وہ ریاست جو عالمی جنگ کی راکھ پر قائم ہوئی تھی، اور جسے لامحدود عرب حمایت حاصل تھی، وہ اس تاریک لمحے تک بھی پہنچ جائے گی؟ میں واضح الفاظ اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہتا ہوں، کیا اسرائیل تھوڑی مدت کے اندر اندر گر جائے گا۔
آج ہم جس چیز کا سامنا کر رہے ہیں وہ محض ’سیکورٹی کا بحران‘ یا ’سیاسی ناکامی‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زلزلہ ہے جو صہیونی منصوبے کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔
تحریک حماس نے نہ صرف میدانِ جنگ میں فتح حاصل کی، بلکہ اس نے ’ناقابل تسخیر ریاست‘ کے افسانے کو بھی تباہ کر دیا، اور دنیا کے سامنے ہماری کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔
ہم خون بہا رہے ہیں، مگر ہمارے لوگ بھاگ رہے ہیں۔یورپ، امریکا اور کینیڈا کی پروازیں مکمل طور پر بک ہو چکی ہیں، سفارت خانے ہجرت کی درخواستوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
خاندان خاموشی سے اپنی جائیدادیں بیچ رہے ہیں، والد اپنے بیٹوں کو واپس نہ آنے کے ارادے سے بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج رہے ہیں۔ ہم کوئی ہجرت نہیں کر رہے… بلکہ ہم بھاگ رہے ہیں، ہاں، ہم ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔
ذلّت کے مناظر روزانہ کا معمول بن گئے ہیں۔
کیمروں کے سامنے روتے ہوئے فوجی۔
زبردستی کے آبادکار شمال اور جنوب سے بھاگ رہے ہیں۔
وزیر چیخ رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں ___ مگر کوئی فائدہ نہیں۔
اور پوری قوم کو سکون آور گولیوں پر رکھا جا رہا ہے۔
یہ کیسی ریاست ہے جو اپنے دارالحکومت اور اپنی بستیوں پر روزانہ بمباری ہوتی دیکھتی ہے اور جواب نہیں دے سکتی؟
یہ کیسی فوج ہے جو ہزاروں ٹینکوں کے باوجود ’غزہ کو گھٹنے ٹیکنے‘ میں ناکام ہو جاتی ہے؟
یہ کیسی قیادت ہے جو فتح کی بات کرتی ہے، جب کہ اندرونی طور پر ہم تباہ ہو رہے ہیں؟
حماس کی تحریک نے سب کچھ بے نقاب کر دیا۔
ہماری نسل نے فخر کیا، اور اس نفرت کی چنگاریوں کو بھڑکایا جو ہمیں اندر سے کھا رہی ہے۔ اندرونی سطح پر انتفاضہ قریب ہے، عرب خود پر اعتماد بحال کر رہے ہیں۔
اور ہم؟ ہم بکھرے ہوئے، خوف زدہ، اور اندر سے کھوکھلے ہیں۔
آج ہم ایک ایسی ہستی ہیں جس کا کوئی منصوبہ نہیں، کوئی سمت نہیں، کوئی جواز نہیں۔ ایک ایسی ریاست ہیں جس کی کوئی اخلاقیات نہیں، جو عام شہریوں کو قتل کرتی اور بچوں کو گرفتار کرتی ہے، اور پھر دنیا سے اس کے لیے تالی بجانے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔
مستقبل قریب میں اسرائیل اس طرح نہیں رہے گا جیسا کہ ہم آج اسے جانتے ہیں۔
شاید یہ ’محصور قلعوں کی ریاست‘ بن جائے، یا ایک ’مسلح یہودی علاقہ‘ جو امریکی تحفظ کے ٹکڑوں پر زندہ رہے۔
اور شاید مکمل طور پر اس کا سقوط ہو جائے، اور زمین اس کے مالکان کو واپس مل جائے۔
کیا میں مبالغہ کر رہا ہوں؟تاریخ سے پوچھو، ہر وہ استعماری منصوبہ جو قتل اور جھوٹ پر مبنی تھا، وہ مٹ گیا۔ ہر وہ ہستی جو ظلم پر قائم تھی، وہ تباہ ہو گئی۔
گھڑی ٹک ٹک کر رہی ہے۔
اور جب اسرائیل گرے گا … اور یہ ضرور گرے گا … تو دنیا اس لمحے کے بارے میں بات کرے گی جب ایک جوہری ریاست نے اپنی انسانیت کو ترک کر دیا تھا اور سب کچھ کھو دیا تھا۔
اور ہم، اگر ہم اب بھی بیدار نہیں ہوئے، تو ہمیں ایک ایسی احمق قوم کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو طاقت کے وہم میں جی رہی تھی،جب کہ دُنیا اسے گرتے ہوئے دیکھ رہی تھی!