ڈاکٹر محمد اکرم ندوی


عزّت سے جئے تو جی لیں گے، یا جامِ شہادت پی لیں گے 

بروز جمعہ، ۱۸ ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ کو پورے دو سال بعد غزہ کی جنگ کا ایک مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ دنیا کے لیے یہ دو سال صدیوں پر بھاری تھے اور حساس دل والوں کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھے، جیسے خود ان کے اپنے سینوں میں خنجر گھونپ دیئے گئے ہوں۔ ان دو برسوں میں دنیا نے اپنی آنکھوں سے جو ہولناک مناظر دیکھے ،ان کے لیے انھیں بیان کرپانا مشکل ہے اوراپنے کانوں سے جو رپورٹس سنیں ان پریقین کرنا ناممکن ہے ۔ لوگوں نے غزہ میں ایسے ہولناک مناظر دیکھے جو بچوں کو بوڑھا کردیں، پہاڑوں کو متزلزل کردیں اور کمزور دل والوں کی دھڑکنیں بند کردیں۔ ان دوبرسوں میں پورا غزہ قتل کا میدان، موت کی وادی اور قیامت خیز حشرسامانی کا میدانِ کارزار بنارہا۔ 

لوگوں نے غزہ میں قتل وغارت گری اور قحط سامانی وفاقہ کشی جیسے ہولناک مناظر دیکھے۔ ایسے مناظر اس سے پہلے شاید ہی کبھی کسی نے دیکھے ہوں گے۔ اگر اہل غزہ کے جسموں میں ایسی روح نہ ہوتی جسے موت بھی آسانی سے نہیں مارسکتی، ایسا عزم نہ ہوتا جسے مہلک ہتھیاروں سے مغلوب نہیں کیاجاسکتا، اور اگروہ ایسے عزائم کے مالک نہ ہوتے جو ذلت وتسلط کو ناپسند کرتے ہیں اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں، تو شاید اس درندگی و بہیمیت کے ہاتھوں کچلے جانے والے دلوں میں اُمیدوں کے چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتے اورلوگوں کے دلوں سے رحم کا مطلب ہمیشہ کے لیے محو ہوجاتا۔ 

جب مجھے خبرملی کہ غزہ میں جنگ کے شعلے سرد پڑ گئے ہیں، تومیرے دل میں غزہ کا دورہ کرنے کاخیال پیدا ہوا۔ اس لیے نہیں کہ میں غزہ کے کھنڈرات دیکھنا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کہ غزہ کے نوجوانوں کے چہرے دیکھنا چاہتا تھا، ان کی زبانوں سے صبر وعزیمت کی داستانیں سننا چاہتا تھا۔ میں یہی آرزو لیے غزہ میں داخل ہوا۔ یہاں میں نے ایسی تباہی دیکھی جو عظمتوں کے قصے سناتی تھی، ایسے کھنڈرات دیکھے جو ایسی زبان میں بات کررہےتھے، جسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو آزاد اورباعزت زندگی کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہوں۔میں نے دیکھا کہ غزہ کی گلیوں سے ابھی تک بارود کی بُو اٹھ رہی ہے، غیر آباد اور ٹوٹے پھوٹے گھروں سے ابھی بھی دھوئیں کے مرغولے بلند ہورہے تھے، لیکن یہ عجیب بات تھی کہ اہل غزہ کے چہروں پر غموں کی پرچھائیاں نہیں تھیں۔ ان کے چہرے اور لب مسکراہٹوں سے سجے ہوئے تھے، جیسے وہ موت کی گھاٹی سے نکل کر خوابوں سے سجی زندگی کی روپہلی وادی میں آگئے ہوں، پہلے سے زیادہ تازہ دم اور پہلے سے زیادہ زندہ دلی کے ساتھ۔ 

