ۲۵:۹)۔ اور جو فلسطینی عمالقہ جیسے انجام سے بچ جائے، اس کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جائے۔ 

موسیٰ بن میمون فلسفی (۱۱۳۵ء-۱۲۰۴ء)کو یہودی سیّدنا موسٰی جیسا بلند مقام سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ موسٰی کے بعد موسٰی جیسا کوئی نہیں آیا سوائے موسی (بن میمون) کے۔ یہ یہودی فلسفی عہد نامہ قدیم کے اسفار کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے: غیر یہودی بلند دینی قیمت تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ رب کی حقیقی عبادت کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی طبیعت ہی بے زبان حیوانوں کی طرح ہے۔ وہ کائنات میں ادنیٰ ترین انسان ہیں، بندروں سے کچھ اوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔ 

 یہودی عورت کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے ماہوار غسل طہارت کے بعد مذہبی حمام سے واپسی پر چار شیطانی اشیاء کا سامنا کرنے سے پرہیز کرے: کسی غیر یہودی سے، کسی خنزیر سے، کسی کتے سے اور کسی گدھے سے۔ اگر ان میں سے کسی سے بھی اس کا سامنا ہو جائے تو وہ دوبارہ غسل کرے۔ 

اسرائیل نے درجنوں قوانین ایسے بنا رکھے اور جاری کر رکھے ہیں جو فلسطین کی سرزمین پر یہودی نوآبادیاتی نظام میں نسلی برتری کے امتیاز کے مظہر ہیں۔ اس امتیازی یہودی نظام اور نسلی برتری قائم کرنے والے یہودی نظام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والوں نے کیا کبھی ان حقائق پر بھی توجہ کی؟ کیا مسیحی تہذیب کے فرزندوں نے جو کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونیت کے اتحادی ہیں موسیٰ بن میمون کے بیان کو پڑھا ہے؟ اس نے تورات شفاہیہ (تورات کی شفوی تشریح) میں سیّدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے اور ہر یہودی کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ جب یسوع کا نام سنے تو کہے اللہ تعالیٰ شریر نام کو ہلاک کرے تاکہ یہ شریر نام یسوع ناصری اور اس کے شاگردوں کو مبتلائے مصیبت کرے۔ یہ یہودی دیگر انسانوں کو نہ انسان سمجھتے ہیں اورنہ اُنھیں زمین پر زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ 

 

۲۴ ستمبر۲۰۲۵ء کو ’النہضہ اسلامی پارٹی‘ تاجکستان کی صف اوّل کے رہنما معروف عالم دین علّامہ زبیداللہ روزیق (۱۹۴۶ء-۲۰۲۵ء) تاجکستان کے شہر فاہدات کی جیل میں انتقال کرگئے۔ شیخ روزیق کی عمر۸۳برس کے قریب تھی۔ ’حزب النہضہ‘ ۱۹۷۳ء میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد حسن البنا شہید، سید قطب شہید، محمد الغزالی، اور سید مودودی کے افکار پر رکھی گئی، مگر یہ جماعت اپنے اندرونی نظام کےلحاظ سے مکمل خود مختار تھی۔ ان شخصیات کی فکر پر قائم تحریکوں سے کوئی رہنمائی اور ہدایات نہیں لیتی تھی۔ بنیادی طور پر تو اس کا سرچشمۂ رہنمائی قرآن و سنت ہی تھا۔ پارٹی کی بنیاد سیّد عبداللہ نوری [۱۹۳۷ء- ۹؍اگست ۲۰۰۶ء] نے ۱۹۹۰ء میں ’استراخان‘ میں رکھی۔ تب اگرچہ اشتراکی روس میں صدر گوربا چوف کی زیرقیادت ’گلاسناسٹ‘ (کشادگی) کا دور تھا، مگر پارٹی کی تشکیل غیرقانونی تھی۔ یہ تاسیس زیرزمین تھی، جب کہ عزم کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ماسکو کی سامراجی حکومت سے بے زاری اور آزادی کی سمت سفر تھا۔ اس طرح عملاً ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء کے عرصے میں النہضہ، تاجکستان کی آزادی کی جنگ میں سرگرم رہی۔ 

۱۹۹۲ء میں جب سابق کمیونسٹ صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تو پارٹی نے پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتے تک دھرنا دیے رکھا۔ آخرکار رحمان علی نائیف نے مظاہرین کے مطالبات مان لیے اور اتحادی حکومت قائم ہو گئی۔ مگر اسی سال نائف نے استعفا دے کر ماسکو میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ حزب النہضہ نے اکبراسکندروف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا۔ لیکن جب ماسکو نے دبائو ڈالا تو اسکندروف بھی اتحادی حکومت کی سربراہی سے مستعفی ہوگیا اور ایک سابق کمیونسٹ صدر بن بیٹھا اور سابق کمیونسٹ فوجی دارالحکومت میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ’النہضہ‘ کو سابقہ کمیونسٹ پارٹی کی باقیات پر مشتمل ایک حددرجہ سخت گیر اور استبدادی حکومتی سختیوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے بانی سیّد عبداللہ نوری کو فوجی حکومت نے اغوا کیا اور پارٹی کی قیادت کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ یہ بات معروف ہے کہ ۲۰۰۶ء میں سیّد عبداللہ نوری کو زہر دے کر مارا گیا تھا۔ 

