نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

علّامہ زبید اللہ روزیق مرحوم

ڈاکٹر ارشاد الرحمٰن | نومبر ۲۰۲۵ | یاد رفتگاں

Responsive image Responsive image

 

۲۴ ستمبر۲۰۲۵ء کو ’النہضہ اسلامی پارٹی‘ تاجکستان کی صف اوّل کے رہنما معروف عالم دین علّامہ زبیداللہ روزیق (۱۹۴۶ء-۲۰۲۵ء) تاجکستان کے شہر فاہدات کی جیل میں انتقال کرگئے۔ شیخ روزیق کی عمر۸۳برس کے قریب تھی۔ ’حزب النہضہ‘ ۱۹۷۳ء میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد حسن البنا شہید، سید قطب شہید، محمد الغزالی، اور سید مودودی کے افکار پر رکھی گئی، مگر یہ جماعت اپنے اندرونی نظام کےلحاظ سے مکمل خود مختار تھی۔ ان شخصیات کی فکر پر قائم تحریکوں سے کوئی رہنمائی اور ہدایات نہیں لیتی تھی۔ بنیادی طور پر تو اس کا سرچشمۂ رہنمائی قرآن و سنت ہی تھا۔ پارٹی کی بنیاد سیّد عبداللہ نوری [۱۹۳۷ء- ۹؍اگست ۲۰۰۶ء] نے ۱۹۹۰ء میں ’استراخان‘ میں رکھی۔ تب اگرچہ اشتراکی روس میں صدر گوربا چوف کی زیرقیادت ’گلاسناسٹ‘ (کشادگی) کا دور تھا، مگر پارٹی کی تشکیل غیرقانونی تھی۔ یہ تاسیس زیرزمین تھی، جب کہ عزم کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ماسکو کی سامراجی حکومت سے بے زاری اور آزادی کی سمت سفر تھا۔ اس طرح عملاً ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء کے عرصے میں النہضہ، تاجکستان کی آزادی کی جنگ میں سرگرم رہی۔ 

۱۹۹۲ء میں جب سابق کمیونسٹ صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تو پارٹی نے پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتے تک دھرنا دیے رکھا۔ آخرکار رحمان علی نائیف نے مظاہرین کے مطالبات مان لیے اور اتحادی حکومت قائم ہو گئی۔ مگر اسی سال نائف نے استعفا دے کر ماسکو میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ حزب النہضہ نے اکبراسکندروف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا۔ لیکن جب ماسکو نے دبائو ڈالا تو اسکندروف بھی اتحادی حکومت کی سربراہی سے مستعفی ہوگیا اور ایک سابق کمیونسٹ صدر بن بیٹھا اور سابق کمیونسٹ فوجی دارالحکومت میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ’النہضہ‘ کو سابقہ کمیونسٹ پارٹی کی باقیات پر مشتمل ایک حددرجہ سخت گیر اور استبدادی حکومتی سختیوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے بانی سیّد عبداللہ نوری کو فوجی حکومت نے اغوا کیا اور پارٹی کی قیادت کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ یہ بات معروف ہے کہ ۲۰۰۶ء میں سیّد عبداللہ نوری کو زہر دے کر مارا گیا تھا۔ 

جناب زبید اللہ روزیق کا شمار النہضہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں ہوتا تھا۔ اس پارٹی نے  دینی آزادیوں کے دفاع اور جمہوری اصلاح کے لیے بڑی جان دار آواز بلند کی۔ زبید اللہ ۱۹۶۷ء میں کمیونسٹ ریاستی جبر کے باوجود زیرزمین اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ تب تاجکستان پر ماسکو کی حکومت تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ۱۹۹۲ء میں جب یہ تحریک باقاعدہ رجسٹر ہوئی تو زبیداللہ اس کے بانیوں میں شامل تھے۔ وہ پارٹی کے علمی شعبے کے صدر مقرر ہوئے، جس کے ذمے اہل علم کی تیاری تھا۔ لیکن ۲۰۱۳ء میں پارٹی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں، مگر جناب زبیداللہ اس کے بعد بھی علمی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اتنی طویل اور مسلسل تحریکی و دینی اور علمی خدمات کی بنا پر وہ ملک میں اسلامی بیداری کی علامت بن گئے تھے۔ 