میں نے یہاں لوگوں کوسراٹھاکر چلتے ہوئے دیکھا، جیسے وہ اس سرزمین کے بادشاہ ہیں۔ میں نے دیکھا کہ خواتین درد اور تکلیف کے باوجود خوشی سے جھوم رہی ہیں اور بچے ملبے کے درمیان ایسے دوڑتے پھررہے ہیں جیسے وہ جنت کے باغوں میں ہوں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ خوشی سے مسرور ہیں۔ گویا ان پر کبھی کوئی مصیبت آئی ہی نہیں ، نہ انھیں محصور کیا گیا،نہ ان پر بمباری کی گئی اور نہ انھوں نے اپنے پیاروں اور جنت کے پھول جیسے بچوں کو کھویا ہے۔ میں نے ان کے درمیان چلتے ہوئے حیرت زدہ ہوکر ان کی آنکھوں میں دیکھا، ان میں فتح کی روشنیاں جگمگارہی تھیں۔ان کی آواز بلند اور پُرجلال تھی۔ میں نے ان کی زبانوں سے ایسا پُرکیف نغمہ سنا کہ میرا سینہ تشکر سے بھرگیا اور وجود اندر تک ہل گیا:’’ہم وہ قوم ہیں جو درمیان کی کوئی راہ نہیں جانتے،یا تو سربلند رہیں گے یا پھر شہادت کی موت مرجائیں گے‘‘۔ 

میرے قدم رُک گئے ، میں ان کے نغمات کو شوق وجستجو کے ساتھ سننے لگا۔ 

میں نے اپنے دل میں کہا: ’’اے دنیا کے بہادر ترین لوگو! سچ کہا تم نے ، واللہ! سچ کہاتم نے۔ تم نے عظمتوں کی راہ میں اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈالا۔بے شک جو جنتوں کے باغات کی تلاش میں ہوگا، انھیں یہ قیمت زیادہ نہیں معلوم ہوگی۔ تم دنیا میں سب سے بہادر قوم ہو،تمھارا مقام دنیا کے تمام لوگوں سے بلند ہے ، تم زمین پر چلنے والے ہر شخص سے زیادہ عظیم ہو۔ یہ تم ہی ہو جو خوفناک وادیوں میں بھی بے خوف وخطر کود پڑے۔ تم بھوکے پیاسے رہے یہاں تک کہ ٹینک، میزائل اور قیامت برساتی بندوقیں خون سے سیراب ہوگئیں۔ تم فاقہ کش رہے اور بھیڑیے اور گِدھ شکم سیر ہوتے رہے۔ 

تم سے کہا گیا کہ ’’ہتھیار ڈال دو یا ہجرت کرجاؤ ، یا پھر بے موت مارے جاؤگے‘‘۔ اورتم نے ڈرے اور ہچکچائے بغیر خطرات کا راستہ چُنا۔ تم عزیمت کی راہوں پر، جس میں قدم قدم پر موت گھات لگائے بیٹھی تھی، اس طرح خوشی خوشی اور ہنستے مسکراتے دوڑنے لگے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی طرف دوڑتا بھاگتا ہے۔ تمھیں یہ الزام دیا گیا کہ ’تم نے امن کے بدلے موت کو خرید لیا ہے‘، تو تم نے اس کا جواب دیا: ’خدا کی قسم! ہم نے خسارے کا سودا نہیں کیا‘۔ 

یارو! تم کیسے لوگ ہو آخر؟ تمھارے سینوں میں کیسے دل ہیں؟ واللہ ! میں نے اپنی زندگی میں ایسی قوم نہیں دیکھی، جو اپنے شہر کے کھنڈرات پر بھی فخر کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔تمھارے روح ودل زخمی ہیں مگرتم خوشی کے ترانے گارہے ہو۔تمھارے اندرون میں آنسو ٹپ ٹپ گر رہے ہیں مگر تمھارے چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ تم زخموں سے نڈھال ہو مگرتمھارے چہروں پر کامرانی کا جوش وخروش ہے۔ 