جناب زبید اللہ روزیق کا شمار النہضہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں ہوتا تھا۔ اس پارٹی نے  دینی آزادیوں کے دفاع اور جمہوری اصلاح کے لیے بڑی جان دار آواز بلند کی۔ زبید اللہ ۱۹۶۷ء میں کمیونسٹ ریاستی جبر کے باوجود زیرزمین اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ تب تاجکستان پر ماسکو کی حکومت تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ۱۹۹۲ء میں جب یہ تحریک باقاعدہ رجسٹر ہوئی تو زبیداللہ اس کے بانیوں میں شامل تھے۔ وہ پارٹی کے علمی شعبے کے صدر مقرر ہوئے، جس کے ذمے اہل علم کی تیاری تھا۔ لیکن ۲۰۱۳ء میں پارٹی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں، مگر جناب زبیداللہ اس کے بعد بھی علمی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اتنی طویل اور مسلسل تحریکی و دینی اور علمی خدمات کی بنا پر وہ ملک میں اسلامی بیداری کی علامت بن گئے تھے۔ 

۲۰۱۵ء میں حکومت نے پارٹی کی بساط مکمل طور پر لپیٹتےہوئے بڑے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں قائدین اور کارکنان کو گرفتار کیا، شیخ زبیداللہ روزیق ان میں سرفہرست تھے۔ ان پر ’دہشت گردی‘ اور حکومت کا تختہ الٹنے کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے ۲۵سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس الزام کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی مسترد کیا اور اسے محض اسلامی تحریک مزاحمت کوکچلنے کا اقدام قرار دیا۔ گرفتاری کے ساتھ ہی اُن کو ’فاہدات جیل‘ کی شدید حراست میں رکھا گیا، جو بدترین جیلوںمیں سے ایک ہے۔ 

علّامہ زبید اللہ اپنی گرفتاری سے وفات تک مختلف جسمانی عوارض کے ساتھ قید کی سختیاں صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں انھیں جیل کے نہایت تنگ و تاریک سیل میں بند کیا گیا، جہاں شدید تعفن تھا اور کیڑوں مکوڑوں کی بہتات تھی۔ ایسا کھانا دیا جاتا، جو جانوروں کے لیے بھی مناسب نہیں تھا۔ نومبر۲۰۲۱ء میں انھیں دوبارہ دو ماہ کال کوٹھڑی میں مولانا رحمت اللہ رجب کے ہمراہ رکھا گیا۔ 

جولائی ۲۰۲۲ء میںانھیں قیدتنہائی میں رکھا گیا، کہ ان کا جرم دوسرے قیدیوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔ اس دوران، ان کے زخم مسلسل رستے رہے۔ انھیں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ ظلم وستم اور تشدد کے ان تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد ان کے عزم وہمت اور صبروثبات کو متزلزل کرنا تھا، مگر وہ اللہ کی مدد سے ثابت قدم رہے۔ 

علّامہ زبیداللہ روزیق کی وفات سے چند روز قبل انھیں جیل کے چھوٹے سے ہسپتال میں منتقل کیا گیا، مگر پھر جلد ہی واپس لا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اور یہ قدم ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس اٹھایا گیا تھا۔ یاد رہے، ۲۰۲۴ء میں ایک اور رہنما محمد علی فائزمحمد بھی ۶۵ سال کی عمر میں اسی جیل کے ہسپتال میں جان سے گزر گئے تھے۔ 

’ہیومن رائٹس واچ‘ ۲۰۲۵ء کی رپورٹ کے مطابق ایسی میڈیکل غفلت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قیدی سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا جائے۔ ایسا ظالمانہ رویہ، اسلامی تحریک کے کارکنوں کے علاوہ دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس وحشیانہ طرزِعمل کے خلاف ہیومن رائٹس واچ نے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت بیان جاری کیے ہیں جو قیدیوں کو اس طرح مارنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پارٹی کے ایسے لاتعداد  قیدیوں کو رہا کیا جائے، جو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عذاب سہ رہے ہیں۔ 

علّامہ زبید اللہ روزیق نے جیل سے اپنے رفقاء کے لیے یہ وصیت بھیجی : 

میری طرف سے احباب کو سلام پہنچا دیجیے اور انھیں بتا دیجیے کہ ہم اپنے عہد پر قائم ہیں۔ الحمدللہ، نہ بدلے ہیں، نہ ڈگمگائے ہیں۔ لہٰذا ،آپ بھی ثابت قدم رہیں۔ ایمان، عزیمت اور استقامت سے اپنا سفر جاری رکھیں۔ ظالم کی حکومت کی زندگی ایک پل پر ہی مشتمل ہوتی ہے! ظلم کو آخرکار ختم ہونا ہے خواہ کتنا طویل ہو جائے!