۲۰۱۵ء میں حکومت نے پارٹی کی بساط مکمل طور پر لپیٹتےہوئے بڑے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں قائدین اور کارکنان کو گرفتار کیا، شیخ زبیداللہ روزیق ان میں سرفہرست تھے۔ ان پر ’دہشت گردی‘ اور حکومت کا تختہ الٹنے کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے ۲۵سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس الزام کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی مسترد کیا اور اسے محض اسلامی تحریک مزاحمت کوکچلنے کا اقدام قرار دیا۔ گرفتاری کے ساتھ ہی اُن کو ’فاہدات جیل‘ کی شدید حراست میں رکھا گیا، جو بدترین جیلوںمیں سے ایک ہے۔ 

علّامہ زبید اللہ اپنی گرفتاری سے وفات تک مختلف جسمانی عوارض کے ساتھ قید کی سختیاں صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں انھیں جیل کے نہایت تنگ و تاریک سیل میں بند کیا گیا، جہاں شدید تعفن تھا اور کیڑوں مکوڑوں کی بہتات تھی۔ ایسا کھانا دیا جاتا، جو جانوروں کے لیے بھی مناسب نہیں تھا۔ نومبر۲۰۲۱ء میں انھیں دوبارہ دو ماہ کال کوٹھڑی میں مولانا رحمت اللہ رجب کے ہمراہ رکھا گیا۔ 

جولائی ۲۰۲۲ء میںانھیں قیدتنہائی میں رکھا گیا، کہ ان کا جرم دوسرے قیدیوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔ اس دوران، ان کے زخم مسلسل رستے رہے۔ انھیں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ ظلم وستم اور تشدد کے ان تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد ان کے عزم وہمت اور صبروثبات کو متزلزل کرنا تھا، مگر وہ اللہ کی مدد سے ثابت قدم رہے۔ 

علّامہ زبیداللہ روزیق کی وفات سے چند روز قبل انھیں جیل کے چھوٹے سے ہسپتال میں منتقل کیا گیا، مگر پھر جلد ہی واپس لا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اور یہ قدم ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس اٹھایا گیا تھا۔ یاد رہے، ۲۰۲۴ء میں ایک اور رہنما محمد علی فائزمحمد بھی ۶۵ سال کی عمر میں اسی جیل کے ہسپتال میں جان سے گزر گئے تھے۔ 

’ہیومن رائٹس واچ‘ ۲۰۲۵ء کی رپورٹ کے مطابق ایسی میڈیکل غفلت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قیدی سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا جائے۔ ایسا ظالمانہ رویہ، اسلامی تحریک کے کارکنوں کے علاوہ دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس وحشیانہ طرزِعمل کے خلاف ہیومن رائٹس واچ نے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت بیان جاری کیے ہیں جو قیدیوں کو اس طرح مارنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پارٹی کے ایسے لاتعداد  قیدیوں کو رہا کیا جائے، جو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عذاب سہ رہے ہیں۔ 

علّامہ زبید اللہ روزیق نے جیل سے اپنے رفقاء کے لیے یہ وصیت بھیجی : 

میری طرف سے احباب کو سلام پہنچا دیجیے اور انھیں بتا دیجیے کہ ہم اپنے عہد پر قائم ہیں۔ الحمدللہ، نہ بدلے ہیں، نہ ڈگمگائے ہیں۔ لہٰذا ،آپ بھی ثابت قدم رہیں۔ ایمان، عزیمت اور استقامت سے اپنا سفر جاری رکھیں۔ ظالم کی حکومت کی زندگی ایک پل پر ہی مشتمل ہوتی ہے! ظلم کو آخرکار ختم ہونا ہے خواہ کتنا طویل ہو جائے!