 اے غزہ کے لوگو! تم نے صرف عسکری فتح حاصل نہیں کی ہے، تم نے ناقابلِ یقین کہانی تخلیق کرڈالی ہے، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ تم نے دنیا کو بتایا ہے کہ عزت سے جینا کسے کہتے ہیں؟ اور انسانوں کو سمجھایا ہے کہ انسانیت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ 

بے شک تم انسانیت کا سرمایہ اور فخر ہو۔دنیا تمھیں یاد کرے گی جب جب بھی وہ سنجیدہ ہوگی۔ جب دنیا پر یاس وغم کے بادل چھاجائیں گے تو وہ تمھارے اجلے اور روشن کردار سے روشنی حاصل کرے گی۔ دنیا جب جب فتنوں اور آزمائشوں سے بھر جائے گی اور لوگ مضطرب اور بے حال ہوجائیں گے، تو تم ان کے لیے اس چاند کی طرح ہو گےجس کے نکلنے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے۔ تم نے دنیا کو بتادیا کہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی بلکہ اسے زور بازو سے حاصل کیا جاتا ہے۔  تم نے دکھا دیا کہ عزیمت سے خالی زندگی ذلت کی موت کی طرح ہے اور یہ کہ فتح مصائب کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے۔ 

اے غزہ کے لوگو! تمھاری ہمت وبہادری کو سلام، تم نے خش وخاشاک سے شرافت کے مینار قائم کردیے ہیں۔ تم نے بہتے زخموں سے لازوال نغمے تخلیق کرڈالے ہیں اور تم نے اپنے خونِ جگر سے ایسے قصیدے لکھ ڈالے ہیں جنھیں آسمان کی بلندیوں پر آویزاں کیا جائے گا۔  

اے غزہ کے لوگو! تمھارے صبر واستقامت کو سلام! تمھارا صبر بے مثال ہے۔ تمھاری عزیمتوں کو سلام! جو عزیمتوں سے بھی بلند تر اور ذیشان ہیں۔ 

اے غزہ کے جگرپارو! یہ تم ہی ہو جو شکست وہزیمت کے وقت ثابت قدمی اورپامردی کی زندہ علامت بن گئے اور جنھوں نے اپنے نحیف ونزار جسموں سے شرف و عزیمت کے فسانے لکھ ڈالے۔ روئے زمین پر تمھاری بہادری کی داستانیں نسل در نسل سنائی جاتی رہیں گی اور تمھارے ترانے آزاد وزندہ لوگوں کی زبانوں پر ہمیشہ اسی طرح جاری ر ہیں گے۔ کیا ہی خوب ترانہ ہے: ’’عزت سے جئے تو جی لیں گے، یا جام شہادت پی لیں گے ‘‘۔ 

 اے غزہ کے لوگو! یہ بس تمھارا ہی حوصلہ اور تمھارا ہی جگر ہے کہ تم نے ذلت وخواری کے بجائے سربلندرہنا پسند کیا ، یا پھر شہادت کی موت کی تمنا کی۔ جھکنے کے بجائے عزت نفس کے ساتھ رہنا پسند کیا اور باعزّت زندگی کو،گرچہ وہ مشکل ہو، ذلت آمیز عیش کوشی پر ترجیح دی۔ تمھیں اور تمھارے کردار کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وقت خواہ کتنا بھی طویل ہوجائے، مگر تاریخ یاد رکھے گی کہ غزہ میں ایک ایسی قوم آباد تھی، جو سر اٹھاکر جینا جانتی تھی اور جس نے یہ کرکے دکھا دیا۔ یہ تمھاری ہی شان ہے کہ تم نے ایک آواز کے ساتھ ایسا نعرہ دیا، جو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا:’’ دیکھو! ہم یہاں ہیں، ہم صرف دو ہی باتیں جانتے ہیں، عزت کی زندگی یا پھرشہادت کی موت:  

’’عزّت سے جئے تو جی لیں گے، یا جام شہادت پی لیں گے‘‘۔